Tag: ناسا

  • ٹام کروز اپنی فلم کی شوٹنگ کے لیے خلا میں کب جائیں گے؟

    ٹام کروز اپنی فلم کی شوٹنگ کے لیے خلا میں کب جائیں گے؟

    معروف ہالی ووڈ اداکار ٹام کروز نے خلا میں فلم کی شوٹنگ کے لیے امریکی خلائی ادارے ناسا سے معاملات طے کیے تھے اور اب ان کے خلا میں جانے کی حتمی تاریخ بھی سامنے آگئی ہے۔

    سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر خلائی مشن سے متعلق معلومات فراہم کرنے والے ادارے اسپیس شٹل المینیک نے ایک چارٹ شیئر کیا۔

    اس چارٹ میں دیکھا جاسکتا ہے کہ اکتوبر 2021 میں اسپیس ایکس نامی کمپنی کے پائلٹ لوپیز الیگریا کے ہمراہ ٹام کروز اور معروف ہدایت کار ڈوگ لیمن بھی خلا میں جائیں گے۔

    اس چارٹ میں خلا میں جانے کے لیے ان کے ساتھ ایک اور شخص کی سیٹ خالی ہے، تاہم اس پر کوئی نام سامنے نہیں آسکا ہے۔

    خیال رہے کہ رواں برس مئی میں خبریں سامنے آئی تھیں کہ ٹام کروز فلم کی شوٹنگ کے لیے خلا میں جائیں گے۔ ایک امریکی اخبار کا کہنا تھا کہ آٹو کمپنی ٹیسلا اور راکٹ کمپنی اسپیس ایکس کے سربراہ ایلن مسک بھی اس منصوبے میں شامل ہوں گے۔

    امریکی خلائی ادارے ناسا کے ایڈمنسٹریٹر جم برائیڈنسٹائن نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ٹویٹ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ناسا زمین کے مدار کے باہر بین الاقوامی خلائی اسٹیشن (اسپیس اسٹیشن) پر ٹام کروز کے ساتھ فلم کی شوٹنگ کے لیے پرجوش ہے۔

    انہوں نے کہا کہ اس طرح کے مقبول میڈیم کے ذریعے انجینیئرز اور سائنسدانوں کی نئی نسل ناسا کے منصوبوں کو حقیقت میں بدلنے کے لیے متاثر ہوگی۔

  • خلا کی تسخیر کے لیے متحدہ عرب امارت کا اہم اقدام

    خلا کی تسخیر کے لیے متحدہ عرب امارت کا اہم اقدام

    ابو ظہبی: متحدہ عرب امارات نے خلا کی تسخیر کے لیے امریکی خلائی ادارے ناسا سے معاہدہ کرلیا، اماراتی خلا نورد ناسا کے تحت عالمی تجربہ اور مہارت حاصل کریں گے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق متحدہ عرب امارات میں محمد بن راشد خلائی مرکز اور ناسا نے اماراتی خلا نوردوں کی ٹریننگ کے معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ نئے معاہدے کے تحت اماراتی خلا نورد ناسا کے تحت عالمی تجربہ اور مہارت حاصل کریں گے۔

    معاہدے کے مطابق ناسا میں 4 اماراتی خلا نوردوں کو تربیت دی جائے گی، ابتدا ھزاع المنصوری اور سلطان النیادی سے کی جائے گی۔ دوسرے مرحلے میں دیگر 2 خلا نوردوں کو امریکا بھیجا جائے گا۔

    انہیں سنہ 2021 کے لیے خلا نوردوں کے ناسا پروگرام میں شامل کیا گیا ہے۔

    اماراتی خلا نورد وہی جسمانی اور ذہنی تربیت حاصل کریں گے جو ناسا کی جانب سے اپنے خلا نوردوں کو دی جاتی ہے۔

    ناسا کا جانسن سینٹر خلا نوردی کے شعبے میں نصف صدی سے کہیں زیادہ سے کام کررہا ہے، یہ سینٹر سائنسی اور ٹیکنالوجی معلومات کے فروغ میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔

    سنہ 1961 کے دوران ہیوسٹن میں قائم کیا جانے والا ی ادارہ تقریباً 10 ہزار افراد کو تیار کر چکا ہے۔

    خیال رہے کہ امارات کے خلا نورد ھزاع المنصوری اور سلطان النیادی ستمبر 2018 کے دوران ماسکو کی سٹارز سٹی میں یوری گگارین سینٹر میں بھی ٹریننگ حاصل کر چکے ہیں۔

  • زمین سے ایک سیارچہ ٹکرانے جارہا ہے

    زمین سے ایک سیارچہ ٹکرانے جارہا ہے

    امریکی خلائی ادارے ناسا کا کہنا ہے کہ رواں برس نومبر میں ایک سیارچہ زمین سے ٹکرائے گا تاہم زمین کو اس سے کوئی نقصان نہیں ہوگا۔

    ناسا نے حال ہی میں ایک سیارچے کا مشاہدہ کیا ہے جو خلا میں زمین سے براہ راست تصادم کے راستے پر ہے، 6.5 میٹر قطر کا یہ سیارچہ نومبر تک زمین کے قریب پہنچ جائے گا۔

    ناسا کے مطابق امریکا میں صدارتی انتخاب سے ایک روز قبل 2 نومبر کو یہ سیارچہ زمین کی فضا میں داخل ہوجائے گا۔ زمین پر اس کے اثرات ایک فیصد سے بھی کم ہوں گے لہٰذا یہ سیارچہ زمین کے لیے کسی قسم کا خطرہ ثابت نہیں ہوگا۔

    اس سیارچے کو کیلی فورنیا کی رصد گاہ میں 2 سال قبل دیکھا گیا تھا۔

    اس سے قبل سنہ 2018 میں ایک خطرناک جسامت کا سیارچہ زمین کے نہایت قریب آگیا تھا، ویسٹا نامی یہ سیارچہ پاکستان کے کل رقبے جتنا بڑا تھا جبکہ سیارچے میں 13 میل بلند پہاڑ بھی موجود تھے۔

    ناسا کا کہنا تھا کہ وہ سیارچہ جو زمین سے ٹکرا کر ڈائنو سارز کے نسل کے خاتمے کی وجہ بنا، صرف 10 سے 15 کلومیٹر چوڑا تھا، جبکہ ویسٹا کی چوڑائی 252 کلو میٹر تھی۔ اس کے زمین سے ٹکرانے کی صورت میں زمین پر سے زندگی کا خاتمہ ہوسکتا تھا۔

    تاہم خوش قسمتی سے زمین سے انتہائی قریب ہونے کے باجوود یہ اس راستے پر نہیں تھا جس پر زمین سے اس کا تصادم ہوسکے، چنانچہ یہ زمین کو کوئی نقصان پہنچائے بغیر اپنے راستے پر خلا کی وسعتوں میں گم ہوگیا۔

  • کیا آپ افریقہ کی آنکھ کے بارے میں جانتے ہیں؟

    کیا آپ افریقہ کی آنکھ کے بارے میں جانتے ہیں؟

    شمال مغربی افریقی ملک موریطانیہ میں صحرائے صحارا میں واقع انسانی آنکھ نما ایک دائرہ وہ معمہ ہے جو اب تک سائنسدانوں کو پریشان کیے ہوئے ہے، یہ نیلگوں دائرہ کب اور کیسے وجود میں آیا، سر توڑ کوششوں کے باجود ماہرین اب تک معلوم نہیں کرسکے۔

    دنیا کے تیسرے بڑے صحرا صحارا میں واقعہ یہ مقام افریقہ کی آنکھ، صحارا کی آنکھ یا ریچٹ اسٹرکچر کہلاتا ہے۔ اسے خلا سے بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ دائرہ 25 میل رقبے پر محیط اور مختلف اقسام کے پتھروں پر مشتمل ہے۔

    اس دائرے کو 1930 سے 1940 کے درمیان پہلی بار دیکھا گیا اور تب سے اب تک اس کے مختلف پہلوؤں پر تحقیقات جاری ہیں تاہم تاحال اس کے بننے کی حتمی وجہ پر نہیں پہنچا جاسکا۔

    ریچٹ اسٹرکچر کے بننے کے بارے مختلف مفروضات پیش کیے جاتے رہے ہیں تاہم کینیڈا سے تعلق رکھنے والے 2 ماہرین ارضیات نے جو مفروضہ پیش کیا اسے خاصا معتبر مانا جاتا ہے۔

    اس مفروضے کے مطابق یہ آنکھ آج سے 10 کروڑ سال پہلے اس وقت بننا شروع ہوئی جب ہماری زمین مختلف براعظموں میں بٹنا شروع ہوئی۔ اس سے قبل ہماری زمین ایک ہی براعظم پر مشتمل تھی۔

    جب زمین کی پلیٹس ایک دوسرے سے دور سرکنا شروع ہوئیں اور آج کا براعظم افریقہ اور شمالی امریکا ایک دوسرے سے الگ ہونے لگے تب زمین کی تہہ میں موجود پگھلی ہوئی چٹانیں بیرونی سطح کی طرف آنے لگیں لیکن یہ بالکل زمین کے اوپر نہ آسکیں اور نیچے ہی رک گئیں جس سے پتھریلی سطحوں کا ایک گنبد سا بن گیا۔

    اس تمام عمل سے اس گنبد کے بیچوں بیچ اور اس کے ارد گرد فالٹ لائنز بھی پیدا ہوگئیں۔ اس گنبد نے اوپر سطح پر موجود چونے کے پتھروں کو بھی پگھلا دیا جو اس آنکھ کے وسط میں موجود تھے۔

    اس طرح اس گنبد کی شکل آنکھ کی طرح بن گئی، اس آنکھ کے دائرے مختلف چٹانوں سے بنے ہوئے ہیں جو مختلف رفتار سے پگھلیں۔

    دنیا بھر کے ماہرین کی اس دائرے پر تحقیق اب بھی جاری ہے۔

  • لندن آئی سے بڑا پتھر زمین کی طرف تیز رفتاری سے بڑھنے کا انکشاف

    لندن آئی سے بڑا پتھر زمین کی طرف تیز رفتاری سے بڑھنے کا انکشاف

    واشنگٹن: ناسا نے خبردار کیا ہے کہ لندن آئی سے بڑا ایک پتھر خلا سے برق رفتاری کے ساتھ زمین کی جانب بڑھ رہا ہے، اور یہ ممکنہ طور پر خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔

    برطانوی میڈیا کے مطابق ناسا نے کہا ہے کہ ایک بہت بڑا ایسٹرائیڈ زمین کی جانب بڑھتا آ رہا ہے، ناسا نے اس پتھر کو Asteroid 2020ND کا نام دیا ہے، ایسٹرائیڈ وہ عظیم الجثہ پتھر ہیں جو خلا میں سورج کے گرد گھومتے ہیں۔

    ناسا کا کہنا ہے کہ یہ پتھر لندن آئی سے ڈیڑھ گنا بڑا ہے، اور امکانی طور پر یہ زمین کے لیے پُر خطر خلائی پتھروں میں سے ہے، خیال رہے کہ لندن آئی یا ملینیم پہیا لندن میں دریائے ٹیمز کے جنوبی کنارے پر نصب دنیا کا وہ سب سے بڑا پہیا ہے جس کی ساخت 135 میٹر (443 فٹ) ہے اور اس کا قطر 120 میٹر ہے۔

    ناسا نے اس پتھر کے بارے میں کہا ہے کہ یہ اگلے ہفتے ہمارے سیارے کے بہت قریب سے گزرے گا، اور یہ ممکنہ طور پر خطرناک ثابت ہو سکتا ہے، سائنس دانوں خبردار کیا کہ یہ سماوی پتھر زمین کے مدار کی جانب ہی بڑھ رہا ہے اور صرف 0.034 فلکیاتی یونٹس کے اندر ہمارے سیارے کے پاس سے گزرے گا۔ فلکیاتی (astronomical) یونٹ طوالت کا یونٹ ہے جو زمین سے لے کر سورج تک اندازے پر مبنی فاصلہ ہے اور یہ تقریباً 150 ملین کلو میٹرز کے مساوی ہے۔

    سائنس دانوں نے اس خلائی پتھر کی پیمائش کے بارے میں بتایا کہ اس کی لمبائی 170 میٹر ہے، اور یہ اگلے جمعے، 24 جولائی کو زمین کے بالکل قریب آ جائے گا، اسپیس ایجنسی کا کہنا ہے کہ جن خلائی پتھروں کو نقصان دہ کہا جاتا ہے انھیں دراصل زمین کے زیادہ سے زیادہ قریب آنے کے امکان کے پیش نظر خطرناک قرار دیا جاتا ہے۔

    ناسا کے مطابق وہ تمام ایسٹرائیڈز جو زمین کے مدار میں کم سے کم 0.05 اتصالی فاصلہ (MOID) رکھتے ہوں انھیں PHA (پوٹنشلی ہزرڈس ایسٹرائیڈ یعنی ممکنہ طور پر خطرناک) قرار دیا جاتا ہے۔

    سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس پتھر کو ایک مدار میں کھسکایا جا سکتا ہے، جس سے دیگر سیاروں کی کشش ثقل کی وجہ سے یہ زمین کے علاقے کی خلا میں پہنچ جائے گا۔

  • کورونا سے بچاؤ میں مدد دینے والا ہار

    کورونا سے بچاؤ میں مدد دینے والا ہار

    واشنگٹن: امریکی خلائی ادارے ناسا نے عالمی وبا کورونا وائرس سے بچاؤ میں مدد دینے والا انوکھا ہار تیار کر لیا، یہ ہار چہرے پر بار بار ہاتھ لگانے سے روکتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی خلائی ادارے دی نیشنل ایروناٹکس اینڈ اسپیس ایڈمنسٹریشن (ناسا) کی جیٹ پروپلشن لیبارٹری کی جانب سے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ایک ایسا ہار تیار کیا گیا ہے جو کہ آپ کو چہرے پر بار بار ہاتھ لگانے سے روکے گا۔

    ہار کا نام پلس رکھا گیا ہے، اس ہار کی خاص بات یہ ہے کہ جس نے بھی یہ ہار پہن رکھا ہوگا وہ جیسے ہی اپنا ہاتھ چہرے کے قریب لے کر جائے گا تو یہ فوراً وائبریٹ ہونے لگے گا اور آپ کو فوراً یاد آجائے گا کہ چہرے پر ہاتھ نہیں لگانا۔

    ناسا کا کہنا ہے کہ اس طرح سے اس ڈیوائس کا استعمال کرنے سے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے میں مدد ملے گی۔

    مزید پڑھیں : ناسا کی جانب سے کرونا مریضوں کے لیے بڑی خوش خبری آ گئی

    خیال رہے ماہرین کا کہنا ہے کہ چہرے پر بار بار ہاتھ لگانا کورونا وائرس جیسے انفیکشن کے پھیلنے کا سبب بن بنتا ہے، اس لئے چہرے کو چھونے سے روکنے کی بھی سختی سے تنبیہ کرنی چاہیے۔

    اس سے قبل ناسا نے کرونا کے مریضوں کے لیے خاص طور پر جدید ٹیکنالوجی سے لیس وینٹی لیٹر تیار کیا تھا، جس سے کرونا کے تشویش ناک مریض کی جان بچانے میں زیادہ آسانی ہوگی۔

    یہ جدید ترین وینٹی لیٹر عام وینٹی لیٹر سے جسامت میں مختصر ہے لیکن کرونا مریضوں کے لیے بہت کار آمد ہے، ناسا کے ترجمان کا کہنا تھا کہ یہ وینٹی لیٹر وائٹ ہائوس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سامنے معائنے کے لیے پیش کر دیا گیا ہے۔

  • ناسا نے سورج کی ناقابل یقین ویڈیو جاری کر دی

    ناسا نے سورج کی ناقابل یقین ویڈیو جاری کر دی

    واشنگٹن: امریکی خلائی ادارے دی نیشنل ایروناٹکس اینڈ اسپیس ایڈمنسٹریشن (ناسا) نے سورج کی ایک ایسی ویڈیو جاری کی ہے جو نہایت شان دار ہے۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق ناسا (NASA) نے ایک ایسی ناقابل یقین ویڈیو جاری کی ہے جس میں سورج کی حیرت انگیز 4 ہزار پکسلز میں 10 سال کا وقفہ دکھایا گیا ہے، ویڈیو میں پچھلے 10 سالوں کے ہر دن کے لیے ایک سیکنڈ میں سورج کی ایک تصویر دکھائی گئی ہے، اس طرح سورج کی پوری ایک دہائی کو 61 منٹ میں قید کر دیا گیا ہے۔

    ناسا کی اس ویڈیو میں سورج پر گزرنے والے گزشتہ دس سال کا عرصہ دکھایا گیا ہے، ویڈیو میں سورج شان دار طریقے سے گھومتا دکھائی دیتا ہے، یہ ویڈیو ناسا نے خلا میں اپنی سولر ڈائنامکس آبزرویٹری کے دس سال پورے ہونے پر ریلیز کی ہے۔

    یہ تصاویر ناسا کی آبزرویٹری (SDO) سے آئے ہیں، یہ ایک خلائی جہاز ہے جسے فلوریڈا میں کیپ کیناورل ایئر فورس اسٹیشن سے دس سال قبل روانہ کیا گیا تھا، زمین کے گرد گھومتے ہوئے اس نے سورج کی 42 کروڑ 50 لاکھ ہائی ریزولوشن تصاویر جمع کیں، جو 2 کروڑ گیگابائٹس پر مشتمل ڈیٹا تھا۔

    اس ویڈیو کو ‘سورج کے دس سال’ کا عنوان دیا گیا ہے، جس میں ایک گھنٹے تک سورج کا تاج ناقابل یقین تفصیل کے ساتھ گھومتا ہے، چمکتا اور حرارت سے دمکتا ہے۔ آبزرویٹری نے ان تصاویر میں سورج کی اوپری سطح پر شمسی اثرات کو مرتب کیا ہے، جن میں عظیم لہریں، بڑے سوراخ اور مقناطیسی دھماکے شامل ہیں، یہ سب اس ویڈیو میں دکھایا گیا ہے۔

    ناسا کا کہنا تھا کہ اب جون 2020 میں بیٹھ کر کوئی بھی سورج کے ایک عشرے پر مبنی عرصے کو بغیر رکے دیکھ سکتا ہے۔ ویڈیو میں سورج کے 11 سالہ شمسی چکر کے دوران سورج کی سرگرمی میں عروج و زوال بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ کب یہ بہت زیادہ متحرک ہوا اور کب کم متحرک۔ اس دوران اہم واقعات بھی نوٹ ہوئے ہیں جیسا کہ سیاروں کا سامنے سے گزرنا اور آتش فشانی کے واقعات۔

    ویڈیو بغور دیکھنے والے چند خصوصی مہمان سیاروں کو بھی دیکھ سکیں گے، 12:20 پر جون 2012 کو وینس تیزی کے ساتھ سورج کے سامنے گزرا تھا، جب کہ چاند 53:30 پر سورج کی ویڈیو میں خلل ڈالتا دکھائی دیتا ہے، یہ واقعہ گزشتہ برس مارچ کا ہے۔ ویڈیو شروع ہونے کے صرف 57 سیکنڈز کے بعد ہی ہلتی دکھائی دیتی ہے، اس کی وضاحت ناسا نے نہیں کی ہے، جب کہ 38 ویں منٹ پر کیمرا ہی آف لائن ہو جاتا ہے۔

    ناسا کا کہنا ہے کہ ویڈیو جب بالکل سیاہ ہو جاتی ہے تو یہ دراصل زمین اور چاند کے خلائی جہاز اور سورج کے درمیان آنے کی وجہ سے ہوئی تھی، 2016 میں آبزرویٹری کے آلات میں کچھ خرابی آئی تھی جس کی وجہ سے بھی ویڈیو میں ایک خلا آتا دکھائی دیتا ہے، مذکورہ خرابی ایک ہفتے بعد ٹھیک کر دی گئی تھی۔ یہ ویڈیو آبزرویٹری کے تین آلات کی مدد سے ممکن بنائی گئی ہے جو دس سال بعد اب بھی اچھی طرح سے کام کر رہے ہیں۔

  • خلا باز کے لباس سے ننھا سا آئینہ خلا میں گر پڑا

    خلا باز کے لباس سے ننھا سا آئینہ خلا میں گر پڑا

    امریکی خلائی ادارے ناسا کا کہنا ہے کہ ایک خلا باز نے خلا میں کام کے دوران غلطی سے ایک چھوٹا سا آئینہ گرا دیا جو خلا کی وسعتوں میں گم ہوچکا ہے۔

    ناسا کا کہنا ہے کہ خلا باز کمانڈر کرس بین الاقوامی خلائی اسٹیشن سے خلائی چہل قدمی (اسپیس واک) کے لیے باہر جارہے تھے، انہیں اسٹیشن کی بیٹریز پر کام کرنا تھا جب ان کے لباس سے آئینہ گر پڑا۔

    ناسا کے مطابق یہ آئینہ خلا بازوں کے لباس میں نصب ہوتا ہے اور کمانڈر کرس جب خلائی اسٹیشن سے باہر نکلے تو کسی طرح یہ ان کے لباس سے علیحدہ ہوگیا۔

    مذکورہ آئینہ ایک فٹ فی سیکنڈ کے حساب سے خلا میں تیرتا ہوا کمانڈر کی پہنچ سے دور ہوگیا، اب یہ آئینہ خلا میں زمین کے مدار میں بڑی تعداد میں تیرتے خلائی ملبے کا حصہ ہے تاہم اس سے خلائی مشن، خلائی اسٹیشن یا خلا بازوں کو کوئی خطرہ نہیں۔

    ہالی ووڈ فلم گریویٹی کا منظر، جس میں خلا باز (جارج کلونی) مذکورہ آئینے میں اپنے پیچھے موجود خلا باز کو دیکھتا ہے

    ناسا کا کہنا ہے کہ یہ آئینہ خلا بازوں کے خلائی لباس میں ہر آستین پر نصب ہوتا ہے تاکہ کام کے دوران خلا باز اس کی مدد سے آس پاس بھی نظر رکھ سکیں۔ یہ آئینہ 3 بائی 5 انچ کا ہوتا ہے اور اس کا وزن منسلک کیے جانے والے بینڈ سمیت بمشکل ایک پاؤنڈ کا دسواں حصہ ہوتا ہے۔

    ناسا کے مطابق خلا باز کمانڈر کرس اپنے ایک اور ساتھی باب بینکن کے ساتھ خلائی اسٹیشن کی پرانی نکل ہائیڈروجن بیٹریوں کو تبدیل کرنے کا کام کر رہے ہیں۔

    بین الاقوامی خلائی اسٹیشن میں نئی لیتھیئم آئن بیٹریز نصب کی جارہی ہیں جو اب اس وقت تک کے لیے کافی ہوں گی جب تک خلائی اسٹیشن فعال رہے گا۔ سنہ 2017 سے شروع کیے جانے والے اس مشن میں اب تک 18 بیٹریز اسٹیشن میں نصب کی جاچکی ہیں جبکہ خلا باز کرس اور باب مزید 6 بیٹریز نصب کریں گے۔

    یہ کام رواں برس جولائی تک مکمل ہوجائے گا جس کے بعد کمانڈر کرس اگست میں زمین پر واپس لوٹ آئیں گے۔

  • کتنے انسان مریخ پر انسانی تہذیب کا آغاز کرسکتے ہیں؟

    کتنے انسان مریخ پر انسانی تہذیب کا آغاز کرسکتے ہیں؟

    مریخ پر انسانی آبادی بسائے جانے کے حوالے سے مختلف ریسرچز اور تجربات پر کام جاری ہے، حال ہی میں ایک تحقیق میں کہا گیا کہ مریخ پر انسانی آبادی شروع کرنے کے لیے 110 انسان درکار ہوں گے۔

    فرانس کے انسٹی ٹیوٹ آف پولی ٹیکنیک میں کیے گئے مطالعے میں دستیاب وسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے دیکھا گیا کہ کم از کم کتنے انسان مریخ پر زیادہ سے زیادہ زندگی گزار سکتے ہیں۔

    تحقیق سے علم ہوا کہ کم از کم 110 انسان ان محدود وسائل کے اندر مریخ پر انسانی تہذیب کا آغاز کرسکتے ہیں۔

    تحقیق کے مطابق یہ افراد ایک کالونی بنا کر رہیں گے اور ان کی کالونی آکسیجن سے بھری ایک گنبد نما جگہ ہوگی۔ ان افراد کو اپنی زراعت خود کرنی ہوگی۔

    اس تحقیق میں ایک میتھامیٹیکل ماڈل استعمال کیا گیا جس سے کسی دوسرے سیارے میں زندگی کے امکانات پر روشنی ڈالی گئی، تحقیق میں کہا گیا کہ اس کالونی میں اہم ترین عوامل میں سے ایک، ایک دوسرے سے اشتراک یا شیئرنگ کرنا ہوگا۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ اگر اس آبادی کا کسی وجہ سے (متوقع طور پر کسی جنگ کی صورت میں) زمین سے رابطہ منقطع ہوگیا یا مریخ پر رہنے والوں نے خود ہی اپنی خود مختار حکومت بنانے کا فیصلہ کرلیا تو 110 افراد کی آبادی محدود وسائل میں آسانی سے مریخ پر زندگی گزار سکتی ہے۔

    خیال رہے کہ زمین کو خطرناک ماحولیاتی خطرات سے دو چار کرنے کے بعد اب انسانوں کو زمین اپنے لیے ناقابل رہائش لگنے لگی ہے اور اس حوالے سے دیگر سیاروں پر زندگی کے امکانات تلاش کیے جارہے ہیں جن میں مریخ سرفہرست ہے۔

    امریکی ارب پتی ایلن مسک کا کہنا ہے کہ وہ اپنے اسپیس ایکس پروگرام پر اس امید پر لاکھوں ڈالر خرچ کر رہے ہیں کہ جلد مریخ پر ایک انسانی آبادی آباد ہوجائے گی۔

  • خلائی مخلوق کی تلاش یا کوئی اور مشن؟ ناسا کا بڑا منصوبہ

    خلائی مخلوق کی تلاش یا کوئی اور مشن؟ ناسا کا بڑا منصوبہ

    واشنگٹن: امریکی خلائی تحقیقاتی ادارے(ناسا) کا بڑا منصوبہ منظر عام پر آگیا، ناسا اگلے ہفتے خلائی گاڑی(روور) مریخ پر روانہ کرے گا، جس کا مقصد اہم اہداف کا حصول ہے۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق ناسا اگلے ماہ 20 جولائی کو ’مارس روور‘ مریخ پر روانہ کرے گا، اس مشن کے تحت مریخ کے دھول، چٹانوں کے ٹکڑے اور ماضی کی خوردبین زندگی کے نمونے اکھٹے کیے جائیں گے۔

    مریخ کو عام زبان میں لال سیارہ بھی کہا جاتا ہے، ناسا مذکورہ اہم مشن کے ذریعے مریخ سے متعلق چھپے حقائق جاننا چاہتا ہے، دھول اور چٹانوں کے ذریعے ماضی کی زندگی اور کسی مخلوق کی موجودگی جاننے کے لیے تحقیق کی جائے گی۔

    رپورٹ کے مطابق ناسا ہر 26 ماہ بعد مریخ مشن پر خلائی گاڑی روانہ کرتا ہے، اگر روور 20 جولائی کو روانہ نہیں ہوسکی تو اس منصوبے پر دوبارہ عمل کرنے کے لیے ستمبر 2022 تک انتظار کرنا پڑ سکتا ہے۔

    مارس مشن 2020: زندگی کی تلاش میں جانے والا روبوٹ ٹیسٹنگ کے لیے تیار

    جس سے ناسا کے ’مریخ ایکسپلوریشن پروگرام‘ کے طویل مدتی مقاصد پر سنگین اثر پڑے گا۔

    مشن کے تحت روور ’کینیڈی اسپیس سینٹر‘ سے مریخ کے لیے روانہ کی جائے گی جو ممکنہ طور پر 34 ملین میل سفر طے کرے گی، اور 18 فروری 2021 کو اپنا مشن مکمل کرکے زمین پر واپس پہنچے گی۔

    خلائی ادارے کا کہنا ہے کہ اس کا اہم مشن کا مقصد قدیم مائکروبیل زندگی کی علامات کی تلاش کرنا ہے، اس دوران مارٹین راک(چٹانوں کے ٹکڑے) اور دھول کے نمونے اکھٹے کیے جائیں گے۔