Tag: نائن الیون

  • 9/11 کے مبینہ ماسٹر مائنڈ خالد شیخ سمیت 3 ملزموں کی ڈیل کی راہ ہموار

    9/11 کے مبینہ ماسٹر مائنڈ خالد شیخ سمیت 3 ملزموں کی ڈیل کی راہ ہموار

    9/11 کے مبینہ ماسٹر مائنڈ خالد شیخ سمیت 3 ملزموں کی ڈیل کی راہ ہموار ہو گئی۔

    نائن الیون حملوں کے مبینہ ماسٹر مائنڈ خالد شیخ سمیت 3 ملزموں سے ڈیل کی راہ ہموار ہو گئی ہے، یو ایس ملٹری اپیلز کورٹ نے نائن الیون کے دہشت گرد حملوں کے مبینہ ماسٹر مائنڈ خالد شیخ محمد کے ساتھ ایک پلی ڈیل برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔

    بغیر کسی مقدمے کے کئی دہائیوں سے قید خالد شیخ محمد اور دو دیگر مشتبہ ملزمان نے پینٹاگون کے پراسیکیوٹرز کے ساتھ اعتراف جرم کے بدلے ممکنہ سزائے موت سے بچنے کا معاہدہ کیا تھا۔

    امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے اگست میں پلی ڈیلز کو یہ کہہ کر منسوخ کر دیا تھا کہ اس معاملے میں ان سے مشاورت نہیں کی گئی ہے، تاہم ملٹری اپیلیٹ کورٹ نے وزیر دفاع کی اپیل مسترد کر دی۔

    نائن الیون حملوں میں تقریبا 3000 افراد ہلاک ہوئے تھے، ڈیل کی صورت میں خالد شیخ محمد سمیت تین افراد 9/11 حملوں کی سازش کرنے کا اعتراف کر کے سزائے موت سے بچ جائیں گے۔ تینوں افراد کو سزائے موت کا سامنا تھا، ٹائمز کے مطابق معاہدے کے تحت، انھوں نے عمر قید کی سزا کے بدلے جنگی جرائم کا اعتراف کرنے پر اتفاق کیا۔

    جب اس معاہدے کی خبریں سامنے آئیں تو متاثرین کے اہل خانہ اور کچھ ریپبلکنز کی جانب سے اس پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا گیا، جس پر لائیڈ آسٹن نے اگست کے اوائل میں اس معاہدے کو منسوخ کر دیا، اور اس کے بعد قانونی چارہ جوئی کا ایک اور دور شروع ہوا۔

  • سانحہ نائن الیون کی پیشگوئی کرنے والے شخص کی ایک اور ہولناک پیشگوئی

    سانحہ نائن الیون کی پیشگوئی کرنے والے شخص کی ایک اور ہولناک پیشگوئی

    سانحہ 9 الیون امریکا کی پیشگوئی کرنے والے شخص نے دنیا میں جلد ہی ایک اور غیر معمولی واقعہ رونما ہونے کی پیشگوئی کر دی ہے۔

    11 ستمبر 2001 کو امریکا میں ٹوئن ٹاور پر حملوں نے دنیا کو بدل کر رکھ دیا۔ اس عالمی سانحے کی ڈیرل انکا نے پیشگوئی کی تھی اور اب انہوں نے جلد ہی دنیا میں ایک اور غیر معمولی واقعہ رونماہونے کی پیشگوئی کر دی ہے۔

    ڈیرل انکا جو پیشے کے لحاظ سے ایک مصنف ہیں لیکن ساتھ ہی وہ روحانیت کے شعبے سے بھی وابستہ ہیں اور انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ دنیا میں انسانوں کے علاوہ خلائی مخلوق بھی موجود ہے جو آئندہ دو سالوں میں منظر عام پر آ جائے گی۔

    ناسا کی یو ایف او رپورٹ: خلائی مخلوق کی موجودگی سے متعلق امریکی تحقیق سے  ہمیں کیا معلوم ہوا؟ - BBC News اردو

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق ڈیرل نے یہ دعویٰ طویل مراقبہ کے بعد اس بات کی تہہ تک پہنچنے پر کیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ دوسرے سیاروں پر رہنے والے انسانوں سے رابطہ قائم کرنے کے لیے آئیں گے اور یہ ثابت کریں گے کہ کائنات میں انسان تنہا نہیں ہے۔

    اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی بتایا کہ 2026 کے آخر یا 2027 کے اوائل تک کچھ ایسا بڑا ہوگا، جس سے لوگوں کو یہ سمجھنے میں مدد ملے گی کہ ہم کائنات میں تنہا نہیں ہیں۔

    ڈیرل انکا نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ خلائی مخلوق ہمارے سیارے (زمین) کو نقصان نہیں پہنچائے گی، بلکہ یہ اس مصیبت زدہ سیارے کو ٹھیک کرنے کی کوششیں کرے گی۔

    واضح رہے کہ خلائی مخلوق کا تصویر قدیم ہے۔ دنیا بھر میں فلموں، ڈراموں میں خلائی مخلوق کو موضوع بنایا جاتا رہا ہے جب کہ لوگوں کی بڑی تعداد اس بات پر یقین بھی رکھتے ہیں کہ خلائی مخلوق کا وجود خیالی نہیں بلکہ حقیقت پر مبنی ہے۔

    دوسری جانب مختلف ممالک میں آئے دن خلائی مخلوق کے حوالے سے دعوے بھی سامنے آتے رہتے ہیں، تاہم اب تک کسی مستند طریقے سے خلائی مخلوق کی موجودگی کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔

  • سانحہ نائن الیون کو آج 23 برس مکمل ہوگئے

    سانحہ نائن الیون کو آج 23 برس مکمل ہوگئے

    نیویارک: سانحہ نائن الیون کو آج 23 برس مکمل ہوگئے، نیو یارک کا ٹوئن ٹاور راکھ کا ڈھیر بنا لیکن اس واقعے نے دُنیا میں کئی حکومتیں تاراج کردیں، ان برسوں میں دنیا بالکل بدل گئی۔

    ستمبر 11، 2001 ایک ایسا دن تھا کہ جب امریکا میں موجود دنیا کی بلند ترین عمارت سیاغوا کئے گئے دو طیارے ٹکرادئیے گئے جس کے سبب تین ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔

    گیارہ ستمبر دوہزار ایک کا یہ منظر کروڑوں لوگوں نے دیکھا اور اس کے بعد دنیا کی بدلتی صورتحال بھی سب کے سامنے تھی، پندرہ سال پہلے نیوراک کی فضا میں تین جہاز قہر بن کر داخل ہوئے۔

    دو جہاز ٹوئن ٹاور سے ٹکرائے اور سو منزلہ عمارت کو ملبے کا ڈھیر بنا گئے، تیسرا جہاز پنٹاگون کے قریب مار گرایا گیا واقعے میں تین ہزار امریکی شہری ہلاک ہوئے۔

    اس انسانیت سوز سانحے میں تین ہزارامریکی اور غیر ملکی باشندے مارے گئے جبکہ چھ ہزار سے زائد افراد زخمی ہوئے اورمالی نقصان کا تخمینہ دس ارب ڈالر لگایا گیا، واقعے پر اس وقت کے صدر جارج واکر بُش نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا اعلان کیا اور اُسامہ بن لادن کو پکڑنے کے لیے افغانستان پر حملہ کردیا۔

    جس کے بعد پوری دُنیا کی بدلتی حالت سب نے دیکھی امریکہ نے افغانستان کے بعد عراق پر حملہ کیا اور پھر یکے بعد دیگرے پوری دُنیا ہی اس آگ کی لپیٹ میں آگئی۔ آج امریکی نائن الیون کے واقعے میں زندگی ہارنے والے پیاروں کی یاد میں نائن الیون کی یادگار پر جمع ہوئے اور انہیں یاد کیا۔

    ٹرمپ اور کملا ہیرس کے درمیان پہلے مباحثے میں ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ

    سانحہ نائن الیون کی وجہ سے دنیا بھر میں وار آن ٹیرر کی عالمی مہم شروع کی گئی جس میں اب تک لاکھوں افراد اپنی قیمتی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔

  • نائن الیون کے ماسٹر مائنڈ خالد شیخ کے ساتھ سزائے موت سے بچنے کا معاہدہ منسوخ کر دیا گیا

    نائن الیون کے ماسٹر مائنڈ خالد شیخ کے ساتھ سزائے موت سے بچنے کا معاہدہ منسوخ کر دیا گیا

    واشنگٹن: نائن الیون کے ماسٹر مائنڈ خالد شیخ محمد کے ساتھ سزائے موت سے بچنے کا معاہدہ منسوخ کر دیا گیا۔

    اے پی کے مطابق امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے جمعہ کو نائن الیون کے ماسٹر مائنڈ خالد شیخ محمد اور دو دیگر مدعا علیہان کے ساتھ ہونے والا معاہدہ منسوخ کر دیا ہے، اس معاہدے کے تحت خالد شیخ محمد کو اعتراف جرم کے بدلے سزائے موت نہیں دی جانی تھی۔

    لائیڈ آسٹن نے میمورنڈم میں کہا کہ ملزم کے ساتھ مقدمے سے قبل معاہدے کرنے کے فیصلے کی ذمہ داری میری ہے، میں ان 3 معاہدوں کو منسوخ کرتا ہوں۔

    نائن الیون کے ملزمان کے ساتھ یہ سمجھوتا رواں ہفتے کے اوائل میں طے پا گیا تھا، معاہدہ ختم ہونے کے بعد اب سزائے موت کے مقدمات کے طور پر یہ کیس بحال ہو گیا ہے۔

    امریکی میڈیا کا کہنا ہے کہ ابھی دو دن قبل ہی کیوبا کے گوانتاناموبے کے فوجی کمیشن نے اعلان کیا تھا کہ جنگی عدالت کی نگرانی کے لیے تعینات اہلکار ریٹائرڈ بریگیڈیئر جنرل سوسن ایسکلیئر نے خالد شیخ محمد اور حملوں میں ملوث 2 دیگر ملزم ساتھیوں ولید بن عطش اور مصطفیٰ الحوساوی کے ساتھ ڈیل کی درخواست منظور کر لی ہے۔

    اس سلسلے میں القاعدہ کے حملوں میں ہلاک ہونے والے تقریباً 3000 افراد کے اہل خانہ کو بھیجے گئے خطوط میں کہا گیا کہ ڈیل میں یہ شرط رکھی گئی ہے کہ تینوں کو عمر قید کی زیادہ سے زیادہ سزا دی جائے گی۔

    تاہم لائیڈ آسٹن نے جمعہ کی رات جاری کردہ ایک آرڈر میں لکھا کہ اس فیصلے کی اہمیت کی روشنی میں انھوں نے فیصلہ کیا ہے کہ چوں کہ اس طرح کی ڈیل قبول کرنے کا اختیار ان کے پاس ہے، اس لیے وہ سوسن ایسکلیئر کی منظوری کو منسوخ کر رہے ہیں۔

    وائٹ ہاؤس نے اعلان کیا تھا کہ اسے اس ڈیل کا کوئی علم نہیں ہے، تاہم ریپبلیکنز نے بائیڈن انتظامیہ کو قصوروار ٹھہرایا، جب کہ نائن الیون کے حملوں کے متاثرین کے کچھ خاندانوں نے بھی سزائے موت کے امکان کو ختم کرنے والے اس معاہدے کی مذمت کی۔

    واضح رہے کہ نائن الیون کے ملزمان کے خلاف کیسز کئی برسوں سے، مقدمے سے پہلے کے قانونی معاملات میں الجھے ہوئے ہیں، جب کہ ملزم کیوبا میں گوانتانامو بے کے فوجی اڈے میں قید ہیں۔

    یہ 11 ستمبر 2001 کی ایک تباہ کن صبح تھی جب القاعدہ کے 19 ارکان نے 4 ڈومیسٹک پروازیں ہائی جیک کیں، جن میں سے مسافروں سے بھرے 2 طیارے نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر سے ٹکرا دیے گئے، ایک طیارہ واشنگٹن سے باہر پینٹاگون کی عمارت پر گرایا گیا، اور چوتھا طیارہ مسافروں کے ہائی جیکرز کے ساتھ مقابلے کے بعد پنسلوینیا کے ایک کھیت میں گر کر تباہ ہو گیا۔

    ان حملوں کے نتیجے میں اس دن تقریباً 3000 افراد مارے گئے، اور ہزاروں دیگر زخمی ہوئے، فوری رد عمل ظاہر کرتے ہوئے اُس وقت کے صدر جارج ڈبلیو بش نے ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کے نام سے ایک خوں ریز سلسلہ شروع کر دیا، اور افغانستان اور عراق پر امریکی فوجی حملوں اور مشرق وسطیٰ میں دیگر جگہوں پر مسلح گروہوں کے خلاف امریکی کارروائیوں میں ہزاروں بے گناہ شہری لقمہ اجل بنے۔

    حملوں کی شام ہی سینٹرل انٹیلیجنس ایجنسی (سی آئی اے) نے صدر جارج ڈبلیو بش کو مطلع کیا کہ کاؤنٹر ٹیررزم سینٹر نے نشان دہی کر لی ہے کہ ان حملوں کے پیچھے اسامہ بن لادن کا ہاتھ تھا۔ بن لادن نے 2004 تک ان حملوں میں ملوث ہونے سے انکار کیا، تاہم پھر ایک ٹیپ جاری کرتے ہوئے حملوں کی ذمہ داری قبول کر لی۔ امریکا نے افغانستان میں طالبان حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ القاعدہ اور اس کے رہنماؤں کو ملک بدر کرے لیکن طالبان نے انکار کر دیا، جس پر امریکا نے طالبان کو معزول کرنے کے لیے افغانستان پر حملہ کر دیا۔

  • ’ہار نہیں مانیں گے‘

    ’ہار نہیں مانیں گے‘

    واشنگٹن: امریکی صدر جو بائیڈن نے دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق نائن الیون کی یادگاری تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جو بائیڈن نے دہشت گردی کے خطرات کے سامنے ہار نہ مانے کے عزم کا اظہار کیا۔

    روئٹرز کے مطابق امریکی صدر جو بائیڈن نے القاعدہ کے 11 ستمبر 2001 کے حملوں کے خلاف امریکا کے متحدہ رد عمل کی یاد تازہ کی، اور اتوار کو پینٹاگون میں ایک یادگاری تقریب میں دہشت گردی کے خطرات کے سامنے ’’بھی ہمت نہ ہارنے‘‘ کا عزم کیا۔

    جو بائیڈن نے کہا کہ تاریک دنوں میں امریکیوں نے بے مثال یک جہتی کا مظاہرہ کیا، ہم نائن الیون کو کبھی نہیں بھولیں گے اور نہ ہی دہشت گردی کے خطرات کے سامنے ہار مانیں گے۔

    روئٹرز کے مطابق نائن الیون حملوں کی اکیسویں برسی کے موقع پر بائیڈن کا یہ بیان امریکی معاشرے میں خطرناک تقسیم کے خطرے کے حوالے سے ان کی حالیہ دنوں کی تنبیہات کے برعکس ہے۔

    امریکی معاشرے میں تقسیم کے خدشات کا اظہار کرنے والے بائیڈن نے کہا کہ مجھے امید ہے کہ ان تاریک دنوں کے کُہرے میں ہم یہ بات یاد رکھیں گے کہ ہم نے ایک دوسرے کا خیال رکھنے کے لیے کتنی سخت جدوجہد کی، اور ہم ایک ساتھ کھڑے رہے۔

    یاد رہے کہ نائن الیون حملوں میں تقریباً 3 ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے، القاعدہ کے ہائی جیکرز نے نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے ٹاورز اور ورجینیا کے آرلنگٹن میں پینٹاگون میں طیارے تباہ کیے، اور چوتھا طیارہ پنسلوانیا میں گر کر تباہ ہو گیا تھا۔

  • نائن الیون کی خفیہ دستاویزات سامنے لانے کا مطالبہ کیوں کیا جا رہا ہے؟

    نائن الیون کی خفیہ دستاویزات سامنے لانے کا مطالبہ کیوں کیا جا رہا ہے؟

    واشنگٹن: امریکی صدر سے نائن الیون کی خفیہ دستاویزات سامنے لانے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق 11 ستمبر کے ہلاک شدگان کے اہلِ خانہ نے خفیہ دستاویزات منظر عام پر لانے کا مطالبہ کر دیا ہے، ان کا امریکی صدر سے کہنا ہے کہ جو بائیڈن ان حملوں سے متعلق حکومت کی جمع کردہ خفیہ دستاویزات اور ثبوت کو منظر عام پر لائیں۔

    اس سلسلے میں صدر بائیڈن کو ایک خط بھیجا گیا ہے، جس میں نائن الیون سانحے کے ہلاک شدگان کے لواحقین نے کہا کہ اگر صدر بائیڈن نے ایسا نہ کیا تو انھیں رواں سال کی یادگاری تقریبات میں خوش آمدید نہیں کہا جائے گا۔

    لواحقین کا کہنا ہے کہ 20 برس قبل ہونے والے دہشت گرد حملوں میں سعودی عرب کی حکومت کے عہدے دار اور ساتھی ملوث ہو سکتے ہیں، کیوں کہ ان حملوں کے منصوبہ ساز اسامہ بن لادن اور بیش تر حملہ آوروں کا تعلق سعودی عرب سے تھا۔

    خیال رہے کہ سابق امریکی حکومتوں نے قومی سلامتی خدشات کا دعویٰ کرتے ہوئے تحقیقات کی دستاویزات اور ثبوت ظاہر نہیں کیے تھے، جب کہ بائیڈن نے گزشتہ موسم خزاں میں اپنی انتخابی مہم کے دوران دستاویزات کو منظر عام پر لانے کا عندیہ دیا تھا۔

    امریکی میڈیا کے مطابق صدر بائیڈن کو جمعہ کے روز بھیجے گئے خط پر خاندانوں کے تقریباً 1800 ارکان اور دیگر نے دستخط کیے ہیں۔

  • گانٹھ

    گانٹھ

    عَصبی ریشوں کے وسط میں کچھ اضافی گانٹھیں پڑ گئیں۔

    یا پھر پہلے سے پڑی گِرہیں ڈھیلی ہو گئی تھیں کہ اضمحلال اُس پر چڑھ دوڑا تھا۔ بدن ٹوٹنے اور دِل ڈوبنے کا مستقل احساس ایسا تھا کہ ٹلتا ہی نہ تھا۔

    کوئی بھی معالج جب خود ایسی کیفیت سے دوچار ہوتا ہے‘تو یہی مناسب خیال کرتا ہے کہ وہ سیکنڈ اوپینین لے لے۔ ڈاکٹر توصیف کو بھی اس کی ضرورت محسوس ہوئی تھی، مگر وہ اسے ٹالتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ وہ خود سے مسلسل الجھنے اور لڑنے بِھڑنے لگا اور اُن لمحوں کو کوسنے لگا تھا جب وہ اس ملک سے اپنے شعبے میں اسپیشیلائزیشن کے لیے گیا تھا۔

    اِنہی لمحات میں وہ لمحات بھی خلط ملط ہو گئے تھے، جب اُسے ایک انوسٹی گیشن سینٹر سے نکال کر ڈی پورٹ کر دیا گیا تھا، اُس پر شبہ کیا گیا تھا، مگرکیوں؟؟ آخر کیوں؟؟؟….وہ جتنا سوچتا ‘اُتنا ہی اُلجھے جاتا۔
    ممکن ہے ایک ایشیائی ہونا اس کا سبب ہو۔ نہیں ‘شاید ایک پاکستانی ہونا۔ یا پھر ہو سکتا ہے مسلمان ہونا ہی شک کی بنیاد بن گیا ہو۔

    مگر؟….مگر؟ اور یہ ’مگر‘ ایسا تھا کہ اس کا سینہ جھنجھنانے لگا تھا۔ وہ اُٹھا اور آئینے میں اپنا چہرہ غور سے دیکھنے لگا۔ اُس کی صورت میں ایسے شک کے لیے کیا کوئی پرانی لکیر باقی رہ گئی تھی۔ پلک جھپکنے کے مختصر ترین وقفے میں طنز کا کوندا آئینے کی شفاف سطح سے پھسل کر معدوم ہو گیا۔

    اُس نے نگاہ سامنے جمائے رکھی۔ چہرے کی لکیروں ‘ابھاروں اور ڈھلوانوں پر تن جانے والے تناﺅ کا جالا پورے آئینے سے جھلک دینے لگا تھا۔ وہ گھبرا کر اُس تصویر کے سامنے جا کھڑا ہوا ‘جو اُس نے اِنٹر کا امتحان دے چُکنے کے بعد فراغت کے ایسے لمحات میں بنائی تھی جب مصوری کا جنوں اُس کے سَر میں سمایا ہوا تھا۔ یہ اُس کی اپنی تصویر تھی ‘جو ادھوری رِہ گئی تھی۔

    کچے پن کی چغلی کھانے والی اِس ادھوری تصویر میں کیا کشش ہو سکتی تھی کہ اسے ابھی تک سنبھال کر رکھا گیا تھا۔ اُس نے غور سے دیکھا۔ شاید ‘بل کہ یقیناً کوئی خوبی بھی ایسی نہ تھی کہ اُس تصویر کو یوں سنبھال کر رکھا جاتا۔ اُسے یاد آیا ‘جب وہ یہ تصویر بنا رہا تھا تو اُس نے اَپنے باپ سے کہا تھا؛ کاش کبھی وہ دُنیا کی حسین ترین تصویر بنا پائے۔ اُس کے باپ نے اُس کی سمت محبت سے دیکھ کر کہا تھا:
    ”تم بنا رہے ہو نا‘ اِس لیے میرے نزدیک تو یہی دُنیا کی خوب صورت ترین تصویر ہے“

    وہ ہنس دیا تھا ‘تصویر دیکھ کر اور وہ جملہ سن کر۔

    یہ جو اپنے اپنائیت میں فیصلے کرتے ہیں ‘اُن کی منطق محبت کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتی۔
    تصویر نامکمل رہ گئی کہ اُس کا دِل اُوب گیا تھا۔ تاہم اُس کے باپ کو اپنا کہا یاد رہا تھا۔ اس نے اِس ادھوری تصویر کو اس دیوار پر سجا دیا تھا۔ بہن نے اسے یوں رہنے دیا ہوگا کہ اُس کے مرحوم باپ نے یہاں اپنے ہاتھوں سے سجائی تھی۔

    یہ سوچ کر ذرا سا وہ مسکرایا اور وہاں سے ہٹنا چاہا کہ نظر آنکھوں پر ٹھہر گئی۔ واٹر کلر سے بنائی گئی اس تصویر میں اگرچہ دائیں آنکھ کے نیچے ہاتھ لرز جانے کے باعث براﺅن رنگ میں ڈوبا برش کچھ زیادہ ہی دَب کر بنانے والے کے اَناڑی ہونے کی چغلی کھا رہا تھا۔ مگر مدہم آبی رنگوں میں تیرتی معصومیت نے آنکھوں میں عجب طلسم بھر دیا تھا۔ ایسا کہ نظر ہٹانے کو جی نہ چاہتا تھا۔ تصویر ادھوری تھی۔ چہرے میں رنگ بھرتے بھرتے چھوڑ دیے گئے تھے۔ یہ اَدھورا پن اُس کے اندر اتر گیا۔ اُس کے اعصاب تن گئے اور وہ اُوندھے منھ بستر پر جا پڑا۔
    ”کیوں؟….آخر کیوں؟؟“

    ایک ہی تکرار سے اُس کا سینہ کناروں تک بھر گیا۔ اُس نے اَپنے جسم کو دو تین بار دائیں بائیں لڑھکا کر جھٹکے دیے۔ قدرے سانسوں کی آمدورفت میں سہولت محسوس ہوئی تو ایک بڑا سا ’ہونہہ‘ اُس کے ہونٹوں سے پھسل پڑا۔ یوں ‘جیسے اُس کے تیرتے ڈوبتے بدن کو کسی نے لمحہ بھر کے لیے تھام سا لیا ہو۔

    تھامنے والے ہاتھ گوگول کے تھے۔ گوگول کے نہیں ‘ اُس تصویر کے ‘جو گوگول کے ہاں پہلے مرحلے میں نامکمل رہ گئی تھی۔

    شیطانی آنکھوں والی اَدھوری تصویر۔ مگر یہ بھی وہ تصویر نہ تھی جس نے اُسے تھاما تھا کہ اس کا چہرہ تو معصومیت لیے ہوئے تھا۔ فرشتوں جیسا ملائم اور اُجلا۔

    یہ اِسی تصویر کا دوسرا مرحلہ تھا جب کہ وہ مکمل ہو گئی تھی۔
    تصور ایک جگہ ٹھہر گیا تو اُسے گوگول کے افسانے کا وہ پادری یاد آیا جس نے سب کا دھیان شیطانی تاثرات والی آنکھوں کی جانب موڑ دیا تھا۔ اُسے اُبکائی آنے لگی تو اُس نے اپنے دھیان سے اُس تصویر کو بھی کھرچ دیا ‘اور کالج کا وہ دور یاد کرنے لگا جب ترقی پسندی اُس کے خلیے خلیے سے خوش بُو بن کر ٹپکنے لگی تھی۔

    تب ایک نئی تصویر تھی جو بن رہی تھی۔
    ابھی یہ تصویر نامکمل تھی کہ اُس پر انسان دوستی اور روشن خیالی کے زاویوں سے کرنیں پڑنے لگیں۔ روشن خیالی کی للک میں سب کچھ روند کر آگے بڑھنے والوں کے ساتھ اُٹھنے بیٹھنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ جلد ہی مذہبی فرائض کی بجا آوری کو قیمتی وقت کے ناحق تلف کرنے کے مترادف سمجھنے لگا تھا۔ اُس کا خیال تھا؛ ان فرائض میں صرف ہونے والا وقت کسی بھی انسان کو تسکین پہنچا کر اَمر بنایا جایا سکتا تھا۔

    اس کے لیے مذہبی طرزِ احساس فقط رَجعت پسندی‘جہالت اور ذِہنی پس ماندگی کا شاخسانہ تھا۔ لہذا وہ مذہب اور اس کے متعلقات کو ایک لایعنی گورکھ دھندا یا پھر افیون قرار دیتا اور خود کو ہمیشہ اس سے دُور رکھا۔ اپنے شعبے سے کامل وابستگی نے اُسے عجب طرح کا دلی سکون عطا کیا تھا۔ اور وہ اس سے نہال تھا۔ یہی سبب ہے کہ وہ جس شہر میں نام ‘مَقام اور سکونِ قلب کا سرمایہ کما چکا تھا اور مسلسل کما رہا تھا اُسی کا مستقل باسی ہو گیا تھا۔ ایک پس ماندہ ملک کے بے وسیلہ ‘ غیر مہذب اور جاہل لوگوں کے بے ہنگم اور بے اصول معاشرے میں رہنے سے بدرجہا مناسب اُسے یہ لگا کہ وہ یہیں انسانیت کی خدمت میں جُتا رہے۔

    وہ اپنے آپ کو بھول بھال کر اِس خدمت میں مگن بھی رہا، مگر ایک روز یوں ہوا کہ وہ شہر دھماکوں سے گونج اُٹھا اور سب کچھ اُتھل پتھل ہو گیا۔

    جب وہ حادثے میں اعصابی جنگ ہارنے والوں کو زندگی کی طرف لا رہا تھا ‘اُسے سماجی خدمت جان کر‘کسی معاوضے اور صلے سے بے نیاز ہوکر‘ تو اُسے اس خلیج کی موجودگی کا احساس ہوگیا تھا جسے بہت سال پہلے پاٹنے کے لیے اس نے اپنے وجود سے وابستہ آخری نشانی ‘اپنے نام’ توصیف ‘کو بدل کر ’طاﺅژ‘ ہو جانا بہ خُوشی قبول کر لیا تھا۔

    اُنہی دِنوں ڈاکٹر طاﺅژ کی ملاقات کیتھرائن سے ہوئی تھی جو اپنے پہلے شوہر کے چھوڑ کر چلے جانے کے باعث شدید نفسیاتی دباﺅ سے گزر رہی تھی۔ اس نہایت روشن خیال اور سلجھی ہوئی خاتون نے ایک روز اُسے پروپوز کر دیا۔ وہ اپنے طور پر اس قدر مگن تھا کہ اس رشتے کو بھی اضافی سمجھتا رہا تھا۔ کچھ اچھی لڑکیاں اس کی زندگی میں آئی ضرور تھیں مگر اتنی دیر کے لیے ‘جتنی کہ دونوں میں سے کسی ایک کو ضرورت ہو سکتی تھی۔ لہذا جب ضرورت پوری ہورہی تھی تو شادی کے پاکھنڈ کا کیا جواز ہو سکتا تھا۔

    مگر عجب یہ ہوا کہ کیتھرائن کی پروپوزل کو اس نے بلاجواز قبول کر لیا تھا۔
    کسی کو چاہنے لگنا اور کسی سے دور ہو جانا عجب طرح کے فیصلے ہوتے ہیں۔ عین آغاز میں دلیلیں نہیں مانگتے‘ فیصلے مانگتے ہیں۔ فیصلہ ہو جائے تو سو طرح کی دلیلیں نہ جانے کہاں سے آ کر دَست بستہ سامنے آ کھڑی ہوتی ہیں۔

    فیصلہ ہوا تو شادی بھی ہو گئی۔ پھر اُن کے ہاں اوپر تلے دو بیٹے ہوئے۔ دونوں ہو بہو اپنی مام جیسے تھے۔ راجر اور ڈیوڈ۔ دونوں کے نام کیتھی نے رَکھے۔ کیتھرائن کو وہ پہلے روز ہی سے کیتھی کہنے لگا تھا کہ اُس کی صورت ہالی ووڈ کی دِلوں میں بس جانے والی اداکارہ کیتھرائن ہیپبرن سے بہت ملتی تھی اور سب اُس خوب صورت فن کارہ کو کیتھی کہتے تھے۔

    وہ مکمل طور پر اُس سوسائٹی کا حصہ ہو کر مطمئن ہو گیا تھا۔ اس قدر مطمئن کہ حادثے کے بعد بھی ناموافق ردِعمل کے باوصف وہ اس فریضے کو اِنسانیت کی خدمت کا تقاضا سمجھ کر ادا کرتا رہا۔ حتّٰی کہ خفیہ والوں نے اُسے دھر لیا۔

    کئی روز تک اُس سے پوچھا پاچھی ہوتی رہی۔ پھر وقفے پڑنے لگے۔ طویل وقفے۔ اِتنے طویل کہ اُسے یقین ہو چلا تھا کہ اُسے فالتو کاٹھ کباڑ جان کر اس سیل میں پھینک دینے کے بعد وہ سب بھول گئے تھے۔ نہ صرف اُسے اس سیل میں پھینکنے والے بھول چکے تھے‘ کیتھی‘راجراور ڈیوڈ کو بھی وہ یاد نہ رہا تھا۔ پھر یوں ہوا کہ وہ سب اچانک یوں آ گئے‘ جیسے بھولی ہوئی کوئی یاد آیا کرتی ہے۔

    پہلے اُسے یہ بتانے والے آئے کہ اگلے چار روز میں کسی بھی وقت اُسے اُس کے اپنے وطن کے لیے ڈی پورٹ کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے اپنے لہجے کو قطعاً مہذب نہیں کیا تھا جیسا کہ امریکن اکثر کر لیا کرتے ہیں۔ اُس نے انگریزی کے اس مختصر مگر کھردرے جملے سے ’اَون کنٹری ‘کے الفاظ چن کر اُنہیں غرارہ کیے جانے سے ملتی جلتی آواز کے ساتھ دہرایا۔

    ایک تلخ سی لہر اس کے پورے وجود میں دوڑ گئی جس کے باعث اُس کے عصبی رِیشوں کی گانٹھوں کی تانت بڑھ گئی اور اسے پژمردگی رگیدنے لگی۔

    جب وہ پوری طرح نڈھال ہو چکا تو کیتھی‘راجراور ڈیوڈ آگئے۔ وہ آتے ہی اُسے ایک ٹک دیکھتی رہی۔ پھر اُسے یوں لگا جیسے وہ کچھ کہنا چاہتی تھی اور کَہہ نہیں پا رہی تھی۔ جب وہ کچھ کہے بغیر ایک فیصلہ کرکے چپ چاپ بیٹھ گئی تو سناٹا سارے میں گونجنے لگا۔ وہ بچوں کی طرف متوجہ ہوا۔ بچے کبھی اُس کے قریب نہیں رہے تھے۔ اُس کا خیال تھا ‘ایسا اس کی مصروفیات کے سبب تھا۔ تاہم اب جووہ منھ موڑے کھڑے تھے تو یوں کہ صدیوں کا فاصلہ پوری شدّت سے محسوس ہونے لگا تھا۔ صاف پتہ چل رہا تھا کہ وہ خود نہ آئے تھے ‘اُنہیں لایا گیا تھا۔ اُنہوں نے ایک لمحے کے لیے بھی اپنے اندر سے باہر چھلکتی اُکتاہٹ نہیں چھپائی تھی۔ اُنہیں دیکھتے ہی اُس نے افسوس کے ساتھ سوچا تھا؛ کاش کیتھی انہیں نہ لاتی۔

    اور جب ملاقات کا وقت ختم ہو گیا تو وہ اسی دُکھ کی شدّت کے ساتھ یہ بھی سوچ رہا تھا؛ کاش کیتھی کبھی نہ آتی۔ نہ دیکھنے کی خواہش کے ساتھ وہ جب آخری بار اُسے دیکھ رہی تھی تو وہ کیتھی کے یوں چلے آنے کا مدعا سمجھ چکا تھا۔

    اُن کا فیملی لائر کچھ پیپرز اگلے روز شام تک بنا لایا۔ وہ چاہتا تھا کہ ڈِی پورٹ ہونے سے پہلے پہلے وہ اُن پر دَست خط کر دے۔ اُس نے ساری بات توجہ سے سنی۔ شاید وہ دست خط کر ہی دیتا کہ اس پر ذہنی دَباﺅ کا شدید دورہ پڑا۔ اس قدر شدید کہ وہ لائر پر برس پڑا۔ جب وہ چلا گیا تو اُسے خیال آیا کہ سارے پیپرز چاک کر کے اُس کے منھ پر دے مارتا تو اُس کے اَندر کا اُبلتا غصہ کچھ مدھم پڑ سکتا تھا۔ اس نے اگلی ملاقات پر ایسا ہی کرنے کے لیے سارے پیپرز سنبھال کر رَکھ لیے۔ لیکن اس کے بعد اسے ملنے کوئی نہ آیا۔ یہاں تک کہ اسے ایئرپورٹ لے جایا گیا۔ جہاز میں سوار ہوتے ہوئے اس پر کھلا کہ ایک سو پچیس دوسرے پاکستانی بھی ڈی پورٹ کیے جارہے تھے۔

    دُنیا بھر کے میڈیا والے سب کی تصویریں اور ٹیلی رپورٹس بنارہے تھے۔ وہ سب مجرم ثابت نہیں ہوئے تھے، مگر اُنہیں امریکہ سے نکالا جا رہا تھا۔ یوں‘ کہ جیسے وہی مجرم تھے۔ ساری رپورٹس براہ راست چلائی گئیں۔ اخبارات کی زینت بنیں۔ ٹیلی ویژن کے مختلف چینلز انہیں کئی روز تک وقفے وقفے سے چلاتے رہے کہ یہ ساری کارروائی دہشت گردی کے خلاف عالمی سطح پر مہم جوئی کا حصہ تھی۔

    وہ یہ سارا تماشا نہ دیکھ سکا کہ اُسے ائیر پورٹ ہی سے سر کار نے حفاظت میں لے لیا تھا۔ ایک بار پھر بے ہودہ سوالات کا ناقابل برداشت سلسلہ شروع ہوا تو ختم ہونے ہی میں نہ آتا تھا۔ یہاں والے اُن سوالات میں زیادہ دِل چسپی رکھتے تھے جو دورانِ تفتیش وہاں پوچھے جاتے رہے تھے۔ اُس نے اُنہیں صاف صاف بتا دیا کہ انہیں علی شامی نامی ایک ایسے عربی النسل شخص میں دِل چسپی تھی جو اُس کے وہاں قیام کے آغاز کے عرصے میں جیمس بلڈنگ کے اُس فلیٹ میں رہتا تھا جس کا دروازہ عین اس کے فلیٹ کے سامنے تھا۔

    علی شامی بعد ازاں سکونت بدل گیا تھا۔ اُس کا طرزِ عمل اُسے کبھی گوارا نہ لگا تھا کہ اُس کے اندر عجب طرح کی تنگ نظری ہلکورے لیتی رہتی تھی۔ پھر یہ کہ وہ اکثر اس کے نام کے توصیف سے طاﺅژ ہو جانے پر شدید طنز کیا کرتا تھا۔ بقول اُس کے وہ ہوپ لیس کیس تھا۔ جب کہ اسے علی شامی کا یوں طنز کیے چلے جانا بہت کَھلتا تھا۔ لہذا ابھی وہ کہیں اور شفٹ نہیں ہوا تھا کہ وہ دونوں ممکنہ حد تک دُور ہو چکے تھے۔

    بعد میں رابطے کی ضرورت تھی نہ کوئی صورت نکلی۔ جب وہ اُسے تیز روشنیوں کے سامنے بٹھا کر مسلسل جگائے رکھنے پر بھی اِس سے زیادہ کچھ نہ اُگلوا پائے تو انہوں نے سوالات روک دیے تھے، مگر تذلیل کا سلسلہ ایسا تھا کہ رُکتا ہی نہیں تھا۔ تاہم اُدھر جو ختم ہوگیا تھا تو یہ اِدھر بھی آخر کار انجام کو پہنچا۔

    جب یہ تکلیف دِہ سلسلہ تمام ہوا اور اسے جانے کی اجازت مل گئی تو وہ خلوص نیت سے چاہنے لگا تھا کہ کاش یہ سلسلہ یونہی دراز ہوئے چلا جاتا۔ ذلیل ہوتے رہنے کی عجب خواہش اب معمول کی زندگی میں رکاوٹ بن رہی تھی۔ یہاں معمول کی زندگی تھی بھی کہاں؟ اس کے یتیم بھانجوں کا کہنا تھا کہ جب ہر طرف بھوک بے روز گاری اور جہالت ننگا ناچ رہی ہو تو وہاں جیو اور جینے دو کی تمنا سے دہشت اُگ ہی آیا کرتی ہے۔

    اَپنی بیوہ اکلوتی بہن کے ہاں پڑے پڑے اُسے ایک ماہ ہو گیا تو اس نے اَپنی بنائی ہوئی نامکمل تصویر کی آبی آنکھوں میں تیرتی معصومیت دیکھی جن پر گوگول کے افسانے کی تصویر کی شیطانی آنکھیں حاوی ہو گئیں تھیں۔ اس قدر حاوی کہ فرشتوں جیسا معصوم چہرہ کہیں تحلیل ہو چکا تھا۔ اُس نے ان دونوں تصویروں کا خیال جھٹک دیا تو ایک تیسری تصویر خود بخود اُس کے تصور میں اُبھرنے لگی۔ آسکر وائلڈ کے ڈورئن گرے کی وہ تصویر جو اس نے ایسے کمرے میں رَکھ دی تھی جو مقفل تھا۔ عجب تصویر تھی کہ ڈورئن کی ساری خباثتوں کو کشید کر کے خود مکروہ ہو رہی تھی، مگر ڈورئن کو ویسے ہی جواں اور خوب صورت رکھے ہوئے تھی جیسا کہ مصور ہال ورڈ نے تصویر بناتے ہوئے اُسے دیکھا تھا۔ اس تصویر کو سوچتے ہی ساری گرہیں کُھل گئیں۔

    اُس روز پہلی بار اُس نے اپنے بھانجوں کو غور سے دیکھا تھا جو ابھی ابھی نماز پڑھ کر پلٹے تھے۔ پھر وہ دِیر تک اُنہیں آنکھیں چوپٹ کیے خالی دِیدوں سے دیکھتا رہا۔ حتّٰی کہ اُس کی نظریں دُور خلا میں کٹی پتنگ کی طرح ڈولنے لگیں۔ اُس کی بہن نے اُس کے چہرے پر کم ہوتے تناﺅ کو غنیمت جانا اور اُس کے سر کے بالوں میں اُنگلیاں پھیرتے ہوئے وہ بات کہہ دینا چاہی جو پہلے روز ہی وہ کہہ دینا چاہتی تھی، مگر مناسب وقت تک اُسے ٹالنے پر مجبور ہوتی رہی تھی۔ اپنی آواز کو دھیما رکھتے ہوئے اور رُک رُک کر اُس نے پوچھا:
    ”توصیف بھائی ‘ایک بات کہوں؟“
    بہن کے ملائم لہجے نے اُس کے دِل میں گداز بھر دیا تھا۔ اُس نے بہن کو دیکھا ‘محبت کی عجب پھوار تھی کہ اُس کا چہرہ کِھلے گلاب کی طرح مہکنے لگا تھا۔ کہا:
    ”کہو’’……….اور اُس نے ایک ہی سانس میں کہہ دیا۔

    ”بھائی، اَب بھابی اور بچوں کو بھی یہاں بلا ہی لیں۔

    یہ سنتے ہی جیسے اُس کے اندر سب کچھ تلپٹ ہو گیا۔ وہ ایک بار پھر شدید دورے کی زَد پر تھا۔ اور اُسے یوں محسوس ہونے لگا کہ جیسے اُس کی ساری نسیں پھٹ جائیں گی۔ وہ اپنے آپ میں نہ رہا اور ایک گنوار کی طرح چیخ کر کہا:
    ”اُن ذلیلوں کو یہاں بلوا لوں؟ جارح قوم کی ذلیل کتیا کے ذلیل پِلوں کو؟“ پھر نہ جانے وہ کیا کیا ہذیان بکتا چلا گیا۔ حتیٰ کہ وہ نڈھال ہو کر اوندھا گر گیا۔

    آنے والے روز وہ کچھ بتائے بغیرکہیں نکل گیا۔ اُس کے ہاتھ میں وہی پیپرز تھے جو اُسے لائر کے منھ پر دے مارنا تھے۔ یہ پہلا روز تھا کہ وہ اپنی خواہش سے باہر نکلا تھا۔ جب وہ واپس پلٹا توبہت ہلکا پھلکا ہو چکا تھا۔ اُس کے پاس سوچنے اور کرنے کو کچھ نہ رہا تو آرٹسٹ ہال ورڈ کی بنائی ہوئی وہ تصویر دھیان میں آ گئی جو بہ ظاہر خوبصورت نظر آنے والے کی ساری خباثتیں چُوس کر خود مکروہ ہو گئی تھی۔ اس تصویر کا خیال آتے ہی اُسے اِردگرد کا سارا منظر حسین دِکھنے لگا ‘ مہکتا ہوا اور رنگ برساتا ہوا۔ اگلے روز وہ عین اُس وقت اُٹھا جس وقت اُس کے بھانجے اُٹھا کرتے تھے۔

    بہن اَپنے بھائی کے اندر اِس تبدیلی کو دیکھ کر خُوش ہو رہی تھی، مگر جب اُنہیں واپسی میں دیر ہونے لگی تو اُسے ہول آنے لگے۔ اِس ہولا جولی میں وہ مسجد کے بھی کئی پھیرے لگا آئی۔ وہ تینوں وہاں نہیں تھے۔ جب وہ پلٹے تو اُس کا کلیجہ پھٹنے کو تھا۔ مگر وہ اس سے بے نیاز اپنے بدنوں سے بے طرح پھوٹ بہنے والے مرغوب مشقت کے پسینے کو پونچھے جاتے تھے اور آپس میں مسلسل چہلیں کر رہے تھے۔

    یوں ہی اٹکھیلیاں کرتے کرتے وہ تینوں جب اس نامکمل تصویر تک پہنچے جس کی آنکھوں میں آبی معصومیت تیرتی تھی تو ڈاکٹر توصیف یہ دیکھ کر دَنگ رہ گیا تھا کہ وہ تو ایک مکمل تصویر تھی۔ بالکل ویسی ہی جس کے ساتھ آسکر کے کردار ڈورئن نے اپنی روح کا سودا کر لیا تھا۔ معاشرے کی ساری خباثتیں چوس لینے کا وصف رکھنے والی مکمل تصویر۔

    یہی وہ لمحہ تھا کہ اُس کے عصبی ریشوں کی ساری فالتو گانٹھیں کُھل گئیں اور جہا ں جہاں ان گرہوں کو ہونا چاہیے تھا سلیقے سے سج گئیں۔ ساری کسل مندی فاصلے پر ڈھیر پڑی تھی۔ اور وہ بھانجوں کے بازﺅوں پر مچلتی مچھلیوں پر ہاتھ پھیر رہا تھا جو تیرتی گانٹھوں جیسی لگ رہی تھیں۔


    محمد حمید شاہد کی یہ کہانی "نائن الیون” کے بعد پیدا ہونے والی صورتِ حال اور رویوں کی عکاس ہے

  • کابل میں امریکی سفارت خانے کے قریب راکٹ حملہ

    کابل میں امریکی سفارت خانے کے قریب راکٹ حملہ

    کابل: افغانستان کے دارالحکومت کابل میں امریکی سفارت خانے کے قریب راکٹ سے حملہ کیا گیا، حملے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق افغان دارالحکومت کابل میں امریکی سفارت خانے کے قریب راکٹ سے حملہ کیا گیا جو افغان وزارت دفاع کے دفتر کی دیوار پر گرا تاہم حملے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔

    ذرائع کے مطابق 9/11 حملوں کی 18 ویں برسی کے موقع پر ایسے حملوں کی توقع تھی۔

    امریکی سفارت خانے کے قریب راکٹ حملہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب امریکا اور افغان طالبان کے درمیان 18 سال سے جاری جنگ کے خاتمے کے لیے ہونے والی بات چیت مکمل طور پر ختم ہوچکی ہے۔

    افغان طالبان سے بات چیت مکمل طورپر ختم ہوچکی، ڈونلڈ ٹرمپ

    خیال رہے کہ گزشتہ روز امریکی صدر کا کہنا تھا کہ ہماری میٹنگ کیمپ ڈیوڈ میں طالبان رہنماؤں سے ہونے والی خفیہ ملاقات طے شدہ تھی، میٹنگ بلانے کا آئیڈیا بھی میرا تھا اور اس کو منسوخ کرنے کا بھی، یہاں تک میں نے کسی اور سے اس پر تبادلہ خیال نہیں کیا تھا۔

    ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ میں نے کیمپ ڈیوڈ میٹنگ کو اس بنیاد پر منسوخ کردیا کیونکہ طالبان نے کچھ ایسا کیا تھا جو انہیں بالکل نہیں کرنا چاہیے تھا۔

    مذاکرات کے خاتمے پرافغان طالبان کا ردعمل

    بعدازاں ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مذاکرات ختم کرنے کے بیان پر افغان طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ طالبان اپنی کارروائی تیز کر دیں‌ گے، جلد ہی امریکا کو اپنے اس فیصلے پر پچھتانا پڑے گا۔

    امریکا نے افغان طالبان سے امن مذکرات معطل کردیے

    اس سے قبل 8 ستمبر کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے طالبان کے ساتھ امن مذاکرات منسوخ کردیے تھے۔ انہوں نے یہ اعلان سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر کیا تھا۔

    امریکی صدر نے اپنے پیغام میں کہا تھا کہ طالبان سے مذاکرات کابل حملے کے بعد منسوخ کیے گئے ہیں جس میں ایک امریکی فوجی سمیت 12 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

    ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ طالبان دوران مذاکرات غیرضروری بالا دستی چاہتے ہیں، طالبان جنگ بندی نہیں کرسکتے تو انہیں مذاکرات کا بھی کوئی اختیار نہیں ہے۔

  • نائن الیون حملوں سے 40 روز قبل امریکا کو آگاہ کردیا تھا،  سابق انٹیلیجنس عہدیدار کا دعویٰ

    نائن الیون حملوں سے 40 روز قبل امریکا کو آگاہ کردیا تھا، سابق انٹیلیجنس عہدیدار کا دعویٰ

    انقرہ : ترک انٹیلیجنس ایجنسی کے سابق عہدیدار کا کہنا ہے کہ ہم نے نائن الیون سے متعلق سی آئی اے کو آگاہ کیا تھا مگر انہوں نے اس تنبیہ کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔

    تفصیلات کے مطابق ترکی کے انٹیلی جنس کے شعبہ انسداد دہشت گردی کے ایک سابق عہدیدار محمد ایمور نے دعویٰ کیا ہےکہ ترک خبر رساں اداروں کو 11 ستمبر 2001ء کو امریکا میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کے بارے میں 40 دن پہلے علم ہوچکا تھا مگرا±نہیں سنجیدہ نہیں لیا گیا۔

    ان کا کہنا ہے کہ ترکی کو یہ معلومات ترکی کے منشیات کے ایک تاجر مصطفیٰ کے ذریعے حاصل ہوئی تھیں۔ ایمور نے دعویٰ کیا کہ وہ بعض ملکوں میں جاسوس کے طور پرکام کرتے رہے ہیں تاہم انہوں نے ان ملکوں کا نام نہیں لیا۔

    عرب ٹی وی کے مطابق محمد ایمور نے یہ لرزہ خیز انکشافات اپنی تازہ کتاب رازوں کا افشاء میں کیا، وہ لکھتے ہیں کہ نائن الیون کا واقعہ وقوع پذیر ہونے سے چالیس دن قبل مجھے اس کا علم ہوگیا تھا۔

    انہوں نے کہا کہ ہم نے اس حوالے سے سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی کو خبر دی اور اپنے ساتھیوں کو مطلع کیا مگر انہوں نے اس تنبیہ کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔

    ان کا کہنا ہے کہ اگر انٹیلی جنس ادارے ان کی وارننگ کو سنجیدگی سے لیتے تو دہشت گردانہ حملے میں ہزاروں افراد کو بچایا جاسکتا تھا۔

    خیال رہے کہ گیارہ ستمبر 2001ء کو امریکی ریاست مین ہٹن میں واقع جڑواں ٹاورز پرجہازوں کے ذریعے کیے گئے دہشت گردانہ حملوں میں القاعدہ کو ملوث بتایا جاتا ہے مگر اس حوالے سے کئی اور مفروضے بھی مشہور ہیں۔

    ترک انٹیلی جنس کے سابق عہدیدار کا بیان بھی ان مفروضوں اور قیاس آرائی پرمبنی کہانیوں میں ایک نیا اضافہ ہے۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق محمد ایمور اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ انہیں نائن الیون کے واقع کے وقوع پذیر ہونے سے 40 دن پہلے علم ہوگیا تھا مگر ہم ان حملوں کو نہیں روک پائے جس کے نتیجے میں 2996 افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

    ان کا کہنا تھا کہ ہمیں نائن الیون کے حملوں کی منصوبہ بندی کی خبر منشیات کے ایک تاجر مصطفیٰ کے ذریعے پہنچی تھی۔

    ان کا کہنا ہے کہ ہم نے مرکزی انٹیلی جنس ایجنسی کو معلومات فراہم کیں۔ میں نے انہیں بتایا کہ میں ان سے ایک انتہائی اہم موضوع پر بات کرنا چاہتا ہوں۔ ہمارے درمیان ملاقات کا وقت طے پا گیا۔ دو روز بعد یعنی 2 اگست کو ایک خاتون اور ایک اجنبی شخص ہمارے پاس آئے۔

    میں نے مصطفیٰ سے کہا کہ وہ ہوٹل میں میرا انتظار کریں، ہوسکتا ہے کہ مرکزی انٹیلی جنس کے لوگ آپ سے ملنا چاہیں گے، ہم نے انٹیلی جنس حکام سے ترکی زبان میں بات کی اور انہیں اس حوالے سے اپنے تحفظات سے بھی آگاہ کیا۔

    محمد ایمور نے کہا کہ چالیس روز قبل ملنے والی اطلاع کو کسی نے سنجیدگی سے نہیں لیا جس کے نتیجے میں گیارہ ستمبرکو تین ہزار افراد لقمہ اجل بن گئے۔ اگر مصطفیٰ کی بات کو سنجیدگی سے لیا جاتا تو امریکا تباہی سے بچ جاتا۔

  • نائن الیون کے بعد بالی ووڈ نے پاکستان کو بد نام کیا: فیاض الحسن چوہان

    نائن الیون کے بعد بالی ووڈ نے پاکستان کو بد نام کیا: فیاض الحسن چوہان

    لاہور: وزیرِ اطلاعات پنجاب فیاض الحسن نے نویں نیشنل یوتھ پیس فیسٹول سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نائن الیون کے بعد بالی ووڈ نے پاکستان کو بد نام کیا۔

    فیاض الحسن چوہان کا کہنا تھا کہ ایک کبوتر سے پورے بھارت کا سانس خشک ہو جاتا ہے، جب کہ ہم نے سکھوں کے لیے راہ داری کھولی اور بھارت میں سکھ خوشیاں منا رہے ہیں۔

    [bs-quote quote=”2 قومی نظریے کے خلاف کروڑوں روپے دینے کا دور گزر گیا، جو پاکستان کی بات کرے گا، اس کی عزت ہوگی۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″ author_name=”فیاض الحسن چوہان”][/bs-quote]

    وزیرِ اطلاعات پنجاب نے کہا کہ ہم پُر امن لوگ ہیں، دہشت گرد نہیں، وزیرِ اعظم عمران خان نے پاکستانی لباس و چپل پہن کر دنیا کا دورہ کیا۔

    فیاض الحسن کا کہنا تھا کہ 2 قومی نظریے کے خلاف کروڑوں روپے دینے کا دور گزر گیا، جو پاکستان کی بات کرے گا، نعرہ لگائے گا اس کی عزت ہوگی۔

    خیال رہے آج وزیرِ اعظم عمران خان نے کرتارپور کوریڈور کا سنگِ بنیاد رکھ کر تاریخ رقم کر دی، کرتارپور راہ داری کے ذریعے بھارتی سکھ بغیر ویزے کرتارپور صاحب کے درشن کے لیے آ سکیں گے۔


    یہ بھی پڑھیں:  وزیراعظم عمران خان نے کرتارپورکوریڈور کا سنگ بنیاد رکھ دیا


    کرتارپور کوریڈور کے افتتاح کی تقریب میں وزیرِ اعظم عمران خان کی دعوت پر اُن کے دوست سابق کرکٹر نوجوت سنگھ سدھو بھی شرکت کے لیے بھارت سے پاکستان پہنچے۔

    کرتار پور صاحب کے گرنتھی گوبند سنگھ نے کہا ’’آج ہم سکھ لوگ بہت خوش ہیں، سو سال کی عمر والا سکھ بھی بہت خوش ہے بلکہ یوں کہیں کہ آج پوری سکھ برادری پاکستان کی حکومت سے بہت خوش ہے۔‘‘