Tag: نادر شاہ

  • نادر شاہ:‌ وہ بادشاہ جو مغلیہ دلّی کا غارت گر مشہور ہے

    نادر شاہ:‌ وہ بادشاہ جو مغلیہ دلّی کا غارت گر مشہور ہے

    ایک لکڑہارے کا بادشاہ بن جانا اور اپنے دور کی بڑی مضبوط اور نہایت منظّم فوج تیار کرکے خطّے میں فتوحات حاصل کرنا حیرت انگیز اور قابلِ ذکر تو ہیں، مگر ہندوستان کی تاریخ میں اس کا نام قتل غارت گری اور تباہی کے لیے بھی لیا جاتا ہے۔ یہ قصّہ ہے مغرب میں سلطنتِ عثمانیہ میں شامل عراق اور شام کے علاقوں سے لے کر مشرق میں دلّی تک بڑی فوجی مہمات سَر کرنے والے ایرانی بادشاہ نادر شاہ افشار کا۔

    مؤرخ اور مائیکل ایکسوردی (Michael Axworthy) نادر شاہ سے متعلق اپنی ایک تصنیف میں لکھتے ہیں، ’نادر شاہ نے ایران کو افغانوں کے قبضے سے نکالا، عثمانی ترکوں کو ایران سے بے دخل کیا، روسیوں سے اپنے علاقے خالی کروائے، عثمانی سلطنت کے زیرِ تسلط علاقوں پر حملہ آور ہوئے اور انھیں شکست دے کر ایران کا بادشاہ بنے۔ افغانوں پر ان کے علاقوں میں گھس کر حملہ کیا اور وہ علاقے دوبارہ فتح کیے، پھر انڈیا پر حملہ کر کے دلّی کو فتح کیا۔ وسطی ایشیا میں داخل ہو کر ترکمان اور ازبکوں کو قابو کیا۔‘

    ایران کا بادشاہ نادر شاہ اٹھارہویں صدی میں مغلیہ عہد کے مشہور شہر دلّی کو تاراج کرنے کے ساتھ ساتھ یہاں سے تختِ طاؤس اور کوہِ نور بھی لے گیا۔ اسے ایشیا کا نپولین اور سکندرِ ثانی بھی لکھا گیا ہے۔ مؤرخین کے مطابق بہت کم عرصہ میں مغرب میں سلطنتِ عثمانیہ میں شامل عراق اور شام کے علاقوں سے لے کر ہندوستان تک متعدد مہمات نادر شاہ کو ایک بہترین اور باتدبیر فوجی کمانڈر ثابت کرتی ہیں۔ لیکن وہ مضبوط اور مستحکم حکومت چھوڑ کر دنیا سے نہیں گیا۔ 19 جون 1747ء کو نادر شاہ کو قتل کر دیا گیا۔

    نادر شاہ کا تعلق کسی شاہی گھرانے یا نوابی خاندان سے نہیں تھا۔ کہتے ہیں‌ کہ وہ نوعمری میں‌ لکڑیاں کاٹ کر بیچتا تاکہ گزر بسر کرسکے۔ بعض کتابوں میں اسے گڈریا لکھا گیا ہے۔ وہ ایرانی سلطنت کے دارالحکومت سے دور ایک سرحدی علاقے میں پیدا ہوا۔ نادر شاہ باصلاحیت تھا، جس کے والد کا سایہ جلد اس کے سَر سے اٹھ گیا۔ اس کے باوجود صرف تیس برس کی عمر میں نادر شاہ تاج و تخت سنبھالنے کے ساتھ ایک طاقت ور اور منظّم فوج کا سالار بن چکا تھا۔

    نادر شاہ کی تاریخ و سنہ پیدائش پر مؤرخین میں کچھ اختلاف ہے، لیکن ایکسوردی کے مطابق یہ 1698 کا زمانہ تھا جب نادر شاہ درّہ غاز کے خطّے میں دستگرد نامی گاؤں میں پیدا ہوا۔ اس کی مادری زبان ترکی تھی لیکن قیاس ہے کہ جلد ہی نادر شاہ نے فارسی بھی سیکھ لی ہو گی۔ یہ علاقہ خراسان کے دارالحکومت مشہد سے شمال میں تھا۔

    نادر شاہ کے نام کے ساتھ اکثر افشار لکھا جاتا ہے جس کی وجہ والد کا ترکمانوں کے افشر قبیلے کے جانوروں کی نگرانی اور دیکھ بھال ہے۔ انھیں ایک چرواہا لکھا گیا ہے اور یہ بھی کہ وہ ایک باعزّت اور لائقِ اعتبار شخص تھے۔ اسی بنیاد پر بعض مؤرخین کے مطابق انھیں اپنے گاؤں کا سرپرست بنا دیا گیا تھا۔ نادر شاہ ایک دہری ثقافت میں پروان چڑھا۔ وہ ایرانی سلطنت میں ترکی زبان بولنے والا شہری تھا جس نے بعد میں فارسی ثقافت کو بھی سمجھا اور بڑا مقام و مرتبہ پایا۔

    نادر شاہ نے دس سال کی عمر میں گھڑ سواری اور شکار کرنا سیکھا۔ وہ تیر اندازی اور نیزہ بازی میں‌ ماہر تھا۔ والد کے انتقال کے بعد اس نے غربت دیکھی مگر پھر نادر شاہ پر قسمت نے یاوری کی اور وہ ایک بااثر حکم راں اور فاتح بنا۔

    اگرچہ نادر شاہ ہندوستان میں ایک ظالم اور نہایت خود سر حکم راں مشہور ہے، لیکن مؤرخ مائیکل ایکسوردی اس کی زندگی کا ایک جذباتی پہلو سامنے لاتے ہیں۔ ان کے مطابق بادشاہ بننے کے بعد اس نے اپنی غربت کے دنوں کے ایک ساتھی کو نوازتے ہوئے تلقین کی کہ ’مغرور مت ہو جانا، اپنا خچر اور وہ لکڑیاں چننا یاد رکھنا۔‘ اسی طرح جب نادر شاہ دلّی تاراج کرنے کے بعد سندھ کے راستے لوٹ رہا تھا تو ایک مقام پر اپنے ساتھیوں سے جذباتی انداز میں مخاطب ہوا اور کہا کہ کسی کو حقیر مت جانو، کیوں‌ کہ ہمّت اور حوصلے سے کام لے کر کوئی بھی بڑا مقام حاصل کرسکتا ہے۔

    مؤرخین کے مطابق نادر شاہ پندرہ سال کی عمر سے ایک مقامی سردار اور ابیورد شہر کے گورنر بابا علی بیگ کی سرپرستی میں رہا۔ بابا علی بیگ خراسان کے افشروں میں اہم سردار تھا۔ یہیں اس نے ایک تمنچی کی حیثیت سے اپنا سفر شروع کیا اور وقت کے ساتھ ساتھ سردار کا اعتماد حاصل کرلیا۔ یہیں سے نادر شاہ ایک فوج تیّار کرنے میں کام یاب ہوا اور آنے والے برسوں میں فاتح بن کر ابھرا۔ نادر شاہ کے ایک فوجی کمانڈر سے حکم ران بننے کی کہانی کئی موڑ لیتی ہے جس کی تفصیل یہاں ممکن نہیں۔ اب ہم نادر شاہ کی دلّی آمد کا احوال رقم کرتے ہیں۔

    نادر شاہ درۂ خیبر کے راستے برصغیر میں داخل ہوا اور پشاور اور لاہور کو فتح کر کے کرنال کے مقام تک پہنچا جو دلّی سے صرف 70 میل شمال میں تھا۔ مغلیہ سلطنت اس وقت اندرونی خلفشار اور شدید بدانتظامی کا شکار تھی اور کہتے ہیں کہ اس وقت کے بادشاہ محمد شاہ رنگیلا اس آندھی کا مقابلہ کرنے کے قابل ہی نہ تھے۔ نتیجتاً نادر شاہ کی فوج اور اس کے توپ خانے نے ہزاروں ہندوستانی فوجی بھون ڈالے، مگر خود ایرانی فوج کا بہت کم جانی نقصان ہوا۔ کرنال کی جنگ جیت کر نادر شاہ 1739 میں دلّی میں داخل ہوا اور دو ماہ تک وہاں قیام کیا۔ نادر شاہ یہاں اپنی حاکمیت قائم کرنے کے بجائے بہت سا مال و زر سمیٹ کر رخصت ہوگیا تھا۔

    دلّی میں قتلِ عام کی داستان کو نامی گرامی مؤرخین اور اہلِ قلم نے تصانیف میں شامل کیا ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ سلسلہ نادر شاہ کی فوج پر دلّی کی گلیوں میں حملوں کے بعد شروع ہوا۔ نادر شاہ نے فوج کو اپنی ہیبت اور دھاک بٹھانے کے لیے قتلِ عام کا حکم دیا، اور پھر بڑی خوں ریزی اور لوٹ‌ مار ہوئی۔ مشہور ہے کہ اس وقت 30 ہزار ہندوستانی جن میں سپاہی، امراء اور شہری شامل تھے، جان سے گئے۔ دوسری طرف مغل بادشاہ نے نادر شاہ کو دلّی سے رخصت کرتے ہوئے سونا اور چاندی اور دریائے سندھ کے مغرب میں اپنی کئی جاگیریں بھی نذر کیں۔ اسے کوہ نور، دریائے نور اور تاج ماہ نامی ہیرے بھی تحفتاً پیش کیے گئے۔

    نادر شاہ کی مغل دربار میں آمد اور بادشاہ کی حاکمیت کو تسلیم کرنے کا احوال مرزا مہدی نے اپنی تصنیف ’تاریخِ نادری‘ میں کچھ یوں لکھا ہے۔ ’اس دربار میں شہنشاہ اور اس کے امرا کو مدعو کیا گیا تھا۔ اس دربار میں نادر شاہ نے اپنے ہاتھوں سے محمد شاہ کے سَر پر ہندوستان کا تاج رکھا اور جواہرات سے جڑی ایک تلوار اور بیش قیمت طلائی کمربند عطا کیا۔ شہنشاہ کے امرا کو بھی خلعت فاخرہ پیش کی گئیں۔ شہنشاہ ہند نے اپنی تاجوری کی بحالی پر اظہار تشکر کے طور پر دریائے سندھ کے مغربی کنارے کا تمام علاقہ نادر شاہ کی عملداری میں دینے کی پیشکش کی۔ یہ علاقہ تبت اور کشمیر کی سرحدوں سے لے کر دریائے سندھ کے بحیرہ عرب میں اترنے تک پھیلا ہوا تھا۔ اس میں ٹھٹہ کے اضلاع، بندرگاہیں اور قلعے بھی شامل تھے۔‘

    مصنّف نے اسی کتاب میں دلّی سے نادر شاہ کی رخصتی کا نقشہ کھینچتے ہوئے لکھا ہے، ’نادر نے سَر پر ایک سرخ رنگ کی ٹوپی پہن رکھی تھی جس پر قیمتی موتی جڑا تھا۔ ٹوپی کے گرد سفید کشمیری شال لپٹی تھی۔ وہ کڑیل جوان، تنومند اور سیدھی کمر کے ساتھ بیٹھا نظر آ رہا تھا۔ اس کی داڑھی اور مونچھوں کو خضاب سے کالا کیا گیا تھا۔‘

    1745 میں نادر شاہ نے ترکوں‌ کی فوج کو شکست دی تھی جسے مؤرخین اس کی آخری شان دار فتح لکھتے ہیں۔ وہ مسلسل فوجی مہمّات اور شورش کے خلاف کمربستہ رہنے کی وجہ سے تھک چکا تھا۔ مؤرخین نے لکھا ہے کہ وہ چڑچڑا، شکی اور بدمزاج ہوتا گیا۔ اس نے اپنے بیٹے اور ولی عہد رضا قلی کو بھی اندھا کروا دیا تھا۔ اسے شک تھا کہ رضا قلی اس کے اقتدار کے خلاف سازش کررہا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ نادر شاہ مال و دولت کی ہوس میں‌ گرفتار ہوگیا تھا۔ اسی دور میں ایران میں جگہ جگہ بغاوتیں پھوٹنے لگیں اور نادر شاہ کی مخالفت بڑھتی چلی گئی۔

    کہا جاتا ہے کہ اگر نادر شاہ نہ ہوتا تو شاید آج ایران بھی نہ ہوتا۔ بلکہ وہ ’افغانوں، روسیوں اور عثمانیوں میں تقسیم ہو جاتا۔‘ غربت کی دلدل سے نکل کر ایرانی سلطنت کا اقتدار سنبھالنے والے نادر شاہ کو محافظ دستے کے چند سپاہیوں نے قتل کر دیا تھا۔

  • دلّی کو تاراج کرنے والا نادر شاہ جسے ایشیا کا نپولین کہا جاتا ہے

    دلّی کو تاراج کرنے والا نادر شاہ جسے ایشیا کا نپولین کہا جاتا ہے

    نادر شاہ وہ ایرانی بادشاہ تھا جس نے دلّی کو تاراج کیا۔ ہندوستان سے جاتے ہوئے نادر شاہ تختِ طاؤس اور کوہِ نور بھی ساتھ لے گیا تھا۔ اس ایرانی بادشاہ کی فوج اور اس کی فتوحات پر تاریخ کے ابواب بھرے پڑے ہیں جن میں اسے ایشیا کا نپولین اور سکندرِ ثانی بھی لکھا گیا ہے۔

    بہت کم عرصہ میں مغرب میں سلطنتِ عثمانیہ میں شامل عراق اور شام کے علاقوں سے لے کر مشرق میں دلّی تک متعدد جنگی مہمات میں کام یاب ہونے والی فوج کو نادر شاہ کی حکمتِ عملی اور دن رات کی محنت نے ہی یہاں تک پہنچایا تھا۔ 19 جون 1747ء کو نادر شاہ قتل کو کر دیا گیا تھا۔

    سکندرِ ثانی کہلانے والا نادر شاہ کسی شاہی یا نوابی خاندان میں پیدا نہیں ہوا تھا۔ وہ ایرانی سلطنت کے دارالحکومت سے دور سرحدی علاقے میں پیدا ہوا۔ وہ باصلاحیت تھا اور اگر اس کے والد زندہ رہتے تو ان کی وجہ سے بڑے ہوکر اپنے علاقے اور دربار سے وہ کچھ مراعات اور جگہ ضرور پالیتا، لیکن ایسا نہیں‌ ہوا۔ بلکہ گزر بسر کے لیے نادر شاہ کو جنگل سے لکڑیاں اکٹھی کر کے بیچنا پڑیں، لیکن زندگی کے تقریباً تیس برس بعد وہ ایک ایسی طاقت ور اور منظّم فوج کا کمانڈر بن چکا تھا جسے خود نادر شاہ نے تیاّر کیا تھا۔

    نادر شاہ کی تاریخ و سنہ پیدائش پر مؤرخین میں کچھ اختلاف ہے، لیکن ایکسوردی کے مطابق یہ 1698 تھا اور اس کی جائے پیدائش درّہ غاز کے خطّے میں دستگرد نامی گاؤں تھا۔ نادر شاہ کی مادری زبان ترکی تھی لیکن جلد ہی انھوں نے فارسی بھی سیکھ لی ہو گی۔ یہ علاقہ خراسان کے دارالحکومت مشہد سے شمال میں تھا۔

    نادر شاہ افشار کے والد ترکمانوں کے افشر قبیلے میں چرواہے تھے جو نچلے طبقے سے تھے لیکن باعزّت اور لائقِ اعتبار تھا۔ ایک خیال ہے کہ والد اپنے گاؤں کے بڑے بھی تھے۔نادر شاہ نے ایک دہری ثقافت میں رہتے ہوئے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا۔ وہ ایرانی سلطنت کا ترکی بولنے والا شہری تھا جو اس فارسی ثقافت سے بھی آشنا تھا جس نے استنبول سے سمرقند اور دلّی تک اثر قائم کرلیا تھا۔

    کہتے ہیں‌ کہ نادر شاہ نے دس سال کی عمر میں ایک گھڑ سواری اور شکار کرنا سیکھ لیا تھا، وہ تیر اندازی اور نیزہ بازی میں‌ ماہر ہوچکا تھا۔ بچپن میں والد کا انتقال ہوا تو یہ خاندان غربت کی دلدل میں پھنس گیا۔ لیکن قسمت نے یاوری کی اور بعد میں دنیا نے اسے ایک فاتح اور ایرانی سلطنت کا بادشاہ دیکھا۔

    مؤرخ مائیکل ایکسوردی کے مطابق کہ بادشاہ بننے کے بعد اپنے لکڑی چننے کے دنوں کے ایک ساتھی کو نوازتے ہوئے نادر شاہ نے اسے تلقین کی کہ ’مغرور مت ہو جانا، اس خچر کو اور لکڑیاں چننا یاد رکھنا۔‘ اسی طرح یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جب نادر شاہ دلّی تاراج کرنے کے بعد سندھ کے راستے لوٹ رہا تھا تو ایک مقام پر اپنے ساتھیوں کے سامنے جذباتی تقریر کی جس میں انھیں اپنی زندگی کی محرومیوں اور مشکلات سے متعلق بتایا اور کہا کہ کبھی کسی کو حقیر مت جانو، کیوں‌ کہ ہمّت اور حوصلے سے کام لے کر کوئی بھی بڑا مقام حاصل کرسکتا ہے۔

    مؤرخین کے مطابق وہ پندرہ سال کی عمر میں ایک مقامی سردار اور ابیورد شہر کے گورنر بابا علی بیگ کے زیرِ نگرانی رہنے لگا۔ بابا علی بیگ خراسان کے افشروں میں اہم سردار تھا۔ یہیں اس نے ایک تمنچی کی حیثیت سے اپنا سفر شروع کیا اور وقت کے ساتھ ساتھ سردار کا اعتماد حاصل کرلیا۔ یہیں سے وہ ایک فوج تیّار کرنے میں کام یاب ہوا، آنے والے برسوں میں نادر شاہ نے عسکری صلاحیتوں اور فوج کی طاقت سے خوب فائدہ اٹھایا۔ تاریخی واقعات طویل ہیں اور نادر شاہ کے ایک فوجی کمانڈر سے حکم ران بننے کی کہانی کئی موڑ لیتی ہے۔ ہم یہاں‌ اس کی دلّی آمد کا احوال رقم کرتے ہیں۔

    تاریخ بتاتی ہے کہ نادر شاہ درۂ خیبر کے راستے برصغیر کی حدود میں داخل ہوئے اور پشاور اور لاہور کو فتح کرتے ہوئے کرنال کے مقام تک پہنچ گئے جو دلی سے صرف 70 میل شمال میں تھا۔ مغلیہ سلطنت اس وقت اندرونی خلفشار اور شدید بدانتظامی کا شکار تھی اور کہتے ہیں کہ اس وقت کے بادشاہ محمد شاہ رنگیلا اس آندھی کا مقابلہ کرنے کے قابل ہی نہ تھے۔ نتیجتاً نادر شاہ کی فوج اور اس کے توپ خانے نے ہزاروں ہندوستانی فوجی بھون ڈالے، مگر خود ایرانی فوج کا بہت کم جانی نقصان ہوا۔ کرنال کی جنگ جیت کر نادر شاہ 1739 میں دلّی میں داخل ہوا اور دو ماہ تک وہاں قیام کیا۔

    دلّی میں ایرانی فوج پر گلیوں میں جب حملے کیے گئے تو نادر شاہ نے بھی قتلِ عام کا حکم دے دیا اور ایک اندازے کے مطابق اس میں تیس ہزار ہندوستانی جن میں سپاہی، امراء اور شہری شامل تھے، جان سے گئے۔

    مغل بادشاہ نے نادر شاہ کو دلّی پر کام یاب حملے کے بعد رخصت کرتے ہوئے زیورات، سونا اور چاندی کے ساتھ دریائے سندھ کے مغرب میں تمام مغل علاقے بھی تحفے میں دیے۔ نادر شاہ کو ملنے والے جواہرات میں سب سے زیادہ قابل ذکر کوہ نور، دریائے نور اور تاج ماہ نامی ہیرے تھے۔

    نادر شاہ نے مغل بادشاہ کو تخت سے نہیں ہٹایا اور واپسی سے پہلے انھیں بھی کئی تحائف پیش کیے اور ان کی مکمل حاکمیت کو تسلیم کرتے ہوئے اپنا راستہ لیا۔ مؤرخ مائیکل ایکسوردی نادر شاہ کی طاقت اور فتوحات کے بارے میں‌ لکھتے ہیں، ’نادر شاہ نے ایران کو افغانوں کے قبضے سے نکالا، عثمانی ترکوں کو ایرانی سرزمین سے بے دخل کیا، منصوبہ بندی سے روسیوں سے اپنے علاقے خالی کروائے، عثمانی سلطنت کے علاقوں پر حملہ کیا اور انھیں شکست دی، اپنے آپ کو ایران کا بادشاہ بنایا، افغانوں پر ان کے علاقوں میں گھس کر حملہ کیا اور وہ علاقے دوبارہ فتح کیے، پھر انڈیا پر حملہ کر کے دلّی فتح کی، وسطی ایشیا میں داخل ہو کر ترکمان اور ازبکوں کو قابو میں لا کر دوبارہ مغرب کا رخ کیا اور پھر سے عثمانیوں کے خلاف کام یاب جنگ کی۔‘

    نادر شاہ کی فتح کے بعد مغل سلطنت کے دربار کا احوال ’تاریخِ نادری‘ کے مرزا مہدی نے کچھ یوں لکھا ہے۔ ’اس دربار میں شہنشاہ اور اس کے امرا کو مدعو کیا گیا تھا۔ اس دربار میں نادر شاہ نے اپنے ہاتھوں سے محمد شاہ کے سَر پر ہندوستان کا تاج رکھا اور جواہرات سے جڑی ایک تلوار اور بیش قیمت طلائی کمربند عطا کیا۔ شہنشاہ کے امرا کو بھی خلعت فاخرہ پیش کی گئیں۔ شہنشاہ ہند نے اپنی تاجوری کی بحالی پر اظہار تشکر کے طور پر دریائے سندھ کے مغربی کنارے کا تمام علاقہ نادر شاہ کی عملداری میں دینے کی پیشکش کی۔ یہ علاقہ تبت اور کشمیر کی سرحدوں سے لے کر دریائے سندھ کے بحیرہ عرب میں اترنے تک پھیلا ہوا تھا۔ اس میں ٹھٹہ کے اضلاع، بندرگاہیں اور قلعے بھی شامل تھے۔‘

    نادر شاہ کے دلّی چھوڑنے کا احوال اسی مصنّف نے یوں تحریر کیا کہ ’نادر نے سَر پر ایک سرخ رنگ کی ٹوپی پہن رکھی تھی جس پر قیمتی موتی جڑا تھا۔ ٹوپی کے گرد سفید کشمیری شال لپٹی تھی۔ وہ کڑیل جوان، تنومند اور سیدھی کمر کے ساتھ بیٹھا نظر آ رہا تھا۔ اس کی داڑھی اور مونچھوں کو خضاب سے کالا کیا گیا تھا۔‘

    ترک افشار قبیلہ جو ایران کے صفوی شاہ کے وفادار تھے، اسی سے تعلق رکھنے والے نادر شاہ کے بارے میں انگریز تاجر جونس ہینوے، جس نے نادر شاہ کو دیکھا تھا، لکھتا ہے نادر کو لوگوں کے نام اور چہرے یاد رہتے۔ ان کی مالیات پر مضبوط گرفت تھی اور وہ ہر صوبے سے جمع ہونے والی آمدن کی صحیح مقدار جانتے۔ تقریباً چھ فٹ قد تھا، مضبوط جسم۔ وہ انتہائی توانا تھے اور دن میں صرف چار سے پانچ گھنٹے سوتے۔

    1745 میں اس نے ترکوں‌ کی فوج کو شکست دی جسے مؤرخین نے نادر شاہ کی آخری شان دار فتح لکھا ہے۔ دوسری طرف کہا جاتا ہے کہ وہ مسلسل فوجی مہمّات اور شورش کو دبانے میں مصروف رہنے کی وجہ سے تھک چکا تھا اور چڑچڑا، شکی اور بدمزاج ہو گیا تھا۔ اس نے اپنے بیٹے اور ولی عہد رضا قلی کو محض شک کی بنیاد پر کہ وہ باپ کو تخت سے اتارنا چاہتا ہے، اندھا کر دیا تھا۔ اسی طرح وہ مال و دولت کی ہوس میں‌ بھی گرفتار ہوگیا تھا۔ اسی زمانے میں ایران میں جگہ جگہ بغاوتیں پھوٹنے لگیں جن سختی سے کچلنے پر نادر شاہ کی مخالفت بڑھتی چلی گئی۔ اور ایک روز محافظ دستے کے سپاہیوں نے اسے خیمے میں داخل ہو کر قتل کر دیا۔

  • افغانستان: احمد شاہ بابا کی سلطنت میں طالبان کا عروج

    افغانستان: احمد شاہ بابا کی سلطنت میں طالبان کا عروج

    جرمنی کے انقلابی مفکّر اور متعدد تاریخی کتب کے مصنّف فریڈرک اینگلز 1857ء میں اپنی کتاب جنگِ افغانستان میں اس ملک کا جغرافیہ، حالات اور واقعات کو رقم کرتے ہوئے لکھا تھا:

    افغانستان فارس اور ہند کے درمیان میں ایشیا کا ایک وسیع ملک ہے، دوسری جانب سے یہ ہندو کش کے سلسلے اور بحرِ ہند کے درمیان پڑتا ہے۔ اس کے صوبہ جات میں فارس کا صوبہ خراسان، کشمیر اور سندھ شامل ہیں، خطہ پنجاب کا ایک حصّہ بھی شامل ہے۔ اس کے مرکزی شہر کابل، غزنی، پشاور اور قندھار ہیں۔

    درّانی سلطنت
    افغانستان کی تاریخ بھی ہزاروں سال پرانی ہے، اور یہ خطّہ مختلف ناموں سے پہچانا جاتا رہا ہے جسے درّانی سلطنت کے قیام کے بعد افغانستان کہا جانے لگا۔

    احمد شاہ ابدالی اور ماضی کا افغانستان
    یہ احمد شاہ ابدالی ہی تھے جن کی سلطنت کو آج ہم افغانستان کے نام سے جانتے ہیں۔

    تاریخ کی مختلف کتب میں لکھا ہے کہ اس ملک پر ایرانی، یونانی اور منگولوں کے بعد جب انگریزوں اور روسیوں نے قابض ہونا چاہا تو انھیں سخت مزاحمت اور بدترین حالات کا سامنا کرنا پڑا۔

    اس سلطنت کا جغرافیہ بھی ایران کے نادر شاہ اور اس سے قبل مختلف ادوار میں تبدیل ہوتا رہا ہے۔ سولھویں صدی سے اٹھارویں صدی عیسوی تک افغانستان کئی حصّوں میں منقسم رہا۔ تاہم ایک ملک کے طور پر افغانستان اٹھارویں صدی کے وسط میں احمد شاہ ابدالی کے دور میں ابھرا جنھیں سب سے عظیم افغان سمجھا جاتا ہے اور وہ بابائے افغان مشہور ہیں۔ انھیں عام طور پر احمد شاہ بابا بھی پکارا جاتا ہے۔

    احمد شاہ ابدالی ہی وہ حکم راں ہیں جنھوں نے افغانستان کو ریاست کے طور پر چلایا۔ ان کا دورِ حکومت 25 برس پر محیط ہے جس میں انھوں نے ملک اور قوم کی ترقّی کے لیے کام کیا اور ایک ذمہ دار اور سنجیدہ حکم راں کی حیثیت سے مشہور ہوئے۔

    نادر شاہ کا زمانہ، قتل اور نئے حکم راں کا انتخاب
    احمد شاہ ابدالی نے جن علاقوں پر مشتمل درّانی سلطنت کی بنیاد رکھی تھی وہ ایران کے نادر شاہ کے زیرِ نگیں تھے۔ یہ وہی نادر شاہ ہے جو تاریخ میں دلّی کو تاراج کرنے اور ہندوستان میں لوٹ مار اور قتلِ عام کے لیے مشہور تھا۔

    نادر شاہ کے قتل کے بعد احمد شاہ ابدالی نے افغانستان کی بنیاد رکھی۔ وہ نادر شاہ کی فوج میں کمانڈر تھے جنھیں 1747ء میں 25 برس کی عمر میں اتفاقِ رائے سے افغانستان کا بادشاہ منتخب کیا گیا۔ مؤرخین کے مطابق احمد شاہ کا قبیلہ درّانی کے نام سے مشہور ہوا اور ان کی سلطنت کو درّانی سلطنت کہا جانے لگا۔ احمد شاہ ابدالی کی وفات کے بعد ان کی اولاد نے وہاں حکومت کی اور بعد میں اقتدار ان کے ہاتھ سے نکل گیا۔ ان کا مقبرہ قندھار میں ہے۔

    تاریخ احمد شاہ کو ایک ایسے حکم راں کے طور پر جانتی ہے جنھوں نے افغان قبائل کو یکجا کرکے ایک ریاست تشکیل دی۔ انھوں نے جنگیں بھی لڑیں اور اپنی سلطنت کو وسعت دی۔ ان کا بڑا کارنامہ پانی پت کی جنگ میں ہندو مرہٹہ کو شکست دے کر ان کا زور توڑنا ہے جو ہندوستان میں مغلیہ حکومت اور دیگر ریاستوں کے لیے خطرہ بن گئے تھے۔

    آج کا افغانستان اور موجودہ حالات
    انیسویں صدی کے اوائل میں سیاست دانوں نے اسی درّانی سلطنت کے لیے باقاعدہ لفظ افغانستان استعمال کرنا شروع کیا تھا۔

    افغانستان ایک زمین بند ملک ہے جس کے جنوب اور مشرق میں پاکستان، مغرب میں ایران، شمال مشرق میں چین جب کہ شمال کی طرف ترکمانستان، ازبکستان اور تاجکستان موجود ہیں اور یہ بھارت کا بھی ہم سایہ ہے۔

    مسلمان اکثریت والا یہ ملک اس وقت دنیا کی توجّہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ امریکا اور اتحادی افواج کے افغانستان سے انخلا کے ساتھ ہی طالبان کی تیزی سے پیش قدمی اور سرکاری فوج کی پسپائی کے بعد گزشتہ دنوں کابل میں طالبان کا داخل ہوکر کنٹرول سنبھال لینا، اس وقت بین الاقوامی میڈیا پر زیرِ بحث ہے۔

  • تختِ طاؤس: مغلیہ شان و شوکت کی وہ نشانی جسے نادر شاہ اپنے ساتھ لے گیا!

    تختِ طاؤس: مغلیہ شان و شوکت کی وہ نشانی جسے نادر شاہ اپنے ساتھ لے گیا!

    شہاب الدین محمد المعروف "شاہ جہاں” نے 1628 سے 1658 تک ہندوستان پر راج کیا۔ وہ پانچواں مغل شہنشاہ تھا جس نے ممتاز محل کی محبت میں‌ وہ عظیم اور اعجوبہ عمارت تعمیر کروائی جسے دنیا بھر میں‌ "تاج محل” کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔

    شاہ جہاں کے دور کو مغلیہ سلطنت کے عروج کا عہدِ زریں بھی کہا جاتا ہے۔ 1658 میں شاہ جہاں کو اُس کے بیٹے نے معزول کر دیا تھا۔

    شاہ جہاں فنِ تعمیر میں‌ دِل چسپی رکھتا تھا اور اس کے عہد میں کئی خوب صورت اور یادگار عمارتیں تعمیر کی گئیں جو آج بھی سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہیں۔ تاج محل ان میں‌ سے ایک ہے۔

    اسی مغل شہنشاہ شاہ جہاں نے تخت نشینی کے بعد اپنے لیے ایک نہایت قیمتی تخت تیار کرایا تھا جسے ’’تختِ طاؤس‘‘ کا نام دیا گیا۔

    اس تخت کا طول تیرہ جب کہ عرض ڈھائی گز اور اونچائی پانچ گز رکھی گئی تھی۔ تخت کے چھے پائے تھے جو خالص سونے سے تیار کیے گئے تھے۔

    ہندوستان کے فرماں‌ روا کے اس تخت پر چڑھنے کے لیے تین چھوٹے چھوٹے زینے تھے جن میں قیمتی جواہر جڑے گئے تھے۔

    اس تخت کے دو کناروں‌ پر دو خوب صورت مور بنائے گئے تھے جن کی چونچ میں موتیوں کی لڑی دیکھی جاسکتی ہے۔ ان موروں کے سینوں کو سرخ یاقوت سے سجایا گیا تھا جب کہ ٹیک یا پشت والے حصّے پر قیمتی ہیرے جڑے ہوئے تھے۔

    نادر شاہ نے دہلی پر حملہ کیا تو ہر طرف بڑی تباہی اور بربادی ہوئی اور عمارتوں‌ کو نقصان پہنچا، یہی نہیں‌ بلکہ ان میں موجود قیمتی ساز و سامان، اور ہر قسم کی دولت لوٹ لی گئی جس میں‌ تختِ طاؤس بھی شامل تھا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اس حملے کے بعد‌ نادر شاہ یہ تخت بھی اپنے ساتھ ایران لے گیا تھا۔

  • ہنوز دلی دور است؟؟ ۔۔ آج نادرشاہ نے دہلی فتح کیا تھا

    ہنوز دلی دور است؟؟ ۔۔ آج نادرشاہ نے دہلی فتح کیا تھا

    دہلی وہ بد نصیب شہر ہے جو اپنی تما م تر تاریخ میں بیرونی حملہ آوروں کی پہلی ترجیح رہا ، خصوصاً وسط ایشیائی ممالک ہمیشہ سے اپنے خزانے دہلی کو لوٹ کر بھرتے رہے ہیں۔

    آج ہی کے دن یعنی 22 مارچ 1739 کو ایران کے شہنشاہ نادر شاہ افشار نے مغل فرماروا محمد شاہ رنگیلا کو شکست دے کر دہلی میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہوا تھا۔یقیناً آج کا دن برصغیر کی تاریخ کا ایک المنا ک دن تھا۔

    نادر شاہ افشار ، ایران میں افشار خاندان کا بانی حاکم تھا، اس نے آٹھ مارچ 1736 کو سلطنت کی باگ ڈور سنبھالی۔ا پنی حکومت کے انصرام کے لیے اسے ایک بڑی رقم کی ضرورت تھی اور ان دنوں تخت دہلی دولت سے مالامال لیکن عسکری لحاظ سے انتہائی کمزور تھا۔ اورنگزیب عالمگیر کے دور میں جس زوال کی بنیاد رکھی گئی تھی ، وہ اب سامنے آچکا تھا۔

    اس ساری صورتحال کو دیکھتے ہوئے نادر شاہ نے ہندوستان کے دروازے یعنی درہ خیبر کے ذریعے مئی 1738 میں شمال مشرقی سرحدی صوبوں پر حملے شروع کیے اور اور مارچ 1739 میں وہ دہلی سے سو کوس دور کرنال کے مقام پر مغل شہنشاہ سے حتمی جنگ کے لیے خیمہ زن ہوا۔

    دوسری جانب اپنے عروج کے دنوں میں اکبر، شاہجہاں اور اورنگزیب جیسے عظیم جرنیل حاکموں کے ہاتھ میں رہنے والی مغل سلطنت اب اورنگ زیب کے پرپوتے محمد شاہ رنگیلا کے ہاتھ میں تھی۔ وہ 1702 میں میں پیدا ہوئے تھے، ان کا پیدائشی نام روشن اختر تھا۔1719 میں سید برادران نے محض 17 برس کی عمر میں تخت پر بٹھا کر ابوالفتح نصیر الدین روشن اختر محمد شاہ کا خطاب دیا، شاعری سے رغبت ہونے کے سبب وہ’ سدارنگیلا‘ تھا۔ ان کی زندگی میں ہی عوام اور خواص میں ان کی شہرت ’ محمد شاہ رنگیلا‘ کےنام سے ہوگئی تھی اور آج بھی انہیں اسی نام سے پکارا جاتا ہے۔

    محمد شاہ نے نادر شاہ کے حملے تک کوئی جنگ نہیں لڑی تھی ، ان کا سارا وقت درباری گویوں، مراثیوں ، رقاصاؤں، قصہ گوئی کرنے والوں اور دیگر فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والے فنکاروں کی صحبت میں گزرتا تھا۔ تیموری خون جو کبھی ہندوستان کے طول وعرض میں تیغ کے جوہر دکھایا کرتا تھا اب شاعری کی بندشوں اور مصوری کے خطوں میں الجھا ہوا تھا۔ کاروبار سلطنت سارا امرا کے ہاتھ میں تھا اور وہ نادر شاہ کے خطرے کا ادراک کرکے محمد شاہ کو مسلسل اس کے بارے میں اطلاع دے رہے تھے، بجائے اس کے کہ دہلی سے باہر نکل کر نادر شاہ کو راستے میں کہیں روکا جاتا۔۔ محمد شاہ نے ایک ہی گردان لگائے رکھی کہ ۔۔ ’’ہنوز دلی دور است‘۔ نتیجہ یہ نکلا کہ نادرشاہ کرنال تک پہنچ گیا۔

    چارو ناچار محمد شاہ رنگیلا کو جنگ کے لیے نکلنا پڑا ، ان کے لشکر میں ایک لاکھ سپاہی اور اس سےزیادہ تعدا میں گویے ، مراثی ، مالشیے اور اسی نوعیت کے دیگر سول افراد موجود تھے۔ سپاہیوں نے بھی طویل عرصے سے کوئی جنگ نہیں دیکھی تھی اور ان کی تیغیں زنگ کھا چکی تھیں۔ دوسری جانب نادر شاہ کے ساتھ 55 ہزار ایسے لڑاکے تھے جو ایران سے دہلی تک جنگ کی بھٹی میں تپ کر کندن بن چکے تھے۔ تین ہی گھنٹے میں جنگ کا فیصلہ ہوگیا اور نادر شاہ دہلی میں ایک فاتح کی حیثیت سے داخل ہوا، پیچھے محمد شاہ رنگیلا قیدی بنے کھڑے تھے ۔۔۔ صد حیف کے چند ہی گھنٹوں میں مغل تاجدار کا یہ حال ہو چکا تھا۔

    نادر شاہ نے لگ بھگ پونے دو مہینے قیام کیا ۔۔۔ اس دوران افواہ پھیل گئی کہ نادر شاہ قتل ہوگیا تو دہلی کے عوام نے نادر شاہی سپاہیوں پر حملے شروع کردیے۔ جس کے بعد وہ قتا ل ہوا کہ دہلی والوں نے صدیوں سے ایسا قتال نہ دیکھا تھا۔ گلیاں خون سے بھر گئیں، ہزاروں عورتوں کی عصمت دری کی گئی۔ نجانے کتنی ہی خواتین نے اپنے آنگن کے کنووں میں کود کر اپنی جان دے دی، یہاں تک کہ محمد شاہ رنگیلا کا وزیر نظام الملک قتال میں مشغول نادر شاہ کے سامنے اس حال میں آیا کہ نہ سر پر پگ تھی اور نہ ہی پیروں نعلین۔اسی حال میں اس نے خسرو کا شعر پڑھا:

    دگر نمانده کسی تا بہ تیغ ناز کشی … مگر کہ زنده کنی مرده را و باز کشی

    .(اور کوئی نہیں بچا جسے تو اپنی تیغِ ناز سے قتل کرے ۔۔۔ سوائے اس کے کہ مردوں کو زندہ کرے اور دوبارہ قتل کرے)

    اس کےبعد نادر شاہ نے قتال سے ہاتھ روکا لیکن لوٹ مار کا بازار گرم کردیا۔ دہلی کے کسی گھر میں کوئی قیمتی شے نہ بچی، شاہی محل کا خزانہ جسے بابر سے لے کر اورنگ زیب تک کے زور آور مغل حکمرانوں نے بھرا تھا لوٹ لیا گیا۔ محل میں کوئی قیمتی شے نہ بچی۔ کوہ نور نام کا مشہور زمانہ ہیرا مغل شہنشاہ نے اپنی پگڑی میں چھپا رکھا تھا لیکن ایک طوائف نے اس کی مخبری کردی اور نادر شاہ نے جاتے وقت اپنی پگڑی بدل کر اسے بھی ہتھیالیا۔ اس کے بعد یہ بد نصیب ہیرا کبھی دہلی کی ملکیت نہ بن سکا، اور کئی ہاتھوں سے ہوتا ہوا اب ملکہ برطانیہ کےتاج کا حصہ ہے۔

    تاریخ دانوں کے محتاط اندازےکے مطابق نادرشاہ اس زمانے میں یہاں سے جو دولت لوٹ کر لے گیا تھا اس کی مالیت 156 ارب روپے تھی ، حد یہ ہے کہ ایران واپسی پر نادر شاہ نے تین سال تک کے لیے اپنے عوام پر ٹیکس معاف کردیا تھا۔ اس واقعے کو معلوم تاریخ کی سب سے بڑی مسلح ڈکیتی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

    اس ساری روداد سے ہمیں لگتا ہے کہ محمد شاہ ایک انتہائی ناکارہ بادشاہ تھا، لیکن ایسابھی نہیں ہے۔ عسکری میدان میں یقیناً اس کی صلاحیتیں نا ہونے کےبرابر تھیں ۔ لیکن اس نے تخت سنبھالتے ہی بادشاہ گر سید برادران سے چھٹکارہ پا کر ایک خود مختار بادشاہ کے طور پر حکومت شروع کی۔ اس کے زمانے میں مرہٹھوں کے ساتھ ایک طویل جنگ جاری رہی، دکن اور مالوہ کے حکام نے خود مختاری کا سفر شروع کیا اور نادر شاہ کے حملے نے اس کی سلطنت کی اینٹ سے اینٹ بجادی ۔۔ اس کے باوجود بھی وہ سلطنت پر منظم کنٹرول برقرار رکھنے میں کامیاب رہا اور مغل سلطنت ایک حد سے زیادہ شکست و ریخت کا شکار نہیں ہوئی۔ محمد شاہ نے 28 سال 212 دن حکومت کی ۔