Tag: ناسا

  • ناسا کے خطرناک اور جان لیوا "سورج چھونے کے مشن” کا آغاز 11 اگست کو ہوگا

    ناسا کے خطرناک اور جان لیوا "سورج چھونے کے مشن” کا آغاز 11 اگست کو ہوگا

    واشنگٹن : امریکی خلائی تحقیقی ادارے ناسا نظام شمسی کے راز جاننے کے لیے اپنے خطرناک اور جان لیوا ’سورج کو چھونے‘ کا آغاز کرنے جارہا ہے۔

    امریکی خلائی تحقیقاتی ادارے ناسا کا ’سولر پروب پلس‘ نامی مصنوعی سیارہ گیارہ اگست کو سورج کی جانب اپنے سفر کا آغاز کرے گا، وہ سورج کے اتنا قریب پہنچے گا جتنا آج تک کوئی نہیں پہنچا۔

    ناسا کے مطابق ایک عام سی گاڑی کے سائز کا سیارہ سورج سے اکسٹھ لاکھ کلومیٹر کے فاصلے تک پہنچے گا، یہ اس سے پہلے بھیجے گئے مصنوعی سیاروں کی نسبت سات گنا زیادہ قریب پہنچے گا۔

    سات برس جاری رہنے والے مشن کے دوران وہ سورج کی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں اور طوفان، جسے سولر ونڈ کہتے ہیں، کا جائزہ لے گا۔

    خلائی تحقیقی ادارے ناسا نے اس مشن کا نام پارکر سولر پروب رکھا ہے، جس کا مقصد ماہر فلکی طبیعات پروفیسر یوجین پارکر کی خدمات کا خراج تحسین پیش کرنا ہے۔

    ناسا نے سورج کی مزید تحقیق کیلئے گیارہ سال قبل منصوبہ بندی کی تھی اور اسی تحقیق کیلئے ایک نیا چھوٹا خلائی روبوٹ تیار کیا، خلائی روبوٹ سورج کی سطح سے چھ اعشاریہ ایک ملین کلو میٹر تک پرواز کرے گا۔

    امریکی خلائی ادارہ ناسا کا کہنا ہے کہ اس روبوٹ کے ذریعے مزید بہتر انداز میں سورج کی تحقیق کے مواقع میسر آئیں گے اور سورج سے خارج ہونے والی شعاعوں کے فوائد اور نقصانات سے آگاہی ہوگی، جس سے زمین پر پیدا ہونے والے اثرات کا حقیقی نتیجہ برآمد ہوسکے گا۔

    اس مشن میں ناسا کے ایک اعشاریہ پانچ ارب ڈالر کی لاگت آچکی ہے ، تحقیقات میں سورج کی سخت گرمی اور تابکاری سے بچنے اور فوائد حاصل کرنے کا طریقہ تلاش کیا جارہا ہے۔

    ناسا کا خلائی روبوٹ سورج کے تقریبا ڈھائی ہزار ڈگری فارن ہائٹ درجہ حرارت تک برداش کرنے کی طاقت رکھتا ہے اور اس کے آلات پچاسی ڈگری فارن ہائٹ کو برداشت کرنے کا ڈیزائن ڈھالا ہے۔

    خیال رہے کہ انسان کی جانب سے سورج کے اتنا قریب جانے کا پہلا تجربہ ہوگا، جو خوفناک حدت اور ریڈی ایشن کا سامنا کرے گا۔

    اس سے قبل ناسا نے عام عوام سے کہا تھا کہ ہم سورج کو چھونے کے لئے ایک خلائی جہاز بھیج رہے ہیں، اگر آپ اس تاریخی پارکر سولر پروب مشن کو دیکھنا چاہتے ہیں تو اپنے نام کے ساتھ آن لائن درخواستیں جمع کرادیں۔

    گذشتہ سال یونیورسٹی آف شکاگو میں معروف خلائی ماہر ایوگن پارکر کو خراج تحسین پیش کرنے کے منعقدہ تقریب کے موقع پر ناسا نے اعلان کیا تھا کہ 2018 کے موسم گرما میں اپنا پہلاروبوٹک اسپیس کرافٹ سورج کی جانب روانہ کرے گا۔

    واضح رہے کہ سورج کی سطح کو ضیائی کرہ کہا جاتا ہے، جس کا درجہ حرارت 5500 سینٹی گریڈ تک ہوتا ہے جب کہ اس میں اضافہ 2 ملین ڈگری سیلسئس تک ہوسکتا ہے۔

    سورج کے کرہ ہوائی کو کورونا کہا جاتا ہے، اس کورونا کا درجہ حرارت 5 لاکھ ڈگری سینٹی گریڈ تک ہوتا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • 17 سالہ ایلیسا مریخ پر پہلا قدم رکھنے کو تیار

    17 سالہ ایلیسا مریخ پر پہلا قدم رکھنے کو تیار

    امریکی خلائی ایجنسی ناسا مریخ پر پہلا پڑاؤ ڈالنے کے لیے تیاریوں میں مصروف ہے۔ ایسے میں ایک 17 سالہ دوشیزہ بھی مریخ پر قدم رکھنے والی پہلی انسان کا اعزاز حاصل کرنے والی ہیں۔

    ایلیسا کارسن صرف 17 سال کی ہیں جو اس وقت ناسا میں خلا باز بننے کی تربیت حاصل کر رہی ہیں۔

    وہ مریخ پر قدم رکھنے والی پہلی انسان بننا چاہتی تھیں اور ان کے خواب کی تعبیر انہیں اس طرح مل رہی ہے کہ سنہ 2033 میں وہ مریخ پر بھیجے جانے والے اولین انسانی مشن کا حصہ ہوں گی۔

    امریکی ریاست لوزیانا سے تعلق رکھنے والی ایلیسا ابتدائی خلائی تربیت مکمل کرنے والی سب سے کم عمر ترین طالبہ ہیں جس کے بعد اب وہ ناسا کا باقاعدہ حصہ ہیں۔

    ایلیسا 4 زبانوں یعنی انگریزی، فرانسیسی، ہسپانوی اور چینی زبان میں عبور رکھتی ہیں جبکہ پرتگالی اور ترکی زبان بھی کچھ کچھ جانتی ہیں، اس کے علاوہ روسی زبان کی باقاعدہ تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔

    ایلیسا بچپن سے کچھ منفرد کرنا چاہتی تھیں، جب اسے معلوم ہوا کہ انسان چاند کو تسخیر کرچکا ہے لیکن مریخ تاحال ناقابل تسخیر ہے تو مریخ پر جانا ان کی زندگی کا سب سے بڑا خواب بن گیا۔

    مزید پڑھیں: مریخ پر پہلا قدم کس کا ہونا چاہیئے؟

    وہ بخوبی جانتی ہیں کہ ایک بار مریخ پر جانے کے بعد اس کا زمین پر لوٹنا شاید ممکن نہ ہو، پھر بھی زمین سے تقریباً 40 کروڑ کلومیٹر دور مریخ پر پہنچنے ان کی ضد برقرار ہے۔

    ناسا کے سائنسدانوں کا خیال ہے کہ مریخ پر جانے کے سفر کے دوران چاند پر عارضی پڑاؤ ڈالا جاسکتا ہے، لہٰذا چاند گاؤں بنانے کا کام بھی جاری ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • پندرہ سال بعد آج رات پھر مریخ زمین کے قریب تر آ جائے گا

    پندرہ سال بعد آج رات پھر مریخ زمین کے قریب تر آ جائے گا

    ناسا: امریکی وفاقی اسپیس ایجنسی ناسا کا کہنا ہے کہ آج پندرہ سال بعد ایک بار پھر سرخ سیارہ زمین کے قریب تر آ جائے گا جسے رات کے وقت دیکھا جا سکے گا۔

    تفصیلات کے مطابق آج رات زمین کے ایک طرف آسمان پر سورج اور دوسری طرف مریخ براجمان ہوگا، جو ایک سیدھے خط میں نظر آئیں گے۔

    ناسا کا کہنا ہے کہ اگرچہ دونوں سیارے ایک دوسرے سے کم ترین فاصلے پر ہوں گے، یہ پھر بھی ایک دوسرے سے 57.6 ملین کلو میٹر (5 کروڑ 76 لاکھ کلو میٹر) دوری پر ہوں گے۔

    کہا جا رہا ہے کہ یہ اکتوبر 2020 تک زمین اور مریخ کے درمیان قریب ترین فاصلہ ہوگا، تاہم آج جس طرح سرخ سیارہ واضح طور پر نظر آئے گا اس طرح یہ صرف ہر پندرہ سے سترہ سال کے بعد ہی نظر آیا کرتا ہے۔

    دل چسپ بات یہ ہے کہ وہ لوگ جو 27 جولائی کو چاند گرہن دیکھ رہے تھے، آسمان میں مریخ کو بھی دیکھ سکیں گے، تاہم یہ آسٹریلیا، جنوبی افریقا اور جنوبی امریکی ممالک ہی میں بہتر طور پر دکھائی دے گا۔

    مریخ پر مائع پانی کی جھیل مل گئی، سائنس دانوں کا دعویٰ

    ماہرینِ فلکیات کا کہنا ہے کہ ہم مریخ کو ستمبر تک دیکھ سکیں گے تاہم یہ ہر گزرتے روز کے ساتھ چھوٹا ہوتا جائے گا کیوں کہ یہ زمین کے قریب ترین مدار کو چھوڑ دے گا۔

    خیال رہے کہ اگر چہ مریخ پندرہ سال بعد زمین کے قریب تر آ رہا ہے اور یہ بہت سارے لوگوں کے لیے ایک نیا اور شان دار منظر ہوگا تاہم جن لوگوں نے اسے 2003 میں دیکھا ہے ان کے لیے یہ منظر نیا نہیں۔

    ناسا نے مریخ پر ہیلی کاپٹر بھیجنے کا اعلان کردیا

    2003 میں مریخ زمین سے ’محض‘ 56 ملین کلو میٹر کے فاصلے پر آ گیا تھا، ناسا کے مطابق یہ ایک ایسا واقعہ تھا جو 60 ہزار سال کے عرصے میں پیش نہیں آیا تھا اور سال 2287 تک دوبارہ پیش نہیں آئے گا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • خلائی مخلوق وجود رکھتے ہیں: ناسا کے سائنسدان کا انکشاف

    خلائی مخلوق وجود رکھتے ہیں: ناسا کے سائنسدان کا انکشاف

    عالمی خلائی ادارے ناسا کے ایک سابق سائنسداں کا کہنا ہے کہ خلائی مخلوق نہ صرف موجود ہیں بلکہ کئی بار انسانوں کا ان سے سامنا بھی ہوچکا ہے، لیکن حکومتوں نے اس بات کو خفیہ رکھا ہوا ہے۔

    دی کنورزیشن نامی جریدے میں شائع ہونے والے اپنے مضمون میں کیون کنتھ نے دعویٰ کیا کہ ہماری کائنات میں خلائی مخلوق اور اڑن طشتریوں کی موجودگی کے بے شمار ثبوت موجود ہیں۔

    کیون کنتھ ناسا میں اپنی ملازمت مکمل ہونے کے بعد اب ایک امریکی یونیورسٹی میں طبیعات کے پروفیسر کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہے ہیں۔

    مزید پڑھیں: خلائی مخلوق کی موجودگی کا ثبوت مل گیا

    اپنے مضمون میں انہوں نے کہا کہ ہمیں اس امکان کو تسلیم کرلینا چاہیئے کہ کچھ ایسے اجنبی اڑنے والے آبجیکٹس (آسان الفاظ میں اڑن طشتریاں) موجود ہیں جو ہمارے ایجاد کردہ ایئر کرافٹس سے کہیں بہتر ہیں۔

    ان کا کہنا ہے کہ اڑن طشتریوں کے دیکھے جانے کے بھی بے تحاشہ ثبوت ہیں جنہیں آسانی سے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

    پروفیسر کا کہنا ہے کہ اڑن طشتریوں کے بارے میں بات کرنا اس وقت نہایت متنازعہ ہوچکا ہے جس کی وجہ سے ان دعووں کی سائنسی بنیاد پر تحقیق نہیں کی جارہی۔

    ان کے خیال میں اس کی ذمہ دار حکومتیں اور میڈیا ہے جس نے اس موضوع کو نہایت متنازعہ بنا دیا ہے۔

    مزید پڑھیں: خلائی مخلوق کو بلانا خطرناک اور زمین کی تباہی کا سبب

    پروفیسر نے کہا کہ خلائی مخلوق ایک حقیقت ہیں کیونکہ ہماری کائنات میں 300 ارب ستارے موجود ہیں، اور ان میں سے کچھ یقیناً ایسے ہوں گے جہاں زندگی موجود ہوگی۔

    اپنے مضمون میں انہوں نے کہا کہ اب تک ایک بھی ایسا باقاعدہ اور مصدقہ دستاویز تیار نہیں کیا گیا جو اڑن طشتریوں کے دیکھے جانے کے حوالے سے ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا بھر کی حکومتیں ان معلومات کو راز میں رکھنا چاہتی ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ اس بارے میں سائنسی بنیادوں پر تحقیق بنی نوع انسان کے لیے فائدہ مند ہوگی اور اس سے ترقی کی نئی راہیں کھلیں گی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • ناسا نے مریخ پر ہیلی کاپٹر بھیجنے کا اعلان کردیا

    ناسا نے مریخ پر ہیلی کاپٹر بھیجنے کا اعلان کردیا

    نیویارک: امریکی خلائی تحقیقاتی ادارے ناسا نے مریخ پر ایک ہیلی کاپٹر بھیجنے کا اعلان کردیا ہے تاکہ معلوم کیا جاسکے کہ مریخ پر بھاری مشینوں کی اڑان سے کیا نتائج برآمد ہوتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق ناسا نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ دو سال بعد مریخ پر ایک ’روور‘ بھیجی جائے گی جس کی نچلی سطح سے ایک چھوٹا ہیلی کاپٹر منسلک کیا جائے گا۔

    ناسا کے مطابق روور مریخ پر پہنچے گا تو ہیلی کاپٹر اس سے علیحدہ ہوجائے گا، اس کا وزن دو کلو گرام سے بھی کم ہے اور حجم میں بیس بال کی ایک گیند کے برابر ہوگا۔

    یہ ہیلی کاپٹر مریخ کے ماحول میں اڑنے کے لیے تیار کیا جا رہا ہے جو شمسی توانائی سے چارج ہوگا اور اسی توانائی کو سردی میں درجہ حرارت برقرار رکھنے کے لیے استعمال کرے گا۔

    ناسا کی جانب سے جاری کردہ تفصیلات کے مطابق ہیلی کاپٹر کو زمین سے دی جانے والی ہدایات کے ذریعے اڑایا جائے گا۔ بتایا گیا ہے کہ اس ہیلی کاپٹر کے پنکھے زمین پر اڑنے والے ہیلی کاپٹر سے دس گنا تیز چلیں گے، جس کی وجہ مریخ کی انتہائی لطیف ہوا ہے۔

    ناسا کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ ’ہائی رسک، ہائی ریوارڈ‘ یعنی ’بڑا خطرہ اور بڑا ثمر‘ کے مترادف ہے۔ اگر یہ ہیلی کاپٹر مریخ مشن 2020 میں اس طرح کامیاب نہ ہوا جیسا سوچا گیا ہے، تو اس سے مشن کو بہ حیثیت مجموعی کوئی نقصان نہیں ہو گا۔

    نئی زمینوں کی تلاش میں ناسا کا جدید سیٹلائٹ کل روانہ ہوگا


    مشن کی کام یابی کی صورت میں مستقبل میں کم بلندی پر اڑنے والی مشینیں مریخ پر بھیجی جائیں گی تاکہ اس سیارے پر وہ فاصلے بھی طے کیے جا سکیں جو سطح پر سفر کرتے ہوئے طے کرنا ممکن نہیں ہے۔

    ناسا کے ایڈمنسٹریٹر جم برائڈنسٹائین کا کہنا تھا کہ یہ خیال کہ ایک ہیلی کاپٹر کسی اور سیارے کے آسمان میں اڑان بھرے گا، بے حد سنسنی خیز ہے۔ سرخ سیارے کا یہ ہیلی کاپٹر ہماری آئندہ سائنس کے لیے بے حد اہم مرحلہ ہے۔

    واضح رہے کہ مارس 2020 روور مشن جولائی 2020 میں کیپ کنیورل ایئر فورس اسٹیشن فلوریڈا سے روانہ ہوگا اور فروری 2021 میں مریخ پہنچے گا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • ‘سورج کو چھونے’ کا مشن حتمی مراحل میں داخل

    ‘سورج کو چھونے’ کا مشن حتمی مراحل میں داخل

    واشگنٹن : امریکی خلائی ایجنسی ناسا کے پہلے خطرناک اور جان لیوا ‘سورج کو چھونے’ کے مشن کی تیاریاں حتمی مراحل میں داخل ہوگئی، خلائی جہاز  رواں برس  جولائی میں روانہ کیا جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی خلائی تحقیقی ادارے ناسا نے نظام شمسی کے راز جاننے کے لیے اپنے خطرناک اور جان لیوا ‘سورج کو چھونے’ کے مشن کی تیاریوں کو حتمی شکل دے دی ہے۔

    خلائی تحقیقی ادارے ناسا نے اس مشن کا نام پارکر سولر پروب رکھا ہے، جس کا مقصد ماہر فلکی طبیعات پروفیسر یوجین پارکر کی خدمات کا خراج تحسین پیش کرنا ہے۔

    اس مشن کا مقصد نظام شمسی کے رازوں سے پردہ اٹھانا اور سورج کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا ہے۔

    انسان کی جانب سے سورج کے اتنا قریب جانے کا پہلا تجربہ ہوگا، جو خوفناک حدت اور ریڈی ایشن کا سامنا کرے گا۔

    ناسا نے عام عوام سے کہا ہے کہ ہم سورج کو چھونے کے لئے ایک خلائی جہاز بھیج رہے ہیں، اگر آپ اس تاریخی پارکر سولر پروب مشن کو دیکھنا چاہتے ہیں تو اپنے نام کے ساتھ آن لائن درخواستیں جمع کرادیں۔

    اس خطرناک مشن کے لیے سولر پروب پلس نامی خلائی جہاز  تیار کیا گیا ہے، جو ایک چھوٹی گاڑی کی طرح ہے، جسے ہفتے کے روز امریکی ریاست فلوریڈا پہنچایا جائے گا۔

    خلائی جہاز کو رواں برس 31 جولائی کو خلا میں روانہ کیا جائے گا، یہ گاڑی سورج کی سطح سے 40 لاکھ میل دور مدار میں گردش کرے گی۔

    خیال رہے کہ اس سے قبل ناسا چاند، مریخ اور خلا میں بہت سے خلائی مشن بھیج چکا ہے۔


    مزید پڑھیں : ناسا کا پہلا خطرناک اور جان لیوا ‘سورج کو چھونے’ کا مشن


    یاد رہے گذشتہ سال یونیورسٹی آف شکاگو میں معروف خلائی ماہر ایوگن پارکر کو خراج تحسین پیش کرنے کے منعقدہ تقریب کے موقع پر ناسا نے اعلان کیا  تھا کہ 2018 کے موسم گرما میں  اپنا پہلاروبوٹک اسپیس کرافٹ سورج کی جانب روانہ کرے گا۔

    واضح رہے کہ سورج کی سطح کو ضیائی کرہ کہا جاتا ہے، جس کا درجہ حرارت 5500 سینٹی گریڈ تک ہوتا ہے جب کہ اس میں اضافہ 2 ملین ڈگری سیلسئس تک ہو سکتا ہے۔

    سورج کے کرہ ہوائی کو کورونا کہا جاتا ہے، اس کورونا کا درجہ حرارت 5 لاکھ ڈگری سینٹی گریڈ تک ہوتا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • کائنات کے بارے میں حیران کن حقائق

    کائنات کے بارے میں حیران کن حقائق

    ہماری ماں زمین جہاں ہم رہتے اور زندگی گزارتے ہیں، ہماری کائنات کا پانچواں بڑا سیارہ ہے، اور شاید یہ واحد سیارہ ہے جہاں پر زندگی موجود ہے۔

    زمین ہمارے لیے بہت بڑی ہے، لیکن ہم کائنات کی وسعت کا اندازہ لگانے سے بھی قاصر ہیں۔ اس وسعت میں ہماری زمین کی حیثیت ایک معمولی سے ریت کے ذرے کے برابر ہے۔

    universe-2

    آج ہم آپ کو کائنات کے ایسے ہی چند حیران کن حقائق بتا رہے ہیں جنہیں جان کر آپ خود کو نہایت حقیر محسوس کرنے لگیں گے، اور ساتھ ہی دنگ بھی رہ جائیں گے۔

    کائنات میں لگ بھگ 100 ارب ستارے اور سیارے موجود ہیں اور ہماری زمین ان میں سے ایک ہے۔

    universe-1

    اگر ہم روشنی کی رفتار سے سفر کریں تب بھی ہمیں پوری کہکشاں کی سیر کرنے کے لیے 1 لاکھ سال کا عرصہ درکار ہوگا۔ یاد رہے کہ روشنی کی رفتار 1 لاکھ 86 ہزار میل فی سیکنڈ ہوتی ہے۔

    کائنات کا 70 فیصد حصہ اندھیرے میں چھپا ہوا ہے۔ زمین سے باہر جو کچھ ہم اب تک دریافت کر چکے ہیں وہ کائنات کا صرف 5 فیصد حصہ ہے۔

    ہماری خلا کا زیادہ تر حجم سورج نے گھیرا ہوا ہے۔ سورج کے علاوہ بقیہ تمام سیارے کائنات کا صرف 0.2 فیصد رقبہ گھیرے ہوئے ہیں۔

    sun

    ووئیجر 1 اس وقت انسانی ہاتھوں سے بنائی گئی وہ واحد شے ہے جو زمین سے سب سے زیادہ فاصلے پر موجود ہے۔ یہ سورج سے 11 ارب میل کے فاصلے پر ہے جبکہ خود زمین سورج سے 14.96 کروڑ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔

    universe-3

    یاد رہے کہ کچھ عرصہ قبل ماہرین فلکیات نے خلا میں زمین جیسے 7 سیارے دریافت کیے تھے۔

    مزید پڑھیں: زمین جیسے 7 نئے سیارے دریافت

    ایک ستارے اور اس کے گرد گھومتے 7 سیاروں پر مشتمل اس نئے نظام کو ٹریپسٹ 1 کا نام دیا گیا تھا۔

    سائنس دانوں کے مطابق ان سیاروں میں سے 3 پر پانی کی موجودگی کا امکان ہے جن کے باعث یہ سیارے قابل رہائش ہوسکتے ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • ناسا نے خلا کی تاریک گہرائیوں میں درست سمت بتانے والا آلہ تیارکرلیا

    ناسا نے خلا کی تاریک گہرائیوں میں درست سمت بتانے والا آلہ تیارکرلیا

    خلاء میں سمت شناسی ہمیشہ سے ہی خلاء نوردوں کے لیے مشکل ترین مرحلہ رہا ہے گو وقت کا درست تخمینہ لگانے والی گھڑیاں سمت کا تعین کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں تاہم اکثر خلائی میں طیاروں میں گھڑیاں موجود نہیں ہوتیں جس کی وجہ سے خلاء نوردوں کو سمت اور خلائی اسٹیشن کو اسپیس کرافٹ کے مقام کا درست تعین کرنے میں مشکل پیش آتی ہے۔

    ناسا جیٹ پروپولژن لیبارٹری کیلیفورنیا گزشتہ بیس سال سے سمت پیما بنانے کے لیے تحقیق میں مشغول ہے، یہ سمت شناس کلائی میں باندھنے والی گھڑی کی طرح نہیں ہے اور نہ ہی اسے کسی گھڑیال کی دکان سے خریدا جا سکے گا بلکہ یہ ایک ایسی گھڑی ہے جسے خلا کی گہرائیوں میں سمت جانچنے کے لیے استعمال کیا جاسکے گا، اس گھڑی کو ڈیپ اسپیس اٹامک کلاک کا نام دیا گیا ہے۔

    خلا میں بھیجے جانے والے زیادہ تر مشن سمت شناسی کے لیے زمینی خلائی اسٹیشن پر لگے اینٹینا کے جوڑوں کو خلائی طیارے میں موجود اٹامک گھڑی کے ساتھ منسلک کر کے سنگنل بھیجنے اور موصول کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں، زمینی اینٹینا خلائی کرافٹ کو سگنل بھیجتے ہیں جسے اٹامک گھڑی وصول کرکے دوبارہ اینٹینا کو بھیج دیتی ہے، ناسا پیغام بھیجنے اور وصول کرنے کے درمیان کے وقفے سے خلائی طیارے کے اصل مقام، رفتار اور سمت کا تعین کرتے ہیں۔

    تاہم اس طریقہ کار میں دو مشکلات کا سامنا رہتا ہے، اول اس کے ذریعے صرف ایک اسپیس کرافٹ کو سگنل بھیجے جا سکتے ہیں کیوں کہ زمینی اینٹیناز خلاء میں موجود خلائی طیارے کو سگنل بھیجنے کے بعد جوابی سگنل کا انتطار کرتے رہتے ہیں اور اس دوران کسی اور اسپیس کرافٹ کو سگنل نہیں بھیجے جاسکتے، دوئم جوابی سگنل موصول ہونے تک اسپیس کرافٹ میں موجود خلاء نورد خلائی وقت اور حالات کے تحت فیصلے لینے سے قاصر رہتے ہیں چنانچہ ایسی کسی چیز کی ضرورت تھی جس کے ذریعے ان دونوں مسائل کا سدباب کیا جا سکے۔

    جیٹ پروپولژن لیبارٹری کے سینیئر سائنس دان ٹوڈ ایلی کا کہنا تھا کہ سمت شناسی کے لیے سب سے اہم چیز فاصلے کا درست تعین ہے، جیسا کہ ریڈیو سگنلز جو کہ روشنی کی رفتار سے سفر طے کرتی ہے جس کا مطلب ہے کہ ہمیں خلائی طیاروں کے اُڑان بھرنے کے وقت کو بھی نینو سیکنڈ میں ناپنے کی ضرورت ہے تاکہ طیارے کی درست سمت کا تعین کیا جاسکے جس کی مدد سے طیارے کے مقام کا بھی پتہ چلایا سکے گا اور یہ کام ڈیپ اسپیس اٹامک کلاک باقاعدگی سے زمیننی اسٹیشن پر کر رہی ہوتی ہے تاہم اب خلاء میں بھی طریقہ اپنایا جائے گا۔

    ناسا کے مطابق ڈیپ اسپیس اٹامک کلاک (DSAC) پروجیکٹ کے تجرباتی مظاہرے کے لیے ایک یونٹ تیار کیا جارہا ہے اور جنرل اٹامکس الیکٹرو میگنیٹکس سسٹم کے فراہم کردہ اسپیس کرافٹ اس کی میزبانی کریں گے جس کے بعد انہیں رواں سال زمین کے مدار پر بھیجا جائے گا جہاں ایک سال تک اس کی کارکردگی اور نتائج کا مطالعہ کیا جائے گا.

  • زمین کو تابکار شعاعوں سے بچانے والی اوزون تہہ کی رفو گری

    زمین کو تابکار شعاعوں سے بچانے والی اوزون تہہ کی رفو گری

    عالمی خلائی ادارے ناسا نے تصدیق کی ہے کہ زمین کو سورج کی تابکار شعاعوں سے بچانے والی اوزون تہہ میں پڑنے والے شگاف رفو ہونا شروع ہوگئے ہیں اور یہ سنہ 2060 تک مکمل طور اپنی اصل حالت میں واپس آجائے گی۔

    خیال رہے کہ اوزون تہہ زمین کی فضا سے 15 تا 55 کلومیٹر اوپر ایک حفاظتی تہہ ہے جو سورج کی مضر اور تابکار شعاعوں کو زمین پر آنے سے روک دیتی ہے۔

    مزید پڑھیں: اوزون کی تہہ زمین کے لیے کیوں ضروری ہے؟

    یہ تابکار شعاعیں انسان کو جلد کے کینسر سمیت قوت مدافعت میں کمی اور دیگر جان لیوا بیماریوں میں مبتلا کرسکتی ہیں جبکہ پودوں کو بھی تباہ کرسکتی ہیں۔

    کچھ دہائیوں قبل دنیا بھر میں اچانک سی ایف سی گیسز کے استعمال میں بے تحاشہ اضافہ ہوگیا تھا جو اس تہہ کو نقصان پہنچا رہی تھی۔

    سی ایف سی یعنی کلورو فلورو کاربن تین مضر گیسوں کاربن، کلورین اور فلورین پر مشتمل ہوتی ہے جو انرجی سیور بلب، ڈیپ فریزر، ریفریجریٹرز، کار، ایئر کنڈیشنر، فوم، ڈرائی کلیننگ، آگ بجھانے والے آلات، صفائی کے لیے استعمال ہونے والے کیمیکل اور فیومیگیشن میں ہوتی ہے۔

    یہ گیس جب فضا میں جاتی ہے تو براہ راست جا کر اوزون کی تہہ کو نقصان پہنچاتی ہے جس سے اس مقام پر سورج کی تابکار شعاعیں زمین پر آںے لگتی ہیں۔

    سنہ 1989 میں جب اوزون کو پہنچنے والے اس نقصان کا علم ہوا تو کینیڈا کے شہر مونٹریال میں ایک معاہدہ کیا گیا جس کے تحت دنیا بھر کو پابند کیا گیا کہ وہ اپنی صنعتوں میں سی ایف سی گیسز کا استعمال کم سے کم کریں۔

    اس معاہدے پر عمل کا مثبت نتیجہ برآمد ہوا ہے اور اوزون کی تہہ کی رفو گری شروع ہوگئی ہے جس کے تصدیق ناسا نے کی ہے جو خلا میں موجود اپنے اورا سیٹلائٹ کے ذریعے سنہ 2005 سے اوزون کی نگرانی کر رہا تھا۔

    اوزون کی تہہ کے پھٹنے اور اس میں شگاف پڑنے کا عمل انٹارکٹیکا کے خطے میں پیش آیا تھا جس کے باعث وہاں کی برف تیزی سے پگھل رہی تھی جس سے سطح سمندر بلند ہونے کا خدشہ تھا۔

    دوسری جانب برف کی عدم موجودگی میں وہاں موجود برفانی حیات کی معدومی کا بھی خطرہ تھا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اوزون کی رفو گری فی الحال صرف 20 فیصد ہوئی ہے اور ابھی ہمیں اپنی زمین کو بچانے کے لیے مزید کام کرنا ہوگا جس کے بعد توقع ہے کہ سنہ 2060 یا 2080 تک یہ تہہ مکمل طور پر اپنی اصل حالت میں واپس آجائے گی۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • ٹرمپ کے حکم پر ناسا کا چاند مشن پروگرام بحال

    ٹرمپ کے حکم پر ناسا کا چاند مشن پروگرام بحال

    واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ناسا کے چاند پر امریکی خلا بازوں کو بھیجنے کے پروگرام کی بحالی کے حکم نامے پر دستخط کردیے۔

    بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق ٹرمپ نے ناسا کے چاند پر امریکی خلا بازوں کو بھیجنے کے پروگرام کی بحالی کے حکم نامے پر دستخط کردیے۔ ناسا کا چاند مشن سنہ 2011 میں معطل کردیا گیا تھا۔

    پروگرام کی بحالی کے حکم نامے پر دستخط کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا کہ امریکا کے نئے چاند مشن سے مریخ مشن کی بنیاد پڑے گی۔ امریکی خلا بازوں کا دوبارہ چاند پر پہنچنا اہم قدم ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ہم نہ صرف چاند پر اپنا پرچم لہرائیں گے اور نقش چھوڑیں گے بلکہ مستقبل میں مریخ کو بھی تسخیر کرنے کی کوشش کریں گے۔

    اس موقع پر صدر ٹرمپ نے ایک کھلونا خلا باز کے ساتھ تصویر بھی کھنچوائی۔

    یاد رہے کہ ناسا کا اپولو پروگرام نامی چاند مشن 1969 سے 1972 تک فعال رہا تھا۔ اسی پروگرام کے تحت امریکا نے پہلی بار چاند کو تسخیر کیا تھا اور خلا باز نیل آرم اسٹرونگ نے چاند پر قدم رکھ کر چاند پر جانے والے پہلے انسان ہونے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔