Tag: ناسا

  • نیل آرمسٹرانگ کے چاند پر قدموں کے نشان 53 سال بعد بھی واضح

    نیل آرمسٹرانگ کے چاند پر قدموں کے نشان 53 سال بعد بھی واضح

    امریکی خلائی ادارے ناسا نے چاند پر قدم رکھنے کی 53ویں سالگرہ کے موقع پر خلا باز نیل آرمسٹرانگ اور بز آلڈرن کی ویڈیو شیئر کردی۔

    ناسا نے گزشتہ روز چاند کے عالمی دن پر سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری ایک پیغام میں کہا ’آج اپولو کے چاند پر اترنے کی سالگرہ ہے جب انسانوں نے پہلی بار کسی دوسری سطح پر قدم رکھا تھا، ویڈیو میں دونوں خلا بازوں کے قدموں کے نشان 53 سال بعد بھی چاند پر حیران کن طور پر واضح ہیں۔

    ناسا کی لونر ریکونائسینس آربِٹر سے بنائی جانے والی ویڈیو میں خلا بازوں کے قدموں کے نشان دِکھائی دیتے ہیں جو ابھی تک وہاں موجود ہیں۔

    ناسا نے ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’اپولو 11 سب سے زیادہ جانا جانے والا مشن ہے لیکن اس سے قبل بھیجے جانے والے مشنز نے اس مشن کے لیے راہ ہموار کی جن میں روور اور سرویئر جیسے روبوٹِک مشنز سمیت اپولو 8، 9 اور10 کے عملے کے ساتھ بھیجے جانیوالے مشنز شامل ہیں۔

    یہ آربِٹر2009 سےچاند کا مطالعہ کر رہا ہے اور ایجنسی کے دیگر مشنز کی نسبت بہت زیادہ،1.4 پِیٹا بائیٹ حجم کا، ڈیٹا زمین پر بھیج چکا ہے۔

    کچھ اندازوں کے مطابق ایک پِیٹا بائیٹ 500 ارب معیاری پرنٹڈ صفحات کے برابر ہوتا ہے۔

    یاد رہے کہ 1969 میں اپولو 11 کے خلابازوں نے چاند کی سطح پر ایک تختی چھوڑی تھی جس پر لکھا تھا ’’یہاں کرہ ارض کے مردوں نے پہلی بار جولائی 1969 عیسوی میں چاند پر قدم رکھا تھا۔‘‘

  • ویڈیو: بلیک ہول کی دل دہلا دینے والی آواز

    ویڈیو: بلیک ہول کی دل دہلا دینے والی آواز

    امریکی خلائی ادارے ناسا نے بلیک ہول کی آڈیو جاری کر دی، یہ بلیک ہول زمین سے 20 کروڑ نوری سال کے فاصلے پر واقع کہکہشاں میں ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق امریکی خلائی ادارے ناسا کے سائنس دانوں نے زمین سے 20 کروڑ نوری سال سے زائد کے فاصلے پر موجود پرسیس کہکشاں کے جتھے کے مرکز پر موجود بلیک ہول کی آڈیو جاری کر دی۔

    آواز کی یہ لہریں ناسا کی اسپیس ٹیلی اسکوپ چندرا ایکس رے آبزرویٹری نے فلکیاتی ڈیٹا کی شکل میں ریکارڈ کیں اور پھر اس کو آواز میں ڈھال دیا تاکہ انسان اس آواز کو سن سکیں۔

    عام سطح پر یہ بات مشہور ہے کہ خلا میں کوئی آواز نہیں ہوتی کیوں کہ آواز کی لہروں کے سفر کرنے لیے کوئی ذریعہ نہیں ہوتا۔

    جاری ہونے والی نئی آڈیو مشہور موسیقات ہینس زِمر کے اسکور سے ملتی جلتی ہے۔

    خلائی ایجنسی کے ماہرینِ فلکیات کو اس بات کا احساس ہوا کہ پرسیس، 1 کروڑ 10 لاکھ نوری سال کے فاصلے پر موجود کہکشاؤں کا جتھہ، کے اطراف میں موجود گرم گیسز بھی آواز میں ڈھالی جاسکتی ہیں۔

    سینکڑوں بلکہ ہزاروں کہکشاؤں کے گرد موجود یہ گیس آواز کی لہروں کو سفر کرنے کے لیے ذریعہ فراہم کرتا ہے۔

    یہ سونی فکیشن آواز کی لہروں کی انسان کے سننے کی حد پر اس کی حقیقی پچ سے 57 یا 58 آکڑیو اوپر رکھ کر ری سنتھیسائز کی گئی۔

    ہالی وڈ کمپوزر ہینس زِمر، جنہوں نے آسکر ایوارڈ یافتہ سائنس فکشن فلم انٹراسٹیلر کے لیے ساؤنڈ ٹریکس لکھے، نے ناسا کی جانب سے جاری کی جانے والی اس آواز کے غیر معمولی حد تک مشابہت رکھنے والا میوزک بنایا ہے۔

  • خلا میں روس کی پارٹنر شپ ختم ہونے کے بعد ناسا کا کڑا امتحان

    خلا میں روس کی پارٹنر شپ ختم ہونے کے بعد ناسا کا کڑا امتحان

    روس کی خلائی معاونت بند کیے جانے کے سبب، عالمی خلائی اسٹیشن میں روس کا اشتراک ختم ہوجانے کے بعد ناسا نے اسٹیشن کو اپنے طور پر چلانے کے لیے کوششیں شروع کردی۔

    بین الاقوامی میڈیا رپورٹ کے مطابق روس کی جانب سے عالمی خلائی اسٹیشن کے متعلق دھمکی کے بعد ناسا نے زمین کے نچلے مدار میں اس اسٹیشن کو روس کی مدد کے بغیر چلانے کی راہیں تلاش کرنا شروع کردیں۔

    ایسا 24 فروری کو روس کی جانب سے یوکرین پر حملہ کرنے کے بعد ہوا جب امریکا کی جانب سے پابندیوں کا سیلاب روس پر عائد کر دیا گیا، جس میں خلائی انڈسٹری میں تعاون کو بھی محدود کرنا شامل ہے۔

    گزشتہ ہفتے روسی اسپیس ایجنسی کے سربراہ دیمتری روگوزن نے امریکا کی جانب سے اپنے اسپیس پروگرام پر عائد کی جانے والی پابندیوں کے خلاف خبردار کیا تھا اور اس کی مرمت کو روک دینے کی دھمکی دی تھی، جس کے نتیجے میں 500 ٹن وزنی بین الاقوامی خلائی اسٹیشن مدار سے باہر ہوتے ہوئے گرنے کا خدشہ تھا۔

    روسی کارگو اسپیس شپ اسٹیشن کی پروپلژ کو مینج کرتے ہیں اور اس کو زمین سے 253 میل اوپر مدار میں رکھتے ہیں۔ ان کی باقاعدہ ایڈجسٹمنٹ نہ ہونے کے سبب یہ اسٹیشن واپس زمین پر گر جائے گا۔

    ناسا کا کہنا ہے کہ وہ روسی مدد کے بغیر اسٹیشن کو مدار میں رکھنے کی راہیں تلاش کر رہا ہے، جن میں اسپیس ایکس اور نارتھرپ گرومن کے کمرشل کارگو وہیکلز کا استعمال شامل ہے۔

  • ناسا کے روور کو مریخ پر اہم کامیابی مل گئی (حیران کر دینے والی تصاویر دیکھیں)

    ناسا کے روور کو مریخ پر اہم کامیابی مل گئی (حیران کر دینے والی تصاویر دیکھیں)

    مریخ پر موجود ناسا کے روور کو پھنسے ہوئے پتھر کے نکلنے کے بعد آخر کار اہم کامیابی حاصل ہو گئی ہے۔

    ناسا کے پرزیورنس روور نے آخر کار مریخ کی سطح سے ایک قدیم چٹان کا چھٹا نمونہ کامیابی سے حاصل کر لیا ہے، اس سے قبل روور کے ٹیوب میں چٹان کا کنکر پھنس جانے کی وجہ سے وہ نمونہ نہیں لے سکا تھا۔

    ناسا کے مطابق دسمبر کے آخر میں ایس یو وی سائز کا یہ روور ’اِسول‘ نامی چٹان میں ڈرِل کر رہا تھا، لیکن وہ منصوبے کے مطابق ٹاٹینیم کی ٹیوب کو بند نہیں کر سکا، کیوں کہ ایک کنکر ہینڈلنگ سسٹم میں پھنس گیا تھا۔

    ناسا کے انجینئروں نے ایک ٹیکنیکل طریقے کا استعمال کرتے ہوئے روور کو اس کنکر سے نجات دلائی، اس طریقے میں ڈرِل کا رخ زمین کی جانب کرتے ہوئے تیزی سے گھمایا گیا، اور کنکر نکل گیا۔

    پرزیورینس نے مریخ کا نمونہ لینے کے لیے ایک بار پھر اِسول نامی چٹان کو ڈرل کرنے کی کوشش کی، جاری کی جانے والی تصویر میں ڈرل کے نشانات کو دیکھا جا سکتا ہے۔

    مریخ پر ناسا کے روور میں پھنسا پتھرایک ماہ بعد نکال لیا گیا

    ناسا نے پرزیورنس اکاؤنٹ سے 31 جنوری کو ٹوئٹ کیا ’یہ چٹان مجھے واپس دیکھ کر چونک گئی ہے، شکر ہے، میں اس قابل تھا کہ ایک اور نمونہ لے سکوں اس کے بدلے میں جو پہلے میں پھینک چکا ہوں۔

    ٹوئٹ میں مزید لکھا گیا کہ یہ شاید اب تک جمع کیا گیا سب سے قدیم چٹان کا نمونہ ہے، لہٰذا یہ اس جگہ کی تاریخ کو سمجھنے میں مدد دے گا۔

  • توانائی سے بھرپور کھانوں کی تراکیب، ناسا کا 1 ملین ڈالر کا اعلان

    توانائی سے بھرپور کھانوں کی تراکیب، ناسا کا 1 ملین ڈالر کا اعلان

    واشنگٹن: خلابازوں کے لیے توانائی سے بھرپور کھانوں کی تراکیب پر ناسا نے 1 ملین ڈالر انعام کا اعلان کر دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق گہرے خلا میں خلابازوں کے لیے توانائی سے بھرپور اور لذیذ کھانوں کے آئیڈیاز پیش کرنے پر ناسا 1 ملین ڈالر انعام دے گا، جیسا کہ ناسا انسانیت کو خلا کے زیادہ گہرے حصوں میں بھیجنے کے لیے ہر پل کوشاں ہے، اس لیے اب وہ خلابازوں کے لیے توانائی کے ایک اہم ذریعے یعنی خوراک کے لیے پائیدار حل تلاش کرنا چاہتا ہے۔

    اس مقابلے میں عام افراد بھی شامل ہو سکتے ہیں، شرط یہ ہے کہ کھانا توانائی سے بھرپور، لذیذ اور باکفایت ہو اور اس میں ماحول کا بطورِ خاص خیال رکھا گیا ہو، کیوں کہ خلا میں پکوان کے لیے زمین جیسی سہولیات موجود نہیں ہوتیں۔

    اس مقصد کے لیے ناسا نے کینیڈین خلائی ایجنسی کے ساتھ مل کر ڈیپ اسپیس فوڈ چیلنج نامی پروگرام شروع کیا ہے، جس میں عوام سے کہا گیا ہے کہ وہ خوراک تیار کرنے کی ایسی تخلیقی اور پائیدار ٹیکنالوجی یا سسٹم وضع کریں جسے تیار کرنے کے لیے کم سے کم وسائل کی ضرورت پڑے، اور اس عمل میں ممکنہ طور پر کم سے کم فضلہ پیدا ہو۔

    یہ بات ذہن میں رہے کہ غذا ایک وقت کے بعد اپنی غذائیت کھو دیتی ہے، لہٰذا اس کا مطلب یہ ہے کہ مریخ پر مبنی کسی مشن کے لیے، جس میں کئی سال لگ سکتے ہیں، اگر خلا نورد صحت مند رہنا چاہتے ہیں تو ان کے لیے پہلے سے پیک شدہ کھانا لانا قابل عمل آپشن نہیں ہوگا۔

    سائنس دان ڈیپ اسپیس فوڈ چیلنج جیسے اقدامات کے ذریعے ایسے جامع اور جدید ترین فوڈ سسٹم بھی تیار کرنا چاہتے ہیں جسے گھروں اور کمیونیٹیز میں بھی استعمال کیا جا سکے، اور سیلاب، خشک سالی وغیرہ جیسے ہنگامی حالات میں بھی ان کا استعمال کیا جا سکے۔

    اس پروگرام کے تحت اب مقابلے کے لیے لوگوں سے کہا گیا ہے کہ ایسی ‘فوڈ پروڈکشن ٹیکنالوجی سسٹم’ تیار کیا جائے، جسے ایک مکمل فوڈ سسٹم میں ضم کیا جا سکتا ہو، تاکہ گہرے خلا میں 3 سالہ مہم کے دوران 4 خلابازوں کے عملے کو درکار غذا فراہم ہو سکے۔ مقابلے میں شامل افراد کو ہر اس چیز پر غور کرنا ہو گا جو عملے کو خوراک پہنچانے، تیار کرنے اور اسٹور کرنے کے لیے ضروری ہو۔ اس میں خوراک کی تیاری، ترسیل، کھپت اور اس کے ساتھ ساتھ فضلے کو ٹھکانے لگانا بھی شامل ہوگا۔

    واشنگٹن میں ایجنسی کے ہیڈکوارٹر میں ناسا کے خلائی ٹیکنالوجی مشن ڈائریکٹوریٹ کے ایسوسی ایٹ ایڈمنسٹریٹر جم رائٹر نے ایک بیان میں کہا کہ خلائی سفر کی رکاوٹوں کے ساتھ طویل عرصے تک خلابازوں کو کھانا کھلانے کے لیے نئی اختراعی تراکیب کی ضرورت ہوگی جن سے یہ مسئلہ حل ہو۔ فوڈ ٹیکنالوجی کی حدود کو اب مزید آگے بڑھانے سے مستقبل کے خلا نوردوں کو صحت مند رکھا جا سکے گا، اور اس سے گھروں میں بھی مدد لی جا سکے گی۔

    واضح رہے کہ اس چیلنج کا پہلا مرحلہ گزشتہ سال اکتوبر میں مکمل ہوا ہے، جس میں ناسا نے 18 ٹیموں کو خوراک کی جدید ٹیکنالوجی کے تصورات کے لیے مجموعی طور پر ساڑھے 4 لاکھ ڈالرز کا انعام دیا، ایسی ٹیکنالوجی جس کی مدد سے محفوظ، قابل قبول، لذیذ اور غذائیت سے بھرپور فوڈ پروڈکٹس تیار کی جا سکتی ہیں، اور جو پائیداری اور معیار کو برقرار رکھتی ہیں، اور اس کے ساتھ ساتھ انھیں خاطر خواہ وسائل کی بھی ضرورت نہیں پڑتی۔

    اب ناسا نے نئی اور موجودہ دونوں ٹیموں کو دوسرے مرحلے میں داخل ہونے کے لیے مدعو کیا ہے، جہاں انھیں ٹیسٹ کرنے کے لیے تیار کردہ خوراک کے ساتھ اپنے ڈیزائن کے پروٹو ٹائپ بنانے اور اس کا ڈیمو دکھانے کی ضرورت ہوگی۔ امریکی شرکا فیز 2 میں مقابلہ کر سکتے ہیں جہاں ان کے پاس 1 ملین ڈالر تک جیتنے کا موقع ہوگا۔

  • کاینات کی ابتدائی کہکشاؤں کا سراغ، 10 ارب ڈالر کی جدید ترین ٹیلی اسکوپ لانچ

    کاینات کی ابتدائی کہکشاؤں کا سراغ، 10 ارب ڈالر کی جدید ترین ٹیلی اسکوپ لانچ

    امریکی خلائی تحقیقاتی ادارے ناسا نے کاینات کی ابتدائی کہکشاؤں کا سراغ لگانے کے لیے 10 ارب ڈالر کی لاگت سے تیار کر دہ جدید ترین ٹیلی اسکوپ لانچ کر دی ہے۔

    ناسا کی جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ ہفتے کے روز صبح جنوبی امریکا میں فرنچ گیانا میں یورپ کے اسپیس پورٹ سے ایک راکٹ آریانے فائیو کے ذریعے لانچ کیا گیا، ناسا کی یہ ٹیلی اسکوپ کائنات کی پہلی کہکشاؤں اور دور دراز کی دنیا کو دیکھنے کے لیے لانچ کی گئی ہے۔

    یورپی اسپیس ایجنسی اور کینیڈین اسپیس ایجنسی کے ساتھ مشترکہ کوشش کرنے والی یہ Webb آبزرویٹری ابتدائی کائنات میں بالکل پہلی کہکشاؤں کی روشنی تلاش کرنے، اپنے نظام شمسی، اور دوسرے ستاروں کے گرد چکر لگانے والے سیاروں سے متعلق تحقیق کے لیے ناسا کا انقلابی مشن ہے۔

    زمین پر موجود ٹیموں نے ویب (Webb) لانچ ہونے کے تقریباً پانچ منٹ بعد ہی ٹیلی میٹری ڈیٹا حاصل کرنا شروع کیا، آریانے فائیو راکٹ نے توقع کے مطابق کارکردگی کا مظاہرہ کیا، پرواز کے 27 منٹ میں آبزرویٹری سے الگ ہوا، اس آبزرویٹری کو تقریباً 75 میل (120 کلومیٹر) کی بلندی پر چھوڑا گیا تھا، لانچ کے تقریباً 30 منٹ بعد ویب نے اپنی شمسی پینلز کو کھولا اور مشن منیجرز نے تصدیق کی کہ شمسی پینلز رصد گاہ کو توانائی فراہم کر رہی ہے۔

    شمسی پینلز کھلنے کے بعد اب مشن آپریٹرز کینیا میں مالندی گراؤنڈ اسٹیشن کے ذریعے آبزرویٹری کے ساتھ ایک مواصلاتی رابطہ قائم کریں گے، اور بالٹی مور میں اسپیس ٹیلی اسکوپ سائنس انسٹیٹیوٹ کا زمینی کنٹرول خلائی جہاز کو پہلی کمانڈ بھیجے گا۔

    دنیا کی سب سے بڑی اور سب سے پیچیدہ خلائی سائنس آبزرویٹری اب خلا میں 6 ماہ تک کام شروع کرے گی، کمیشننگ کے اختتام پر ویب اپنی پہلی تصاویر فراہم کرے گا۔ ویب کے پاس بے مثال ریزولوشن کے انتہائی حساس انفراریڈ ڈیٹیکٹر کے ساتھ چار جدید ترین سائنسی آلات ہیں۔

  • خلا میں موجود یہ پراسرار بادل کیا ہے؟

    خلا میں موجود یہ پراسرار بادل کیا ہے؟

    ناسا نے اپنی ہبل ٹیلی اسکوپ سے لی گئی ایک تصویر جاری کی ہے جو خلا میں پھیلتے گیس کے بادل کی ہے، ناسا نے اس کے بارے میں وضاحت بھی پیش کی ہے۔

    ہبل اسپیس ٹیلی اسکوپ سے لی گئی نئی تصویر میں این جی سی 6891 خوب چمکتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے، یہ تصویر سائنسدانوں کو یہ سمجھنے میں مدد دے گی کہ گیس کے یہ بادل کیسے بنے اور آگے کیسے بڑھے۔

    ماہرینِ فلکیات اسے پلینٹری نیبولا پکارتے ہیں، یہ لفظ ماضی کی غلط تشخیص ہے جب ٹیلی اسکوپ کی ٹیکنالوجی اپنے ابتدائی دور میں تھی۔

    آج ہم یہ جانتے ہیں یہ ایسی نیبولا دراصل چھوٹے ستاروں کے آخر وقتوں میں ان میں سے نکلنے والی گیسز کے نتیجے میں بنتی ہیں۔

    ہبل اسپیس ٹیلی اسکوپ کی ہائی ڈیفینیشن تصویر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ بادل کی گہرائی میں ایک سفید چھوٹا سا ستارہ ہے جس کے گرد تاریں اور گرہیں ہیں۔

    ڈیٹا یہ بھی بتاتا ہے کہ گیس کا بیرونی دائرہ نیبولا کے اندرونی حصے سے زیادہ تیزی سے پھیل رہا ہے اور مشاہدوں میں ایسے بھی گیس کے خول آئے ہیں جن کے رخ مختلف سمتوں میں ہیں۔

    ناسا حکام نے اپنے بیان میں کہا کہ ان کی حرکات سے ماہرین نے اندازہ لگایا ہے کہ ان خولوں میں سے ایک 4 ہزار 800 سال پرانا ہے جبکہ بیرونی دائرہ کچھ 28 ہزار برس پرانا ہے جو ایک دم توڑتے ستارے کے مختلف اوقات میں تواتر کے ساتھ ہوتے دھماکوں کی جانب اشارہ کرتا ہے۔

    ہبل فی الحال 23 اکتوبر کو ہونے والے سنکرونائزیشن گلچ سے بحالی کے مراحل میں ہے اور اس کے آلات آہستہ آہستہ واپس آن لائن آرہے ہیں۔

  • ناسا نے زمین کو خلا سے لاحق بڑے خطرے سے خبردار کر دیا

    ناسا نے زمین کو خلا سے لاحق بڑے خطرے سے خبردار کر دیا

    ناسا کے سائنس دانوں نے خبردار کیا ہے کہ ایک بہت بڑا سیارچہ زمین کی طرف تیز رفتاری سے بڑھتا چلا آ رہا ہے، یہ سیارچہ فرانس کے ایفل ٹاور سے بھی بڑا ہے، اور ناسا کی جانب سے اسے زمین کے لیے ممکنہ طور پر خطرناک قرار دے دیا گیا ہے۔

    ناسا کا کہنا ہے کہ آسمان سے ایک دیوہیکل آفت تیزی سے زمین کی طرف بڑھ رہی ہے، یہ آفت 4660 Nereus نامی سیارچہ ہے جو فرانس کے ایفل ٹاور سے بھی بڑا ہے۔

    سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ سیارچے کے رواں ہفتے کے آخر تک زمین کے بہت قریب پہنچنے کا امکان ہے۔

    امریکی خلائی ادارے ناسا کے مطابق یہ سیارچہ 11 دسمبر کو زمین کے مدار سے گزرے گا، اس سیارچے کا قطر 330 میٹر سے زیادہ ہے، اور یہ تقریباً 3.9 ملین کلومیٹر کے فاصلے سے زمین کے پاس سے گزرے گا۔

    اگرچہ اس سے ہماری زمین کو کوئی فوری خطرہ نہیں ہے، اور 4660 نیریوس کی مطلق شدت 18.4 ہے، تاہم ناسا نے 22 سے کم شدت کے سیارچے کو ممکنہ طور پر خطرناک قرار دیا ہے۔

    ناسا کے مطابق یہ سیارچہ پہلی بار 1982 میں دریافت ہوا تھا، اس کی خاص بات یہ ہے کہ یہ زمین کے قریب سے گزرتا ہے، سورج کے گرد اس کا 1.82 سالہ مدار اسے تقریباً ہر 10 سال بعد ہمارے قریب لاتا ہے۔

    تاہم خلائی سائنس کے نقطہ نظر سے اس کا ’قریب‘ ہونا بھی ایک محفوظ فاصلہ ہے، 1982 سے ناسا اور جاپانی خلائی ایجنسی JAXA اس سیارچے کی نگرانی کر رہے ہیں، چاند زمین سے جتنا دور ہے یہ سیارچہ اس سے دس گنا زیادہ دوری پر چکر کاٹ رہا ہے۔

  • خلا سے ماؤنٹ ایورسٹ کی تصویر

    خلا سے ماؤنٹ ایورسٹ کی تصویر

    دنیا کی سب سے اونچی چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ ان چند مقامات میں سے ایک ہے جو خلا سے بھی دکھائی دیتی ہیں، تاہم حال ہی میں خلا سے لی گئی کچھ تصاویر میں سوشل میڈیا صارفین ماؤنٹ ایورسٹ کو ڈھوندنے میں پریشانی کا شکار ہوگئے۔

    انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن (آئی ایس ایس) میں موجود ناسا کے ایک خلا باز مارک ٹی وینڈی ہے نے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر 2 تصاویر پوسٹ کر کے لوگوں کو چیلنج کیا کہ وہ دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ کو اس میں دریافت کریں۔

    انہوں نے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ متعدد بار کوشش کرنے کے بعد آخر کار میں اسپیس اسٹیشن سے ماؤنٹ ایورسٹ کو تلاش کرنے میں کامیاب ہوگیا، کیا آپ ان تصاویر میں اسے تلاش کرسکتے ہیں؟

    ماؤنٹ ایورسٹ یقیناً زمین کی سب سے بلند چوٹی ہے مگر جب آپ 17 ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے زمین کے مدار پر سفر کررہے ہوں تو وسیع پس منظر میں وہ آسانی سے گم ہوسکتی ہے اور صحیح موقع پر کیمرا سے تصویر لینا بھی آسان نہیں۔

    اب یہی تصاویر زمین سے 248 میل کی بلندی سے لی گئی ہے جس میں ماؤنٹ ایورسٹ کو تلاش کرنا بہت مشکل ہے تاہم کچھ صارفین کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے اسے ڈھونڈ لیا ہے۔

    ایک صارف اسٹیو رائس نے بتایا کہ وہ ایورسٹ کی تصاویر میں ڈھونڈنے میں کامیاب رہا جس کے لیے اس نے گوگل میپس سے بھی کچھ مدد لی۔

  • زمین سے 70 لاکھ میل دور سیارچے سے ٹکرانے کے لیے خلائی جہاز روانہ ہونے کے لیے تیار

    زمین سے 70 لاکھ میل دور سیارچے سے ٹکرانے کے لیے خلائی جہاز روانہ ہونے کے لیے تیار

    زمین سے 70 لاکھ میل دور سیارچے سے ٹکرانے کے لیے ناسا کا خلائی جہاز روانہ ہونے کے لیے تیار ہے۔

    تفصیلات کے مطابق خلا میں تیرنے والے سیارچوں سے زمین کا دفاع کرنے کے لیے ناسا نے دنیا کا پہلا ایسا خلائی جہاز تیار کر لیا ہے، جو خلا میں جا کر سیارچے سے ٹکرا کر اس کا رُخ تبدیل کرے گا، یہ جہاز بدھ کو لانچ کیا جائے گا۔

    ناسا حکام کا کہنا ہے کہ اس مشن کا مقصد یہ اندازہ لگانا ہے کہ کیا خلائی جہاز سیارچوں کا راستہ تبدیل کر سکتے ہیں؟ اس مشن کو ڈبل ایسٹرائیڈ ری ڈائریکشن ٹیسٹ (DART) کا نام دیا گیا ہے۔

    سیارچوں کے دفاعی ٹیسٹ مشن کے لیے تیار کیا جانے والا یہ خلائی جہاز کیلیفورنیا سے سیارچوں سے ٹکرانے کے مشن پر لانچ کیا جائے گا، جو 70 لاکھ میل دوری پر موجود دو سیارچوں سے ٹکرا کر ان کی سمت تبدیل کرے گا۔

    رپورٹ کے مطابق ڈارٹ خلائی جہاز ڈبل سیارچہ ڈیمورفوس اور اس کے چاند ڈیڈیموس کو نشانہ بنائے گا، ڈارٹ ٹیم کے مطابق ان میں سے کوئی سیارچہ زمین کے لیے خطرہ نہیں ہے۔

    ناسا حکام کا کہنا ہے کہ ہم ایسی صورت حال میں نہیں رہنا چاہتے جہاں کوئی سیارچہ زمین کر طرف بڑھ رہا ہو اور ہم کچھ کر نہ سکیں۔

    واضح رہے کہ سیارچے کے حجم کے مقابلے میں یہ خلائی جہاز ایک چھوٹے پتھر (4 فٹ) جیسا ہوگا تاہم ٹکرانے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی قوت اتنی ہوگی جس سے یہ سیارچہ اپنی سمت تبدیل کر سکتا ہے۔

    ڈارٹ، جو کیلیفورنیا کے وینڈنبرگ ایئر فورس بیس سے روانہ ہوگا، 2022 کے موسم خزاں میں ڈیمورفوس اور ڈیڈیموس تک پہنچے گا۔ اس تجربے کے ذریعے ناسا یہ معلوم کرنا چاہتا ہے کہ مستقبل میں اگر کبھی کوئی بڑا سیارچہ زمین کی طرف بڑھے تو اس کی سمت تبدیل کی جا سکتی ہے یا نہیں۔