Tag: ناسا

  • کائنات کے ابتدائی ستاروں کی کھوج ممکن ہوگئی

    کائنات کے ابتدائی ستاروں کی کھوج ممکن ہوگئی

    جلد ہی انسانوں کے پاس کائنات کے ابتدائی ستاروں کی معلومات بھی ہوں گی، ناسا نے اس سلسلے میں تیاری مکمل کر لی۔

    امریکی خلائی تحقیقی ادارے ناسا نے کائنات کے راز کھوجنے کے لیے ایک اور بڑا مشن لانچ کرنے کی تیاری کر لی ہے، ناسا نے 30 برس میں تیار ہونے والی خلائی دوربین کا کام مکمل کر لیا۔

    ناسا کے انجینئرز نے فرنچ گیانا میں جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ کو ڈبے سے نکال لیا ہے، اور اب اسے لانچ کے لیے تیار کیا جا رہا ہے، یہ مشہور زمانہ دور بین ہبل کی جانشین بننے جا رہی ہے، جسے 10 ارب ڈالر کی لاگت سے تیار کیا گیا ہے، اور امریکا سے بھیجے جانے کے بعد پانچ دن قبل ہی یورپ کے کورو اسپیس پورٹ پہنچی ہے، اسے 18 دسمبر کو مدار میں روانہ کیا جائے گا۔

    سائنس دانوں کو امید ہے کہ یہ خلائی دور بین کائنات میں بالکل ابتدائی ستاروں سے نکلنے والی روشنی کا پتا لگا سکتی ہے، تاکہ ساڑھے 13 ارب سال پہلے کے ستاروں کے بارے میں معلومات حاصل ہو سکیں۔یہ ٹیلی اسکوپ امریکی ادارے ناسا، یورپی خلائی ادارے اور کینیڈین خلائی ادارے کا مشترکہ منصوبہ ہے۔

    اس سے قبل تاریخ میں پہلی بار ناسا نے ہبل ٹیلی اسکوپ کو 1990 میں خلا میں بھیجا تھا، جمیز ویب ٹیلی اسکوپ کا شیشہ ہبل ٹیلی اسکوپ کے مقابلے تین گنا بڑا ہے۔

    ناسا کے مطابق جیمز ویب ٹیلی اسکوپ کو زمین سے 15 لاکھ میل دور خلا میں چھوڑا جائے گا، جہاں سے وہ کائنات کے ان حصوں کی کھوج لگائے گا جہاں تک ہبل ٹیلی اسکوپ کی رسائی ممکن نہیں تھی۔

  • ناسا نے مریخ کے بعد مشتری کی طرف بھی خلائی جہاز روانہ کر دیا

    ناسا نے مریخ کے بعد مشتری کی طرف بھی خلائی جہاز روانہ کر دیا

    فلوریڈا: مریخ کے بعد ایک اور سیارے کی کھوج کا سفر شروع ہو گیا، ایک خلائی جہاز نے فلوریڈا میں کیپ کیناورل اسپیس اسٹیشن سے نظام شمسی کے ‘فوصل’ کو دریافت کرنے کے مشن پر خلا کی طرف اڑان بھر لی ہے۔

    امریکی خلائی ادارے ناسا نے نظام شمسی کے فوصل کی دریافت کے لیے مریخ کے بعد مشتری یعنی جوپیٹر کی کھوج شروع کر دی ہے، جس کے لیے انھوں نے اپنا مشن روانہ کر دیا ہے۔

    اس مشن کو لوسی کا نام دیا گیا ہے، اگلے 12 برس میں اس مشن پر 981 ملین امریکی ڈالر خرچ کیے جائیں گے، اس دوران لوسی مشن 7 ٹروجنز کی جانچ اور ان کا مطالعہ کرے گا۔

    یہ لوسی پروب مشتری کے مدار کی طرف روانہ ہوئی ہے، تاکہ سیارچوں کے دو بڑے گروپس کا مطالعہ کرے، جو کہ گیس کے اس دیو (مشتری) سے آگے اور پیچھے غول کی صورت میں دوڑ رہے ہیں۔

    1974 میں ایتھوپیا میں دنیا کا قدیم ترین ڈھانچا دریافت ہوا تھا، جسے لوسی کا نام دیا گیا تھا، لوسی نامی اس ڈھانچے کی دریافت نے انسان کی ابتدا اور ارتقا کے متعلق نظریات کو بدل کر رکھ دیا۔ مشتری پر ٹروجن کی چھان بین کے لیے ناسا نے اپنے مشن کا نام اسی اوّلین انسانی ڈھانچے کے نام پر رکھا ہے۔

    امریکی خلائی ایجنسی (ناسا) کے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ یہ دراصل سیاروں کی تشکیل سے باقی بچنے والی اشیا ہیں، انھیں سائنس دان ٹروجن کہتے ہیں، ان کا خیال ہے کہ نظام شمسی کے ابتدائی ارتقا کے بارے میں ان باقیات سے اہم اشارے مل سکتے ہیں۔

  • زمین پر مریخی رہائش گاہ بن گئی

    زمین پر مریخی رہائش گاہ بن گئی

    واشنگٹن: امریکی خلائی ادارے ناسا نے زمین پر مریخ کے ماحول والی رہائش گاہ تعمیر کر دی۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی خلائی تحقیقاتی ادارے نے زمین پر مریخ کی طرز کی رہائش گاہ بنائی ہے تاکہ مستقبل میں مریخ پر رہائش کے انسانی صحت پر ہونے والے اثرات کا جائزہ لیا جا سکے۔

    یہ رہائش گاہ امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر ہیوسٹن میں واقع ناسا کے جانسن اسپیس سینٹر میں تعمیر کی گئی ہے، یہ تھری ڈی پرنٹر سے بنایا گیا ایک نمونہ ہے، جس میں رہائش کے لیے رضاکاروں کا انتخاب کیا جائے گا۔

    ناسا کے مطابق یہاں رہنے والے رضا کارایک مصنوعی مشن پر کام کریں گے جس میں ان کی سپیس واک،رہائش سے باہر رابطے کے لیے محدود ذرائع ، محدود خوراک اور وسائل سمیت تمام امور کا جائزہ لیا جائے گا۔

    مصنوعی مریخی ماحول میں منتخب افراد کو ایک سال تک رہنا ہوگا،  جس کے لیے ناسا کی جانب سے انھیں معاو ضہ بھی ادا کیا جائے گا، اس تجربے کا مقصد مستقبل میں مریخ پر جانے والوں کی صحت اور کارکردگی کو جانچنا ہے۔

    زمین پر قائم اس مریخی رہائش گاہ میں رہنے کے خواہش مند افراد کا امریکی شہری ہونا اور ماسٹر ڈگری ہولڈرہونا لازمی ہے جب کہ اس کی عمر  30 سے 55 سال کے درمیان ہونی چاہیے۔

  • سورج کے قریب ایک اور سورج دریافت

    سورج کے قریب ایک اور سورج دریافت

    واشنگٹن: ناسا نے سورج کے قریب 60 کروڑ سال قدیم ستارہ دریافت کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ناسا کے ماہرین فلکیات نے سورج کے قریب ایک اور سورج کو دریافت کر لیا ہے، حجم میں سورج سے چھوٹا یہ ستارہ سورج ہی کی طرح لگتا ہے، کپا 1 سیٹی نامی ستارے میں سورج ہی کی طرح کا درجۂ حرارت اور روشنی پائی جاتی ہے۔

    ناسا ماہرین فلکیات کی جانب سے اس ستارے کے مطالعاتی مشاہدات جاری ہیں۔

    ناسا کا کہنا ہے کہ ابتدائی نظام شمسی میں اربوں سال پیچھے جانا اور یہ دیکھنا ناممکن ہے کہ سورج کیسا تھا اور کب زمین پر پہلی بار زندگی کے آثار پیدا ہوئے، تاہم اس دریافت سے سائنس دانوں کو بہتر طور پر سمجھنے کا موقع ملے گا کہ کیسے سورج سیاروں کے ماحول اور زمین پر زندگی کی نشوونما کا سبب بنتا ہے۔

    محققین کا کہنا ہے کہ سائنس دان اس بات کو بہتر طور پر سمجھ سکیں گے کہ ہمارا سورج جب جوان تھا تو کیسا رہا ہوگا، اور اس نے کس طرح ہمارے سیارے کے ماحول اور زمین پر زندگی کی تشکیل کی ہوگی، سائنس دان اس حوالے سے متجسس رہتے ہیں کہ ہمارے سورج کو، جو اس وقت اپنی زندگی کی درمیانی عمر میں ہے، نوجوانی میں کن خصوصیات نے اس قابل بنایا ہوگا کہ اس نے زمین پر زندگی کو سہارا دینا شروع کیا، اس سلسلے میں سائنس دان ستارے سے نکلنے والی کورونل ماس ایجیکشنز اور ہواؤں کا مطالعہ کر رہے ہیں۔

    کپا وَن سیٹی (Kappa 1 Ceti) نامی یہ سورج زمین سے 30 نوری سال کی دوری پر واقع ہے، اگر مکانی اصطلاح میں کہا جائے تو یہ اتنی ہی دوری پر جیسے اگلی گلی میں واقع ہو، اور اس کی عمر 60 سے 75 کروڑ سال ہے یعنی اتنی ہی جتنی ہمارے سورج کی اس وقت تھی جب زمین پر زندگی پیدا ہوئی۔

    خیال رہے کہ ملکی وے کہکشاں کے اندر 100 ارب سے زیادہ ستارے ہیں، جن میں سے 10 میں سے ایک ہمارے اپنے ستارے کے سائز اور چمک کے برابر ہیں، اور ان میں سے بہت سے ستارے ابھی ترقی کے ابتدائی مراحل میں ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ انسانی بچوں کی طرح، نوجوان ستارے بھی عمر کے حساب سے نشونما پاتے ہیں اور ان کی خصوصیات میں تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں۔

  • قیامت کے لمحے، خلا میں موجود بین الاقوامی اسپیس اسٹیشن روسی راکٹ چلنے سے لڑکھڑا کر نیچے گر گیا

    قیامت کے لمحے، خلا میں موجود بین الاقوامی اسپیس اسٹیشن روسی راکٹ چلنے سے لڑکھڑا کر نیچے گر گیا

    واشنگٹن: حادثاتی طور پر اچانک روسی راکٹ فائر ہونے سے خلا میں موجود انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن دہل گیا، اور وہاں موجود خلا بازوں پر قیامت گزر گئی۔

    تفصیلات کے مطابق بین الاقوامی اسپیس اسٹیشن بڑے حادثے سے بچ گیا ہے، دنیا کے گرد گھومنے والا خلائی اسٹیشن روسی خلائی جہاز کے راکٹ چلنے سے لڑکھڑا گیا تھا۔

    ناسا کا کہنا ہے کہ روسی خلائی جہاز کے راکٹ حادثاتی طور پر چل پڑے، جس کی وجہ سے اسٹیشن اپنی بلندی سے 45 ڈگری گر گیا، یہ واقعہ روس کے ’نوکا‘ نامی خلائی جہاز کی انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن پہنچنے کے کچھ گھنٹوں بعد پیش آیا، جو8 دن کی پرواز کے بعد آئی ایس ایس تک پہنچا تھا۔

    ناسا کے مطابق اس حادثے کے وقت خلائی اسٹیشن کے عملے سے مشن کنٹرول کا رابطہ کئی منٹوں کے لیے منتقع ہو گیا تھا، خلائی اسٹیشن میں موجود خلا بازوں کے مطابق انھیں کوئی بڑا جھٹکا محسوس نہیں ہوا، اور وہاں موجود ساتوں خلا باز محفوظ رہے۔

    انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن کی حرکت پر قابو کے لیے مشن کنٹرول میں موجود اہل کاروں کو خلائی اسٹیشن کے ایک اور حصے پر نصب راکٹ چلانا پڑا، ناسا کا کہنا ہے کہ چھوٹی سی غلطی سے کوئی بڑا حادثہ بھی پیش آ سکتا تھا، اس لیے واقعے کی مکمل تحقیقات جاری ہیں۔

    واضح رہے کہ اس حادثے کے سبب ناسا اور ہوا بازی کی کمپنی بوئنگ کو اپنے خود کار خلائی جہاز ’اسٹار لائنر‘ کی آزمائشی پرواز بھی 3 اگست تک ملتوی کرنی پڑی ہے۔

  • زمین کو خطرہ؟ یکم جون کو ایک بڑا سیارچہ قریب سے گزرے گا

    زمین کو خطرہ؟ یکم جون کو ایک بڑا سیارچہ قریب سے گزرے گا

    واشنگٹن: ناسا کا کہنا ہے کہ بھارت میں موجود مجسمہ اتحاد سے بھی بڑا سیارچہ یکم جون کو زمین کے قریب سے گزرے گا، جو ممکنہ طور پر خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق یکم جون کو زمین سے 72 لاکھ کلو میٹر فاصلے سے ایک سیارچہ گزرے گا، ناسا کا کہنا ہے کہ اس کا سائز بھارتی شہر گجرات میں ایستادہ ولبھ بھائی پٹیل کے 182 میٹر بلند مجسمے سے بھی بڑا ہے اور اس کا سائز 186 میٹر ہے۔

    ناسا نے اس سیارچے (Asteroid) کو KT1 کا نام دیا ہے، اگرچہ اس کا فاصلہ زمین اور چاند کے درمیان فاصلے سے بھی 20 گنا زیادہ ہے تاہم اس کے باوجود اس کو فلکیاتی پیمانے پر ’قریب‘ سمجھا جاتا ہے۔

    66 ملین سال پہلے جب قُطر میں محض چند کلو میٹر پر مشتمل ایک سیارچہ زمین سے ٹکرایا تھا، تو اس نے ہمارے نیلے سیارے پر پودوں اور جانوروں کی تین چوتھائی نسل کا صفایا کر دیا تھا، ان میں ڈائناسارز بھی شامل تھے، اور اس سے جو دھماکا ہوا وہ کئی لاکھ نیوکلیئر ہتھیاروں کے بہ یک وقت دھماکے کے برابر تھا۔

    سیارچوں پر نگاہ رکھنے کے لیے ناسا کی قائم کردہ جیٹ پروپلژن لیبارٹریز کے مطابق کے ٹی وَن نامی یہ سیارچہ 31 مئی سے 2 جون کے درمیان زمین سے نہایت نزدیکی میں گزرنے والے پانچ سیارچوں میں سے ایک ہے۔

    ایک بس جتنا سیارچہ آج (اکتیس مئی) کو زمین کے قریب سے گزرے گا، اس کا فاصلہ چاند کے فاصلے کا ایک تہائی ہوگا، دیگر سیارچوں میں دو ایسے ہیں جو عام گھر جتنے ہیں، اور ایک سیارچہ ہوائی جہاز جتنا ہے، یہ سیارچے زمین سے 11 لاکھ کلو میٹر سے لے کر 59 لاکھ کلو میٹر کے درمیان فاصلوں سے گزریں گے۔

    اسپیس ایجنسی کا کہنا ہے کہ چوں کہ ان سیارچوں کا سائز چھوٹا ہے اس لیے یہ نقصان دہ نہیں ہیں، تاہم کے ٹی وَن سیارچہ سائز میں بڑا ہے، ناسا ہر اس سیارچے کو ممکنہ خطرناک قرار دیتا ہے جو 150 میٹر سے بڑا اور 75 لاکھ کلو میٹرز کے فاصلے کے اندر ہو۔

    ناسا ایسے سیاروں کا باریک بینی سے مشاہدہ کرتا ہے، کیوں کہ وقت کے ساتھ ساتھ متحرک سیاروں سے آنے والی کشش ثقل کھینچاؤ میں تبدیلی کی وجہ سے کوئی سیارچہ اپنا راستہ تبدیل کر سکتا ہے۔

    مذکورہ سائز کا کوئی سیارچہ اگر زمین سے ٹکرا جائے تو اس سے ہمارے نیلے سیارے پر تباہ کن اثر پڑ سکتا ہے، خوش قسمتی سے ناسا ایسی ٹیکنالوجیز تیار کر چکا ہے جسے خلا میں بھیج کر خطرناک سیارچے کو ٹکڑے ٹکڑے کیا جا سکتا ہے۔

  • مریخ پر آکسیجن، ناسا نے بڑی کامیابی حاصل کر لی

    مریخ پر آکسیجن، ناسا نے بڑی کامیابی حاصل کر لی

    واشنگٹن: امریکی خلائی تحقیقاتی ادارے ناسا نے سرخ سیارے پر زندگی کے لیے ضروری عنصر آکسیجن کی تیاری میں کامیابی حاصل کر لی۔

    تفصیلات کے مطابق مریخ پر ناسا کا خلائی مشن Perseverance کاربن ڈائی آکسائیڈ سے آکسیجن تیار کرنے میں کامیاب ہو گیا، 20 اپریل کو ’پرسیورینس مارس رووَر‘ نے مریخ کے ماحول سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کو اکٹھا کر کے اسے سانس لینے کے قابل آکسیجن میں تبدیل کر دیا۔

    یہ کارنامہ ناسا کی اس جدید اور نئی خلائی گاڑی جو چھ پہیوں والا روبوٹ ہے، نے مریخ پر اپنی 60 ویں دن انجام دیا، اس مشن نے مریخ پر 18 فروری کو لینڈ کیا تھا۔

    ناسا کے اس مشن پرسیورینس کا اصل مقصد تو مریخ پر زندگی کے آثار کو تلاش کرنا ہے، تاہم اس کے ساتھ ساتھ اس خلائی گاڑی کو دیگر سائنسی تجربات کے لیے بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔

    خیال رہے کہ ناسا کی فضا کاربن ڈائی آکسائیڈ سے بھرپور ہے، اس ہدف کو پورا کرنے کے لیے خلائی گاڑی پر ٹوسٹر (ٹوسٹ گرم کرنے والی مشین) جتنا ایک آلہ لگایا گیا ہے، جسے MOXIE کا نام دیا گیا ہے یعنی مارس آکسیجن انسیٹو ریسورس یوٹیلائزیشن ایکسپیریمنٹ۔

    اس آلے کے ذریعے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے مالیکیولز سے آکسیجن ایٹمز کو الگ کیا گیا، اور اس کے لیے گیس کو لگ بھگ 1470 ڈگری فارن ہائیٹ پر گرم کر کے کاربن مونو آکسائیڈ تیار کیا گیا۔

    اس آلے کے پہلے تجربے کے دوران 5 گرام آکسیجن تیار ہوئی، جس سے ایک خلا باز 10 منٹ تک اپنے اسپیس سوٹ میں سانس لے سکتا ہے، ناسا کے مطابق اس تجربے کی کامیابی سے مستقبل کے مشنز کے لیے ایک نیا ذریعہ ہاتھ آیا ہے، بالخصوص ایسے مشنز جن میں انسانوں کو راکٹوں میں مریخ پر بھیجا جائے گا، جہاں انھیں آکسیجن کی ضرورت ہوگی۔

    ناسا کا کہنا ہے کہ مریخ پر 4 انسانوں کو لے جانے والے راکٹ میں 55 ہزار پاؤنڈ آکسیجن بھیجنے کی ضرورت ہوگی، مگر مریخ تک اتنی زیادہ مقدار میں آکسیجن بھیجنا ممکن نہیں، اس لیے اس نئی ٹیکنالوجی سے مستقبل کے مشنز کے لیے سرخ سیارے کی کھوج زیادہ آسان ہوسکے گی۔

    واضح رہے کہ یہ پہلی بار ہے جب زمین سے باہر کسی جگہ آکسیجن تیار کرنے میں کامیابی حاصل کی گئی ہے۔ یہ مشن دراصل مریخ پر مائیکروبیل (microbial) زندگی کے آثار کی تلاش کا کام کر رہا ہے، جو 3 ارب برس قبل مریخ پر موجود تھے، جب نظام شمسی کا چوتھا سیارہ سورج سے زیادہ گرم ، نم اور زندگی کے لیے ممکنہ طور پر سازگار تھا، سائنس دانوں نے اس کے لیے امید بھی ظاہر کی ہے۔

  • چاند پر گھر کا ماہانہ کرایہ کتنا ہوگا؟ جان کر آپ کے ہوش اڑ جائیں گے

    چاند پر گھر کا ماہانہ کرایہ کتنا ہوگا؟ جان کر آپ کے ہوش اڑ جائیں گے

    واشنگٹن: خلائی تحقیق کے امریکی ادارے ناسا نے اب چاند پر باقاعدہ رہائش اختیار کرنے کا منصوبہ شروع کر دیا ہے، اس سلسلے میں پہلا مشن 2024 میں بھیجا جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق چاند پر انسانوں کی آباد کاری کے لیے حالات کا جائزہ لینے ناسا ایک مرد اور عورت کو بھیجنے کی تیاری کر رہا ہے، ناسا 2024 میں اپنے پہلے مشن میں خاتون کو چاند پر روانہ کرے گا، اس کے بعد مرد کو بھی بھیجا جائے گا۔

    لیکن کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ چاند پر زندگی گزارنے کا خواب کتنا مہنگا ہو سکتا ہے، تعمیراتی کمپنیوں نے اندازہ لگایا ہے کہ چاند کی سطح پر گھر بنانے میں 40 ملین ڈالر لاگت آئے گی، اور چاند پر بنائے گئے گھر کا ماہانہ کرایہ 3 لاکھ 25 ہزار 67 ڈالر ہوگا۔

    چاند کے سیاحتی دورہ کرنے کا نادر موقع! جاپانی ارب پتی کا بڑا اعلان

    چاند پر زندگی گزارنے کا خیال تو دل چسپ ہے تاہم وہاں آپ کو مختلف حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، چاند پر آپ کو ایسے ذرائع درکار ہوں گے جن کی مدد سے توانائی حاصل کی جا سکے، وہاں گرین ہاؤسز اور سولر پینلز کی ضرورت ہوگی۔ چاند پر بجلی پیدا کرنے کے لیے ایک چھوٹا سا نیوکلیئر ری ایکٹر بھی ساتھ لے جانا ہوگا جس کی قیمت 1.3 بلین ڈالر ہے۔

    متبادل کے طور پر 34 سولر پینل بھی ساتھ لے جایا جاسکتا ہے جو ایک گھر چلانے کے لیے کافی ہوگا، جس کی لاگت 23 ہزار 616 ڈالر بنتی ہے، چاند پر رہائش اختیار کرنے سے قبل وہاں رہنے اور سبزیاں اگانے کے طریقے بھی سیکھنے ہوں گے، چاند پر 7 گھروں میں 28 لوگوں کو 1100 کلو خوراک اگانی ہوگی۔

    روس 45 برسوں میں پہلی بار چاند کی کھوج دوبارہ شروع کر رہا ہے

    خوراک اگانے اور دیگر کاموں کے لیے قابل استعمال، 4 افراد پر مشتمل ایک گھر کو سال میں 5.9 ٹن پانی درکار ہوگا۔ خیال رہے کہ ناسا کا کہنا ہے کہ چاند کے جس حصے پر سورج کی روشنی پڑتی ہے وہاں پانی تو ہے لیکن وہ گلہ بانی کے لیے قابل استعمال نہیں، چاند پانی کا مسئلہ استعمال شدہ پانی کو فلٹر کر کے ہی حل کیا جا سکتا ہے۔

  • خلا میں 150 سال سے موجود یہ روشنی کیسی ہے؟

    خلا میں 150 سال سے موجود یہ روشنی کیسی ہے؟

    واشنگٹن: امریکی خلائی ادارے ناسا نے خلا میں آتش بازی کی ایک تصویر جاری کی ہے جو گزشتہ 150 سال سے خلا میں موجود ہے۔

    سماجی رابطے کی ویب سائٹ انسٹاگرام پر یہ تصویر پوسٹ کرتے ہوئے ناسا نے لکھا کہ کیا آپ نے ایسی آتشبازی دیکھی ہے جو آہستگی سے حرکت کرے؟ اتنی آہستگی سے کہ وہ ڈیڑھ سو سال جاری رہے؟

    ناسا کے مطابق خلا میں یہ آتشبازی دراصل ایک ستارے ایٹا کرینا کے پھٹنے سے ہوئی، یہ ستارہ جو اب تباہ ہوچکا ہے زمین سے 7 ہزار 500 نوری سال کے فاصلے پر ہے۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by NASA (@nasa)

    ناسا کا کہنا ہے کہ یہ ستارہ سنہ 1840 کی دہائی میں ایک زور دار دھماکے سے پھٹا، اور سست روی سے ہونے والے اس دھماکے اور اس سے ہونے والی روشنی نے ایک دہائی تک اسے آسمان کا روشن ترین ستارہ بنائے رکھا۔

    اس زمانے میں اس دھماکے کی روشنی اتنی تھی کہ اس وقت جنوبی سمندروں میں جانے والے ملاح اس روشن ستارے سے سمندر میں سمت کا تعین کیا کرتے تھے۔

    اس ستارے کو ناسا کی ہبل ٹیلی اسکوپ سے عکس بند کیا گیا ہے۔

    ناسا نے مزید بتایا کہ ایٹا کرینا دو ستاروں کے ایک دوسرے کے مدار میں گھومنے کے سسٹم کو کہا جاتا ہے، دونوں ستاروں کی مشترکہ روشنی ہمارے سورج کی روشنی سے 50 لاکھ گنا زائد ہوتی ہے۔

    ناسا کی اس تصویر کو 9 لاکھ سے زائد افراد نے لائک کیا اور مختلف کمنٹس کیے۔

  • کیا خلائی مشن کو سیارہ مشتری پر جنات اور پریاں دکھائی دیں؟

    کیا خلائی مشن کو سیارہ مشتری پر جنات اور پریاں دکھائی دیں؟

    امریکی خلائی تحقیقاتی ادارے ناسا کا کہنا ہے کہ روبوٹک خلائی مشن جونو نے سیارہ مشتری کی بالائی فضا میں مافوق الفطرت مخلوق جنات اور پریاں دیکھیں۔

    ناسا کا کہنا ہے کہ جونو سے حاصل ہونے والی تصاویر میں 2 اقسام کی تیز روشنیاں نظر آئیں، یہ روشنیاں اسپرائٹس (پریاں) اور ایلوز (جن) تھے۔

    اس اقسام کی روشنیاں زمین پر دیکھی جاتی رہی ہیں تاہم کسی دوسرے سیارے پر یہ پہلی بار دیکھی گئیں۔

    امریکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق یورپی افسانوں کے مطابق اسپرائٹس ہوشیار اور پری نما مخلوق ہیں جبکہ سائنس میں کہا جاتا ہے کہ یہ روشنی کے وہ روشن مراکز ہیں جو آسمانی بجلی سے متحرک ہوتی ہیں اور طوفان کے اوپر دکھائی دیتی ہیں۔

    یہ مناظر زمین پر عموماً بڑے طوفانوں کے اوپر تقریباً 60 میل کی اونچائی پر دکھائی دیتے ہیں۔

    آسمان کو روشن کرنے والے ان اسپرائٹس کی روشنی 15 سے 30 میل کے فاصلے تک پھیل سکتی ہے لیکن یہ سلسلہ صرف چند ملی سیکنڈز تک جاری رہتا ہے۔

    دوسری جانب ایلوز سائنسی زبان میں الیکٹرو میگنیکٹ پلس ذرائع کی وجہ سے روشنی کے اخراج اور انتہائی کم فریکوئنسی کے انتشار کا نام ہے جو انتہائی تیز چمکتی بجلی کی طرح دکھائی دیتے ہیں۔

    ایلوز ایک متوازی ڈسک کی طرح دکھائی دیتی ہیں اور یہ آسمان کے ایک بڑے حصے پر 200 میل تک پھیل سکتی ہیں۔

    جونو مشن پر کام کرنے والے سائنسدان اور اس تحقیق کے مصنف روہنی ایس جائلز کا کہنا تھا کہ زمین پر اسپرائٹس اور ایلوز بالائی فضا میں موجود نائٹروجن سے ردعمل کی وجہ سے سرخ رنگ میں دکھائی دیتے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ مشتری پر بلندی میں فضا میں ہائیڈروجن موجود ہوتی ہے جس کی وجہ سے اسپرائٹس اور ایلوز نیلی یا گلابی بھی دکھائی دے سکتی ہیں۔

    یہ تحقیق 27 اکتوبر کو جرنل آف جیوفزیکل ریسرچ میں سیاروں سے متعلق سیریز میں شائع ہوئی۔