Tag: ناسا

  • 12 سالہ پاکستانی طالبہ ناسا کے انٹرن شپ پروگرام کے لیے منتخب

    12 سالہ پاکستانی طالبہ ناسا کے انٹرن شپ پروگرام کے لیے منتخب

    امریکی خلائی ایجنسی ناسا کے انٹرن شپ پروگرام کے لیے 12 سالہ پاکستانی طالبہ کو منتخب کرلیا گیا، رادیہ کا تعلق کراچی سے ہے۔

    ناسا کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق کراچی کے برٹش اوور سیز اسکول کی آٹھویں کلاس کی طالبہ رادیہ عامر کو ناسا کے انٹرن شپ پروگرام کے لیے منتخب کیا گیا ہے۔

    ناسا کی یہ انٹرن شپ ایک ہفتے پر مبنی ہے جو ناسا کے کینیڈی اسپیس سینٹر میں دی جائے گی۔

    اس ایک ہفتے کے دوران رادیہ کو خلا بازوں کی ٹریننگ دکھائی جائے گی۔ رادیہ سمیت دیگر طلبا کو ورچوئل رئیلٹی کے ذریعے مریخ پر حرکت کرنے، چاند پر اترنے اور چہل قدمی کرنے کا تجربہ کروایا جائے گا۔

    اس دوران انہیں صفر کشش ثقل پر حرکت کرنے کے تجربے سے روشناس بھی کروایا جائے گا جو ناسا سمیت دیگر خلائی اداروں میں مصنوعی طور پر تخلیق کی گئی ہے۔

    اپنے انتخاب پر رادیہ نہایت خوش ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ ہمیشہ سے خلا باز بننا چاہتی تھیں اور انہیں امید ہے کہ ان کا یہ خواب پورا ہوگا۔

    رادیہ کہتی ہیں کہ وہ ناسا میں جا کر پاکستان کا جھنڈا لہرانا چاہتی ہیں۔ انہیں امید ہے کہ ناسا میں انٹرن شپ کا یہ تجربہ ان کے لیے اپنے خواب کی تکمیل میں معاون ثابت ہوگا۔

  • خلا میں اربوں سال کے فاصلے سے پراسرار سگنل موصول

    خلا میں اربوں سال کے فاصلے سے پراسرار سگنل موصول

    خلا اور خلائی مخلوق سے دلچسپی رکھنے والے افراد اس وقت نہایت تجسس میں مبتلا ہیں کیونکہ اربوں نوری سال کے فاصلے سے زمین پر کچھ سگنلز موصول ہوئے ہیں، یہ کہنا مشکل ہے کہ سگنل بھیجنے والے کون ہیں۔

    ناسا کے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ڈیڑھ ارب نوری سال کے فاصلے سے کچھ ریڈیائی لہریں کینیڈا کی ایک ٹیلی اسکوپ کو موصول ہوئے ہیں۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ان لہروں کے سفر کی رفتار حیران کن ہے۔

    سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ وہ ان لہروں کو جانچنے سے قاصر ہیں، جس ٹیلی اسکوپ پر یہ سگنل موصول ہوئے ہیں اس نے کچھ عرصہ قبل ہی کام شروع کیا ہے۔

    کینیڈا کی ٹیلی اسکوپ جہاں سگنلز موصول ہوئے

    ٹیلی اسکوپ پر یہ موصول ہونے والی لہریں ایف آر بی یعنی فاسٹ ریڈیو برسٹ ہیں، یہ ایسی لہریں ہوتی ہیں جو بہت کم وقت کے لیے پیدا ہوتی ہیں اور ان کے حوالے سے عمومی خیال ہے کہ یہ کائنات کے دوسرے سرے سے آتی ہیں۔

    ماہرین اس بارے میں بھی اندھیرے ہیں کہ ایف بی آر نامی لہریں دراصل پیدا کیسے ہوتی ہیں چانچہ انہیں کائنات کا پراسرار ترین پیغام سمجھا جاتا ہے۔

    مزید پڑھیں: اسٹیفن ہاکنگ نے خلائی مخلوق سے کیوں خبردار کیا تھا؟

    ان لہروں کے بارے میں متضاد خیالات پائے جارہے ہیں، کچھ سائنسدانوں کے مطابق یہ لہریں نیوٹرون ستارے کی حرکت کا نتیجہ ہوسکتی ہیں۔ اس ستارے کی مقناطیسی سطح بہت طاقتور ہوتی ہے اور یہ بہت تیزی سے گھومتا ہے۔

    دوسری جانب ایسے سائنسدانوں کی بھی کمی نہیں جو ان لہروں کو خلائی مخلوق کا بھیجا گیا سگنل سمجھ رہے ہیں۔ ان لہروں کی اصل حقیقت جاننے کے لیے شاید کچھ وقت انتظار کرنا پڑے۔

  • مریخ پر کیا ہورہا ہے؟ ناسا نے فوٹیج جاری کردی

    مریخ پر کیا ہورہا ہے؟ ناسا نے فوٹیج جاری کردی

    واشنگٹن: خلائی تحقیقاتی ادارے ناسا نے مریخ سیارے کی ایک تصویر جاری کردی جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ قطبِ شمالی برف سے ڈھکا ہوا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی اور یورپی خلائی تحقیقاتی ادارے نے مریخ سے شواہد اکھٹے کرنے کے لیے اپنے اپنے مشن بھیجے جہاں انہوں نے کچھ ایسے آلات نصب کیے جن کے ذریعے معلومات موصول ہونے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔

    ناسا نے حال ہی میں ’ان سائٹ‘ مشن کی ایک ویڈیو اور تصاویر جاری کیں جن میں دیکھا جاسکتا ہے کہ مریخ کی نچلی سطح پر برف سے ڈھکا ہوا ایک گڑھا موجود ہے۔

    ماہرین کے مطابق سرد موسم میں برف باری صرف زمین پر نہیں ہوتی بلکہ مریخ پر بھی موسم ٹھنڈا ہوجاتا ہے اور وہاں کا درجہ حرارت بھی منفی ہوتا ہے۔

    خلائی ادارے کی جانب سے جاری تصویر مریخ کے قطب شمالی کے قریب واقع کورولیو کریٹر کی ہے، جو 82 کلومیٹر چوڑا اور 1.8 کلومیٹر گہرا ہے اور حیران کن طور پر یہ برف سے مکمل بھرا ہوا ہے۔

    مزید پڑھیں: ناسا نے سورج کی نزدیک ترین تصویر جاری کردی

    ناسا کے مطابق مذکورہ فوٹیج ہائی ریزولیشن کیمروں کی مدد سے محفوظ کی گئیں۔

    خلائی تحقیقاتی ادارے کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق دو جون 2003 کو خلا میں بھیجا جانے والا مشن 25 دسمبر کو مریخ کے مدار میں داخل ہوگا۔

    ناسا کے مطابق ’ان سائٹ‘ مشن کے تحت روبوٹ کی مدد سے آلات نصب کیے جارہے ہیں جو مستقبل میں زلزلے سے متعلق معلومات فراہم کرے گا، اس آلے پر ایک گھنٹی نصب کی گئی جسے فرش پر رکھا گیا ہے۔

    یہ بھی پڑھیں: وائجر2 نظامِ شمسی سے باہرنکل گیا

    ماہرین کے مطابق یہ آلا مریخ پر آنے والے زلزلوں اور اُس سے پیدا ہونے والی آوازوں اور درجہ حرارت کو ریکارڈ کرے گا، اس اقدام سے سیارے کی اندرونی ساخت کا اندازہ لگانے میں بہت زیادہ مدد ملے گی۔

    ناسا کے ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ زلزلے کو ناپنے والے آلا (سیسمومیٹر) سیارے کی زمین کے پانچ میٹر اندر تک جاسکتا ہے، اس کی مدد سے ہم مریخ پر موجود پتھروں کی تہہ کے بارے میں معلومات اکھٹی کریں گے اور پھر اس کا زمین کے ساتھ موازنہ کیا جائے گا۔

  • ناسا کے خلا باز 6 ماہ بعد زمین پر واپس پہنچ گئے

    ناسا کے خلا باز 6 ماہ بعد زمین پر واپس پہنچ گئے

    کیلی فورنیا: امریکی خلائی تحقیقاتی ادارے کے مشن پر جانے والے 3 خلا باز باحفاظت زمین پر واپس پہنچ گئے۔

    ناسا کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق امریکا، روس اور جرمنی سے تعلق رکھنے والے تین خلا باز سویوز ایم ایس 09 راکٹ کے ذریعے زمین پر 20 نومبر کی صبح واپس پہنچے۔

    سویوز ایم ایس مشن سے واپس آنے والے خلا بازوں میں جرمنی کی خاتون چانسلر اونن، جرمنی کے الیگزینڈر گرسٹ اور روس کے سرگئی پروگوپائیو شامل ہیں۔

    تینوں خلا بازوں نے خلائی اسٹیشن پر 6 ماہ قیام کیا اور آج صبح وہ قازقستان کے اسٹیشن پر اترے، ناسا کی جانب سے واپسی کی براہ راست کوریج بھی کی گئی جو ویڈیو سوشل میڈیا پر  وائرل ہوئی۔

    خلا بازوں نے اپنے پیغام میں بتایا کہ ہم خیریت سے ہیں اور اپنے مقررہ وقت سے ایک منٹ پہلے زمین پر پہنچے۔

    یاد رہے کہ ناسا 18 سال سے خلائی تحقیقاتی مشن کے حوالے سے کام کررہا ہے، اس ادارے کے ساتھ180 ممالک کے 230 سے زائد شہری وابستہ ہیں جنہوں نے 2400 سے زائد تحقیقات کیں۔

  • ناسا نے سورج کی نزدیک ترین تصویر جاری کردی

    ناسا نے سورج کی نزدیک ترین تصویر جاری کردی

    واشنگٹن: امریکی خلائی تحقیقاتی ادارے ناسا نے سورج کے قریب سے بنائی جانے والی تصویر شیئر کردی جس کے گرد ستارے گردش کررہے ہیں۔

    ناسا کی جانب سے تصویر شیئر کرنے کا مقصد یہ بھی ہے کہ وہ دنیا کو آگاہ کرسکے کہ اُن کا سورج کو چھونے کے مشن پر بھیجے گئے خلابازوں نے کام شروع کردیا۔

    یاد رہے کہ ناسا نے ’ سولر پروب پلس‘ مشن کا آغاز گزشتہ برس اگست میں کیا تھا، مصنوعی سیارے نے گیارہ اگست کو سفر کا آغاز کیا اور وہ سورج کے اتنے قریب پہنچا جتنا اب تک کی تاریخ میں کوئی نہیں تھا۔

    ناسا کے مطابق پارکر سولر پروپ مشن نے یہ تصویر اپنے طیارے سے 2 کروڑ 71 لاکھ کلومیٹر کے فاصلے پر بنائی جبکہ زمین سے اس کا فاصلہ 21 کروڑ چالیس لاکھ سال ہے۔

    ناسا کے مطابق سورج کے ارد گرد نظر آنے والے سیاہ دائرے کیمرہ مین نے تصویر کو توازن میں رکھنے کے لیے شامل کیے۔

    ناسا کی جانب سے بھیجے جانے والے مصنوعی سیارے کے کنٹرولر کا کہنا تھا کہ ’یہ سورج کے بہت نزدیک کی تصویر ہے، جس میں بہت زیادہ چمک نظر آرہی ہے‘۔

    سورج کی قریب ترین تصویر

    مشن پر جانے والے خلابازوں کا ماننا ہے کہ یہ تصویر ماہرین کے لیے بہت زیادہ مددگار ثابت ہوگی اور وہ سورج کے نظام و کارکردگی کو مزید بہتر طریقے سے جان سکیں گے۔

    خلا باز ٹیری کوسیرا کا کہنا تھا کہ ’ہماری تحقیق اچھی جارہی ہیں، ہم نے ابھی تک اس مقام کا دورہ نہیں کیا تھا’۔

    مزید پڑھیں: ناسا کا خطرناک اور جان لیوا “سورج چھونے کا مشن”

    اُن کا کہنا تھا کہ ’ہمارے اور سورج کے درمیان ابھی بہت زیادہ فاصلہ ہے مگر ہم سورج کو ایک انوکھے روپ میں دیکھ رہے ہیں کہ کیسے اس پر  ہمارے کرہ ارض کا ماحول اثر انداز ہوتا ہے‘۔

    یاد رہے کہ امریکی خلائی تحقیقی ادارے ناسا نے رواں برس اگست میں نظام شمسی کے راز جاننے کے لیے اپنے خطرناک اور جان لیوا ’سورج کو چھونے‘ کا آغاز کیا تھا جس کے تحت ’سولر پروب پلس‘ نامی مصنوعی سیارہ گیارہ اگست کو سورج کی جانب بھیجا گیا تھا۔

    ناسا کا دعویٰ تھا کہ اُن کا مشن سورج کے  اتنے قریب پہنچنے کا  ہے جتنا آج تک کوئی بھی نہیں پہنچ سکا، ایک عام سی گاڑی کے سائز کا سیارہ سورج سے اکسٹھ لاکھ کلومیٹر کے فاصلے تک پہنچے گا جو گزشتہ مصنوعی سیاروں کی نسبت سات سورج سے گنا زیادہ قریب ہوگا۔

    خلا باز سات برس جاری رہنے والے مشن کے دوران وہ سورج کی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں اور طوفان (سولر ونڈ) کا جائزہ لیں گے اس کے علاوہ ستاروں کے محدار میں گھومنے کی کارکردگی کو بھی دیکھا جائے گا۔

    یہ بھی پڑھیں: کالی بلا ہمارے سورج کو آہستہ آہستہ کھائے جارہی ہے، ماہرین فلکیات کا انکشاف

    اس مشن کا مقصد ماہر فلکی طبیعات پروفیسر یوجین پارکر کی خدمات کا خراج تحسین پیش کرنا ہے۔ ناسا نے سورج کی مزید تحقیق کیلئے گیارہ سال قبل منصوبہ بندی کی تھی اور جس کے لیے ایک نیا چھوٹا خلائی روبوٹ تیار کیا، خلائی روبوٹ سورج کی سطح سے چھ اعشاریہ ایک ملین کلو میٹر تک پرواز کرے گا۔

  • وائجر2 نظامِ شمسی سے باہرنکل گیا

    وائجر2 نظامِ شمسی سے باہرنکل گیا

    آج سے 41 سال قبل قریبی سیاروں کے فضائی حالات جانچنے کے لیے بھیجا جانے والے خلائی جہاز ہمارے نظامِ شمسی کی سرحد سے باہر نکل چکا ہے ۔

    تفصیلات کے مطابق واشنگٹن میں منعقدہ امریکن جیوفیزیکل یونین (اے جی یو) کی کانفرنس میں وائجر 2 کے نظام شمسی سے باہر نکلنے کا اعلان کیا گیا ، اس مشن کی دیکھ بھال پر متعین چیف سائنسداں پروفیسر ایڈورڈ سٹون نے اس کی تصدیق کی ہے۔

    ا ن کا کہنا تھا کہ وائجر ٹو نامی خلائی جہاز جسے 1977 میں خلا میں روانہ کیا گیا تھا، انسان کی تخلیق کردہ وہ دوسری چیز بن گیا ہے جو نظام شمسی کی حد سے باہر نکل گئی ہے۔ اس سے قبل اسی خلائی جہاز کاجڑواں ’وائجر ون ‘ وائجر ون اپنی تیز رفتاری کے سبب ‘ستاروں کے درمیان خلا میں’ وائجر ٹو کے مقابلے میں چھ سال پہلے پہنچ گیا۔

    انھوں نے کہا کہ دونوں تحقیقاتی خلائی جہاز اب ‘ستاروں کےدرمیان ہیں’ اور وائجر ٹو نظام شمسی کے دائرے سے پانچ نومبر سنہ 2018 کو نکل گیا۔ اس دن سورج سے نکلنے والی شعاع کے ذرات جس کا خلائی جہاز وائجر ٹو سراغ رکھتا تھا اچانک ماند پڑ گئے جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ ‘ہیلیو پاز’ عبور کر چکا ہے۔

    وائجر ون پہلے نظام شمسی کی حد سے نکل چکا ہے تاہم امریکی خلائی ایجنسی کا کہنا ہے کہ وائجر ٹو میں ایک ایسا آلہ نصب ہے جو نظام شمسی سے نکلنے اور کہکشاؤں کے درمیان جانے کے سفرکا مشاہدہ پہلی بار بھیجے گا۔

    یہ خلائی جہاز ابھی زمین سے 18 ارب کلو میٹرکے فاصلے پر ہے اور یہ تقریبا 54 ہزار کلومیٹر فی گھنٹے کی رفتار سے بڑھ رہا ہے۔ وائجر ون اس سے آگے ہے اور اس سے تیز رفتار ہے۔ یہ ابھی 22 ارب کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور 61 ہزار کلومیٹر فی گھنٹے کی رفتار سے بڑھ رہا ہے۔

  • ناسا کے خلائی روبوٹ کی مریخ پر کامیاب لینڈنگ

    ناسا کے خلائی روبوٹ کی مریخ پر کامیاب لینڈنگ

    امریکی خلائی ادارے ناسا کا خلائی روبوٹ ان سائٹ کامیابی سے مریخ کی سطح پر لینڈ کرگیا۔ یہ ناسا کی تاریخ میں مریخ پر آٹھویں کامیاب لینڈنگ ہے۔

    خلائی روبوٹ ان سائٹ نے لینڈنگ کے بعد ناسا کو مشن کی تکمیل کا سگنل دیا ساتھ ہی مریخ کی پہلی تصویر بھی بھیجی جو شیشے پر گرد جمع ہونے کی وجہ سے دھندلی ہوگئی ہے۔

    چند گھنٹوں بعد ان سائٹ نے ایک اور تصویر بھیجی جو خاصی واضح ہے۔

    خلائی روبوٹ نے اپنی لانچ کے بعد سات ماہ میں 29 کروڑ 80 لاکھ میل کا سفر طے کیا اور بالآخر مریخ کی سطح پر لینڈنگ کی۔

    یہ روبوٹ مریخ کی تشکیل، اس پر آنے والے زلزلوں اور اس کی اندرونی ساخت کے بارے میں تحقیق کرے گا۔

    فی الحال سائنسدان اندھیرے میں ہیں کہ مریخ کی اندرونی سطح آیا زمین جیسی ہی ہے یا اس سے مختلف ہے۔

    روبوٹ میں شمسی توانائی کے پینلز بھی نصب ہیں جو اس وقت خودکار طریقے سے کام کرنے لگیں گے جب مریخ کا موسم انتہائی سرد ہوجائے گا۔

    ان سائٹ روبوٹ اس سے قبل مریخ پر بھیجے گئے مشنز سے مختلف ہے کیونکہ اس کے ساتھ 2 مصنوعی سیارے بھی مریخ کی فضا میں بھیجے گئے ہیں۔

  • آئس برگ کا مستطیل ٹکڑا

    آئس برگ کا مستطیل ٹکڑا

    امریکی خلائی ایجنسی ناسا نے انٹارکٹیکا کے برفانی سمندر میں بہنے والے آئس برگ کے مستطیل ٹکڑے کی تصویر جاری کی ہے جو نہایت حیرت انگیز ہے۔

    ناسا کے تحقیقاتی جہاز سے کھینچی جانے والی یہ تصویر انٹارکٹیکا کے ویڈل سمندر کی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ٹکڑا کسی برفانی تودے سے ٹوٹ کر لگ ہوا ہے۔

    خیال رہے کہ عالمی حدت یعنی گلوبل وارمنگ میں اضافے کے ساتھ برفانی خطے میں موجود گلیشیئرز پگھل رہے ہیں اور تودوں کے مختلف حصوں کے ٹوٹنے کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے۔

    ناسا کے مطابق سال 2016 میں قطب شمالی پر ریکارڈ مقدار میں برف پگھلی ہے جبکہ گرم موسم کے باعث برف ٹوٹ کر بڑے بڑے تودوں کی شکل میں سمندر پر بہہ رہی ہے۔

    ماہرین کے مطابق کہ سنہ 2016 میں گرمیوں کے موسم کے درجہ حرارت میں تو اضافہ ہوا ہی، مگر اس کے ساتھ ساتھ اس برس موسم سرما بھی اپنے اوسط درجہ حرارت سے گرم تھا۔

    یعنی موسم سرما میں قطب شمالی کا جو اوسط درجہ حرارت ہے، گزشتہ برس وہ اس سے 2 سے 3 ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ تھا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا میں ہوتی تیز رفتار صنعتی ترقی اور اس کے باعث گیسوں کے اخراج اور درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے اب تک قطب شمال کے برفانی رقبہ میں 620,000 میل اسکوائر کی کمی ہوچکی ہے۔

  • زحل کے چاند پرآندھی کا پہلی بارمشاہدہ کیا گیا

    زحل کے چاند پرآندھی کا پہلی بارمشاہدہ کیا گیا

    واشنگٹن: سیارہ زحل کے چاند ٹائٹن کے خطِ استواپر گزشتہ روز گرد کے طوفان کامشاہدہ کیا گیا، یہ مشاہدہ ناسا کے خلائی جہاز ’کیسینی ‘ سے موصول ہونے والے ڈیٹا کے ذریعے کیا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ناسا کے کیسینی نامی پروب سے گزشتہ روز موصول ہونے والی تصاویر کے مطابق زحل کے چاند ٹائٹن پر آندھی چل رہی تھی ، کسی سیارے کے چاند پر یہ آندھی کا پہلا مشاہدہ ہے۔

    یہ آندھی زحل کے چاند ٹائٹن کے خطِ استوا کے علاقے میں دیکھی گئی ہے- سائنسداں جانتے ہیں کہ ٹائٹن پر آتش فشاں پہاڑ موجود ہیں اور وہاں پر ہائیڈروکاربن سائیکل اسی طرح کام کرتا ہے جس طرح پانی کا سائیکل زمین پر کام کرتا ہے- جس طرح زمین پر پانی کے سمندروں سے بھاپ اٹھتی ہے، بادل بنتے ہیں، بارش ہوتی ہے، بارش کا پانی ندی نالوں سے دریاؤں اور وہاں سے سمندروں میں جاتا ہے اسی طرح ٹائٹن پر میتھین گیس انتہائی سرد ماحول کی وجہ سے مائع حالت میں موجود ہے۔

    یونی ورسٹی آف پیرس کے آسٹرونامر سباسشین روڈریگیوز کا کہنا ہے کہ ٹائٹن ایک انتہائی متحرک چاند ہے اور اس پر آندھی کے مشاہدے کے بعد اب اس کی جیالوجی کا زمین اور مریض کی جیالوجی سے موازنہ کیا جاسکتا ہے۔

    میتھین کے سمندروں سے میتھین کے بخارات فضا میں داخل ہوتے ہیں اور بادلوں کو تشکیل دیتے ہیں ، یتھین کے بادل پہاڑوں پر جا کر مائع میتھین بارش کی صورت میں برساتے ہیں، یہ مائع میتھین ندی نالوں اور دریاؤں سے ہوتی واپس سمندر میں پہنچتی ہے۔

    یاد رہے کہ ٹائٹن کا محور بھی زمین کی طرح جھکا ہوا ہے جس کی وجہ سے ٹائٹن پر زمین کی طرح گرمی اور سردی کے موسم ہوتے ہیں۔بہار یا خزاں کے موسم میں سورج ٹائٹن کے خطِ استوا کے عین اوپر ہوتا ہے اور اس علاقے میں شدید جھکڑ پیدا ہوتے ہیں اور آندھیاں چلتی ہیں۔ہمیں ان جھکڑوں کے بارے میں پہلے سے معلوم تھا لیکن ابھی تک گردوغبار سے بھرپور آندھی کا مشاہدہ نہیں ہو پایا تھا- اب کیسینی کی بدولت ٹائٹن پر آندھیوں کا مشاہدہ بھی ہو گیا ہے۔

    ہم جانتے ہیں کہ ٹائٹن پر بہت سا نامیاتی مواد موجود ہے (میتھین خود ایک نامیاتی یعنی organicمالیکیول ہے) اس لیے اس آندھی میں بھی بہت سا نامیاتی مواد اڑتا ہے اور دور دراز کے علاقوں میں پھیل جاتا ہے- میتھین کی بارشوں سے یہ نامیاتی مواد ٹائٹن کی سطح میں جذب ہو سکتا ہے اور پیچیدہ مالیکیولز میں تبدیل ہو سکتا ہے،گویا اس بات کی امید کی جا سکتی ہے کہ ٹائٹن پر کسی نہ کسی شکل میں زندگی کا امکان بھی موجود ہے۔

  • ناسا نے سورج کی جانب پہلا ’’پارکرسولر پروب ‘‘ نامی خلائی جہاز بھیج دیا

    ناسا نے سورج کی جانب پہلا ’’پارکرسولر پروب ‘‘ نامی خلائی جہاز بھیج دیا

    فلوریڈا : امریکی خلائی تحقیقاتی ادارے ناسا نے سورج کی جانب پہلا خلائی جہاز تحقیقاتی مشن پر بھیج دیا، ایک گاڑی جتنی جسامت کے خلائی جہاز کو ’’ پارکر سولر پروب‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی خلائی ایجنسی ناسا نے تاریخ میں پہلی بار سورج کا قریب سے مشاہدہ کرنے کے لیے سیٹلائٹ روانہ کیا ہے۔ فلوریڈا سے بھیجے گئے پارکر نامی خلائی تحقیقاتی سیٹلائٹ انسانی تاریخ میں سب سے تیز رفتار مصنوعی سیارہ ہے جو کہ چھ لاکھ نوے ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرے گا۔

    جس کا مطلب ہے کہ نیویارک اور ٹوکیو کےدرمیان فاصلہ ایک منٹ سے بھی کم میں طے ہوگا۔ مذکورہ پارکر سٹیلائٹ سورج کے گرد چکر لگاتے ہوئے معلومات ارسال کرے گا۔

    اس خلائی جہاز کو انتہائی طاقتور راکٹ کے ذریعے بھیجا گیا ہے جسے مشن کے دوران انتہائی گرمی اور تابکاری کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔ اس کے حساس آلات کو گرمی سے بچانے کے لیے خصوصی اقدامات کئے گئے ہیں۔

    ناسا کے مطابق ایک عام سی گاڑی کے سائز کا سیارہ سورج سے اکسٹھ لاکھ کلومیٹر کے فاصلے تک پہنچے گا، یہ اس سے پہلے بھیجے گئے مصنوعی سیاروں کی نسبت سات گنا زیادہ قریب پہنچے گا۔

    سات برس جاری رہنے والے مشن کے دوران وہ سورج کی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں اور طوفان، جسے سولر ونڈ کہتے ہیں، کا جائزہ لے گا۔

    آج تک سورج کی جانب بھیجے گئے تمام سابقہ مشنز کے مقابلے میں یہ جہاز اس ستارے کے سب سے زیادہ قریب تک پہنچے گا۔ اس خلائی مشن کا کام یہ ہو گا کہ یہ سورج کے کرونا کہلانے والے بیرونی ایٹموسفیئر کے قریب پہنچے گا۔

    مزید پڑھیں: ناسا کے خطرناک اور جان لیوا “سورج چھونے کے مشن” کا آغاز 11 اگست کو ہوگا

    اس کی ساخت اس طرح اور ایسے مادوں سے بنائی گئی ہے کہ سورج سے فقط چھ ملین کلومیٹر کی دوری پر موجود رہنے کے باوجود یہ اپنے آپ کو ٹھنڈا رکھے گا۔ادارے کی جانب سے تاریخی لمحے کی براہ راست کوریج کی گئی اور فیس بک پر بھی براہ راست دکھایا گیا۔