Tag: ناول نگار اے حمید

  • یومِ وفات: اے حمید نے بچّوں اور نوجوانوں کے لیے معیاری کہانیاں اور ناول لکھے

    یومِ وفات: اے حمید نے بچّوں اور نوجوانوں کے لیے معیاری کہانیاں اور ناول لکھے

    آج معروف ادیب اور ناول نگار اے حمید کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ 29 اپریل2011ء کو وفات پاگئے تھے۔

    25 اگست 1928ء کو امرتسر میں پیدا ہونے والے عبدالحمید نے قلم تھاما تو اے حمید مشہور ہوئے۔ وہ تقسیمِ ہند کے بعد ہجرت کرکے پاکستان چلے آئے اور یہاں ریڈیو پاکستان میں اسٹاف آرٹسٹ کے طور پر کام شروع کیا۔ ان کے فرائض میں ریڈیو فیچر، تمثیلچےاور نشری تقاریر لکھنا شامل تھا۔

    اے حمید نے ناول، افسانہ اور ڈراما نگاری کے لیے اپنے مطالعے اور مختلف ملکوں کی سیر و سیاحت سے موضوعات چنے اور واقعات کو کہانی میں ڈھالا، ان کی ابتدائی دور کی کہانیوں پر رومانوی طرزِ‌ تحریر اور کرشن چندر کا اثر نظر آتا ہے۔ 60 کی دہائی میں انھیں شہرت اور ان کی کہانیوں کو وہ مقبولیت حاصل ہوئی جو بہت کم ادیبوں کو نصیب ہوئی، وہ نوجوانوں کے مقبول ناول نگار بنے۔ ان کی کہانیاں نوجوانوں میں تجسس، شوق اور کھوج پیدا کرنے کے ساتھ انھیں‌ جاسوسی اور دہشت ناک کہانیوں کی صورت میں معیاری ادب پڑھنے کا موقع دیتی ہیں۔

    1980ء میں‌ اے حمید نے ملازمت سے استعفیٰ دیا اور امریکا کے مشہور نشریاتی ادارے میں پروڈیوسر کی حیثیت سے کام شروع کیا، لیکن ڈیڑھ برس بعد ہی لاہور لوٹ آئے اور یہاں فری لانس رائٹر کے طور پر کام کرنے لگے۔

    اے حمید نے بچّوں کا ادب بھی تخلیق کیا اور فکشن نگار کی حیثیت سے نوجوانوں کے لیے بہت سی کہانیاں اور ناول لکھے۔ انھوں نے بچّوں کے لیے سلسلہ وار ڈراما ’عینک والا جن‘ لکھا جو پی ٹی وی سے نشر ہوتا تھا۔ اس ڈرامے نے مقبولیت کا ریکارڈ قائم کیا۔ کہانی، ناول اور ڈرامے کے علاوہ اے حمید نے اردو شاعری اور اردونثر کی تاریخ بھی مرتب کی تھی جس سے ادب کے طالب علم آج بھی استفادہ کرتے ہیں۔

    اے حمید کی کچھ مقبولِ عام کتابوں میں پازیب، شہکار، تتلی، بہرام، بگولے، دیکھو شہر لاہور، جنوبی ہند کے جنگلوں میں، گنگا کے پجاری ناگ، ویران حویلی کا آسیب، اداس جنگل کی خوشبو اور دیگر شامل ہیں۔

  • سارنگی نواز نے چیف انجینئر کو درخت کاٹنے سے منع کیا تھا!

    سارنگی نواز نے چیف انجینئر کو درخت کاٹنے سے منع کیا تھا!

    قصور گھرانے کے ایک اور بڑے نام وَر سارنگی نواز استاد غلام محمد ہوا کرتے تھے جنھوں نے بڑے بڑے کلاسیکل گائیکوں کے ساتھ سارنگی کی سنگت کی تھی۔ لاہور کے عظیم کلاسیکی گائیک استاد کالے خان صاحب کے ساتھ بھی وہ سنگت کیا کرتے تھے۔ آخری عمر میں وہ ریڈیو پاکستان لاہور سے منسلک ہو گئے تھے۔

    یہاں مجھے انہیں بڑے قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ رنگ گندمی تھا، سَر کے بال درمیان سے غائب تھے۔ جسم بھاری تھا۔ ایک طرف ذرا جھک کر چلتے تھے۔ کم گو تھے۔ اس زمانے میں ریڈیو پاکستان اپنی نئی بلڈنگ میں منتقل ہو چکا تھا۔ اس نئی بلڈنگ کے احاطے میں ریڈیو کی کینٹین کے پیچھے سنٹرل پروڈکشن یونٹ کے دفاتر اور اسٹوڈیوز بن گئے تھے جہاں روزانہ کلاسیکل، نیم کلاسیکل میوزک کے علاوہ پنجابی گیتوں کی ریکارڈنگ ہوتی تھی۔ سنٹرل پروڈکشن یونٹ کے سازندوں کا اپنا یونٹ بھی تھا۔

    سارنگی نواز استاد غلام محمد سنٹرل پروڈکشن یونٹ سے وابستہ تھے۔ اسی یونٹ کے سازندے ریڈیو پاکستان لاہور کے بھی ملازم تھے۔ چناں چہ جب ان کی ضرورت ہوتی تھی تو سنٹرل پروڈکشن یونٹ کے اسٹوڈیو سے ریڈیو پاکستان کے ریگولر اسٹوڈیوز میں بھی ریکارڈنگ کے لیے آتے جاتے رہتے تھے۔ سنٹرل پروڈکشن یونٹ کی عمارت سے ریڈیو پاکستان لاہور کے اسٹوڈیوز میں جانے کے لیے پیپل کے ایک بڑے پرانے اور گنجان درخت کے نیچے سے ہو کر جانا پڑتا تھا۔

    استاد غلام محمد سارنگی نواز جب بھی اس پیپل کے درخت کے نیچے سے گزرتے تو نگاہ اٹھا کر ایک نظر پیپل کی گھنی شاخوں کو دیکھ لیا کرتے تھے۔ ریڈیو اسٹیشن اور سی پی یو کی عمارت کے پچھواڑے انجینئرنگ رومز تھے۔ اس کے سامنے بھی پیپل کا ایک درخت تھا۔ سی پی یو والا پیپل کا درخت کافی گھنا تھا۔ انجینئرنگ رومز والا درخت زیادہ گھنا نہیں تھا۔ ان دونوں درختوں کے درمیان ڈیڑھ دو سو گز کا فاصلہ تھا۔ سارنگی نواز غلام محمد ایک دفعہ کینٹین میں بیٹھے بتا رہے تھے کہ انجینئرنگ آفس والا پیپل کا درخت نر ہے اور سنٹرل پروڈکشن والا درخت مادہ ہے۔ دونوں کی شادی ہو چکی ہے۔ دونوں ایک دوسرے سے بڑی محبت کرتے ہیں۔ استاد صاحب کی ان بچوں جیسی معصوم باتوں کو لوگ زیادہ اہمیت نہیں دیتے تھے۔

    اب کرنا خدا کا کیا ہوا کہ انجینئرنگ والوں کو مزید دو تین کمروں کی ضرورت پڑ گئی جس کی زد میں کم عمر درخت آتا تھا۔ ان کی جانے بَلا، نر اور مادہ درخت کیا ہوتے ہیں۔ انہوں نے آری منگوا کر درخت کاٹنا شروع کر دیا۔

    استاد غلام محمد کو پتا چلا تو فوراً چیف انجینئر کے پاس پہنچ گئے اور انہیں اپنی منطق سے قائل کرنے کی کوشش کی کہ یہ درخت پیپل کی مادہ پیپلی کا درخت ہے۔ اسے مت کاٹیں۔ کسی نہ کسی کی جان جائے گی، مگر وہ قائل نہ ہوئے، درخت کاٹ دیا۔

    درخت کو کٹتے میں نے بھی دیکھا اور مجھے افسوس ہوا۔ درخت کٹ گیا۔ وہاں نئے کمروں کی تعمیر شروع ہو گئی۔ استاد غلام محمد اب پیپل کے درخت کے نیچے سے گزرتے تو اداس نظروں سے درخت کی شاخوں کو دیکھتے۔ کینٹین میں بیٹھے وہ اکثر یہ کہتے سنے جاتے۔ ’’پیپل کی پیپلی مر گئی۔ اب پیپل بھی مر جائے گا۔‘‘

    پیپل کا درخت تو نہ مرا لیکن سارنگی نواز استاد غلام محمد اس پیپل کے درخت کے نیچے سے گزرتے ہوئے اچانک لڑکھڑا کر گرے اور انتقال کر گئے۔

    (مشہور و معروف ناول نگار اور ڈراما نویس اے حمید کی کتاب ’’دیکھو شہر لاہور‘‘ سے اقتباس)