Tag: ناسا

  • خلا سے زمین کا یہ نظارہ دل تھام کر دیکھیئے

    خلا سے زمین کا یہ نظارہ دل تھام کر دیکھیئے

    واشنگٹن: زمین سے دور خلا میں بین الاقوامی خلائی اسٹیشن (انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن) سے زمین کی ایک نہایت سحر انگیز ویڈیو ریکارڈ کی گئی ہے جسے دیکھ کر آپ کی سانسیں رک سکتی ہیں۔

    امریکی خلائی ادارے ناسا کی جانب سے جاری کردہ ایک خوبصورت ویڈیو میں بین الاقوامی خلائی اسٹیشن سے زمین کا سحر انگیز منظر دیکھا جاسکتا ہے۔

    ویڈیو میں ایک خلا باز اسٹیشن سے باہر کچھ تکنیکی کاموں میں مصروف ہے جبکہ اس کے عین نیچے زمین ایک محدود دائرے میں موجود نظر آرہی ہے۔

    زمین کی فضا پر نرم روئی جیسے بادل اور کہیں نیلگوں سمندر نظر آرہا ہے، ناسا کے مطابق یہ زمین کا وہ منظر ہے جو ہم میں سے بہت سے لوگ کبھی نہیں دیکھ پائیں گے۔

     

    View this post on Instagram

     

    The ultimate perspective of our planet, not many of us will ever experience. 🌍 By @nasa #earthfocus

    A post shared by EARTH FOCUS (@earthfocus) on

    خیال رہے کہ بین الاقوامی خلائی اسٹیشن (انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن) زمین کے محور سے 408 کلو میٹر باہر زمین کے گرد چکر لگا رہا ہے، یہ اسٹیشن خلا میں تحقیقی مقاصد کے لیے قائم کیا گیا ہے۔

    ناسا جلد اسے تجارتی مقاصد کے لیے بھی کھولنے کا ارادہ رکھتا ہے اور اس کے لیے ناسا اور معروف ہالی ووڈ اداکار ٹام کروز کے درمیان ایک پروجیکٹ زیر غور ہے جس کے تحت ٹام کروز اپنی ایک فلم کی شوٹنگ خلائی اسٹیشن پر انجام دیں گے۔

  • ناسا کی جانب سے کرونا مریضوں کے لیے بڑی خوش خبری آ گئی

    ناسا کی جانب سے کرونا مریضوں کے لیے بڑی خوش خبری آ گئی

    واشنگٹن: امریکی خلائی تحقیقاتی ادارے ناسا کے انجینئرز نے بھی کرونا وائرس کی وبا سے نمٹنے کے لیے اپنا کردار ادا کر دیا، اس سلسلے میں انھوں نے ایک جدید ترین وینٹی لیٹر تیار کر لیا ہے۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق ناسا نے کرونا کے مریضوں کے لیے خاص طور پر جدید ٹیکنالوجی سے لیس وینٹی لیٹر تیار کر لیا ہے جس سے کرونا کے تشویش ناک مریض کی جان بچانے میں زیادہ آسانی ہوگی۔

    یہ جدید ترین وینٹی لیٹر عام وینٹی لیٹر سے جسامت میں مختصر ہے لیکن کرونا مریضوں کے لیے بہت کار آمد ہے، ناسا کے ترجمان کا کہنا تھا کہ یہ وینٹی لیٹر وائٹ ہائوس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سامنے معائنے کے لیے پیش کر دیا گیا ہے۔

    یہ ہائی پریشر وینٹی لیٹر محض 37 دنوں میں تیار کیا گیا ہے، اسے وائٹل (VITAL) کا نام دیا گیا ہے، رواں ہفتے اس کا نیویارک کے ایک اسکول آف میڈیسن میں اہم ٹیسٹ بھی کیا گیا جو پاس ہوا۔

    کرونا سے متاثرہ شخص کی وینٹی لیٹر پر موت کیوں ہوتی ہے؟ وجہ سامنے آگئی

    ناسا کے چیف ہیلتھ اینڈ میڈیکل آفیسر ڈاکٹر جے ڈی پولک نے بتایا کہ یہ وینٹی لیٹر اس ارادے کے ساتھ تیار کیا گیا ہے کہ کو وِڈ نائنٹین کے مریضوں کو اس مرض کے شدید درجے پر پہنچنے کے امکانات کو کم کیا جائے۔ انجینئرز کا کہنا ہے کہ وائٹل کو بہت تیزی سے کے ساتھ بنایا جا سکتا ہے، کیوں کہ اس میں بہت کم پارٹس کا استعمال کیا گیا ہے جو موجودہ سپلائی چینز میں بھی دستیاب ہیں۔

  • شہاب ثاقب تیزی سے زمین کی طرف بڑھ رہا ہے، کیا ہمیں خطرہ ہے؟

    شہاب ثاقب تیزی سے زمین کی طرف بڑھ رہا ہے، کیا ہمیں خطرہ ہے؟

    خلا میں ایک چھوٹا سا شہاب ثاقب زمین کی طرف بڑھ رہا ہے اور سائنسدانوں کے مطابق وہ یا تو زمین کے قریب سے گزر جائے گا، یا اگر زمین کے زیادہ قریب آیا تو فضا میں ہی پھٹ جائے گا۔

    امریکی خلائی ادارے ناسا کا زمین کے قریب سے گزرنے والے اجسام کا مشاہدہ کرنے والا ادارہ (سی ای این او ایس) ایک شہاب ثاقب کو ٹریک کر رہا ہے جسے  2020 ای ایف کا نام دیا گیا ہے۔

    یہ شہاب ثاقب ممکنہ طور پر زمین کے قریب سے گزر جائے گا اور اگر زمین کے زیادہ قریب آیا تو وہ فضا میں ہی پھٹ جائے گا۔

    یہ شہابیہ 10 ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے زمین کی طرف بڑھ رہا ہے اور اس کا قطر 98 ڈایا میٹر ہے۔

    مزید پڑھیں: اگر کوئی سیارچہ زمین سے ٹکرا جائے تو کیا ہوگا؟

    ناسا کے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہ شہابیہ زمین کے قریب سے گزر جائے گا، اور اگر زمین کے قریب آیا تب بھی اس کی جسامت اتنی چھوٹی ہے کہ یہ کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچا سکتا۔

    تاہم زمین پر گرنے سے قبل یہ زمین کی فضا میں پھٹ سکتا ہے اور اس سے روشنی کا اخراج ہوسکتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق زمین کی فضا میں شہاب ثاقب پھٹنے کا واقعہ اس سے قبل سنہ 2013 میں روس میں پیش آیا تھا جس سے روشنی کا ایک زوردار جھماکہ پیدا ہوا تھا اور یہ سورج کی روشنی سے 30 گنا زیادہ تھا۔

    اس واقعے میں 180 افراد آنکھوں کی تکلیف اور 70 عارضی نابینا پن کا شکار ہوگئے تھے، جبکہ کھڑکیاں ٹوٹنے اور ایک فیکٹری کی چھت گر جانے کا واقعہ بھی پیش آیا تھا۔

  • پراسرار خلائی سگنلز نے ناسا کے سائنس دانوں کو بھی پریشان کردیا

    پراسرار خلائی سگنلز نے ناسا کے سائنس دانوں کو بھی پریشان کردیا

    واشنگٹن: امریکی خلائی تحقیقاتی ادارے ناسا کے سائنس دان سرجوڑ کر پراسرار خلائی سگنلز کے بارے میں جاننے کی کوششوں میں مگن ہیں۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق ناسا نے موصول ہونے والے پراسرار خلائی سگنلز کے بارے میں مشاہدہ کیا تو پتا چلا کہ یہ سگنلز ہر 16 روز بعد باقاعدگی سے موصول ہو رہے ہیں۔

    ناسا کے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ یہ پراسرار سگنلز کینیڈا میں نصب ٹیلی اسکوپ کو موصول ہو رہے ہیں اور ان لہروں کے سفر کی رفتار حیران کن ہے۔ تاہم اب تک اس کی اصل حقیقت تک نہیں پہنچا جاسکا۔

    آج بڑی تباہی کا خطرہ ، ناسا نے خبردار کردیا

    ناسا کے مطابق ان لہروں کو جاننے کے لیے تحقیق اور مشاہدے جاری ہیں۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ایسی لہریں کو ایف آر بی یعنی فاسٹ ریڈیو برسٹ کہا جاتا ہے جو بہت کم وقت کے لیے پیدا ہوتی ہیں اور ان کے حوالے سے عمومی خیال ہے کہ یہ کائنات کے دوسرے سرے سے آتی ہیں۔

    ان لہروں کی پیدائش کیسے ہوتی ہے یہ اب تک سائنس دان جاننے سے قاصر ہیں جسے کائنات کا ایک پراسرار پیغام سمجھا جارہا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر یہ سگنلز تواتر سے موصول ہوتے رہیں اور اس قسم کے پیغامات کو جانچنے کے ذرائع استعمال کرتے ہوئے اس راز سے پردہ اٹھایا جاسکتا ہے۔

  • آج بڑی تباہی کا خطرہ ، ناسا نے خبردار کردیا

    آج بڑی تباہی کا خطرہ ، ناسا نے خبردار کردیا

    واشنگٹن : امریکی خلائی تحقیقی ادارے ناسا نے خبردار کیا ہے کہ آج انتہائی بڑےسائزکاسیارچہ زمین کےقریب سے گزرےگا، تاہم اس سے زمین کو کوئی خطرہ نہیں۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی خلائی تحقیقی ادارہ ’نیشنل ایرو ناٹکس اینڈ اسپیس ایڈ منسٹریشن (ناسا) کا کہنا ہے کہ انتہائی بڑے سائز کا سیارچہ آج زمین کے قریب سے گزرے گا ، سیارچہ پاکستانی وقت کےمطابق شام چاربجےزمین کےقریب ہوگا۔

    سیارچےکی لمبائی ساڑھے تین ہزارفٹ ہے اور یہ تقریبا 34،000 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے زمین کی طرف سفر کررہا ہے۔

    سیارچہ زمین سے35 لاکھ 90ہزارمیل کےفاصلےسےگزرےگا تاہم خوش قسمتی سے زمین سے انتہائی قریب ہونے کے باجوود یہ اس راستے پر نہیں ہے ، جس سے زمین کو کسی قسم کا کوئی خطرہ ہو۔

    اس سیارچے کو 2002 پی زیڈ 39 کے نام سے جانا جاتا ہے اور اسے اگست2002 میں دریافت کےبعدسےٹریک کیا جارہاہے۔

    ماہرین کا ماننا ہے کہ اس سیارچے سے دنیا کو کوئی نقصان پہنچنے کا اندیشہ نہیں تاہم ناسا مزید معلومات حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

    واضح رہے اس سیارچے کو سائز کے اعتبار سے برج خلیفہ سے بڑا کہا جارہا ہے ، کیونکہ اس کا ساڑھے تین ہزارفٹ جبکہ دنیا کی سب سے بڑی عمارت برج خلیفہ 2 ہزار 717 فٹ لمبا ہے۔

    خیال رہے  ستمبر 2017 میں فلورنس نامی سیارچہ زمین سے 43 لاکھ 91 ہزار میل کے فاصلے سے گزرا تھا جبکہ  اپریل 2017 کو 2014 جے او 25 نامی سیارچہ زمین سے محض 11 لاکھ میل کے فاصلے سے گزرا تھا، یہ فاصلہ زمین اور چاند کے درمیان فاصلے سے 4.6 گنا زیادہ تھا۔

  • خلا سے موصول پراسرار سگنلز کے بارے میں ایک اور انکشاف، ماہرین سکتے میں آگئے

    خلا سے موصول پراسرار سگنلز کے بارے میں ایک اور انکشاف، ماہرین سکتے میں آگئے

    سائنسدانوں کو موصول ہونے والے پراسرار سگنلز کے بارے میں مشاہدہ کیا گیا ہے کہ یہ ہر 16 روز بعد باقاعدگی سے موصول ہو رہے ہیں۔

    ناسا کے سائنسدانوں کے مطابق یہ پراسرار سگنلز کینیڈا میں نصب ٹیلی اسکوپ کو موصول ہو رہے ہیں اور ان لہروں کے سفر کی رفتار حیران کن ہے۔

    سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ وہ ان لہروں کو جانچنے سے قاصر ہیں البتہ اب انہوں نے مشاہدہ کیا ہے کہ یہ سگنلز ہر 16 دن بعد موصول ہورہے ہیں۔

    ٹیلی اسکوپ پر موصول ہونے والی یہ لہریں ایف آر بی یعنی فاسٹ ریڈیو برسٹ ہیں، یہ ایسی لہریں ہوتی ہیں جو بہت کم وقت کے لیے پیدا ہوتی ہیں اور ان کے حوالے سے عمومی خیال ہے کہ یہ کائنات کے دوسرے سرے سے آتی ہیں۔

    ماہرین اس بارے میں بھی اندھیرے میں ہیں کہ ایف بی آر نامی لہریں دراصل پیدا کیسے ہوتی ہیں چانچہ انہیں کائنات کا پراسرار ترین پیغام سمجھا جاتا ہے۔

    سائنسدانوں نے اب تک اس نوعیت کے 60 ایف آر بی کا سراغ لگایا ہے جو ایک بار سگنل دیتے ہیں جبکہ دو سگنل ایسے تھے جو بار بار آئے تھے۔

    یونیورسٹی آف برٹش کولمبیا کے سائنسدانوں کے مطابق اگر یہ سگنل تواتر سے موصول ہوتے رہیں اور اس قسم کے پیغامات کو جانچنے کے ذرائع ہوں تو بہت جلد اس راز سے پردہ اٹھ جائے گا کہ یہ سگنلز کیا ہیں۔

  • چاند کی وہ تصاویر جو آج سے پہلے کبھی نہیں دیکھی گئیں

    چاند کی وہ تصاویر جو آج سے پہلے کبھی نہیں دیکھی گئیں

    چینی خلائی ایجنسی نے چاند کے تاریک حصے کی تصاویر جاری کی ہیں، یہ وہ تصاویر ہیں جو چین کے شمسی مشن ’چینگ 4‘ نے بھیجی ہیں۔

    چینی خلائی ایجنسی کی جانب سے جاری کردہ ان تصاویر پر ناسا نے مزید کام کیا ہے اور انہیں واضح بنایا ہے۔ بھیجی جانے والی تصاویر میں چاند کا وہ حصہ ہے جو سورج سے روشنی تو حاصل کرلیتا ہے، تاہم یہ زمین سے چھپا ہوا رہتا ہے۔

    چینی مشن چینگ 4 کو گزشتہ برس جنوری میں لانچ کیا گیا تھا۔ اسے چاند کے مدار میں پہنچ کر 14 شمسی دن ہوچکے ہیں، خیال رہے کہ چاند پر گزارا گیا ایک دن زمین کے 14 دنوں کے برابر ہوتا ہے۔

    گزشتہ برس جب چینگ 4 نے چاند پر کامیاب لینڈنگ کی تھی تو یہ چاند کے عقبی اور تاریک حصے میں اترنے والا دنیا کا پہلا خلائی جہاز تھا۔ مجموعی طور پر یہ چین کا چاند کی سطح پر اترنے والا دوسرا مشن تھا۔

    مشن میں موجود خلائی گاڑیاں مختلف قسم کے آلات سے لیس ہیں جو علاقے کی ارضیاتی خصوصیات جانچنے کے علاوہ حیاتیاتی تجربات بھی کر رہی ہیں۔ ان کی اب بھیجی گئی تصاویر کو بونس قرار دیا جارہا ہے۔

    علاوہ ازیں یہ گاڑی چاند پر موجود اس بڑے گڑھے کا مطالعہ بھی کرے گی جس کے بارے میں خیال ہے کہ یہ ماضی میں کسی زبردست ٹکراؤ کے نتیجے میں وجود میں آیا ہے۔

    یہ خلائی گاڑی چاند کے جس مقام پر ہے وہ زمین سے اوجھل ہے اور اس سے براہ راست رابطہ ممکن نہیں چنانچہ اس کا رابطہ زمین سے ایک سیٹلائٹ کے ذریعے ہے۔

  • سورج کو چھونے کا  مشن ، اہم راز کھلنے کے قریب

    سورج کو چھونے کا مشن ، اہم راز کھلنے کے قریب

    واشنگٹن : امریکی خلائی تحقیقاتی ادارے ناسا کا مشن پارکر سولر پروب‘‘ سورج کے نہایت قریب پہنچ گیا ہے ، ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ سورج کے اتنے قریب سے ڈیٹا حاصل کیا گیا ہو۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی خلائی تحقیقاتی ادارے ناسا کا سورج کو چھونے کا مشن تباہی سے بال بال بچ گیا، ادارے کا ’’پارکر سولر پروب‘‘ سورج کے کے نہایت قریب پہنچا تو امکان تھا کہ ایک عام گاڑی کے سائز کے برابر پروب جل کر بھسمم ہو جاتا لیکن ناسا کے ماہرین اسے وہاں سے بہ حفاظت نکالنے میں کامیاب ہوگئے۔

    ایسا پہلی بار ہوا جب سورج کے اتنے قریب سے ڈیٹا حاصل کیا گیا ہے۔

    یاد رہے گذشتہ سال دسمبر میں امریکی خلائی تحقیقاتی ادارے ناسا نے سورج کے قریب سے بنائی جانے والی تصویر شیئر کی تھی، جس کے گرد ستارے گردش کررہے تھے، ناسا کی جانب سے تصویر شیئر کرنے کا مقصد یہ تھا کہ وہ دنیا کو آگاہ کرسکے کہ اُن کا سورج کو چھونے کے مشن پر بھیجے گئے خلابازوں نے کام شروع کردیا ہے۔

    پارکر سولر پروپ مشن نے یہ تصویر اپنے طیارے سے 2 کروڑ 71 لاکھ کلومیٹر کے فاصلے پر بنائی جبکہ زمین سے اس کا فاصلہ 21 کروڑ چالیس لاکھ سال ہے۔

    خیال رہے اگست 2018 میں امریکی خلائی تحقیقی ادارے ناسا نے نظام شمسی کے راز جاننے کے لیے اپنے خطرناک اور جان لیوا ’سورج کو چھونے‘ کا آغاز کیا تھا جس کے تحت ’سولر پروب پلس‘ نامی مصنوعی سیارہ گیارہ اگست کو سورج کی جانب بھیجا گیا تھا۔

    ناسا کا دعویٰ تھا کہ اُن کا مشن سورج کے اتنے قریب پہنچنے کا ہے جتنا آج تک کوئی بھی نہیں پہنچ سکا، ایک عام سی گاڑی کے سائز کا سیارہ سورج سے اکسٹھ لاکھ کلومیٹر کے فاصلے تک پہنچے گا جو گزشتہ مصنوعی سیاروں کی نسبت سات سورج سے گنا زیادہ قریب ہوگا۔

    واضح رہے کہ سورج کی سطح کو ضیائی کرہ کہا جاتا ہے، جس کا درجہ حرارت 5500 سینٹی گریڈ تک ہوتا ہے جب کہ اس میں اضافہ 2 ملین ڈگری سیلسئس تک ہوسکتا ہے، سورج کے کرہ ہوائی کو کورونا کہا جاتا ہے، اس کورونا کا درجہ حرارت 5 لاکھ ڈگری سینٹی گریڈ تک ہوتا ہے۔

  • بھارتی میڈیا نے چندریان مشن ناکامی کا ملبہ ناسا پر ڈال دیا

    بھارتی میڈیا نے چندریان مشن ناکامی کا ملبہ ناسا پر ڈال دیا

    نئی دہلی: چندریان مشن ناکامی پر بھارتی میڈیا نے رونا دھونا شروع کرتے ہوئے ناکامی کا ملبہ ناسا پر ڈال دیا۔

    تفصیلات کے مطابق بھارتی میڈیا نے چندریان مشن کی ناکامی پر نیا واویلا شروع کردیا اور کہا ہے کہ چاند پر لینڈنگ سے چند لمحے قبل خلائی مشن کا زمین سے رابطہ منقطع ہونے میں ناسا کا ہاتھ ہوسکتا ہے۔

    بھارتی میڈیا کے ایک اینکر نے کہا کہ چندرائن ٹو مشن فیل ہونے کے پیچھے ناسا کا ت ہاتھ نہیں، ناسا نے ہمارے ایٹمی بیس کے لیے کئی سیٹلائٹ نصب کیے، آئی ایس آئی اور ناسا پر فلموں کا حوالہ دے کر مضحکہ خیز تجزیہ پیش کیا گیا۔

    واضح رہے کہ گزشتہ روز بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اپنے ملک کے خلائی سائنس دانوں کو بتایا کہ وہ ایسے پروگرام پر فخر محسوس کرتے ہیں جو چاند پر تحقیقات کے قریب آچکا ہے۔

    بھارتی خلائی مشن چندریان ٹو کے ساتھ رابطہ اس وقت منقطع ہوگیا تھا جب اس کا وکرم ماڈیول چاند کے جنوبی قطب پرلینڈنگ سے چند لمحے دور تھا۔

    مزید پڑھیں: بھارت کی چاند کو چھونے کی کوشش ایک بار پھر ناکام

    برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق بھارتی وقت کے مطابق اس سیٹلائیٹ کی رات 1:30 بجے سے 2.30 بجے کے درمیان چاند کے جنوبی قطب پر لینڈنگ متوقع تھی۔ انڈیا کا چندریان ٹو خلا میں چھوڑے جانے کے ایک ماہ بعد 20 اگست کو چاند کے مدار میں داخل ہوا تھا۔

    رپورٹ کے مطابق ابھی تک اس خلائی جہاز کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہیں لیکن مودی کا کہنا تھا کہ ایسے مزید مواقع آئیں گے۔

    یاد رہے کہ بھارتی خلائی مشن چندریان ٹو کی ناکامی پر بھارت کو 900 کروڑ روپے کا جھٹکا لگا تھا، مشن ناکام ہونے پر نریندر مودی غصے میں اٹھ کر چلے گئے تھے۔

  • ناسا کی خاتون انجینیئر چاند کے تاریخی سفر کے لیے پرعزم

    ناسا کی خاتون انجینیئر چاند کے تاریخی سفر کے لیے پرعزم

    چاند پر قدم رکھنا انسان کا وہ خواب تھا جو ہزاروں سال سے شرمندہ تعبیر ہونے کا منتظر تھا، یہی وجہ ہے کہ جب پہلے انسان نے چاند پر قدم رکھا تو یہ انسانی ترقی و ارتقا کا ایک نیا باب قرار پایا۔

    اب بہت جلد ایک خاتون کو بھی چاند کی طرف بھیجا جانے والا ہے، امریکی خلائی ادارہ ناسا اس خلائی منصوبے پر کام کر رہا ہے اور امید ہے کہ وہ سنہ 2024 میں پہلی خاتون کو چاند پر بھیجنے میں کامیاب ہوجائے گا۔

    اس منصوبے میں ایک خاتون انجینیئر ہیتھر پال بھی شامل ہیں، پال گزشتہ 25 برسوں سے ناسا سے منسلک ہیں اور فی الوقت وہ اس اسپیس کرافٹ پر کام کر رہی ہیں جو پہلی خاتون کو چاند پر لے کر جانے والا ہے۔

    پال کا کہنا ہے کہ گزشتہ 25 برسوں میں انہوں نے بہت سے رجحانات کو تبدیل ہوتے دیکھا ہے، انہیں اس بات کی خوشی ہے کہ اب اس شعبے میں بھی بہت سی خواتین آرہی ہیں اور انہیں مواقع فراہم کیے جارہے ہیں۔

    چاند پر واپسی کے اس سفر کو قدیم یونان کے چاند کے معبود ’ارٹمیس‘ کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ ارٹمیس دیوی، اپالو کی جڑواں بہن تھی اور اپالو اس خلائی مشن کا نام رکھا گیا جو پہلے انسان کو چاند کی طرف لے کر گیا۔

    اس مشن کے لیے امریکی صدر ٹرمپ نے ناسا کے بجٹ میں ایک ارب 60 کروڑ ڈالر کا اضافہ کیا ہے تاکہ ٹیکنالوجی اور خلائی میدان میں ایک اور تاریخ رقم کی جاسکے۔