Tag: نادر شاہ افشار

  • دلّی کو تاراج کرنے والا نادر شاہ جسے ایشیا کا نپولین کہا جاتا ہے

    دلّی کو تاراج کرنے والا نادر شاہ جسے ایشیا کا نپولین کہا جاتا ہے

    نادر شاہ وہ ایرانی بادشاہ تھا جس نے دلّی کو تاراج کیا۔ ہندوستان سے جاتے ہوئے نادر شاہ تختِ طاؤس اور کوہِ نور بھی ساتھ لے گیا تھا۔ اس ایرانی بادشاہ کی فوج اور اس کی فتوحات پر تاریخ کے ابواب بھرے پڑے ہیں جن میں اسے ایشیا کا نپولین اور سکندرِ ثانی بھی لکھا گیا ہے۔

    بہت کم عرصہ میں مغرب میں سلطنتِ عثمانیہ میں شامل عراق اور شام کے علاقوں سے لے کر مشرق میں دلّی تک متعدد جنگی مہمات میں کام یاب ہونے والی فوج کو نادر شاہ کی حکمتِ عملی اور دن رات کی محنت نے ہی یہاں تک پہنچایا تھا۔ 19 جون 1747ء کو نادر شاہ قتل کو کر دیا گیا تھا۔

    سکندرِ ثانی کہلانے والا نادر شاہ کسی شاہی یا نوابی خاندان میں پیدا نہیں ہوا تھا۔ وہ ایرانی سلطنت کے دارالحکومت سے دور سرحدی علاقے میں پیدا ہوا۔ وہ باصلاحیت تھا اور اگر اس کے والد زندہ رہتے تو ان کی وجہ سے بڑے ہوکر اپنے علاقے اور دربار سے وہ کچھ مراعات اور جگہ ضرور پالیتا، لیکن ایسا نہیں‌ ہوا۔ بلکہ گزر بسر کے لیے نادر شاہ کو جنگل سے لکڑیاں اکٹھی کر کے بیچنا پڑیں، لیکن زندگی کے تقریباً تیس برس بعد وہ ایک ایسی طاقت ور اور منظّم فوج کا کمانڈر بن چکا تھا جسے خود نادر شاہ نے تیاّر کیا تھا۔

    نادر شاہ کی تاریخ و سنہ پیدائش پر مؤرخین میں کچھ اختلاف ہے، لیکن ایکسوردی کے مطابق یہ 1698 تھا اور اس کی جائے پیدائش درّہ غاز کے خطّے میں دستگرد نامی گاؤں تھا۔ نادر شاہ کی مادری زبان ترکی تھی لیکن جلد ہی انھوں نے فارسی بھی سیکھ لی ہو گی۔ یہ علاقہ خراسان کے دارالحکومت مشہد سے شمال میں تھا۔

    نادر شاہ افشار کے والد ترکمانوں کے افشر قبیلے میں چرواہے تھے جو نچلے طبقے سے تھے لیکن باعزّت اور لائقِ اعتبار تھا۔ ایک خیال ہے کہ والد اپنے گاؤں کے بڑے بھی تھے۔نادر شاہ نے ایک دہری ثقافت میں رہتے ہوئے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا۔ وہ ایرانی سلطنت کا ترکی بولنے والا شہری تھا جو اس فارسی ثقافت سے بھی آشنا تھا جس نے استنبول سے سمرقند اور دلّی تک اثر قائم کرلیا تھا۔

    کہتے ہیں‌ کہ نادر شاہ نے دس سال کی عمر میں ایک گھڑ سواری اور شکار کرنا سیکھ لیا تھا، وہ تیر اندازی اور نیزہ بازی میں‌ ماہر ہوچکا تھا۔ بچپن میں والد کا انتقال ہوا تو یہ خاندان غربت کی دلدل میں پھنس گیا۔ لیکن قسمت نے یاوری کی اور بعد میں دنیا نے اسے ایک فاتح اور ایرانی سلطنت کا بادشاہ دیکھا۔

    مؤرخ مائیکل ایکسوردی کے مطابق کہ بادشاہ بننے کے بعد اپنے لکڑی چننے کے دنوں کے ایک ساتھی کو نوازتے ہوئے نادر شاہ نے اسے تلقین کی کہ ’مغرور مت ہو جانا، اس خچر کو اور لکڑیاں چننا یاد رکھنا۔‘ اسی طرح یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جب نادر شاہ دلّی تاراج کرنے کے بعد سندھ کے راستے لوٹ رہا تھا تو ایک مقام پر اپنے ساتھیوں کے سامنے جذباتی تقریر کی جس میں انھیں اپنی زندگی کی محرومیوں اور مشکلات سے متعلق بتایا اور کہا کہ کبھی کسی کو حقیر مت جانو، کیوں‌ کہ ہمّت اور حوصلے سے کام لے کر کوئی بھی بڑا مقام حاصل کرسکتا ہے۔

    مؤرخین کے مطابق وہ پندرہ سال کی عمر میں ایک مقامی سردار اور ابیورد شہر کے گورنر بابا علی بیگ کے زیرِ نگرانی رہنے لگا۔ بابا علی بیگ خراسان کے افشروں میں اہم سردار تھا۔ یہیں اس نے ایک تمنچی کی حیثیت سے اپنا سفر شروع کیا اور وقت کے ساتھ ساتھ سردار کا اعتماد حاصل کرلیا۔ یہیں سے وہ ایک فوج تیّار کرنے میں کام یاب ہوا، آنے والے برسوں میں نادر شاہ نے عسکری صلاحیتوں اور فوج کی طاقت سے خوب فائدہ اٹھایا۔ تاریخی واقعات طویل ہیں اور نادر شاہ کے ایک فوجی کمانڈر سے حکم ران بننے کی کہانی کئی موڑ لیتی ہے۔ ہم یہاں‌ اس کی دلّی آمد کا احوال رقم کرتے ہیں۔

    تاریخ بتاتی ہے کہ نادر شاہ درۂ خیبر کے راستے برصغیر کی حدود میں داخل ہوئے اور پشاور اور لاہور کو فتح کرتے ہوئے کرنال کے مقام تک پہنچ گئے جو دلی سے صرف 70 میل شمال میں تھا۔ مغلیہ سلطنت اس وقت اندرونی خلفشار اور شدید بدانتظامی کا شکار تھی اور کہتے ہیں کہ اس وقت کے بادشاہ محمد شاہ رنگیلا اس آندھی کا مقابلہ کرنے کے قابل ہی نہ تھے۔ نتیجتاً نادر شاہ کی فوج اور اس کے توپ خانے نے ہزاروں ہندوستانی فوجی بھون ڈالے، مگر خود ایرانی فوج کا بہت کم جانی نقصان ہوا۔ کرنال کی جنگ جیت کر نادر شاہ 1739 میں دلّی میں داخل ہوا اور دو ماہ تک وہاں قیام کیا۔

    دلّی میں ایرانی فوج پر گلیوں میں جب حملے کیے گئے تو نادر شاہ نے بھی قتلِ عام کا حکم دے دیا اور ایک اندازے کے مطابق اس میں تیس ہزار ہندوستانی جن میں سپاہی، امراء اور شہری شامل تھے، جان سے گئے۔

    مغل بادشاہ نے نادر شاہ کو دلّی پر کام یاب حملے کے بعد رخصت کرتے ہوئے زیورات، سونا اور چاندی کے ساتھ دریائے سندھ کے مغرب میں تمام مغل علاقے بھی تحفے میں دیے۔ نادر شاہ کو ملنے والے جواہرات میں سب سے زیادہ قابل ذکر کوہ نور، دریائے نور اور تاج ماہ نامی ہیرے تھے۔

    نادر شاہ نے مغل بادشاہ کو تخت سے نہیں ہٹایا اور واپسی سے پہلے انھیں بھی کئی تحائف پیش کیے اور ان کی مکمل حاکمیت کو تسلیم کرتے ہوئے اپنا راستہ لیا۔ مؤرخ مائیکل ایکسوردی نادر شاہ کی طاقت اور فتوحات کے بارے میں‌ لکھتے ہیں، ’نادر شاہ نے ایران کو افغانوں کے قبضے سے نکالا، عثمانی ترکوں کو ایرانی سرزمین سے بے دخل کیا، منصوبہ بندی سے روسیوں سے اپنے علاقے خالی کروائے، عثمانی سلطنت کے علاقوں پر حملہ کیا اور انھیں شکست دی، اپنے آپ کو ایران کا بادشاہ بنایا، افغانوں پر ان کے علاقوں میں گھس کر حملہ کیا اور وہ علاقے دوبارہ فتح کیے، پھر انڈیا پر حملہ کر کے دلّی فتح کی، وسطی ایشیا میں داخل ہو کر ترکمان اور ازبکوں کو قابو میں لا کر دوبارہ مغرب کا رخ کیا اور پھر سے عثمانیوں کے خلاف کام یاب جنگ کی۔‘

    نادر شاہ کی فتح کے بعد مغل سلطنت کے دربار کا احوال ’تاریخِ نادری‘ کے مرزا مہدی نے کچھ یوں لکھا ہے۔ ’اس دربار میں شہنشاہ اور اس کے امرا کو مدعو کیا گیا تھا۔ اس دربار میں نادر شاہ نے اپنے ہاتھوں سے محمد شاہ کے سَر پر ہندوستان کا تاج رکھا اور جواہرات سے جڑی ایک تلوار اور بیش قیمت طلائی کمربند عطا کیا۔ شہنشاہ کے امرا کو بھی خلعت فاخرہ پیش کی گئیں۔ شہنشاہ ہند نے اپنی تاجوری کی بحالی پر اظہار تشکر کے طور پر دریائے سندھ کے مغربی کنارے کا تمام علاقہ نادر شاہ کی عملداری میں دینے کی پیشکش کی۔ یہ علاقہ تبت اور کشمیر کی سرحدوں سے لے کر دریائے سندھ کے بحیرہ عرب میں اترنے تک پھیلا ہوا تھا۔ اس میں ٹھٹہ کے اضلاع، بندرگاہیں اور قلعے بھی شامل تھے۔‘

    نادر شاہ کے دلّی چھوڑنے کا احوال اسی مصنّف نے یوں تحریر کیا کہ ’نادر نے سَر پر ایک سرخ رنگ کی ٹوپی پہن رکھی تھی جس پر قیمتی موتی جڑا تھا۔ ٹوپی کے گرد سفید کشمیری شال لپٹی تھی۔ وہ کڑیل جوان، تنومند اور سیدھی کمر کے ساتھ بیٹھا نظر آ رہا تھا۔ اس کی داڑھی اور مونچھوں کو خضاب سے کالا کیا گیا تھا۔‘

    ترک افشار قبیلہ جو ایران کے صفوی شاہ کے وفادار تھے، اسی سے تعلق رکھنے والے نادر شاہ کے بارے میں انگریز تاجر جونس ہینوے، جس نے نادر شاہ کو دیکھا تھا، لکھتا ہے نادر کو لوگوں کے نام اور چہرے یاد رہتے۔ ان کی مالیات پر مضبوط گرفت تھی اور وہ ہر صوبے سے جمع ہونے والی آمدن کی صحیح مقدار جانتے۔ تقریباً چھ فٹ قد تھا، مضبوط جسم۔ وہ انتہائی توانا تھے اور دن میں صرف چار سے پانچ گھنٹے سوتے۔

    1745 میں اس نے ترکوں‌ کی فوج کو شکست دی جسے مؤرخین نے نادر شاہ کی آخری شان دار فتح لکھا ہے۔ دوسری طرف کہا جاتا ہے کہ وہ مسلسل فوجی مہمّات اور شورش کو دبانے میں مصروف رہنے کی وجہ سے تھک چکا تھا اور چڑچڑا، شکی اور بدمزاج ہو گیا تھا۔ اس نے اپنے بیٹے اور ولی عہد رضا قلی کو محض شک کی بنیاد پر کہ وہ باپ کو تخت سے اتارنا چاہتا ہے، اندھا کر دیا تھا۔ اسی طرح وہ مال و دولت کی ہوس میں‌ بھی گرفتار ہوگیا تھا۔ اسی زمانے میں ایران میں جگہ جگہ بغاوتیں پھوٹنے لگیں جن سختی سے کچلنے پر نادر شاہ کی مخالفت بڑھتی چلی گئی۔ اور ایک روز محافظ دستے کے سپاہیوں نے اسے خیمے میں داخل ہو کر قتل کر دیا۔

  • ایشیا کے فاتح اعظم نادر شاہ کا 272 واں یومِ وفات

    ایشیا کے فاتح اعظم نادر شاہ کا 272 واں یومِ وفات

    آج ایشیا کے نپولین نادرشاہ افشار کا یومِ وفات ہے، مغل سلطنت ، روس ، افغانیہ اور عثمانی ترکوں کو مسلسل شکست دینے والا یہ جرنیل اپنے ہی محافظ دستے کے سپاہیوں کے ہاتھوں آج کے دن یعنی 19 جون 1747 کو قتل ہوا تھا۔

    نادر شاہ کا ابتدائی نام نادر قلی تھا ، وہ خراسان میں درہ غاز کے مقام پر ایک خانہ بدوش گھرانے میں 22 اکتوبر 1688ء کو پیدا ہوا۔ جب جوان ہوا تو مختلف سرداروں سے وابستہ ہوکر کئی جنگوں میں بہادری اور شجاعت کا مظاہرہ کیا اور بالآخر طہماسپ دوم کی ملازمت کرلی۔ نادر نے طہماسپ دوم کے ساتھ مل کر مشہد اور ہرات کو مقامی سرداروں سے چھین لیا۔ جب افغان سردار میر اشرف نے خراسان پر قبضہ کرنے کے لیے حملہ کیا تو نادر نے مہن دوست کے مقام پر 1729ء میں افغانوں کو شکست فاش دی اور اس کے بعد اصفہان اور پھر شیراز پر قبضہ کرکے افغانوں کو ایران سے نکال باہر کیا۔

    افغانوں کے مقابلے میں نادر کی ان کامیابیوں کو دیکھ کر روس نے 1732ء میں گیلان اور ماژندران کے صوبے ایران کو واپس کردیے۔ اسی سال طہماسپ نے عثمانی ترکوں سے صلح کرلی جس کے تحت ترکوں نے تبریز، ہمدان اور لورستان کے صوبے خالی کردیے لیکن گرجستان اور آرمینیا اپنے قبضے میں رکھے۔ نادر نے اس صلاح نامے کو مسترد کر دیا اور اصفہان پہنچ کر 1732ء میں طہماسپ کو معزول کرکے اس کے لڑکے عباس سوم کو تخت پر بٹھادیا۔

    نادر اگرچہ 4 سال بعد تخت نشین ہوا لیکن اس سال سے وہ حقیقی طور پر خود مختار ہوچکا تھا۔ اس کے بعد نادر عثمانی سلطنت کے علاقوں پر حملہ آور ہوا۔ تین سال تک ترکوں سے لڑائی ہوتی رہی۔ جولائی 1733ء میں بغداد کے قریب ایک لڑائی میں نادر کو شکست ہوئی اور وہ زخمی بھی ہو گیا لیکن اسی سال کرکوک کے مقام پر اور 1735ء میں یریوان کے پاس باغ وند کے مقام پر نادر نے ترکوں کو فیصلہ کن شکستیں دیں اور گرجستان اور آرمینیا پر قبضہ کر لیا۔

    باغ وند کی عظیم کامیابی کے بعد نادر نے روس سے باکو اور داغستان کے صوبے خالی کرنے کا مطالبہ کیا اور دھمکی دی کہ اگر یہ صوبے خالی نہ کیے تو وہ عثمانی ترکوں سے مل کر روس کے خلاف کارروائی کرے گا۔ روس نے نادر کی اس دھمکی پر بغیر کسی جنگ کے باکو اور داغستان کو خالی کر دیا۔

    نادر شاہ نے عباس سوم کو معزول کرکے 1736ء میں اپنی بادشاہت کا اعلان کر دیا۔ 17 اکتوبر 1736ء کو ایران اور ترکی کے درمیان میں صلح نامے پر باضابطہ دستخط ہو گئے۔ ترکوں نے گرجستان اور آرمینیا پر ایران کا قبضہ تسلیم کر لیا اور دونوں سلطنتوں کی حدود وہی قرار پائیں جو سلطان مراد چہارم کے زمانے میں مقرر ہوئی تھیں۔

    اب نادر نے 80 ہزار فوج کے ساتھ قندھار کا رخ کیا جو ابھی تک افغانوں کے قبضے میں تھا۔ 9 ماہ کے طویل محاصرے کے بعد 1738ء میں قندھار فتح کر لیا گیا۔ افغانوں کی ایک تعداد نے کابل میں میں پناہ حاصل کرلی جو مغلیہ سلطنت کا حصہ تھا۔ نادر نے ان پناہ گزینوں کی واپسی کا مطالبہ کیا لیکن جب اس کو کوئی جواب نہیں ملا تو نادر نے کابل بھی فتح کر لیا۔ مغلیہ سلطنت کا کھوکھلا پن ظاہر ہوچکا تھا اس لیے نادر نے اب دہلی کا رخ کیا۔ وہ درۂ خیبر کے راستے برصغیر کی حدود میں داخل ہوا اور پشاور اور لاہور کو فتح کرتا ہوا کرنال کے مقام تک پہنچ گیا جو دہلی سے صرف 70 میل شمال میں تھا۔

    نادر کے توپ خانے نے ہزاروں ہندوستانی فوج بھون ڈالے لیکن ایرانی فوج کے گنتی کے چند سپاہی ہلاک ہوئے۔ نادر مارچ 1739ء میں فاتحانہ انداز میں دہلی میں داخل ہوا اور دو ماہ تک دہلی میں قیام پزیر رہا۔

    ہنوز دلی دور است؟؟

    نادر شاہ دہلی کو چھوڑ کر اور بادشاہت محمد شاہ کو واپس کرکے واپس تو چلا گیا لیکن 200 سال کی جمع شدہ شاہی محل کی دولت اور شاہجہاں کا مشہور تخت طاؤس بشمول کوہ نور ہیرا اپنے ساتھ ایران لے گیا۔ اس کی واپسی سندھ کے راستے ہوئی۔ دریائے سندھ تک کا سارا علاقہ اس نے اپنی سلطنت میں شامل کر لیا۔ ایران پہنچنے سے پہلے نادر شاہ نے 1740ء میں بخارا اور خیوہ پر بھی قبضہ کر لیا۔ دونوں ریاستوں نے ایران کی بالادستی قبول کرلی۔

    اب سلطنت ایران پورے عروج پر پہنچ چکی تھی اس کی حدود شاہ عباس کے زمانے سے بھی زیادہ وسیع ہو گئی تھیں۔ 1741ء اور 1743ء کے درمیان میں نادر شاہ داغستان کے پہاڑوں میں بغاوت کچلنے میں مصروف رہا لیکن اس میں اس کو ناکامی ہوئی۔ 1745ء میں ایک لاکھ 40 ہزار سپاہیوں پر مشتمل عثمانی ترکوں کی ایک فوج کو پھر شکست دی جو اس کی آخری شاندار فتح تھی۔

    کہا جاتا ہے کہ داغستان کی شورش کو دبانے میں ناکامی نے نادر کو چڑچڑا بنادیا تھا۔ اب وہ شکی اور بد مزاج ہو گیا تھا اور اپنے لائق بیٹے اور ولی عہد رضا قلی کو محض اس بے بنیاد شک کی بنیاد پر کہ وہ باپ کو تخت سے اتارنا چاہتا ہے، اندھا کر دیا۔ اس کے بعد ایران میں جگہ جگہ بغاوتیں پھوٹنے لگیں۔

    ان بغاوتوں کو جب نادر نے سختی سے کچلا تو اس کی مخالفت عام ہو گئی۔ شیعہ خاص طور پر اس کے مخالف ہو گئے۔ آخر کار19 جون 1747ء کو اس کے محافظ دستے کے سپاہیوں نے ایک رات اس کے خیمے میں داخل ہوکر اسے سوتے میں قتل کر دیا۔