Tag: ناول نگار

  • ارنسٹ ہیمنگوے: نوبیل انعام یافتہ ناول نگار

    ارنسٹ ہیمنگوے: نوبیل انعام یافتہ ناول نگار

    نوبیل انعام یافتہ امریکی ناول نگار ارنسٹ ہیمنگوے نے ہی نہیں بلکہ اس کے والد اور دادا نے بھی خود کُشی کی تھی۔ اگرچہ یہ خوش حال اور علم و ادب کا شیدائی گھرانا تھا اور ان لوگوں کا یوں موت کو گلے لگانا تعجب خیز ہی ہے جب کہ وہ عام لوگوں کے مقابلے میں بہتر طریقے سے زندگی گزار رہے تھے۔

    ہیمنگوے کی پیدائش پر اس کے والد کی خوشی دیدنی تھی۔ اپنے بیٹے کی آمد پر اس نے بگل بجا کر مسرت کا اظہار کیا۔ مشہور ہے کہ ہیمنگوے نے باپ نے اپنے گھر کی چھت پر چڑھ کر لوگوں کو متوجہ کیا اور انھیں بتایا کہ وہ ایک بیٹے کا باپ بن گیا ہے۔ یہی ہیمنگوے آگے چل کر نہ صرف ایک مقبول ناول نگار اور معروف صحافی بنا بلکہ متعدد معتبر ادبی اعزازات بھی اپنے نام کیے۔ 2 جولائی 1961ء کو ارنسٹ ہیمنگوے نے یہ دنیا ہمیشہ کے لیے چھوڑ دی تھی۔

    ہیمنگوے 21 جولائی 1899ء کو امریکا کے ایک تعلیم یافتہ اور فنونِ لطیفہ کے شیدا گھرانے میں‌ پیدا ہوا۔ اس کے والد کلارنس ایڈمونڈس ہیمنگوے پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر تھے اور علم و فن کے قدر دان بھی۔ اس ناول نگار کی ماں کا نام گریس تھا جو اپنے قصبے اور شہر بھر میں بطور گلوکارہ اور موسیقار مشہور تھیں۔ ان کا خاندان شکاگو کے مضافات میں‌ سکونت پذیر تھا۔ ہیمنگوے کے والد سیر و سیّاحت اور مہم جوئی کا شوق رکھتے تھے اور جب موقع ملتا اپنے بیٹے کے ساتھ پُرفضا مقامات کی سیر کو نکل جاتے۔ وہ اکثر شکار کیا کرتے تھے اور اس دوران ہیمنگوے نے اپنے والد سے جنگل میں‌ کیمپ لگانے کے علاوہ دریا سے مچھلی پکڑنے اور زمین پر چھوٹے جانوروں کا شکار کرنا سیکھا۔ یوں ہیمنگوے نے فطرت کی گود میں ہمکتی مختلف نوع کی مخلوقات اور جنگلی حیات کو قریب سے دیکھا۔ اسی زمانے کے تجربات اور مشاہدات کو بعد میں اس نے اپنی کہانیوں میں بھی جگہ دی جو بہت مقبول ہوئیں۔ ہیمنگوے نے ناول اور شارٹ اسٹوریز لکھیں جن کے دنیا کی مختلف زبانوں میں تراجم بھی ہوئے۔

    اس کی تعلیم و تربیت کا دور بھی بہت خوش گوار رہا۔ زمانۂ طالبِ علمی میں‌ ارنسٹ ہیمنگوے نے اسکول میگزین اور اخبار کے لیے کام کیا۔ اس عرصہ میں جو کچھ سیکھا وہ گریجویشن کی تکمیل کے بعد اس کے کام آیا۔ وہ اس طرح کہ ہیمنگوے کو ایک اخبار میں بطور رپورٹر نوکری مل گئی تھی۔ یہیں‌ اس نے معیاری اور عمدہ تحریر کو سمجھنے کے ساتھ لکھنے کا آغاز بھی کیا۔ وہ ایک ایسا صحافی تھا جو فطرت اور مہم جوئی کا دلدادہ تھا اور وہ اپنی رپورٹوں اور مضامین کو دل چسپ بنانا جانتا تھا۔ ہیمنگوے کے مضامین پسند کیے گئے اور اس نے مختلف اخبارات کے لیے باقاعدہ لکھنا شروع کردیا۔ 1921ء میں اس کی شادی ہوگئی اور ہیمنگوے پیرس منتقل ہوگیا۔ اس وقت تک وہ اپنے قلم کی بدولت امریکی قارئین میں مقبول ہوچکا تھا۔ پیرس میں اسے اپنے دور کے بڑے بڑے ادیبوں سے ملاقات اور بزم آرائی کا موقع ملا۔ اسی صحبت نے ہیمنگوے کو ناول نگاری کی طرف راغب کیا۔ وہ شہرۂ آفاق ادیب ایذرا پاؤنڈ، جیمز جوائس اور دیگر کے قریبی احباب میں شامل ہوگیا اور ان کی حوصلہ افزائی نے ہیمنگوے کی کہانیوں کا سلسلہ گویا دراز کردیا۔ وہ مختصر کہانیاں‌ لکھنے لگا اور بہت کم عرصہ میں پیرس میں بھی اپنے زورِ قلم سے مقبولیت حاصل کرلی۔

    1926ء میں ہیمنگوے کا پہلا ناول دی سن آلسو رائزز منظرِ عام پر آیا جسے بہت پسند کیا گیا۔ بعد میں‌ اس نے ناول ڈیتھ ان آفٹر نون شایع کروایا اور قارئین نے اسے بھی بہت سراہا۔ ارنسٹ ہیمنگوے نے انگریزی ادب کو وہ شاہ کار کہانیاں دیں جن پر اسے فکشن کا پلٹزر پرائز اور بعد میں‌ ادب کا نوبیل انعام بھی ملا۔ اس کے ناولوں کے اردو تراجم بھی ہندوستان بھر میں مقبول ہوئے۔ فیئر ویل ٹو آرمز کے علاوہ اردو میں سمندر اور بوڑھا اور وداعِ جنگ کے نام سے یہ ناول قارئین تک پہنچے ہیں۔

    ارنسٹ کی زندگی بہت ہنگامہ خیز اور تیز رفتار رہی۔ اس نے رومانس کیا اور ایک نہیں کئی لڑکیوں سے محبت کی۔ اسی طرح شادیاں بھی متعدد کیں۔ ملکوں ملکوں‌ سیر کے علاوہ وہ میدانِ جنگ میں‌ ایک فوجی کی حیثیت سے بھی شریک ہوا۔ ہیمنگوے بل فائٹنگ دیکھنے کا شوقین تھا اور اس کھیل کو اپنے ایک ناول کا حصّہ بھی بنایا۔

    ارنسٹ ہیمنگوے کی چند عجیب و غریب عادات بھی مشہور ہیں‌۔ کہتے ہیں اکثر وہ عام روش سے ہٹ کر کچھ لکھنے کی خواہش رکھتا یا اپنی تحریر سے متعلق بہت پُرجوش ہوجاتا تو کھڑے ہو کر لکھنے لگتا۔ اکثر وہ اپنا ٹائپ رائٹر اور پڑھنے کے بورڈ کو اتنا اونچا رکھتا تھا کہ وہ اس کے سینے تک پہنچتا تھا۔ ممکن ہے کہ وہ اس طرح لکھتے ہوئے خود کو یکسو پاتا ہو۔

    ہیمنگوے نے اپنی شاٹ گن سے اپنی زندگی ختم کر لی تھی۔

  • امین نواز کا تذکرہ جنھوں نے مینا ناز کے قلمی نام سے شہرت پائی

    امین نواز کا تذکرہ جنھوں نے مینا ناز کے قلمی نام سے شہرت پائی

    اردو دنیا میں جن ناول نگاروں نے قلمی نام اپنا کر اپنی کہانیوں کو شایع کروایا اور مقبول ہوئے، ان میں مینا ناز بھی شامل ہیں، لیکن دل چسپ بات یہ ہے کہ مینا ناز ہی نہیں کئی پاپولر ادب یا ڈائجسٹ کے لیے لکھنے والوں نے خود کو بطور خاتون رائٹر متعارف کروایا اور کئی دہائیوں پہلے نہ صرف شہرت اور مقبولیت حاصل کی بلکہ اپنی اصل شناخت چھپانے میں بھی کام یاب رہے۔ قارئین کی اکثریت لاعلم ہی رہی کہ ان کا پسندیدہ ناول نگار مرد ہے۔

    ڈاکٹر عبدالخلیل کشش کا ایک مضمون "ناول نگاری کے ارتقاء میں خواتین کا حصہ” کے عنوان سے بھارت میں دکن کے ایک روزنامہ میں شائع ہوا تھا۔ وہ لکھتے ہیں، اردو ناول نگاری کے فن کو جہاں مرد، ناول نگاروں نے پروان چڑھایا ہے، وہیں خاتون ناول نگاروں نے بھی اس کی آب یاری کی ہے۔ گو کہ خواتین نے ناول نگاری کے میدان میں مردوں کے بہت بعد میں قدم رکھا ہے، پھر بھی ناول کے ارتقاء میں ان کے تعاون کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ اس تحریر میں آگے انھوں نے چند خواتین ناول نگاروں کے نام لکھے ہیں، لیکن یہ فی الحقیقت خواتین نہیں تھیں۔ ان میں چند نام اُن مرد ناول نگاروں کے ہوسکتے ہیں جنھوں‌ نے اپنی شناخت چھپائی اور لیڈیز کمپارٹمنٹ میں سوار ہوکر اپنی منزل پر پہنچنے میں کام یاب ہوئے۔

    پچھلی صدی میں‌ تقسیمِ ہند کے بعد چند دہائیوں پر نظر ڈالیں تو یہاں ایک طرف تو ادبِ عالیہ میں تانیثیت کو ایک اہم ادبی نظریے کے طور پر دیکھا جارہا تھا جس کے سروکار میں مختلف معاشروں میں، ہر سطح پر خواتین کا تشخص اور گوناگوں مسائل تھے اور دوسری طرف پاپولر ادب لکھنے والوں نے عورتوں کو اپنے ناولوں کے بھنور میں ایسا پھنسایا کہ وہ انہی کو اپنے درد کا درماں سمجھ بیٹھیں۔

    ساٹھ کی دہائی میں جب خواتین رائٹرز کا بہت شہرہ ہو رہا تھا اور ان کے ناول بڑے شوق و انہماک سے پڑھے جاتے تھے، تو مینا ناز اور دیبا خانم نے بھی بڑا نام پایا۔ ان کے ناول ہاتھوں ہاتھ لیے جاتے۔ لیکن عام قارئین کی اکثریت اس بات سے لاعلم تھی کہ یہ دراصل مرد ناول نگار ہیں جنھوں نے بوجوہ اپنی شناخت چھپائی ہے۔ دیبا خانم تو تھے محی الدّین نواب جن کو کہانیوں کا دیوتا کہا جاسکتا ہے اور وہ ڈائجسٹ کی دنیا کے واقعی نواب تھے۔ مگر ہمارے ممدوح یہاں امین نواز ہیں جن کا شان دار قلمی سفر اور ذاتی زندگی کے دکھ اور المیے بھی آپ کی توجہ حاصل کر لیں گے۔ مینا ناز کے نام سے رومانوی، سماجی اور جذباتی ناول لکھنے والے امین نواز آج اس دنیا میں نہیں ہیں۔

    پیشے کے اعتبار سے امین نواز درزی تھے۔ تعلیم ان کی واجبی تھی۔ اپنے ایک انٹرویو میں امین نواز نے بتایا تھا کہ وہ کم عمری میں نسیم حجازی کے ناول پڑھتے تھے اور انہی سے لکھنا سیکھا اور ناول نگاری کا شوق بھی ہوا۔ سلائی کا کام سیکھنے کے بعد وہ ایک دکان پر کام کرنے لگے۔ زنانہ کپڑے سیتے تھے اور شاید اسی پیشے نے ان کو خواتین کی فطرت، بعض عادات اور ان کے مختلف مسائل کو جاننے کا موقع فراہم کیا۔ خواتین کے جذبۂ حسد، رقابت، ان میں طوفانی محبت اور بے وفائی کو دیکھنے۔ 1963ء میں امین نواز کو اپنی شادی کے بعد ادبی مجلّوں اور رسائل کے مطالعہ کا موقع ملا۔ انھوں نے اس وقت رضیہ بٹ، بانو قدسیہ، دیبا خانم وغیرہم کی تحریریں بھی پڑھیں اور بڑے فکشن نگاروں اور ادیبوں کے ناول بھی۔ امین نواز نے پاپولر ادب لکھنے کا فیصلہ کیا۔ 1963ء میں ان کا پہلا ناول ’’پربت‘‘ کا مسوّدہ تیار تھا اور اس کا موضوع پاکستانی عورت تھی۔ ناول کی اشاعت کا مرحلہ آیا تو پبلشر نے مشورہ دیا کہ ان کو خاتون مصنّف کے طور پر یہ ناول شایع کروانا چاہیے۔ کیوں کہ پاکستانی عورتیں اس وقت جن مصنّفین کی کہانیوں کی گرفت میں ہیں، وہ سب خواتین ہیں اور ان کے درمیان شاید ایک مرد ناول نگار کو قبول کرنا ان کے لیے مشکل ہوگا۔

    ناول نگار امین نواز کو بچپن سے لوگ پیار سے ’’مینا‘‘ پکارتے تھے۔ انھوں نے یہی نام اپنا لیا اور پبلشر نے انھیں ’’مینا ناز‘‘ کے طور پر متعارف کروایا۔ لاہور کے اس رائٹر کا ناول پربت قلمی نام سے شائع ہوا تو اسے بہت پذیرائی ملی۔ اس کے اگلے سال ہی میناز ناز کا ناول ’’طرزِ آشنائی‘‘ اور دیگر چار ناول شائع ہوئے۔ اب امین نواز نے درزی کا کام ترک کر کے لکھنے کو مستقل پیشہ بنا لیا۔ وہ دن رات کہانیاں تخلیق کرتے اور کرداروں میں گم رہتے۔ 1965ء میں مینا ناز کو کراچی سے پبلشرز نے پیشکش کی تو وہ ان کے ساتھ جڑ گئے مگر کئی ناول تحریر کرنے کے بعد لاہور لوٹ گئے۔ وہاں ذوالقرنین چیمبرز گنپت روڈ پر اپنا آفس بنایا اور بک پیلس کے نام سے اپنا ادارہ قائم کر لیا۔ ان کا خیال تھا کہ پبلشرز انھیں کم معاوضہ دے رہے ہیں اور خوب منافع کمانے کے باوجود ان کا حق نہیں دینا چاہتے۔ ادارہ قائم کرکے انھوں نے ہر ماہ دو نئے ناول شائع کرنا شروع کیے۔ آٹھ سو سے زائد ناول اسی ادارے سے شائع ہوئے اور مینا ناز عورتوں کی کہانیوں کو اردگرد بکھرے ہوئے کرداروں کے ساتھ پیش کرتے رہے۔ کسی کو یہ نہیں معلوم تھا کہ ان ناولوں کا لکھنے والا ایک مرد ہے۔ مینا ناز نے اپنی شخصیت کو کبھی بے نقاب نہیں کیا۔ وہ کاروبار اور منافع کو اہمیت دیتے رہے۔ 80ء کی دہائی تک ان کا کاروبار خوب چمکا اور ناول خوب خوب فروخت ہوئے۔ مگر بعد میں حالات بدلتے چلے گئے اور مینا ناز نے 2005ء میں اشاعتی ادارے کو ختم کر دیا۔ وہ اپنے بڑے بیٹے کی ناگہانی موت کے بعد نہایت شکستہ تھے۔ کچھ عرصہ تھیٹر کے لیے ڈرامے لکھے لیکن یہ سلسلہ برقرار نہیں رہ سکا۔

    امین نواز المعروف مینا ناز کے مقبول ناولوں میں سپنے میرے اپنے، پیاس، دو سکھیاں، روگی، طلاق، ہرے کانچ کی چوڑیاں، یہ گلیاں یہ چوبارے، درد آئے گا دبے پاؤں، بازار اور کئی کہانیاں شامل ہیں۔

  • جیمز جوائس: عالمی شہرت یافتہ ناول نگار

    جیمز جوائس: عالمی شہرت یافتہ ناول نگار

    ’’یولیسس‘‘، کے خالق کا نام جیمز جوائس تھا جس نے عالمی ادب میں پہچان بنائی اور بالخصوص اپنے اس ناول کی بدولت دنیا بھر میں شہرت پائی۔ یہ ناول متنازع ثابت ہوا اور کئی ممالک میں اس کی شاعت پر پابندی تھی، لیکن یہی ناول مصنف کی شاہکار تخلیق بھی کہلایا۔ ’’یولیسس‘‘ کو دنیا کے بہترین ناولوں کی فہرست میں‌ شامل کیا گیا اور اس کہانی پر فلمیں بھی بنائی گئیں۔

    جیمز جوائس ناول نگار، افسانہ نویس اور شاعر ہی نہیں ادبی نقاد بھی تھا۔ اس نے مغربی ادب میں ’’جدیدیت‘‘ کی تحریک میں بھی مرکزی کردار ادا کیا۔ 13 جنوری 1941ء کو جیمز جوائس چل بسا تھا۔ آئرلینڈ کے شہر ڈبلن کے ایک متمول خاندان میں جیمز جوائس نے سنہ 1882ء میں آنکھ کھولی۔ وہ ایک ذہین طالبِ علم رہا۔ لیکن فرانس میں ڈاکٹریٹ کی تعلیم مکمل نہیں‌ کرسکا۔ اس کا بچپن اور جوانی کا ابتدائی زمانہ آسودہ حالی اور راحت کے ساتھ گزرا لیکن بعد میں زندگی اس کے لیے تکلیف دہ ثابت ہوئی۔ ایک سے زائد شادیوں کے علاوہ بیٹی کی بیماری اور دوسرے مسائل نے جیمز جوائس کو ذہنی کوفت اور اذیت میں مبتلا رکھا لیکن بطور ناول نگار اس کی شہرت اور مقبولیت بھی اسی زمانہ میں اس کی ایک کام یابی تھی۔ جیمز جوائس آئرش زبان کا سب سے مقبول ادیب کہلایا اور اس کی کتابوں کے تراجم دنیا کی بڑی زبانوں میں کیے گئے۔

    جیمز جوائس کی پہلی کتاب ’’ڈبلنرز‘‘ افسانوں کا مجموعہ تھی۔ اس کے بعد تین ناول ’’اے پورٹریٹ آف دی آرٹسٹ ایز ینگ مین‘‘ اور ’’فنیگینز ویک‘‘ سامنے آئے اور پھر ’’یولیسس‘‘ کی اشاعت نے جیمز جوائس کی شہرت میں اضافہ کیا۔ شاعری کی بات کریں تو جیمز جوائس نے چار شعری مجموعے یادگار چھوڑے۔ اس کی نظموں کا مجموعہ 1907ء میں شایع ہوا تھا جب کہ ’’یولیسس‘‘ (Ulysses) کی اشاعت 1922ء میں پیرس میں ہوئی۔ اسے یہ نام ’’ہومر‘‘ کی طویل نظم ’’اوڈیسی‘‘ کے ایک کردار سے متاثر ہوکر دیا گیا تھا۔ ناول کی اشاعت کے بعد جیمز جوئس پر الزامات کی بھرمار ہوگئی۔ امریکا اور برطانیہ میں اس پر پابندی عائد کردی گئی۔ برطانیہ میں 1936 تک جمیز جوئس کے کام کی اشاعت ممنوع تھی۔ اس ناول میں جنسی تعلقات ہی نہیں گالیوں اور ہیجان انگیز باتوں کے علاوہ کچھ کراہت آمیز منظر پڑھنے کو ملتے ہیں جن کا تعلق بیتُ الخلا یا نجی زندگی سے ہوسکتا ہے۔ ایک دل چسپ بات یہ ہے کہ جب مصنّف کو معاشرہ اور ادبی دنیا میں بھی الزامات کا سامنا تھا، تو سوئٹزر لینڈ کے مشہور ماہرِ نفسیات نے اسے ایک حوصلہ افزا اور توصیفی خط لکھا۔ یہ ماہرِ نفسیات کارل گستاؤ ژونگ تھے۔ ان کا یہ خط بہت مشہور ہوا جس کا اردو ترجمہ کچھ یوں ہے۔

    محترم،
    آپ کے تصنیف کردہ ناول یولیسس (Ulysses) نے دنیا بھر کے سامنے ایک ایسے دردناک نفسیاتی مسئلے کو پیش کیا ہے کہ مجھ سے نفسیاتی مسائل کے ضمن میں ایک ممکنہ ماہرِ نفسیات کی حیثیت سے بارہا رابطہ ہوا ہے۔

    یولیسس کی پڑھت ایک انتہائی مشکل امر ثابت ہوئی جس نے میرے ذہن کو نہ صرف خوب رگیدا بلکہ (ایک سائنس دان کے زاویہ نگاہ کے مطابق) غیر ضروری طور پر اِدھراُدھر بھٹکایا۔ آپ کی کتاب میرے واسطے کلیتاً لوہے کا چنا ثابت ہوئی اور ایک قاری کی حیثیت سے اس کتاب کو کھولنے میں مجھے تقریباً تین برس کی مستقل جدوجہد سے گزرنا پڑا۔ تاہم مجھے آپ کو یہ بات لازماً بتانی چاہیے کہ میں آپ کا اور آپ کے عظیم فن پارے کا نہایت گہرائی سے ممنون ہوں۔ کیوں کہ مجھے اس سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ مجھے اندیشہ ہے کہ میں اس بات کا دعویٰ کبھی نہیں کر پاؤں گا کہ میں اس کتاب کی پڑھت سے لطف اندوز ہوا، کیوں کہ اس کے واسطے ذہانت اور بے پناہ ذہنی مشقت درکار تھی۔ اس بات سے بھی انجان ہوں کہ آپ یولیسس پر لکھے ہوئے میرے مضمون سے لطف اندوز ہوں گے یا نہیں، کیوں کہ دنیا کو یہ بات بتانے سے میں خود کو نہیں روک سکا کہ اس پڑھت کے دوران میں نے کس قدر بیزاری کا سامنا کیا، چیخا چلاّیا، برا بھلا کہا اور تعریف کی۔ چالیس صفحوں کی لگاتار بھاگ دوڑ کا نتیجہ، درحقیقت کھرے نفسیاتی ثمرات کی صورت میں سامنے موجود ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ میری بہ نسبت شیطان کی پڑنانی، عورت کی اصل نفسیات سے زیادہ آگاہ ہے۔

    خیر میں آپ کو تجویز دینے کی کوشش کرتا ہوں کہ میرے مختصر مضمون کو ملاحظہ کیجیے۔ یعنی ایک مکمل اجنبی شخص کی جانب سے ہونے والی ایک دل چسپ کاوش، جو آپ کے ناول یولیسس کی بھول بھلیوں میں بھٹکا اور شومئ قسمت سے بچ نکلا۔ میری تحریر سے آپ کو ان تمام احوال سے آگاہی مل جائے گی کہ ممکنہ طور پر ایک متوازن ماہرِ نفسیات پہ یولیسس نے کیا اثرات مرتب کیے ہیں۔

    جناب! دل کی گہرائیوں کے ساتھ

    آپ کا وفادار
    کارل گستاؤ ژونگ

    تھیٹر پلے ’’ایگزائیلز‘‘ کے علاوہ مصنّف کے رومانوی خطوط پر مشتمل تین کتابیں بھی بہت پسند کی گئیں۔ جیمز جوائس کو بیسویں صدی کے بااثر اور اہم ترین قلم کاروں میں سے ایک کہا جاتا ہے۔ جیمز جوائس کی کہانیوں کو آج بھی سراہا جاتا ہے اور اس کی یاد میں ادبی تقاریب منعقد ہوتی ہیں۔

  • ٹونی موریسن: نوبیل انعام حاصل کرنے والی امریکا کی پہلی سیاہ فام مصنّف

    ٹونی موریسن: نوبیل انعام حاصل کرنے والی امریکا کی پہلی سیاہ فام مصنّف

    ٹونی موریسن امریکا کی پہلی سیاہ فام مصنّف تھیں جنھیں ادب کا نوبیل انعام دیا گیا تھا۔ 2019ء میں آج ہی کے دن ٹونی موریسن چل بسی تھیں۔ انھیں ایک منفرد ناول نگار ہی نہیں افریقی نژاد امریکی مصنّفین کی نمائندہ قلم کار سمجھا جاتا ہے۔

    اوہائیو کے ایک علاقے میں 1931ء میں پیدا ہونے والی ٹونی موریسن نے تعلیمی مراحل طے کرنے کے بعد درس و تدریس کو بطور پیشہ اپنایا۔ اس عرصہ میں وہ اپنے تخیل اور قلم کا سہارا لے کر ادبی سفر شروع کرچکی تھیں اور ادبی سرگرمیوں میں حصّہ لے رہی تھیں۔ ٹونی موریسن کو ناول نگاری کے میدان میں ان کے اسلوب اور منفرد کہانیوں کی بدولت شہرت اور مقبولیت ملی۔ سابق امریکی صدر بارک اوباما بھی ان کے مداح رہے ہیں۔ انہی کے دورِ صدرات میں ٹونی موریسن کو ‘صدارتی میڈل آف آنر‘ بھی دیا گیا تھا۔

    1993ء میں ٹونی موریسن کو ادب کا نوبیل انعام دیتے ہوئے سویڈش اکیڈیمی نے ان کے طرزِ تحریر، لسانی انفرادیت اور بطور مصنّف ٹونی موریسن کی بصیرت کو سراہا۔ ٹونی موریسن کا ایک مشہور ناول ‘محبوب‘ (Beloved) ہے جس پر وہ 1988ء میں فکشن کے پلٹزر پرائز کی حق دار قرار پائی تھیں۔ یہ ایک ماں اور بیٹی کی درد ناک کہانی تھی جس میں ماں اپنی بیٹی کو غلامی کی زندگی سے بچانے کے لیے قتل کرنے کا فیصلہ کرتی ہے۔ ٹونی موریسن کی دیگر اہم ترین تصنیفات میں ‘چشمِ نیلگوں(Bluest Eye)‘، ‘سلیمان کا گیت‘ (Song of Solomon)، شامل ہیں۔ مؤخر الذّکر ناول بہت مقبول ہوا اور ٹونی موریسن کو امریکا میں زبردست پذیرائی ملی۔ وہ نیویارک میں مقیم تھیں جہاں مختصر علالت کے بعد 88 سال کی عمر میں انتقال کیا۔

  • اسٹیفن کنگ: جادوئی قلم کا مالک

    اسٹیفن کنگ: جادوئی قلم کا مالک

    اسٹیفن کنگ وہ خوش قسمت ناول نگار ہیں جنھوں نے قلم کے زور سے غربت کو شکست دی اور دنیا کے امیر ترین لکھاریوں کی فہرست میں اپنا نام شامل کروایا۔ وہ امریکہ کے مقبول ترین لکھاریوں میں سے ایک ہیں۔ انھیں دہشت ناک کہانیوں‌ کا بادشاہ بھی کہا جاتا ہے۔

    اسٹیفن کنگ نے 21 ستمبر1947ء کو امریکی شہر پورٹ لینڈ کے ایک ایسے گھرانے میں‌ آنکھ کھولی جو غربت کی چکی میں‌ پِس رہا تھا۔ جب وہ دو سال کے تھے تو ان کے والدین میں علیحدگی ہوگئی اور اس کے بعد والدہ نے مالی ضروریات پوری کرنے کی غرض سے کئی چھوٹی موٹی نوکریاں اور ایسے کام کیے جن سے وہ اپنا پیٹ بھر سکتے تھے۔ اسٹیفن کنگ کے حالاتِ زندگی، ان کی محنت اور جدوجہد کی داستان بلاشبہ لائقِ مطالعہ ہے۔ کون جانتا تھا کہ بچپن میں دو وقت کی روٹی کے لیے مشکلات جھیلنے والا اسٹیفن کنگ ایک ایسا ناول لکھے گا جو ہاتھوں ہاتھ نہ صرف بک جائے گا بلکہ اس پر دولت اور شہرت کی دیوی بھی مہربان ہوجائے گی۔ اسٹیفن کنگ کے پہلے ناول ہی نے ان کی زندگی کی کایا پلٹ دی۔ اب تک ان مصنّف کی کتابوں کی 400 ملین سے زائد کاپیاں دنیا بھر میں فروخت ہو چکی ہیں۔ یہ بھی جان لیجیے کہ اسٹیفن کنگ کو ان کی ایک کتاب پر ایک ملین ڈالر سے زیادہ تک کی رقم پیشگی ادا کی گئی ہے۔

    والدہ کو روزی روٹی کی خاطر دن رات کام کرتا دیکھنے والے اسٹیفن بڑے ہوئے تو اسکول سے لوٹنے کے بعد محنت مزدوری کے لیے نکل پڑتے۔ وہ چھوٹے موٹے کام کرتے ہوئے کسی فیکٹری میں مزدوری پر لگ گئے۔ گھنٹوں‌ کام کیا اور لانڈری پر کپڑے دھوئے، پیٹرول پمپ پر نوکری کی اور کھیت میں مزدوری کرتے رہے۔

    اسٹیفن کنگ اپنی زندگی کا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ان کی چھوٹی بیٹی بخار میں مبتلا تھی لیکن دوا کے لیے رقم ان کی جیب میں نہ تھی۔ اس روز وہ گھر لوٹے تو انھیں‌ ڈاک موصول ہوئی اور جب لفافہ کھولا تو اُس میں اسٹیفن کنگ کے ایک افسانے کے معاوضے کے طور پر 500 ڈالر کا چیک موجود تھا۔ وہ بے ساختہ رو پڑے اور ایک تحریر کا اتنا زیادہ معاوضہ ملنے پر بہت خوش بھی ہوئے۔ انھوں نے مزید افسانے اور ناول لکھنے کا فیصلہ اسی روز کر لیا تھا۔ انھوں نے ایک ٹائپ رائٹر خریدا اور اپنا پہلا ناول لکھ ڈالا اور یہ بعنوان ’’کیری‘‘ (Carrie) شایع ہوگیا۔ اس ناول کو امریکہ بھر میں‌ زبردست پذیرائی ملی اور اسٹیفن کنگ نے اس وقت تین ملین ڈالر سے زائد کمائے۔ اس کے بعد ان کے متعدد ناول منظرِ عام پر آئے اور ہر مرتبہ بڑی تعداد میں اس کی کاپیاں فروخت ہوئیں اور وہ اپنی پچھلی کمائی کا ریکارڈ بھی توڑتے چلے گئے۔

    اسٹیفن کنگ کی کہانیوں کو یورپ اور امریکہ میں اس قدر پذیرائی حاصل ہوئی کہ ہالی وڈ فلم انڈسٹری میں ان کے ناولز پر کئی فلمیں بنائی گئیں۔ ان میں مشہور فلمیں ’’ دی ڈارک ٹاور، اٹ، فائر اسٹارٹر اور دی گرین سرفہرست ہیں۔

    ناول نگار اسٹیفن کنگ کو بہت چھوٹی عمر سے ہی لکھنے کا شوق تھا۔ وہ اسکول میگزین میں چھوٹی چھوٹی تحریریں لکھتے تھے اور ان کے مضامین کے علاوہ مختصر کہانیاں بھی شایع ہوتی تھیں۔ لیکن انھوں نے کبھی اپنا مستقبل بطور ناول نگار نہیں سوچا تھا۔ اسٹیفن کنگ نے 1970 میں آرٹس کے مضمون میں گریجویشن مکمل کی۔ مگر اب وہ شراب کے عادی ہوچکے تھے۔ ان کا طرز زندگی بدل گیا۔ ان کی ذاتی زندگی اور مالی حالت بھی ابتر ہو گئی۔ دس برس بعد انھوں نے آخرکار شراب نوشی ترک کر دی اور اپنے قلمی کریئر پر توجہ دی۔ 1971 میں وہ ہیمپڈن اکیڈمی میں انگریزی کے استاد مقرر ہوئے۔ اس دوران وہ نئے آئیڈیاز اور کہانیوں کے بارے میں سوچتے رہتے جن پر وہ کام کر سکیں۔ 1977 میں ان کی کتاب ’’دی شائننگ‘‘ سامنے آئی جسے بڑے بڑے ادبی ناقدین کی جانب سے سراہا گیا۔ 1980 کی دہائی میں اسٹیفن نے ’’دی ڈارک ٹاور‘ سیریز لکھنا شروع کی اور یہ ناقابلِ یقین حد تک مقبول کتاب ثابت ہوئی۔ اس کے اگلے سال فائر اسٹارٹر (Firestarter) نے اسٹیفن کنگ کی مقبولیت میں مزید اضافہ کیا۔ الغرض جو ناول پہلی کاوش کے بعد اسٹیفن کنگ کے قلم سے نکلا وہ ان کے مداحوں کی تعداد بڑھاتا چلا گیا اور یہ سب کہانیاں‌ دہشت اور خوف کے ساتھ انوکھی اور پراسرار طاقتوں کے حامل کرداروں پر مبنی تھیں۔ لوگ ان کی کہانیاں دیوانہ وار پڑھتے اور لطف اندوز ہوتے۔ 1986 میں اسٹیفن کی شہرت بام عروج کو چھونے لگی اور ان کے سترھویں ناول اِٹ (It) نے دہشت اور سنسنی خیزی کے ساتھ فروخت کا ریکارڈ قائم کردیا۔ اسٹیفن کی مسلسل کامیابیاں جاری تھیں‌ کہ 1999 میں وہ ایک حادثے کا شکار ہو گئے جس کے بعد کافی عرصہ بستر پر رہنا پڑا۔ لیکن پھر وہ دوبارہ زندگی کی طرف لوٹے اور آج بھی ان کا تخلیقی سفر جاری ہے۔

    اسٹیفن کنگ کے بہت سے ناول مشہور ہوئے جن میں سے ہر ایک اپنی منفرد کہانی اور کرداروں کے لیے جانا جاتا ہے۔ 1974 کے اوّلین ناول کیری کی کہانی ایک نوجوان لڑکی، کیری وائٹ کے گرد گھومتی ہے جو اپنی ماں اور ساتھیوں کے ظلم و ستم کا شکار ہے۔ وہ کچھ خاص صلاحیتوں کی حامل ہے اور جب وہ لڑکی دباؤ میں‌ ہوتی ہے تو عجیب و غریب اور پراسرار صلاحیتوں کا اظہار کرتی ہے اور ایک موقع پر وہ تذلیل کا بدلہ چکانے کے لیے اپنی طاقتوں کو استعمال کرتی ہے اور اس کے انتقام کی خواہش کے تباہ کن نتائج برآمد ہوتے ہیں۔

    اسی طرح 1977 کے ناول دی شائننگ کی کہانی ایک ناکام مصنف کی ہے جو ایک ایسے ہوٹل میں کام کرنے لگتا ہے جہاں‌ شیطانی قوتیں موجود ہیں اور وہ اس شخص کو اس کے خاندان کو نقصان پہنچانے پر مجبور کرتے ہیں۔

  • ‘شرلاک ہومز’ کے خالق آرتھر کونن ڈوئل کا تذکرہ

    ‘شرلاک ہومز’ کے خالق آرتھر کونن ڈوئل کا تذکرہ

    شرلاک ہومز وہ سراغ رساں تھا جس نے 1887ء میں فکشن کی دنیا میں جنم لیا اور یہ خیالی کردار آرتھر کونن ڈوئل کے ذہن کی اختراع تھا۔ جاسوسی ادب میں شرلاک ہومز جیسا مقبول کردار متعارف کروانے والے آرتھر کونن ڈوئل 1930ء میں آج ہی کے دن چل بسے تھے۔

    برطانوی مصنّف آرتھر کونن ڈوئل نے اپنی کہانی اے اسٹڈی اِن اسکارلٹ (A Study in Scarlet) میں پہلی مرتبہ شرلاک ہومز کو متعارف کروایا تھا اور اِس کردار کو اپنے چار ناولوں اور پچاس سے زائد کہانیوں میں نہایت پیچیدہ، مشکل اور نہایت پُراسرار یا معمّا بن جانے والے واقعات کو اپنی ذہانت اور مہارت سے حل کرتے ہوئے دکھایا۔ اس کردار کو وہ قارئین کے سامنے محدب عدسہ تھامے، کسی مشکل کیس کی گتھیاں سلجھانے کی کوشش کے دوران پائپ کے کش لگاتے ہوئے پیش کرتے تھے اور قاری کی بیتابی بڑھ جاتی تھی کہ یہ شاطر اور ذہین جاسوس کب اور کس طرح مجرم تک پہنچے گا اور کوئی راز ان پر کب کھلے گا۔ شرلاک ہومز کی کہانیوں کو جاسوسی ادب میں ایک اہم موڑ سمجھا جاتا ہے۔ جب ڈویل کی کہانیاں بشمول اردو دنیا بھر میں‌ ترجمہ کی گئیں تو شرلاک ہومز کی شہرت اور مقبولیت بھی عروج پر پہنچ گئی۔ ہندوستان بھر میں اردو، ہندی زبانوں میں‌ ڈوئل کی کہانیوں کے تراجم شوق سے پڑھے گئے اور وہ سب کا پسندیدہ بن گیا۔

    مصنّف آرتھر ڈوئل کی یہ کہانیاں کتابی شکل میں لاکھوں کی تعداد میں فروخت ہوئیں اور دنیا کی ہر بڑی زبان میں ان کے تراجم بھی خوب فروخت ہوئے۔

    آرتھر کونن ڈوئل (Sir Arthur Ignatius Conan Doyle) کو برطانیہ میں سَر کا خطاب دیا گیا تھا وہ اسکاٹ لینڈ کے باشندے تھے جہاں انھوں نے 1859 میں آنکھ کھولی اور تعلیم مکمل کرنے کے بعد ایک معالج کی حیثیت سے عملی زندگی کا آغاز کیا۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ تخلیقی صلاحیت کے حامل ڈوئل پُراسرار واقعات اور جرم و سزا کی دنیا میں‌ دل چسپی لینے لگے اور بعد کے برسوں میں‌ ان کو جرم و سزا سے متعلق جدید افسانوں کا بانی مانا گیا۔ ڈوئل نے افسانوی اور غیر افسانوی ادب کے ساتھ تاریخی ناول اور ڈرامہ نگاری بھی کی۔ وہ شاعر بھی تھے۔

    ڈوئل نے ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد 1885ء میں طبّ کے مضمون میں سند حاصل کی اور پھر پریکٹس شروع کردی۔ اسی زمانے میں وہ مختلف موضوعات پر تحریریں اور مقالے لکھنے لگے تھے اور پھر شارٹ اسٹوریز کی طرف متوجہ ہوگئے۔ انھوں نے اپنی کہانیوں کو شائع کروایا تو برطانیہ میں قارئین نے انھیں بہت پسند کیا جس کے بعد ڈوئل نے شرلاک ہومز کا کردار متعارف کروایا جس نے ہر چھوٹے بڑے کو جاسوسی ادب کا دیوانہ بنا دیا۔

    آرتھر ڈوئل وہ برطانوی مصنّف تھے جن کو ترکی کے سلطان کی جانب سے "نشانِ مجیدی” سے نوازا گیا۔ یہ اعزاز انھیں شرلاک ہومز جیسا کردار تخلیق کرنے پر دیا گیا تھا۔ سراغ رساں شرلاک ہومز کے دیوانے اور ڈوئل کے مداح آج بھی ان کی کہانیاں شوق سے پڑھتے ہیں۔ برطانیہ میں ہر سال ان کی یاد تازہ کرتے ہوئے تقاریب اور ادبی مجالس کا اہتمام کیا جاتا ہے جب کہ مختلف شہروں‌ میں آرتھر ڈوئل کے یادگاری مجسمے نصب ہیں۔

    جارج ایڈورڈ چیلنجر جسے صرف پروفیسر چیلنجر پکارا جاتا تھا، اسی برطانوی مصنّف کا ایک افسانوی کردار تھا جس کی عادات اور مزاج شرلاک ہومز سے یکسر مختلف تھیں۔ آرتھر ڈوئل کا یہ شہرۂ آفاق کردار بردبار اور متحمل مزاج ہے جو اس کی شخصیت میں رنگ بھرتا ہے جب کہ پروفیسر چیلنجر کو مصنّف نے غصیلا اور اکھڑ مزاج دکھایا ہے جو اکثر دوسروں‌ پر حاوی ہونا پسند کرتا ہے۔ کہتے ہیں کہ مصنّف نے یہ دونوں کردار حقیقی زندگی سے لیے تھے۔ یہ لوگ آرتھر ڈوئل کے حلقۂ احباب میں‌ شامل تھے۔

  • مارکیز: شہرۂ آفاق ناولوں کے خالق کا تذکرہ

    مارکیز: شہرۂ آفاق ناولوں کے خالق کا تذکرہ

    مارکیز نے ”طلسمی حقیقت نگاری“ کی اصطلاح سے اتفاق نہ کیا، جب کہ دل چسپ بات یہ ہے کہ یہ اصطلاح انہی کے لیے وضع کی گئی تھی۔ مارکیز اپنی تحریروں کو حقیقت نگاری کہتے تھے۔

    عصرِ حاضر کے سب سے بڑے ناول نگار کا درجہ رکھنے والے مارکیز نوبیل انعام یافتہ ادیب تھے۔ ان کے شہرۂ آفاق ناولوں میں ’تنہائی کے سو سال‘ اور ’وبا کے دنوں میں محبت‘ شامل ہے۔ آج مارکیز کا یومِ وفات ہے۔

    گیبریئل گارشیا مارکیز اپنے عہد میں سب سے بڑے اور قارئین کے محبوب فکشن نگار بھی کہلائے۔ 2014 میں مارکیز 87 برس کی عمر میں‌ آج ہی کے دن چل بسے تھے۔ انھیں ان کے احباب اور مداح گابو کے نام سے بھی پکارتے تھے۔

    مارکیز کو 1982ء میں ادب کا نوبیل انعام دیا گیا تھا، جب ان کی عمر لگ بھگ 55 برس تھی۔ گیبریل گارسیا مارکیز کی ایک انفرادیت یہ تھی کہ ان کی تخلیقات کا قاری ماضی، حال اور مستقبل کو ان تحریروں میں ایک ساتھ دیکھتا تھا۔ وہ واقعات کو طلمساتی انداز میں یوں گوندھتے تھے کہ قاری خود کو ان میں‌ گرفتار پاتا۔ مارکیز کے تخلیقی کام کی ایک خوبی یہ تھی وہ کسی مغربی ادیب یا مغربی روایت کے نقال نہیں بنے بلکہ اپنے حالات، مقامی کرداروں اور محسوسات، تجربات ہی کو اپنی تخلیقات میں پیش کیا۔ انھوں نے محبّت جیسے قدیم اور لافانی جذبے، خاندان اور آمریت کی دل موہ لینے والے واقعات کو کہانی میں پیش کیا۔ ان کے انوکھے موضوعات، کردار نگاری کا مخصوص انداز اور واقعات کی طلسماتی بنت نے انھیں ہم عصروں کے مقابلے میں ازحد مقبول بنا دیا۔ کارسیا مارکیز کی تقریباً تمام تحریریں اردو سمیت دنیا کی کئی زبانوں میں ترجمہ کی گئیں۔

    گابو دنیا کے مشہور ترین لاطینی امریکی ناول نگاروں میں سے ایک اور ادبی تحریک کے روح رواں تھے۔ وہ کیوبا کے مشہور راہ نما فیدل کاسترو کے قریبی دوست بھی تھے۔ مارکیز کے مشہور ناولوں کے نام یہ ہیں۔

    (1967) One Hundred Year of Solitude
    (1975) The Autum of the Patriarch
    (1985) Love in the Time of Cholera
    (2002) Living to Tell the Tale

    1927ء میں مارکیز نے کولمبیا کے ایک قصبے میں آنکھ کھولی۔ ان کے والد کیمسٹ تھے اور بیٹے کی پیدائش کے بعد انھوں نے بغرضِ کاروبار اپنا قصبہ چھوڑ دیا اور بڑے شہر میں منتقل ہوگئے۔ وہاں مارکیز کے ریٹائرڈ کرنل دادا، دادی اور آنٹی رہتی تھیں جن کے زیرِ سایہ مارکیز نے تربیت پائی۔ وہ گھر میں ان بزرگوں سے مختلف قصّے اور پراسرار کہانیاں سنتے ہوئے بڑے ہوئے۔ ان کے یہ بڑے بہت اچھے قصّہ گو تھے اور ان کے ساتھ مارکیز کو تفریح اور گھومنے پھرنے کا بھی موقع ملتا تھا۔ مارکیز دراصل ہسپانوی آباد کاروں، مقامی آبادی اور سیاہ فاموں کی غلامی کے ورثے میں پروان چڑھے تھے۔ مارکیز نے گریجویشن کے بعد قانون کی تعلیم بھی حاصل کی، اور ناول نگاری کا آغاز 1961 میں کیا۔ اس وقت وہ کولمبیا سے میکسکو سٹی منتقل ہوچکے تھے۔ اس دور میں مارکیز نے سخت مالی مشکلات اور کئی مسائل کا بھی سامنا کیا، لیکن ان کا قلم محبّت کی حدت اور حالات کی شدّت کے ساتھ تیزی سے کہانیاں بُننے لگا تھا اور وہ اپنے مسائل سے نمٹتے ہوئے مسلسل لکھتے رہے۔ بالآخر انھیں دنیا بھر میں پہچان ملی اور مارکیز نوبیل انعام سے بھی نوازے گئے۔

    عالمی شہرت یافتہ مارکیز ایک عرصے تک صحافت کے شعبے سے بھی منسلک رہے۔ وہ اسے دنیا کا سب سے خوب صورت پیشہ گردانتے تھے۔ ان کی پہلی ملازمت بھی ایک اخبار میں تھی جس نے 1947 میں ان کی پہلی مختصر کہانی شائع کی۔ اس وقت ان کے قلم سے نکلا ہوا ایک آرٹیکل فوجی حکام کا پسند نہ آیا اور تب مارکیز کو اپنا وطن چھوڑ کر یورپ جانا پڑا۔ وہ جنیوا، روم اور پیرس میں رہے اور اپنے تخلیقی سفر کو جاری رکھا۔

    اس عظیم ناول نگار نے 23 برس کی عمر میں اپنا پہلا ناول لکھا تھا اور اس کے بعد وہ اپنے ملک میں جاری جنگ و جدل، بدامنی اور بے چینی کے ساتھ محبّت کے جذبے اور دوسرے واقعات کو اپنی کہانیوں میں سموتے رہے۔ ان کی کہانیوں کے بیشتر کردار خاندان اور شہر کے وہ لوگ تھے جن کی زندگیوں کو مارکیز نے قریب سے دیکھا اور ان کا مشاہدہ کیا تھا۔

    میکسیکو میں‌ مارکیز کی موت کی اطلاع نے فضا کو سوگوار کردیا تھا۔ لوگ ان کو بہت چاہتے تھے۔ مداحوں کی بڑی تعداد نے مارکیز کا آخری دیدار کیا دنیا بھر سے اہلِ علم شخصیات، قلم کاروں اور مشہور لوگوں نے تعزیتی پیغامات کے ساتھ انھیں خراجِ عقیدت پیش کیا۔

  • الہام کا فرشتہ

    الہام کا فرشتہ

    نوبل انعام یافتہ ترک ناول نگار اور مصنّف اورحان پاموک کا فکر و فلسفہ اور کسی ادبی موضوع پر ان کی رائے اور اظہارِ خیال بھی بہت شان دار اور قابلِ‌ توجہ ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں مشہور اس ادیب کی گفتگو کا ایک ایسا ہی ٹکڑا ہم یہاں نقل کررہے ہیں جس کا ترجمہ اجمل کمال نے کیا ہے۔

    "میرے نزدیک کسی ادیب کا راز الہام میں نہیں، کیوں کہ کوئی یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ الہام کہاں سے آتا ہے بلکہ ادیب کی ضد اور صبر میں پوشیدہ ہے۔

    ترکی زبان کی وہ خوب صورت کہاوت، سوئی سے کنواں کھودنا، مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ادیبوں ہی کے لیے وضع کی گئی تھی۔

    پرانی حکایتوں میں مجھے فرہاد کا صبر بہت عزیز ہے جس نے عشق کی خاطر پہاڑ کھودا تھا، اور میں اسے سمجھتا بھی ہوں۔ اپنے ناول مائی نیم از ریڈ میں جہاں میں نے ان قدیم ایرانی میناتور سازوں کا تذکرہ کیا ہے جو برسوں ایک ہی گھوڑے کا نقش کھینچنے کی مشق کیا کرتے تھے، موقلم کی ایک ایک جنبش کو ذہن نشین کرتے رہتے تھے، وہاں میں جانتا تھا کہ میں لکھنے کے مسلک کی، خود اپنی زندگی کی بات کر رہا ہوں۔ اپنی زندگی کو، دوسرے انسانوں کی کہانی کی طرح، آہستہ آہستہ، بیان کرنے، اس بیان کرنے کی قوّت کو اپنے اندر محسوس کرنے، میز پر بیٹھ کر صبر کے ساتھ خود کو اپنے فن میں، اپنے ہنر کے سپرد کرنے کے لیے کسی ادیب کو سب سے پہلے امید پرستی حاصل ہونا ضروری ہے۔

    الہام کا فرشتہ بعض ادیبوں کے پاس اکثر آتا ہے اور بعض کے پاس کبھی نہیں، لیکن وہ ان ادیبوں کو پسند کرتا ہے جو امید اور اعتماد رکھتے ہیں، اور جس وقت کوئی ادیب خود کو سب سے زیادہ تنہا محسوس کر رہا ہو، جس وقت وہ اپنی کوششوں، اپنے خوابوں اور اپنی تحریر کی قدر و قیمت کے بارے میں سب سے زیادہ زیادہ شہبے میں مبتلا ہو۔ جس وقت وہ اس خیال کا شکار ہو جائے کہ اس کی کہانی محض اس کی اپنی کہانی ہے۔ ٹھیک اس لمحے الہام کا فرشتہ اس پر ایسی کہانیاں، مناظر اور خواب منکشف کر دیتا ہے جو اس دنیا کی تعمیر میں کام آسکیں جسے وہ تخلیق کرنا چاہتا ہے۔

    لکھنے کا کام جس میں، میں نے اپنی عمر گزاری ہے، اس کے بارے میں سوچتے ہوئے میرا سب سے زیادہ متاثر کن احساس یہ ہوتا ہے کہ یہ جملے یہ خیالات اور یہ صفحات جنہوں نے مجھے اس قدر سرشاری اور مسرت بخشی، دراصل میرے تخیل کی پیداوار نہیں تھے کہ انہیں کسی اور قوّت نے تلاش کر کے دریا دلی کے ساتھ مجھے عطا کر دیا تھا۔”

  • "مولانا تفریحُ الملک” اور "مرزا پھویا” کون ہیں؟

    "مولانا تفریحُ الملک” اور "مرزا پھویا” کون ہیں؟

    خواجہ صاحب کا نام معلوم نہیں کب سے کانوں میں گونجا ہوا تھا، مگر دیکھا سب سے پہلے گوالیار کی بزمِ اردو میں۔

    جب آپ نے خضر خان اور دیول دیوی کے متعلق اپنا وہ مقالہ پڑھا جس کا تعلق گوالیار ہی کے قلعے سے تھا اور جس میں ہندو مسلم اتحاد کا افسوں پھونکا گیا تھا۔

    کھانے کی میز پر باقاعدہ تعارف کی رسم مشیر احمد علوی نے ادا کی۔ خواجہ صاحب بہت محبت سے ملے۔ اپنی ریلوے ٹرین نما پان کی ڈبیا سے پان نکال کر دیا۔ دیر تک دل چسپ گفت گو فرماتے رہے اور پھر دہلی جاکر روزنامچے میں وہ تمام گفت گو درج کر دی۔

    دوسری مرتبہ دہلی ریڈیو اسٹیشن پر ملا۔ پھر اسی ڈبیا سے پان کھلایا، یہ گفت گو مختصر تھی اور قہقہے زیادہ تھے۔ تیسری مرتبہ آپ سے اس طرح ملاقات ہوئی کہ آپ لکھنؤ ریڈیو اسٹیشن سے ایک تقریر براڈ کاسٹ کرنے لکھنؤ تشریف لا رہے تھے۔ ہم لوگ آپ کے خیر مقدم کے لیے رات ہی سے یک جا ہوگئے، اس لیے کہ صبح پانچ بجے ٹرین آتی تھی۔

    مسٹر جگل کشور مہرا اسٹیشن ڈائریکٹر، ملک حسیب احمد پروگرام ڈائریکٹر، مسٹر غلام قادر فرید، مسٹر ہنس راج کوتھرا اور میں یہ سب کے سب ایک ہی کمرے میں فرشی بستر بچھا کر رات بھر سونے کے لیے جاگتے رہے، صبح آپ کا خیر مقدم کیا گیا۔

    آپ کو اسی گھر میں مہمان بنایا گیا۔ تیسری ملاقات کے بعد ہی آپ نے دہلی جاکر اپنے اخبار ‘‘منادی’’ میں مجھے ‘‘تفریحُ الملک’’ کے خطاب سے سرفراز کر دیا اور پھر برابر شوکت تھانوی کے بجائے ‘‘مولانا تفریح الملک’’ لکھتے رہے۔

    چوتھی مرتبہ مجھے اطلاع ہوئی کہ آپ بصیغۂ راز لکھنؤ تشریف لائے ہوئے ہیں۔ ڈھونڈتا ہوا پہنچا۔ بیٹے کی سسرال میں یہ خواجہ سمدھی صاحب نظامی پلاﺅ، زردہ، بالائی کھا رہے تھے، میں بھی ہاتھ دھو کر بیٹھ گیا اور پھر خواجہ صاحب کو ریڈیو اسٹیشن سے ایک تقریر کے لیے آمادہ کر لیا۔

    اس مرتبہ خواجہ صاحب نے کچھ تجارتی معاملات مجھ سے طے کیے یعنی مجھ کو حکم دیا کہ میں منادی کے لیے ‘‘مرزا پھویا’’ کا فرضی روز نامچہ لکھوں اور اس کے معاوضہ میں جو کچھ مجھے دیا جائے اس سے انکار نہ کروں۔

    میں کچھ دن تک یہ خدمت انجام دیتا رہا۔ آخر فرار کی ٹھانی اور چُپ ہوکر بیٹھ رہا۔ اگر کچھ دن آدمی روپوش رہے تو پھر شرمندگی سنگین سے سنگین تر ہوجاتی ہے اور عذرِ گناہ کے امکانات دور ہٹتے جاتے ہیں۔

    چناں چہ یہی ہوا کہ اپنی کاہلی کی بدولت ایسے مشفق بزرگ، ایسے چہیتے دوست اور ایسے بے غرض مہربان کو ہاتھ سے کھو بیٹھا۔ وہ بیمار رہے، میں بے قرار رہا۔ انھوں نے آنکھوں کا آپریشن کرایا، ان کے یہاں حادثات ہوئے، مگر ہمت نہ ہوئی کہ تعزیت کروں۔ اور اب تک چوروں کی طرح مفرور ہوں۔ جُرم صرف اتنا ہے کہ مرزا پھویا نے لکھنا بند کیا۔ پھر اس کے بعد خط لکھنے کی ہمت نہ ہوئی اور اب خط لکھوں اور مراسم کی تجدید کروں تو کس منہ سے۔

    خواجہ صاحب کا میں مرید نہیں ہوں، مگر ان سے محبت ضرور کرتا ہوں۔ وہ مجھے اپنی کاکلوں اور داڑھی کے ساتھ حسین نظر آتے ہیں۔ ان میں بلا کی دل کشی ہے۔

    لوگ کہتے ہیں کہ حسن نظامی چلتے پھرتے پوسٹر ہیں اور میں کہتا ہوں کہ حسن نظامی نہ پوسٹر ہیں نہ پیر، نہ ادیب ہیں نہ مقرر، بلکہ وہ جادوگر ہیں۔ یقین نہ آتا ہو تو ان کے پاس جاکر دیکھیے۔

    کیا لطف جو غیر پردہ کھولے
    جادُو وہ جو سَر چڑھ کے بولے

    (معروف ادیب اور شاعر شوکت تھانوی کی نادر روزگار شخصیت خواجہ حسن نظامی سے متعلق یادیں)

  • وہ جس نے "دیوتا” تخلیق کیا!

    وہ جس نے "دیوتا” تخلیق کیا!

    محی الدین نواب نے اس زمین پر دو بار ہجرت کی۔

    تقسیمِ ہند کے بعد مشرقی پاکستان گئے اور ملک دو لخت ہوا تو وہاں سے پاکستان چلے آئے، لیکن تیسری بار ایک ایسے دیس جا بسے جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا۔ یہ 2016 کی بات ہے، فروری کی چھے تاریخ تھی جب انھوں نے دنیا سے کوچ کیا۔

    آج محی الدین نواب کی برسی ہے۔ آئیے اس باکمال لکھاری اور مقبول ناول نگار کی یاد تازہ کرتے ہیں۔

    حالاتِ زندگی پر چند سطور

    محی الدین نواب نے 1930 میں اس دنیا میں آنکھ کھولی۔ ہندوستان کے صوبے بنگال کے شہر کھڑک پور میں پیدا ہونے والے محی الدین نواب نے تقسیمِ ہند کے بعد ہجرت کے لیے اُس وقت کے مشرقی پاکستان کا انتخاب کیا، مگر جب پاکستان کا یہ ٹکڑا الگ ہوا اور بنگلا دیش بنا تو انھوں نے پاکستان ہجرت کی۔ یہاں کراچی کو مستقر چنا اور زندگی کی آخری سانس تک اسی شہر میں رہے۔

    تعلق تو ان کا بنگال سے تھا مگر گھر میں اردو بولی جاتی تھی جس نے اس زبان سے لگاؤ اور انسیت پیدا کر دی اور وہ وقت بھی آیا کہ ان کا نام اردو کے مشہور اور مقبول ترین کہانی کاروں میں لیا جانے لگا۔ محی الدین نواب نے افسانہ لکھا اور شاعری بھی کی، مگر ان کی اصل وجہِ شہرت وہ ناول ہیں جنھوں نے مصنف کے تخلیقی جوہر اور منفرد اسلوب کے ساتھ قارئین کو اپنی گرفت میں لے لیا۔

    زورِ قلم سے تصانیف تک

    محی الدین نواب اپنے زورِ قلم سے واقف اور قارئین کی عام نفسیات کو خوب سمجھتے تھے۔ یہ کہا جائے تو کیا غلط ہو گا کہ وہ کسی ماہر نباض کی طرح معاشرے پر نظر ڈالتے تھے۔ ان کا اپنے مشہور ترین ناول دیوتا کے بارے میں دعوىٰ تھا کہ اگر کوئی شخص اس کے چند پارے پڑھ لے تو وہ مکمل ناول پڑھے بغیر نہیں رہ سکتا۔

    محی الدین نواب اپنی کہانیوں کی زمین اپنے گردوپیش، معاشرتی احوال سے اور افراد کے اعمال سے تیار کرتے تھے۔ اس کے ساتھ وہ انسان کی پیچیدہ نفسیات سے بھی اپنی کہانیوں کا موضوع نکالتے اور مکالمے بُنتے۔
    محی الدین نواب نے ضخیم ناول کے ساتھ مختصر کہانیاں بھی لکھیں۔

    ان کے قلم کی ایک خصوصیت حقیقت پسندی اور واقعہ نگاری ہے جسے انھوں نے بہت اہمیت دی اور سیاسی، سماجی، تاریخی موضوعات پر خوب لکھا۔

    معاشرتی کہانیوں نے ان کے قارئین کو اپنے سحر میں جکڑ لیا۔ پڑھنے والے ان کے دیوانے ہو گئے اور انھیں جراحِ معاشرہ کہا جانے لگا۔

    عنوان کی ندرت، تعارف کی انفرادیت

    محی الدین نواب کا قاری ان کے ناولوں کے پُرکشش اور بامعنى عنوان سے بھی متاثر نظر آتا ہے جو اسے اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں۔

    دیوتا، وقت کے فاصلے، ادھورا ادھوری، بدی الجمع، جونک وغیرہ اس کی بہترین مثالیں ہیں۔

    دوسری طرف انھوں نے اپنی کہانی یا ناول کا نہایت خوب صورت اور پُرکشش تعارف کروانے کی روایت برقرار رکھی جس کی چند مثالیں یہ ہیں۔

    ایک ناول قید حیات کی تعارفی سطور دیکھیے۔ لہلہاتے کھیتوں میں سرسراتی، تلخ اور عبرت ساماں حقیقتوں کا فسانہ، ان فصلوں کی پامالی کا احوال جنھیں بعض اوقات پکنا بھی نصیب نہیں ہوتا۔ اپنے ناول گرفت کے تعارف میں لکھا ہے: “بات لہو کی ہو یا حنا کی تصور رنگوں سے شرابور ہو جاتا ہے، زندگی کے انہی دو عناصر سےآراستہ پل پل رنگ بدلتی یہ رنگا رنگ روداد طبقاتی تفاوت کی ہے اور سیاسی عداوت کی بھی۔

    محی الدین نواب کے ناولوں میں کہانی کے دوران کہیں عبادت، کہیں محبت تو کہیں عشق کی تعریف ملتی ہے اور کہیں وہ بغض و عداوت کو بھی اپنی عینک سے دیکھ کر قاری کے سامنے بیان کرتے ہیں اور یہ قابلِ مطالعہ ہوتی ہیں۔ ایک ناول میں عبادت کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ عبادت بہت وسیع، بہت بڑا مفہوم رکھتى ہے، انسانوں سے محبت کرنا عبادت ہے، جانوروں پر رحم کرنا عبادت ہے، کسی کی زیادتی پر، خطا پر بدلہ لینے کی طاقت رکھنے کے باوجود درگزر کرنا عبادت ہے، کسی کو خوشی دینے کے لیے مسکرا دینا عبادت ہے۔

    اب یہ دیکھیے کہ انھوں نے موٹر سائیکل سے انسانی حوصلے کو کس خوب صورتی سے جوڑ دیا ہے۔ ایک ناول میں لکھتے ہیں۔

    اس کے پاس ایک بڑے سائز کی بھاری بھرکم موٹر سائیکل تھی، اس موٹر سائیکل کے پہیے اور فولادی پارٹس اس کے حوصلوں کی طرح مضبوط اور ناقابل شکست تھے۔