Tag: ناسا

  • ناسا کا اعلیٰ ترین اعزاز بنگلہ دیشی انجینئر کے نام

    ناسا کا اعلیٰ ترین اعزاز بنگلہ دیشی انجینئر کے نام

    واشنگٹن: عالمی خلائی ادارے ناسا کے سالانہ اعلیٰ ترین اعزاز کا حقدار اس بار ایک بنگلہ دیشی نژاد طالبہ کو قرار دیا گیا ہے جنہوں نے ٹیکنالوجی کے میدان میں بہترین ایجاد کی۔

    امریکی پروفیسر رابرٹ ایچ گوڈرڈ کے نام پر قائم ناسا کے پروگرام گوڈرڈ اسپیس فلائٹ سینٹرز انٹرنل ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ (آئی آر اے ڈی) میں بنگلہ دیشی نژاد انجینئر محمودہ سلطانہ کو سال کے بہترین تخلیق کار کا ایوارڈ دیا گیا ہے۔

    سلطانہ نے خلا میں مزید بہتر طریقے سے کام کرنے والے نینو مٹیریلز اور ڈیٹیکرز بنانے کا تجربہ کیا تھا جو کامیاب رہا اور سلطانہ کو اس اعلیٰ اعزاز کا حقدار بھی قرار دیا گیا۔

    مزید پڑھیں: تھرکول منصوبے میں مصروف عمل تھر کی پہلی خاتون انجینئر

    ایوارڈ کا اعلان کرتے ہوئے گوڈرڈ کے چیف ٹیکنالوجسٹ نے سلطانہ کی تعریف کرتے ہوئے کہا وہ ایک بہترین تکنیکی و تخلیقی ذہن کی مالک اور متاثر کن صلاحیتوں کی حامل ہے۔

    انہوں نے کہا کہ وہ اس کم عمر طالبہ کی کامیابی سے نہایت خوش ہیں اور انہیں یقین ہے کہ سلطانہ مستقبل میں مزید کارنامے سر انجام دے گی۔

    سلطانہ اپنے بارے میں بتاتی ہیں، ’جب ہم اس ادارے میں نئے نئے آئے تھے تو سب کے پاس نہایت اچھوتے آئیڈیاز تھے جو باہر کی دنیا کے افراد کے لیے نہایت انوکھے اور ناقابل عمل تھے۔ لیکن سب نے اپنے تخیلات و تصورات پر کام کیا اور سب ہی اس میں کامیاب ہوئے‘۔

    محمودہ سلطانہ اس وقت دنیا کے بہترین تحقیقی اداروں میں سے ایک میساچوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) کے ساتھ بھی طبیعات کے ایک پروجیکٹ پر کام کر رہی ہیں۔

    مزید پڑھیں: خلا کو تسخیر کرنے والی باہمت خواتین

    سلطانہ نے اپنے خاندان کے ساتھ بہت کم عمری میں بنگلہ دیش سے ہجرت کرلی تھی جس کے بعد انہوں نے اپنی تعلیم کیلی فورنیا میں مکمل کی۔ بعد ازاں انہوں نے ایم آئی ٹی سے ہی کیمیکل انجینئرنگ میں پی ایچ ڈی بھی کی۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • مصر کے 30 اہراموں جتنا بڑا سیارچہ زمین کے قریب سے گزرنے کو تیار

    مصر کے 30 اہراموں جتنا بڑا سیارچہ زمین کے قریب سے گزرنے کو تیار

    میامی: اس صدی میں جسامت کے لحاظ سے سب سے بڑا سیارچہ کل یکم ستمبر کو زمین سے ایک محفوظ فاصلے پر گزرے گا۔

    عالمی خلائی ایجنسی ناسا کا کہنا ہے کہ گو کہ اس سیارچے کا فاصلہ زمین سے اس قدر ہوگا کہ یہ زمین کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا، تاہم یہ فاصلہ گزشتہ سیارچوں کے مقابلے میں بے حد کم ہوگا اور یہ زمین سے صرف 70 لاکھ کلو میٹر کے فاصلے سے گزرے گا۔

    یہ سیارچہ سنہ 1981 میں دوربین کی زد میں آیا تھا اور اس وقت کی جدید نرسنگ کی بانی فلورنس نائٹ اینگل کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے اس سیارچے کا نام فلورنس رکھا گیا تھا۔

    ناسا کا کہنا ہے کہ زمین سے اس قدر کم فاصلے پر گزرنے والے یہ سیارچہ اپنی جسامت کے لحاظ سے سب سے بڑا ہے۔ ان کے مطابق اس سیارچے کا حجم لگ بھگ اتنا ہے جتنا مصر کے 30 اہراموں کو یکجا کردیا جائے۔

    یاد رہے کہ اس سے قبل زمین کے قریب سے گزرنے والے تمام سیارچے مختصر جسامت کے تھے۔

    مزید پڑھیں: جبل الطارق سے بڑا سیارچہ زمین کے قریب

    ناسا کا کہنا ہے کہ اس سے قبل بھی کئی سیارچے زمین کی طرف آئے ہیں تاہم وہ زمین کی فضا میں داخل ہوتے ہی تباہ ہوجاتے ہیں۔ ان کے مطابق لاکھوں کروڑوں سال میں ایک ہی واقعہ ایسا رونما ہوتا ہے جب کوئی سیارچہ زمین سے آ ٹکرائے اور زمین پر تباہی مچادے۔

    سائنس دانوں کو یقین ہے کہ فلورنس سیارچہ ہرگز ان سیارچوں میں سے نہیں جو زمین کے لیے کسی نقصان کا سبب بن سکے۔

    ان کا کہنا ہے کہ زمین کے قریب سے گزرتے ہوئے وہ اس سیارچے کی تصاویر اور معلومات حاصل کریں گے تاکہ وہ مستقبل کی خلائی ریسرچز میں معاون ثابت ہو سکے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • قطبی روشنیوں کا خلا سے خوبصورت نظارہ

    قطبی روشنیوں کا خلا سے خوبصورت نظارہ

    آپ نے قطب شمالی اور قطب جنوبی پر پھوٹنے والی خوبصورت اور رنگین روشنیوں کے بارے میں ضرور سنا ہوگا۔ یہ روشنیاں سورج کی روشنی کے ذرات کے زمین کی فضا سے مخصوص ٹکراؤ کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہیں۔

    چند مخصوص ایام میں رات کے وقت پھوٹنے والی یہ روشنیاں صرف قطب شمالی اور قطب جنوبی کے علاقے میں ہی پیدا ہوتی ہیں۔

    ناسا کے ایک خلا باز نے زمین سے 250 میل کے فاصلے سے ان روشنیوں کی نہایت خوبصورت ویڈیو جاری کی ہے۔

    عالمی خلائی اسٹیشن پر موجود خلا باز جیک فشر نے اس وقت اس ویڈیو کو ریکارڈ کیا جب وہ ان کے اوپر سے 17 ہزار 5 سو میل فی گھنٹہ کی رفتار سے گزر رہا تھا۔

    رواں برس اپریل سے عالمی خلائی اسٹیشن پر موجود فشر اکثر و بیشتر خلا سے زمین کی نہایت خوبصورت تصاویر جاری کرتے رہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’یہ زمین مجھے اپنی خوبصورتی سے روز بے حد حیران کردیتی ہے‘۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • نظام شمسی سے خارج شدہ سیارہ پلوٹو کے خوبصورت پہاڑ اور میدان

    نظام شمسی سے خارج شدہ سیارہ پلوٹو کے خوبصورت پہاڑ اور میدان

    عالمی خلائی ادارے ناسا نے نظام شمسی سے خارج شدہ نویں سیارے پلوٹو کی نئی تصاویر اور ویڈیوز جاری کی ہیں جن میں سیارے کے خوبصورت پہاڑ اور برفیلے میدان دکھائی دے رہے ہیں۔

    اب سے 11 سال قبل بونے سیارے پلوٹو کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے ناسا کی جانب سے نیو ہورائزنز (نئے افق) نامی خلائی جہاز کو روانہ کیا گیا۔

    اسی سال پلوٹو سیارے کو اس کی مختصر جسامت کی وجہ سے بونا سیارہ قرار دیا گیا اور اسے باقاعدہ نظام شمسی سے خارج کردیا گیا جس کے بعد اب ہمارے نظام شمسی میں 8 سیارے موجود ہیں۔

    نیو ہورائزنز کو زمین سے پلوٹو تک پہنچنے میں 9 سال کا طویل عرصہ لگا۔ یاد رہے کہ پلوٹو اور ہماری زمین کے درمیان 4 ارب کلومیٹر سے بھی زائد فاصلہ ہے۔

    جولائی سنہ 2015 میں یہ خلائی جہاز پلوٹو پر پہنچ کر رکا نہیں بلکہ اس کے اوپر سے گزرتا ہوا مزید آگے چلا گیا۔ اس دوران اس نے پلوٹو کی واضح ترین تصاویر کھینچیں جو اس سے قبل کسی صورت نہ لی جاسکی تھیں۔

    نیو ہورائزنز کی جانب سے بھیجے گئے ڈیٹا کو ناسا نے اب مزید نئی تکنیکوں کے ساتھ جاری کیا ہے۔

    ناسا نے خلائی جہاز کے اس سفر کی باقاعدہ ویڈیو جاری کی ہے جس میں نیو ہورائزنز پلوٹو کے اوپر سے گزرتا دکھائی دے رہا ہے۔

    اس مختصر سفر میں پلوٹو کے برفانی میدان جنہیں اسپٹنک پلینیشیا کہا جاتا ہے، اور کھائی زدہ پہاڑ نمایاں طور پر دکھائی دے رہے ہیں۔

    ناسا نے نیو ہورائزنز سے موصول شدہ پلوٹو کے 5 چاندوں کی تصاویر بھی جاری کی ہیں جن میں سب سے بڑے چاند کا نام چیرون ہے۔ خلائی جہاز نے چیرون چاند کے اوپر سے بھی اڑان بھری۔

    خلائی ادارے کے مطابق یہ پلوٹو سیارے کی واضح ترین تصاویر اور ویڈیوز ہیں جنہیں اس سے قبل حاصل کرنا ناممکن تھا۔

    خلا کے بارے میں حیران کن اور دلچسپ حقائق جانیں

    کائنات کے بارے میں مزید حقائق جانیں


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • سیارہ مشتری کے ہنگامہ خیز طوفان کی نئی تصاویر جاری

    سیارہ مشتری کے ہنگامہ خیز طوفان کی نئی تصاویر جاری

    عالمی خلائی ادارے ناسا نے نظام شمسی کے پانچویں اور سب سے بڑے سیارے مشتری کے عظیم اور ہنگامہ خیز طوفان کی نئی تصاویر جاری کردی ہیں جو قدرے قریب سے کھینچی گئی ہیں۔

    یہ تصاویر مشتری کے گرد محو سفر خلائی گاڑی جونو نے کھینچی ہیں جو انسانی تاریخ میں پہلی بار اس طوفان کے اس قدر نزدیک سے گزری۔

    خلائی گاڑی جونو اس طوفان سے 9 ہزار کلومیٹر بلندی سے گزری اور اس دوران اس نے طوفان کی تصاویر و معلومات اکٹھی کیں۔

    ساؤتھ ویسٹ ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے سائنسدان اسکاٹ بولٹن کا کہنا ہے کہ کئی سو سالوں سے اس طوفان کا مشاہدہ کیا جارہا تھا اور اس کے بارے میں جاننے کی کوشش کی جارہی تھی۔ ’اب جو ہمارے پاس تصاویر ہیں وہ سب سے بہترین ہیں‘۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ان نئی واضح تصاویر کے ذریعے اس طوفان کے بارے میں مزید بہتر طور پر جاننے میں مدد مل سکتی ہے۔

    مشتری کا عظیم طوفان کیا ہے؟

    سیارہ مشتری پر ایک غیر معمولی حد تک بڑا سرخ دھبہ موجود ہے جو دراصل مشتری کا وہ عظیم اور ہنگامہ خیز طوفان ہے جسے سائنسدان میگا اسٹورم کا نام دیتے ہیں۔

    اس طوفان کا مشاہدہ اس وقت سے کیا جارہا ہے جب سے دوربین ایجاد ہوئی ہے یعنی سترہویں صدی سے۔ اس کا حجم زمین سے بھی بڑا ہے۔

    ناسا کے مطابق یہ طوفان 10 ہزار میل کے رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔

    خلائی گاڑی جونو کا سفر

    اگست سنہ 2011 میں لانچ کی جانے والی خلائی گاڑی جونو نظام شمسی کے سب سے بڑے سیارے مشتری کے مشاہدے کے مشن پر ہے جس کے دوران یہ سیارے کی تصاویر و معلومات جمع کرے گی۔

    جونو کی رفتار 165 ہزار میل فی گھنٹہ ہے۔ باسکٹ بال گراؤنڈ سائز کی یہ گاڑی شمسی توانائی سے چلتی ہے جس پر 1 ارب 10 کروڑ ڈالر کی لاگت آئی ہے۔

    جونو کا یہ مشن فروری 2018 تک جاری رہے گا جس کے بعد جونو مشتری کی فضا کے اندر ہی غوطہ لگا کر تباہ ہوجائے گا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • سیارہ مشتری کے عظیم طوفان کی جھلک

    سیارہ مشتری کے عظیم طوفان کی جھلک

    میامی: نظام شمسی کے پانچویں اور سب سے بڑے سیارے مشتری کے گرد محو سفر خلائی گاڑی جونو نے مشتری کے عظیم طوفان کے نہایت قریب جا کر اس کا مشاہدہ کیا۔ اس کی کھینچی گئی تصاویر بہت جلد جاری کردی جائیں گی۔

    عالمی خلائی ادارے ناسا کے مطابق جونو کی یہ پرواز مشتری کے عظیم طوفان سے اس قدر قریب سے گزرنے والی پہلی پرواز ہے۔

    مشتری کا عظیم طوفان کیا ہے؟

    سیارہ مشتری پر ایک غیر معمولی حد تک بڑا سرخ دھبہ موجود ہے جو دراصل مشتری کا وہ عظیم اور ہنگامہ خیز طوفان ہے جسے سائنسدان میگا اسٹورم کا نام دیتے ہیں۔

    اس طوفان کا مشاہدہ اس وقت سے کیا جارہا ہے جب سے دوربین ایجاد ہوئی ہے یعنی سترہویں صدی سے۔ اس کا حجم زمین سے بھی بڑا ہے۔

    ناسا کی جانب سے ابتدائی طور پر جاری کی گئی معلومات کے مطابق یہ طوفان 10 ہزار میل کے رقبے پر پھیلا ہوا طوفان ہے۔

    جونو اس طوفان سے 5 ہزار 6 سو میل کے فاصلے پر گزرا اور اس دوران اس نے اس کی کئی تصاویر کھینچیں جبکہ اس کے بارے میں معلومات بھی اکٹھی کیں جن کا جائزہ لیا جارہا ہے۔

    خلائی گاڑی جونو کا سفر

    اگست سنہ 2011 میں لانچ کی جانے والی خلائی گاڑی جونو نظام شمسی کے سب سے بڑے سیارے مشتری کے مشاہدے کے مشن پر ہے جس کے دوران یہ سیارے کی تصاویر و معلومات جمع کرے گی۔

    جونو کی رفتار 165 ہزار میل فی گھنٹہ ہے۔ باسکٹ بال گراؤنڈ سائز کی یہ گاڑی شمسی توانائی سے چلتی ہے جس پر 1 ارب 10 کروڑ ڈالر کی لاگت آئی ہے۔

    جونو کا یہ مشن فروری 2018 تک جاری رہے گا جس کے بعد جونو مشتری کی فضا کے اندر ہی غوطہ لگا کر تباہ ہوجائے گا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • مریخ پر یہ حیران کن چہرہ کس کا دکھائی دیا؟

    مریخ پر یہ حیران کن چہرہ کس کا دکھائی دیا؟

    ہم میں سے اکثر افراد کو چاند یا بادلوں میں مختلف اشکال دکھائی دیتی ہیں۔ تاہم اب مریخ پر بھی مختلف چہرے دکھائی دینے لگے ہیں جو صرف عام افراد کو ہی نہیں بلکہ سائنسدانوں کو بھی نظر آرہے ہیں۔

    سنہ 2001 میں ناسا کی جانب سے کھینچی جانے والی مریخ کی تصاویر کی مزید نئی اور بہتر تکنیک سے جانچ کی گئی اور سائنس دان مریخ کی سطح پر ایک عجیب و غریب سا چہرہ دیکھ کر حیران رہ گئے۔

    ناسا نے اس بات کی وضاحت نہیں کہ وہ کیا جغرافیائی عوامل تھے جن کے باعث مریخ کی زمین پر یہ چہرہ بن گیا ہے۔

    اس موقع پر ناسا نے مریخ کی مزید تصاویر بھی جاری کیں۔

    یاد رہے کہ مریخ زمین کا پڑوسی سیارہ ہے اور اس کی وسعت زمین کی وسعت سے نصف کم ہے۔ مریخ کو سرخ سیارہ بھی کہا جاتا ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • زمین جیسی جسامت کے 10 نئے سیارے دریافت

    زمین جیسی جسامت کے 10 نئے سیارے دریافت

    واشنگٹن: امریکی خلائی ادارے ناسا نے ہمارے نظام شمسی سے باہر زمین کے جیسی جسامت رکھنے والے 10 نئے سیارے دریافت کرلیے ہیں جن پر ممکنہ طور پر پانی موجود ہوسکتا ہے۔

    سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہ 10 سیارے اپنے اپنے سورجوں کے گرد اتنے ہی فاصلے پر گردش کر رہے ہیں جتنے فاصلے پر ہماری زمین اپنے سورج کے گرد گردش کر رہی ہے۔

    ان کا کہنا ہے کہ یہ فاصلہ ان سیاروں کو زندگی کے لیے قابل سیارہ بنا دیتا ہے۔

    ناسا کی ابتدائی تحقیق کے مطابق ان سیاروں کی زمین پتھریلی ہے اور وہاں پانی کی موجودگی کا بھی امکان ہے۔

    یہ دریافت ناسا کی دوربین کیپلر کی بدولت عمل میں آئی جو اپنے مشن کے دوران کل 4 ہزار سے زائد سیارے دریافت کر چکی ہے۔ ان سیاروں کی تصدیق کیپلر کے علاوہ دوسری ٹیلی اسکوپس نے بھی کی ہے۔

    ماہرین کے مطابق کیپلر سے کی جانے والی تحقیق شاید اس سوال کا جواب دے سکے کہ ہماری کائنات میں زمین جیسے کتنے سیارے موجود ہیں؟

    یاد رہے کہ چند روز قبل بھی ایک ایسا سیارہ دریافت کیا گیا تھا جو سورج سے بھی دو گنا زیادہ گرم ہے۔

    مزید پڑھیں: سورج سے دوگنا گرم سیارہ دریافت

    یہ سیارہ جسامت میں ہمارے نظام شمسی کے سب سے بڑے سیارے مشتری سے بھی بڑا تھا اور ماہرین کے مطابق اس کی فضا کا درجہ حرارت 4 ہزار 300 ڈگری سینٹی گریڈ ہوسکتا ہے۔

    اس سے چند ماہ قبل سائنس دانوں نے ہماری کائنات میں ایک نیا نظام شمسی بھی دریافت کیا تھا جس میں 7 سیارے ایک ستارے کے گرد محو گردش تھے۔

    ٹریپسٹ 1 نامی یہ نظام زمین سے 39 نوری سال کے فاصلے پر موجود ہے اور ماہرین کے مطابق یہ زون یا علاقہ نہ تو اتنا گرم ہے جہاں پانی فوراً بھاپ بن جائے اور نہ ہی اتنا سرد ہے کہ ہر چیز منجمد ہوجائے۔ گویا یہ زندگی کے لیے نہایت سازگار ماحول ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔ 

  • سورج سے دوگنا گرم سیارہ دریافت

    سورج سے دوگنا گرم سیارہ دریافت

    سائنس دانوں نے ہمارے نظام شمسی سے دور ایک ایسا سیارہ دریافت کیا ہے جو سورج سے بھی دوگنازیادہ گرم ہے۔

    زمین سے 650 نوری سال کے فاصلے پر واقع یہ سیارہ کیلٹ 9 سیارہ مشتری سے دگنی جسامت کا ہے جو اپنے سورج کے گرد محو گردش ہے۔

    سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس سیارے کی گردش اپنے سورج کے گرد اس قدر تیز ہے کہ یہ ایک چکر صرف 2 دن میں مکمل کرلیتا ہے گویا یہاں کا ایک سال ہماری زمین کے 2 دن جتنا ہے۔

    اسے دریافت کرنے والے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ سیارے میں دن کے اوقات میں درجہ حرات 4 ہزار 300 ڈگری سینٹی گریڈ ہوسکتا ہے۔ ان کے مطابق اس کی عمر صرف 30 کروڑ سال ہے اور یہ جسامت میں ہمارے سورج سے بھی دوگنا ہے۔

    ماہرین کے مطابق سیارہ اپنے ستارے سے تقریباً جڑا ہوا ہے یعنی اس کا ایک ہی رخ عام طور پر اپنے سورج کی طرف رہتا ہے۔

    سیارے کی اپنی حرارت اور پھر اپنے سورج سے اس قدر قریب ہونے کے باعث سیارہ آہستہ ختم ہورہا ہے کیونکہ اس کا سورج بے تحاشہ تابکار شعاعیں خارج کر رہا ہے۔

    چونکہ سیارے کی فضا میں موجود گیس تابکاری سے پھٹ پھٹ کر خلا میں گم ہوتی جا رہی ہے لہٰذا بہت جلد یہ سیارہ قصہ پارینہ بن جائے گا۔

    سیارے کی موجودگی حیرت انگیز

    کیلٹ 9 سیارے کو سنہ 2014 میں دریافت کیا گیا تھا۔ تاہم اس کی موجودگی اور ساخت اس قدر حیران کن تھی کہ سائنسدان اسے اپنی آنکھوں کا دھوکہ سمجھتے رہے اور مکمل تصدیق کے لیے انہیں 3 سال کا عرصہ لگا۔

    سائنسدانوں نے 3 سال تک اس سیارے کے بارے میں تحقیق کی اور ان کا کہنا ہے کہ اب یہ سیارہ اپنے خاتمے کے قریب پہنچ چکا ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • دوسرے سیاروں پر زندگی حقیقت؟ زمین جیسے 7 نئے سیارے دریافت

    دوسرے سیاروں پر زندگی حقیقت؟ زمین جیسے 7 نئے سیارے دریافت

    ماہرین فلکیات کی زمین کے جیسے قابل رہائش سیارے کی طویل تلاش رنگ لے آئی اور خلا میں زمین کے جیسے 7 سیارے دریافت کر لیے گئے۔ سائنس دانوں کے مطابق ان سیاروں میں سے 3 پر پانی کی موجودگی کا امکان ہے جن کے باعث یہ سیارے قابل رہائش ہوسکتے ہیں۔

    ناسا کے مطابق ساتوں سیارے لگ بھگ زمین ہی کی جسامت اور ہجم جیسے ہیں اور ان کا زیادہ تر علاقہ پتھریلا ہے۔ یہ سیارے ایک ہی ستارے کے گرد گھوم رہے ہیں، گویا یہ زمین کے نظام شمسی جیسا نیا نظام ہے۔

    discovery-2

    ماہرین نے اس نظام کو ٹریپسٹ 1 نظام کا نام دیا ہے۔ یہ زمین سے 39 نوری سال کے فاصلے پر موجود ہے اور یہ زون یا علاقہ نہ تو اتنا گرم ہے جہاں پانی فوراً بھاپ بن جائے اور نہ ہی اتنا سرد ہے کہ ہر چیز منجمد ہوجائے۔ گویا یہ زندگی کے لیے نہایت سازگار ماحول ہے۔

    دریافت کے متعلق شائع ہونے والے مضمون کے مصنف بیلجیئم یونیورسٹی کے پروفیسر مائیکل گلن کا کہنا ہے کہ جس ستارے کے گرد یہ سیارے گھوم رہے ہیں وہ ستارہ کافی چھوٹا (اسے بونا ستارہ کہا جاسکتا ہے) اور سرد ہے، جس کی وجہ سے صرف امکان ظاہر کیا جا سکتا ہے کہ ان سیاروں پر پانی ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ زندگی بھی موجود ہو۔

    ماہرین فلکیات کے مطابق اگر اس میں اوزون کے آثار ملتے ہیں تو یہ بات ان سیاروں پر زندگی کے آثار کی جانب اشارہ کرتی ہے۔

    دوسری جانب یونیورسٹی آف کیمبرج کے سائنسدان اماؤری ٹرائیوڈ نے دریافت سے متعلق کہا کہ ہم نے زمین کے علاوہ دوسرے سیاروں پر زندگی کے آثار کی کھوج لگانے سے متعلق اہم قدم اٹھا لیا ہے۔

    ان کے خیال میں اب مزید کسی سیارے کی دریافت ضروری نہیں ہے، کیونکہ اب صحیح ہدف حاصل کرلیا گیا ہے۔

    تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ سیارے دیگر سیاروں کی طرح ناقابل رہائش نکلتے ہیں تو یہ بہت مایوس کن بات ہوگی کہ کائنات میں صرف زمین ہی ایسا سیارہ ہو جو قابل رہائش ہو۔

    ماہر فلکیات کے مطابق ان سیاروں کا مشاہدہ ٹیلی اسکوپ کے ذریعے کیا جا سکتا ہے۔