Tag: ناول ترجمہ

  • دو سو نو ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    دو سو نو ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    اس ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
    تینوں انکل اینگس کے گھر پر ایسے نمودار ہو گئے، جیسے فرش سے دھواں اٹھتا ہو اور اگلے لمحے وہ انسانوں کا روپ اختیار کر جائے۔ مائری مک ایلسٹر اپنی بیٹی کو واپس آتے دیکھ کر اچھل پڑیں اور دوڑ کر اسے گلے لگا لیا۔ بلاشبہ یہ سب حیرت انگیز تھا، ناقابل یقین تھا، اور بلاشبہ خطرناک بھی۔ اس لیے وہ دل ہی دل میں گھبراتی رہی تھیں۔
    مائری ابھی ان کے کپڑے اتنے خراب ہونے کے بارے میں باز پرس کرنے ہی والی تھیں کہ اینگس نے پوچھا کہ اس بار وہ کہاں گئے تھے۔ ان کے سامنے قدیم کتاب کھلی ہوئی تھی، وہ یہ دیکھنا چاہ رہے تھے کہ ٹائم پورٹل سے اب اگلا کون آدمی آنے والا ہے۔ جبران نے بتایا کہ وہ اس بار اردن گئے تھے۔
    اینگس سے قبل جونی نے چونک کر کہا ’’اوہ اس کا مطلب ہے کہ اب بونتابی پہنچنے والا ہے یہاں۔‘‘ اینگس نے بھی کتاب پر نگاہیں دوڑا کر سر اثبات میں ہلایا اور کہا ’’تو تم نے اپنے اس بھائی کے لیے ہمارے اس دور کا کیا نام سوچ رکھا ہے۔‘‘
    جونی بولا کہ اس نے آنے والے قدیم انسان کے لیے جیسن کا نام سوچ رکھا ہے۔ جبران نے انھیں چراغ والے جن حکیم کے بارے میں تفصیل سے بتایا، وہ سن کر حیران رہ گئے۔ یعنی چراغ والا جن بھی اب سوچ ہو کر نظر آیا۔ کمال ہے۔ ان کے منھ کھلے کے کھلے رہ گئے۔ دانیال نے بیگ سے ایک اسکیچ نکال کر دکھایا اور کہا یہ دیکھو، حکیم ایسے دکھتا تھا۔ دانیال نے انھیں وہ چراغ بھی دکھایا اور سونے کا سکہ بھی جو حکیم نے اسے تحفتاً دیے تھے۔ لیکن چراغ میں اب کوئی جادو نہیں تھا۔ جبران نے بتایا کہ اسے چوہے کا ایک پیارا سا مجسمہ تحفے میں ملا، اور فیونا کو ایک ہار۔ فیونا نے ہار کا تعویذ کھول کر دیکھا تو اچھل پڑی، اس کے اندر حکیم دکھائی دے رہا تھا جو اسے دیکھ کر مسکرا دیا تھا۔ فیونا نے اسے جلدی سے پھر بند کر دیا۔
    اینگس نے ایسے میں کہا کہ اب یاقوت کو جادوئی گولے میں رکھے جانے کی ضرورت ہے۔ فیونا نے چونک کر کہا میں تو بھول گئی تھی، اس نے روبی نکال کر جونی کے ہاتھ پر رکھ دیا۔ اس کے اندر ڈریگن چمک رہا تھا۔ انکل اینگس نے جادوئی گولا میز پر رکھا اور جونی سے یاقوت لے کر اس کی جگہ رکھ دیا۔ پورا کمرہ اچانک روشنیوں سے جگمگا اٹھا، ڈریگن گھر کی دیواروں پر رقص کرنے لگے تھے۔ اینگس کے منھ سے نکلا ’’ایسا لگتا ہے کہ ہم جتنے زیادہ جواہرات اس گولے میں ڈالیں گے، رنگ اتنے ہی طاقت ور اور روشن ہوں گے۔‘‘
    کمرے میں گہری خاموشی چھا گئی تھی، اور حقیقت یہ تھی کہ وہ سب خاموش اور خوف زدہ کھڑے اپنے اردگرد چمکتی ہوئی روشنی کو دیکھ رہے تھے۔ کیوں کہ انھیں اچھی طرح علم تھا کہ یہ روشنی جادو سے بھری ہوئی ہے۔
    (جاری ہے۔۔۔)
  • دو سو سات ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    دو سو سات ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ تمام اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں

    فیونا نے چراغ کے جن سے کہا کہ اتنا سب کچھ ایک اشارے میں حاضر کر دیا لیکن اس دسترخوان پر کوئی ایک کانٹا یا چمچ دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ حکیم نے دانت نکال کر جواب دیتے ہوئے بتایا کہ یہاں اردن میں چمچے کانٹے استعمال نہیں ہوتے، لوگ انگلیاں ہی استعمال کرتے ہیں، اس لیے اب چپ چاپ کھا لو۔ دانیال مسکرایا میں اور جبران تو اس کے عادی ہیں، اس لیے ہمیں انگلیوں سے کھانے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے، اس کے بعد تینوں نے خوب سیر ہو کر کھانا کھایا، بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ کھانا ٹھونسا، کیوں کہ کھانے کے بعد جبران اڑن قالین پر ہاتھ اور ٹانگیں پھیلا کر لیٹ گیا، اس کا پیٹ پوری طرح پھول گیا تھا۔ فیونا اور دانیال کا بھی یہی حال ہو رہا تھا، فیونا نے اگرچہ کچھ کہا نہیں لیکن کراہتے ہوئے تکیے سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی اور پیر پھیلا دیے۔
    پھر حکیم نے تالی بجائی اور سب کچھ غائب ہو گیا۔ حکیم ان تینوں کو خوش دیکھ کر مسکرایا، اور جیب سے نکال کر انھیں الگ الگ قیمتی تحفے بھی دے دیے۔ جبران کو اس نے ایک سکہ دیتے ہوئے کہا یہ نوجوانی سے میرے پاس ہے اور یہ خوش قسمتی کا سکہ ہے، تم جب بھی اسے ہاتھ میں پکڑو مجھے یاد کر لینا۔ دانیال نے کہا آپ نے ہمیں ابھی تک یہ نہیں بتایا کہ آپ کو چراغ میں کیوں ڈال دیا گیا تھا، کیا آپ نے کسی کو قتل کیا تھا۔
    حکیم نے بتایا: ’’اگر تم واقعی جاننا چاہتے ہو تو سنو، 1200 سال پہلے میں یہاں سے بہت دور بغداد کے قریب ایک چھوٹے سے گاؤں میں رہتا تھا۔ میں نے کسی کو قتل نہیں کیا، میں نے کبھی چوری بھی نہیں کی۔ میں وہاں بس لوگوں کے مجمع میں قصے سنایا کرتا تھا، ہاں میں ایک قصہ گو تھا۔‘‘
    فیونا جلدی سے بولی: ’’اب ہمارے دور میں اسٹینڈ اپ کامیڈی کی جاتی ہے، قصہ گوئی کا دور ختم ہو چکا ہے۔‘‘
    حکیم بولنے لگا: ’’ ہر رات بازار میں لوگ میری کہانیاں سننے کے لیے رک جاتے تھے۔ لیکن پھر میرے پاس کہانیاں ختم ہو گئیں اور میں وہی پرانی کہانیاں بار بار سناتے ہوئے تھک گیا۔ ایک دن میں نے لوگوں کو ایک لطیفہ سنایا، لیکن کوئی نہیں ہنسا، انھوں نے مجھ سے کہا کہ جلدی کرو اور کہانی ختم کرو۔ اگلی رات میں نے پھر لطیفہ سنایا اور پھر دوسرا سنایا لیکن افسوس کہ میرے علاوہ اس پر کوئی نہیں ہنسا، میرا تو خیال تھا کہ میرے لطیفے کافی مضحکہ خیز ہیں۔ پھر ایک دن سلطان بازار کے پاس آکر رکا، اس نے میرا بڑا ذکر سنا تھا۔ مجھے یہ جان کر بہت جوش آیا اور میں نے ایک بڑی غلطی کر دی، اس رات خاص طور پر میں نے کہانیاں سنانے کی بجائے ایک کے بعد ایک لطیفہ سنایا۔ سلطان کو شدید مایوسی ہوئی اور اس نے حکم دیا کہ اگر میں نے یہ لطیفے نہ سنانے کا وعدہ نہ کیا تو مجھے جادو کے چراغ میں ڈال دیا جائے گا، اور میں نے انکار کر دیا تو مجھے چراغ میں بند کر کے اسے صحرا میں پھینک دیا گیا۔‘‘
    فیونا نے کہا ایک تحفہ میں بھی آپ کو دینا چاہتا ہوں، پھر اس نے جیب سے ایک چھوٹا سا پیکٹ نکال کر اسے تھما دیا۔ حکیم حیرت سے اس پیکٹ کو دیکھنے لگا۔ فیونا بولی اسے کھولو اور اس میں موجود اسٹکس میں سے ایک نکال کر منھ میں ڈال لو، اور ہاں اسے ببل گم کہتے ہیں۔
    حکیم نے ان کے کہنے کے مطابق ڈرتے ڈرتے ایک ببل گم منھ میں رکھ کر چبایا، اگلے ہی لمحے اس کے منھ میں مٹھاس پھل گئی۔ کچھ دیر بعد وہ بولا کیا اسے بس یوں ہی چباتے رہنا ہے۔ فیونا ہنس کر بولی، ابھی ایک اور تماشا دکھاتی ہوں ٹھہریں۔ پھر اس نے بھی ایک ببل گم منھ میں ڈال کر چبانا شروع کیا اور پھر اچانک اسے دانتوں سے باہر نکال کر اس میں ہوا بھری اور بلبلا بنا دیا۔ دھیرے دھیرے وہ فیونا کے منھ پر بڑا ہوتا گیا اور پھر اچانک پھٹ گیا اور اس کی بلبلہ اس کی ناک پر پھیل گیا۔ جبران اور دانیال ہنسنے لگے، چراغ والا جن بھی ہنس پڑا۔ فیونا بولی جب بھی آپ فارغ ہوں اور بور ہو رہے ہیں تو ببل گم چبا لیا کریں۔
    اور پھر وہ لمحہ آ گیا جب حکیم نے رخصت ہونا تھا، وہ اس وقت ریت پر کھڑے تھے، حکیم اپنے اڑن قالین پر بیٹھ گیا اور ان کی طرف جھک کر بولا، کیا تم واقعی جاتے جاتے ایک لطیفہ نہیں سننا چاہو گے مجھ سے؟ تینوں کے منھ سے بہ یک وقت نکلا ’’نہیں۔‘‘ حکیم نے کندھے اچکائے اور ہوا میں اڑتا چلا گیا۔ فیونا نے گہری سانس لے کر ان دونوں کی طرف دیکھا، جبران آہستگی سے بولا، ہمارے بھی جانے کا وقت آ گیا ہے۔ تینوں نے ایک دوسرے کا ہاتھ تھام لیا اور فیونا منتر پڑھنے لگی۔۔۔ دالث شفشا یم بٹ ۔۔۔
    (جاری ہے۔۔۔)
  • ایک سو بیاسی ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو بیاسی ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    ناول کی گزشہ اقساط پڑھیں

    فیونا نے پوچھا کہ یہ کب سے یہاں پڑا ہوا ہے؟ جیزے نے جواب دیا کہ بس آدھا گھنٹا ہی ہوا ہوگا۔ جیزے اس بات پر حیران ہو رہا تھا کہ ڈریٹن اسٹیلے نے آخر بالیاں کیوں پہنی ہوئی ہیں، بالیاں تو عورتیں پہنتی تھیں۔ اس نے اپنی زندگی میں کبھی کسی مرد کو بالیاں پہنے نہیں دیکھا تھا۔ فیونا نے مسکرا کر بتایا کہ اب دنیا بدل چکی ہے، مرد بھی بالیاں پہنتے ہیں اور کسی کسی کے ساتھ تو بالیاں اچھی لگتی ہیں لیکن اس ڈریٹن کے ساتھ بالکل نہیں، یہ تو ایک درندے کی طرح لگتا ہے۔

    جب وہ سب چائے نوش کر رہے تھے تو ایسے میں ڈریٹن دھیرے دھیرے ہوش میں آ گیا۔ اسے سر میں درد محسوس ہونے لگا جہاں جیزے کی زبردست ٹھوکر لگی تھی۔ اس نے دیکھا کہ فیونا اور دوسرے لوگ بیٹھے چائے کے گھونٹ بھر رہے ہیں اور ان کے درمیان گپ شپ چل رہی ہے۔ وہ ڈریٹن سے بالکل غافل ہو چکے تھے، ایسے میں ڈریٹن کو محسوس ہوا کہ نشہ اترنے کے بعد اس کی طاقتیں واپس آ گئی ہیں۔ اس نے سوچا کہ اب یہاں سے فوراً نکل جانا چاہیے۔ اس نے جادو کے زور سے خود کو چھوٹا کر دیا، اور اتنا سکڑ گیا کہ رسیوں سے بہ آسانی نکل آیا۔ اس نے خود کو ایک چوہے کے سائز جتنا بنا دیا تھا، اس کے باوجود وہ ڈر ڈر کر دروازے کی طرف بڑھنے لگا اور بار بار پیچھے مڑ کر دیکھتا رہا۔ دروازے پر پہنچ کر وہ اس کے نیچے آسانی سے رینگ کر باہر نکل گیا۔ عین اسی وقت جیفری اور اینگس اپنے سفر سے واپس پہنچے تھے، ڈریٹن فورا وہاں پڑی دودھ کی بوتل کے پیچھے چھپ گیا۔ وہ دونوں اسے نہ دیکھ سکے۔ جیسے وہ اندر چلے گئے ڈریٹن اپنے نارمل سائز میں آ گیا اور محل کی جانب سے تیز تیز قدموں سے چلنے لگا۔
    جیفری اور اینگس بھی چائے کے ساتھ دیگر لوازمات سے لطف اندوز ہونے لگے۔ ایسے میں جیزے نے اینگس سے پیچھے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ’’ڈریٹن کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟‘‘
    انکل اینگس نے بے اختیار مڑ کر دیکھا تو وہاں کسی کو نہ پایا۔ انھوں نے حیران ہو کر پوچھا: ’’آپ کس بارے میں پوچھ رہے ہیں؟ مجھے تو ڈریٹن نظر نہیں آیا۔‘‘
    جیزے نے یہ سن کر پیچھے دیکھا اور اچھل پڑا۔ ’’ارے، ڈریٹن کہاں چلا گیا؟ میں نے تو اسے رسیوں کے ساتھ مضبوطبی سے باندھا تھا، اس نے کیسے چھڑایا خود کو؟‘‘ جیک نے کہا کہ اس نے تو دروازہ کھلنے کی آواز بھی نہیں سنی۔ فیونا نے کہا: ’’میں جانتی ہوں کہ اس نے یہ کیسے کیا، وہ سکڑ کر دروازے کے نیچے سے باہر گیا ہے۔‘‘
    جونی نے اہم بات کی: ’’یہ بات تو صاف ہو گئی ہے کہ ڈریٹن جادوئی گولے اور کتابوں کے لیے اتنی بری طرح سے تڑپ رہا ہے کہ ان کے حصول کے لیے کوئی بھی غیر معقول کام کرنے سے نہیں کتراتا۔ اس لیے ہم اب اور بھی زیادہ احتیاط کرنی ہوگی اور دیگر قیمتی پتھروں کے حصول کو بھی تیز تر کرنا ہوگا۔‘‘
    فیونا کرسی سے اٹھ کر جیفری کے پاس گئی اور سخت ناراضی والے لہجے میں اسے مخاطب کیا: ’’گلیشیئر میں ہماری ملاقات کرسٹل سے ہوئی تھی۔ یاد ہے نا آپ کو وہ۔ شکر ہے کہ اب وہ آزاد ہے لیکن آپ آخر کیسے اتنے طویل عرصے کے لیے اسے گلیشیئر کے اندر رہنے پر مجبور کر سکتے ہیں؟ وہ گلیشیئر تو ویسے بھی تقریباً ٹوٹنے والا تھا اور ایسا ہوتا تو کرسٹل آزاد ہو جاتی اور زمرد بھی کھو جاتا۔‘‘
    جیفری یہ سن کر چونک اٹھا: ’’اوہ تو آپ کرسٹل سے ملے۔ مجھے افسوس ہے کہ اس بات کا مجھے خیال تک نہ آیا کہ وہ اس پر ناخوش ہوگی۔‘‘ اس نے اپنی بھوری آنکھیں فیونا پر جما کر کہا: ’’یہ بہت پرانی بات ہے، لیکن مجھے افسوس ہے اس پر اور میں معذرت خواہ ہوں اس کے لیے۔‘‘
    جونی نے مداخلت کی اور کہا کہ جبران اور دانیال کو لانے کا وقت ہے تاکہ اگلے قیمتی پتھر کے لیے جایا جا سکے۔ اس کے بعد وہ مائری اور فیونا کو لے کر اینگس کے گھر سے نکل گیا۔ وہ جبران کے گھر پہنچے تو مائری نے شاہانہ اور بلال سے درخواست کی کہ وہ جبران اور دانیال کو اینگس کے ہاں کچھ دیر کے لیے لے جانا چاہتے ہیں۔ انھوں نے مہمانوں کو چائے کی پیش کش کی لیکن وہ جلدی میں تھے، جبران اور دانیال کو لے کر واپس ہو لیے۔ بلال نے جونی سے کہا کہ وہ اپنے بھائیوں کے ساتھ آئے تاکہ شکار پر نکلیں۔ بلال نے کہا کہ وہ انھیں بندوق کے ساتھ بطخ کا شکار سکھائیں گے، اور ہو سکتا ہے کہ ہرن، خرگوش اور تیتر بھی ہاتھ آ سکیں۔ جونی نے بھی جلدی میں ہامی بھر لی۔
    (جاری ہے….)
  • ایک سو انتالیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو انتالیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    اس ناول کی تمام اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں

    بس اسپیکر سے رینجر کی آواز گونج اٹھی: ’’ہم وائٹ ہارس پہنچ گئے ہیں، ہمارے ساتھ سفر کا لطف اٹھانے کا بہت شکریہ۔‘‘
    ایک ایک کر کے سب بس سے اترنے لگے۔ ڈریٹن کے خراٹوں نے بتایا کہ وہ ابھی تک سو رہا ہے۔ فیونا نے شین سے کہا کہ وہ یاد رکھیں کہ کل گلیشیئرز دکھانے لے جانا ہے۔ شین نے مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا۔ فیونا نے ڈریٹن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ’’کاش یہ اگلے سال تک یوں ہی سوتا رہے!‘‘
    تینوں بس اسٹیشن سے نکل کر ٹاؤن کی طرف چل پڑے۔ ’’میرا خیال ہے کہ حسب معمول سب سے پہلے کوئی بینک تلاش کرنا چاہیے۔‘‘ دانیال نے خیال ظاہر کیا تو فیونا نے کہا کہ کینیڈا ہونے کی وجہ سے یہاں برطانوی کرنسی چل سکتی ہے، اگر ضرورت پڑی تو بعد میں تبدیل کر لیں گے۔ اس لیے سب سے پہلے ہوٹل تلاش کرنا ہوگا، کیوں کہ آج رات یہیں گزارنی ہوگی۔ جبران کے پوچھنے پر کہ آج کون سا دن ہے، فیونا نے کہا: ’’اسکاٹ لینڈ میں اس وقت جمعہ کی سہ پہر ہے تو یہاں یوکان میں جمعہ کی صبح۔‘‘ انھوں نے وہاں ایک قطار میں کئی ہوٹل دیکھے لیکن اب ان میں انتخاب کا مرحلہ باقی تھا۔ تینوں ایک کے بعد ایک ہوٹل دیکھنے لگے لیکن کسی نے بھی انھیں متاثر نہیں کیا۔ جبران نے منھ بنا کر کہا: ’’میرا خیال ہے کہ ہماری عادتیں بگڑ گئی ہیں، سیچلز میں اتنا شان دار ہوٹل دیکھنے کے بعد شاید ہی ہمیں کوئی دوسرا پسند آ جائے۔ چلو، ان میں سے ایک چُن کر اسے اندر سے دیکھتے ہیں۔‘‘ فیونا نے ایک سائن بورڈ کی طرف اشارہ کیا: ’’یہ کیسا رہے گا؟ ریورز ایج اِن!‘‘
    تینوں اندر گئے، کاؤنٹر پر فیونا نے برطانوی کرنسی دی تو معلوم ہوا کہ کرنسی کارآمد ہے، تینوں نے اطمینان کا سانس لیا۔ انھیں ایک کمرے کی چابی دی گئی تو وہ سیڑھیاں چڑھ کر اپنے کمرے کی طرف جانے لگے۔ جبران نے کاؤنٹر سے اٹھایا ہوا بروشر دکھا کر کہا کہ اس میں وائٹ ہارس سے متعلق کچھ حقائق درج ہیں۔ فیونا نے کہا کہ اسے نہیں لگتا کہ اس میں کوئی دل چسپ بات ہوگی۔ وہ کمرے میں داخل ہوئے تو یہ دو بستروں پر مشتمل ایک درمیانے سائز کا کمرہ تھا۔ جبران ایک بیڈ پر بیٹھ کر بولا: ’’یہ یوکان کا کیپیٹل ہے اور یہاں کی آبادی صرف 28 ہزار ہے۔‘‘ فیونا دوسرے بیڈ پر چھلانگ مار کر بیٹھ گئی اور کہا: ’’حیرت ہے اتنی پیاری جگہ ہے اور لوگ اتنے کم!‘‘
    ’’آگے تو سنو۔‘‘ جبران بتانے لگا: ’’یہاں کا پرندہ بڑے سائز والا پہاڑی کوا ہے اور یہاں سونے کی تلاش کرنے والوں کا ہجوم لگا رہتا ہے۔ میمتھ یعنی عظیم الجثہ قدیم ہاتھی اور نوکیلے دانتوں والے ٹائیگرز اسی علاقے میں گھومتے پھرتے تھے۔‘‘
    ’’ہاں، یہ ہوئی نا بات۔‘‘ دانیال اچھل کر بولا: ’’میں تو نوکیلے دانتوں والے ٹائیگرز سے ملنا چاہوں گا۔‘‘
    فیونا نے ہوٹل سے باہر نکل کر گھومنے کی رائے دی تو باقی دونوں بھی فوراً تیار ہو گئے۔ وہ دریائے یوکان کے کنارے چلنے لگے، دانیال نے دیکھا کہ دریا میں سالمن مچھلی بہاؤ کی مخالف سمت میں تیر رہی ہے، وہ حیران ہوا تو جبران نے بتایا کہ سالمن ہمیشہ الٹی سمت تیرتی ہے۔ جبران نے ان کے سامنے اپنا ایک عجیب تصور بیان کر دیا: ’’میں تصور کر رہا ہوں کہ ہمارے سامنے ایک بہت بڑی جسامت والا میمتھ کھڑا ہے، اس کے لمبے لمبے بال لہرا رہے ہیں اور وہ اپنی سونڈ پانی میں ڈال کر پانی پی رہا ہے۔‘‘
    (جاری ہے…)
  • ستّر ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    اس ناول کی تمام اقساط پڑھنے کے لیے لنک کھولیے

    جمی نے فیونا کو بہلانے کی کامیاب کوشش کی، اور کہا کہ وہ اینگس کے ساتھ مل کر اُس چیز کو پکڑنے کے لیے ایک پھندا لگائیں گے، بس اتنی سی بات ہے اس لیے اسے پریشان نہیں ہونا چاہیے۔ پھر وہ تینوں جیزے کے ساتھ نکل گئے۔ بچوں کے جانے کے بعد اینگس نے جمی سے پوچھا: ’’کیا وہ بھاگ گیا ہے؟‘‘ جمی نے جواب دیا: ’’ہاں، میں نے اسے اپنی طاقت کی ایک جھلک دکھا دی ہے۔‘‘

    وہ دونوں اندر چلے گئے تو جمی نے کہا: ’’جیسا کہ تم اب جادوئی گولے اور اس کے تمام رازوں سے آشنا ہو گئے ہو، اب مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ میں آپ کو اپنی اصلیت کے بارے میں بتا ہی دوں۔‘‘

    اینگس نے کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا: ’’ٹھیک ہے بتاؤ، تمھارے پاس کیا راز ہے؟‘‘

    جمی بھی ایک کونے میں پڑے صوفے پر دھم سے بیٹھ گیا: ’’جونی کا نام آپ نے سنا ہوگا، وہ دراصل آلرائے کیتھمور ہے۔‘‘ جمی نے بتانا شروع کر دیا۔ اینگس کو حیرت کا اتنا زور دار جھٹکا لگا کہ وہ کرسی سے گرتے گرتے بچے۔ ’’آلرائے کیتھمور … یعنی تاریخ نویس … یہ کک … کیسے ممکن ہے … میرے پاس تو اس کی قدیم کتاب ہے۔‘‘

    ’’ہاں میں جانتا ہوں کہ تمھارے ہی پاس ہے وہ اور جادوئی گولا بھی تمھارے قبضے میں ہے۔‘‘ جمی کہنے لگا: ’’قصہ یہ ہے کہ کنگ کیگان کا جادوگر زرومنا جادوگروں کی سرزمین زیلیا لوٹ رہا تھا تو میں نے اس سے درخواست کی کہ مجھے ایک زمانے سے دوسرے زمانے میں منتقل ہونے کا طریقہ بتا دے۔ جب بھی یہ کتاب کھولی جاتی ہے آلرائے اپنے زمانے سے مستقبل میں چلا جاتا ہے۔ یہ کسی کو نہیں پتا لیکن یہ کتاب خود جادوئی ہے۔ فلسطین میں جب کنگ کیگان کہیں بھی دکھائی نہیں دیے تو ہم برسوں تک وہاں حیران و پریشاں گھومتے رہے۔ وہ جونی یونی آلرائے کیتھمور ہی تھا جس نے ان بارہ آدمیوں کو ڈھونڈ نکالا۔ یہ کوئی آسان کام نہیں تھا۔ اس کے بعد ہم سب مختلف راہوں پر نکل گئے۔ ایک زمانے سے دوسرے زمانے میں منتقل ہونے کا جو راز ہے، اس کا مستقبل والا حصہ اس وقت قلعہ آذر ہی میں ہے۔ اسی کے ذریعے ہم آج یہاں موجود ہیں۔ پہلی مرتبہ جب بچوں نے وہ کتاب ڈھونڈ نکالی اور اسے کھولا تو جونی وہاں پہنچ گیا، لیکن وہ خاموشی کے ساتھ وہیں قلعہ آذر ہی میں ٹھہرا رہا اور دیکھتا رہا کہ آگے کیا ہوتا ہے۔ جب اگلے دن بچے پھر قلعے میں آئے اور انھوں نے جادوئی گولا بھی ڈھونڈ لیا تو جونی پھر بھی وہیں رہا۔ تب اس نے فیونا کے بارے میں جانا۔ پھر جب جادوئی گولے میں پہلا قیمتی پتھر رکھا گیا تو میری واپسی ہوئی۔‘‘

    جمی ایک لمحے کے لیے ٹھہرا اور پھر بولنے لگا: ’’میرا نام کووان ہے، میں ہی وہ شخص ہوں جس نے سیاہ آبسیڈین ہائیڈرا میں چھپایا تھا۔ جونی یعنی آلرائے نے ایک بس میں چڑھ کر فیونا کی ماں مائری کے ساتھ ایک اتفاقی ملاقات کا ڈراما رچایا اور پھر یہیں سے کہانی شروع ہو گئی۔ اسے معلوم تھا کہ جلد ہی میں بھی اب نمودار ہو جاؤں گا۔ پتھر حاصل کرنے کے لیے فیونا نے بلاشبہ بہت بہادری دکھائی۔ جس طرح اس نے پھندوں پر قابو پایا وہ کسی معجزے سے کم نہیں ہے۔ میرے خواب و خیال میں بھی یہ بات نہیں آئی تھی کہ کوئی اس اینٹ سے قیمتی پتھر نکال بھی سکتا ہے۔ وہ پھندے تیار کرنے کے لیے میں نے اور جادوگر زرومنا نے بہت سخت محنت کی تھی۔ ان سے بچ نکلنا بلاشبہ فیونا اور اس کے دوستوں کا ایک کارنامہ ہے، یقین جانو، مجھے فیونا اور اس کے دوستوں پر فخر محسوس ہوا۔ پھر جب آئس لینڈ میں بچوں نے دوسرے پتھر مرجان کو بھی حاصل کر لیا تو پونڈ، میرا مطلب ہے کہ جیزے بھی اس زمانے میں پہنچ گیا۔ جیسے جیسے فیونا اور اس کے ساتھی باقی ہیروں کو ڈھونڈ نکالتے جائیں گے، ہم بارہ ایک ایک کر کے نمودار ہوتے جائیں گے۔ لیکن میں آپ کو تنبیہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہم نے جو پھندے تخلیق کیے ہیں وہ نہایت ہی خطرناک اور جان لیوا ثابت ہو سکتے ہیں۔‘‘

    جمی پوری کہانی سنا کر خاموش ہو گیا تو اینگس نے اپنے سینے میں کافی دیر سے قید سانس کو ایک دم سے آزاد کر دیا۔ اینگس نے کافی طویل سانس کھینچی اور کہا: ’’تو یہ ہے تمھاری داستان … ہووں … کافی دل چسپ اور حیرت انگیز ہے۔ لیکن تم سب یہاں پہنچے کیسے؟ اور اُس وقت کیا ہوگا جب بارہ کے بارہ ہیرے جادوئی گولے میں نصب کر دیے جائیں گے؟‘‘

    اینگس نے یہ کہہ کر ایک چاکلیٹ اٹھا کر اسے توڑا، آدھا جمی کو دیا اور آدھا خود کھانے لگا۔ جمی نے چاکلیٹ منھ میں رکھتے ہوئے جواب دیا: ’’ہم بھی جونی کی طرح اسی ٹائم پورٹل کے ذریعے ایک زمانے سے دوسرے زمانے میں سفر کرتے ہیں۔ جب ہم ہیرے چھپانے جا رہے تھے تو جادوگر زرومنا نے ہمیں ٹائم پورٹل کو استعمال کرنے کا طریقہ بتا دیا تھا۔ ہاں جب سارے ہیرے جمع ہو جائیں گے تو آلرائے اور ہم بارہ اسے لے کر فلسطین جائیں گے، جیسا کہ صدیوں پہلے کنگ کیگان نے ہمیں حکم دیا تھا۔ جب جادوئی گولا مکمل ہو جائے گا اور کنگ کیگان اسے اپنے قبضے میں لے لیں گے تو ان کا خاندان ایک بار پھر ان سے آن ملے گا۔ اگرچہ وہ مر چکے ہیں لیکن ان کی موت سے چند ہی دن قبل جادوگر زرومنا نے انھیں ٹائم پورٹل دے دیا تھا۔ زرومنا نے کچھ ایسا انتظام کیا تھا کہ جیسے ہی آخری پتھر جادوئی گولے میں نصب ہوگا، وقت کنگ کیگان اور اس کے خاندان کے لیے پیچھے چلا جائے گا، اور وہ واپس اسی زمانے میں پہنچ جائیں گے جب انھیں قتل کیا جا رہا تھا۔ یہ دراصل انھیں قتل ہونے سے بچانے کے لیے ہے۔ زرومنا بھی ایک بار پھر جادوئی سرزمین زیلیا سے نکل کر اپنے آقا کی خدمت میں پہنچ جائے گا، اور اس کے بعد جادوئی گولا اس کی اصل سرزمین پہنچا دیا جائے گا۔‘‘

    جمی نے بات مکمل کر دی تو اینگس نے حیرت سے پوچھا: ’’تمھارا مطلب ہے کہ گولا یمن پہنچایا جائے گا؟‘‘

    (جاری ہے)

  • ستاون ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ستاون ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    پچھلی تمام اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک کو کھولیے

    ’’رک جاؤ جبران، واپس آ جاؤ، ہم نے یہ مہم ایک ٹیم کی صورت سر کرنی ہے، ہمیں تمھاری ضرورت ہے۔‘‘ فیونا نے اسے آواز دی۔ ’’بہادر بنو اور جلدی واپس آؤ، دیکھو یہ ٹرال نہیں غالباً روشنی کی وجہ سے کسی چیز کا عکس بن رہا ہے۔‘‘

    جبران کے قدم رک گئے۔ وہ مڑ کر واپس ان کے پاس آ گیا لیکن وہ کچھ بڑبڑا رہا تھا۔ آگ نے پورے غار کو روش کیا ہوا تھا، جس میں وہ ہر چیز کو دیکھ سکتے تھے، تاہم آخری سرا اب بھی اندھیرے میں تھا۔ فیونا چند منٹ مزید خاموش کھڑی سوچتی رہی اور پھر بولی: ’’مرجان بس ذرا سا اور آگے ہے، میں وہ جگہ بھی دیکھ سکتی ہوں جہاں پتھر کو چھپایا گیا ہے۔ بس چند ہی قدم آگے ہے۔‘‘

    یکایک ایک گونج دار آواز نے ان کے دل دہلا دیے۔ ’’یہ … یہ کیا تھا… چچ … چلو فیونا واپس چلتے ہیں۔‘‘ جبران پر بری طرح گھبراہٹ طاری ہو گئی تھی۔

    غار کے آخری سرے سے ایک اور گڑگڑاہٹ جیسی آواز گونجی۔ دانیال نے فیونا کے کان میں سرگوشی کی: ’’یہ ٹرال کی آواز ہے۔‘‘

    پھر ایک چیز ان کی طرف بڑھتی دکھائی دی۔ جبران چلایا: ’’یہ ہمیں کھانے آ رہا ہے۔‘‘
    تقریباً بیس فٹ اونچا ٹرال ان کے سامنے کھڑا تھا اور سبز آنکھوں سے انھیں اوپر دیکھ رہا تھا۔ ’’اس کی ناک واقعی بہت بڑی ہے۔‘‘ دانیال کے منھ سے ڈری سی آواز نکلی۔ اچانک ٹرال غرایا۔ اس کی گونج دار آواز سے انھیں کانوں کے پردے پھٹتے ہوئے محسوس ہوئے۔
    فیونا کو اس سے ڈر بالکل بھی محسوس نہیں ہوا۔ اس نے کہا کہ یہ تو بہت کاہل مخلوق ہے، لیکن لگتا ہے اسے غصہ آ رہا ہے۔ فیونا نے دونوں سے کہا کہ کوئی ترکیب سوچو کہ اس سے نجات کیسے حاصل کی جائے۔

    انھوں نے دیکھا کہ ٹرال نامی اس درندے کے کپڑے پھٹے ہوئے تھے، جس کے چیتھڑے اس کے بازوؤں سے لٹک رہے تھے۔ اس کی ٹانگوں کی جلد یوں دکھائی دے رہی تھی جیسے وہ چھیلی گئی ہو۔ اس کے جسم پر موٹے موٹے بال اگے ہوئے تھے۔ اس نے جوتے نہیں پہنے تھے اور وہ دانیال کے پمفلٹ میں لکھی گئی تفصیل کے عین مطابق تھا۔

    دانیال بولا: ’’پمفلٹ میں لکھا ہے کہ یہ درندے سورج کی روشنی سے سخت نفرت کرتے ہیں کیوں کہ اگر سورج کی شعاعیں ان سے ٹکرائیں گی تو یہ جل جائیں گے۔ اس لیے فیونا تم ڈھیر سے ساری آگ بھڑکا کر اسے مار سکتی ہو۔‘‘

    جبران کسی اور تجویز کے انتظار کے حق میں نہیں تھا، اس لیے وہ پلٹا اور بھاگنے کے لیے پر تولنے لگا۔ اچانک غیر متوقع سی بات ہو گئی تھی، ٹرال آگے کی طرف ایک قدم بڑھا تھا اور ساتھ ساتھ وہ آگے کی طرف خاصا جھک بھی گیا تھا، جیسے انھیں پکڑنا چاہتا ہو۔ اس کے ساتھ ہی وہ ایک بار پھر کان پھاڑ غراہٹ کے ساتھ چیخا تھا۔ دانیال اور فیونا بچاؤ کی جبلت کے تحت تیزی سے پیچھے ہٹ گئے تھے لیکن جبران کی ٹانگیں ڈر کے مارے لڑکھڑا گئیں، جس کی وجہ سے وہ پیچھے نہ ہٹ سکا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ درندے نے ہاتھ بڑھا کر اسے شرٹ سے پکڑ کر فضا میں بلند کر لیا۔

    ’’بچاؤ … بچاؤ … درندے نے مجھے پکڑ لیا ہے۔‘‘ جبران غار کی چھت کے قریب جھولتے ہوئے ڈری ہوئی آواز میں چلایا۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ سمجھتے، درندہ مڑ کر اندھیرے میں غائب ہو گیا۔ ’’یہ … یہ کیا ہو گیا فیونا، ٹرال تو جبران کو کھا جائے گا۔‘‘ دانیال ڈر اور بے چینی سے پاگل ہونے لگا تھا۔ ’’ہم یہاں کھڑے نہیں رہ سکتے، ہمیں کچھ کرنا ہوگا۔‘‘
    ’’مجھے سوچنے دو … مجھے سوچنے دو۔‘‘ فیونا کے چہرے پر اب خوف کی جگہ غصہ چھا گیا تھا۔ ’’کاش اس وقت وہ ڈریگن ہمارے پاس ہوتا۔‘‘

    ’’لیکن ڈریگن ہمارے پاس نہیں ہے، جلدی کرو فیونا، وہ اسے دور لے جا رہا ہے، کیا وہاں کوئی دوسرا غار بھی ہے؟‘‘

    اسی لمحے جبران کی چیخ اندھیرے میں گونج کر رہ گئی تھی۔ فیونا لاوے سے بنے ایک پتھر پر بیٹھ کر بولی: ’’میرے خیال میں ہمیں پہلے قیمتی پتھر مرجان کو حاصل کرنا چاہیے، اس کے بعد جبران کے پیچھے جانا چاہیے، کیوں کہ درندہ اسے نہیں کھائے گا۔ کم از کم اتنی جلدی نہیں، کیوں کہ ٹرالز کو کچا گوشت پسند نہیں ہوتا، انھیں اپنی خوراک آگ پر بھون کر کھانا پسند ہے۔‘‘

    ’’فیونا …‘‘ دانیال چلایا۔ ’’وہ درندہ جبران کو زندہ بھوننے جا رہا ہے اور تم مرجان کے متعلق سوچ رہی ہو۔‘‘

    ’’دیکھو دانیال، مجھے غلط مت سمجھو۔ مجھے پھر سے اپنے اندر سے ایسے اشارے مل رہے ہیں اور میں اس کی وضاحت نہیں کر سکتی۔ میں اتنا جانتی ہوں کہ جبران کچھ دیر تک محفوظ رہے گا اور اتنی دیر میں ہم مرجان حاصل کر لیں گے۔ جب قیمتی پتھر ہمارے ہاتھ آئے گا تو ہمارے پاس مزید قوت آ جائے گی۔ پھر ہم یہ قوت جبران کو چھڑانے کے لیے استعمال کریں گے۔‘‘

    یہ کہہ کر فیونا کھڑی ہو گئی۔ ’’مرجان بہت قریب ہے۔ میں اسے محسوس کر سکتی ہوں۔ یاد ہے نا انکل اینگس نے کیا کہا تھا۔ قیمتی پتھر سے خاص قسم کی لہریں خارج ہوتی ہیں اور میں اسے محسوس کر رہی ہوں، وہ مجھے بلا رہا ہے۔‘‘

    دانیال نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اس حالت میں زیادہ بہتر کیا ہے۔ وہ فیونا کی طاقتوں کی مدد کے آگے مجبور تھا۔ اس نے یاد دلایا کہ ابھی یہاں مزید پھندے بھی باقی ہیں۔ اس کی آنکھوں میں آنسو جھلملانے لگے تھے۔ فیونا نے آگے بڑھ کر اس کا ہاتھ پکڑا اور تسلی دی، پھر دونوں غار میں آگے بڑھنے لگے۔

    (جاری ہے)