Tag: نااہلی کی مدت

  • تاحیات نااہلی کی مدت 5 سال کرنے کیخلاف درخواست مسترد

    تاحیات نااہلی کی مدت 5 سال کرنے کیخلاف درخواست مسترد

    لاہور : لاہور ہائی کورٹ نے تاحیات نااہلی کی مدت 5 سال کرنے کیخلاف درخواست مسترد کردی۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور ہائی کورٹ میں جسٹس شاہد بلال حسن نے شہری شبیر اسماعیل اورمشکور حسین کی تاحیات نااہلی کی مدت 5 سال کرنے کیخلاف درخواستوں پر فیصلہ سنادیا۔

    فیصلے میں عدالت نے نااہلی کی مدت 5 سال کرنے کیخلاف درخواست ناقابل سماعت قرار دے دی۔

    الیکشن ایکٹ میں ترمیم کےذریعےنا اہلی کی معیاد5سال کرنےکااقدام چیلنج کیا گیا تھا ، جس میں کہا تھا کہ آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت 5 سال مقرر کی گئی، سپریم کورٹ پہلے ہی 62 ون ایف کی تشریح کر چکی۔

    درخواست گزار کا کہنا تھا کہ ترمیم سپریم کورٹ کے فیصلوں کی خلاف ورزی ہے ، استدعا ہے نااہلی کی مدت 5 سال کرنے کی ترمیم کو کالعدم قرار دیا جائے۔

  • نیب سزا یافتہ کیلئے 10 سالہ نااہلی کی مدت بحال کردی گئی

    نیب سزا یافتہ کیلئے 10 سالہ نااہلی کی مدت بحال کردی گئی

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائیکورٹ نے نیب سزا یافتہ کیلئے 10 سالہ نااہلی کی مدت بحال کر دی، سنگل بینچ نے نااہلی کی مدت 10 سال کی بجائے 5 سال کا فیصلہ دیا تھا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں نیب سزا یافتہ کی 10سالہ نااہلی کم کرکے 5 سال کرنے کے فیصلے کے خلاف اپیل پر سماعت ہوئی۔

    اسلام آباد ہائیکورٹ کے 2 رکنی بینچ نے ن لیگ کے ٹکٹ ہولڈر فائق علی جمالی کی دس سال کیلئے نااہلی کی مدت سے متعلق درخواست پر سماعت کی۔

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ سزا یافتہ شخص کے جیل سے رہا ہونے کے بعد اس کی نااہلی کی مدت شروع ہوگی، فائق جمالی کو سنائی گئی سزا میں 10 سال کی نااہلی بھی شامل تھی، جس پر جسٹس محسن اختر کیانی کا کہنا تھا کہ یہ سوال ہی نہیں ہے جس پر آپ دلائل دے رہے ہیں ، سزا تو متنازع نہیں ہے، آئین میں ذیلی قانون سازی کیا آئین میں دی گئی تشریح سے مختلف ہوسکتی ہے ؟

    نیب پراسیکیوٹر نے مزید کہا کہ آئین کے آرٹیکل 63ون ایچ میں جنرل بات کی گئی ہے، نیب آرڈیننس ایک اسپیشل لا ہے ،اس میں 10 سال کی نااہلی کی سزا موجود ہے، خالد لانگو کیس میں سپریم کورٹ نے نااہلی کی سزا برقرار رکھی۔

    جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا 63 ون ایچ کے تحت نااہلی صرف مجلس شوریٰ کیلئے ہے،صوبائی اسمبلی کیلئے نہیں ؟ تو نیب پراسیکیوٹر نے بتایا کہ جی ، 63ون ایچ کے تحت نااہلی صوبائی اسمبلی کیلئے نہیں۔

    عدالت نے نیب ریفرنس میں سزایافتہ مجرم فائق علی جمالی کی نااہلی کی مدت سے متعلق فیصلہ معطل کردیا، اسلام آبادہائیکورٹ نے سنگل بینچ کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کیا۔

    اسلام آباد ہائیکورٹ نے نیب سزا یافتہ کیلئے 10 سالہ نااہلی کی مدت بحال کر دی، سنگل بینچ نے نااہلی کی مدت 10 سال کی بجائے 5 سال کا فیصلہ دیا تھا، جس پر جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے حکم امتناع جاری کیا۔

  • سپریم کورٹ کا نااہلی کی مدت سے متعلق تمام کیسز ایک ساتھ سننے کا فیصلہ

    سپریم کورٹ کا نااہلی کی مدت سے متعلق تمام کیسز ایک ساتھ سننے کا فیصلہ

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے نااہلی کی مدت سے متعلق تمام کیسز ایک ساتھ سننے کا فیصلہ کرلیا اور کہا نااہلی مدت کے سوال والے کیسز جنوری کے آغاز پر مقرر کئے جائیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے نااہلی مدت سے متعلق میر بادشاہ قیصرانی کیس کا تحریری حکمنامہ جاری کردیا۔

    جس میں سپریم کورٹ نےنااہلی کی مدت سے متعلق تمام کیسز ایک ساتھ سننے کا فیصلہ کیا ہے۔

    عدالت عظمی کے جاری حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ نااہلی مدت کے سوال والے کیسز جنوری کے آغاز پر مقرر کئے جائیں، کیس کے زیر التوا ہونے کو الیکشن میں تاخیر کیلئے استعمال نہیں کیا جائے گا۔

    حکمنامے میں کہنا تھا کہ یڈیشنل اٹارنی جنرل نے نشاندہی کی آئینی سوال والے کیس پر کم از کم پانچ رکنی بنچ ضروری ہے، کیس کمیٹی کی جانب سے تشکیل دیئے گئے بنچ کے سامنے مقرر کیا جائے۔

    یاد رہے دو روز قبل سپریم کورٹ نے تاحیات نااہلی کے معاملہ پر عدالتی فیصلے اور الیکشن ایکٹ کی ترمیم میں تضاد پر نوٹس لیتے ہوئے اٹارنی جنرل اور تمام صوبائی ایڈوکیٹ جنرلز کو نوٹسز جاری کئے تھے۔

    سپریم کورٹ نے میر بادشاہ قیصرانی کی جعلی ڈگری میں تاحیات نااہلی کیس میں نوٹس لیا تھا، جس کی سماعت قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔

    دوران سماعت چیف جسٹس نے سوال اٹھایا تھا کہ اگر کسی کی سزا ختم ہو جائے تو تاحیات نااہلی کیسے برقرار رہ سکتی ہے؟

    جسٹس جسٹس نے کہا تھا کہ سپریم کورٹ کی تاحیات نااہلی کے معاملے پر دو آرا ہیں، تاحیات نااہلی اور آرٹیکل 62 ون ایف سے متعلق کوئی نیا قانون بھی آچکا ہے؟ تاحیات نااہلی بارے سپریم کورٹ کا فیصلہ اور الیکشن ایکٹ دونوں ایک ساتھ نہیں چل سکتے، الیکشن ایکٹ میں ترمیم اور سپریم کورٹ کے فیصلے میں سے کسی ایک کو برقرار رکھنا ہوگا۔