Tag: ناول نگار انتقال

  • وکٹر ہیوگو: انیسویں صدی کا سب سے بڑا فرانسیسی ادیب

    وکٹر ہیوگو: انیسویں صدی کا سب سے بڑا فرانسیسی ادیب

    دنیائے ادب میں وکٹر ہیوگو نے اُن تخلیق کاروں میں جگہ پائی جن کا نام ایک صدی سے زائد عرصہ بیت جانے کے باوجود بھی زندہ ہے۔ اس فرانسیسی ادیب، شاعر اور صحافی نے اپنے ناولوں کی بدولت دنیا بھر میں شہرت حاصل کی۔ آج وکٹر ہیوگو کا یومِ وفات ہے۔

    وکٹر ہیوگو کو اُنیسویں صدی کا سب سے بڑا فرانسیسی ادیب تسلیم کیا جاتا ہے۔ ابتدا میں اس کی شہرت بطور شاعر تھی، لیکن بتدریج وہ ناول نگار اور ڈراما نویس کے طور پر مقبول ہوا اور اس کی کہانیوں‌ نے فرانس کے علمی و ادبی حلقوں کو ہی نہیں‌ بیرونِ ملک بھی پڑھنے والوں کو اپنی جانب متوجہ کرلیا۔ بطور ناول نگار وکٹر ہیوگو نے ادب میں بڑا نام و مرتبہ پایا۔

    26 فروری 1802 کو پیدا ہونے والا یہ عظیم ناول نگار اپنا تخلیقی سفر جاری رکھتے ہوئے عالمی ادب کی رومانوی تحریک سے بھی وابستہ رہا، اور اس کے اثرات، وکٹر ہیوگو کی ذاتی زندگی پر بھی پڑے۔ وہ حسن و جمال کا دلداہ اور فطرت سے محبّت کرتا رہا اور اس کی زندگی میں‌ کئی عورتیں‌ آئیں، لیکن اس کے مزاج کی عکاسی اس کے ناولوں کے کردار کرتے ہیں۔

    وکٹر ہیوگو نے ناول نگاری کے ساتھ اس وقت کئی کھیل بھی تحریر کیے اور شاعری جیسی صنف میں‌ طبع آزمائی بھی کی۔ وہ ہر صنفِ ادب میں اپنی انفرادیت برقرار رکھنے میں کام یاب رہا۔ وکٹر ہیوگو زرخیز ذہن کا مالک تھا۔ اس نے ادب اور صحافت کے علاوہ عملی سیاست بھی کی اور انسانی حقوق کا علم بردار بھی رہا۔

    انیسویں صدی کے اس فرانسیسی ادیب کے ناولوں کا کئی زبانوں میں ترجمہ ہوا جن میں اردو بھی شامل ہے۔ Les Miserables وکٹر ہیوگو کا بہترین ناول شمار ہوتا ہے جسے مختلف ادیبوں نے اردو زبان میں‌‌ ڈھالا ہے اور اس پر فلم بھی بنائی جاچکی ہے۔ اردو کے علاوہ اسے بیس سے زائد زبانوں میں ترجمہ کرکے قارئین تک پہنچایا گیا اور آج بھی اس ناول کو وکٹر ہیوگو کی اہم تصنیف کے طور پر گنا جاتا ہے۔ وکٹر ہیوگو نے 1845 میں یہ ناول لکھنا شروع کیا تھا اور کہتے ہیں کہ 1861 میں وہ اسے مکمل کر سکا۔ اسی طرح The Hunchback of Notre-Dame وہ ناول تھا جس کا اردو زبان میں‌ کبڑا عاشق کے نام سے ترجمہ قارئین میں‌ بہت مقبول ہوا۔ یہ ناول فرانس اور دنیا بھر میں‌ وکٹر ہیوگو کی بہترین تخلیقات میں شمار کیا جاتا ہے۔

    فرانسیسی ادیب وکٹر ہیوگو نے اپنے زمانے کے سماجی حقائق اور رویّوں کے ساتھ معاشرے کے مخلتف روپ اپنی تخلیقات میں‌ پیش کیے جنھیں قارئین کی توجہ حاصل ہوئی‌ اور ناقدین نے بھی اسے سراہا۔

    وکٹر ہیوگو کی زندگی کا سفر 1885 میں‌ پیرس میں آج ہی کے دن تمام ہوا۔

  • سال بیلو کا تذکرہ جس کی تحریریں یہودی اساطیر میں ڈوبی ہوئی ہیں!

    سال بیلو کا تذکرہ جس کی تحریریں یہودی اساطیر میں ڈوبی ہوئی ہیں!

    نوبیل انعام یافتہ امریکی ناول نگار سال بیلو کا قلم سے رشتہ اور تخلیقی سفر تقریباً پانچ دہائیوں پر محیط رہا۔ وہ 2005ء میں آج ہی کے دن چل بسے تھے۔

    اس امریکی ناول نگار کو جنگِ عظیم کے بعد کا دانش وَر بھی کہا جاتا ہے جس کی وجہ ان کے مخصوص فکر کے حامل کردار تھے۔ سال بیلو نے کہا تھا ’میں جو دیکھتا ہوں، اس سے تجاوز نہیں کر سکتا، دوسرے لفظوں میں، مَیں اُس تاریخ نویس کی مانند ہوں جو اُس خاص عہد کا پابند ہے جس کے بارے میں وہ لکھ رہا ہے۔‘ لیکن سال بیلو کی تاریخ نویسی ذاتی اور مخصوص نوعیت کی تھی۔ یہ دراصل ان کی یہودی شناخت اور اس سے جڑے ہوئے مسائل تھے جس کو انھوں‌ نے کرداروں کی صورت میں‌ بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔

    انھیں 1976ء میں‌ نوبیل انعام سے نوازا گیا اور تسلیم کیا گیا کہ ان کی تخلیقات میں تنوع ہے۔ سال بیلو کی خصوصیت یہ تھی کہ ان کے کردار بڑے جان دار تھے۔ انہی کرداروں کے بَل پر مصنّف نے اپنی کہانیوں کو خوبی سے پھیلایا اور خاص تھیم پر لکھا۔ اس کی مثال ان کے ناول ’آگی مارچ کی مہمات‘ (1953)، ’ہینڈرسن دی رین کنگ‘ ( 1959) اور ’ہرزوگ‘ (1964) ہیں۔ ادب کے ناقدین کردار نگاری ہی کو ان کی تخلیقات کا نمایاں وصف قرار دیتے ہیں۔ اس میں ہرزوگ کو خاص مقام حاصل ہے۔ ہرزوگ دراصل ایک دانش ور کردار ہے جس کے ذریعے بیلو نے یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ اس ’ہی مین‘ والے عہد میں ایک دانش ور گویا وہ نامرد ہے جو صرف سوچتا رہتا ہے اور کچھ نہیں کرسکتا۔ بیلو کے بیشتر کردار دانش وروں کے اسی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جن میں ایک خاص قسم کا مزاح بھی ہے۔

    مرزا اے بی بیگ نے سال بیلو کی وفات پر اپنی تحریر میں‌ لکھا تھا کہ ناقدین کی بڑی تعداد بیلو کے ناولوں کو مختلف پیرائے، بیانیہ اور مابعد جدیدیت کے تناظر میں دیکھنے کی کوشش کرتی رہی ہے، لیکن ایڈورڈ سعید اور چومسکی جیسی قد آور شخصیات نے بیلو کے فکشن اور غیر فکشن میں ان کے سیاسی نظریے کو کھول کر رکھ دیا۔ وہ کہتے ہیں کہ بیلو مشرق وسطی کے مسئلے پر کسی حد تک صیہونیت کے حامی اور علم بردار ہیں۔
    ایک زمانے تک سال بیلو نے خود کو ’یہودی-امریکی ادیب‘ کے لیبل سے آزاد اور الگ رکھنے کی ناکام کوشش کی۔ تاہم یہ اب ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ان کے ناولوں میں یہودیت ایک عام بحث کا موضوع ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ سال بیلو کی تحریریں یہودی اساطیر میں ڈوبی ہوئی ہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ امریکا میں یہودی شناخت ان کا مسئلہ رہا۔ اسی وابستگی کے پس منظر میں‌ معاشرہ اور انسان ان کی تخلیقات پر حاوی نظر آتا ہے، لیکن جب دنیا بھر کے ادیب اور دانش ور اسرائیل کے مظالم کے خلاف آواز اٹھا رہے تھے تو سال بیلو اس سے دور رہے۔ اسی طرح وہ اپنے انٹرویوز اور گفتگو میں‌ بھی اس بابت اپنا نقطۂ نظر واضح کرنے سے گریز کرتے رہے۔

    بیلو نے 1915ء میں مانٹریال کے مشہور علاقے کیوبک میں آنکھ کھولی تھی۔ 1924 میں ان کا خاندان شکاگو منتقل ہو گیا۔ وہ 17 سال کے تھے جب والدہ کی شفقت سے محروم ہوگئے۔ 1933 میں سال بیلو نے شکاگو یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور پھر ایک اور سستی جگہ پر منتقل ہوکر وہاں درس گاہ میں‌ داخل ہوئے۔ انھوں نے وسکونسن یونیورسٹی میں گریجویشن ادھوری چھوڑ دی تھی۔

    اس امریکی ناول نگار کی پہلی تصنیف ’ڈینجلنگ مین‘ ہے جسے انھوں نے 1944 میں شائع کروایا تھا۔ سنہ 2000ء میں‌ سال بیلو کی آخری تصنیف ’ریولسٹائن‘ کے عنوان سے منظرِ عام پر آئی تھی۔ بیسویں صدی کے انگریزی کے اس اہم ناول نگار کو ادب کے کئی معتبر ایوارڈز اور انعامات سے نوازا گیا جن میں‌ فکشن کا پلٹزر پرائز بھی شامل ہے جب کہ مین بکر انٹرنیشنل پرائز کے لیے بھی ان کا نام فہرست میں شامل کیا گیا تھا۔

  • ‘خدا کی بستی’ کے خالق شوکت صدیقی کا تذکرہ

    ‘خدا کی بستی’ کے خالق شوکت صدیقی کا تذکرہ

    خدا کی بستی شوکت صدیقی کا معرکہ آرا ناول ہے جسے 1960ء میں آدم جی ادبی ایوارڈ بھی ملا تھا۔ شوکت صدیقی اردو ادب کے ایک مقبول ناول اور افسانہ نگار تھے جن کی آج برسی ہے۔

    شوکت صدیقی فکشن نگاری کے علاوہ صحافی اور کالم نویس کی حیثیت سے بھی پہچانے جاتے ہیں۔ 18 دسمبر 2006ء کو کراچی میں وفات پانے والے شوکت صدیقی کے مشہور ناول خدا کی بستی کی ڈرامائی تشکیل پی ٹی وی پر پیش کی گئی تھی اور یہ پاکستان ٹیلی ویژن کی تاریخ وہ ڈرامہ تھا جو نشر ہوتا تو شہر کے راستے سنسان ہو جایا کرتے تھے۔ یہ ڈرامہ تین مرتبہ نشرِ مکرر کے طور پر پیش کیا گیا اور 42 زبانوں میں ان کے ناول کا ترجمہ ہوا۔

    شوکت صدیقی 20 مارچ 1923ء کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے تھے۔ شوکت صدیقی کا ایک اور مشہور ناول جانگلوس ہے اور اسے بھی پاکستان ٹیلی وژن پر ڈرامائی تشکیل کے بعد نشر کیا گیا۔ لیکن اس پر پابندی عائد کر دی گئی تھی اس زمانے میں بعض پالیسیاں رکاوٹ بن گئیں اور اس ڈرامے کی تمام اقساط نشریات کا حصّہ نہیں بن سکیں۔ اس ناول کا موضوع بھی مظلوم طبقات کی بے بسی ہے جس میں‌ وڈیرے اور ان کے جرائم و مظالم کے علاوہ سیاست اور قانون کی کم زوریوں اور مفاد کو اجاگر کیا گیا تھا۔ اس پر پابندی کی بڑی وجہ یہ تھی کہ جانگلوس استحصالی قوتوں کی قلعی کھولتا ہے خاص طور پر جاگیرداری نظام کی۔ اور امراء کے گھناؤنے کردار اور بدترین روپ کو ہمارے سامنے لاتا ہے۔ یہ ناول ڈائجسٹ ’’سب رنگ‘‘ کراچی میں قسط وار شائع ہوتا رہا اور بعد میں کتابی شکل میں شایع ہوا تھا۔ یہ ناول تین جلدوں پر محیط ہے۔

    پاکستان کے اس ممتاز فکشن رائٹر کی دیگر تصانیف میں افسانوں کے مجموعے راتوں کا شہر، رات کی آنکھیں، کوکا بیلی، کیمیا گر، شریف آدمی جب کہ ناول چار دیواری اور کمین گاہ شامل ہیں‌۔ ان کے اخباری کالموں کا مجموعہ بھی شایع ہوا تھا۔

    شوکت صدیقی روزنامہ انجام اور مساوات کے مدیر بھی رہے۔ حکومتِ پاکستان نے ان کی ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی اور ستارۂ امتیاز عطا کیا تھا۔ اکادمی ادبیات پاکستان نے 2002ء میں انہیں کمالِ فن ایوارڈ سے نوازا تھا جب کہ 2004ء میں عالمی فروغِ اردو ادب ایوارڈ بھی شوکت صدیقی کو دیا گیا تھا۔

    انتظار حسین کہتے ہیں، ‘شوکت صدیقی نے لوگوں‌ کے لیے لکھا اور لوگوں کے بارے میں‌ لکھا۔’

    انھیں‌ کراچی کے ایک قبرستان میں‌ سپردِ‌‌ خاک کیا گیا۔

  • عالمی شہرت یافتہ جین آسٹن کے ناولوں کو کس نے اسلوب عطا کیا؟

    انگریزی ادب میں جین آسٹن کو عظیم ناول نگار کہا جاتا ہے۔ وہ اپنے ناول پرائڈ اینڈ پریجوڈس کی وجہ سے دنیا بھر میں ممتاز ہوئیں۔ اس ناول کو دنیا کے دس عظیم ناولوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ جین آسٹن 1817 میں‌ آج ہی کے دن دنیا سے رخصت ہوگئی تھیں۔

    اس انگریز ناول نگار نے اپنی زندگی میں چھے ناول مکمل کیے تھے جن میں سے دو ان کی وفات کے بعد شائع ہوئے۔ چند سال قبل جین آسٹن کے ناول ایما کا پہلا منقش ایڈیشن بھی ریکارڈ قیمت پر نیلام ہوا تھا۔ یہ تین جلدوں پر مشتمل کتابیں‌ جین آسٹن کی معرفت این شارپ کے نام منقّش کی گئی تھیں۔ این شارپ، جین آسٹن کی دوست اور ان کی بھتیجی کی گورنس تھیں۔

    انگریزی زبان میں کلاسیکی ادب کے حوالے سے جین آسٹن کے فن اور اسلوب کو کئی اہم اور قابلِ ذکر نقادوں نے سراہا اور کہا کہ انھوں نے انسانی فطرت اور رشتوں کی باریکیوں کو سمجھا اور پھر نہایت خوب صورتی اور پُرتاثیر انداز میں اپنے ناولوں میں‌ پیش کیا۔ لیکن یہ کتنی عجیب بات ہے کہ انگریزی زبان و ادب کی ایک پروفیسر نے اپنے تحقیقی مطالعے کے بعد جین آسٹن کے صاحبِ اسلوب ہونے کو مسترد کرتے ہوئے انھیں‌ ایک ایسی مصنّف کے طور پر پیش کیا ہے جو اختراع پسند اور تجربات کرنے والی تھیں، اور ان کے مطابق وہ گفتگو اور مکالمہ نویسی پر زبردست گرفت رکھتی تھیں۔

    جین آسٹن ایک برطانوی پادری کی بیٹی تھیں۔ انھوں نے 1775ء میں‌ برطانیہ میں‌ آنکھ کھولی۔ ‘پرائڈ اینڈ پریجوڈیس’ ان کا وہ ناول ہے جسے دنیا بھر میں‌ سراہا گیا اور اردو میں‌ اس کے متعدد تراجم سامنے آئے۔ اردو میں اس ناول کو فخر اور تعصّب کے نام سے پیش کیا گیا۔ جین آسٹن کے دیگر ناولوں میں‌ ‘مینز فیلڈ پارک’ اور ‘ایما’ بھی شامل ہیں۔ ایما پہلی بار 1816ء میں شائع ہوا تھا۔ سینس اینڈ سینسیبلٹی یعنی شعور و احساس اور نارتھینجر ایبے وہ ناول تھے جو بہت بعد میں شائع ہوئے۔

    مصنّفہ کے ناول کے کردار سماج اور اس کے اشراف ہیں۔ انھوں‌ نے اپنے ناولوں میں‌ روایات، رویوں پر طنز اور ہلکے پھلکے انداز میں‌ چوٹ کی اور آج بھی ان کے ناول اس دور کے برطانوی معاشرے اور وہاں‌ ہر خاص و عام کی اخلاقی حالت کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔

    جین آسٹن کی موت کے لگ بھگ دو صدی بعد آکسفرڈ یونیورسٹی کی پروفیسر کیتھرین سودرلینڈ کی تحقیق میں دعویٰ یہ کیا گیا کہ اس معروف ناول نگار کا اسلوب ان کا اپنا نہیں بلکہ کسی مدیر کے زورِ قلم کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔ انھوں نے جین آسٹن کی دستی تحریر پر مشتمل گیارہ سو صفحات کے مطالعے کے بعد یہ دعویٰ کیا تھا۔ یہ مصنفہ کے غیر مطبوعہ اوراق تھے اور سودرلینڈ کے مطابق ان مسودوں پر دھبے اور کاٹ چھانٹ کے ساتھ ’گرامر کے لحاظ سے تصحیح‘ کی گئی ہے جس سے انھوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا۔ ان کے مطابق ان مسودوں میں وہ سب نہیں‌ جو ایما جیسے ناول میں دکھائی دیتا ہے۔ سودر لینڈ کا خیال ہے کہ ادارت اور تصحیح کے لیے جین آسٹن کسی سے بھرپور مدد لیتی رہی ہوں‌ گی۔

  • چارلس ڈکنز: عہد ساز شخصیت، عظیم ناول نگار

    چارلس ڈکنز: عہد ساز شخصیت، عظیم ناول نگار

    شہرۂ آفاق کہانیوں کے خالق چارلس ڈکنز کو برطانوی معاشرے کا نبّاض بھی کہا جاتا ہے جنھوں نے سماجی برائیوں، اپنے عہد میں نظام کی خامیوں اور مسائل کو اپنی تخلیقات میں اجاگر کرکے فرسودہ نظام کو بدلنے میں‌ اپنا کردار ادا کیا۔ 9 جون 1870ء کو ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لینے والے چارلس ڈکنز کے ناول اولیور ٹوئسٹ، ڈیوڈ کاپر فیلڈ، اے ٹیل آف ٹو سٹیز کلاسک کا درجہ رکھتے ہیں۔

    چارلس ڈکنز ایک ناول نگار، صحافی ہی نہیں سماج کا بڑا ناقد اور صاحبِ بصیرت شخص تھا جسے انیسویں صدی کا ایک اہم اور با اثر ادیب کہا جاتا ہے۔ اس نے اپنی نگارشات میں اپنے وکٹورین دور کی مکمل تصویر پیش کی ہے جو بعد میں معاشرتی سطح پر تبدیلی لانے میں مددگار ثابت ہوئی۔

    چارلس ڈکنز نے 7 فروری 1812ء کو انگلینڈ کے جنوبی ساحل پر واقع پورٹس ماؤتھ کے ایک گھر میں آنکھ کھولی۔ وہ اپنے والدین کی آٹھ اولادوں میں‌ سے دوسری اولاد تھی۔ اس کے والد جان ڈکنز بحریہ میں ایک کلرک تھے جب کہ والدہ الزبیتھ بیرو شعبۂ تدریس سے منسلک تھیں۔ 1822ء میں ڈکنز خاندان لندن کے ایک نچلے طبقے کے رہائشی محلّے میں‌ منتقل ہوگیا تھا۔ اس خاندان کے مالی حالات نہایت خراب ہوچکے تھے۔ والد مقروض ہوتے چلے گئے اور پھر مقدمہ ہار کر جیل جانا پڑا۔

    اس واقعے کے بعد 12 سالہ چارلس کو جوتے رنگنے والی فیکٹری میں ملازمت کرنے کی خاطر اسکول چھوڑنا پڑا۔ یوں اسے زندگی کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ فیکٹری میں کام کرتے ہوئے جبر اور استحصال بھی برداشت کیا اور یہی دکھ اور مسائل کے ساتھ معاشرتی رویّے چارلس کی تحریروں میں‌ بھی شامل ہوگئے۔

    حالات اچانک بدلے اور دوبارہ تعلیم کا سلسلہ شروع ہوگیا، لیکن پھر قسمت نے مذاق کر ڈالا اور چارلس کو ایک دفتر میں آفس بوائے کی حیثیت سے ملازمت اختیار کرنا پڑی۔ لیکن یہی ملازمت اس کی زندگی کا اہم موڑ ثابت ہوئی، چارلس نے لکھنا شروع کردیا اور خوب نام و مقام بنایا۔

    اس کی نگارشات کا ترجمہ تقریباً ہر زبان میں ہو چکا ہے جن میں‌ اردو بھی شامل ہے۔ 2012ء میں چارلس ڈکنز کی 200 ویں سال گرہ منائی گئی تھی اور اس موقع پر برطانیہ میں شان دار تقاریب منعقد کی گئی تھیں۔

  • تہذیبی اور ثقافتی روایات کی امین، مشہور ناول نگار بانو قدسیہ کا یومِ وفات

    تہذیبی اور ثقافتی روایات کی امین، مشہور ناول نگار بانو قدسیہ کا یومِ وفات

    بانو قدسیہ اردو ادب کی ایک قد آور شخصیت ہیں۔ ان کا شمار اُن ادبا اور اہلِ علم و دانش میں‌ ہوتا ہے جو اردو زبان کی آب یاری کے ساتھ اپنے قلم سے اپنی تہذیب اور روایات کا پرچار بھی کرتے رہے۔ انھوں نے ادب کو ایسی شاہ کار تخلیقات سے مالا مال کیا جس نے معاشرے کے مختلف طبقات کو غور و فکر پر آمادہ کیا اور سوچ کے دَر وا کیے۔

    بانو قدسیہ نے فکشن، معاشرتی اور سماجی مسائل پر اپنے قلم کے زور ہی سے شہرت حاصل نہیں کی بلکہ مختلف مجالس میں‌ اپنی گفتگو سے بھی معاشرے کی تعمیر اور اصلاح کی کوشش کی اور بے حد مقبول ہوئیں۔

    وہ اردو اور پنجابی زبان کی ناول نگار، افسانہ نگار اور ڈرامہ نویس کے طور پر مشہور تھیں۔ 28 نومبر 1928ء کو مشرقی پنجاب کے شہر فیروز پور کے ممتاز علمی و ادبی گھرانے میں پیدا ہونے والی بانو قدسیہ تین سال کی تھیں جن اُن کے والد کا انتقال ہو گیا۔ تعلیم و تربیت کے مراحل طے کرتے ہوئے پانچویں جماعت میں پہنچیں تو قلم تھاما اور مختصر کہانیاں لکھنے لگیں۔ اس طرح مشق اور حوصلہ افزائی نے انھیں مزید سوچنے اور اپنے خیالات کو کاغذ پر منتقل کرنے پر آمادہ کیا جس میں وقت کے ساتھ شعور اور پختگی آتی گئی۔ تقسیمِ ہند کے بعد وہ اپنے خاندان کے ساتھ ہجرت کر کے لاہور آ گئیں، جہاں انھوں نے 1949ء میں کینیرڈ کالج لاہور برائے خواتین سے ریاضیات اور اقتصادیات میں گریجویشن مکمل کیا۔

    اس عرصے میں وہ اپنے کالج کے میگزین اور دوسرے رسائل کے لیے بھی لکھتی رہیں۔ بعد ازاں 1951ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے اردو کی ڈگری حاصل کی۔ وہیں ان کی ملاقات مشہور ناول نگار اور ڈرامہ نویس اشفاق احمد سے ہوئی، جو اس وقت ان کے ہم جماعت تھے۔ اردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت میں گہری دل چسپی لینے والی یہ دونوں شخصیات 1956ء میں رشتۂ ازدواج میں بندھ گئیں۔

    ایم اے کے بعد لاہور کے معروف ادبی مجلہ ’’ادبِ لطیف ‘‘ میں ان کا پہلا افسانہ شایع ہوا جس کا عنوان ’واماندگیٔ شوق‘ تھا۔ اس کے بعد یہ سلسلہ ناول نگاری تک پھیل گیا اور راجہ گدھ، بازگشت، امربیل، آتش زیرِپا، آدھی بات، دوسرا دروازہ، تمثیل، حاصل گھاٹ اور توبہ شکن جیسے ناول سامنے آئے جو بہت مقبول ہوئے۔ ’راجہ گدھ‘ ان کا سب سے مقبول ناول ہے، جس کے اسلوب اور علامتی انداز کو قارئین نے بے حد سراہا اور بانو قدسیہ کو بے مثال شہرت نصیب ہوئی۔

    وہ اردو اور پنجابی زبانوں پر عبور رکھتی تھیں اور اس زمانے میں‌ ریڈیو اور ٹیلی ویژن تفریح کا سب سے بڑا ذریعہ تھے جن کے لیے بانو قدسیہ نے بھی ڈرامے لکھے۔ ان کے ڈرامے ’آدھی بات‘ کو کلاسک کا درجہ حاصل ہے۔ ان کے تحریر کردہ ڈرامے سماجی مسائل پر بامقصد اور تعمیری انداز میں نظر ڈالنے کا موقع دیتے تھے۔ ان کی تحریروں کا بڑا وصف روایات اور اقدار کی پاس داری کا درس ہے جس میں وہ مذہب اور تعلیم و تربیت کی اہمیت کے ساتھ رشتے ناتوں کے تقدس کو نہایت خوب صورتی سے پیش کرتی ہیں۔

    بانو قدسیہ کی علمی اور ادبی خدمات کے اعتراف میں حکومتِ پاکستان نے انھیں ستارۂ امتیاز اور قومی خدمات پر ہلالِ امتیاز سے نوازا تھا۔ اس کے علاوہ انھیں کمالِ فن ایوارڈ اور بعد میں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ بھی دیا گیا۔

    4 فروری 2017ء کو بانو قدسیہ لاہور میں وفات پاگئی تھیں۔

  • انتظار حسین: ان کے اسلوب کی سحر انگیزی پُراسرار پہاڑ کے بلاوے کی طرح ہے!

    انتظار حسین: ان کے اسلوب کی سحر انگیزی پُراسرار پہاڑ کے بلاوے کی طرح ہے!

    انتظار حسین وہ پہلے پاکستانی تخلیق کار ہیں جنھیں بکر پرائز کے لیے شارٹ لسٹ کیا گیا تھا۔ ان کے فن اور گراں قدر ادبی خدمات کے اعتراف میں پاکستان ہی نہیں‌ بھارت، مشرق وسطیٰ اور یورپ میں بھی انھیں کئی اعزازات سے نوازا گیا تھا۔

    ان کا شمار موجودہ عہد میں پاکستان ہی کے نہیں بلکہ اردو فکشن، خاص طور پر افسانے اور ناول کے اہم ترین تخلیق کاروں میں کیا جاتا تھا۔

    پاکستان کے معروف فکشن نگار نے زندگی کی 93 بہاریں دیکھنے کے بعد 2 فروری 2016ء میں ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں موند لی تھیں۔ انتظار حسین لاہور کے ایک اسپتال میں نمونیہ اور شدید بخار کی وجہ سے زیرِ علاج تھے۔

    انتظار حسین سنہ 1923ء میں ہندوستان کے ضلع میرٹھ میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے میرٹھ کالج سے اردو میں ایم اے کیا۔ تقسیمِ ہند کے وقت ہجرت کی اور پاکستان آنے کے بعد صحافت کے شعبے سے وابستہ ہو گئے۔ ان کا تخلیقی سفر شروع ہو چکا تھا اور پاکستان آنے کے بعد 1953ء میں‌ انتظار حسین کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ’گلی کوچے‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ بعد کے برسوں میں افسانوں کے آٹھ مجموعے، چار ناول اور آپ بیتی کی دو جلدیں جب کہ ایک ناولٹ بھی منظرِ عام پر آیا۔ وہ اپنے اسلوب کی وجہ سے پہچان بنانے والے ادیبوں میں‌ شمار کیے جاتے ہیں جنھوں نے تراجم بھی کیے اور سفر نامے بھی لکھے۔ انتظار حسین عالمی شہرت یافتہ پاکستانی ادیب تھے جن کے ناول اور افسانوں کے چار مجموعے بھی انگریزی زبان میں شائع ہوئے۔

    تاریخ، تہذیب و ثقافت اور ادبی موضوعات پر ان کے قلم کی نوک سے نکلنے والی تحریریں بہت مقبول ہوئیں۔ اس سحر طراز ادیب کی تحریریں کئی فکری مباحث کو جنم دینے کا سبب بنیں۔ ان کے یہاں ناسٹیلجیا یا ماضی پرستی بہت ہے، جس کے بیان میں وہ اپنے علامتی اور استعاراتی اسلوب سے ایسا جادو بھر دیتے ہیں جس میں ایک حسن اور سوز پیدا ہو جاتا ہے۔

    انتظار حسین کا مطالعہ بہت وسیع تھا۔ قرآن شریف، احادیث، صوفیائے کرام کے ملفوظات ہی نہیں، وہ ہندوستان کی قدیم تہذیبوں کی روایات، معاشرت اور ان کے رائج مذاہب اور عقائد پر بھی خوب بات کرتے تھے۔ رامائن اور بدھ مت وغیرہ پر ان کی گہری نظر تھی اور ساتھ ہی مغربی مفکرین کا مطالعہ بھی کیا تھا۔ ان کی وجہِ شہرت فکشن نگاری ہی نہیں ان کے انگریزی اور اردو زبان میں‌ شایع ہونے والے کالم بھی ہیں جنھیں علم و ادب کا شغف رکھنے والوں اور سنجیدہ قارئین نے بے حد پسند کیا۔ ان کے یہ کالم بھی کتابی شکل میں شائع ہوئے۔

    ممتاز نقّاد وارث علوی نے انتظار حسین سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار ان الفاظ میں‌ کیا تھا:

    ’’انتظار حسین کے افسانوں میں اسلوب کا یہ جادو ملتا ہے، یعنی خوب صورت نظموں کی مانند ان کے افسانوں کے اسلوب کی سحر انگیزی پراسرار پہاڑ کے بلاوے کی طرح ہمیں اپنی طرف کھینچتی رہتی ہے۔ یہ کشش کہانی، کردار، واقعات یا دوسرے ارضی مواد کے سبب نہیں ہوتی جیسا کہ بیدی، منٹو یا موپساں کے افسانے میں ہوتا ہے۔ لیکن آپ انتظار حسین کی زبان و بیان کی جادو گری کا راز پانے کی کوشش کیجیے تو دیکھیں گے کہ ان کے اسلوب کی پوری سحر کاری ایک ایسے مواد کی زائیدہ ہے جو انسان کے ارضی، اخلاقی اور روحانی تجربات سے تشکیل پاتا ہے، اور یہ مواد اتنا ہی گاڑھا ہے جتنا کہ حقیقت پسند افسانے کا سماجی اور انسانی مواد اور اسی لیے اس کی پیش کش میں انتظار حسین گو اسطوری اور علامتی طریقِ کار اختیار کرتے ہیں، لیکن حقیقت پسند تکنیک کے ہتھکنڈوں یعنی واقعہ نگاری، کردار نگاری، جزئیات نگاری، مکالمے، تصویر کشی اور فضا بندی کا بھرپور استعمال کرتے ہیں۔ اسی سبب سے ان کے افسانے تجریدی افسانوں کی ذیل میں نہیں جاتے اور ان کا اسلوب تجریدی افسانوں کی مانند شاعری کے اسلوب سے قریب ہونے کی کوشش نہیں کرتا۔ انتظار حسین کا امتیازی وصف ہے کہ ان کے کسی جملے پر شعریت، غنایت یا شاعرانہ پن کا گمان تک نہیں ہوتا، بلکہ ایسا لگتا ہے کہ ان کی پوری کوشش غنایت سے گریز کی طرف ہے۔ ان کے باوجود ان کا اسلوب غنائی شاعری کے اسلوب کی مانند ہم پر وجد کی کیفیت طاری کرتا ہے۔ یہ نثر کی معراج ہے۔‘‘

    ان کی تحریروں میں اکثر پرانے اور ایسے الفاظ پڑھنے کو ملتے تھے جنھیں عام طور پر ترک کردیا گیا ہو۔ وہ اپنے کالموں میں کبھی کوئی قدیم حکایت اور داستان پیش کرتے یا اس میں بیان کیے گئے واقعے یا شخصیت کو اپنے مطالعے اور فکر کی بنیاد پر نہایت پُراثر موضوع بنا دیتے تھے۔

    انتظار حسین کی تصانیف میں آخری آدمی، شہر افسوس، آگے سمندر ہے، بستی، چاند گہن، گلی کوچے، کچھوے، خالی پنجرہ، خیمے سے دور، دن اور داستان، علامتوں کا زوال، بوند بوند، شہرزاد کے نام، زمیں اور فلک، چراغوں کا دھواں، دلی تھا جس کا نام، جستجو کیا ہے، قطرے میں دریا، جنم کہانیاں، قصے کہانیاں، شکستہ ستون پر دھوپ، سعید کی پراسرار زندگی سرِ فہرست ہیں۔

  • البرٹ کامیو: "موت کی‌ خوشی” کا خالق جس نے کار حادثے میں‌ موت کا ذائقہ چکھا!

    البرٹ کامیو: "موت کی‌ خوشی” کا خالق جس نے کار حادثے میں‌ موت کا ذائقہ چکھا!

    البرٹ کامیو نے 1913ء میں الجزائر میں‌ آنکھ کھولی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب وہاں فرانسیسی قابض تھے اور طویل جدوجہد اور قربانیوں کے بعد یہاں کے عوام نے آزادی حاصل کی تھی۔

    کامیو شمالی افریقہ میں‌ پلا بڑھا اور پھر فرانس چلا گیا جہاں جرمنی کے قبضے کے بعد وہ خاصا متحرک رہا اور ایک اخبار کا مدیر بن گیا۔ اس کی مادری زبان فرانسیسی تھی۔ اسی زبان میں اس نے ناول نگاری سے صحافت تک اپنا تخلیقی سفر بھی طے کیا اور ایک فلسفی کی حیثیت سے بھی شہرت پائی۔ اس نے ناولوں کے ساتھ متعدد مضامین لکھے اور کتابیں‌ تصنیف کیں۔ اسے 1957ء میں‌ ادب کا نوبل انعام دیا گیا تھا۔

    البرٹ کامیو فرانسیسی نژاد اور ہسپانوی والدین کی اولاد تھا۔ اس نے غربت اور تنگ دستی دیکھی اور کم عمری میں اپنے والد کو کھو دیا۔ اسے مختلف کام کر کے گزر بسر کرنا پڑی۔

    ’’اجنبی‘‘ اس کا پہلا ناول تھا جس کی اشاعت نے اسے دنیا بھر میں شہرت دی۔ یہ ایک ایسے بیٹے کی داستان تھی جسے اچانک اپنی ماں کے مر جانے کی خبر ملتی ہے۔ وہ اس خبر کو سننے کے بعد سے اپنی ماں کی تدفین تک تمام معاملات سے جذباتی طور پر قطعی لاتعلق رہتا ہے۔

    کامیو کے اس ناول کو دو عالمی جنگوں کے فوراََ بعد یورپ میں پھیلی انسانی زندگی، معاشرتی رشتوں اور ریاستی معاملات پر لوگوں کے بے تعلق ہوجانے کا مؤثر ترین اظہار ٹھہرایا گیا۔ وہ ایک ایسے ناول نگار کے طور پر دنیا میں‌ مشہور ہوا جس نے فلسفے کو نہایت خوبی سے اپنی کہانیوں میں‌ پیش کیا اور اسے مؤثر و قابلِ‌ قبول بنایا۔ اس نے الجیریا میں‌ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے دوران ٹی بی جیسے مرض سے بھی مقابلہ کیا۔ اس وقت یہ مرض خطرناک اور جان لیوا تصوّر کیا جاتا تھا اور لوگ ایسے مریضوں‌ سے دور رہتے تھے۔ غربت اور ان حالات نے اسے فلسفے کے زیرِ اثر رشتوں اور تعلقات کو کھوجنے پر آمادہ کیا اور اس نے اپنے تخلیقی شعور سے کام لے کر ان مسائل کو اجاگر کیا۔

    ’’متھ آف سی فس‘‘ میں کامیو نے لایعنیت کا فلسفہ پیش کیا۔ ناول کی صورت میں اس فلسفے کی اطلاقی شکل ’’اجنبی ‘‘ میں بھی نظر آتی ہے۔ کامیو کا ناول ’’طاعون‘‘ بھی دنیا بھر میں سراہا گیا۔ اس کے ڈرامے اور ناولوں کے ساتھ فلسفے پر مبنی تصانیف نے علمی اور ادبی حلقوں‌ کو بہت متاثر کیا۔

    فرانس کے اس فلسفی اور ناول نگار نے 4 جنوری 1960ء کو ایک حادثے میں‌ موت کا ذائقہ چکھا تھا۔

  • اردو کے معروف ناول نگار اور شاعر ایم اسلم کا یومِ وفات

    اردو کے معروف ناول نگار اور شاعر ایم اسلم کا یومِ وفات

    افسانوی ادب بالخصوص تاریخی ناول نگاری کے لیے ایم اسلم کا نام اردو کے مشہور و معروف تخلیق کار کے طور پر لیا جاتا ہے۔ وہ افسانہ نگار اور شاعر بھی تھے۔

    ایم اسلم 6 اگست، 1885ء کو لاہور کے ایک رئیس خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام میاں محمد اسلم تھا۔ ان کے والد میاں نظامُ الدّین نیک خصلت اور لوگوں میں‌ خیر خواہ و مخیّر شخص کے طور پر مشہور تھے۔ ایم اسلم نے گورنمنٹ کالج لاہور سے تعلیم حاصل کی۔ وہاں‌ انھیں علّامہ اقبال کی صبحت اور رفاقت نصیب ہوئی جنھوں نے ایم اسلم کو عزیز رکھا اور ان کے ادبی ذوق و شوق کو سنوارا۔ ان کی تربیت میں اقبال کا کردار اہم رہا۔ ایم اسلم کو نثر نگاری کی جانب کی طرف متوجہ کرنے والے علاّمہ اقبال ہی تھے۔

    ایم اسلم نے ادب کی تمام اصناف میں طبع آزمائی کی، لیکن ان کے تخلیقی سفر کا آغاز شاعری سے ہوا۔ بعد میں انھوں نے تنقیدی مضامین اور افسانے بھی لکھے اور جب تاریخی ناول نگاری کا آغاز کیا تو یہ ان کی خاص شناخت بن گئی۔

    ان کے افسانوں اور ناولوں میں رومان، حقیقت، حزن و طرب نمایاں ہے۔ اسی طرح ہندوستان کے دیہات اور شہروں کی زندگی کے علاوہ یورپ، مصر، روس، ترکستان، عرب، چین اور جاپان کے رسم و رواج اور باشندوں کے طور طریقے اور روایات بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔

    ایم اسلم کے مشہور ناولوں میں فاطمہ کی آپ بیتی، عروسِ غربت، معرکۂ بدر، فتح مکّہ، صبحِ احد، جوئے خون، بنتِ حرم، فتنۂ تاتار، رقصِ ابلیس، مرزا جی کے نام شامل ہیں جب کہ ان کے افسانوں کے مجموعے صدا بہ صحرا، نغمۂ حیات اور گنہگار کے نام سے شایع ہوئے۔

    ایم اسلم نے انگریزی سے تراجم اور وارث شاہ کی شاہ کار تخلیق ہیر رانجھا کا پنجابی سے اردو ترجمہ بھی کیا۔ اردو کے اس مشہور ادیب اور شاعر نے 23 نومبر 1983ء کو وفات پائی۔