Tag: ناول

  • دو سو آٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    دو سو آٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    گزشتہ تمام اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں

    ڈریٹن سہ پہر کو ہوٹل کے کمرے میں جاگا۔ اس نے ہوٹل کی کھڑکی کے باہر کے شٹر کو ہوا میں ہلتے ہوئے سنا۔ اس نے دل میں کہا باہر کڑاکے کی سردی پڑ رہی ہوگی۔ وہ نیچے لابی کی طرف آیا۔ خزاں کی ٹھنڈی ہوا اس کے چہرے سے ٹکرائی تو اس نے کوٹ کے کالر سے گردن چھپا لی۔ پہلان کو اس نے رپورٹ دینی تھی، لیکن اس وقت اسے بھوک لگ رہی تھی، وہ ہوٹل سے باہر نکلا اور اسی ریسٹورنٹ کی طرف چلا گیا جہاں اس نے پہلے بھی کھانا کھایا تھا۔

    وہ ریسٹورنٹ میں داخل ہوا تو گوشت کی تازہ پائی اور کارنش پیسٹری کی مہک نے اس کی بھوک ایک دم سے بڑھا دی۔ ویٹریس ایگنس نے اسے پہچان لیا، اس کے چہرے پر گھبراہٹ کے آثار پھیل گئے۔ وہ مینیو لے کر اس کے پاس کھڑی ہو گئی تو ڈریٹن نے بدتمیزی سے مینیو لے کر اسے کہا کہ وہ ’دفع‘ ہو جائے۔ ڈریٹن نے پنیر اور پیاز کی بریڈیز، ڈیڑھ درجن ساسیج رولز اور پھلیاں اور چپس کی پلیٹ منتخب کی، پھر اس نے ایگنس کو اشارے سے بلانا چاہا لیکن اس نے نظر انداز کر دیا، اس پر ڈریٹن آگ بگولا ہو گیا، اور کرسی پر کھڑے ہو کر چلایا اور مغلظات بکنے لگا۔ ایگنس اپنے باس کے اشارے پر خاموشی سے آ کر کھڑی ہو گئی۔ ڈریٹن نے کہا کہ اسے یہ، یہ اور یہ چاہیے، وہ بھی آن کی آن میں۔ جب ایگنس مڑ کر جانے لگی تو ڈرٹین نے ڈپٹ کر پوچھا: ’’تمھارا مسئلہ کیا ہے؟‘‘

    ایگنس نے گھبرا کر کہا: ’’میں آپ کو نہیں بھولی ہوں، مجھے معلوم ہے کہ آپ ہی تھے جس نے میک ایلسٹر کے گھر کو نقصان پہنچایا تھا۔ ایلسی نے مجھے بتایا۔‘‘

    ڈرٹین چونکا: ’’اوہ اس نے ایسا کہا، ٹھیک ہے، مجھے ایلسے کے ساتھ افواہیں پھیلانے کے بارے میں بات کرنی پڑے گی، تم جلدی میرا کھانا لاؤ اب۔‘‘

    ریسٹورنٹ میں موجود بہت سے لوگ خطرے کا احساس کرتے ہوئے اٹھ کر باہر نکل گئے۔ ایسے میں دروازہ کھلا اور ایلسے اندر داخل ہو گئی۔ ایگنس گھبرا کر ایلسے کے پاس بھاگی اور آہستگی سے کہا: ’’بہتر ہے تم ابھی چلی جاؤ۔ وہ آدمی یہاں ہے اور…‘‘

    لیکن ڈریٹن نے بھی اسے دیکھ لیا تھا، وہ اٹھ کر اس کے پاس گیا اور بازو سے پکڑ کر کہا: ’’ذرا میرے ساتھ بیٹھ جاؤ یہاں، ہم تھوڑی بات کریں گے۔‘‘ اس نے ایلسے کو تقریباً گھسیٹا اور میز پر لے جا کر کرسی پر بٹھا دیا۔ ایسے میں ایگنس نے اپنے باس ایوان کے کان میں کچھ سرگوشی کی اور وہ ایپرن کھول کر دبے پاؤں دروازے سے ریسٹورنٹ سے باہر نکل گیا، خود ایگنس کاؤنٹر کے پیچھے گئی اور ایک بھاری سیاہ کڑاہی اٹھالی، کہ اگر ڈریٹن نے ایلسے کو تکلیف دینے کی کوشش کی تو وہ اس سے حملہ آور ہوگی۔

    ڈریٹن کی زہر خند آواز گونجی: ’’ایلسے، تمھیں دیکھ کر اچھا لگا لیکن میں نے سنا ہے کہ تم میرے بارے میں شہر بھر میں انٹ شنٹ افواہیں پھیلا رہی ہو۔ کیا یہ سچ ہے؟‘‘

    ’’مم … میں نہیں سمجھی، تمہارا کیا مطلب ہے؟‘‘ ایلسے پوری طرح گھبرائی ہوئی تھی۔ ڈریٹن نے کہا کہ وہی بات کہ میں نے مک ایلسٹر کے گھر کو برباد کیا۔ ایلسے نے کہا یہ موضوع اٹھا تھا اور ایک بار آپ کا نام بھی آیا بس۔ ڈریٹن بولا ’’اوہ، اور میرا نام کس نے اٹھایا؟ کیا تم نے میرا نام اٹھایا تھا ایگنس، اور میرا کھانا کہاں ہے؟‘‘ اس نے ایگنس کی طرف مڑ کر کہا۔ ایگنس نے کڑاہی نیچے رکھ دی اور اس کا کھانا ٹرے میں سجا کر اس کے سامنے رکھ دیا۔

    ڈریٹن نے ایک ساسیج نیپکن پر رکھ کر ایلسے کی طرف بڑھایا اور کہا تم بھی کھاؤ۔ ایلسے اس کا انداز دیکھ کر انکار نہیں کر سکی، ڈریٹن نے کہا ٹماٹر کی چٹنی بھی لو نا۔ یہ کہہ کر اس نے بوتل اٹھائی لیکن اس میں سے چٹنی زور ڈال کر نکل سکتی تھی۔ اس لیے ڈریٹن نے اس کی باریک نلی ایلسے کے سینے کی طرف کر کے اچانک اسے دبایا اور چٹنی ایک دھار کی طرف نکلی اور ایلسے کا سفید بلاؤز رنگین ہو گیا۔ ڈریٹن نے اداکاری کی، اوہ میں نے گڑبڑ کر دی۔ پھر اس نے چپس اٹھا کر ایلسے کے کپڑوں پر پڑی ٹمیٹو ساس میں ڈبوئی اور منھ میں ڈال دی۔ ’’کافی لذیذ ہے۔‘‘ اس نے کہا اور ساسیج رول کھانے لگا۔ ایلسے اٹھ کر جانے لگی تو اس نے اسے دوبارہ بٹھا دیا اور وہ تب تک بیٹھی رہی جب تک ڈریٹن نے اپنا کھانا ختم نہ کر لیا۔ کھانا کھانے کے بعد اس نے سرد لہجے میں کہا ’’اگر میں نے شہر میں مزید ایک بھی افواہ سنی تو میں تمھارے ’بی اینڈ بی‘ آ کر تم سے ملوں گا، سمجھ گئی نا؟‘‘

    ایلسے نے ڈر کے مارے ہاں میں سر ہلایا، اس کے گالوں پر آنسو بہنے لگے تھے۔ ڈریٹن نے اچانک میز پر پڑی پلیٹ اٹھا کر فرش پر پٹخ دی۔ پلیٹ میں بچا کھانا فرش پر بکھر گیا۔ پھر وہ ہنستے ہوئے اٹھا اور بل ادا کیے بغیر باہر نکل گیا۔ وہ جیسے ہی گلی مڑنے والا تھا عین اسی وقت ایوان بھی ایک پولیس افسر کے ساتھ واپس آیا۔ ڈریٹن اس سے بے خبر تھا اور سوچ رہا تھا کہ بہتر ہے کہ وہ اب قلعے جا کر پہلان جادوگر کو کل رات کے بارے میں رپورٹ دے۔
    جاری ہے ۔۔۔

  • سلویا پلاتھ ۔ ڈپریشن کے عفریت کی پیدا کردہ شاعری اور دردناک موت

    سلویا پلاتھ ۔ ڈپریشن کے عفریت کی پیدا کردہ شاعری اور دردناک موت

    ’انجیر کے درخت پر ہر شاخ تازہ جامنی انجیروں سے لدی ہوئی ہے، اسے کسی ایک انجیر کا انتخاب کرنا ہے اور اس انتخاب نے اسے سخت تذبذب میں ڈال رکھا ہے۔

    ہر انجیر دوسری سے لذیذ اور خوش نما دکھائی دے رہی ہے اور اس کے انتخاب کو مشکل بنا رہی ہے، لیکن ابھی وہ کوئی ایک انجیر منتخب کر کے اس کی طرف ہاتھ بڑھاتی ہی ہے، کہ تمام انجیریں ایک بعد ایک درخت سے گرنے لگتی ہیں اور گرتے ہی سوکھ جاتی ہیں، اس نے انہیں چننے میں اتنی دیر لگائی کہ ان کی تازگی ختم ہوگئی اور وہ بدمزہ ہوگئیں۔‘

    یہ منظر معروف امریکی شاعر سلویا پلاتھ کے واحد ناول دا بیل جار کا ہے اور یہ زندگی کی تمثیل ہے۔ عورت کی زندگی کے بے شمار رنگ الگ الگ انجیروں کی صورت اس کے سامنے آتے ہیں اور اسے ان میں سے کسی ایک کو چننا ہوتا ہے۔

    ایک انجیر شوہر کا گھر اور گھریلو زندگی ہے، دوسری انجیر شاعر ہونا ہے، تیسری انجیر اپنی دلچسپی کے مطابق کسی شعبے میں جانا اور اس کی ماہر بننا ہے، چوتھی انجیر دنیا کے سفر پر نکلنا ہے، اور اوپر کی شاخوں پر مزید کئی خوش نما انجیریں جو ناقابل رسائی ہیں، لیکن اسے کوئی ایک انجیر چننی ہے۔

    اس تمثیل میں دراصل سلویا نے بیسویں صدی کے محدود معاشرے میں جینے والی ایک عورت کی افسردگی بیان کی ہے، جس کے خیال لامحدود لیکن زندگی محدود ہے۔ جو کوئی فیصلہ کر بھی لے، تو اسے اس کے غلط ہونے کا خوف اور دوسری انجیر نہ چننے کا قلق ہے۔

    اس نے ایک بار لکھا، کیا میں لباس کی طرح زندگی کو بھی بدل بدل کر دیکھ سکتی ہوں کہ کون سی میرے لیے موزوں ترین ہے؟

    جسے اس بات کی خلش ہے، کہ میں زندگی کے ہر رنگ اور ہر تنوع کو بھرپور طریقے سے محسوس کرنا چاہتی ہوں، لیکن میں خوفناک حد تک محدود ہوں۔

    سلویا پلاتھ 27 اکتوبر 1932 کو امریکی ریاست میساچوسٹس میں پیدا ہوئی، اس کے والد بوسٹن یونیورسٹی میں بیالوجی کے پروفیسر تھے، لیکن جب سلویا صرف 8 برس کی تھی تو وہ چل بسے۔

    والد کی موت نے سلویا کو گہرا جذباتی و نفسیاتی صدمہ پہنچایا اور غالباً یہیں سے اس کی زندگی میں ایک طویل اور عذاب ناک ڈپریشن کی بنیاد پڑی، اس ڈپریشن نے اس کی زندگی کے سارے رنگوں کو پھیکا کردیا اور پیچھے رہ گئی اتھاہ سیاہ تاریکی جس میں وہ ساری زندگی ڈوبتی ابھرتی رہی۔

    11 برس کی عمر سے سلویا نے ڈائری لکھنی شروع کردی تھی اور اپنے احساسات اور جذبات کو ایسے خوبصورت جملوں میں پرویا جنہیں پڑھ کر کوئی بھی اندازہ کر سکتا تھا کہ یہ بچی بڑی ہو کر لفظوں سے کھیلنے والی جادوگر بنے گی۔

    18 برس کی عمر میں اس کی پہلی باقاعدہ نظم ایک مقامی اخبار میں شائع ہوئی، بعد میں سلویا نے نثر بھی لکھا اور ایک ناول اور کچھ افسانے تحریر کیے۔

    دا بیل جار

    سنہ 1953 میں کالج کی تعلیم کے دوران سلویا نے نیویارک میں میڈموزیل میگزین میں ملازمت کی، فیمنسٹ نظریات کا حامل یہ میگزین خواتین میں بے حد مقبول ہوا اور یہاں گزارے گئے وقت نے سلویا کے ادبی سفر کا تعین کیا۔

    سلویا کے واحد ناول دا بیل جار کی داغ بیل اسی ملازمت نے ڈال دی تھی جب اس نے وہاں اعلیٰ حس مزاح اور بلند معیار سوچ رکھنے والے افراد اور خصوصاً خواتین کے ساتھ وقت گزارا۔

    تصویر: ٹیڈ ایکس

    دا بیل جار کی کہانی ایسٹر گرین ووڈ نامی ایک لڑکی کے گرد گھومتی ہے جو خطرناک حد تک ذہین اور بہترین حس مزاح کی حامل لیکن شدید ڈپریشن کا شکار ہے، سلویا نے دراصل اپنی زندگی کی کہانی ایسٹر کی صورت میں پیش کی اور اس میں کچھ افسانوی رنگ بھی اختیار کیا۔

    سلویا کی حس ظرافت اس قدر ذومعنی تھی کہ سننے والے کو ہنسنے کے بہت دیر بعد علم ہوتا کہ کہنے والا اس کا تمسخر اڑا گیا، اس نے یہی انداز اپنے ناول کی ہیروئن کا بھی رکھا جو بہت مقبول ہوا۔

    اس کے ناول نے اس وقت کی عورت کے لیے مروجہ اصول، مرد کی کھلی چھوٹ اور معاشرے کے تضادات پر بہت بے باک انداز میں سوال اٹھائے۔

    یہ ناول جنوری 1963 میں سلویا کی موت سے صرف ایک ماہ قبل اس کے قلمی نام سے شائع ہوا تھا۔

    ذہنی خلجان، خودکشی کی کوشش اور شاعری

    سلویا کی اصل وجہ شہرت اس کی نظمیں ہیں جو اس کے ذہنی خلفشار کا تحفہ تھیں، اس کے اپنے اندر کی عکاس نظمیں جو بھیانک خالی پن، عام لوگوں کی ڈگر سے ہٹ کر مشاہدے اور ذہانت و ڈپریشن کی پیدا کردہ مختلف ڈھب کی سوچ کی تصویر ہیں۔

    اس کی شاعری نے عورت کے دکھوں، ان کہے جذبات اور جنسیت کے گرد قائم خاموشی کا حصار توڑا اور اس کا نڈر اظہار کیا۔

    ذہنی خلجان اور ڈپریشن کے باعث سلویا ہمیشہ بے چینی کا شکار رہی، اس میں خودکشی کا رجحان بھی موجود تھا اور عام افراد کے برعکس موت اسے خوفزدہ کرنے والی شے نہیں لگتی تھی۔

    سنہ 1954 میں وہ ایک بار خودکشی کی کوشش بھی کر چکی تھی جس کے بعد کئی ماہ اسے نفسیاتی اسپتال میں گزارنے پڑے، ڈپریشن کی گولیاں تو ہمیشہ ہی اس کی ساتھی رہیں۔

    اس کی ایک نہایت مشہور نظم لیڈی لازرس جسے شاہکار کی حیثیت حاصل ہے، بائبل کے ایک کردار پر مبنی ہے جو فنا ہو کر پھر سے جی اٹھتا ہے۔ سلویا نے یہ نظم اپنی موت سے چند ماہ قبل اس وقت لکھی جب وہ اپنی زندگی کے مشکل ترین دور سے گزر رہی تھی۔

    خود کو لیڈی لازرس سے تشبیہ دیتے ہوئے اس نے لکھا، مرنا بھی ایک آرٹ ہے۔

    اس نے ایک بار اپنی ذہنی کیفیت کے بارے میں لکھا، میں یا تو لمحے بھر میں بے حد خوش اور سرگرم رہ سکتی ہوں، یا پھر بے حد سست اور غمگین ہو سکتی ہوں، ان دونوں کیفیات کے بیچ معلق رہنا مجھے پاگل بنا دے گا۔

    ایک بار اس نے کہا، کیا سوچوں سے باہر جانے کا کوئی راستہ ہے؟

    محبت، جو اسے موت تک لے گئی

    سنہ 1956 میں سلویا کی ملاقات انگریزی کے معروف شاعر ٹیڈ ہیوز سے ہوئی، دونوں ایک دوسرے سے متاثر اور پھر ایک دوسرے کی محبت میں مبتلا ہوئے اور محبت ناموں سے شروع ہونے والا یہ سلسلہ شادی پر منتج ہوا۔

    جلد ہی دونوں میں اختلافات سامنے آنے لگے۔ اس دوران دونوں کے یہاں ایک بیٹی فریڈا اور بیٹا نکولس پیدا ہوئے۔

    لیکن اصل طوفان شادی کے 6 برس بعد تب آیا جب یہ دونوں ڈیوڈ وول اور آسیا وول نامی ایک جوڑے کے گھر کے ایک حصے میں کرائے پر رہنے لگے اور ٹیڈ آسیا کی زلف کے اسیر ہوگئے۔

    سلویا کو جب ٹیڈ کی اس بے وفائی کا علم ہو تو وہ بے حد دل برداشتہ اور رنجیدہ ہوئی، شوہر سے جھگڑے کے بعد سنہ 1962 میں وہ بچوں کو لے کر انگلینڈ چلی آئی، یہاں نئی زندگی کی مشکلات، ڈپریشن اور نفسیاتی دوروں کا جن منہ کھولے کھڑا تھا اور اب سلویا کے لیے ان سے نمٹنا آسان نہ تھا۔

    اپنے ذہنی خلجان اور غم کی کیفیت میں سلویا نے ایک کے بعد ایک نظم لکھ ڈالی، لیڈی لازرس انہی دنوں کی تخلیق ہے۔ ان دنوں میں تخلیق کی گئی اس کی نظموں کا مجموعہ بعد از مرگ ایریل کے نام سے شائع ہوا۔

    ان دنوں سلویا کے ڈاکٹر نے اس کی ذہنی کیفیت کے پیش نظر اسے اسپتال میں داخل ہونے کا مشورہ دیا لیکن سلویا نے اینٹی ڈپریسنٹس تک کھانا چھوڑ دی تھیں۔

    5 ماہ تک رنج، تنہائی اور ذہنی خلفشار سے لڑتے رہنے کے بعد بالآخر ایک دن سلویا نے اس کے آگے ہتھیار ڈال دیے، فروری 1963 کی ایک صبح، جب اس کے دونوں بچے سو رہے تھے، اس نے بچوں کا ناشتہ بنا کر ان کے سرہانے رکھا اور گیس اوون کھول کر اپنا سر اس میں گھسا دیا، کاربن مونو آکسائیڈ کے زہر نے جلد اسے تمام تکلیفوں سے نجات دلا دی۔

    بچے اٹھے تو وہ اپنی ماں کو ہمیشہ کے لیے کھو چکے تھے۔ اپنی موت کے وقت سلویا کی عمر صرف 31 برس تھی۔

    سلویا کی زیادہ تر نظمیں ان کی موت کے بعد شائع ہوئیں جنہیں عام لوگوں نے بھی پسند کیا اور ادبی حلقے بھی ان کی اختراعی سوچ اور بے باکی پر دم بخود رہ گئے، سنہ 1971 میں ان کا ناول دا بیل جار ان کے اصل نام سے شائع ہوا۔

    سنہ 1982 میں سلویا کی نظموں کے مجموعے کو پلٹزر پوئٹری پرائز بھی ملا۔

    سلویا کی موت ان کے شوہر ٹیڈ کے لیے بھی مشکلات لے آئی، ادبی طبقے کی خواتین نے انہیں سلویا کی خودکشی کا ذمہ دار ٹھہرایا اور ٹیڈ کو قتل کی دھمکیاں تک موصول ہوئیں۔

    دوسری طرف آسیا وول بھی احساس جرم کا شکار رہی اور 6 سال بعد اس نے بالکل اسی طرح خودکشی کرلی جیسے سلویا نے کی تھی، ساتھ ہی اپنی 4 سالہ بیٹی کو بھی مار ڈالا، گیس سے بھرے بند کچن سے دونوں کی لاشیں برآمد ہوئیں۔

    سلویا کا ذہنی خلفشار اور خودکشی کا رجحان صرف اس تک محدود نہ رہا، اس کے بچوں نے اس کی دیوانگی، ذہانت اور فن سب ہی وراثت میں پایا، بیٹی فریڈا شاعر اور مصور بنی، بیٹے نکولس نے جو ایک پروفیسر تھا، سنہ 2009 میں 47 سال کی عمر میں خودکشی کرلی۔

    سلویا نے ایک بار کہا تھا، مجھے ان چیزوں کی خواہش ہے جو مجھے آخر میں مار ڈالیں گی، کون جانے کہ اسے خوشی کی خواہش تھی جس کی تلاش میں وہ تمام عمر سرگرداں رہی، یا پھر یہ اذیت اور بے چینی خود اسی کی منتخب کردہ تھی جو اسے موت تک لے آئی۔

  • ناول: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ناول: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز (ویب سائٹ) کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    وہ دونوں ایک پہاڑی بکرے کے پیچھے دوڑ رہے تھے۔ دونوں ایک دوسرے سے ہنسی مذاق کرتے ہوئے پہاڑی بکرے کو بے تحاشا دوڑا رہے تھے، اس کے باوجود کہ انھیں معلوم تھا کہ وہ اس کی گرد کو بھی نہیں چھو سکتے۔ بکرا تنگ آ کر پہاڑ پر موجود چھوٹی چھوٹی چٹانوں پر زقند بھرتا، ذرا دیر میں نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ دونوں نے پتھر اٹھا کر اس کے پیچھے پھینکے اور ہنستے ہوئے، پہاڑ کے دامن میں ایک چٹان پر بیٹھ گئے۔

    ان میں سے ایک نے پھولی سانسوں کے درمیان دوسرے سے پوچھا "جبران! اسے بوجھو، بھاگتا جائے، بھاگتا جائے، بھاگتا جائے ….. بتاؤ، کیا ہے؟”

    جبران جھٹ سے بولا "شروع ہو گئی تمھاری پہیلیاں، لیکن یہ تو بہت آسان ہے، میں بتاتا ہوں ایرو پلین۔”

    پہلا لڑکا ہنس کر بولا "بے وقوف، ہوائی جہاز بھاگتا نہیں اڑتا ہے۔”

    "تو پھر…..” جبران نے چٹان پر بیٹھے بیٹھے آگے کی طرف جھک کر کنپٹی سہلائی اور دوسری کوشش کی "پہاڑی بکرا”۔

    "دھت تیرے کی” لڑکے نے قہقہ لگایا۔

    "تو پھر تم ہی بتا دو۔” جبران نے جھنجھلا کر کہا۔

    "وقت” اس نے جواب دیا۔ لیکن یہ سن کر جبران اچانک اچھل کر چٹان سے کود پڑا اور بولا "ارے، میں تو بھول گیا تھا، مما نے جلدی آنے کو کہا تھا، چلو دیر ہو گئی ہے۔”

    جبران گول گول پتھروں پر چھلانگیں مارتا گھر کی جانب دوڑا، دوسرا لڑکا بھی اس کے پیچھے ہو لیا۔ درختوں کے جھنڈ کی دوسری طرف ایک چھوٹے مگر سلیقے سے بنے نہایت خوب صورت گھر کے کھلے دروازے میں داخل ہو کر جبران رک گیا۔ صحن میں ایک پُروقار خاتون تار پر سے سوکھے کپڑے اتار رہی تھیں، چہرے مہرے سے وہ چالیس سال کی لگ رہی تھیں، اور اس نے اس پہاڑی گاؤں کی روایت کے برعکس سادہ لیکن جاذب نظر شلوار قمیض پہن رکھا تھا۔ پاؤں میں غیر ملکی چپل تھی، یہ بات نہیں تھی کہ انھیں اپنی روایات پسند نہیں تھیں، بلکہ وہ ایک طویل عرصہ اسکاٹ لینڈ میں گزارنے کے باعث اپنے خوب صورت ترین شہر اور پُر فضا مقام گلگت کی ثقافت سے دور ہو گئی تھیں۔ لیکن یہاں کی ثقافت اب بھی ان کے دل میں زندہ تھی، وہ اسے بھلا نہیں سکتی تھیں، یہ اور بات تھی کہ یہاں کا روایتی لباس اب ان سے پہنا نہیں جاتا تھا۔ وہ ہلکا پھلکا لباس پہننے کی عادی ہو گئی تھیں۔ ان کا نام شاہانہ تھا۔

    شاہانہ نے مڑ کر اپنے بیٹے جبران کی طرف دیکھا اور کلائی میں بندھی سنہری گھڑی پر نظر ڈالی، پھر تیز آواز میں بولیں۔ ” جبران ، تم دس منٹ لیٹ ہو۔”

    "سوری ممی، قصور اس پہاڑی بکرے کا ہے۔” جبران کوئی بات بنا رہا تھا کہ منھ سے بکرے کا ذکر نکل گیا۔

    "پہاڑی بکرا…. تم کیا کہنا چاہ رہے ہو؟” ممی نے اسے گھور کر دیکھا۔

    "وہ ممی، دراصل ہم پہاڑی بکرے کے پیچھے دوڑ رہے تھے۔” جبران نے سر کھجاتے ہوئے کہا۔ اسے پتا تھا کہ اب ممی غصہ ہوں گی، اور اسے ایک عدد لیکچر سننے کو ملے گا ، لیکن خلاف توقع انھوں نے سپاٹ لہجے میں کہا۔”بے وقوفی والی باتیں مت کرو، کمرے میں جاؤ اور اپنا سامان سمیٹ لو۔”

    "ٹھیک ہے ممی۔” جبران نے کہا اور پیچھے مڑ کر دوسرے لڑکے سے پوچھا "کیا تم تیاری کر چکے ہو؟”

    ابھی وہ جواب دینے ہی والا تھا کہ خاتون نے اسے مخاطب کیا "دانیال بیٹا، تم بھی جاؤ، امی تمھارا انتظار کر رہی ہو گی، کل صبح ہماری فلائٹ ہے، اپنی ساری چیزیں سمیٹنے میں امی کی مدد کرو۔”

    "جی آنٹی۔” دوسرے لڑکے دانیال نے سَر ہلایا اور جبران کے کندھے کو ہلکا سا ہاتھ مارتے ہوئے نکل گیا۔

    اگلی صبح اسکاٹ لینڈ کے لیے ان کی فلائٹ تھی۔ جبران کے والد بلال احمد بیس سال سے اسکاٹ لینڈ میں کام کے سلسلے میں مقیم تھے۔ شاہانہ کی پیدائش اسکاٹ لینڈ ہی میں گلگت کے ایک خاندان میں ہوئی تھی، لیکن ان کے والدین نے انھیں بچپن میں گلگت بھجوا دیا، تاکہ وہ اپنے آبائی گاؤں کے ماحول میں پروان چڑھے۔ بیس سال کی عمر میں وہ واپس اسکاٹ لینڈ گئیں، اور پھر تیس سال کی عمر میں ان کی شادی بلال احمد سے ہوئی۔ شاہانہ ایک عرصے بعد گلگت آئی تھیں، اور جبران نے پہلی مرتبہ آبائی گاؤں دیکھا جو اسے بہت پسند آیا تھا۔ واپس جانے کو ابھی اس کا جی نہیں کر رہا تھا لیکن وہ اپنے کزن دانیال کو اسکاٹ لینڈ دکھانے کے لیے بے چین تھا۔ دانیال اس کے چچا کا بیٹا تھا اور گیارہ سال کا تھا، یعنی اس سے ایک سال بڑا۔ دونوں ایک دوسرے کے پکے دوست بن گئے تھے۔ یہ جبران ہی کی ضد تھی جو اس کے والد نے دانیال کے لیے بڑی مشکلوں سے وزٹ ویزا بھجوایا۔

    صبح نو بجے انھوں نے اسلام آباد ایئر پورٹ پر اپنے رشتے داروں اور سرزمین پاک کو الوداع کہا، اور جزیروں کی سرزمین کی طرف محو پرواز ہو گئے۔ دانیال نے پہلی مرتبہ ہوائی جہاز میں قدم رکھا تھا، اس لیے وہ با ت بات پر حیران ہو رہا تھا اور جبران اسے ہر چیز کی تفصیل پُر جوش انداز میں بتاتا جا رہا تھا۔

    دونوں دوران پرواز کبھی باتوں میں مگن ہوتے، کبھی کچھ کھاتے، کبھی سوتے ، یہاں تک کہ جہاز گلاسگو کے ایئرپورٹ پر اتر گیا۔ تیرہ چودہ گھنٹوں کے طویل فضائی سفر نے انھیں تھکا دیا تھا۔ ایئرپورٹ پر جبران کے والد بلال احمد ان کے منتظر تھے۔ جبران انھیں دیکھ کر دوڑا اور ان سے لپٹ گیا۔ "پپا، میں نے آپ کو بہت مس کیا۔”

    "مجھے بھی تم لوگ بہت یاد آ رہے تھے۔” انھوں نے جبران کو پیا ر کیا۔

    "پپا، یہ دانیال ہے، پتا ہے دانی اب میرا بیسٹ فرینڈ بن چکا ہے۔” جبران نے اپنے نئے دوست کا تعارف کرانا ضروری سمجھا۔ بلال احمد مسکرائے اور دانیال کو بھی گلے لگا لیا۔ "کیسے ہو بیٹا، ہوائی جہاز کا سفر کیسا لگا؟”

    "بہت زبردست، بہت مزا آیا۔” دانیال نے فوراً جواب دیا۔

    وہ ایئرپورٹ سے نکل کر گاڑی کے پاس آ گئے، تو کار سے پانچ سالہ عرفان اور دو سالہ سوسن بھی نکل کر ممی اور بھائی جان سے مل کر بہت خوش ہوئے۔ گاڑی میں بیٹھ کر جبران کی ممی نے سوسن کو گود میں بٹھا لیا اور ایک بازو عرفان کے گرد حمائل کر کے ان سے باتیں کرنے لگیں۔ ان دونوں کو انھوں نے اپنے پاپا کے پاس ہی اسکاٹ لینڈ میں چھوڑا تھا۔

    گلاسگو، اسکاٹ لینڈ کا سب سے بڑا شہر… دانیال اس کے رنگ ڈھنگ دیکھ کر حیرت کے سمندر میں غوطے کھانے لگا۔ اسے پہلی نظر میں یہ شہر پسند آ گیا تھا اور اس لیے وہ بہت خوش تھا۔

    گلاسگو کے مضافات می بلال احمد نے ایک چھوٹا سا لیکن خوب صورت گھر خریدا تھا، جس کے سامنے ایک پیارا سا باغیچہ تھا۔ باغیچے کے سامنے انھوں نے گاڑی روک دی اور اعلان کیا۔ "یہ ہے ہمارا چھوٹا سا پیارا گھر۔”

    جبران تیزی سے دروازہ کھول کر اترا، اور باغیچے کے درمیان بنے تنگ راستے میں دوڑا، جس کے اختتام پر گھر کا دروازہ تھا۔ دورازہ بند تھا، وہ مڑا اور بولا "پپا پلیز، چابی مجھے دیں۔”

    بلال احمد ڈگی سے سوٹ کیس نکال رہے تھے، ذرا ٹھہر کر انھوں نے چابی نکالی اور جبران کی طرف اچھال دی۔ جبران نے چابی کیچ کر لی اور دروازہ کھول دیا۔پھر مڑ کر دیکھا اور بولا۔ "دانی، بھاگ کر آؤ، میں تمھیں اپنا گھر دکھاتا ہوں۔”

    دانیال بھی اس کی طرف دوڑا۔ گھر کو اندر سے اتنی نفاست سے سجایا گیا تھا کہ دانیال حیران رہ گیا۔ جبران نے ذرا دیر میں سارا گھر اسے دکھا دیا، وہ بے حد متاثر ہوا، پھر وہ ایک کمرے میں آ کر بیٹھ گئے۔ بلال احمد شاہانہ سے گاؤں کے حالات پوچھنے لگے، اور دونوں دوست اپنی گپ شپ میں محو ہو گئے۔ رات کا کھانا انھوں نے مل کر کھایا، اور پھر کچھ دیر بعد وہ سونے کے لیے چلے گئے۔

    اگلی صبح ناشتے کے بعد جبران کے پاپا تو آفس چلے گئے، جب کہ جبران، دانیال کو لے کر چھت پر آ گیا۔

    "جبران، کیا تمھارا یہاں کوئی دوست نہیں ہے؟” دانیال نے پوچھا۔ جبران نے جواب میں کہا "یہاں محلے میں تو کوئی خاص نہیں البتہ اسکول میں ڈینئل میرا بہت اچھا دوست ہے، ایک آن لائن فرینڈ بھی ہے۔ فیونا…. تمھاری ہی ہم عمر ہے، یہاں سے کچھ ہی فاصلے پر ایک چھوٹا سا گاؤں ہے گیل ٹے کے نام سے، وہاں اپنی ماں کے ساتھ رہتی ہے۔”

    دانیال نے کبھی کمپیوٹر استعمال نہیں کیا تھا، اس لیے اسے انٹرنیٹ پر چیٹنگ کے بارے میں کچھ پتانہیں تھا، اس لیے اس نے پوچھا "یہ آن لائن فرینڈ سے کیا مطلب ہے؟”

    جبران کو پہلے تو اس کی بے خبری پر حیرت ہوئی لیکن پھر اس نے تفصیل سے بتا دیا کہ وہ کس طرح اس کی دوست بنی۔ "تو تم آج تک فیونا سے نہیں ملے ہو؟” دانیال نے حیران ہو کر کہا۔

    "نہیں۔” جبران بولا۔ "لیکن چلو، ابھی اس سے رابطہ کرتے ہیں، اس نے کہا تھا کہ میں جیسے ہی واپس آؤں اسے ضرور بتاؤں۔”

    جبران اسے لے کر اپنے کمرے میں آیا، اور کمپیوٹر آن کر کے فیونا کو انباکس میسج کر دیا،کچھ ہی دیر میں فیونا کا جواب آ گیا، اس نے جبران کو اسکاٹ لینڈ واپس آنے پر خوش آمدید کہا تھا، اور پھر پاکستان اور گلگت کے سفر سے متعلق تفصیلات پوچھنے لگی۔ جبران نے اسے دانیال سے متعلق بھی بتا دیا۔ فیونا یہ جان کر خوش ہوئی اور کہا کہ وہ بھی اس کے ساتھ چیٹنگ کرے، لیکن جبران نے بتایا کہ دانی کو انگریزی نہیں آتی۔ فیونا کو مایوسی ہوئی، لیکن پھر اس نے دونوں کو اپنے گھر آنے کی دعوت دے دی۔ جبران نے کہا اگر ممی پاپا نے اجازت دی تو وہ ضرور دانی کو لے کر آ جائے گا۔

    دوپہر کو کھانے کی میز پر جبران نے ممی سے فیونا کا ذکر کر دیا، اور جانے کی اجازت مانگی۔ چوں کہ فاصلہ زیادہ نہیں تھا اس لیے انھوں نے اجازت دے دی۔ شام کو پپا نے بھی بہ آسانی اجازت دے دی اور دونوں نے اگلے دن صبح ہی گیل ٹے جانے کا فیصلہ کر لیا۔

    صبح سویرے دونوں بس میں بیٹھ کر دس منٹ میں گیل ٹے پہنچ گئے۔ فیونا کا گھر ڈھونڈنا کوئی مسئلہ نہیں تھا، وہ تھوڑی ہی دیر میں درست پتے پر پہنچ گئے۔ ایک بہت ہی پیاری لڑکی …. فیونا کھڑکی میں کھڑی باہر دیکھ رہی تھی۔ وہ دراصل ان ہی کا انتظار کر رہی تھی۔ انھیں آتے دیکھ کر وہ دوڑ کر باہر آئی اور ان کے سامنے رک گئی۔ خوش آمدید کہ کر دونوں سے ہاتھ ملایا۔

    جاری ہے…..

  • درشن متوا کی جھجک!

    درشن متوا کی جھجک!

    درشن متوا کی ایک مختصر کہانی پڑھیے.

    پڑھے لکھے نوجوان کو کہیں جانا تھا۔ وہ بس کے اڈّے پر بسوں کے بورڈ پڑھتا پھر رہا تھا۔
    بے وقوف کہلانے کے ڈر سے اس نے کسی سے بس کے بارے میں پوچھا نہیں، صرف گھومتا رہا۔
    ایک بس سے دوسری اور دوسری سے تیسری اور چوتھی۔
    ایک اَن پڑھ سا آدمی آیا، اس نے بس میں بیٹھے ہوئے ایک شخص سے پوچھا اور جھٹ سے بیٹھ گیا۔ بس چلنے لگی۔
    پڑھا لکھا نوجوان اب بھی بسوں کے بورڈ پڑھتا ہوا وہیں چکر لگا رہا تھا۔

    جھجک کے عنوان سے یہ کہانی آپ کو یقینا پسند آئی ہو گی. اس کہانی کا موضوع اور بُنت بتاتی ہے کہ مصنف اپنے گرد و پیش اور ماحول سے جڑا ہوا ہے اور اس کا مشاہدہ گہرا ہے. دوسری طرف مختصر نویسی درشن متوا کی بلند تخلیقی قوت کا اظہار ہے۔

    درشن متوا کا شمار پنجابی اور ہندی زبان کے ان قلم کاروں میں ہوتا ہے، جنھوں نے اپنے زرخیز ذہن اور قوتِ متخیلہ سے کام لے کر ان موضوعات کو برتا ہے جو ایک زمانے میں ان کے محلِ نظر تھے۔ درشن متوا نے نہ صرف کئی صفحات پر مشتمل ناول اور دیگر کہانیاں لکھیں بلکہ مختصر نویسی میں بھی ان کو کمال حاصل تھا۔ پیشِ نظر کہانی نہ صرف ایک تعلیم یافتہ فرد اور ایک ان پڑھ کے درمیان اعتماد کے فرق اور شعور کی حالتوں کے مختلف رنگوں کو اجاگر کرتی ہے بلکہ یہ ایک عام رویے کی عکاس ہے۔ اس کہانی میں ایک خاص قسم کے غرور یا کسی کے اپنے پڑھے لکھے ہونے کے بے جا یا غیر ضروری فخر کو نہایت خوب صورتی سے اجاگر کیا گیا ہے. مصنف نے بتایا ہے کہ یہی فخر ایک موقع پر آگے بڑھنے میں‌ یا کسی کام کو انجام دینے میں‌ کیسے رکاوٹ کھڑی کرسکتا ہے اور اکثر اس کے سبب ناکامی مقدر بنتی ہے۔ یہ لفظی منظر کشی بامقصد، دل چسپ اور نہایت پُراثر ہے۔

  • صدیوں پہلے لکھے گئے ناول جو سائنسی ایجادات کا سبب بنے

    صدیوں پہلے لکھے گئے ناول جو سائنسی ایجادات کا سبب بنے

    انسان ہمیشہ سے پُرتجسس رہا ہے۔ ان دیکھے اجسام، عجیب و غریب، ماورائے عقل، پوشیدہ اور دست رس سے دور کوئی دنیا اور اشیا اسے متوجہ کر لیتی ہیں۔ جب انسان نے غور و فکر کی عادت اپنائی، شعور اور آگاہی کے مراحل طے کرتے ہوئے اپنے تخیل کو مہمیز دی تو ایسا ادب تخلیق کیا جو صدیوں بعد سائنسی اختراعات و ایجادات کی بنیاد بنا۔

    ہم ان نام ور اور باکمال ناول نگاروں کا آپ سے تعارف کروا رہے ہیں جنھوں نے اپنی تخلیقات میں صدیوں پہلے زمین اور انسانوں سے متعلق جن ماورائی، غیر حقیقی اور حیرت انگیز تصورات پیش کیے اور آج سائنس نھیں حقیقت کا روپ دے چکی ہے۔ وہ تصورات اب ہمارے سامنے ہیں اور انسانوں کے زیرِ استعمال ہیں۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ انہی ادیبوں اور دانش وروں کی بدولت نئی دُنیاؤں کی تلاش اور ایجادات کا سفر بھی شروع ہوا۔

    From the earth to the moon
    لگ بھگ تین صدیوں پہلے جولز ورنے کی یہ تخلیق منظرِ عام پر آئی تو پڑھنے والے اسے محض ایک ناول سمجھ کر لطف اندوز ہوئے۔ اس ناول میں ایک ایسے خلائی جہاز کا تصوّر پیش کیا گیا تھا جو ایک طاقت وَر توپ سے داغے جانے کے بعد چاند کے مدار میں پہنچ جاتا ہے۔ مصنف نے حیران کن اور دل چسپ انداز میں اسے چاند کے گرد چکر لگاتا ہوا بتایا۔ یہ اس دور میں خلافِ عقل اور ناقابل فہم ضرور رہا ہو گا مگر اسے پڑھنے والوں نے بے حد پسند کیا۔ کہانی میں مدار سے اس اسپیس شپ کی زمین پر واپسی کی لفظی صورت گری کی گئی تھی۔ آج انسان خلا نوردی اور کہکشاؤں کا کھوج لگانے کے ساتھ چاند پر بھی پہنچ چکا ہے۔

    Twenty thousand leagues under the sea
    اسی ناول نگار کے تخیل نے ایک ایسے سیّارچے کی کہانی بھی بُنی جو خلا کے اسرار دریافت کرنے کا سبب بنتا ہے۔ اس قلم کار کا یہ ناول شاہ کار مانا جاتا ہے جس میں اس نے ایک آب دوز کا تصوّر پیش کیا تھا جو سمندر کی گہرائی میں پہنچ کر سَر بستہ رازوں سے پردہ اُٹھاتی ہے۔ یہ ناولز بیسٹ سیلر ثابت ہوئے اور متعدد یورپی زبانوں میں ان کا ترجمہ کیا گیا۔ صدیوں پہلے ایک انسان کے تخیل کی اڑان کتابی صورت میں ملکوں ملکوں قارئین تک پہنچی اور آج ہم دیکھتے ہیں کہ دیو قامت سمندری جہاز اور جدید ٹیکنالوجی سے لیس آب دوزیں سمندر کی گہرائیوں میں موجود ہیں۔

    First man in the moon
    ایک اور سائنس فکشن رائٹر ایچ جی ویلز ہے جس نے فلکیات کو اپنا موضوع بنایا۔ یہ وہ ناول ہے جسے پڑھ کر انسان کے پہلے خلائی مشن کا منظر آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے اور انسان دنگ رہ جاتا ہے کہ کس طرح ایک ادیب کے ذہن نے مستقبل کی صورت گری کی ہو گی۔ سترھویں صدی عیسوی میں اس فکشن نگار نے اپنے ناول میں انسان کو چاند پر اتارا تھا اور بیسویں صدی میں اس کہانی نے حقیقت کا روپ دھار لیا۔

    Journey to the center of the earth
    اسی فکشن نگار نے اپنی اختراعی صلاحیت اور قلم کی طاقت سے ایک اور ناول کاغذ پر منتقل کیا جس میں انسانوں کو ڈائنو سار کے دور میں دکھایا۔ اس ناول نے قدیم زمانے کے قوی الجثہ حیوان سے متعلق انسانوں کو مزید تحقیق پر اکسایا اور ڈائنو سار کے ڈھانچوں کی دریافتوں کے ساتھ ان پر باقاعدہ ریسرچ کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس حوالے سے کہہ سکتے ہیں کہ یہ ناول بھی سائنسی میدان میں ترقی کا سبب بنا۔

  • اورحان پامک منزل ہے، باقی سب راستہ ہے

    اورحان پامک منزل ہے، باقی سب راستہ ہے

    قصبہ برف باری کی لپیٹ میں‌ ہے، رابطے منقطع، راستے منجمد ہوئے۔ اور  یہاں، قارص نامی قصبے میں ہمارا شاعر، جو عشق سے سرشار ہے، ایک طویل عرصے بعد ایک الوہی اطمینان کے ساتھ نظمیں‌ کہنے لگا ہے.

    ہمارا جلا وطن ترک شاعر، ہمارا پیارا "قا”، جرمنی سے اپنے وطن لوٹتا ہے، تو ترکی کے ایک دور افتادہ، تباہ حال، برف سے ڈھکے، انتہا پسندوں کے ہاتھوں میں‌ جانے کو تیار شہر میں پہنچتا ہے۔ اور اس کا سبب وہ عورت ہے، جسے وہ دل دے بیٹھا ہے، آئپک.

    اس عہد کے بے بدل فکشن نگار، نوبیل انعام یافتہ اورحان پامک نے اپنے اس کردار کے حسن کو اس طرح بیان کیا ہے کہ پڑھنے والا انگشت بدنداں رہ جائے. ہر وہ شخص جو اس قصبے میں، اس ناول میں آئپک کے روبر آتا ہے، اس کے حسن کے سامنے سر تسلیم خم کر دیتا ہے.

    تو کیا اورحان پامک کا ناول "سنو” محبت کی کہانی ہے؟ ایک عاشق کی، جو برسوں بعد اپنے وطن لوٹا ہے، اور نظمیں کہنے لگا ہے، کیوں کہ وہ خوش ہے؟

    بے شک پلاٹ کے ساتھ چلتے قصوں میں، اس کی کلیدی تھیم کے متوازی ظاہر ہوتے تھیمز میں ہم محبت، رقابت، خوشی جیسے جذبات، ان جذبات کے تشکیل، ان کی شکست و ریخت سے بھی روبرو ہوتے ہیں، البتہ اصل مدعا تو وہ سیاسی تقسیم، وہ لسانی انتشار، جغرافیائی اختلاف، جمہوریت اور آمریت کے درمیان جاری کشمکش ہے، طاقت اور کمزور میں تلخ تعلق ہے، جو صرف ترکی کا موضوع نہیں، بلکہ ہر ترقی پذیر مسلم ملک میں ہم اس کا  عکس دیکھ سکتے ہیں.

    یوں‌ اورحان پامک کی یہ کتاب یک دم اپنا کینوس وسیع کرتے ہوئے ہمیں اپنا قصہ معلوم ہونے لگتی ہے۔ اس ناول کو، جو ایک دل موہ لینے والی کہانی ہے، ٹکڑوں‌ میں بانٹ کر ہم شاید بہتر انداز میں سمجھ سکیں۔

    ناول کی Setting کیا ہے؟

    ناول کے واقعات ترکی کے ایک پس ماندہ قصبے قارص اور جرمنی کے شہر فرینکفرٹ میں رونما ہوتے ہیں۔ الگ الگ وقت میں۔ زمانہ نئے ہزارے سے کچھ پہلے کا ہے، جو لگ بھگ پانچ سال پر محیط ہے۔ ہمارے پیارے، جلا وطن شاعر کا ماں کے انتقال پر ترکی لوٹنا اور پھر اپنی محبت پانے کے لیے قارص کا رخ کرنا، یہ سب ان برسوں میں محیط ہے۔ البتہ بڑا حصہ تو قارص میں گزرے مرکزی کردار کے شب و روز کے گرد گھومتا ہے۔

    برف پر نقش چھوڑتے کردار:

    اورحان پامک ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر ہمیں ایسے کرداروں سے متعارف کرواتا ہے، جو دلیر ہیں، بزدل ہیں، متذبذب اور نیک ہیں، رقابت اور رشک محسوس کرتے ہیں۔

    کرداروں کی ایک کہکشاں ہے، جس کا ہر ستارہ روشن ہے۔ قا میں قاری خود کو دیکھتا ہے، ہیرو نہیں، ایک سچا Protagonist ۔ کہیں کمزور، کہیں اڑیل۔ اور آئپک، جو کہانی کی روح ہے۔ پراسرار  ہے۔ آئپک کی بہن کدیفے، جو ضدی ہے، اپنی بہن سے محبت رکھتی ہے، اور  اس سے حسد محسوس کرتی ہے۔ سونے زائم؛ ایک تھیٹر اداکار، جو قصبے میں فوجی بغاوت کے بعد سربراہ چن لیا جاتا ہے۔ اور پھر ہمارا دل عزیز، اورحان، جو خود ایک انتہائی اہم موڑ پر کہانی میں داخل ہوتا ہے۔ اور ہمارے دلوں میں برف باری شروع ہوجاتی ہے۔

    پوائنٹ آف ویو:

    آئیں ہم دیکھیں کہ اس کہانی کا Narrator کون ہے اور Narrative کی نوعیت کیا ہے؟

    یہ تھرڈ پرسن میں تخلیق کردہ بیانیہ ہے، گو اس میں مصنف ٹالسٹائی اور دوستوفسکی کی طرح کہیں آسمان پر موجود نہیں، جو سب جانتا ہے، یہ مصنف تو مرکزی کردار قا کا دوست اورحان ہے، ہمارا ناول نگار۔ البتہ اورحان نے یہ قصہ اتنی مہارت سے بیان کیا ہے کہ وہ آسمانوں سے کرداروں کے ذہنوں میں جھانکتے ہوئے ہمیں ساتھ ساتھ لیے چلتا ہے اور جہاں ضرورت پیش آتی ہے، قاری کی صف میں آن کھڑا ہوتا ہے،  کاندھے اچکا کر، ایک لاعلم شخص کی مانند۔

    کہانی ایک خاص مرحلے پر یک دم صیغہ واحد متکلم میں جست لگاتی ہے، اور ہمیں پلاٹ میں، مستقبل میں، رونما ہونے والے ایک اہم واقعے کی خبر دیتی ہے۔ ہمارے مصنف کی ناکامی اور موت۔ اور یوں اورحان ہمیں تجسس کو آسمان پر لے جاتا ہے۔ کہانی کے آخری چند ابواب میں کہانی پھر صغیہ واحد متکلم کی سمت پلٹ آتی ہے۔ اب اورحان ہمارے ساتھ ہے۔

    بے شک یہ ایک Non Liner Narrative ہے، مگر یہ یوں لکھا گیا ہے کہ اس کا بڑا حصہ سیدھے سبھاؤ، ایک لکیر کی صورت آگے بڑھتے ہوئے واقعات کو بیان کرتا ہے۔

    اورحان علامتیں تو تخلیق کرتا ہے، مگر تجرید اس کا میدان نہیں۔ وہ ماجرے کا آدمی ہے۔ یہ بھی ماجرائی بیانیہ ہے، البتہ برف اور خوشی کو معنویت عطا کرکے مصنف نے انھیں ذرا گہرا معاملہ بنا دیا ہے۔

    پلاٹ کا معاملہ

    قا، مرکزی کردار، قارص کے قصبے کیوں آتا ہے؟ بہ ظاہر قارص میں لڑکیوں میں بڑھتی خودکشیوں کے واقعات کے باعث، ان پر ایک رپورٹ لکھنے کے لیے، مگر دراصل آئپک نامی ایک حسین و جمیل عورت کی وجہ سے، جو کبھی اس کی ہم جماعت تھی، آئپک کون تھی؟ ایک ایسے شخص کی مطلقہ، جو اسلام پسند جماعت کے پرچم تلے میئر کے الیکشن میں کھڑا ہورہا ہے۔

    اور جب ہمارے ہیرو ہیروئن ملتے ہیں، تب ایک قتل ہوتا ہے۔ تعلیمی ادارے کے ڈائریکٹر کا قتل۔ (قتل اورحان کے پلاٹس میں کلیدی اہمیت رکھتے ہیں)۔ یہ پہلے ایکٹ کاInciting incident ہے۔ اور یوں اسکارف کے حق میں آواز اٹھاتی لڑکیوں پر رپورٹ مرتب کرنے والا ہمارا کردار یک دم اسلام پسندوں کے لیڈر لاجورت سے رابطہ میں آجاتا ہے، جو  ہے تو Antagonist ہے، مگر وجیہہ، متاثر کن اور دل موہ لینے والا شخص ہے۔

    اور تب ایک فوجی بغاوت ہوتی ہے۔ سمجھ لیجیے، دوسرے ایکٹ میں Turning Point.

    ایک طویل، ضخیم ناول میں، جس میں واقعات ایک محدود مدت میں رونما ہوتے ہیں، ایک مضبوط، مربوط پلاٹ کی وجہ سے ہمیں برف باری کی طرح لطیف اور دل پذیر لگتا ہے۔ اس کے باوجود کے مشکلات بڑھتی جارہی ہیں، اور راستے مسدود ہیں۔

    موضوع یا Theme:

    کہیں اوپر تذکرہ آیا، اس کا مرکزی تھیم زرخیز، پرپیچ ہے۔ برف کے گالے کی طرح، جو ہشت پہلو ہوتا ہے۔ مصنف سیاست، انتہاپسندی، فوجی بغاوت، محبت اور رقابت جیسے جذبوں کو کام میں لاتے ہوئے بہ ظاہر اس جبر اور استحصال کو  منظر کرتا ہے، جس کا کمزور  طبقہ صدیوں سے سامنا کر رہا ہے،، جس سے نبرد آزما ہونے کے لیے وہ عقائد اور نظریات کا سہارا لیتا ہے، مگر  گہرائی میں مصنف ہمیں یہ سوچنے پر بھی اکسانا چاہتا ہے کہ ہم کسی شے کی خوشی خیال کرتے ہیں، کیسے ہم محبت اور نفرت کرتے ہیں، اور کیوں کہ ہم جذبات سے مغلوب ہو کر ایسے فیصلے کرتے ہیں، جو ہماری زندگیاں بدل دیتے ہیں۔

    کتاب کا ایک Miner Theme یہ بھی ہے، گو اسے Miner Theme کہنے کو جی نہیں کرتا ہے، کہ تخلیق کار کیسے جمود کا شکار ہوتا ہے، پھر کیسے اس پر تخلیقات کی بارش ہونے لگتی ہے، وہ نظمیں ’’سننے‘‘ لگتا ہے، اور کیسے کتاب اس کے لیے اہم ترین شے بن جاتی ہے، عزیز ترین شے۔ زندگی کا حاصل۔

    شناخت کا بحران تو ایسا موضوع ہے، جو اورحان کو ہمیشہ عزیز رہا۔

    تصادم کا تذکرہ

    اورحان کے کرداروں کی تشکیل کے لیے ہر نوع کے تصادم (Conflict) کو استعمال کیا ہے۔ ایک سمت قا اپنی ذات سے برسرپیکار ہے، تذبذب، جذباتیت، خواہشات۔ اور دوسری طرف ایک Conflict اس کے اور Antagonist ، یعنی لاجورت کے درمیان ہے۔ یعنی رقابت۔ اور پھر وہ معاشرہ، جہاں اسے عقیدت سے دیکھا جارہا ہے کہ وہ استنبول سے آیا شاعر ہے، مگر قبول بھی نہیں کیا جارہا کہ وہ بے دین ہے۔

    اور قا ہی نہیں، آئپک، کدیفے، سونے زائم اور لاجورت جس نوع کے مسائل سے دور چار ہوتے ہیں، وہ قاری کے ذہن میں ان کرداروں کے تشکیل میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔

    حروف آخر

    ’’سنو‘‘ اورحان پامک کا ایک ماسٹر پیس ہے۔ایک خاص تھیم، جو اس کی ہر کتاب میں ہوتا ہے، اس میں بھی واضح دکھائی دیتا ہے۔ دو کرداروں کا مختلف ہونے کے باوجود یک ساں ہونا۔ حیران کن حد تک۔ یہاں تک کہ لوگ انھیں ایک دوسرے سے خلط ملط کر دیں۔

    یہی چیز ہم اورحان کے دو شاہ کار ’’دی بلیک بک‘‘ اور ’’سفید قلعہ ‘‘میں دیکھ چکے ہیں۔ یہ وہ علاقہ ہے، پر اورحان کو خصوصی مہارت حاصل ہے۔

    مارکیز نے کہا تھا کہ ’’ادیب دراصل زندگی میں ایک ہی کتاب لکھتا ہے۔‘‘ مارکیز کے ہاں وہ تنہائی کی کتاب تھی، اور اورحان پامک کے ہاں وہ شناخت کی کتاب ہے۔ میں کون ہوں اور وہ کون ہے؟ میں کہاں پر ختم ہوتا ہوں اور وہ کہاں سے شروع ہوتا ہے؟

    ہما انور مبارک باد کی مستحق ہیں، جو اس سے قبل بھی اورحان کی تخلیق کو اردو روپ دے چکی ہیں۔ اور مستقبل میں اردو کے قارئین کو مزید حیرتوں سے دور چار کریں گی۔

    یہ اردو ترجمہ جناب فرخ سہیل گوئندی کے اشاعتی ادارے جمہوری پبلی کیشنز سے شایع ہوا ہے، جو اس سے قبل اورحان کے شاہ کار "سرخ میرا نام” بھی شایع کر چکے ہیں، اور ان کے ایک اور ناول پر کام کر رہے ہیں۔

    اگر آپ نے یہ کتاب نہیں پڑھی، تو  ہر لاحاصل کام چھوڑ کراس کی سمت پیش قدمی کریں۔

    اورحان ہی منزل ہے۔

    باقی سب راستے ہیں۔

  • گھریلو تشدد، ذہنی امراض اور ایک ناول

    گھریلو تشدد، ذہنی امراض اور ایک ناول

    ورجینا وولف نے کہا تھا،”ناول ایک ایسی صنف ہے، جس میں دنیا کا ہر موضوع سمویا جاسکتا ہے۔”

    یہ سچ ہی تو ہے۔ پھر یہ صنف اتنی پرقوت ہے کہ بیانیہ کی الگ الگ تکنیکس، جیسے واقعات نگاری، تجریدی ڈھب، تجزیاتی انداز ، یہاں تک کہ فلسفیانہ موشگافیوں کا بھی بوجھ ڈھو لیتی ہے۔

    صدیوں سے یہ کتاب ہی تھی، جو کسی مسئلے کی نشان دہی اور  عوام میں شعور پیدا کرنے کا موثر  ترین ذریعہ ٹھہری۔ ممکن ہے، نشان دہی کے معاملے میں ٹی وی چینلز کتاب سے آگے نکل گئے ہوں، مگر اثر پذیری میں کتاب اب بھی غالب ہے۔ اور ’’ابھی جان باقی ہے‘‘ بھی ایسی ہی ایک کتاب ہے۔

    موضوع کیا ہے؟

    یہ ناول گھریلو تشدد کے ٹول کے ذریعے ایک ایسے مسئلے کی نشان دہی کرتا ہے، جس کی جانب شاید کم ہی توجہ دی گئی۔ اور یہ ہے: ذہنی امراض۔

    مصنف کیوں کہ ذہنی معذوری ڈسلیکسیا کا شکار ہے، اسی باعث وہ ان امراض کے اثرات کو، بالخصوص گھریلو تشدد کے تناظر میں زیادہ موثر انداز میں بیان کرسکتا تھا، اور اس نے ایسا ہی کیا۔ 

    کیا اس نے یہ عمل کاملیت کے ساتھ انجام دیا؟ کسی بھی فکشن نگار کے پہلے ناول اسے اس نوع کی توقع کرنا اپنی اساس ہی میں غیرفطری ہے۔

    احساسات اور رویے، جنھیں قلم بند کیا گیا؟

    ناول نگار نے  ذہنی امراض سے متعلق لاعلمی، عدم توجہی، مریض کے اہل خانہ کی ٹال مٹول جیسے رویے کو  خوبی سے منظر کیا۔

    ’’ابھی جان باقی ہے‘‘ میں مجبوری کے ایک ایسے احساس کو پیش کیا گیا، جو  معاشرہ افراد، بالخصوص عورت پر عائد کر تا ہے۔ پہلے شادی، پھر بچوں کو پیدایش، اس پر مستزاد مالی طور پر شوہر اور سسرال پر انحصار، یوں وہ کلی طور پر محدود ہو جاتی ہے۔ اس محدودیت کا کرب ہم تک ان صفحات کے ذریعے پہنچتا ہے۔

    کہانی پلاٹ اور کرداروں کی

    یہ حنا کی کہانی ہے، جو مہندی آرٹسٹ ہے، جس کی شادی ماجد سے ہوتی ہے، جو اوروں سے کچھ مختلف ہے، مگر اتنا بھی نہیں کہ آدمی چونک اٹھے۔

    البتہ دھیرے دھیرے پریشان کن واقعات رونما ہونے لگتے ہیں۔ تشدد کا عنصر بڑھتا جاتا ہے، ساتھ ساتھ ہم ان واقعات، سانحات کے روبرو ہوتے ہیں، جو ہماری یادوں میں محفوظ ہیں کہ یہ کہانی 2017 تک آتی ہے۔

    بنیادی کردار تو حنا اور ماجد ہی ہیں، باقی کردار ان ہی دو سے جڑے ہوئے ہیں۔ کردار نگاری موثر ہے، کہیں کردار مصنوعی نہیں لگتا۔

    ناول کے آخر تک ہم حنا سے تو ہمدردی محسوس کرتے ہیں، مگر جو ذہنی مریض ہے، یعنی ماجد، اس کے لیے ہم میں ہمدردی کا جذبہ پیدا نہیں ہوتا۔ کسی اور بیانیہ میں شاید یہ مسئلہ نہیں ہو، مگر وہ ناول، جو اسی موضوع پر ہو، اس میں قاری یہ تقاضا ضرور  کرتا ہے۔

    تکنیک اور زبان

    چند صفحات پڑھ کر ہی آپ کو انداز ہوجاتا ہے کہ ناول نگار عصری ادب سے جڑا ہوا ہے۔ یہ ناول اپنے اختتامیے سے شروع ہوتا ہے، ایک معصوم بچی، خون، مہندی، ایمبولینس اور پھر ایک فائر۔ یہ ایک موثر  آغاز ہے۔

     ہر حصے پر ایک عنوان ٹکایا گیا ہے، چند قارئین کو اس سے الجھن ہوتی ہے، مگر راقم کے نزدیک یہ پڑھت کے عمل کو سہل بناتا ہے، البتہ گرفت کا تقاضا ضرور کرتا ہے۔  بے شک اِسے مزید موثر بنایا جاسکتا تھا۔

    ناول میں برتی جانے والی زبان کہانی کے تقاضے بڑی حد تک نبھاتی ہے۔ عام بول چال بھی گرفت کیا گیا ہے۔ البتہ رموز و اوقاف کے استعمال اور جملے کو لکھنے کے ڈھب میں بہتری کی گنجایش ہے۔

    جہاں جہاں جزئیات بیان کی گئیں، وہ قاری تک وہ احساس پہنچانے میں کامیاب رہیں، جو لکھاری کا مقصد تھا، چند مناظر واقعی متاثر کن ہیں، جن اضافی معلوم ہوتے ہیں۔

    حرف آخر

    ابھی جان باقی ہے مطالعیت سے بھرپور ناول ہے، یہ خود کو پڑھوانے کی قوت رکھتا ہے۔ ساتھ ہی یہ یوں بھی اہم ہوجاتا ہے کہ یہ ایک حساس موضوع کو منظر کرتا ہے، جس کی بابت ہم کم ہی بات کی اور یہ صرف مسئلہ کو اجاگر کرنے تک محدود نہیں رہتا، بلکہ کامیابی سےایک کہانی بھی بیان کرتا ہے۔

    ہاں، اسے مزید ایڈٹ کیا جاسکتا تھا،223 صفحات زیادہ تو نہیں، مگر یہ بیانیہ دو سو صفحات میں زیادہ موزوں لگتا۔

    ہم چنگیز راجا کے اگلے ناول سے کیسی امیدیں باندھ سکتے ہیں، اس کی خبر ہم اس ناول سے مل جاتی ہے۔

    علم و عرفان پبلشرز کے زیر اہتمام، اچھے گیٹ اپ میں شایع ہونے والے اس ناول کی قیمت چھ سو روپے ہے۔

  • کبھی شہرت کو سنجیدہ نہیں‌ لیا: ممتاز ادیب مستنصر حسین تارڑ‌ کا خصوصی انٹرویو

    کبھی شہرت کو سنجیدہ نہیں‌ لیا: ممتاز ادیب مستنصر حسین تارڑ‌ کا خصوصی انٹرویو

    کراچی: عہد ساز ادیب مستنصر حسین تارڑ‌ کا کہنا ہے کہ وہ اپنی ذات کے لیے لکھتے ہیں، لکھتے ہوئے کبھی شہرت کا دباؤ محسوس نہیں‌ ہوا، کیوں‌ کہ انھوں نے کبھی شہرت کو سنجیدہ نہیں‌ لیا.

    ان خیالات کا اظہار انھوں‌ نے کراچی میں اے آر وائی نیوز کی ویب سائٹ کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کیا.

    مستنصر حسین تارڑ کا کہنا ہے کہ دیگر اصناف کے برعکس وہ ناول لکھتے ہوئے خود کو زیادہ مطمئن محسوس کرتے ہیں.

    انھوں نے اپنے عصروں سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے اشفاق احمد کو پاکستانی ٹیلی ویژن کی تاریخ‌ کا سب سے بڑا ڈراما نگار قرار دیا. ان کا کہنا تھا کہ انتظار حسین کے بغیر اردو ادب کی تاریخ مکمل نہیں ہوسکتی. عبداللہ حسین کے پاس وہ تمام تجربات تھے، جو بڑے ادیب تخلیق کرنے کے لیے درکار ہوسکتے ہیں.

    انھوں نے روحی بانو کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کا خلا واقعی کبھی پورا نہیں ہوگا.

    مزید پڑھیں: ناول دھماکا نہیں کرتا، بلکہ آہستہ آہستہ قاری میں سرایت کر جاتا ہے: مستنصر حسین تارڑ

    ان کا اپنی تخلیقات سے متعلق کہنا تھا کہ ’’بہاؤ‘‘  جیسا ناول اب خود بھی نہیں لکھ سکتا، اپنا آخری ناول ’’منطق الطیر جدید‘‘ لکھتے ہوئے اسی تخلیق تجربے سے گزرا، جس سے بہاؤ کے وقت گزرا تھا۔

    تفصیلی انٹرویو ویڈیو میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔

    https://www.facebook.com/arynewsud/videos/554215328412841/

  • جندر: تنہائی، انتظار اور موت کا ناول

    جندر: تنہائی، انتظار اور موت کا ناول

    پہلے ہی ورق پر موت سے آپ کا سامنا ہوتا ہے۔ کہانی آپ کو دبوچ لیتی ہے، اور  پھر آپ آخر تک جاتے ہیں۔

    ”جندر“ اختر رضا سلیمی کی کاوش ہے، جن کا چرچا پہلے پہل اُن کی شاعری کے سبب ہوا، دوسری بار ان کے ناول ”جاگے ہیں خواب میں“ کے سبب، اور تیسری بار”جندر “کے سبب۔

    پہلے ہی ورق پر ناول کے مرکزی کردار ولی خان کو  سانحے سے 45 دن قبل، یہ ادراک ہوچکا ہے کہ وہ جلدموت کے منہ میں چلا جائے گا۔ اگر یہ صفحہ پڑھ لیا، تو  سمجھیں ناول نگار نے آپ کو  اس ڈور میں باندھ لیا، جس میں مختلف گانٹھوں سے، چھوٹی بڑی گانٹھوں سے یادیں محفوظ کر لی گئی ہیں۔ دھیرے دھیرے یہ گانٹھیں کھلتی جاتی ہیں، یادیں مناظر کی شکل اختیار کرتی جاتی ہیں۔ 

    مرکزی کردار کا ماضی، ماں کی موت، باپ کا جہان فانی سے کوچ کرنا، شادی، بچے اور رشتوں میں ابھرنے والی دراڑ؛ یہ ڈور میں لگائی جانے والی چھوٹی چھوٹی گانٹھیں ہی تو ہیں۔ یہی گانٹھیں ہمیں ناول کے دوسرے اہم ترین کردار سے روشناس کرواتی ہیں، جو جندر ہے، جس کی کوک کا پہلا کردار دیوانہ ہے۔

    اس دوران حقیقی  پہلوﺅں کے ساتھ ساتھ زندگی کے پراسرار  پہلوﺅں سے بھی ہمارا سامنا ہوتا ہے، جو ہمارے تجسس کو مہمیز کرتے ہیں۔

    آئیں،اس ناول کے چند پہلوﺅں پر بات کرتے ہیں۔

    کچھ تذکرہ موضوع اور پلاٹ کا

    گو ناول مختصر ہے، مگر کامیابی سے ایک جندروئی کی زندگی کے ماضی، حال اور متوقع مستقبل کو منظر کرتا ہے۔ مستقبل، جو اس کی موت ہے۔

    زمانی لحاظ سے خوب پھیلا ہوا یہ ناول مکانی لحاظ سے ایک ہی جگہ، ایک گاﺅں، بلکہ ایک جندر تک سمٹا ہے، جو اِس کا حسن بھی ہے، اور  اسے  محددو بھی کرتا ہے۔

    یوں تو یہ کئی چھوٹے بڑے موضوعات کا احاطہ کرتا ہے، مگر اصل موضوع ہے تنہائی، جو شروع سے آخر تک پھیلا ہوا ہے، جسے خوبی سے نبھایا گیا۔

    ناول میں واقعات کی ترتیب مکمل طور پر یادداشت سے نتھی ہے۔ پلاٹ میں ان واقعات کی ترتیب کا مناسب اہتمام کیا گیا ہے۔

    کردار کی کہانی

    یہ ناول دو کرداروں کی کہانی بیان کرتا ہے۔ ایک تو وہ شخص ہے، جوبراہ راست قاری سے کلام کرتا ہے ، جس کا نام ولی خان ہے، اور جو مرنے والا ہے۔

    اور دوسرا کردار جندر ہے، جہاں آخر چونگ پیسی جاچکی ہے کہ اب گاﺅں والے اِدھر نہیں آتے کہ گاﺅں میں مشینی جندر لگ گئے ہیں۔ تو اب صرف خاموشی ہے۔ بس بہتے پانی کا شور اور  جندر کی اداس کوک ہے۔

    اصل کردار تویہی دو ہیں۔ ہاں، ایک مضبوط کردار اور ہے۔ جندروئی کی بیوی حاجرہ ۔ ایک سخت جان کردار، جس کے احساسات انتہائی نوعیت کے ہیں۔ ولی خان کی زندگی میں جو ہل چل ہوتی ہے، اور پھر جو خاموشی در آتی ہے، وہ اِسی کردار کے وسیلے آتی ہے۔

    ایک کردار بابا جمال الدین بھی ہے، ایک قصہ گو۔ جو نمایندگی کرتا ہے قصہ گوئی کے قدیم فن کی، جو اب قصہ پارینہ ہوا۔

    احساس، جو منظر کیا گیا

    ”جندر“ احساسات کا ناول ہے۔ پہلا احساس تو  ہے تنہائی کا احساس۔ اور  یہ احساس منفی نہیں، کم از کم مرکزی کردار کے لیے نہیں۔ اس کے لیے یہ زندگی کا حسن ہے کہ اس کی نال جندر میں گڑی ہے، اور اُس کی کوک کے بنا وہ سونے سے  قاصر ہے۔

    اُسے اکیلے پن سے جنم لیتی محبت کے احساس کو  بھی ناول نگار نے خوبی سے منظر کیا ہے۔ ایک غیرفطری محبت کو۔ ایک جیوت انسان اور  ایک بے جان جندر کی محبت کو۔ اور یہی محبت اُسے معمول کی زندگی کے سمت جانے سے روکتی ہے۔

    مرکزی کردار کے احساسات کو الفاظ میں ڈھالنا ناول نگار کی بڑی کامیابی ہے،  جو موت کے ساتھ ساتھ اُس شخص کا بھی انتظار کر رہا ہے، جو سب سے پہلے اس کی لاش دریافت کرے گا۔

    اور کہیں کہیں اس طویل، خاموش انتظار میں ایک ڈوبتی ہوئی امید بھی ہے۔

    ناول نگار کا اسلوب

    جن الفاظ نے اردو فکشن کے قارئین کو ستایا، ان میں سے ایک تو” بیانیہ“ ہے، اور  دوسرا” اسلوب“ ہے۔ اِدھر اس تحریر میں اسلوب سے مراد وہ طرز بیان یا تکنیک ہے، جو فکشن نگار اختیار کرتا ہے۔ اور زبان بھی اس طرز بیان کی تخلیق کا جزو ہے۔

    زبان ، جو اختر رضا سلیمی نے برتی، وہ فکشن نگاری کے لیے موزوں ہے کہ وہ بڑی حد تک اُس زمان و مکان سے جڑی ہوئی ہے، جسے ناول میں منظر کیا گیا۔گو اس میں نامانوس الفاظ نہیں، تخلیقی پیچیدگی نہیں، البتہ یہ زبان اتنی بھی سہل نہیں کہ بس قاری سہولت سے پڑھتا چلا جائے۔ سیدھے سبھاؤ کے جملے کی افادیت سے انکار نہیں، مگر اسے لکھنے پر اصرار ہماری فکشن نگاری کو آگے بڑھنے سے روکے رکھتا ہے۔

    اختر رضا سلیمی کے ہاں رموز و اوقاف کے نپے تلے استعمال کے ساتھ ایک زرخیز جملے لکھنے کی للک نظر آتی ہے۔

    ایک ہی مقام سے شروع ہونے والی کہانی، مکانی اعتبار سے وہیں اختتام پذیر ہوتی ہے۔ ایسے میں کہانی فلیش بیک تکنیک ہی کے ذریعے آگے بڑھ سکتی ہے۔ اگر ناول طویل ہو، تو دہرانے جانے کے عمل کے باعث یہ تکنیک اکتاہٹ پیدا کرسکتی ہے،البتہ ادھر  ایسا معاملہ نہیں ۔

    حرف آخر

    ناول ایک پرپیچ فن، اور  اس کا تجزیہ، اس پر تبصرہ وقت طلب کام، البتہ اس مختصر تحریرکے اختتام پر  یہ کہے بنا چارہ نہیں کہ اختر رضا سلیمی کے قلم کے وسیلے ایک قابل مطالعہ بیانیہ ہم تک پہنچا، جو طویل خاموشی اور تنہائی میں جنم لینے والے احساسات تک لے جاتا ہے، اور انتظار کی کائنات میں اس اسرار کی بھی جھلک دکھاتا ہے، جس کے ہم گرویدہ ہیں۔

    یہ ناول جدید ، تیز رفتار، پرشور دنیا سے دور لے جاتا ہے۔ کسی ندی کے کنارے، جہاں ناول نگار خاموشی، تنہائی اور ایک قدیم جندر کی کوک سے ایک فن پارہ بناتا ہے۔ اِس فن پارے میں کہیں کہیں جدید رنگوں کے بھی اسٹروک ہیں، جوبیانیہ کا حصہ تو ضرور  ہیں، مگرکہیں کہیں اتنے جانے پہنچانے نہیں لگتے۔ جندروئی (ولی خان) کی مطالعے میں دل چسپی، بوڑھے قصہ گو(بابا جمال الدین) کو ناولز سنانا۔ ” آگ کا دریا “اور” اداس نسلیں “کا تذکرہ  ہمیں اضافی نہ بھی لگے، تب بھی اتنا قدیم بہ ہرحال نہیں، جتنے قدیم زمانے میں یہ ناول خاموشی سے ہمیں لے جاتا ہے۔

    مجموعی طور پر یہ ایک قابل مطالعہ ناول ہے، جو اختر رضا سلیمی کی فکشن نگاری سے جڑی امیدوں کو مہمیز کرتا ہے، اور ہم میں ان کے تیسرے ناول کے انتظار کی للک بڑھاتا ہے۔

    اور کیا یہ یہ فکشن نگار کی کامیابی نہیں؟

  • ناول دھماکا نہیں کرتا، بلکہ آہستہ آہستہ قاری میں سرایت کر جاتا ہے: مستنصر حسین تارڑ

    ناول دھماکا نہیں کرتا، بلکہ آہستہ آہستہ قاری میں سرایت کر جاتا ہے: مستنصر حسین تارڑ

    وہاں سیکڑوں پنچھی تھے، جو  ٹیلے کی سمت کھنچے چلے آئے تھے کہ اُنھیں خبر ملی تھی کہ وہ فسوں گر  ادھر  موجود ہے۔ فسوں گر، جس کی بانسری کی دھن نے انھیں گرویدہ بنا لیا ہے.

    وہ شخص ادھر موجود ہے، جس کے الفاظ ان کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ ہیں، جس کی کہانیاں ان کی رگوں میں دوڑتی ہیں۔

    تو وہ آرٹس کونسل آف پاکستان کی سمت آتے تھے، جہاں گیارہویں عالمی اردو کانفرنس جاری تھی۔

    [bs-quote quote=”فکشن بے یقینی کو معلق کرنے کا نام ہے، آپ کہتے ہیں کہ یہ ناقابل یقین ہے، مگر اس کی طاقت اسے معلق کر دیتی ہے، یہ اسی وقت ہوتا ہے، جب آپ بھٹکنے کو تیار ہوں” style=”style-7″ align=”left” author_name=”مستنصر حسین تارڑ”][/bs-quote]

    یہ مستنصر حسین تارڑ کا ذکر ہے۔ تارڑ، جو ایک امکان کا نام ہے۔ امکان کہ ادیب کو بھی عالم گیر محبت مل سکتی ہے،امکان کہ اب بھی الفاظ جاود جگا سکتے ہیں،  امکان کہ لکھاری کو بھی دیوانہ وار چاہا جاسکتا ہے۔

    لازوال ادیب گیبرئیل گارسیا مارکیز نے اساطیری شہرت کے حامل چے گویرا سے متعلق کہا تھا،’’میں اس کے بارے میں سیکڑوں برس تک لاکھوں صفحات لکھ سکتا ہوں۔‘‘ البتہ تارڑ صاحب سے متعلق ایسا کوئی بھی دعویٰ مناسب نہیں کہ ہمیں سیکڑوں برس میسر نہیں۔ البتہ اس بے بدل ادیب کے اس خصوصی انٹرویو سے قبل، جو ان کے تازہ ناول ’’منطق الطیر، جدید‘‘ کے گرد گھومتا ہے، تعارف ضروری ہے، چاہے وہ مختصر ہی کیوں نہ ہو۔

    وہ، جو جھنڈے کی طرح ممتاز ہے


    تارڑ صاحب آپ اپنا تعارف ہیں۔ 1939 لاہور میں آنکھ کھولی۔ گجرات کے ایک کاشت کار گھرانے سے ان کا تعلق ہے۔ اس قلم کار نے اردو ادب پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ جو اِن سے پہلے گزرے، اُن میں سے بیش تر کی یاد ذہن سے محو ہوئی، اورجو بعد میں آئے، اُن میں سے اکثر کے سر احتراماً جھک گئے۔

    آپ کی کئی جہتیں ہیں۔ سفرنامہ نویس، فکشن نگار، اداکار، اسکرپٹ رائٹر، ٹی وی میزبان، اور ہر شعبے میں اپنی مثال آپ۔ کہا جاسکتا ہے کہ تارڑ صاحب نے جس شے کو ہاتھ لگایا، اسے سونا بنا دیا۔

    چار سو ڈراموں میں لیڈ، مقبول ترین مارننگ شو کی میزبانی، مگر شوبز کی کہانی کے لیے ایک الگ نشست درکار، سو اپنی توجہ ادب پر مرکوز رکھتے ہیں۔

    ستر سے زاید کتب آپ کے قلم نکلیں، جو اپنے میدان میں مقبول ترین ٹھہریں۔ ’’نکلے تیری تلاش میں‘‘ نے اردو سفر نامے میں نئی جہت متعارف کروائی، ’’پیار کا پہلا شہر‘‘ اردو ناول کی صنف میں بیسٹ سیلر ٹھہرا، اور ناول ”بہاﺅ “ نے اردو فکشن کو اوج پرپہنچا دیا، جسے پڑھ کر ایک ہندوستانی نقاد پروفیسر خالد اشرف نے کہا تھا:’’اردو کا مستقبل اب لاہور سے وابستہ ہے، جہاں تارڑ رہتا ہے۔‘‘ ادبی جریدے ”ذہن جدید“ کے سروے میں یہ اردو کے دس بہترین ناولز کا حصہ بنا، اور بی بی سی نے اس کا موازنہ مارکیز کے ”تنہائی کے سو سال“ سے کیا۔

    [bs-quote quote=”’’منطق الطیر جدید‘‘ ایک مشکل کام تھا۔ ’’بہاؤ ‘‘کے بعد اگر کسی ناول پر یکسوئی سے کام کیا، تو  اسی پر کیا” style=”style-7″ align=”left” author_name=”مستنصر حسین تارڑ”][/bs-quote]

    ان کے ایک اہم ناول ’’اے غزال شب‘‘ کا ”لینن فور سیل“ کے عنوان سے انگریزی میں ترجمہ ہوا، جو عالمی ادب کے قارئین کویہ خبر پہنچتا ہے کہ اردو فکشن کا بہاﺅ اورگہرائی کیا ہے۔ حساس موضوعات کو منظر کرتے ناول ”راکھ“ نے 1999 میں وزیراعظم ادبی ایوارڈ اپنے نام کیا۔ اسے ایک جرمن ریسرچ نے برصغیر کا نمایندہ ناول قرار دیا۔

    ان کی کتب گذشتہ تیس برس سے شعبہ اردو، ماسکو یونیورسٹی میں پڑھائی جارہی ہیں، جہاں کے طلبا یہ کہتے ہیں کہ وہ اردو ادب کو فیض اور تارڑ کی وجہ سے جانتے ہیں۔

    تارڑ صاحب کو دوحہ قطر لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سے نوازا گیا،انھیں تمغہ برائے حسن کارکردگی پیش کیا گیا، ستارہ امتیاز پیش ہوا، مگر اصل اعزاز وہ عالم گیر محبت ہے، جو ان کے حصے میں آئی۔

    سوال و جواب کی دنیا


    سوال: فرید الدین عطار نے صدیوں، نسلوں کو گرویدہ بنایا، مولانا روم بھی ان سے متاثر تھے، آپ بھی انھیں مرشد کہتے ہیں، ایسے تخلیق کار کی تخلیق کردہ کائنات سے مماثل یا مشابہہ کائنات تخلیق کرنا کتنا بڑا چیلینج تھا؟

    تارڑ: فکشن نگار بنیادی طور پر اس خواہش میں مبتلا ہوتا ہے کہ وہ  بھی چھوٹا سا تخلیق کار بن جائے، تاکہ وہ اپنے تخلیق کار (خدا) کو بتا سکے کہ وہ بھی کسی حد تک قادر ہے۔ فرید الدین عطار کا کلاسیک منطق الطیر گذشتہ پچاس برس سے میرے مطالعے ہے، میری بیش تر کتابوں میں اس کے پرندوں کا تذکرہ آتا ہے، میرے ناول ’’خس و خاشاک‘‘ کا ایک کردار دریا کے کنارے بیٹھا ہوا ہے، اور اچانک پرندہ بن کر اڑ جاتا ہے، میری کتابوں ’’فاختہ‘‘ اور ’’پکھیرو‘‘ میں بھی پرندے ہیں۔

    [bs-quote quote=”جو محدود ذہن رکھتے ہیں، وہ عام طور کتابیں پڑھتے  ہی نہیں ہیں” style=”style-7″ align=”left” author_name=”مستنصر حسین تارڑ”][/bs-quote]

    اب سوال یہ ہے کہ یہ پرندے کیوں مجھے اپنی جانب کھینچتے ہیں؟ جیسے میں نے اردو کانفرنس میں کہا تھا کہ ہم بھی عطار کی طرح سچ کے تلاش میں ہیں، سچ ملے نہ ملے، یہ الگ بات ہے، تو میرا ناول ’’منطق الطیر جدید‘‘ فرید الدین عطار کو ٹریبوٹ ہے، ساتھ یہ کہنے کی بھی ہے کہ ہم جو آپ سے متاثر ہوئے ہیں، ہم بھی ایک چھوٹے سے تخلیق کار ہیں، آپ ہی نقش قدم پر چل کر اپنے پرندوں کے ساتھ اپنے سچ کی جستجو میں ہیں۔

    سوال: آپ کی کتابوں میں پرندے تو ابتدا سے ساتھ ہیں، لیکن یہ فیصلہ کب ہوا کہ انھیں ناول کی شکل دی جائے، کیا اس کے لیے ٹلہ جوگیاں کا سفر کیا گیا؟

    تارڑ: دراصل پچاس برس میں ہر شے بدل جاتی ہے، معاشرتی اور اخلاقی اقدار بدل جاتی ہیں، سوچ بدل جاتی ہے، فیشن تو بدل ہی جاتا ہے۔ ہمارے زمانے میں خدا حافظ کہا جاتا تھا، اب اللہ حافظ آگیا، اس وقت لڑکیاں اگر ’’یار‘‘ کا لفظ استعمال کریں، تو بہت معیوب سمجھا جاتا تھا، اب یہ عام ہے۔ مطلب یہ نہیں کہ اخلاق تباہ ہوا ہے، بلکہ  اقدار تبدیل ہوگئیں۔ تو اسی طرح سچ کا تصور بھی بدلا ہے۔ تو ہر فرد یہ جاننے کا خواہش مند ہوتا ہے کہ میں کون ہوں؟ کہاں سے آیا ہوں؟ کہاں جاؤں گا؟ یعنی ہر شخص کو ان ہی سوالوں کی جستجو ہوتی ہے۔ اگر وہ خوش قسمت ہو، تو ایک آدھ کا جواب مل جاتا ہے، اور نہیں بھی ملتا، تو وہ جدوجہد کرتا رہتا ہے۔ تو یہ ایک ایسی ہی کاوش ہے۔

    ’’منطق الطیر جدید‘‘ ایک مشکل کام تھا۔ ’’بہاؤ ‘‘کے بعد اگر کسی ناول پر یکسوئی سے کام کیا، تو  اسی پر کیا۔ کسی نے کہا  کہ اس میں عام طرز کے برعکس واقعات نگاری نہیں۔ تو میں نے جواب دیا کہ یہ اسی لیے مشکل ہے کہ کوئی واقعہ نہیں، ایک مسلسل کیفیت، ایک مسلسل واقعہ ہے۔ میں نے ٹلہ جوگیاں سے متعلق مطالعہ کیا، ویڈیوز دیکھیں، البتہ کوشش کے باوجود وہاں جا نہیں سکا، تو اپنے تخیل میں ایک ٹلہ جوگیاں بنا لیا، مگر احتیاط کی کہ کوئی ایسی شے نہ ہو، جو متصادم ثابت ہو۔ بعد میں ایک دوست نے ٹلہ جوگیاں چلنے کے لیے کہا، مگر تب میں نے منع کر دیا کہ اب مناسب نہیں۔ پھر ضروری نہیں کہ تخلیق کار وہاں جائے، جس جگہ کو اس نے موضوع بنایا ہو۔

    سوال: آپ نے ایک حساس موضوع پر قلم اٹھایا ہے، ادیان اور عشق، مردوں کے نمائندہ پرندے، عورتوں کے نمائندہ پرندے، ان کا سنجوگ؟

    تارڑ: مجھے اس میں فرید الدین عطار کی سپورٹ حاصل تھی۔ میں نے لکھتے ہوئے ان حوالوں، سہاروں کو پیش نظر رکھا، جیسے منصور حلاج، قرۃ العین طاہرہ۔ پھر اپنا نظریہ شامل کیا۔ پھر اس میں تاریخی حوالے بھی ہیں۔ خوش قسمتی سے، جو محدود ذہن رکھتے ہیں، وہ عام طور کتابیں پڑھتے  ہی نہیں ہیں۔

    سوال: ناول ’’خس و خاشاک زمانے‘‘ آپ کے دیگر ناولز سے نہ صرف ضخیم ہے، بلکہ اس کا کینوس بھی وسیع ہے، ہندوستانی فکشن نگار مشرف عالم ذوقی نے اسے کلاسیکی ناول سے میلوں آگے کی چیز قرار دیا، البتہ توقعات کے برعکس وہ زیادہ زیربحث نہیں آیا؟

    تارڑ: دراصل ضخیم ناول لوگ پڑھنے سے گھبراتے ہیں۔ جب جب میرے تین بہترین ناولز کا انتخاب کیا گیا، تو ہر شخص نے اپنی پسند کے مطابق چناؤ کیا۔ آج کل میرے ناول ’’ڈاکیا اور جولاہا‘‘ پر بات ہو رہی ہے، گو اسے چھپے ہوئے دس برس ہوگئے۔ تو ناول نظم یا غزل کی طرح دھماکا نہیں کرتا، وہ آہستہ آہستہ اپنی جگہ بناتا ہے، آہستہ آہستہ قارئین میں سرایت کرتا جاتا ہے۔ اگر سکت ہوتی ہے، تو باقی رہتا ہے، ورنہ نہیں رہتا۔

    [bs-quote quote=”لٹریچر میں واضح منزل سے انحراف کے حیران کن نتائج برآمد ہوتے ہیں” style=”style-7″ align=”left” author_name=”مستنصر حسین تارڑ”][/bs-quote]

    سوال: ’’منطق الطیر جدید‘‘ کی تکنیک پر بات کرتے ہوئے ممتاز نقاد اور دانش ور شمیم حنفی نے اس ضمن میں ’’یولیسس‘‘ کا حوالہ دیا تھا؟

    تارڑ: ہاں، اس میں جیمز جوائس کے یولیسس کی طرح کوئی باقاعدہ واقعہ نہیں ہے، اس تناظر میں کہہ سکتے ہیں۔

    سوال: آپ کے لکھنے کا ڈھب کیا ہے؟ ٹائپ کرتے ہیں، ہاتھ سے لکھتے ہیں؟

    جواب: نہیں میں ٹائپ نہیں کرتا، انگریزی میں جب کالم لکھتا تھا، تو ٹائپ رائٹر پر لکھتا تھا، ورنہ میز پر قلم کے ساتھ لکھتا ہوں، جب تک قلم سے نہیں لکھتا، بات نہیں بنتی۔ قلم سے بھی کچھ برآمد ہوتا ہے۔ ساڑھے سات بجے اسٹڈی میں چلا جاتا ہوں، ساڑھے دس گیارہ بجے تک وہاں رہتا ہوں۔

    سوال: آپ نے اپنی فکشن نگار ی سے متعلق ایک بار کہا تھا کہ آپ سفر سے قبل منزل سامنے رکھتے ہیں، مگر پھر نامعلوم کی سمت چلے جاتے ہیں؟

    جواب: کئی برس پہلے کی بات ہے، اسلام آباد کی ایک ادبی تقریب میں ممتاز مفتی میرے پاس آئے، اور کہا کہ ’’ٹی وی کی شہرت تمھیں کھا جائے گی، تم میں بڑا ادیب بنے کی صلاحیت ہے۔‘‘ میں نے کہا،’’مفتی صاحب، میں اس شہرت کو سنجیدگی سے نہیں لیتا۔‘‘ کہنے لگے،’’نہیں، ٹی وی چھوڑو، ورنہ میں تم سے بات نہیں کروں گا۔‘‘ خیر، بعد میں انھوں نے خط لکھا اور  تسلیم کیا کہ ان کا اندازہ  غلط تھا۔

    کچھ عرصے بعد پروفیسر رفیق اختر کے گھر ایک ملاقات ہوئی، وہاں ممتاز مفتی کے علاوہ اشفاق احمد اور بانو قدسیہ بھی موجود تھے۔ تو وہاں ممتاز مفتی نے اچانک کہا، ’’تارڑ، یہ جو تم لکھتے لکھتے اچانک نئی سمت چلے جاتے ہو، یہ تکنیک پروفیسر رفیق اختر سے مستعار لی؟‘‘ میں نے کہا کہ میں پروفیسر رفیق اختر کی قادر الکلامی اور تفسیر کا بڑا قائل ہوں، مگر یہ میرا اپنا طریقہ ہے۔

    ابتدا میں لکھنے والا بڑا محتاط ہوتا ہے، مگر بعد میں وہ نامعلوم کی سمت، اندھیری گلی کی سمت بھی چلا جاتا ہے۔ جس زمانے میں میں یورپ میں hitchhiking کرتا تھا، تو یوں ہوتا کہ کہیں اور جانا ہے، مگر جس شخص سے لفٹ لی، وہ کسی اور قصبے کی سمت جارہا ہے، تو اس سمت چل دیے، کیوں کہ اس کا اپنا چارم اور رومانس ہوتا ہے، یہی چیز لٹریچر میں ہوتی ہے کہ آپ جس واضح منزل کی سمت جارہے ہیں، اسے انحراف کر کے اس سمت چلے جاتے ہیں، جس کی آپ کو خبر نہیں، اور اس سے حیرت انگیز نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ فکشن بے یقینی کو معلق کرنے کا نام ہے، آپ کہتے ہیں کہ یہ ناقابل یقین ہے، مگر اس کی طاقت اسے معلق کر دیتی ہے، یہ اسی وقت ہوتا ہے، جب آپ بھٹکنے کو تیار ہوں۔

    سوال: ’’اے غزال شب‘‘ کے بعد ایک طویل وقفہ تھا، ناول کی سمت آپ بارہ برس بعد آئے، تو اب پھر ایک وقفہ ہے، یا کسی ناول پر کام کر رہے ہیں؟

    تارڑ: ’’اے غزال شپ‘‘ کے بعد میرا نہیں خیال تھا کہ پھر فکشن لکھوں گا، مگر پھر یہ (منطق الطیر جدید) سامنے آگیا، مگر فی الحال کوئی ناول ذہن میں نہیں ہے، ممکن ہے، یہ آخری ہو۔