اسلام آباد : چیف جسٹس آف پاکستان نے آرٹیکل 62 ون ایف سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت طے کرنا سپریم کورٹ کا کام ہے۔
تفصیلات کے مطابق اسلام آباد میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے آرٹیکل 62 ون ایف کی تشریح سے متعلق کیس کی سماعت کی۔
عدالت عظمیٰ میں رائے حسن نواز کی وکیل عاصمہ جہانگیر نے کیس کی سماعت کے دوران دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ووٹرز کے لیے کوئی نا اہلی یا نااہلیت نہیں ہوتی جبکہ آرٹیکل 62 ون ایف میں ابہام ہے۔
عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ کسی شخص کی شہرت اچھی یا برے کردارکا تعین کیسے ہوگا، ڈیکلریشن کون سی عدالت دے گی یہ بھی واضح نہیں ہے۔
درخواست گزار کی وکیل نے کہا کہ رائے حسن کو کمپنی میں اثاثے نہ بتانے پرنا اہل کیا گیا، کمپنی کا اثاثہ فروخت ہوچکا تھا کمپنی ان کے نام بھی نہیں تھی۔
عاصمہ جہانگیر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جوکام پارلیمنٹ نے نہیں کیا وہ عدالت کیسے کرسکتی ہے، سیاسی معاملات پر فیصلہ سازی پارلیمنٹ کوکرنی چاہیے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ عدالت مفروضے پرمبنی سوالات حل نہیں کرسکتی، دیکھنا ہے آرٹیکل 62 ون ایف کا سوال ٹھوس ہے؟۔
درخواست گزار کی وکیل عاصہ جہانگیر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ بنیادی حقوق آئین کا دل اورروح ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 62 ون ایف مبہم ہے تسلیم کرتے ہیں، اس آرٹیکل کی تشریح کرنا مشکل ٹاسک ہوگا۔
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ ہمیں آئیڈیل لوگوں کے معیاربلند رکھنے چاہیے جبکہ جسٹس سجاد علی نے کہا کہ عام آدمی اورمنتخب نمائندوں کے لیے معیارمختلف ہونے چاہئیں۔
عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ 1985سے پہلے کسی کو نا اہل قرار نہیں دیا گیا، آرٹیکل 62 اور63 کو اکٹھے دیکھا جانا چاہیے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایسا شخص جو صادق وامین نہیں کیا وہ ضمنی انتخاب لڑسکتا ہے؟ بد دیانت شخص کی نااہلی کی مدت کتنی ہونی چاہیے؟۔
درخواست گزار کی وکیل نے کہا کہ اگردو روپے کی بد دیانتی ہو تواس کی سزا الگ ہوگی، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بددیانتی یا دیانتداری کو اقدام کے ذریعے جانچا جاتا ہے۔
جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ عدالت میں کھڑا ہوکرکوئی جعلی ڈگری کا دفاع نہیں کرسکتا۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ یہ تاثردرست نہیں کہ پارلیمنٹ آزاد نہیں ہے، کیا غیرایماندار، غیرامین قرار پانے والا ضمنی الیکشن لڑسکتا ہے۔
انہوں نے ریمارکس دیے کہ فرض کرلیں آرٹیکل 62 ون ایف مبہم ہے، عدالت کسی مبہم آرٹیکل کوکالعدم کیسے کرسکتی ہے، کسی مبہم آرٹیکل کی تشریح کرنے کا طریقہ کارکیا ہوگا۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت طے کرنا سپریم کورٹ کا کام ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ عدالت ایمانداری کا تعین کرسکتی ہے، بے ایماندارشخص کچھ عرصے بعد ایماندار کیسے ہوجائے گا۔
جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ایک ایسا شخص تھا جس نے تسلیم کیا ڈگری جعلی ہے اس شخص نے استعفیٰ دے دیا۔
انہوں نے کہا کہ اس شخص نے دوبارہ الیکشن لڑا اورواپس آگیا، ضمنی الیکشن میں اس نے پہلے سے زیادہ ووٹ لیے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بے ایماندار ڈکلئیرڈ شخص کی نااہلی کی مدت کیا ہوگی؟ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ نااہلی کی مدت ڈیکلریشن کے برقرار رہنے تک موجود رہے گی۔
عاصمہ جہانگیر نے جواب دیا کہ آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت زیادہ سے زیادہ مدت 5 سال ہونی چاہیے، جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ 18 ویں ترمیم میں آرٹیکل ون ایف کی مدت کیوں نہیں لکھی گئی۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ ہماری نظرمیں آرٹیکل 62 اور63 آزاد اورالگ الگ ہے، جب تک ڈیکلریشن موجود رہے گی تو نااہلی موجود رہے گی۔
انہوں نے کہا کہ ممکن ہے کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ مدت کا تعین کرے، پھر ایسی صورت میں کیس ٹو کیس فیصلہ کیا جائے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ ادارہ قائم دائم رہے گا، بہت سمجھدار لوگ اس ادارے میں آئیں گے۔
سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے کہ اب اس مقدمے میں کسی اور کو نہیں سنیں گے جس کے بعد عدالت عظمیٰ نے کیس سماعت پیر تک ملتوی کرتے ہوئے آئندہ سماعت پراٹارنی جنرل کو دلائل دینے کا حکم دے دیا۔
یاد رہے کہ گزشتہ سماعت پرسپریم کورٹ میں آرٹیکل 62 ون ایف سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے تھے کہ بددیانت شخص کوکنڈکٹ سے ثابت کرنا ہوگا کہ بدیانتی ایمانداری میں تبدیل ہوگئی۔
خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔
لاہور : لاہور ہائی کورٹ نے وزیراعلٰی شہباز شریف کی نااہلی کے لیے دائر درخواست کے قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔
تفصیلات کے مطابق لاہور ہائی کورٹ میں وزیراعلٰی شہباز شریف کی نااہلی کے لیے دائر درخواست پر سماعت ہوئی، دوران سماعت عدالت نے استفسار کیا کہ کس قانون کے تحت عدالت وزیراعلٰی پنجاب کو نااہل قرار دیا جائے۔
درخواست گزار کی جانب سے مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ وزیر اعلی پنجاب ماس ٹرانزٹ اتھارٹی کے چیئرمین ہیں۔ قانون اور آئین کے تحت وہ بیک وقت دو عہدے اپنے پاس نہیں رکھ سکتے، دو عہدے رکھنے پر شہباز شریف آرٹیکل 63 کے تحت اہل نہیں رہے۔
دائر درخواست استدعا ہے کہ شہباز شریف کو وزارت اعلی کے لیے نااہل قرار دیا جائے۔
عدالت نے دلائل مکمل ہونے کے بعد درخواست کے قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔
یاد رہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے آشیانہ ہاؤسنگ اسکیم میں بے ضابطگیوں پر نیب کو اپنا بیان ریکارڈ کرایا تھا۔
پیشی کے بعد وزیر اعلیٰ پنجاب نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں نے قوم اوراپنے صوبے کا پیسہ بچایا ہے، اگر یہ جرم ہے تو کروڑ بار کروں گا، آشیانہ اسکیم کا ٹھیکہ سب سے کم بولی والی پارٹی کو دیا گیا، نیب کی جانب سے مجھے طلب کرنا بد نیتی پر مبنی تھا۔
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئرکریں۔
اسلام آباد : پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فواد چودھری کا کہنا ہے کہ نوازشریف اورعمران خان کے کیس میں زمین آسمان کا فرق ہے، عمران خان کی پوری منی ٹریل 6 لاکھ 72ہزارپاؤنڈ کی ہے۔
تفصیلات کے مطابق اسلام آباد میں پاکستان تحریک انصاف کے ترجمان فواد چودھری کا کہنا ہے کہ عمران خان کی پوری منی ٹریل 6 لاکھ 72 ہزارپاؤنڈ کی ہے جبکہ شریف خاندان کی منی ٹریل 30 ہزارکروڑکی ہے۔
فواد چودھری نے کہا کہ نوازشریف9 سال تک حکومت میں رہے، عمران خان نے ایک مرتبہ بھی عوامی عہدہ نہیں رکھا۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کی41 سال کی منی ٹریل رسیدوں کےساتھ جمع کرا دی۔
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما کا کہنا تھا کہ جو لوگ کہتے ہیں کہ نوازشریف اور عمران خان کے کیس ایک جیسے ہیں تو وہ دیکھ لیں کہ نوازشریف کا کیس 16 کمپنیوں اور 300 ارب کے گرد گھوم رہا ہے جبکہ عمران خان کی پوری منی ٹریل 6 لاکھ 72ہزارپاؤنڈ کی ہے۔
فواد چودھری کا کہنا تھا کہ کچھ لوگ چاہتے ہیں نوازشریف نااہل ہوئے تو عمران خان اور جہانگیر ترین سمیت سب نااہل ہوجائیں تاکہ نوازشریف کی نااہلی کا دکھ کچھ کم ہو۔
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں۔
اسلام آباد : وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ نوازشریف نے جو کام کیے وہ آمریت اور پیپلزپارٹی دونوں نہیں کرسکے۔
تفصیلات کے مطابق کنونشن سینٹراسلام آباد میں مسلم لیگ ن کے مرکزی جنرل کونسل سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ نوازشریف کے پہلی بارصدر منتخب ہونے پر بھی میں موجود تھا۔
شاہد خاقان عباسی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج 30سال بعدبھی پارٹی کے ساتھ کھڑا ہوں۔
وزیراعظم پاکستان نے کہا کہ ذوالفقاربھٹوکے پھانسی کے فیصلے کوعوام اورتاریخ نے قبول نہیں کی، انہوں نے کہا کہ نااہلی کا فیصلہ ہم نے مانا لیکن عوام اورتاریخ تسلیم نہیں کرتے۔
انہوں نے کہا کہ عوام نوازشریف کےحق میں ہی فیصلہ دیں گے، انہوں نے کہا کہ ہم نے 8 ماہ میں وہ منشورمکمل کرنا ہے جو نوازشریف نے 4 سال پہلے شروع کیا۔
شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ جومنصوبے نوازشریف نے مکمل کیے وہ پیپلزپارٹی اورآمرکے دورمیں مکمل نہ ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے دونوں کےمنصوبوں سے زیادہ نہ ہوئے توحکومت چھوڑنے کوتیارہیں۔
وزیراعظم پاکستان نے کہا کہ یہ وہ منصوبےہیں جنھوں نے آئندہ کے10 سال کے مسائل کو حل کیا، امید ہے عوام نوازشریف کو پھرمینڈیٹ دیں گے۔
واضح رہے کہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ عوام کے دلوں کا مینڈیٹ عدالتی فیصلوں سےختم نہیں ہوتا، نوازشریف اورہم سب مل کر ملک کےمسائل کوحل کریں گے۔
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔
لاہور: سابق وزیر اعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ آج پورا پاکستان سراپا احتجاج ہے کہ مجھے کیوں نااہل کیا گیا؟ 1971ء میں پاکستان دو لخت ہوا مجھے ڈر لگتا ہے، اللہ نہ کرے کہ اب پھر کوئی حادثہ پیش آجائے۔
یہ بات انہوں نے چار روز بعد ریلی کے ذریعے لاہور پہنچنے کے بعد جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔
نواز شریف نے کہا کہ آپ کے ووٹ کی طاقت سے اللہ کے فضل و کرم سے میں وزیر اعظم بنایا گیا لیکن 5 افراد نے مجھے برطرف کردیا، کیا آپ لوگوں کو منظور ہے؟
لاہور میں خطاب کی ویڈیو:
انہوں نے کہا کہ میں چار دن میں اسلام آباد سے سفر کرتے ہوئے آج چوتھے دن یہاں پہنچا ہوں، آج پاکستان سراپا احتجاج ہے کہ نواز شریف کو کیسے نااہل کردیا،میں نے کوئی سرکاری خورد برد نہیں کی، کوئی کمیشن یا رشوت نہیں لی، بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر نکال دیا، یہ نااہل کرنے کی وجہ ہے۔
نواز شریف نے کہا کہ میں نے بیٹے سے تنخواہ نہیں لی تو نہیں لی، آپ کو کیا ہے؟ اگر تنخواہ لی تو کیا ہے اور اگر نہیں لی تو بھی آپ کو کیا ہے؟ یہ کوئی وجہ ہے نااہل کرنے کی؟ 70 سال سے ہونے والا یہ سلوک بدلے گا کہ بھی نہیں؟
انہوں نے کہا کہ 2013ء میں لوگوں نے مجھے ووٹ دیا کہ نواز شریف بجلی نہیں آتی، چولہا نہیں جلتا جس پر میں نے کہا کہ بجلی بھی آئے گی اور چولہا بھی چلے گا اور آج 4 سال مکمل ہونے پر بجلی آنا شروع ہوگئی۔
انہوں نے کہا کہ غریبوں کی بیٹیوں کو کتنی سہولت ملی، آج میٹرو بس میں وہ محفوظ سفر کرتی ہے، آج سڑکیں بن رہی ہیں، ملک خوشحال ہورہا ہے، ترقی عروج پر ہے، امن قائم ہوچکا ہے، اچھے کام کرنے والے وزیر اعظم سے یہ سلوک ہمیں منظور نہیں۔
انہوں نے کہا کہ 1947ء سے اب تک منتخب ہونے والے وزرائے اعظم سے یہ سلوک اب نہیں چلے گا، پاکستان کو بدلنا ہوگا، مجھے نااہل کرنے والے کیا خود اہل ہیں؟
نواز شریف نے کہا کہ اگر انقلاب نہ آیا تو کسی کو انصاف نہیں ملے گا، انقلاب نہ آیا تو گھروں میں خوشحال دستک نہیں دے گی، بے روزگار ایسا ہی رہے گا، انقلاب نہ آیا تو ہماری قوم دنیا کی پست ترین قوم بن جائے گی، دوسروں سے سبق سیکھیں کہ اس خطے میں پاکستان جیسا کوئی ملک نہیں جہاں عوام کے ووٹ کی بے قدری ہو۔
انہوں نے کہا کہ کیا 70 برس میں آنے والے سارے وزیر اعظم غلط تھے؟ ووٹ کی ایسی بے قدری؟ کیوں انہیں گھر بھیج دیا گیا؟ یہ کون ہیں جو پاکستان کے ساتھ اتنا ظلم کرتے ہیں؟ ان کا حساب ہونا چاہیے کہ نہیں؟
انہوں نے کہا کہ شہباز شریف سے پوچھیں، بجلی کے کارخانے ہم نے بیس بیس ماہ میں مکمل کیے، اس کے لیے پسینہ بہایا ایسے ہی بجلی نہیں آرہی، بجلی سستی بھی ہورہی ہے تاکہ گھروں میں بل کم آئے اور کارخانے چلیں۔
نواز شریف کا کہنا تھا کہ آپ سے پہلے بھی 1971ء میں پاکستان دو لخت ہوا اللہ نہ کرے کہ اب پھر کوئی حادثہ پیش آجائے، مجھے ڈر لگتا ہے۔
انہوں نے عوام کو بار بار مخاطب کیا، کہا کہ کیا 2013ء اور 2017ء کے پاکستان میں کوئی فرق ہے کہ نہیں؟ کیا پاکستان پہلے سے بہتر ہے؟ اگر ہے تو نواز شریف کو سزا ملنی چاہیے تھی؟ بیس کروڑ عوام کی کوئی حرمت یا کوئی عزت ہے کہ نہیں؟
ان کا کہنا تھا کہ میں نے کبھی عوام سے دھوکا نہیں کیا، 4 برس میں یہاں دھرنے ہوتے رہے، سازشیں ہوتی رہیں، مجھے نااہل کرنے کے لیے ایک سال تک مقدمہ چلایا گیا، اس کے باوجود ملک ترقی کرے تو جان لیں کہ 4 سال میں یہ تماشے نہ ہوتے تو پاکستان ترقی کی منازل طے کررہا ہوتا۔
نواز شریف نے کہا کہ مجھے اقتدار کی لالچ نہیں، لالچ ہے تو عوام کو باعزت روزگار دینے اور ترقی کی، مجھے امید تھی کہ اگلے دو تین برس میں کوئی بے روزگار نہیں رہے گا، میں ڈرتا نہیں ہوں، ملک کی تقدیر بدلے بغیر گھر میں بیٹھوں گا، میری خواہش ہے کہ عوام کی تقدیر بدلے اس کے لیے نظام کو بدلنا ہوگا، اس سسٹم کو وائرس لگ گیا ہے جسے دور کرنا ہوگا جب ہی ملکی عزت قائم ہوگی جو مجھے بہت عزیز ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملکی وقار اوپر جارہا تھا لیکن اب ہم کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں، ہمارے ہمسائے ممالک میں کیا اس طرح کے حالات ہیں؟ عوام کو میرا ساتھ دینا ہوگا۔
نواز شریف نے کہا کہ ن لیگ اب لوگوں کے لیے سستے داموں گھروں کا انتظام کرے گی، یہ ملک بیس کروڑ عوام کی ملکیت ہے ان کاحق انہیں ملنا چاہیے، ہم لوگوں کو عدالتی انصاف فوری دلائیں گے۔
انہوں نے چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی کی جانب سے عدلیہ، فوج اور پارلیمنٹ کے مشترکہ ڈائیلاگ کی تجویز کا خیر مقدم کیا اور کہا کہ وہ جو تجاویز پیش کریں گے ہم اس کا خیرمقدم کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ ایک وزیر اعظم نااہل ہوگیا لیکن ہمارے پاس آزاد کشمیر کا وزیراعظم موجود ہے، وہ بچیں کہیں انہیں بھی نااہل کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔
انہوں نے کوئٹہ دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ فوجی اور سویلین افراد کی شہادتوں پر افسوس ہے، ورثا کو صبر دے۔
انہوں نے کہا کہ مجھے جو پیار اسلام آباد تا لاہور ملا وہ یاد رکھوں گا، 14 اگست کو اپنا پروگرام دوں گا، یقین ہے کہ عوام میرا ساتھ دیں گے،
شاہدرہ میں خطاب
شاہدرہ: سابق وزیراعظم میاں محمدنواز شریف نے کہا ہے کہ عوام میرا ساتھ دیں، پاکستان کو تبدیل کردیں گے، اسلام آباد سے یہاں تک لوگوں نے فیصلہ دے دیا کہ انہیں عدالت کا فیصلہ قبول نہیں۔
شاہدرہ میں خطاب کی وڈیو:
یہ بات انہوں نے اپنی ریلی کے دوران شاہدرہ میں جلسہ عام سے مختصر خطاب کرتے ہوئے کہی۔
انہوں نے کہا کہ شاہدرہ کے جوانوں کو سلام کہتا ہوں اور شکریہ ادا کرتا ہوں کہ وہ یہاں آئے، شاہدرہ کے لوگوں کیا نواز شریف کی نااہلی کا فیصلہ آپ نے قبول کیا؟ کیا آپ لوگ میرے ساتھ چلیں گے، اسلام آباد سے یہاں تک سب لوگوں نے کہا کہ یہ فیصلہ قبول نہیں، وزیراعظم کو گھر بھیجنے والے دیکھ لیں کہ قوم نے کیا فیصلہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ مجھ پر کرپشن کا کوئی داغ نہیں ہے، مجھے کیوں نکالا؟ پاناما کا کیس شروع ہوا اور اقامے پر نکال دیا، کہا گیا کہ بیٹے سے تنخواہ کیوں نہیں لی؟ اس بنیاد پر مجھے نااہل کردیا، بھلا بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر وزیراعظم نااہل ہوتا ہے؟
انہوں نے جلسے کے شرکا سے وعدہ لیا کہ وہ میرا ساتھ دیں گے اور کہا کہ یہاں کے لوگوں نے ہمیشہ میرا اور ن لیگ کا ساتھ دیا ہے اور امید ہے آئندہ بھی دیں گے، میں آپ کے قدم سے قدم ملا کر پاکستان کو تبدیل کردیں گے۔
بعدازاں چند جملوں کے بعد وہ داتا دربارہ کی طرف روانہ ہوگئے۔
شاہدرہ آمد
قبل ازیں سابق وزیراعظم نواز شریف کی ریلی شاہدرہ پہنچی جہاں ان کا بھرپور استقبال کیا گیا، داتا دربار کے سامنے اسٹیج تیار کیا گیا تھا، مرکزی استقبالیہ کیمپ بھی قائم کیا گیا، سخت حفاظتی انتظامات کیے گئے۔
عدالتی احکامت پر نااہل ہونے والے وزیراعظم نواز شریف کی ریلی اسلام آباد سے لاہور کے سفر کا آج چوتھا دن ہے۔
مسلم لیگ نون کے کارکنان لاہور میں اپنے قائد کے استقبال کے لیے پہلے سے موجود ہیں، لاہورمیں نواز شریف کے استقبال کے لیے تیاریاں مکمل کر لی گئی ہیں۔
اس حوالے سے داتا دربار کے سامنے اسٹیج تیار کرنے کے علاوہ مرکزی استقبالیہ کیمپ بھی قائم کردیا گیا ہے، داتا دربار کے اطراف سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔
سابق وزیر اعظم نواز شریف لاہور پہنچ کر داتا دربار کے سامنے عوام سے خطاب کریں گے، داتا دربار کے اطراف دو ہیلی کاپٹرز کے ذریعے فضائی نگرانی کی جا رہی ہے، مزارکو عام زائرین کے لیے بند کردیا گیا ہے۔
علاوہ ازیں شاہدرہ سے داتا دربار تک 500 سے زائد کیمرے فعال کردیئے گئے، سیف سٹی اتھارٹی نے مانیٹرنگ کے لیے جدید موبائل کمانڈ وین بھی داتا دربار پہنچا دی ہے۔
علاوہ ازیں نواز شریف اور لیگی وزرا کے علاوہ تمام گاڑیاں راوی پل سے پیچھے روکنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، یہ فیصلہ رش کی وجہ سے کیا گیا، انتظامیہ نے ہدایات جاری کی ہیں کہ کارکنان اور رہنما اپنی گاڑیاں شاہدرہ میں پارک کریں، راوی پل سے داتادربار تک لیگی کارکن پیدل سفر کریں گے۔
سی سی پی او لاہور کا کہنا ہے کہ سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں، 6 ہزار سے زائد اہلکاروں کو تعینات کردیا گیا ہے، انہوں نے بتایا کہ تمام سیاسی جماعتوں نے یقین دہانی کرائی ہے کہ دوسری سیاسی جماعت کا کوئی کارکن ریلی کےقریب نہیں آئے گا۔
مرید کے میں خطاب
سابق وزیر اعظم نواز شریف آج سہ پہر مرید کے پہنچے جہاں مسلم لیگ کے کارکنوں نے ان کا استقبال کیا۔
مرید کے میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے نواز شریف کا کہنا تھا کہ پاکستان کے 20 کروڑ عوام اس ملک کے اصل مالک ہیں۔ چند لوگ پاکستان کے مالک نہیں ہوسکتے۔
انہوں نے کہا کہ آپ نے نواز شریف کو وزیر اعظم بنا کر اسلام آباد بھیجا تھا لیکن کسی اور نے نکال دیا ہے۔ نواز شریف نے ایک پائی کی بھی کرپشن کی ہوتی تو کان سے پکڑ کر باہر نکال دیتے۔
انہوں نے کہا کہ میں نے کوئی کرپشن کوئی ہیرا پھیری نہیں ہوئی۔ نواز شریف کو اس لیے نکالا کہ بیٹے کی کمپنی سے تنخواہ نہیں لی۔ کیا کبھی باپ اپنے بیٹے کی کمپنی سے تنخواہ لیتا ہے اور لے بھی لی تو کیا حرج ہے۔
نواز شریف نے کہا کہ اس ملک میں آپ کے ووٹ کا احترام کرواؤں گا۔
سابق وزیر اعظم نے اس موقع پر انقلاب کا نعرہ بھی بلند کردیا۔ انہوں نے کہا، ’ہم نے پاکستان میں تبدیلی اور انقلاب لے کر آنا ہے۔ کیا انقلاب کے لیے نواز شریف کا ساتھ دو گے‘؟
انہوں نے کہا کہ فیصلہ کر کے نکل رہا ہوں کہ انشا اللہ وقت آنے والا ہے۔ جب نواز شریف کا پیغام پہنچے تو ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر میرا ساتھ دینا۔
لاہور میں استقبال کی تیاریاں
نواز شریف لاہور پہنچنے کے بعد شاہدرہ چوک پر کارکنوں سے خطاب کریں گے جس کے بعد وہ داتا دربار جائیں گے جو جی ٹی روڈ ریلی کا حتمی اسٹاپ ہوگا۔
لاہور میں شاہدرہ چوک اور داتا دربار کے مقامات پر لیگی کارکنان کی جانب سے اپنے قائد کے شاندار استقبال کی تیاریاں جاری ہیں۔
شاہدرہ چوک میں نواز شریف کے خطاب کے لیے اسٹیج سجایا جاچکا ہے جبکہ ایل سی ڈی اسکرینز اور فلڈ لائٹس بھی نصب کردی گئی ہیں۔
لاہور میں سیکیورٹی کی صورتحال یقینی بنانے کے لیے 8 ہزار پولیس اہلکاروں کو تعینات کیا گیا ہے جبکہ 2 ہزار ٹریفک پولیس اہلکار ٹریفک کی روانی یقینی بنانے کے لیے موجود ہیں۔
گوجرانوالہ سے روانگی
گزشتہ رات سابق وزیر اعظم نواز شریف نے گوجرانوالہ میں قیام کیا تھا۔
گوجرانوالہ سے روانگی سے قبل میاں نواز شریف کی زیر صدارت پارٹی رہنماؤں کا مشاورتی اجلاس بھی ہوا جس میں نواز شریف نے کہا کہ ہم سپریم کورٹ میں جو بھی کرلیتے نا اہلی کے منصوبے پر عمل ہونا ہی تھا کیونکہ میری نااہلی کا منصوبہ پہلے سے بنالیا گیا تھا۔
سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ سازشی عناصر اور ان کے عوامل سے پردہ اٹھاؤں گا۔ انہوں نے کہا کہ ماضی کی سازشیں بے نقاب ہوتیں تو وزیر اعظم کو یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔
واضح رہے کہ گزشتہ ماہ 28 جولائی کو سپریم کورٹ نے پاناما کیس کے حوالے سے جے آئی ٹی کی رپورٹ پر سماعت کے بعد فیصلہ سناتے ہوئے نواز شریف کو بطور وزیر اعظم نااہل قرار دے دیا تھا۔
نااہلی کے بعد سابق وزیر اعظم نے اسلام آباد سے اپنے آبائی علاقے لاہور کے لیے سیکیورٹی رسک ہونے کے باوجود ریلی کی صورت میں بذریعہ جی ٹی روڈ جانے کا فیصلہ کیا تھا۔
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔
اسلام آباد: مسلم لیگ ن کے رہنما طلال چوہدری کا کہنا ہےکہ نوازشریف کی نااہلی کے فیصلے کو کسی نے بھی تاریخی نہیں کہا۔
تفصیلات کے مطابق باہرمیڈیا سے گفتگو کرتے مسلم لیگ ن کے رہنما اور رکن قومی اسمبلی طلال چوہدری نے کہا کہ ایک ایسا فیصلہ عدالت سےآیا جس پرقانونی ماہرین بھی پریشان ہیں۔
طلال چوہدری کا کہنا ہےکہ نوازشریف نے قانون کی پاسداری کی،کسی نےانگلی نہیں اٹھائی۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف اس وقت بھی مقبول رہنما ہیں۔
مسلم لیگ ن کے رہنما کا کہنا تھا کہ 63،62کےپتھرمارنےوالےکیاوہ خودصادق وامین ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں پتھروہ ماررہےہیں جوخودصادق اورامین نہیں ہیں۔
طلال چوہدری کا کہنا تھا کہ عمران خان جسےچپڑاسی نہیں رکھناچاہتےتھےاسےوزیراعظم نامزدکردیا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں باغی نہ بنایاجائےہم محب وطن ہیں،ہماری فریاد سنی جائے اور ہمارے خلاف فیصلےپرنظرثانی کی جائے۔
مسلم لیگ ن کے رہنما کا کہنا تھا کہ غلطی ہوجائےتونظرثانی کرنی چاہیے،غلط فیصلےپرضدملک کےلیےنقصان دہ ہوسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ امیدہے ہمارے ساتھ کیے گئےسلوک پرنظرثانی ہوگی۔
واضح رہے کہ طلال چوہدری کا کہنا تھا کہ منتخب وزیراعظم کونکالنےکا اختیارصرف عوام کےپاس رہناچاہیے۔انہوں نے کہا کہ منتخب وزیراعظم کواپیل کاحق بھی نہیں دیاگیا۔
ملتان : پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ ن میں دو گروپ بن گئے ہیں۔
تفصیلات کےمطابق پاکستان تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کا کہنا ہےکہ توقع ہے آئندہ ہفتے پاناما کا فیصلے آئے گا اورامید کرتے ہیں فیصلہ عوامی امنگوں کے مطابق ہوگا۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ قوم چاہتی ہےکرپٹ طبقےکوکٹہرےمیں لایاجائے۔ انہوں نےکہا کہ ہم ہم انتظارکےموڈ میں ہیں،جہاں اتنا صبر کیا تھوڑا اورکرلیں گے۔
تحریک انصاف کے رہنما کا کہنا تھا کہ نواز شریف کوئی منی ٹریل نہیں دے سکے۔ انہوں نے کہا کہ ملکی خزانہ لوٹنےوالوں کوقوم کیوں بخشے۔
عدالت عظمیٰ نے دونوں فریقین کو پورا وقت دیا جبکہ پہلے5 ججز کے سامنے موقف رکھا 2 نے وزیراعظم کو نا اہل کہا۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم خود منصب چھوڑیں یا سزا کے بعد فیصلہ انہیں کرنا ہے۔
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔
اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف کےوکیل بابراعوان کاکہناہےکہ نوازشر یف اورعمران خان میں بہت فرق ہے،عمران خان کےخاندان پر ناجائزاثاثےبنانےکاکوئی الزام نہیں ہے۔
تفصیلات کےمطابق عمران خان نا اہلی کیس کی سماعت کے دوران عمران خان کی جانب سے ڈاکٹر بابر اعوان بطور وکیل پیش ہوئے۔انہوں نے اپنے دلائل کے دوران الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار کو چیلنج کردیا۔
بابراعوان نے دلائل کےدوران کہاکہعمران خان توہین عدالت کے مرتکب نہیں ہورہےالیکشن کمیشن کو متعصب قراردیناان پر الزام ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں بنیادی آئینی حقوق کی بات کرنا چاہتاہوں،توہین عدالت کی کارروائی کا اختیارسپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے جج صاحبان کے پاس ہے۔
تحریک انصاف کےوکیل بابر اعوان کے دلائل کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان نے عمران خان نا اہلی کیس کی مزید سماعت 19 جولائی تک ملتوی کردی۔
الیکشن کمیشن میں عمران خان نااہلی کیس کی سماعت کےبعدمیڈیا سے بات کرتےہوئےبابراعوان نےکہاکہ ایسا نہیں ہوسکتاہےضیادورکےقانون اپنےمفادکےلیےاستعمال کیےجائیں۔ ضیادورکےقوانین ختم ہوچکےہیں۔
بابراعوان کا کہناتھاکہ جےآئی ٹی نے13سوالوں کےعلاوہ کچھ اورپوچھاہےتوبتائیں۔ انہوں نےکہاکہ جےآئی ٹی نےکوئی غلط سوال پوچھاہےتوپھراس کی مذمت کرنی چاہیے۔
واضح رہےکہ تحریک انصاف کےوکیل بابراعوان نےکہاکہ ایک چورکےپکڑےجانےپرجس جس کی گھبراہٹ ہوگی وہ بھی پکڑاجائےگا۔
اگرآپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پرشیئرکریں۔
اسلام آباد: الیکشن کمیشن آف پاکستان نےعمران خان کی نااہلی کے لیےدائر درخواست کو بحال کرتے ہوئے 23 مئی تک جواب طلب کرلیا۔
تفصیلات کےمطابق الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پارٹی فنڈنگ کیس میں چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی نااہلی کے لیے ہاشم علی بھٹہ کی دائرپٹیشن کو بحال کرتے ہوئے 23 مئی تک جواب طلب کرلیا۔
چیف الیکشن کمشنر جسٹس ریٹائرد سردار رضا خان کی سربراہی میں الیکشن کمیشن کے 5 رکنی بینچ نے عمران خان کی نااہلی کے لیے دائردرخواست کو سماعت کے لیے بحال کیا۔
درخواست گزارہاشم علی بھٹہ نے موقف ہےکہ عمران خان نے الیکشن کمیشن کے روبرو جھوٹ بولا جس کے بعد وہ آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 پرپورا نہیں اترتے اس لیےانہیں نااہل قرار دیا جائے۔
خیال رہے کہ الیکشن کمیشن نے رواں سال 16 جنوری کو عدم پیروی اور ہاشم علی بھٹہ اور ان کے وکیل کے کمیشن کےسامنے پیش نہ ہونے پر درخواست کو خارج کردیا تھا۔
بعد ازاں درخواست گزار کے وکیل شرافت چوہدری نےدوبارہ بحالی کے لیے درخواست دی تھی۔
دوسری جانب عمران خان کے وکیل شاہد گوندل نے کمیشن سے اس پٹیشن کو خارج کرنے کی استدعا کی تھی۔ان کاکہناتھاکہ سپریم کورٹ میں بھی اسی نوعیت کی ایک پٹیشن زیرسماعت ہے۔
شاہد گوندل کا کہناتھاکہ حنیف عباسی اسی نوعیت کی درخواست سپریم کورٹ میں دائر کرچکے ہیں لہذا کمیشن کو اس کے فیصلے کا انتظار کرنا چاہیئے۔
درخواست گزار کےوکیل شرافت چوہدری کاکہناتھاکہ میری پٹیشن پی ٹی آئی کی غیرملکی فنڈنگ کے حوالے سے نہیں میرا ماننا ہے کہ عمران خان نے غیرقانونی ذرائع سے پارٹی فنڈز اکھٹا کیے اور جعلی حلف نامہ جمع کرایا۔
واضح رہےکہ الیکشن کمیشن نے عمران خان کی نااہلی کے لیے دائر درخواست کو بحال کرتے ہوئے جواب 23مئی تک جواب طلب کرلیا۔
اسلام آباد: مسلم لیگ ن کےرہنما دانیال عزیز نے تحریک انصاف کےسربراہ عمران خان کی نااہلی کےلیےسپریم کورٹ میں درخواست دائر کردی۔
تفصیلات کےمطابق مسلم لیگ ن کے رہنما رکن قومی اسمبلی دانیال عزیز نے سپریم کورٹ میں عمران خان کی نااہلی کےلیے درخواست دائر کی ہےجس میں کہا گیا ہےکہ عمران خان نے پاناما کیس پرعدالتی فیصلےکےحوالے سے قوم سے جھوٹ بولا۔
انہوں نے موقف اختیار کیا کہ آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کی خلاف ورزی کی وجہ سے عمران خان صادق اور امین نہیں رہے لہٰذا انہیں اسمبلی کی رکنیت کے لیے نااہل قرار دیا جائے۔
دانیال عزیز نے درخواست میں پیمرا اور پی ٹی آئی کےسربراہ عمران خان کو فریق بنایاہےجبکہ اس کے ساتھ عمران خان کے انٹرویوز اور پاناما کیس کے عدالتی فیصلے کےبعد تاثرات بھی شامل ہیں۔
یاد رہے پاناما کیس کا فیصلہ آنے کے بعد تحریک انصاف کےسربراہ عمران خان نے کہا تھا کہ سپریم کورٹ کے ججز نے نوازشریف کوجھوٹا قرار دیا ہے۔
واضح رہےکہ گزشتہ روزسپریم کورٹ کے جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیے تھے کہ انہوں نے وزیر اعظم کے بارے جھوٹا ہونے جیسے ریمارکس نہیں دیے مگر بعض رہنما عدالتی فیصلے کی غلط تشریخ کر رہے ہیں۔
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔