Tag: ناصر کاظمی

  • جب شاکر صاحب ناصر سے خفا خفا پھرنے لگے!

    جب شاکر صاحب ناصر سے خفا خفا پھرنے لگے!

    ایک دور تھا جب اردو ادب کے افق پر کئی ستارے اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہے تھے اور ان ادیبوں اور شاعروں کے درمیان ناصر کاظمی نمایاں تھے اور اپنی شاعری کی وجہ سے بہت مقبول تھے۔ ان مشاہیرِ ادب کی آپس میں اور اس دور کے دوسرے بڑے بڑے فن کاروں سے گہری رفاقت اور دوستی بھی تھی۔ اور ان میں جذباتی وابستگی اور گہرا یارانہ تھا۔ اس وابستگی کا اظہار مختلف مواقع پر کسی نہ کسی شکل میں یہ شخصیات کرتی رہی ہیں جنھیں ہم آپ بیتیوں اور شخصی خاکوں‌ پر مشتمل کتابوں میں پڑھتے رہے ہیں۔

    مشاہیرِ ادب کی تحریریں اور دل چسپ واقعات پڑھنے کے لیے کلک کریں

    یہ اردو کے ممتاز شاعر ناصر کاظمی اور عالمی شہرت یافتہ پاکستانی مصور شاکر علی سے متعلق ایک ایسا ہی واقعہ ہے۔ اسے اردو کے ممتاز فکشن نگار اور مقبول کالم نویس انتظار حسین نے رقم کیا ہے۔ ملاحظہ کیجیے:

    ناصر کاظمی کی ”برگِ نے“ شائع ہونے لگی تو ناصر نے شاکر صاحب سے گزارش کی کہ آپ میری کتاب کا سرورق بنائیے۔ شاکر صاحب نے سرورق بنایا۔ ناصر نے بہت پسند کیا۔ ہم سب نے پسند کیا مگر جب حنیف رامے تک یہ خبر پہنچی تو وہ مچل گیا کہ ناصر کی کتاب کا سرورق بنانے کا حق اگر کسی کو ہے تو مجھے ہے۔

    اسے سمجھایا گیا، ناصر نے بھی بہت سمجھایا کہ وہ تو میرے کہنے پر شاکر صاحب نے بنایا تھا اور میں تو ناشر کو (کارواں پبلشرز) یہ سرورق حوالے کر چکا ہوں، مگر حنیف اپنی ہٹ پر قائم رہا۔ اس نے کارواں کے حمید صاحب کے پاس جا کر ناصر کے ساتھ اپنے حقِ رفاقت کو جتایا اور انہیں قائل کرنے میں کام یاب رہا۔ سو ”برگِ نے“ حنیف رامے کے سرورق کے ساتھ شائع ہوئی۔

    لیجیے یہ ایک اور پیچ پڑ گیا۔ شاکر صاحب ناصر سے خفا خفا پھرنے لگے۔ میں نے ناصر کی طرف سے بہت صفائیاں پیش کیں، مگر شاکر صاحب کے دل میں جو ایک گرہ پڑ گئی تھی وہ نہیں گئی، بس دب گئی۔ اصل میں یہ جو حنیف رامے کا بات بات میں مچل جانا تھا اس نے میرے اور ناصر کے لیے بہت الجھنیں پیدا کیں۔

    ناصر دوستوں کے معاملہ میں مرنجاں مرنج۔ احمد مشتاق سے بھی آخر دوستی رکھنی تھی اور شیخ صاحب اور حنیف رامے کی بھی دل شکنی منظور نہیں تھی۔ اور ناصر کی رضا میں میری رضا، مگر شاکر صاحب بھی تو دوست تھے بلکہ دوستوں سے بڑھ کر دوست۔ اور ان کی مصوری کی خوشبو تو اب پھیلتی ہی چلی جا رہی تھی۔

    جب ناصر کی ”برگِ نے“ کے سر ورق کا قصّہ نیا پرانا ہو گیا اور شاکر صاحب کی طبیعت بھی بحال ہو گئی تو ایک خواہش نے میرے اندر سر اٹھایا۔ میرا مجموعہ ”شہرِ افسوس“ اشاعت کا منتظر تھا۔ میں نے سوچا کہ کیوں نہ اس کا سرورق شاکر صاحب سے بنوایا جائے۔ شاکر صاحب نے فوراً ہی ہامی بھر لی، مگر فوراً ہی بیمار بھی پڑ گئے اور ایسے بیمار پڑے کہ طبیعت سنبھلنے ہی میں نہیں آرہی تھی۔ ادھر ناشر کا سخت تقاضا کہ سرورق کہاں ہے۔ آخر کو میں نے اسپتال جا کر شاکر صاحب سے کہا کہ میں نے آپ کو سرورق کی ذمہ داری سے آزاد کیا۔ طبیعت پر بوجھ مت لیں اور اچھے ہو جائیں اور واقعی اس کے تیسرے ہی دن ان کی طبیعت بحال ہو گئی اور اسپتال سے گھر منتقل ہو گئے۔

    ہاں جب اس مجموعہ کی افتتاحی تقریب ہونے لگی تو جیسے شاکر صاحب سرورق والا چڑھا قرض یہاں اتارنا چاہتے تھے۔ تقریب کی صدارت پر اس اعلان کے ساتھ آمادہ ہوئے کہ ان کہانیوں کے بارے میں انہیں ایک نکتہ سوجھا ہے، وہ بیان کریں گے۔ اسٹیج پر سہیل احمد خان ان کے برابر میں بیٹھے تھے۔ بعد میں بتایا کہ سامنے رکھے کورے کاغذوں پر وہ بہت تیزی سے دوسروں کی سنتے ہوئے کچھ لکھتے چلے جا رہے تھے مگر جب صدارتی کلمات کی باری آئی تو جانے کیا ہوا کہ چند فقرے اس رنگ سے ادا کیے کہ گونگا خود سمجھے یا گونگے کی ماں سمجھے۔ پھر سٹپٹا کر چپ ہو گئے۔

    ارے وہ تو اسٹیج تھا اور سامنے مائیک جو پوری تقریر کا مطالبہ کر رہا تھا، مگر شاکر صاحب تو دوستوں کے بیچ بیٹھ کر بھی گفتگو اس طرح کرتے تھے کہ آدھا فقرہ بول کر چپ ہو گئے اور سمجھ لیا کہ فقرہ یار خود مکمل کر لیں گے اور مفہوم سمجھ لیں گے۔ ایک روز موڈ میں تھے۔ بولے ” انتظار حسین، تمہیں پتہ ہے، ہم مولانا محمد علی کے خاندان سے ہیں۔“

    میں نے ہنس کر کہا کہ ”جب ہی۔“ چکرا کر بولے ”جب ہی کیا۔“ تب میں نے اپنے ”جب ہی“ کی وضاحت کی اور کہا کہ ”مولانا محمد علی قیامت کے مقرر تھے۔ ان کی گرمیِ تقریر کو تو تحریکِ خلافت بھی زیادہ دنوں تک نہیں سہار سکی۔ جلدی ہی ڈھے گئی۔ اب پتہ چلا کہ ان کے خاندان کے حصے میں جتنی قوتِ گویائی آئی تھی وہ بھی سب انہوں نے اپنی خطابت میں سمیٹ لی تھی۔ آپ کی قوّتِ گویائی بھی اُدھر ہی سمٹ گئی۔“

  • ناصر کاظمی:‌ ہجر اور یاسیت کا شاعر

    ناصر کاظمی:‌ ہجر اور یاسیت کا شاعر

    اردو کے ممتاز شاعر ناصر کاظمی کی مقبولیت کی ایک وجہ ان کا وہ طرزِ بیان ہے جس میں شدّتِ جذبات کے ساتھ سوز اور برجستگی نمایاں‌ ہے۔ اس کے ساتھ اردو غزل کو ناصر نے اپنے احساسِ تحیّر سے وہ انفرادیت بخشی جو انھیں‌ آج بھی زندہ رکھے ہوئے ہے۔

    دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا
    وہ تری یاد تھی اب یاد آیا

    دل میں اک لہر سی اٹھی ہے ابھی
    کوئی تازہ ہوا چلی ہے ابھی

    یہ ناصر کی غزل کے وہ اشعار ہیں‌ جن میں‌ حسن و عشق کا موضوع اور وہ کسک نمایاں‌ ہے جس کے لیے ناصر پہچانے گئے۔ انھوں نے اردو شاعری کے روایتی مضامین یعنی زندگی کی تلخیوں، محرومیوں، سرشاری اور حسرتوں کو بڑی شدّت سے اپنے اشعار میں‌ سمویا۔ روایتی شاعری سے انحراف کیے بغیر ناصر کاظمی نے جدید لب و لہجہ اپنایا، جو عام فہم بھی تھا اور نہایت دل نشیں‌ بھی۔

    ناصر کا ایک مشہور شعر پڑھیے۔

    ہمارے گھر کی دیواروں‌ پہ ناصر
    اداسی بال کھولے سو رہی ہے

    ناصر کاظمی کا اصل نام سیّد ناصر رضا کاظمی تھا۔ وہ 8 دسمبر 1952ء کو انبالہ میں‌ پیدا ہوئے۔ ان کے والد سیّد محمد سلطان کاظمی فوج میں صوبے دار میجر تھے۔ والدہ بھی تعلیم یافتہ اور انبالہ میں‌ اسکول ٹیچر تھیں۔ یوں‌ وہ ایک خوش حال گھرانے کے فرد تھے جس نے بچپن لاڈ پیار میں‌ گزارا۔ تعلیم حاصل کرتے ہوئے گلستاں، بوستاں، شاہنامۂ فردوسی، قصہ چہار درویش، فسانۂ آزاد، الف لیلٰی، صرف و نحو اور اردو شاعری کی کتابیں بھی پڑھ لیں۔ کم عمری میں ہی شاعری شروع کر دی تھی۔ ان کا ترنم بہت اچھا تھا۔

    ناصر کاظمی نے دسویں کا امتحان مسلم ہائی اسکول انبالہ سے پاس کیا۔ بی اے کے لیے لاہور گورنمنٹ کالج میں داخلہ لیا، لیکن تقسیمِ ہند کے ہنگاموں کے سبب تعلیم چھوڑنی پڑی۔ آزادی سے قبل وہ ایک بڑے گھر میں‌ نہایت آسودہ زندگی بسر کررہے تھے لیکن تقسیم کے بعد پاکستان میں‌ انھوں‌ نے چھوٹے سے معمولی گھر میں‌ نوکریاں‌ کرتے ہوئے زندگی گزار دی۔

    عوامی مقبولیت حاصل کرنے والے اس شاعر کی لفظیات اور ان کی حسّیات کا پیمانہ رومان رہا، لیکن وہ جس عہد اور سماج سے جڑے ہوئے تھے، اُس کے مسائل کو بھی نظر انداز نہیں کرسکے اور چھوٹی بحروں‌ کے ساتھ منفرد استعاروں‌ سے یوں‌ اپنے کلام کو سجایا کہ شہرت ان کا مقدر بنی۔

    ناصر کا پہلا مجموعۂ کلام ’برگِ نے‘ سنہ 1954ء میں منظرِعام پر آیا تھا جسے زبردست پذیرائی نصیب ہوئی۔ اس کے بعد ’پہلی بارش‘، ’نشاطِ خواب‘، ’دیوان‘ اور ’سُر کی چھایا‘ کے نام سے ان کی کتابیں‌ شایع ہوئیں۔ وہ ایک اچھے نثر نگار بھی تھے اور ان کے مضامین کا ایک مجموعہ بھی شایع ہوا۔

    ناصر کاظمی معروف ادبی رسالوں ’اوراقِ نو‘ ، ’ہمایوں‘ اور ’خیال‘ کی مجلسِ ادارت میں شامل تھے۔ بعد میں ریڈیو پاکستان لاہور سے بطور اسٹاف ایڈیٹر وابستہ ہوگئے۔

    2 مارچ 1972ء کو ناصر کاظمی اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ ان کی قبر کے کتبے پر اُنہی کا ایک شعر کندہ ہے۔

    دائم آباد رہے گی دنیا
    ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہو گا

    وہ لاہور میں مومن پورہ کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • ناصر کاظمی: وہ شاعر جس نے اردو غزل کو چشمِ حیرت اور دلِ مضطر دیا!

    ناصر کاظمی: وہ شاعر جس نے اردو غزل کو چشمِ حیرت اور دلِ مضطر دیا!

    ناصر کاظمی نے اردو غزل کو جو طرزِ ادا، ندرت، برجستگی اور بانکپن عطا کیا، اس کا اعتراف ان کے ہم عصر شعرا نے بھی کیا اور باذوق قارئین نے بھی سراہا۔ تحیّر خیزی اور سوز و گداز ناصر کے اشعار کا وہ وصف ہے، جو انھیں اپنے دور کا منفرد غزل گو شاعر بناتا ہے۔ آج اردو کے اس مقبول شاعر کی برسی ہے۔

    دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا
    وہ تری یاد تھی اب یاد آیا

    دل میں اک لہر سی اٹھی ہے ابھی
    کوئی تازہ ہوا چلی ہے ابھی

    یہ بھی پڑھیے:
    جب مشہور شاعر ناصر کاظمی اپنے ایک دوست کی وجہ سے الجھن میں گرفتار ہوئے!

    حُسن و عشق کے موضوعات اور اردو شاعری کے روایتی مضامین یعنی زندگی کی تلخیاں، محرومیاں اور دکھ، حسرتیں، یاسیت اور میّسر آجانے والے خوشی کے لمحات کا بیان ناصر کی شاعری میں بڑی شدّت سے اور انفرادیت کے ساتھ ملتا ہے۔ قابلِ‌ ذکر بات یہ ہے کہ ناصر نے روایت سے اںحراف کیے بغیر اپنے کلام کو نئے لب و لہجے سے آشنا کیا، جو عام فہم اور نہایت دل نشیں‌ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ عوامی حلقوں‌ میں‌ مقبول اور ہم عصروں‌ میں‌ ممتاز ہوئے۔ ان کا ایک مشہور شعر پڑھیے۔

    ہمارے گھر کی دیواروں‌ پہ ناصر
    اداسی بال کھولے سو رہی ہے

    وہ کوئی دوست تھا اچھے دنوں کا
    جو پچھلی رات سے یاد آ رہا ہے

    ناصر کاظمی کا اصل نام سیّد ناصر رضا کاظمی تھا۔ 8 دسمبر 1952ء کو انبالہ میں‌ پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد سیّد محمد سلطان کاظمی فوج میں صوبے دار میجر تھے۔ والدہ بھی تعلیم یافتہ اور انبالہ میں‌ اسکول ٹیچر تھیں۔ یوں‌ وہ ایک خوش حال گھرانے کے فرد تھے جس نے بچپن لاڈ پیار میں‌ گزارا۔ تعلیم حاصل کرتے ہوئے گلستاں، بوستاں، شاہنامۂ فردوسی، قصہ چہار درویش، فسانۂ آزاد، الف لیلٰی، صرف و نحو اور اردو شاعری کی کتابیں بھی پڑھ لیں۔ کم عمری میں ہی شاعری شروع کر دی تھی۔ ان کا ترنم بہت اچھا تھا۔

    ناصر کاظمی نے دسویں کا امتحان مسلم ہائی اسکول انبالہ سے پاس کیا۔ بی اے کے لیے لاہور گورنمنٹ کالج میں داخلہ لیا، لیکن تقسیمِ ہند کے ہنگاموں کے سبب تعلیم چھوڑنی پڑی۔ وہ آزادی کے بعد کسمپرسی کے عالم میں پاکستان پہنچے تھے۔

    عوامی مقبولیت حاصل کرنے والے اس شاعر کی لفظیات اور ان کی حسّیات کا پیمانہ رومان رہا، لیکن وہ جس عہد اور سماج سے جڑے ہوئے تھے، اُس کے مسائل کو بھی نظر انداز نہیں کرسکے اور چھوٹی بحروں‌ کے ساتھ منفرد استعاروں‌ سے یوں‌ اپنے کلام کو سجایا کہ شہرت ان کا مقدر بنی۔

    ان کا پہلا مجموعۂ کلام ’برگِ نے‘ سنہ 1954ء میں منظرِعام پر آیا تھا جسے زبردست پذیرائی نصیب ہوئی۔ اس کے بعد ’پہلی بارش‘، ’نشاطِ خواب‘، ’دیوان‘ اور ’سُر کی چھایا‘ کے نام سے ان کی کتابیں‌ شایع ہوئیں۔ وہ ایک اچھے نثر نگار بھی تھے اور ان کے مضامین کا ایک مجموعہ بھی شایع ہوا تھا۔

    ناصر کاظمی معروف ادبی رسالوں ’اوراقِ نو‘ ، ’ہمایوں‘ اور ’خیال‘ کی مجلسِ ادارت میں شامل تھے۔ بعد میں ریڈیو پاکستان لاہور سے بطور اسٹاف ایڈیٹر وابستہ ہوگئے۔

    ناصر کاظمی کا انتقال 2 مارچ 1972ء کو ہوا۔ وہ لاہور میں مومن پورہ کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔ ان کی قبر کے کتبے پر اُنہی کا ایک شعر کندہ ہے۔

    دائم آباد رہے گی دنیا
    ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہو گا

  • اردو غزل کو نئی تب و تاب بخشنے والے ناصر کاظمی کا تذکرہ

    اردو غزل کو نئی تب و تاب بخشنے والے ناصر کاظمی کا تذکرہ

    ناصر کاظمی نے غزل کو اپنی طرزِ ادا کی برجستگی اور ندرت سے سنورا اور اپنے تخلیقی جوہر سے دوسروں کو حیران کیا۔ احساسِ تحیّر اور سوز و تپش ان کی شاعری کا وہ رنگ ہے، جو انھیں اپنے دور کا منفرد غزل گو بناتا ہے۔ آج اردو کے اس مقبول شاعر کی برسی ہے۔

    دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا
    وہ تری یاد تھی اب یاد آیا

    دل میں اک لہر سی اٹھی ہے ابھی
    کوئی تازہ ہوا چلی ہے ابھی

    حسن و عشق کے موضوعات اور اردو شاعری کے روایتی مضامین یعنی زندگی کی تلخیاں، محرومیاں اور دکھ، حسرتیں، یاسیت اور میّسر آجانے والے خوشی کے لمحات کا بیان ناصر کی شاعری میں بڑی شدّت سے مگر انفرادیت کے ساتھ ملتا ہے۔ وہ روایتی شاعری سے مںحرف ہوئے بغیر اپنے کلام کو جدید رنگ میں ڈھالتے ہوئے نئے لب و لہجے سے آشنا کرتے چلے گئے، جو عام فہم اور نہایت دل نشیں‌ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ عوامی حلقوں‌ میں‌ مقبول اور ہم عصروں‌ میں‌ ممتاز ہوئے۔ ان کا ایک مشہور شعر پڑھیے۔

    ہمارے گھر کی دیواروں‌ پہ ناصر
    اداسی بال کھولے سو رہی ہے

    وہ کوئی دوست تھا اچھے دنوں کا
    جو پچھلی رات سے یاد آ رہا ہے

    ناصر کاظمی کا اصل نام سیّد ناصر رضا کاظمی تھا۔ 8 دسمبر 1952ء کو انبالہ میں‌ پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد سیّد محمد سلطان کاظمی فوج میں صوبے دار میجر تھے۔ والدہ بھی تعلیم یافتہ اور انبالہ میں‌ اسکول ٹیچر تھیں۔ یوں‌ وہ ایک خوش حال گھرانے کے فرد تھے جس نے بچپن لاڈ پیار میں‌ گزارا۔ تعلیم حاصل کرتے ہوئے گلستاں، بوستاں، شاہنامۂ فردوسی، قصہ چہار درویش، فسانۂ آزاد، الف لیلٰی، صرف و نحو اور اردو شاعری کی کتابیں بھی پڑھ لیں۔ کم عمری میں ہی شاعری شروع کر دی تھی۔ ان کا ترنم بہت اچھا تھا۔

    ناصر کاظمی نے دسویں کا امتحان مسلم ہائی اسکول انبالہ سے پاس کیا۔ بی اے کے لیے لاہور گورنمنٹ کالج میں داخلہ لیا، لیکن تقسیمِ ہند کے ہنگاموں کے سبب تعلیم چھوڑنی پڑی۔ وہ آزادی کے بعد کسمپرسی کے عالم میں پاکستان پہنچے تھے۔

    عوامی مقبولیت حاصل کرنے والے اس شاعر کی لفظیات اور ان کی حسّیات کا پیمانہ رومان رہا، لیکن وہ جس عہد اور سماج سے جڑے ہوئے تھے، اُس کے مسائل کو بھی نظر انداز نہیں کرسکے اور چھوٹی بحروں‌ کے ساتھ منفرد استعاروں‌ سے یوں‌ اپنے کلام کو سجایا کہ شہرت ان کا مقدر بنی۔

    ان کا پہلا مجموعۂ کلام ’برگِ نے‘ سنہ 1954ء میں منظرِعام پر آیا تھا جسے زبردست پذیرائی نصیب ہوئی۔ اس کے بعد ’پہلی بارش‘، ’نشاطِ خواب‘، ’دیوان‘ اور ’سُر کی چھایا‘ کے نام سے ان کی کتابیں‌ شایع ہوئیں۔ وہ ایک اچھے نثر نگار بھی تھے اور ان کے مضامین کا ایک مجموعہ بھی شایع ہوا تھا۔

    ناصر کاظمی معروف ادبی رسالوں ’اوراقِ نو‘ ، ’ہمایوں‘ اور ’خیال‘ کی مجلسِ ادارت میں شامل تھے۔ بعد میں ریڈیو پاکستان لاہور سے بطور اسٹاف ایڈیٹر وابستہ ہوگئے۔

    ناصرکاظمی 2 مارچ 1972ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ ان کی قبر کے کتبے پر اُنہی کا ایک شعر کندہ ہے۔

    دائم آباد رہے گی دنیا
    ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہو گا

    وہ لاہور میں مومن پورہ کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • جب مشہور شاعر ناصر کاظمی اپنے ایک دوست کی وجہ سے الجھن میں گرفتار ہوئے!

    جب مشہور شاعر ناصر کاظمی اپنے ایک دوست کی وجہ سے الجھن میں گرفتار ہوئے!

    ناصر کاظمی کی ”برگِ نے“ شائع ہونے لگی تو ناصر نے شاکر صاحب سے گزارش کی کہ آپ میری کتاب کا سرورق بنائیے۔

    شاکر صاحب نے سرورق بنایا۔ ناصر نے بہت پسند کیا۔ ہم سب نے پسند کیا مگر جب حنیف رامے تک یہ خبر پہنچی تو وہ مچل گیا کہ ناصر کی کتاب کا سرورق بنانے کا حق اگر کسی کو ہے تو مجھے ہے۔

    اسے سمجھایا گیا، ناصر نے بھی بہت سمجھایا کہ وہ تو میرے کہنے پر شاکر صاحب نے بنایا تھا اور میں تو ناشر کو (کارواں پبلشرز) یہ سرورق حوالے کر چکا ہوں، مگر حنیف اپنی ہٹ پر قائم رہا۔ اس نے کارواں کے حمید صاحب کے پاس جا کر ناصر کے ساتھ اپنے حقِ رفاقت کو جتایا اور انہیں قائل کرنے میں کام یاب رہا۔ سو ”برگِ نے“ حنیف رامے کے سر ورق کے ساتھ شائع ہوئی۔

    لیجیے یہ ایک اور پیچ پڑ گیا۔ شاکر صاحب ناصر سے خفا خفا پھرنے لگے۔ میں نے ناصر کی طرف سے بہت صفائیاں پیش کیں، مگر شاکر صاحب کے دل میں جو ایک گرہ پڑ گئی تھی وہ نہیں گئی، بس دب گئی۔

    اصل میں یہ جو حنیف رامے کا بات بات میں مچل جانا تھا اس نے میرے اور ناصر کے لیے بہت الجھنیں پیدا کیں۔ شیخ صاحب کے وہ مسائل نہیں تھے جو ہمارے تھے۔ انہیں تو اس حلقۂ دوستاں سے غرض ہی نہیں تھی جس میں ہم اٹھتے بیٹھتے چلے آئے تھے اور اس اٹھنے بیٹھنے میں ہم نے محبت کے رشتے قائم کیے تھے مگر شیخ صاحب اپنے ملنے والے سے پوری وفا مانگتے تھے اور پوری وفا سے نوازتے تھے۔ وفا بلا شرکت غیرے۔ بس اس ایک وجہ سے ان کا حلقۂ ارادت پھیلنے سے پہلے ہی سکڑ گیا۔

    ہمارے دوستوں میں سب سے سرکش مخلوق احمد مشتاق کو جانیے۔ اس نے تو پٹھے پر ہاتھ ہی نہیں رکھنے دیا۔ پہلے ہی مرحلہ میں شیخ صاحب کے ہاتھ پر بیعت کرنے سے انکار کر دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ مظفر کو اس انکارِ اطاعت سے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ شیخ صاحب کی خطائیں شیخ صاحب کے ساتھ، مظفر کی خطائیں مظفر کے ساتھ۔ احمد مشتاق کے یہاں یاروں کی کسی خطا کے لیے معافی کا خانہ نہیں تھا۔ مگر صحیح تولتا تھا۔ ترازو اس کے ہاتھ میں تھی۔ سو ہر یار کی خطاؤں کا پلہ ہمیشہ بھاری ہی دیکھا گیا۔ ادھر شیخ صاحب کی ترازو میں یاروں کی خوبیوں کا پلّہ ہمیشہ بھاری رہا۔ اور حنیف کی مصوّری کو انہوں نے کیا خوب تولا کہ پلّہ اس کا گراں ہوتا ہی چلا گیا۔

    ناصر دوستوں کے معاملہ میں مرنجاں مرنج۔ احمد مشتاق سے بھی آخر دوستی رکھنی تھی اور شیخ صاحب اور حنیف رامے کی بھی دل شکنی منظور نہیں تھی۔ اور ناصر کی رضا میں میری رضا، مگر شاکر صاحب بھی تو دوست تھے بلکہ دوستوں سے بڑھ کر دوست۔ اور ان کی مصوری کی خوشبو تو اب پھیلتی ہی چلی جا رہی تھی۔

    جب ناصر کی ”برگِ نے“ کے سر ورق کا قصّہ نیا پرانا ہو گیا اور شاکر صاحب کی طبیعت بھی بحال ہو گئی تو ایک خواہش نے میرے اندر سر اٹھایا۔ میرا مجموعہ ”شہرِ افسوس“ اشاعت کا منتظر تھا۔ میں نے سوچا کہ کیوں نہ اس کا سر ورق شاکر صاحب سے بنوایا جائے۔ شاکر صاحب نے فوراً ہی ہامی بھر لی، مگر فوراً ہی بیمار بھی پڑ گئے اور ایسے بیمار پڑے کہ طبیعت سنبھلنے ہی میں نہیں آرہی تھی۔

    ادھر ناشر کا سخت تقاضا کہ سرورق کہاں ہے۔ آخر کو میں نے اسپتال جا کر شاکر صاحب سے کہا کہ میں نے آپ کو سر ورق کی ذمہ داری سے آزاد کیا۔ طبیعت پر بوجھ مت لیں اور اچھے ہو جائیں اور واقعی اس کے تیسرے ہی دن ان کی طبیعت بحال ہو گئی اور اسپتال سے گھر منتقل ہو گئے۔

    ہاں جب اس مجموعہ کی افتتاحی تقریب ہونے لگی تو جیسے شاکر صاحب سر ورق والا چڑھا قرض یہاں اتارنا چاہتے تھے۔ تقریب کی صدارت پر اس اعلان کے ساتھ آمادہ ہوئے کہ ان کہانیوں کے بارے میں انہیں ایک نکتہ سوجھا ہے، وہ بیان کریں گے۔

    اسٹیج پر سہیل احمد خان ان کے برابر میں بیٹھے تھے۔ بعد میں بتایا کہ سامنے رکھے کورے کاغذوں پر وہ بہت تیزی سے دوسروں کی سنتے ہوئے کچھ لکھتے چلے جا رہے تھے مگر جب صدارتی کلمات کی باری آئی تو جانے کیا ہوا کہ چند فقرے اس رنگ سے ادا کیے کہ گونگا خود سمجھے یا گونگے کی ماں سمجھے۔ پھر سٹپٹا کر چپ ہو گئے۔

    ارے وہ تو اسٹیج تھا اور سامنے مائیک جو پوری تقریر کا مطالبہ کر رہا تھا، مگر شاکر صاحب تو دوستوں کے بیچ بیٹھ کر بھی گفتگو اس طرح کرتے تھے کہ آدھا فقرہ بول کر چپ ہو گئے اور سمجھ لیا کہ فقرہ یار خود مکمل کر لیں گے اور مفہوم سمجھ لیں گے۔ ایک روز موڈ میں تھے۔ بولے ” انتظار حسین، تمہیں پتہ ہے، ہم مولانا محمد علی کے خاندان سے ہیں۔“

    میں نے ہنس کر کہا کہ ”جب ہی۔“ چکرا کر بولے ”جب ہی کیا۔“

    تب میں نے اپنے ”جب ہی“ کی وضاحت کی اور کہا کہ ”مولانا محمد علی قیامت کے مقرر تھے۔ ان کی گرمیٔ تقریر کو تو تحریکِ خلافت بھی زیادہ دنوں تک نہیں سہار سکی۔ جلدی ہی ڈھے گئی۔ اب پتہ چلا کہ ان کے خاندان کے حصے میں جتنی قوتِ گویائی آئی تھی وہ بھی سب انہوں نے اپنی خطابت میں سمیٹ لی تھی۔ آپ کی قوّتِ گویائی بھی اُدھر ہی سمٹ گئی۔“

    مگر ایک دوست نے کیا خوب کہا کہ شاکر صاحب خود نہیں بولتے، ان کی تصویر بولتی ہے۔ میں نے کہا ’مگر وہ بھی تجریدی زبان بولتی ہے جسے سمجھنے والے ہی سمجھتے ہیں۔“

    (از قلم انتظار حسین)

  • ہم سخن تیری خامشی ہے ابھی: ناصر کاظمی کی برسی

    ہم سخن تیری خامشی ہے ابھی: ناصر کاظمی کی برسی

    2 مارچ 1972ء کو نام وَر شاعر ناصر کاظمی جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ ناصر کاظمی کا شمار اردو کے صاحبِ اسلوب شعرا میں ہوتا ہے۔ انھوں نے اپنے تخیل کے ساتھ غزل کے اشعار کو وہ لب و لہجہ اور آہنگ بخشا جس کی تازگی آج بھی قائم ہے۔

    ناصر کاظمی 8 دسمبر 1925ء کو انبالہ میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ اوراقِ نو، ہمایوں اور خیال کی مجلسِ ادارت میں شامل رہے جب کہ ریڈیو پاکستان سے اپنی وابستگی وفات تک برقرار رکھی۔

    برگِ نے اردو کے اس شاعر کا وہ مجموعہ کلام تھا جس نے انھیں‌ اپنے ہم عصروں میں ممتاز کیا اور باذوق حلقے نے انھیں سندِ مقبولیت بخشی۔ یہ 1954ء میں شایع ہونے والا ناصر کاظمی کا پہلا شعری مجموعہ تھا۔

    بعد کے برسوں میں‌ ناصر کاظمی کا شمار اردو غزل کے صفِ اوّل کے شعرا میں ہوا۔ ان کے دیگر شعری مجموعے پہلی بارش، نشاطِ خواب اور سُر کی چھایا شایع ہوئے جب کہ نثری مضامین کا مجموعہ خشک چشمے کے کنارے ناصر کاظمی کی وفات کے بعد سامنے آیا۔ ناصر نے اردو کے چند بڑے شعرا کے کلام کو بھی مرتب کیا جن میں میر، نظیر، ولی اور انشا شامل ہیں۔

    ناصر کاظمی کا کلام اپنے زمانے کے معروف گلوکاروں نے گایا جن میں غلام علی، عابدہ پروین اور دیگر شامل ہیں۔ ان کی ایک مشہور غزل ہم یہاں آپ کے ذوقِ مطالعہ کی نذر کررہے ہیں۔

    دل میں اک لہر سی اٹھی ہے ابھی
    کوئی تازہ ہوا چلی ہے ابھی

    کچھ تو نازک مزاج ہیں ہم بھی
    اور یہ چوٹ بھی نئی ہے ابھی

    شور برپا ہے خانۂ دل میں
    کوئی دیوار سی گری ہے ابھی

    بھری دنیا میں جی نہیں لگتا
    جانے کس چیز کی کمی ہے ابھی

    تُو شریک سخن نہیں ہے تو کیا
    ہم سخن تیری خامشی ہے ابھی

    یاد کے بے نشاں جزیروں سے
    تیری آواز آ رہی ہے ابھی

    شہر کی بے چراغ گلیوں میں
    زندگی تجھ کو ڈھونڈتی ہے ابھی

    سو گئے لوگ اس حویلی کے
    ایک کھڑکی مگر کھلی ہے ابھی

    وقت اچھا بھی آئے گا ناصرؔ
    غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی

    ناصر کاظمی لاہور میں مومن پورہ کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • یومِ پیدائش: ناصر کاظمی کی چند باتیں اور ایک مشہور غزل!

    یومِ پیدائش: ناصر کاظمی کی چند باتیں اور ایک مشہور غزل!

    مختصر بحور، منفرد استعاروں سے مزین غزلیں ناصر کاظمی کی پہچان ہیں۔ ان کے سادہ مگر دل نشیں اسلوب نے انھیں اپنے ہم عصروں میں ممتاز کیا۔ برصغیر کے اس مقبول شاعر کا آج یومِ پیدائش ہے۔

    8 دسمبر 1925 کو ناصر کاظمی نے امبالہ کے ایک گھرانے میں آنکھ کھولی اور قیامِ پاکستان کے بعد مستقل قیام کے لیے لاہور کا انتخاب کیا۔ یہاں ناصر کے مشاہدات، غمِ دوراں اور وارداتِ قلبی نے انھیں شاعری پر آمادہ رکھا۔ ناصر نے نثر میں بھی طبع آزمائی کی اور ان کے مضامین کتابی صورت میں شایع ہوئے۔ وہ ادبی پرچوں کی مجلس کے ساتھ ریڈیو پاکستان لاہور سے وابستہ رہے۔

    ان کا پہلا مجموعۂ سخن ‘‘برگِ نے’’ تھا جسے ادبی حلقوں نے بہت سراہا اور ان کی شاعری عوام میں بے حد مقبول ہوئی۔ دیگر شعری مجموعوں میں ‘‘پہلی بارش، نشاطِ خواب، سُر کی چھایا’’ شامل ہیں۔

    ناصر کاظمی یہ ایک مشہور غزل آپ کے ذوق کی نذر کی جارہی ہے۔

    غزل
    نئے کپڑے بدل کر  جاؤں کہاں اور  بال بناؤں کس کے لیے
    وہ  شخص تو  شہر  ہی چھوڑ  گیا  میں باہر  جاؤں کس کے لیے

    جس دھوپ کی دل میں  ٹھنڈک تھی وہ دھوپ  اسی کے ساتھ گئی
    ان  جلتی بلتی گلیوں  میں  اب  خاک اڑاؤں  کس  کے لیے

    اب شہر  میں اُس کا بدل ہی نہیں کوئی ویسا جانِ غزل ہی نہیں
    ایوانِ  غزل  میں  لفظوں کے گلدان   سجاؤں  کس  کے لیے

    وہ شہر میں تھا تو اس کے لیے اوروں سے بھی ملنا پڑتا تھا
    اب  ایسے  ویسے لوگوں کے  میں ناز  اٹھاؤں کس کے لیے

    مدت سے کوئی آیا نہ گیا سنسان پڑی ہے گھر کی فضا
    ان خالی  کمروں  میں ناصرؔ  اب   شمع  جلاؤں کس کے لیے

  • معروف شاعرناصرکاظمی کو بچھڑے 47 برس بیت گئے

    معروف شاعرناصرکاظمی کو بچھڑے 47 برس بیت گئے

    اردو ادب کے معروف شاعر ناصر کاظمی کی 47 ویں برسی آج منائی جا رہی ہے اس سلسلے میں ادبی وصحافتی حلقوں میں تقریبات کا اہتمام کیا گیا۔

    غزل کے نامور شاعر ناصر رضا کاظمی آٹھ دسمبر انیس سو پچیس کو انبالہ میں پیدا ہوئے۔ ناصر کاظمی کے والد محمد سلطان کاظمی سرکاری ملازم تھے۔ والد کے پیشہ ورانہ تبادلوں کی وجہ سے ان کا بچپن کئی شہروں میں گزرا تھا۔

    انہوں نے میٹرک مسلم ہائی اسکول انبالہ سے کیا۔ تقسیم ہند کے بعد لاہور میں سکونت اختیار کی۔ ناصر کاظمی لاہور کے ایک ہاسٹل میں رہتے تھے ان کے استادِ خاص رفیق خاور ان سے ملنے کے لیے اقبال ہاسٹل میں جاتے اور ان کے کمرے میں شعر و شاعری پر ہی بات کرتے تھے۔

    ،کبھی دیکھ دھوب میں کھڑے تنہا شجر کو’’
    ‘‘ایسے جلتے ہیں وفاؤں کو نبھانے والے

    قیام پاکستان تک اُن کے شعروں کی مہک چہار سو پھیل چکی تھی، ناصر کاظمی نے غزل کو اپنی زندگی بنا لیا اور رات دن اسی کی دھن میں مست رہے، ناصر کاظمی نے میر تقی میر کی پیروی کرتے ہوئے غموں کو شعروں میں سمویا اور ان کا اظہارغم پورے عہد کا عکاس بن گیا۔

    ناصر کاظمی غزل کو زندگی بنا کر اسی کی دھن میں دن رات مست رہے۔ ناصر نے غزل کی تجدید کی اور اپنی جیتی جاگتی شاعری سے غزل کا وقار بحال کیا اور میڈیم نور جہاں کی آواز میں گائی ہوئی غزل ’’دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا ‘‘ منہ بولتا ثبوت ہے۔

    ،دنیا نے مجھ کو یوں ہی غزل گر سمجھ لیا’’
    ‘‘میں تو کسی کے حسن کو کم کر کے لکھتا ہوں

    اسی طرح خلیل حیدر کو بھی ناصر کی غزل ’’نئے کپڑے بدل کر جاؤں کہاں ‘‘ گا کر پہچان ملی۔ ناصر کا ظمی نے شاعری میں سادہ الفاظ کا چناؤ کیا خوبصورت استعاروں اورچھوٹی بحر میں غزلیں کہنے میں انہیں کمال حاصل تھا۔

    ناصر کاظمی کے اشعار سر اور تال کے ساتھ مل کر سماعتوں تک پہنچتے ہیں تو ایک خوشگوار احساس دلوں میں ہلکورے لیتا ہے۔

    ناصر کاظمی کا پہلا مجموعہ “برگ نے” ان کی زندگی میں شائع ہوا۔ دوسرے دو مجموعے “دیوان” اور “پہلی بارش” ان کی وفات کے بعد سامنے آئے۔ یہ مجموعے صرف غزلوں پرمشتمل ہیں جس کی بنیاد پر ناصر کاظمی کے مقام و مرتبے کا تعین ہوتا ہے۔

    گئے دنوں کا سراغ لیکر کہاں سے آیا کدھر گیا وہ
    عجیب مانوس اجنبی تھا مجھے تو حیران کرگیا وہ

    ناصر کی شاعری میں محبت کے ان جزیروں کی تلاش ہے جہاں پرندے چہکتے اور پھول مہکتے ہیں،جہاں کو ئی کسی سے نہ بچھڑتا ہو۔ ناصر کاظمی دو مارچ 1972 کو اِس دارفانی سے کوچ کرگئے، وہ ﻻﮨﻮﺭ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﻣﻦ ﭘﻮﺭﮦ ﮐﮯ ﻗﺒﺮﺳﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺍٓﺳﻮﺩﮦ ﺧﺎﮎ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻟﻮﺡ ﻣﺰﺍﺭ ﭘﺮ ان ہی ﮐﺎ ﯾﮧ ﺷﻌﺮ ﺗﺤﺮﯾﺮ ﮨﮯ۔

    ﺩﺍﺋﻢ ﺍٓﺑﺎﺩ ﺭﮨﮯ ﮔﯽ ﺩﻧﯿﺎ
    ﮨﻢ ﻧﮧ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﮨﻢ ﺳﺎ ﮨﻮﮔﺎ

  • دل تو میرا اداس ہے ناصر

    دل تو میرا اداس ہے ناصر

    غزل کے نامور شاعر ناصر کاظمی کا 93واں یومِ پیدائش ہے، ناصر کاظمی کو اردو غزل میں نمایاں مرتبہ حاصل ہیں ان کی کئی غزلیں مشہورِ زمانہ فلمی گیت بھی بنیں۔

    ناصر رضا کاظمی آٹھ دسمبر انیس سو پچیس کو انبالہ میں پیدا ہوئے۔ ناصر کاظمی کے والد محمد سلطان کاظمی سرکاری ملازم تھے۔ والد کے پیشہ ورانہ تبادلوں کی وجہ سے ان کا بچپن کئی شہروں میں گزرا تھا۔

    انہوں نے میٹرک مسلم ہائی اسکول انبالہ سے کیا۔ تقسیم ہند کے بعد لاہور میں سکونت اختیار کی۔ ناصر کاظمی لاہور کے ایک ہاسٹل میں رہتے تھے ان کے استادِ خاص رفیق خاور ان سے ملنے کے لئے اقبال ہاسٹل میں جاتے اور ان کے کمرے میں شعر و شاعری پر ہی بات کرتے تھے۔

    ،کبھی دیکھ دھوب میں کھڑے تنہا شجر کو’’
    ‘‘ایسے جلتے ہیں وفاؤں کو نبھانے والے

    قیام پاکستان تک اُن کے شعروں کی مہک چہار سو پھیل چکی تھی، ناصر کاظمی نے غزل کو اپنی زندگی بنا لیا اور رات دن اسی کی دھن میں مست رہے، ناصر کاظمی نے میر تقی میر کی پیروی کرتے ہوئے غموں کو شعروں میں سمویا اور ان کا اظہارغم پورے عہد کا عکاس بن گیا۔

    استاد نصرت فتح علی خان کی آواز میں ایک مشہور غزل غم ہے یا خوشی ہے تو قارئین کی نذر

    ناصر کاظمی غزل کو زندگی بنا کر اسی کی دھن میں دن رات مست رہے۔ ناصر نے غزل کی تجدید کی اور اپنی جیتی جاگتی شاعری سے غزل کا وقار بحال کیا اور میڈیم نور جہاں کی آواز میں گائی ہوئی غزل ’’دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا ‘‘ منہ بولتا ثبوت ہے۔

    ،دنیا نے مجھ کو یوں ہی غزل گر سمجھ لیا’’
    ‘‘میں تو کسی کے حسن کو کم کر کے لکھتا ہوں

    اسی طرح خلیل حیدر کو بھی ناصر کی غزل ’’نئے کپڑے بدل کر جاؤں کہاں ‘‘ گا کر پہچان ملی۔ نا صر کا ظمی نے شاعری میں سادہ الفاظ کا چناؤ کیا خوبصورت استعاروں اورچھوٹی بحر میں غزلیں کہنے میں انہیں کمال حاصل تھا۔

    ناصر کاظمی کے اشعار سر اور تال کے ساتھ مل کر سماعتوں تک پہنچتے ہیں تو ایک خوشگوار احساس دلوں میں ہلکورے لیتا ہے۔ ناصر کاظمی کا پہلا مجموعہ “برگ نے” ان کی زندگی میں شائع ہوا۔ دوسرے دو مجموعے “دیوان” اور “پہلی بارش” ان کی وفات کے بعد سامنے آئے۔ یہ مجموعے صرف غزلوں پر مشتمل ہیں جس کی بنیاد پر ناصر کاظمی کے مقام و مرتبے کا تعین ہوتا ہے۔

    گئے دنوں کا سراغ لیکر کہاں سے آیا کدھر گیا وہ
    عجیب مانوس اجنبی تھا مجھے تو حیران کرگیا وہ

    ناصر کی شاعری میں محبت کے ان جزیروں کی تلاش ہے جہاں پرندے چہکتے اور پھول مہکتے ہیں،جہاں کو ئی کسی سے نہ بچھڑتا ہو۔ ناصر کاظمی دو مارچ 1972 کو اِس دارفانی سے کوچ کرگئے، وہ ﻻﮨﻮﺭ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﻣﻦ ﭘﻮﺭﮦ ﮐﮯ ﻗﺒﺮﺳﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺍٓﺳﻮﺩﮦ ﺧﺎﮎ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻟﻮﺡ ﻣﺰﺍﺭ ﭘﺮ ان ہی ﮐﺎ ﯾﮧ ﺷﻌﺮ ﺗﺤﺮﯾﺮ ﮨﮯ۔

    ﺩﺍﺋﻢ ﺍٓﺑﺎﺩ ﺭﮨﮯ ﮔﯽ ﺩﻧﯿﺎ
    ﮨﻢ ﻧﮧ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﮨﻢ ﺳﺎ ﮨﻮﮔﺎ

  • غزل گو شاعر ناصر کاظمی کی آج 43ویں برسی منائی جارہی ہے

    غزل گو شاعر ناصر کاظمی کی آج 43ویں برسی منائی جارہی ہے

    ناصر کاظمی کے مداح   آج  ان کی برسی  منا رہے ہیں

    کراچی: ناصر رضا کاظمی آٹھ دسمبر انیس سو پچیس کو انبالہ میں پیدا ہوئے۔ تقسیم ہند کے بعد لاہور میں سکونت اختیار کی۔ ابتدائی تعلیم انبالہ میں ہوئی۔ اس کے بعد اسلامیہ کالج لاہور میں زیر تعلیم رہے۔ اعلیٰ تعلیم کی تکمیل نہ ہو سکی۔ شعر گوئی کا آغاز جوانی میں ہو گیا ۔ شاعری کے علاوہ موسیقی سے بھی گہری دلچسپی تھی۔

    ،کبھی دیکھ دھوب میں کھڑے تنہا شجر کو’’
    ‘‘ایسے جلتے ہیں وفاؤں کو نبھانے والے

    ،دنیا نے مجھ کو یوں ہی غزل گر سمجھ لیا’’
    ‘‘میں تو کسی کے حسن کو کم کر کے لکھتا ہوں

    اس طرح کے کئی لازوال شعر ان کی تخلیق ہیں۔ ناصر کاظمی نے میر تقی میر کی پیروی کرتے ہوئے غموں کو شعروں میں سمویا اور ان کا اظہار غم پورے عہد کا عکاس بن گیا۔ ناصر کاظمی غزل کو زندگی بنا کر اسی کی دھن میں دن رات مست رہے۔ ناصر نے غزل کی تجدید کی اور اپنی جیتی جاگتی شاعری سے غزل کا وقار بحال کیا اور میڈیم نور جہاں کی آواز میں گائی ہوئی غزل ’’دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا ‘‘ منہ بولتا ثبوت ہے۔ اسی طرح خلیل حیدر کو بھی ناصر کی غزل ’’نئے کپڑے بدل کر جاؤں کہاں ‘‘ گا کر پہچان ملی۔

    ناصر کاظمی جدید غزل کے اولین معماروں میں ہیں۔ چند مضامین لکھے اور نظمیں بھی لکھیں لیکن ان کی شناخت غزل کے حوالے سے قائم ہے جس میں کیفیت، روانی اور لہجے کی نرمی کا بڑا دخل ہے۔ پہلا مجموعہ "برگ نے” ان کی زندگی میں شائع ہوا۔ ۔ دوسرے دو مجموعے "دیوان” اور "پہلی بارش” ان کی وفات کے بعد سامنے آئے۔ یہ مجموعے صرف غزلوں پر مشتمل ہیں جس کی بنیاد پر ناصر کاظمی کے مقام و مرتبے کا تعین ہوتا ہے۔ ناصر کاظمی 2 مارچ 1972 کو خالق حقیقی سے جا ملے۔