Tag: نازی

  • پیزا فراہم کرنے والی دنیا کی تیسری بڑی کمپنی کو معافی مانگنی پڑ گئی

    پیزا فراہم کرنے والی دنیا کی تیسری بڑی کمپنی کو معافی مانگنی پڑ گئی

    اوہائیو: امریکی ریاست اوہائیو کی ایک فیملی کو پیزا فراہم کرنے کے بعد دنیا کی تیسری بڑی پیزا چَین کو معافی مانگنی پڑ گئی۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق اوہائیو کے ایک شہر مڈل برگ ہائیٹس کی ایک فیملی نے جب پیزا کھانے کے لیے ڈبے کو کھولا تو خاتون مسٹی لاسکا نے دیکھا کہ پیزا کاٹا نہیں گیا تھا، تاہم خاتون اور ان کے شوہر نے جب دیکھا کہ پیزا پر پپرونی کے ٹکڑوں سے جرمن نازیوں کا نشان سواستیکا بنایا گیا ہے تو وہ ششدر رہ گئے۔

    جرمن نازیوں کا مشہور نشان سواستیکا دیکھ کر دونوں میاں بیوی کو شدید غصہ آیا، انھوں نے پیزا واپس کرنا چاہا لیکن ان کی کال اٹھائی نہیں گئی، پیزا کی دکان بند ہو چکی تھی، جس کے بعد خاتون نے پیزا کی تصویر سوشل میڈیا پر پوسٹ کر دی۔

    اگلے دن لٹل سیزرز (Little Caesars) جو دنیا کی تیسری بڑی پیزا کمپنی ہے، نے ان سے رابطہ کیا اور واقعے پر معذرت کر لی، پیزا چَین نے کہا کہ ان کے ملازمین نے اعتراف کر لیا ہے کہ انھوں نے ایسا مذاق میں کیا، اور یہ فروخت کے لیے نہیں تھا، تاہم واقعے کے لیے ذمہ دار دو ملازمین کو نوکری سے فارغ کر دیا گیا ہے۔

    مقامی میڈیا نے لٹل سیزرز کا ایک بیان بھی چھاپا جس میں نسلی تعصب کی مذمت کی گئی تھی، اور ملازمین کو نکالنے کی بھی تصدیق کی گئی۔

    مسٹی لاسکا کا کہنا تھا کہ پیزا ان کے شوہر جیسن نے جا کر خریدا تھا، اس وقت دکان بند ہونے والی تھی، اور پیزا تیار پڑا ہوا تھا۔ انھوں نے کہا کہ ملازمین کی برطرفی کوئی تسلی بخش اقدام نہیں تھا، کیوں کہ جو مذاق کیا گیا تھا وہ بھیانک تھا۔ تاہم دونوں میاں بیوی یہ نہیں بتا سکے کہ کیا کرنا چاہیے تھا۔

    لاسکا نے کہا کہ اس قسم کی نفرت بڑی تیزی سے پھیلی ہے، اور اسے سنجیدگی سے نہیں لیا گیا اسی لیے آج دنیا اتنی تقسیم نظر آ رہی ہے، آج کے ماحول میں اس قسم کے اشارے مکمل طور پر ناقابل قبول ہیں۔

    خاتون کا کہنا تھا کہ انھیں امید ہے کہ ان دو ملازمین نے اس واقعے سے یہ قیمتی سبق سیکھ لیا ہوگا کہ محبت پھیلانی چاہیے، نفرت نہیں۔

  • جرمنی نے ویڈیو گیمز میں ’سواسٹیکا‘ کا نشان دکھانے کی اجازت دے دی

    جرمنی نے ویڈیو گیمز میں ’سواسٹیکا‘ کا نشان دکھانے کی اجازت دے دی

    برلن : جرمن حکومت کی جانب سے وولفینسٹائن نامی ویڈیو گیم میں سواسٹیکا سمیت نازی ازم کے دیگر نشانات دکھانےپر عائد پابندی اٹھالی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق یورپی ملک جرمنی کی حکومت کی جانب سے وولفینسٹائن گیم میں نازی ازم کے نشان ’سواسٹیکا‘ اور نازی کے دیگر نشانات کو ویڈیو گیمز میں دکھانے پر عائد پابندی ختم کردی۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ وولفینسٹائن ویڈیو گیمز نازی کا نشان دکھانے پر پابندی تھی تاہم طویل عرصے بحث کے بعد مذکورہ ویڈیو گیم میں سواسٹیکا دکھانے پر پابندی اٹھائی گئی ہے، وولفینسٹائن گیم میں موجود کرداروں کو نازی فورسز سے جنگ کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

    جرمن خبر رساں ادارے کے مطابق مذکورہ گیم میں جرمنی کے کرمنل کوڈ کی خلاف ورزی کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔

    خیال رہے کہ جرمنی کے کرمنل کوڈ کے تحت ملکی آئین کے خلاف استعمال ہونے والے نشانات کو  گیمز میں دکھانے کی اجازت نہیں تھی جس میں سواسٹیکا بھی شامل تھا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ وولفینسٹائن گیم کی دوسری سیریز میں کمپنی نے جرمن آمر ہٹلر کو بغیر مونچھوں کے دکھایا ہے اور ساتھ ہی ساتھ ہٹلر دور کے جرمنی کے جھنڈے پر موجود سواسٹیکا کے نشان کو ہٹا کر مثلث بنایا گیا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ کمپنی کی جانب سے وولفینسٹائن گیم میں کی جانے والی تبدیلی کے بعد گیم کھیلنے والے افراد نے شدید غصّے اور نفرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ویڈیو گیمز کے ساتھ بھی فلموں جیسا رویہ اختیار کیا جارہا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق گیم کھلنے والے صارفین کا کہنا ہے کہ فلم کا فن کا عکس کہا جاتا ہے اس لیے اس پر پابندی عائد نہیں جاتی اور تحیقیقی، سائنسی اور تاریخی اہداف کے لیے استعمال ہونے والی چیزوں اور مواد پر پابندی نہیں لگائی جاسکتی۔

    خیال رہے کہ سنہ 1990 سے گیموں میں نازی ازم کے نشانات دکھانے پر پابندی عائد تھی۔

  • نازیوں سے ہماراموازنہ نہ کیاجائے‘ انجیلامرکل

    نازیوں سے ہماراموازنہ نہ کیاجائے‘ انجیلامرکل

    برلن : جرمن چانسلر انجیلا مرکل نے ترک صدر کےبیان پرجواب دیتے ہوئےکہاہےکہ وہ جرمن حکام کا نازیوں سےموازنہ کرنا بندکریں۔

    تفصیلات کےمطابق رواں ماہ کےآغازپر ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے جرمنی کے کئی شہروں میں اپنےحامی ترک شہریوں کی ریلیوں کو روکے جانےپرشدید تنقید کرتے ہوئےاسےنازی دور کےاقدام سے تشبیہ دی تھی۔

    جرمن چانسلر انجیلامرکل نےکہاہےکہ اگر ترک صدر نے اپنےبیانات جاری رکھے تو ترک سیاستدانوں کی مہماتی تقریبات پرپابندی لگادی جائےگی۔

    خیال رہےکہ جرمنی میں یہ ریلیاں ترکی میں اگلےماہ ہونے والی آئینی تبدیلیوں سے کیےجانے والے ریفرنڈم کےلیےمنعقد کی جانی تھیں اور اس کا مقصد جرمنی میں 30لاکھ باشندوں کوووٹ دینے پرقائل کرناتھا۔

    مزید پڑھیں:جرمن قوم نازیوں کی باقیات اور فسطائیت کی مظاہر ہیں، ترک صدر اردگان

    ترک صدر رجب طیب اردگان نےدو روز قبل خطاب کرتے ہوئےکہاکہ آپ یعنیٰ جرمن حکام نازی دور کےاقدامات کولاگوکرکےٹھیک کررہے ہیں۔

    بعدازاں اگلے ہی روز جاپانی وزیراعظم شنزو ایبے سے ملاقات کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب میں انجیلا مرکل نے کہا کہ نازیوں سے ہمارا موازنہ کیے جانے کے عمل کا بند ہونا ضروری ہے۔

    واضح رہےکہ جرمن چانسلر نے ترک صدر کےبیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس قسم کے بیانات میں لوگوں کی قربانیوں کو نہیں دیکھا جاتا جن پر مقدمے چلے اور وہ نازیوں کے ہاتھوں قتل ہوئے۔

  • جرمن قوم نازیوں کی باقیات اور فسطائیت کی مظاہر ہیں، ترک صدر اردگان

    جرمن قوم نازیوں کی باقیات اور فسطائیت کی مظاہر ہیں، ترک صدر اردگان

    استنبول : ترک صدر طیب اردوگان نے کہا ہے کہ ڈچ قوم نازیوں کی باقیات ہیں جو اب بھی فسطائیت کا مظاہرہ کر رہی ہے۔

    ترک صدر نے یہ بیان ہالینڈ کے شہر روٹرڈیم میں ترکی کے وزیر خارجہ مولود چاویش اوغلو کی پرواز کو اترنے کی اجازت نہ دینے پر اپنے ردعمل میں دیا جس میں ترک صدر نے ڈچ قوم کو ’نازیوں کی باقیات اور فسطائی‘ قرار دیا ہے۔

    استنبول میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے ترک صدر طیب اردوگان نے ہالینڈ کو متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ ہالینڈ جتنی مرضی ہمارے وزیرِ خارجہ کی پرواز پر پابندی لگادیں لیکن یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ پھر وہاں سے بھی پروازیں ترکی میں کسی بھی قیمت پر نہیں اتر سکیں گی۔

    جس پر ہالینڈ کے وزيراعظم مارک روٹی نے ایک بیان میں کہا کہ اس معاملے کو ایک مناسب طریقہ کار کے تحت بھی حل کیا جاسکتا تھا لیکن ترک صدر کی پابندیوں والی دھمکی کیے کرائے پر پانی پھیر دیا ہے اور اس بیان نے معاملے کی سنگینی میں اضافے سوا کچھ نہیں کیا ہے۔

    صدر رجب طیب اردوغان کی جانب سے بیرون ملک بسنے والے ترک شہریوں کو اپریل میں ہونے والے ریفرنڈم میں حمایت حاصل کرنے کے لیے بیرون ملک جلسے اور ریلیوں کا اہتمام کرنے پر یورپی ممالک کے درمیان تعلقات میں کشیدگی ابھر کر سامنے آئی ہے اور آسٹریا، جرمنی اور سوئٹزرلینڈ بھی ترک صدر کے جلسے منسوخ کرچکے ہیں۔

    دوسری جانب ترک صدر کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے جرمن چانسلر انگیلا مرکل نے کہا کہ نازیوں کے ساتھ موازنہ کرنے سے صرف تکلیف میں اضافہ ہوگا اور اس سے کچھ حاصل نہ ہوسکے گا لہذا ایسے بیانات نا قابل قبول اور افسوس ناک ہیں۔

    واضح رہے ترک وزیر خارجہ کو صدر طیب اردوگان کو مزید اختیارات دینے کے لیے ہونے والے ریفرنڈم سے متعلق ایک ریلی سے خطاب کرنا تھا جس پر شہر کے میئر کا کہنا تھا کہ اس ریلی پر سکیورٹی وجوہات کے سبب پابندی عائد کی گئی تھی۔

    یاد رہے ترکی کے وزیر خارجہ نے خبردار کیا تھا کہ اگر ان کے دورے میں رکاوٹ ڈالی گئی تو سخت قسم کی پابندیاں عائد کی جا سکتی ہیں تاہم اس کے باوجود ہالینڈ نے ترک وزیر خارجہ کو اپنی سرزمین پر اترنے کی اجازت نہیں دی جس کے باعث ترک وزیرخارجہ کی ریلی منسوخ کردی گئی۔

    ترک صدر کے سیاسی ناقدین نے کہا کہ ترکی میں 16 اپریل کو ریفرنڈم کے لیے ووٹ ڈالے جائیں گے لہذا طیب اردوگان یورپ میں بسنے والے ترک شہریوں کو اپنی طرف راغب کرنا چاہتے ہیں جو ووٹ دینے کے مجاز ہیں جس میں تقریباً 14 لاکھ ترک صرف جرمنی میں رہتے ہیں۔