Tag: ناسا

  • خلا کو تسخیر کرنے والی باہمت خواتین

    خلا کو تسخیر کرنے والی باہمت خواتین

    جس طرح دنیا کا کوئی شعبہ اب خواتین کی کامیاب شمولیت سے مبرا نہیں، اسی طرح خواتین خلا میں بھی اپنی کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ چکی ہیں۔ آج اکیسویں صدی میں جب کئی پسماندہ ممالک میں خواتین اپنے بنیادی حقوق کی جنگ لڑ رہی ہیں، ترقی یافتہ ممالک کی خواتین خلا تک کو تسخیر کر چکی ہیں۔

    امریکا کا خلائی ادارہ ناسا اپنے خلائی مشنز میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کو بھی اولیت دیتا ہے۔ ناسا نے آج سے 38 سال قبل اپنے ادارے میں خواتین کے ایک گروپ کو ملازمت دی جن میں سے ایک نے بعد ازاں خلا میں جانے والی پہلی امریکی خاتون کا اعزاز اپنے نام کیا۔

    روس اس سے پہلے ہی بازی لے جا چکا تھا۔ 60 کی دہائی میں جب روس اور امریکا خلا کو تسخیر کرنے کے لیے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی دوڑ میں تھے، تب روس نے ویلینٹینا ٹریشکووا کو خلا میں بھیج کر پہلی خاتون خلا باز بھیجنے کا اعزاز اپنے نام کرلیا۔

    دنیا کی پہلی خاتون خلا باز

    ڈاکٹر ویلینٹینا نے جب خلا کی طرف اپنا پہلا سفر کیا اس وقت وہ صرف 26 برس کی تھیں۔ انہوں نے 3 دن خلا میں گزارے اور اس دوران 48 مرتبہ زمین کے گرد چکر لگایا۔

    ان کا خلائی جہاز ووسٹوک 6 ایک منظم خلائی پروگرام کا حصہ تھا جس کے تحت خلا کی مختلف تصاویر اور معلومات حاصل کی گئیں۔

    پہلی امریکی خاتون خلا باز

    ویلینٹینا کے خلا میں سفر کے 20 برس بعد سنہ 1983 میں امریکا کی سیلی رائڈ نے خلا میں سفر کر کے پہلی امریکی خاتون خلا باز ہونے کا اعزاز اپنے نام کیا۔

    ان کا سفر اس لیے بھی منفرد رہا کہ ویلینٹینا کے برعکس انہوں نے خلائی جہاز سے باہر نکل خلا کی فضا میں چہل قدمی بھی کی جسے اسپیس واک کا نام دیا جاتا ہے۔

    پہلی افریقی خاتون خلا باز

    سنہ 1992 میں مے جیمیسن نامی افریقی نژاد خاتون خلا میں جانے والی پہلی افریقی خاتون بن گئیں۔

    مے نے 8 دن خلا میں گزارے۔

    پہلی ایشیائی خاتون خلا باز

    کسی ایشیائی ملک سے کسی خاتون کا پہلی بار خلا میں جانے کا اعزاز سنہ 1994 میں جاپان نے اپنے نام کیا۔ پہلی ایشیائی اور جاپانی خاتون خلا باز چکائی مکائی تھیں جنہوں نے خلا میں 23 دن گزارے۔

    وہ اس سے قبل طب کے شعبہ سے وابستہ تھیں اور کارڈیو ویسکیولر سرجری کی تعلیم مکمل کر چکی تھیں۔

    پہلی خاتون خلائی پائلٹ

    اس سے قبل خلا میں جانے والی تمام خواتین نے خلائی جہاز کے اندر مختلف تکنیکی و تحقیقاتی امور انجام دیے تھے تاہم سنہ 1995 میں ایلن کولنز وہ پہلی خاتون بن گئیں جنہوں نے پہلا خلائی جہاز اڑانے کا اعزاز اپنے نام کیا۔

    وہ اس سے قبل امریکی فضائیہ میں بھی بطور پائلٹ اپنی خدمات سر انجام دے چکی تھیں۔

    پہلی بھارتی خاتون خلا باز

    کلپنا چاولہ خلا میں جانے والی پہلی بھارتی خاتون ہیں۔ وہ سنہ 1997 میں پہلی بار ناسا کے خلائی مشن کے ساتھ خلا میں گئیں۔

    سنہ 2003 میں جب وہ اپنے دوسرے خلائی سفر کے لیے روانہ ہوئیں تو ان کا خلائی جہاز تکنیکی پیچیدگی کا شکار ہوگیا۔ اس خرابی کو بر وقت ٹھیک نہ کیا جاسکا نتیجتاً واپسی میں جیسے ہی ان کا خلائی جہاز زمین کی حدود میں داخل ہوا اس میں آگ بھڑک اٹھی اور کلپنا سمیت اس میں موجود ساتوں خلا باز مارے گئے۔

    خلا میں جانے کے بعد خواتین پر کیا اثرات مرتب ہوئے؟

    خواتین کو خلا میں بھیجنے سے قبل اس بات پر کافی عرصہ تک بحث جاری رہی کہ خلا میں جانے کے بعد ان پر کیا جسمانی و نفسیاتی اثرات مرتب ہوں گے۔ سنہ 1963 میں جب ووسٹوک 6 کو لانچ کیا گیا جو پہلی بار کسی خاتون کو خلا میں لے کر جارہا تھا، تب اس میں جسمانی اثرات کا جائزہ لینے کے لیے خصوصی آلات نصب تھے۔

    پہلی خاتون خلا باز ڈاکٹر ویلینٹینا کی واپسی کے بعد دیکھا گیا کہ خلا میں خواتین پر کم و بیش وہی اثرات مرتب ہوتے ہیں جو مردوں پر ہوتے ہیں۔ خلا میں کشش ثقل کی غیر موجودگی کا عادی ہونے کے بعد زمین پر واپسی کے بعد بھی خلا بازوں کو توازن برقرار رکھنے میں مشکل کا سامنا ہوتا ہے جبکہ ان کے وزن میں بھی کمی ہوجاتی ہے۔

    علاوہ ازیں عارضی طور پر ان کے خون کے سرخ خلیات بننے میں کمی واقع ہوجاتی ہے (جو وقت گزرنے کے ساتھ معمول کے مطابق ہوجاتی ہے)، نظر کی کمزوری یا کسی چیز پر نظر مرکوز کرنے میں مشکل اور سونے میں بھی مشکل پیش آتی ہے۔

    مزید پڑھیں: مریخ پر ایک سال گزارنے کے بعد کیا ہوگا؟

    ماہرین کے مطابق خواتین کے ساتھ ایک اور پیچیدگی یہ پیش آسکتی ہے کہ ماہواری کے ایام میں کشش ثقل نہ ہونے کے باعث خون جسم سے باہر کے بجائے اندر کی طرف بہنے لگے۔ گو کہ ایسا واقعہ آج تک کسی خاتون خلا باز کے ساتھ پیش نہیں آیا تاہم یہ عمل جسم کے اندرونی اعضا کو سخت نقصان پہنچانے کا سبب بن سکتا ہے۔

    اب تک خلا میں جانے والی خواتین نے خلائی سفر سے قبل عارضی طور پر اپنی ماہواری ایام کو ختم کرنے کو ترجیح دی اور طبی ماہرین کے مطابق اس میں کسی نقصان کا اندیشہ نہیں۔

    ایک اور پہلو خلا میں حاملہ خواتین کے سفر کا ہے۔ سائنسی ماہرین کا کہنا ہے کہ خلائی جہاز اور اس تمام عمل میں موجود تابکار لہریں حاملہ خواتین کے بچوں کو نقصان پہنچانے کا سبب بن سکتی ہیں لہٰذا ان کا کہنا ہے کہ حاملہ خواتین خلا باز حمل کے دوران کسی خلائی سفر کا حصہ نہ بنیں۔

  • مریخ  پر اوباما کے دستخط

    مریخ پر اوباما کے دستخط

    واشگنٹن: خلائی تحقیقاتی ادارے ناسا نے مریخ کے مشن پر بھیجے جانے والے طیارے کے ذریعے امریکی صدر بارک اوباما کی دستخط شدہ تختی مریخ پر آویزاں کردی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق خلائی تحقیقاتی ادارے ناسا کے تحت کام کرنے والی مارس سائنس لیبارٹری نے مریخ پر خصوصی مشن کے لیے بھیجے جانے والے طیارے کے ذریعے مریخ پر امریکی صدر اور دیگر اعلیٰ حکام  کے دستخط کی تختی آویزاں کردی۔

    ناسا نے مریخ پر بھیجے جانے والے مصنوعی سیارے کی تصاویر سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر تختی کی تصویر شائع کی، جس میں امریکی صدر بارک اوباما، نائب صدر جوبائیڈن سمیت دیگر اعلیٰ حکام کے دستخط موجود ہیں۔

    obama

    یہ تختی المونیم سے تیار کی گئی ہے جس کی چوڑائی تقریباً 4 انچ اور لمبائی سواتین انچ کے قریب رکھی گئی ہے، انتظامیہ کی جانب سے یہ تصویر طیارے کے مریخ پر 44 دن مکمل ہونے کے بعد شائع کی گئی ہے۔

    امریکی صدر اور امریکی انتظامیہ نے دستخط والی تصویر شائع ہونے پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے ناسا کا شکریہ ادا کیا ہے۔ناسا انتظامیہ کا کہنا ہے کہ یہ مصنوعی طیارہ 2004 میں بھی کامیاب مشن کے بعد واپس آیا تھا۔

  • زہریلی اسموگ بچوں کی تعلیم کی راہ میں رکاوٹ بن گئی

    زہریلی اسموگ بچوں کی تعلیم کی راہ میں رکاوٹ بن گئی

    نئی دہلی: بھارت میں تاریخ کی بدترین فضائی آلودگی کے باعث حکومت نے دارالحکومت کے 1800 پرائمری اسکولوں میں 3 دن کی تعطیلات کا اعلان کیا ہے۔

    دہلی کے پرائمری اسکولوں میں 9 لاکھ کے قریب بچے زیر تعلیم ہیں، جنہیں بدترین فضائی آلودگی میں اسکول جانے کے باعث صحت کے سنگین اور شدید خطرات لاحق تھے۔

    مزید پڑھیں: فضائی آلودگی دماغی بیماریاں پیدا کرنے کا باعث

    واضح رہے کہ بھارتی دارالحکومت گزشتہ ایک ہفتے سے زہریلی دھند یعنی اسموگ میں لپٹا ہوا ہے جس کے اثرات پاکستانی شہر لاہور میں بھی دیکھے گئے۔

    نئی دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کی جانب سے کیے گئے اعلان میں کہا گیا ہے کہ اگلے 5 دن تک دہلی میں ہر قسم کا تعمیراتی کام بھی بند رہے گا تاکہ شہر سے دھویں اور آلودگی کے اثرات میں کچھ کمی آسکے۔

    مزید پڑھیں: فضائی آلودگی ملازمین کی کارکردگی میں کمی کا سبب

    شہری حکومت نے خطرناک فضائی آلودگی کے باعث ہنگامی بنیادوں پر شہریوں کے بچاؤ کے لیے اقدامات اٹھانے کا اعلان بھی کیا ہے۔

    وزیر اعلیٰ نے سڑکوں پر ٹریفک کا دھواں کم کرنے کے لیے ’اوڈ ایون‘ کا اقدام اٹھانے کا بھی عندیہ دیا۔ اس اقدام کے تحت گاڑیوں کو ان کی رجسٹریشن نمبر پلیٹ کے حساب سے متبادل دنوں میں (ایک دن جفت اور ایک دن طاق نمبر پلیٹ والی گاڑیاں) سڑک پر لانے کی اجازت ہوتی ہے۔

    مزید پڑھیں: دھند کے موسم میں احتیاطی تدابیر اختیار کریں

    یاد رہے کہ ماہرین کا کہنا ہے کہ گزشتہ ہفتے دیوالی کے موقع پر کی جانے والی آتش بازی کے بعد دہلی میں فضائی آلودگی میں خطرناک اضافہ ہوگیا اور پورے شہر کو زہریلی دھند یا اسموگ نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

    یہ اسموگ سرحد پار کر کے پاکستانی شہر لاہور بھی آ پہنچی جس کے باعث اب تک کئی افراد جاں بحق ہوچکے ہیں، جبکہ پورا شہر مختلف امراض کی زد میں آچکا ہے۔

    مزید پڑھیں: زہریلی اسموگ سے کیسے بچا جائے؟

    ناسا کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق اسموگ کی ایک وجہ بھارتی پنجاب میں فصلوں کا جلایا جانا بھی ہے جس نے فضا پر خطرناک اثرات مرتب کیے۔

    اس سے قبل اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال یونیسف کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق دنیا کا ہر 7 میں سے ایک بچہ بدترین فضائی آلودگی اور اس کے خطرات کا شکار ہے۔

    رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ فضائی آلودگی سے متاثر بچوں کی بڑی تعداد ایشیائی شہروں میں رہتی ہے۔ فضا میں موجود آلودگی کے ذرات نہ صرف بچوں کے زیر نشونما اندرونی جسمانی اعضا کو متاثر کرتے ہیں بلکہ خون میں شامل ہو کر دماغی خلیات کو بھی نقصان پہنچانے کا سبب بنتے ہیں جس سے ان کی دماغی استعداد میں کمی واقع ہونے کا خطرہ پیدا ہوجاتا ہے۔

  • ہزاروں سال بعد چاند کی شکل تبدیل

    ہزاروں سال بعد چاند کی شکل تبدیل

    ہم ہمیشہ سے ایک ہی قسم کا چاند دیکھتے آرہے ہیں۔ خوبصورت گول چاند پر دادی اماں کی کہانیوں کے مطابق، ایک بڑھیا چرغہ کاٹتی ہے۔

    لیکن کیا آپ جانتے ہیں چاند ہر 81 ہزار سال بعد تبدیل ہوجاتا ہے؟

    ایسا ناسا کا کہنا ہے۔ عالمی خلائی ادارے ناسا کے ڈیٹا پر مشتمل ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خلا میں موجود مختلف اقسام کے پتھر اس قدر شدت سے چاند پر گرتے ہیں کہ ہر 81 ہزار سال بعد چاند کی بیرونی سطح بالکل مختلف ہوجاتی ہے۔

    مزید پڑھیں: اگر چاند اچانک دھماکے سے پھٹ جائے تو؟

    ماہرین نے بتایا کہ شہاب ثاقب کی اس بمباری سے چاند کی سطح پر نئے آتش فشانی دہانے پیدا ہوجاتے ہیں جن کا حجم پیش گوئی کیے جانے والے حجم سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔

    خلائی سائنسدانوں نے یہ رپورٹ ان تصاویر کی بنیاد پر تیار کی جو مدار میں گھومنے والے چاند کی نگرانی پر معمور خلائی جہاز سے موصول ہوئیں۔ ان تصاویر کا سائنسدانوں نے پہلے اور بعد کی بنیاد پر مطالعہ کیا۔

    ماہرین کے مطابق خلا سے گرنے والے شہابیوں کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے اور یہ روز زمین پر گر سکتے ہیں مگر خوش قسمتی سے ہماری زمین کے اوپر فضا میں گیسوں سے بنی ہوئی ایک موٹی تہہ موجود ہے جو ان شہابیوں کو روک دیتی ہے۔

    مزید پڑھیں: چاندنی راتیں نیند میں کمی کا سبب

    اس کے برعکس چاند کے گرد قائم گیسوں کی تہہ معمولی اور پتلی ہوتی ہے جس کے باعث شہاب ثاقب چاند پر گرتے رہتے ہیں۔

  • سیارہ مشتری پر زندگی کا امکان؟

    سیارہ مشتری پر زندگی کا امکان؟

    میامی: امریکی خلائی ادارے ناسا نے امکان ظاہر کیا ہے کہ نظام شمسی کے پانچویں سیارے مشتری کے برفیلے چاند کے نیچے ایک سمندر ہوسکتا ہے جس کے بعد اس سیارے پر زندگی کی موجودگی کا بھی امکان ہے۔

    ناسا کی ہبل ٹیلی اسکوپ سے موصول شدہ تصاویر کو دیکھ کئی ماہرین کا خیال ہے کہ مشتری کے برفیلے چاند یوروپا کی سطح کے نیچے کسی قسم کا سمندر ہوسکتا ہے۔

    jupitar-2

    ناسا کے مطابق انہیں اس بارے میں حیران کن تفصیلات موصول ہوئی ہیں اور وہ جلد ان کا اعلان کرنے والے ہیں۔

    ہبل ٹیلی اسکوپ نے سنہ 2012 میں یوروپا کے جنوبی قطبی حصہ پر پانی کے چند قطروں کا مشاہدہ کیا تھا جس کے بعد خیال ظاہر کیا گیا کہ یہ پانی چاند کے اندر سے باہر آرہا ہے یعنی چاند کی بیرونی سطح کے نیچے پانی کا کوئی ذخیرہ موجود ہے۔

    گزشتہ برس اسی قسم کا انکشاف مشتری کے سب سے بڑے چاند گینی میڈ کے بارے میں بھی ہوا تھا جب سائنسدانوں نے اس کی سطح کے نیچے ایک سمندر دریافت کیا تھا۔ اس سمندر کے پانی کی مقدار زمین پر موجود تمام پانی سے بھی زیادہ تھی۔

    سائنسدانوں کو اس کا سراغ ہبل ٹیلی اسکوپ کی موصول شدہ تصاویر میں ارورا روشنیوں کے ذریعہ ملا تھا۔ ارورا روشنیاں وہ رنگ برنگی روشنیاں ہیں جن کا نظارہ قطب شمالی میں رات کے وقتکیا جاسکتا ہے۔ یہ روشنیاں چاند یا سیارے کی بیرونی سطح سے نکلتی ہیں اور اس بات کے شواہد فراہم کرتی ہیں کہ جس سطح سے وہ خارج ہو رہی ہیں، اس سطح کے نیچے کیا ہے۔

    jupitar-4

    واضح رہے کہ سیارہ مشتری کو نظام شمسی کا بادشاہ بھی کہا جاتا ہے اور اس کے 50 سے زائد چاند ہیں۔

    رواں برس ناسا کی 1.1 بلین ڈالر مالیت کی خلائی گاڑی جونو کامیابی سے مشتری کے مدار میں اتر چکی ہے جہاں یہ مشتری کے بارے میں مختلف معلومات جمع کر رہی ہے۔

    ناسا سنہ 2020 میں ایک روبوٹک خلائی جہاز مشتری کے چاند یوروپا کے مدار میں بھیجنے کا بھی ارادہ رکھتا ہے تاکہ اس چاند کے بارے میں قریب سے درست معلومات جمع کی جاسکیں۔

  • اسپیس ایکس راکٹ خلا میں جانے سے قبل تباہ

    اسپیس ایکس راکٹ خلا میں جانے سے قبل تباہ

    فلوریڈا: امریکی ریاست فلوریڈا میں نجی کمپنی کی جانب سے خلا میں بھیجا جانے والا راکٹ آزمائشی پرواز کے دوران تباہ ہوگیا تاہم حادثے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا.

    تفصیلات کے مطابق ریاست فلوریڈا میں راکٹ اسپیس ایکس فالکن 9 خلا میں جانے کے لیے تیار تھا اور جیسے ہی اس نے پرواز بھری تو زور دار دھماکا ہوا جس کے بعد دھویں کے بادل فضا میں بلند ہونے لگے تاہم حادثے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا.

    دوسری جانب امریکی خلائی ایجنسی ناسا کا کہنا ہے کہ حادثہ صبح 9 بجے پیش آیا جب راکٹ نے خلا کا سفر کرنے کے لیے اڑان بھری تھی.

    نجی کمپنی اسپیس ایکس کا کہنا ہے کہ راکٹ کے فضا میں بلند ہونے سے قبل راکٹ پیڈ پر بے قاعدگی دیکھی گئی جس کے باعث حادثہ پیش آیا اور حادثے کے نتیجے میں راکٹ مکمل طور پر تباہ ہوگیا تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا.

    یاد رہے کہ اسپیس ایکس کمپنی نے گزشتہ ماہ جاپان کا کمیونی کیشن سیٹیلائٹ کامیابی سے خلا میں بھیجا تھا۔

    اپریل میں کیلیورنیا میں قائم کمپنی کا فالکن 9 نامی راکٹ کامیابی سے ایک سمندری پلیٹ فارم پر اترا تھا۔ اس سے پہلے کمپنی کی چار کوششیں ناکام رہی تھیں.

  • مریخ پر ایک سال گزارنے کے بعد کیا ہوگا؟

    مریخ پر ایک سال گزارنے کے بعد کیا ہوگا؟

    واشنگٹن: اگر سیارہ مریخ پر کچھ عرصہ گزارا جائے تو کیا ہوگا؟

    اسی سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لیے ’مصنوعی مریخ‘ پر بھیجی گئی ٹیم صحیح سلامت لوٹ آئی ہے۔ 6 افراد پر مشتمل یہ ٹیم گذشتہ برس 28 اگست کو وہاں بھیجی گئی تھی۔

    یہ ’مصنوعی مریخ‘ دراصل مریخ کی طرز پر بنائی گئی ایک سفید گنبد کی عمارت تھی جو ہوائی میں ایک دور دراز علاقہ میں ناسا کی جانب سے بنائی گئی تھی۔ 20 فٹ بلند یہ دو منزلہ عمارت مکمل طور پر بند تھی اور اس کے اندر مریخ جیسا مصنوعی ماحول بنایا گیا تھا۔

    mars-2

    تین خواتین اور 3 مردوں پر مشتمل 6 افراد کی ٹیم نے یہاں ایک سال کا عرصہ گزارا۔

    اس تجربہ کا مقصد اس بات کا مشاہدہ کرنا تھا کہ مریخ پر رہنے سے انسانی جسم و ذہن پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔

    عمارت کے اندر رہنے والی ٹیم نے ایک سال یکساں موسم میں گزارا۔ ان کا باہر کی دنیا سے کوئی رابطہ نہیں تھا اور وہ تمام وقت خلائی لباس میں ملبوس رہے۔ ان کے پاس کھانے پینے کی اشیا محدود تھیں جس میں پاؤڈر کی شکل میں پنیر اور ڈبہ بند ٹونا مچھلی شامل تھی۔ ٹیم نے پانی کو بھی ری سائیکل کر کے استعمال کیا۔

    ٹیم کے ایک رکن کے مطابق ان کے لیے سب سے پریشان کن چیز یکسانیت تھی۔ تجربہ سے واپس آنے کے بعد 200 طبی و سائنسی ماہرین اب ٹیم کا جائزہ لے رہے ہیں کہ ان کے اندر کیا کیا تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔

    واضح رہے کہ ناسا مریخ کی جانب ایک روبوٹک مشن بھیجنے کا ارادہ رکھتی ہے جبکہ اس تجربے کی کامیابی کے بعد انسانوں کو بھی مریخ پر بھیجا جائے گا۔

  • نظامِ شمسی سے باہر زمین کی جسامت کے 100 سے زائد سیارے دریافت

    نظامِ شمسی سے باہر زمین کی جسامت کے 100 سے زائد سیارے دریافت

    ناسا کی کیپلر دوربین نے نظامِ شمسی سے باہر زمین کی جسامت کے 100 سے زیادہ سیارے دریافت کیے ہیں۔

    غیر ملکی نشریاتی ادارے کے مطابق ان میں سے نو سیارے ایسے ہیں جو اپنے ستاروں کے گرد اتنے فاصلے پر گردش کر رہے ہیں جنھیں قابلِ رہائش علاقہ کہا جاتا ہے۔یہ دریافتیں ان 1284 نئے سیاروں کا حصہ ہیں جنھیں کیپلر نے دریافت کر کے نظامِ شمسی سے باہر اب تک دریافت شدہ سیاروں کی تعداد دگنی کر دی ہے۔

    کیپلر کی مشن سائنسدان ڈاکٹر نیٹلی بیٹیلا نے کہا ہے کہ حساب کتاب سے معلوم ہوتا ہے کہ ہماری کہکشاں میں 10 ارب کے قریب سیارے قابلِ رہائش مداروں میں گردش کر رہے ہیں۔انھوں نے کہاکہ تقریباً 24 فیصد ستارے ممکنہ طور پر قابلِ رہائش سیاروں کے حامل ہیں اور جو زمین کی جسامت سے 1.6 گنا سے چھوٹے ہیں۔

    ان کا کہنا ہے کہ یہ دو نئے سیارے قابلِ رہائش سیاروں کی تلاش میں اچھا ہدف ثابت ہو سکتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ کیپلر مشن کا بڑا ہدف زمین سے باہر زندگی کا سراغ لگانا، اور یہ جاننا ہے کہ آیا ہم اکیلے ہیں یا نہیں، اور یہ کہ زندگی ہماری کہکشاں میں کیسے پنپتی ہے اور اس میں کس قسم کا تنوع پایا جاتا ہے۔

  • ناسا نے بھی کراچی کو روشنیوں کا شہر مان لیا

    ناسا نے بھی کراچی کو روشنیوں کا شہر مان لیا

    کراچی: امریکی خلائی ادارے نے ناسا نے بھی کراچی کوروشنیوں کا شہر مان لیا۔

     شہری تولوڈشیڈنگ سے تنگ ہیں لیکن ناسا نے کراچی کو روشنیوں کاشہر مان لیا، یعنی جب لوڈشیڈنگ نہیں ہوتی تو کراچی اتنا روشن ہوتا ہے کہ واقعی روشنیوں کا شہر ہوجاتا ہے۔

    امریکی خلائی ادارے ناسا نےتئیس ستمبرکوخلائی اسٹیشن سے ایک تصویرلی جس میں بھارت پاکستان اورافغانستان کے مختلف شہرروشن نظرآرہےہیں ان میں سے سب سے روشن کراچی ہے۔

    تصویر میں پاکستان اور بھارت کی سرحد سیکورٹی لائٹس کی وجہ سے روشن لکیرکی شکل میں واضح ہے۔

    رپورٹ میں کراچی سے کوہ ہمالیہ کا فاصلہ ایک ہزارایک سو ساٹھ کلو میٹر بتایا گیا تصویرسےثابت ہوگیا کہ روشنیوں کا شہرکراچی سب سے زیادہ روشن ہے۔

  • ناسا نے نئے سیارچے کا نام ملالہ سے منسوب کر دیا

    ناسا نے نئے سیارچے کا نام ملالہ سے منسوب کر دیا

    واشنگٹن: خلائی تحقیق کے امریکی ادارے ناسا نے نئے دریافت ہونے والے سیارچے کو ملالہ کے نام سے منسوب کردیا ہے۔

    واشنگٹن میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے امریکی خلائی تحقیقی ادارے ناسا کی ماہر فلکیات ایمی مینزر نے کہا کہ سیارچہ انہوں نے دریافت کیا لہذا اس کا نام رکھنا بھی ان کا ہی حق ہے۔

    امریکی خلائی ادارے نے 5 سال قبل مریخ اور مشتری کے درمیان دریافت ہونے والے 2.5 قطر کے سیارچے کا نام ملالہ رکھ دیا۔

     انہوں نے کہا کہ میں نے ملالہ سے متعلق میگرین کی اسٹوریز پڑھی ہیں، جس کے بعد احساس ہوا ہے ملالہ اس لائق ہیں کہ ان کے نام سے سیارے کو منسوب کیا جائے۔

    دنیا میں چند ہی سیارچے ہیں جنہیں کسی کے نام سے منسوب کیاگیا ہے اور اسے ایک عالمی سطح پر بہت بڑا اعزاز سمجھا جاتا ہے۔