Tag: ناول نگار برسی

  • عبداللہ حسین:‌ ’’اداس نسلیں‘‘ لکھنے والے کی کہانی

    عبداللہ حسین:‌ ’’اداس نسلیں‘‘ لکھنے والے کی کہانی

    عبداللہ حسین کا ناول ’’اداس نسلیں‘‘ پاکستان میں جہاں ادب کے قارئین میں مقبول ہوا، وہیں اس نے فکشن کے ناقدین کی توجہ بھی حاصل کی اور عبداللہ حسین کی شہرت اور پہچان کا سفر شروع ہوا۔

    اداس نسلیں اور باگھ جیسے مقبول ناولوں کے خالق عبداللہ حسین 2015ء میں آج ہی کے روز دنیا سے رخصت ہوئے تھے۔ ان کی عمر 84 برس تھی۔ عبداللہ حسین 14 اگست 1931ء کو راولپنڈی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد ایکسائز انسپکٹر تھے۔ عبداللہ حسین اپنے والدین کے اکلوتے بیٹے تھے جن کا نام محمد خان رکھا گیا۔ ان کے آبا و اجداد کا تعلق خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں سے تھا۔ ابتدائی تعلیم اپنے گھر پر حاصل کی اور گریجویشن کے بعد نوکری کرنے لگے۔ عبداللہ حسین نے اپنی زندگی کے کئی سال انگلینڈ میں بھی گزارے۔ ان کی ادبی زندگی کا آغاز مختلف جرائد میں کہانیاں لکھنے سے ہوا اور پھر قلمی نام عبداللہ حسین سے اپنی شہرت کا وہ سفر شروع کیا جس میں ان کے متعدد ناول، ناولٹ اور افسانے قارئین تک پہنچتے رہے۔ 1963ء میں ان کا مشہور ناول ’’اداس نسلیں‘‘ منظر عام پر آیا تھا۔ اس کے بعد افسانوی مجموعہ اور ناول ’’باگھ‘‘ و دیگر کہانیاں کتابی شکل میں سامنے آتی رہیں۔ عبداللہ حسین کو ان کے ناول ’’اداس نسلیں‘‘ پر آدم جی ادبی انعام دیا گیا۔

    ناول نگار عبداللہ حسین کے تخلیقی سفر کی ابتدا اور قلم سے ان کے تعلق کی کہانی بھی ایک دل چسپ قصّہ ہے۔ یہ قصہ انہی کی زبانی سنتے ہیں:

    مجھے پہلی ملازمت ملی اور میں کام پر گیا تو وہاں روزانہ چھے، آٹھ گھنٹے ایسے ہوتے تھے، جن میں کوئی کام نہیں ہوتا تھا۔

    یہ بات جان لیں کہ جہاں سیمنٹ فیکٹری ہوتی ہے، وہ ایک مکمل سنگلاخ یا پہاڑی علاقہ ہوتا ہے اور ایسا ویران کہ عام طور پر درخت تک نہیں ہوتے۔ چند دن یونہی گزر گئے، پھر میں نے سوچا کہ کچھ لکھنا چاہیے، لکھنے بیٹھا تو خیال آیا کہ کہانی لکھوں۔ کہانی شروع کی اور کہانی چلی تو چلتی چلی گئی اور مجھے لگا کہ میں نے ایک مصیبت گلے میں ڈال لی ہے، خیر میں نے سوچا کہ دیکھتے ہیں یہ کہاں تک جاتی ہے اور وہ بڑھتے بڑھتے سیکڑوں صفحوں پر پھیل گئی۔ جب اسے پڑھا اور دیکھا تو خیال ہوا کہ یہ تو ناول سا بن گیا ہے اور اچھا بھی لگ رہا ہے۔

    لاہور میں چار جاننے والوں سے بات کی تو انھوں نے کتابیں چھاپنے والے ادارے کا بتایا۔ میں نے جا کر ناول ان کو دے دیا، انھوں کہا چند ہفتوں میں بتاتے ہیں کہ چھاپیں گے یا نہیں۔ میں نے کہا ٹھیک ہے۔ چند ہفتوں بعد معلوم کیا تو انھوں نے بتایا کہ ناول تو ٹھیک ہے اور ہم چھاپیں گے بھی، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ آپ کو کوئی جانتا نہیں۔ اس لیے پہلے آپ کچھ کہانیاں لکھ کر دیں، ہم انھیں چھاپیں گے، اس طرح لوگ آپ کو جاننے لگیں گے اور پھر ہم اس ناول کو چھاپ دیں گے۔

    میں نے انھیں کہانی لکھ کر دی۔ یہ کہانی ‘‘ندی’’ کے نام سے ان کے رسالے سویرا میں چھپی۔ اس کے بعد میں نے ان سے جا کر پوچھا کہ اور کہانی کب دینی ہے تو انھوں نے کہا اس کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ چاہیں تو اور لکھیں، نہ چاہیں تو نہ لکھیں۔ ناول کی اشاعت کے لیے جتنی پہچان چاہیے وہ تو اس ایک کہانی نے ہی آپ کو دلا دی ہے۔ اس طرح ناول چھپ گیا۔ یہ بات تو بعد میں پتا چلی کہ جب میں انھیں ناول دیا تو انھوں نے اسے حنیف رامے، محمد سلیم الرحمٰن اور صلاح الدین کو پڑھنے کے لیے دیا اور انھوں نے رائے دی تھی کہ ناول اچھا ہے، اسے چھپنا چاہیے۔

    اپنے انگریزی ناول کے بارے میں انھوں بتایا کہ جب وہ لندن گئے اور وہاں ایک بار لے لیا تو ان لوگوں کے بارے میں لکھنے کا سوچا جو ہمارے ہاں سے غیر قانونی طور پر جاتے ہیں اور پھر وہاں چھپ کر رہتے ہیں۔ لندن میں ان کے بار میں ایسے لوگ بھی آتے تھے جن کا ادب، آرٹ اور فلم وغیرہ سے تعلق تھا۔ انھوں نے بتایا، ایک نوجوان ڈائریکٹر، جو خاصا نام بنا چکا تھا، اس نے ایک رسالے پر میری تصویر دیکھی تو پوچھا کہ یہ تصویر کیوں چھپی ہے، میں نے اسے بتایا کہ یہ ادبی رسالہ ہے اور میں ادیب ہوں۔

    اس نے یہ سنا تو مجھ سے میری تخلیقات اور موضوعات کے بارے میں تفصیل سے بات کی۔ میں نے بتایا کہ ان دنوں ایک ناولٹ بھی لکھ رہا ہوں۔ اس کے پوچھنے پر میں نے مختصراً کہانی بھی بتا دی۔ ڈائریکٹر نے مجھ سے ایک صفحے کا سناپسس لکھوایا اور فلم ساز کے پاس لے گیا۔ اسے کہانی پسند آئی اور یوں اس پر فیچر فلم بن گئی۔

  • ارنسٹ ہیمنگوے: نوبیل انعام یافتہ ناول نگار

    ارنسٹ ہیمنگوے: نوبیل انعام یافتہ ناول نگار

    نوبیل انعام یافتہ امریکی ناول نگار ارنسٹ ہیمنگوے نے ہی نہیں بلکہ اس کے والد اور دادا نے بھی خود کُشی کی تھی۔ اگرچہ یہ خوش حال اور علم و ادب کا شیدائی گھرانا تھا اور ان لوگوں کا یوں موت کو گلے لگانا تعجب خیز ہی ہے جب کہ وہ عام لوگوں کے مقابلے میں بہتر طریقے سے زندگی گزار رہے تھے۔

    ہیمنگوے کی پیدائش پر اس کے والد کی خوشی دیدنی تھی۔ اپنے بیٹے کی آمد پر اس نے بگل بجا کر مسرت کا اظہار کیا۔ مشہور ہے کہ ہیمنگوے نے باپ نے اپنے گھر کی چھت پر چڑھ کر لوگوں کو متوجہ کیا اور انھیں بتایا کہ وہ ایک بیٹے کا باپ بن گیا ہے۔ یہی ہیمنگوے آگے چل کر نہ صرف ایک مقبول ناول نگار اور معروف صحافی بنا بلکہ متعدد معتبر ادبی اعزازات بھی اپنے نام کیے۔ 2 جولائی 1961ء کو ارنسٹ ہیمنگوے نے یہ دنیا ہمیشہ کے لیے چھوڑ دی تھی۔

    ہیمنگوے 21 جولائی 1899ء کو امریکا کے ایک تعلیم یافتہ اور فنونِ لطیفہ کے شیدا گھرانے میں‌ پیدا ہوا۔ اس کے والد کلارنس ایڈمونڈس ہیمنگوے پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر تھے اور علم و فن کے قدر دان بھی۔ اس ناول نگار کی ماں کا نام گریس تھا جو اپنے قصبے اور شہر بھر میں بطور گلوکارہ اور موسیقار مشہور تھیں۔ ان کا خاندان شکاگو کے مضافات میں‌ سکونت پذیر تھا۔ ہیمنگوے کے والد سیر و سیّاحت اور مہم جوئی کا شوق رکھتے تھے اور جب موقع ملتا اپنے بیٹے کے ساتھ پُرفضا مقامات کی سیر کو نکل جاتے۔ وہ اکثر شکار کیا کرتے تھے اور اس دوران ہیمنگوے نے اپنے والد سے جنگل میں‌ کیمپ لگانے کے علاوہ دریا سے مچھلی پکڑنے اور زمین پر چھوٹے جانوروں کا شکار کرنا سیکھا۔ یوں ہیمنگوے نے فطرت کی گود میں ہمکتی مختلف نوع کی مخلوقات اور جنگلی حیات کو قریب سے دیکھا۔ اسی زمانے کے تجربات اور مشاہدات کو بعد میں اس نے اپنی کہانیوں میں بھی جگہ دی جو بہت مقبول ہوئیں۔ ہیمنگوے نے ناول اور شارٹ اسٹوریز لکھیں جن کے دنیا کی مختلف زبانوں میں تراجم بھی ہوئے۔

    اس کی تعلیم و تربیت کا دور بھی بہت خوش گوار رہا۔ زمانۂ طالبِ علمی میں‌ ارنسٹ ہیمنگوے نے اسکول میگزین اور اخبار کے لیے کام کیا۔ اس عرصہ میں جو کچھ سیکھا وہ گریجویشن کی تکمیل کے بعد اس کے کام آیا۔ وہ اس طرح کہ ہیمنگوے کو ایک اخبار میں بطور رپورٹر نوکری مل گئی تھی۔ یہیں‌ اس نے معیاری اور عمدہ تحریر کو سمجھنے کے ساتھ لکھنے کا آغاز بھی کیا۔ وہ ایک ایسا صحافی تھا جو فطرت اور مہم جوئی کا دلدادہ تھا اور وہ اپنی رپورٹوں اور مضامین کو دل چسپ بنانا جانتا تھا۔ ہیمنگوے کے مضامین پسند کیے گئے اور اس نے مختلف اخبارات کے لیے باقاعدہ لکھنا شروع کردیا۔ 1921ء میں اس کی شادی ہوگئی اور ہیمنگوے پیرس منتقل ہوگیا۔ اس وقت تک وہ اپنے قلم کی بدولت امریکی قارئین میں مقبول ہوچکا تھا۔ پیرس میں اسے اپنے دور کے بڑے بڑے ادیبوں سے ملاقات اور بزم آرائی کا موقع ملا۔ اسی صحبت نے ہیمنگوے کو ناول نگاری کی طرف راغب کیا۔ وہ شہرۂ آفاق ادیب ایذرا پاؤنڈ، جیمز جوائس اور دیگر کے قریبی احباب میں شامل ہوگیا اور ان کی حوصلہ افزائی نے ہیمنگوے کی کہانیوں کا سلسلہ گویا دراز کردیا۔ وہ مختصر کہانیاں‌ لکھنے لگا اور بہت کم عرصہ میں پیرس میں بھی اپنے زورِ قلم سے مقبولیت حاصل کرلی۔

    1926ء میں ہیمنگوے کا پہلا ناول دی سن آلسو رائزز منظرِ عام پر آیا جسے بہت پسند کیا گیا۔ بعد میں‌ اس نے ناول ڈیتھ ان آفٹر نون شایع کروایا اور قارئین نے اسے بھی بہت سراہا۔ ارنسٹ ہیمنگوے نے انگریزی ادب کو وہ شاہ کار کہانیاں دیں جن پر اسے فکشن کا پلٹزر پرائز اور بعد میں‌ ادب کا نوبیل انعام بھی ملا۔ اس کے ناولوں کے اردو تراجم بھی ہندوستان بھر میں مقبول ہوئے۔ فیئر ویل ٹو آرمز کے علاوہ اردو میں سمندر اور بوڑھا اور وداعِ جنگ کے نام سے یہ ناول قارئین تک پہنچے ہیں۔

    ارنسٹ کی زندگی بہت ہنگامہ خیز اور تیز رفتار رہی۔ اس نے رومانس کیا اور ایک نہیں کئی لڑکیوں سے محبت کی۔ اسی طرح شادیاں بھی متعدد کیں۔ ملکوں ملکوں‌ سیر کے علاوہ وہ میدانِ جنگ میں‌ ایک فوجی کی حیثیت سے بھی شریک ہوا۔ ہیمنگوے بل فائٹنگ دیکھنے کا شوقین تھا اور اس کھیل کو اپنے ایک ناول کا حصّہ بھی بنایا۔

    ارنسٹ ہیمنگوے کی چند عجیب و غریب عادات بھی مشہور ہیں‌۔ کہتے ہیں اکثر وہ عام روش سے ہٹ کر کچھ لکھنے کی خواہش رکھتا یا اپنی تحریر سے متعلق بہت پُرجوش ہوجاتا تو کھڑے ہو کر لکھنے لگتا۔ اکثر وہ اپنا ٹائپ رائٹر اور پڑھنے کے بورڈ کو اتنا اونچا رکھتا تھا کہ وہ اس کے سینے تک پہنچتا تھا۔ ممکن ہے کہ وہ اس طرح لکھتے ہوئے خود کو یکسو پاتا ہو۔

    ہیمنگوے نے اپنی شاٹ گن سے اپنی زندگی ختم کر لی تھی۔

  • جارج آرویل: عالمی شہرت یافتہ ناول نگار

    جارج آرویل: عالمی شہرت یافتہ ناول نگار

    انڈین سول سروس سے وابستہ کنبے کے گھر میں آنکھ کھولنے والے ایرک آرتھر بلیئر کو دنیا جار آرویل کے قلمی نام جانتی ہے۔ ہندوستان میں‌ ان کی تصنیفات کا اردو ترجمہ ہوا تو یہاں انھیں بہت مقبولیت ملی۔ جارج آرویل ایک ناول نگار، صحافی اور نقّاد کی حیثیت سے مشہور ہوئے۔

    آرویل کے والد انڈین سول سروس سے وابستہ تھے۔ ان کا کنبہ ہندوستان کی ریاست بہار میں‌ مقیم تھا۔ آرویل یہیں پیدا ہوئے۔ مگر ایک سال کی عمر میں اپنی والدہ کے ساتھ انگلستان چلے گئے اور پھر کبھی ہندوستان نہیں آسکے، لیکن یہاں ان کو اپنے قلمی نام سے خوب شہرت ملی۔

    جارج آرویل نے 1903ء میں برطانوی دور میں آنکھ کھولی تھی۔ وہ ایک بیدار مغز اور تخلیقی صلاحیتوں کے حامل ایسے مصنّف تھے جس نے اپنے زمانہ میں کمیونزم کو پھلتے پھولتے دیکھا۔ دو عظیم جنگوں کی تباہ کاریوں کا مشاہدہ کیا۔ اور برطانوی نوآبادیاتی نظام کو بکھرتے ہوئے دیکھا۔ ان تجربات اور مشاہدات کو آرویل نے قلم بند کیا۔ 1933ء سے 1939ء کے درمیان ان کی یکے بعد دیگرے سات کتابیں منظرِ عام پر آئیں، لیکن 1945ء میں آرویل کا سیاسی تمثیلی ناول ”اینیمل فارم“ شایع ہوا تو دنیا بھر میں‌ ان کی شہرت کا ڈنکا بجنے لگا۔ برطانوی مصنف کا یہ ناول علامت نگاری کی عمدہ مثال ہے جس میں ایک فارم میں بسنے والے جانور اپنے استحصال سے بیزار ہو کر اپنے مالکان کو بھاگنے پر مجبور کردیتے ہیں اور پھر فارم پر قبضہ کر لیتے ہیں۔ اس کہانی کو عالمی سطح پر پذیرائی ملی اور بشمول اردو اور دنیا کی متعدد زبانوں میں‌ اس کا ترجمہ کیا گیا۔

    1949ء میں جارج آرویل نے ایک خیالی دنیا پر ناول بعنوان ”1984“ سپردِ قلم کیا اور یہ ان کی شہرۂ آفاق تصنیف ثابت ہوا۔ اس ناول میں مصنّف نے ایک ایسی حکومت کا نقشہ کھینچا ہے، جس میں نگرانی کا ایک غیر معمولی نظام ہر وقت متحرک رہتا ہے، اور جبر کی فضا کا عالم یہ ہے کہ عوام اپنے ذہن میں بھی کوئی سوچ یا تصوّر نہیں رکھ سکتے جو سرکار کی نظر میں قابلِ اعتراض ہو۔ یعنی ہر وہ سوچ جو حکومت کی منشا کے خلاف جنم لے گی، اس کڑے پہرے داری نظام میں گرفت میں‌ آجائے گی اور ایسا فرد سزا پائے گا۔ الغرض یہ ناول ایک مطلق العنان حکومت کے مختلف ہتھکنڈوں کو ہمارے سامنے لاتا ہے۔

    مطلق العنانی کس طرح انسانی سوچ کو جکڑ لیتی ہے، اس موضوع پر برطانوی مصنف جارج آرویل کا یہ ناول ہمیں دنیا کی کئی حکومتوں اور وہاں کے حالات کے تناظر میں بہت حد تک حقیقت دکھائی دیتا ہے۔

    21 جنوری 1950ء کو انتقال کرنے والے جارج آرویل شاعر بھی تھے۔

  • بالزاک:‌ یورپ میں حقیقت پسندی کو رواج دینے والا ناول نگار

    بالزاک:‌ یورپ میں حقیقت پسندی کو رواج دینے والا ناول نگار

    بالزاک کو دنیا سے رخصت ہوئے ایک سو پچھتّر سال ہونے کو آئے ہیں‌، لیکن عالمی ادب میں اس کا نام آج بھی ایک حقیقت نگار کے طور پر زندہ ہے۔ ناول نگار اور مقبول ترین مختصر کہانیوں‌ کے خالق بالزاک نے اپنی کہانیوں میں بیک وقت کئی کردار پیش کرکے انفرادیت کا ثبوت بھی دیا۔

    بالزاک کو شروع ہی سے شہرت پسند تھی۔ وہ ایک ادیب کے طور پر ہمیشہ زندہ رہنا چاہتا تھا۔ بالزاک کی یہ خواہش پوری ہوئی اور وہ فرانس کا مقبول ناول نگار بنا۔ بعد میں دنیا بھر میں اسے پذیرائی ملی اور آج بھی ناول نگاری میں اس کی انفرادیت کا چرچا ہوتا ہے۔ آج بالزاک کا یومِ وفات ہے۔ 1850ء میں بالزاک آج ہی کے دن چل بسا تھا۔

    فرانسیسی ادیب بالزاک نے اپنی زندگی کے تجربات، سماجی رویّوں اور تبدیلیوں کا گہرا مشاہدہ کیا تھا۔ انہی تجربات اور مشاہدات نے بالزاک کو لکھنے پر آمادہ کیا اور وہ ایک حقیقت نگار کے طور پر سامنے آیا۔ اسے یورپی ادب میں حقیقت پسندی کو رواج دینے والا ناول نگار کہا جاتا ہے۔ حیرت انگیز طور پر بالزاک کے زورِ‌ قلم نے اپنے وقت کے مشاہیر کو بھی اپنی جانب متوجہ کیا جن میں چارلس ڈکنز، ایملی زولا، گستاف فلابیر، ہینری جیمس کے نام شامل ہیں۔ ان کے علاوہ عظیم فرانسیسی فلم ساز فرانسوا تروفو اور فلم ڈائریکٹر و ناقد ژاک ریوت بھی بالزاک سے بہت متأثر تھے۔ بالزاک کی تخلیقات کو فلمی پردے کے لیے ڈھالا گیا اور قارئین کے بعد بڑی تعداد میں فلم بین بھی اس سے متأثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔

    ہنری ڈی بالزاک نے 1799ء میں پیرس کے قریب ایک گاؤں میں آنکھ کھولی۔ اس کا باپ سرکاری ملازم تھا۔ تعلیمی مدارج طے کرنے کے بعد بالزاک نے پیرس کا رخ کیا اور وہاں‌ ایک وکیل کے ہاں بطور منشی ملازمت اختیار کرلی۔ بالزاک شروع ہی سے صحّت کے مسائل سے دوچار رہا اور ممکن ہے اسی باعث وہ حساس ہوگیا تھا اور مضطرب رہتا تھا۔ اپنے انہی جسمانی مسائل اور طبی پیچیدگیوں کے دوران وہ مطالعے کا عادی بن گیا اور پھر لکھنے کا آغاز کیا۔ بالزاک نے کہانیاں، ناول اور مختلف موضوعات پر مضامین بھی سپردِ قلم کیے جنھیں بے حد سراہا گیا۔

    وکیل کے پاس اپنی ملازمت کے دوران بالزاک مسلسل لکھتا رہا۔ معاش کی فکر اور روزگار کی تلاش اسے پبلشنگ اور پرنٹنگ کے کام کی طرف بھی لے گئی، لیکن مالی آسودگی بالزاک کا مقدر نہیں‌ بنی۔ تب، اس نے فیصلہ کیا کہ وہ قلم کی مزدوری کرے گا اور نام و مقام بنائے گا۔ اس نے یہی کیا اور قسمت نے بالزاک کا ساتھ نبھایا۔

    یہاں ہم بالزاک کے تخلیقی سفر سے متعلق ایک نہایت دل چسپ واقعہ نقل کررہے ہیں جو مختلف ادبی تذکروں میں پڑھنے کو ملتا ہے۔ کہتے ہیں‌ کہ بالزاک کی بہن کی شادی تھی اور ایک روز جب تمام رشتے دار گھر میں موجود تھے، بالزاک نے ان کی توجہ اپنی جانب مبذول کروائی اور اپنا لکھا ہوا پہلا ڈرامہ پڑھ کر سنانے لگا۔ پورا ڈرامہ سنانے کے بعد بالزاک نے جب داد طلب نظروں سے حاضرین کی طرف دیکھا تو سب نے یک زبان ہوکر کہا، "یہ بالکل بکواس ہے۔” لیکن نوجوان بالزاک نے ان کے اس تبصرے کو اہمیت نہ دی اور لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ پھر وہ دن دن بھی آیا جب فرانس اور بعد میں‌ بالزاک کو دنیا بھر میں ایک ناول نگار اور ڈرامہ نویس کے طور پر شہرت ملی۔

    اس فرانسیسی مصنّف کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ ہمیشہ ایک نوٹ بک اور پنسل اپنے ساتھ رکھتا تھا۔ وہ فرانس کی تاریخ، اور مقامی سطح پر ہونے والی ہر قسم کی اہم سماجی اور ثقافتی تبدیلیوں کو قلم بند کرنا چاہتا تھا اور جہاں بھی جاتا، بالخصوص فرانس کے مختلف علاقوں کے کوچہ و بازار، محلّوں اور شہروں کی سڑکوں کی تفصیل نوٹ کرتا رہتا تھا، فرصت ملنے پر وہ ان مشاہدات کے مطابق کردار اور ان پر کہانیاں تخلیق کرتا۔ وہ اکثر سڑکوں اور میدانوں میں‌ درختوں اور کیاریوں کا جائے وقوع لکھ لیتا تھا اور اپنے ناول یا ڈرامے میں انہی درختوں کے درمیان اپنے کردار دکھاتا جس سے وہ حقیقت سے قریب تر معلوم ہوتیں۔

    بالزاک نے ٹھان لی تھی کہ ہر سال کم از کم دو ضخیم ناول، درجنوں کہانیاں اور ڈرامے ضرور لکھے گا اور اس نے یہ کیا بھی۔ فرانس کے مصنّف نے کئی شاہکار کہانیاں تخلیق کیں، اور 97 ناول لکھے۔ بوڑھا گوریو بالزاک کا وہ مقبول ناول ہے جس کا اردو زبان میں بھی ترجمہ کیا جا چکا ہے۔ اسی طرح یوجین گرینڈ بھی فرانس میں محبّت کی ایک لازوال داستان ہے جس میں ایک لڑکی اپنے کزن کی محبّت میں گرفتار ہو جاتی ہے۔ ہنری ڈی بالزاک نے یہ ناول انقلابِ فرانس کے بعد اس معاشرے میں‌ جنم لینے والے نئے رحجانات کے پس منظر میں تخلیق کیا ہے۔ ”تاریک راہوں کے مسافر“ میں بالزاک کی کردار نگاری عروج پر ہے جب کہ جزئیات نگاری کی وجہ سے بھی اسے بہت سراہا جاتا ہے۔

    فرانسیسی ادیب بالزاک کے طرزِ‌ نگارش کا ایک وصف طویل فقرے ہیں اور اس کے بیان کردہ منظر میں بہت تفصیل موجود ہوتی ہے۔ بالزاک کے بارے میں‌ کہا جاتا ہے کہ وہ شروع ہی سے انفرادیت کا قائل تھا اور اپنے احباب سے کہتا تھا کہ میں‌ قلم سے وہ کام لوں گا کہ لوگ مجھے فراموش نہیں کرسکیں گے۔ بلاشبہ بالزاک نے اپنے زورِ قلم کو منوایا اور فرانسیسی معاشرے کا گویا پوسٹ مارٹم کر کے رکھ دیا۔ اس تخلیق کردہ کردار آج بھی فرانس ہی نہیں ہمارے معاشرے میں بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔

    بالزاک کا ایک ادبی کارنامہ اور وجہِ شہرت وہ تخلیقات ہیں‌ جو بعنوان ہیومن کامیڈین شایع ہوئیں۔ اس میں بالزاک نے فرانس کے ہر شعبہ ہائے حیات اور ہر مقام سے کردار منتخب کرکے کہانیاں تخلیق کیں، اس کے ناول فرانس میں‌ تہذیبی اور ثقافتی تاریخ کے ساتھ انفرادی آداب، عادات، لوگوں‌ کے رجحانات، ان کی رسومات اور جذبات کی مؤثر ترجمانی کرتے ہیں۔

    بالزاک کے بارے میں‌ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ وہ طبی مسائل اور کئی پیچیدگیوں میں‌ مبتلا ہو گیا تھا اور غالباً اسی سبب وہ حساس طبع ہونے کے علاوہ کچھ شخصی کم زوریوں اور تضادات کا شکار بھی رہا۔ یہ کم زرویاں اس کی وہ خامیاں بن گئیں جن کی وجہ سے اکثر اسے ناپسند کیا جاتا تھا۔ عقیل احمد روبی اس حوالے سے لکھتے ہیں: لین دین کے سلسلے میں بالزاک بڑا ناقابل اعتماد آدمی تھا۔ اس کا بائیو گرافر آندرے بلی کہتا ہے کہ بالزاک شرمناک حد تک واہیات نادہندہ تھا۔ بہنوں، دوستوں، واقف کاروں، پبلشروں کے ساتھ اس نے کبھی کیا ہوا وعدہ پورا نہیں کیا حتیٰ کہ اس نے اس سلسلے میں اپنی ماں تک کو ناکوں چنے چبوا دیے۔آندرے بلی نے بالزاک کے نام اس کی ماں کا ایک خط بالزاک کی بائیو گرافی میں دیا ہے۔ چند جملے دیکھیے۔’’تمہارا آخری خط مجھے نومبر 1834ء میں ملا تھا۔ جس میں تم نے وعدہ کیا تھا کہ تم اپریل 1835ء سے مجھے ہر تین ماہ کے بعد دو سو فرانک خرچہ دیا کرو گے۔ اب اپریل 1837ء آ گیا ہے تم نے مجھے ایک فرانک تک نہیں بھیجا۔ بالزاک تم سوچ نہیں سکتے یہ وقت میں نے کیسے گزارا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ میں دونوں ہاتھ پھیلا کر کہوں ’’خدارا مجھے روٹی دو‘‘۔ اب تک میں جو کچھ کھاتی رہی وہ میرے داماد نے مجھے دیا۔ یہ کب تک چلے گا۔ میرے بچے تم فرنیچر پر، لباس پر، جیولری پر اور عیاشی پر خرچہ کرتے ہو اپنی ماں کے بارے میں بھی سوچو۔‘‘بالزاک نے خط پڑھ کر ماں کو اس خط کا جواب دیا جو ایک جملے پر مبنی تھا اور وہ جملہ یہ تھا۔’’میرا خیال ہے تم پیرس آ کر مجھ سے ایک گھنٹہ بات کرو۔‘‘

  • ٹونی موریسن: نوبیل انعام حاصل کرنے والی امریکا کی پہلی سیاہ فام مصنّف

    ٹونی موریسن: نوبیل انعام حاصل کرنے والی امریکا کی پہلی سیاہ فام مصنّف

    ٹونی موریسن امریکا کی پہلی سیاہ فام مصنّف تھیں جنھیں ادب کا نوبیل انعام دیا گیا تھا۔ 2019ء میں آج ہی کے دن ٹونی موریسن چل بسی تھیں۔ انھیں ایک منفرد ناول نگار ہی نہیں افریقی نژاد امریکی مصنّفین کی نمائندہ قلم کار سمجھا جاتا ہے۔

    اوہائیو کے ایک علاقے میں 1931ء میں پیدا ہونے والی ٹونی موریسن نے تعلیمی مراحل طے کرنے کے بعد درس و تدریس کو بطور پیشہ اپنایا۔ اس عرصہ میں وہ اپنے تخیل اور قلم کا سہارا لے کر ادبی سفر شروع کرچکی تھیں اور ادبی سرگرمیوں میں حصّہ لے رہی تھیں۔ ٹونی موریسن کو ناول نگاری کے میدان میں ان کے اسلوب اور منفرد کہانیوں کی بدولت شہرت اور مقبولیت ملی۔ سابق امریکی صدر بارک اوباما بھی ان کے مداح رہے ہیں۔ انہی کے دورِ صدرات میں ٹونی موریسن کو ‘صدارتی میڈل آف آنر‘ بھی دیا گیا تھا۔

    1993ء میں ٹونی موریسن کو ادب کا نوبیل انعام دیتے ہوئے سویڈش اکیڈیمی نے ان کے طرزِ تحریر، لسانی انفرادیت اور بطور مصنّف ٹونی موریسن کی بصیرت کو سراہا۔ ٹونی موریسن کا ایک مشہور ناول ‘محبوب‘ (Beloved) ہے جس پر وہ 1988ء میں فکشن کے پلٹزر پرائز کی حق دار قرار پائی تھیں۔ یہ ایک ماں اور بیٹی کی درد ناک کہانی تھی جس میں ماں اپنی بیٹی کو غلامی کی زندگی سے بچانے کے لیے قتل کرنے کا فیصلہ کرتی ہے۔ ٹونی موریسن کی دیگر اہم ترین تصنیفات میں ‘چشمِ نیلگوں(Bluest Eye)‘، ‘سلیمان کا گیت‘ (Song of Solomon)، شامل ہیں۔ مؤخر الذّکر ناول بہت مقبول ہوا اور ٹونی موریسن کو امریکا میں زبردست پذیرائی ملی۔ وہ نیویارک میں مقیم تھیں جہاں مختصر علالت کے بعد 88 سال کی عمر میں انتقال کیا۔

  • ارنسٹ ہیمنگوے: نوبیل انعام یافتہ ناول نگار اور معروف صحافی

    ارنسٹ ہیمنگوے: نوبیل انعام یافتہ ناول نگار اور معروف صحافی

    ارنسٹ ہیمنگوے کی پیدائش پر اس کے باپ نے شادمانی اور مسرت کا اظہار باقاعدہ بگل بجا کر کیا تھا۔ کہتے ہیں کہ وہ اپنے گھر کی چھت پر چڑھ گیا اور لوگوں کو متوجہ کرکے بتایا کہ اس کے گھر بیٹا پیدا ہوا ہے۔ ہیمنگوے آگے چل کر نہ صرف مقبول ادیب بنا بلکہ اس نے اپنی تخلیقات پر نوبیل انعام بھی پایا۔ لیکن اس امریکی ناول نگار کی زندگی دردناک انجام سے دوچار ہوئی۔ ارنسٹ ہیمنگوے نے خود کُشی کر لی تھی۔

    آج عالمی شہرت یافتہ ناول نگار اور مشہور صحافی ارنسٹ ہیمنگوے کا یومِ وفات ہے۔ حیرت انگیز طور پر ہیمنگوے ہی نہیں بلکہ اس کے والد اور دادا بھی طبعی موت نہیں مرے تھے۔ انھوں نے بھی اپنی زندگی ختم کی تھی۔ ہیمنگوے نے 1961ء میں آج ہی کے دن خود کُشی کی تھی۔ 21 جولائی 1899ء کو ہیمنگوے نے امریکہ کے ایک تعلیم یافتہ اور فنونِ لطیفہ کے شیدائی گھرانے میں‌ آنکھ کھولی۔ اس کے والد کلارنس ایڈمونڈس ہیمنگوے پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر تھے اور علم و فن کے قدر دان بھی۔ ہیمنگوے کی ماں گریس اپنے قصبے کی ایک مشہور گلوکار اور موسیقار تھی۔ یہ خاندان امریکا کے شہر شکاگو کے مضافات میں‌ سکونت پذیر تھا۔ ہیمنگوے کے والد سیر و سیّاحت کے شوقین بھی تھے اور مہم جوئی ان کا محبوب مشغلہ تھا۔ وہ اپنے بیٹے ارنسٹ ہیمنگوے کو بھی اکثر پُرفضا مقامات کی سیر اور شکار کی غرض سے اپنے ساتھ لے جاتے تھے۔ ان کے ساتھ رہتے ہوئے ہیمنگوے نے جنگل میں‌ کیمپ لگانا، چھوٹے جانوروں کا شکار کرنا اور دریا سے مچھلی پکڑنا اور اسی نوع کے دوسرے مشکل کام اور طریقے سیکھے تھے۔ یوں ہیمنگوے نے شروع ہی سے فطرت کے درمیان وقت گزارا اور مختلف نوع کی مخلوقات اور جنگلی حیات کو بھی دیکھا اور اپنے انہی تجربات کو اپنی کہانیوں میں بھی جگہ دی۔ ہیمنگوے نے ناول اور مختصر کہانیاں لکھیں اور امریکہ میں جلد ہی مقبولیت حاصل کرلی۔

    زمانۂ طالبِ علمی میں‌ ارنسٹ ہیمنگوے نے اسکول میگزین اور اخبار کے لیے کام کیا اور اس عرصہ میں جو کچھ سیکھا وہ گریجویشن کی تکمیل کے بعد یوں کام آیا کہ اسے ایک اخبار میں بطور رپورٹر رکھ لیا گیا۔ یہاں‌ ارنسٹ ہیمنگوے کو معیاری کام اور عمدہ تحریر کو سمجھنے اور لکھنے کے ساتھ مضمون نگاری کا موقع ملا۔ وہ ایک ایسا صحافی اور لکھاری تھا جو کھیل کود اور مہم جوئی کے دلدادہ تھا اور یہی وجہ تھی کہ وہ اپنے ان تجربات کو تحریروں میں شامل کرکے انھیں دل چسپ بنا دیتا تھا۔ ہیمنگوے نے مختلف اخبارات کے لیے مضمون نویسی کی اور اپنے قارئین میں‌ مقبول ہوا۔ 1921ء میں وہ شادی کر کے پیرس منتقل ہوگیا اور وہاں‌ بڑے بڑے ادیبوں سے ملاقات اور بزم آرائی نے ہیمنگوے کو ناول نگاری کی طرف راغب کیا۔ پیرس میں‌ اس کے شہرۂ آفاق ادیب ایذرا پاؤنڈ، جیمز جوائس اور دیگر کے ساتھ دوستانہ مراسم ہوگئے اور ہیمنگوے ان سے بھی اپنی تحریروں پر داد اور حوصلہ افزائی سمیٹنے لگا۔ اس نے مختصر کہانیاں‌ لکھنے کا آغاز کیا تو جلد ہی پیرس اور امریکہ میں مقبول ہوگیا۔ 1926ء میں ہیمنگوے کا پہلا ناول دی سن آلسو رائزز منظرِ عام پر آیا اور بطور ناول نگار ہیمنگوے کو بہت پسند کیا گیا۔ بعد میں‌ ہیمنگوے کا ایک اور ناول ڈیتھ ان آفٹر نون سامنے آیا اور قارئین نے اسے بھی بہت سراہا۔ امریکی ناول نگار ہیمنگوے نے اسپین، فرانس اور دیگر ممالک کا سفر بھی کیا اور وہاں‌ قیام کے دوران وہ انگریزی ادب کو مسلسل شاہ کار کہانیاں دیتا رہا۔ اسے فکشن کا پلٹزر پرائز اور بعد میں‌ ادب کا نوبیل انعام بھی دیا گیا۔ ارنسٹ ہیمنگوے کے متعدد ناولوں کے مختلف زبانوں میں‌ تراجم کیے گئے جن میں اردو بھی شامل ہے۔ فیئر ویل ٹو آرمز کے علاوہ اردو میں سمندر اور بوڑھا اور وداعِ جنگ کے نام سے اس کے ناول قارئین تک پہنچے۔

    ارنسٹ کی زندگی بہت ہنگامہ خیز اور تیز رفتار رہی۔ اس نے رومانس کیا اور ایک نہیں کئی لڑکیوں سے محبت کی، اور اسی طرح شادیاں بھی۔ ہیمنگوے نے ملکوں ملکوں‌ سیر کے علاوہ میدانِ جنگ میں‌ ایک فوجی کی حیثیت سے بھی حصّہ لیا۔ وہ بل فائٹنگ دیکھنے کا شوقین تھا اور اس کھیل کو اپنے ایک ناول کا حصّہ بھی بنایا۔

    ہیمنگوے کی کچھ عجیب و غریب عادات بھی مشہور ہیں‌۔ کہتے ہیں ارنسٹ ہیمنگوے اکثر جب عام روش سے ہٹ کر کچھ لکھنا چاہتا یا وہ اپنی تحریر سے متعلق بہت حساسیت کا مظاہرہ کرتا تو کھڑے ہو کر لکھنے لگتا تھا۔ ارنسٹ ہیمنگوے کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ اپنا ٹائپ رائٹر اور پڑھنے کے بورڈ کو اتنا اونچا رکھتا تھا کہ وہ اس کے سینے تک پہنچتا تھا۔ غالباً اس طرح وہ لکھتے ہوئے پُرسکون اور یکسوئی محسوس کرتا ہو۔

    ارنسٹ ہیمنگوے اچھا نشانہ باز تھا یا نہیں‌، مگر اس کی بندوق سے نکلنے والی گولی کئی جانوروں کو نشانہ ضرور بنا چکی تھی۔ البتہ یہ کوئی نہیں‌ سوچ سکتا تھا کہ ہیمنگوے ایک روز اپنی ہی شاٹ گن سے اپنی زندگی کا سفر تمام کر لے گا۔

  • مارکیز: شہرۂ آفاق ناولوں کے خالق کا تذکرہ

    مارکیز: شہرۂ آفاق ناولوں کے خالق کا تذکرہ

    مارکیز نے ”طلسمی حقیقت نگاری“ کی اصطلاح سے اتفاق نہ کیا، جب کہ دل چسپ بات یہ ہے کہ یہ اصطلاح انہی کے لیے وضع کی گئی تھی۔ مارکیز اپنی تحریروں کو حقیقت نگاری کہتے تھے۔

    عصرِ حاضر کے سب سے بڑے ناول نگار کا درجہ رکھنے والے مارکیز نوبیل انعام یافتہ ادیب تھے۔ ان کے شہرۂ آفاق ناولوں میں ’تنہائی کے سو سال‘ اور ’وبا کے دنوں میں محبت‘ شامل ہے۔ آج مارکیز کا یومِ وفات ہے۔

    گیبریئل گارشیا مارکیز اپنے عہد میں سب سے بڑے اور قارئین کے محبوب فکشن نگار بھی کہلائے۔ 2014 میں مارکیز 87 برس کی عمر میں‌ آج ہی کے دن چل بسے تھے۔ انھیں ان کے احباب اور مداح گابو کے نام سے بھی پکارتے تھے۔

    مارکیز کو 1982ء میں ادب کا نوبیل انعام دیا گیا تھا، جب ان کی عمر لگ بھگ 55 برس تھی۔ گیبریل گارسیا مارکیز کی ایک انفرادیت یہ تھی کہ ان کی تخلیقات کا قاری ماضی، حال اور مستقبل کو ان تحریروں میں ایک ساتھ دیکھتا تھا۔ وہ واقعات کو طلمساتی انداز میں یوں گوندھتے تھے کہ قاری خود کو ان میں‌ گرفتار پاتا۔ مارکیز کے تخلیقی کام کی ایک خوبی یہ تھی وہ کسی مغربی ادیب یا مغربی روایت کے نقال نہیں بنے بلکہ اپنے حالات، مقامی کرداروں اور محسوسات، تجربات ہی کو اپنی تخلیقات میں پیش کیا۔ انھوں نے محبّت جیسے قدیم اور لافانی جذبے، خاندان اور آمریت کی دل موہ لینے والے واقعات کو کہانی میں پیش کیا۔ ان کے انوکھے موضوعات، کردار نگاری کا مخصوص انداز اور واقعات کی طلسماتی بنت نے انھیں ہم عصروں کے مقابلے میں ازحد مقبول بنا دیا۔ کارسیا مارکیز کی تقریباً تمام تحریریں اردو سمیت دنیا کی کئی زبانوں میں ترجمہ کی گئیں۔

    گابو دنیا کے مشہور ترین لاطینی امریکی ناول نگاروں میں سے ایک اور ادبی تحریک کے روح رواں تھے۔ وہ کیوبا کے مشہور راہ نما فیدل کاسترو کے قریبی دوست بھی تھے۔ مارکیز کے مشہور ناولوں کے نام یہ ہیں۔

    (1967) One Hundred Year of Solitude
    (1975) The Autum of the Patriarch
    (1985) Love in the Time of Cholera
    (2002) Living to Tell the Tale

    1927ء میں مارکیز نے کولمبیا کے ایک قصبے میں آنکھ کھولی۔ ان کے والد کیمسٹ تھے اور بیٹے کی پیدائش کے بعد انھوں نے بغرضِ کاروبار اپنا قصبہ چھوڑ دیا اور بڑے شہر میں منتقل ہوگئے۔ وہاں مارکیز کے ریٹائرڈ کرنل دادا، دادی اور آنٹی رہتی تھیں جن کے زیرِ سایہ مارکیز نے تربیت پائی۔ وہ گھر میں ان بزرگوں سے مختلف قصّے اور پراسرار کہانیاں سنتے ہوئے بڑے ہوئے۔ ان کے یہ بڑے بہت اچھے قصّہ گو تھے اور ان کے ساتھ مارکیز کو تفریح اور گھومنے پھرنے کا بھی موقع ملتا تھا۔ مارکیز دراصل ہسپانوی آباد کاروں، مقامی آبادی اور سیاہ فاموں کی غلامی کے ورثے میں پروان چڑھے تھے۔ مارکیز نے گریجویشن کے بعد قانون کی تعلیم بھی حاصل کی، اور ناول نگاری کا آغاز 1961 میں کیا۔ اس وقت وہ کولمبیا سے میکسکو سٹی منتقل ہوچکے تھے۔ اس دور میں مارکیز نے سخت مالی مشکلات اور کئی مسائل کا بھی سامنا کیا، لیکن ان کا قلم محبّت کی حدت اور حالات کی شدّت کے ساتھ تیزی سے کہانیاں بُننے لگا تھا اور وہ اپنے مسائل سے نمٹتے ہوئے مسلسل لکھتے رہے۔ بالآخر انھیں دنیا بھر میں پہچان ملی اور مارکیز نوبیل انعام سے بھی نوازے گئے۔

    عالمی شہرت یافتہ مارکیز ایک عرصے تک صحافت کے شعبے سے بھی منسلک رہے۔ وہ اسے دنیا کا سب سے خوب صورت پیشہ گردانتے تھے۔ ان کی پہلی ملازمت بھی ایک اخبار میں تھی جس نے 1947 میں ان کی پہلی مختصر کہانی شائع کی۔ اس وقت ان کے قلم سے نکلا ہوا ایک آرٹیکل فوجی حکام کا پسند نہ آیا اور تب مارکیز کو اپنا وطن چھوڑ کر یورپ جانا پڑا۔ وہ جنیوا، روم اور پیرس میں رہے اور اپنے تخلیقی سفر کو جاری رکھا۔

    اس عظیم ناول نگار نے 23 برس کی عمر میں اپنا پہلا ناول لکھا تھا اور اس کے بعد وہ اپنے ملک میں جاری جنگ و جدل، بدامنی اور بے چینی کے ساتھ محبّت کے جذبے اور دوسرے واقعات کو اپنی کہانیوں میں سموتے رہے۔ ان کی کہانیوں کے بیشتر کردار خاندان اور شہر کے وہ لوگ تھے جن کی زندگیوں کو مارکیز نے قریب سے دیکھا اور ان کا مشاہدہ کیا تھا۔

    میکسیکو میں‌ مارکیز کی موت کی اطلاع نے فضا کو سوگوار کردیا تھا۔ لوگ ان کو بہت چاہتے تھے۔ مداحوں کی بڑی تعداد نے مارکیز کا آخری دیدار کیا دنیا بھر سے اہلِ علم شخصیات، قلم کاروں اور مشہور لوگوں نے تعزیتی پیغامات کے ساتھ انھیں خراجِ عقیدت پیش کیا۔

  • نکولائی گوگول کا تذکرہ جس کا قلم روسی سماج کو آئینہ دکھاتا رہا

    نکولائی گوگول کا تذکرہ جس کا قلم روسی سماج کو آئینہ دکھاتا رہا

    گوگول کو روسی ادب میں جو مقام و مرتبہ حاصل ہوا، اُسے سمجھنے کے لیے مشہور ناول نگار دوستوفسکی کا یہ جملہ کافی ہے، ’ہم سب گوگول کی کہانی ’اوور کوٹ‘ سے برآمد ہوئے ہیں۔‘

    اوور کوٹ بلاشبہ سلطنتِ روس کے اس عظیم قلم کار کی شاہ کار کہانی ہے۔ اوور کوٹ کی کہانی ایک سرکاری کلرک کے گرد گھومتی ہے۔ یہ کہانی ایک غریب آدمی کے ساتھ توہین آمیز سلوک اور اس کی تذلیل کی کہانی ہے۔ یہ سماج میں اُن لوگوں کی نفرت کا سامنا کرتا ہے جو خود کو طبقۂ اعلیٰ اور اشرافیہ کا حصّہ سمجھتے ہیں۔ گوگول کا کمال یہ ہے اس نے ایک کلرک کی توہین اور بے عزّتی کو اس طرح بیان کیا کہ گویا یہ سماج کے تمام انسانوں کی تذلیل اور بے توقیری ہے۔

    نکولائی گوگول کا آبائی وطن یوکرین تھا جو اُس دور میں روسی سلطنت کا حصّہ تھا۔ سرد جنگ کے بعد یوکرین بھی متحدہ روس سے الگ ہوگیا اور خود مختار ملک بنا۔ بادشاہت کے زمانے میں یہاں 1809ء میں نکولائی واسیلیوچ گوگول نے آنکھ کھولی۔ وہ گوگول کے نام سے معروف ہے۔ اج اس ناول نگار کا آبائی وطن روس کی جانب سے جنگ کے بعد تباہی دیکھ رہا ہے۔ گوگول نے اپنی زندگی ہی میں روسی سلطنت میں ممتاز ادیب اور ناول نگار کے طور پر شہرت سمیٹ لی تھی۔ اس نے سماج میں غلامی کا دور دورہ دیکھا اور سلطنت میں عوام کو مختلف طبقات میں‌ بٹا ہوا پایا تھا۔ زمین دار، اُن کے ساتھ کسان اور محنت کش طبقات اشرافیہ اور نوکر شاہی کے مفادات کی زد پر تھے۔ ظلم کی مختلف شکلیں، جبر اور استحصال عام تھا۔ گوگول نے اپنے دور میں بہت سے ایسے معاشرتی امراض دیکھے جو استحصال کی مختلف شکلوں کی وجہ سے پیدا ہوئے تھے۔ حساس طبع گوگول نے قلم تھاما اور ان کہانیوں کو عام کرداروں‌ کے ساتھ گہرے طنز اور مزاح کی چاشنی دے کر قارئین کے سامنے رکھنا شروع کیا۔

    وہ 15 برس کا تھا جب اس کے والد کا انتقال ہوا۔ وہ اُس زمانے میں‌ بطور ڈرامہ نویس تھیٹر سے منسلک تھے۔ گوگول کے چند دیگر اعزّہ بھی تھیٹر اور فنونِ‌ لطیفہ کے دیگر شعبہ جات سے وابستہ تھے۔ نکولائی گوگول نے انہی سے متاثر ہو کر فن و تخلیق کا سفر شروع کیا تھا۔ اسے اداکاری کا شوق بھی تھا۔ نکولائی گوگول کو حصولِ تعلیم کے زمانے میں ہوسٹل میں رہنا پڑا۔ 1828ء میں‌ گوگول نے گریجویشن مکمل کرکے سینٹ پیٹرس برگ کا رخ کیا۔ اسے سرکاری نوکری کی خواہش تھی جس کے حصول میں وہ ناکام رہا۔ تب اس نے تھیٹر پر بطور اداکار قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا۔ گوگول نے اس مقصد کے لیے جرمنی جانے کا فیصلہ کیا اور اپنے گھر سے کچھ رقم چرا کر نکل پڑا۔ وہاں‌ اسے ایک کم اجرت کی شاہی نوکری مل گئی، لیکن جلد ہی اس نوکری کو خیرباد کہہ دیا۔ اس عرصہ میں وہ کہانیاں لکھنے لگا تھا اور اب خیال آیا کہ انھیں کتابی شکل میں قارئین تک پہنچائے۔ وہ یہ توقع نہیں‌ رکھتا تھا کہ اُسے اس قدر پسند کیا جائے گا اور اس کتاب کی بدولت وہ ملک گیر شہرت حاصل کر لے گا۔ لیکن قسمت اس پر مہربان تھی۔ اس کی کہانیاں 1831ء اور 1832ء میں‌ قارئین کی بڑی تعداد تک پہنچیں اور لوگوں‌ نے اسے بہت سراہا۔

    گوگول نے روس اور یوکرین بھر میں ادبی حلقوں‌ کو اپنی جانب متوجہ پایا تو 1835ء میں‌ اس ن ے قزاقوں‌ پر اپنا تاریخی ناول تاراس بلبا بھی شایع کروایا اور یہ بھی بہت مقبول ہوا۔ یہی نہیں بلکہ بعد کے برسوں‌ میں اس ناول کا شمار روسی ادب کے شاہ کار ناولوں‌ میں کیا گیا۔ اگلے سال نکولائی گوگول نے طنز و مزاح پر مبنی ڈرامہ انسپکٹر جنرل لکھا جس میں‌ اس نے اشرافیہ اور نوکر شاہی پر چوٹ کی تھی۔ عوام نے تو اسے بہت پسند کیا لیکن اس ناول پر وہ سلطنت میں‌ زیرِ عتاب آیا اور اسے روس چھوڑ کر اٹلی جانا پڑا۔ وہاں چھے سال قیام کے دوران گوگول نے کہانیاں‌ لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا اور 1842ء میں‌ اس کا ناول مردہ روحیں کے نام سے منظرِ عام پر آیا اور یہ ناول بھی روسی ادب میں ایک شاہ کار تسلیم کیا جاتا ہے۔ اسی دور میں‌ گوگول کا رجحان مذہب اور اخلاقیات کی طرف ہوگیا، لیکن اس راستے میں وہ اعتدال اور توازن کھو بیٹھا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ روس کا یہ نام ور ادیب خبط میں مبتلا ہوگیا اور خود کو شدید گناہ گار اور لائقِ‌ ملامت تصوّر کرنے لگا۔ اس کیفیت میں 1852ء میں‌ گوگول نے اپنے ناول کا مسودہ بھی جلا دیا تھا اور اسی برس 21 فروری کو چل بسا۔

    آج اٹھارہویں صدی کے اس ادیب کا یومِ وفات ہے جس نے روزمرّہ کی زندگی کو اپنے نقطۂ نگار سے دیکھا اور اپنے انداز سے پیش کیا اس کی کہانیوں میں سماج اور افراد پر گہرا طنز اور ایسا مزاح ملتا ہے جس کا اثر آج بھی محسوس کیا جاسکتا ہے۔ ان کہانیوں میں اثر پذیری کی بڑی وجہ گوگول کی وہ حقیقیت نگاری ہے جسے اس وقت روایات سے انحراف اور سماج سے بغاوت تصوّر کیا گیا۔

  • جارج آوریل: عالمی شہرت یافتہ ناول نگار اور نقّاد

    جارج آوریل: عالمی شہرت یافتہ ناول نگار اور نقّاد

    جارج آرویل وہ قلمی نام ہے جس نے ایرک آرتھر بلیئر کو بالخصوص ہندوستان بھر میں ایک ناول نگار، نقّاد اور صحافی کے طور پر شہرت دی۔ جارج آرویل متحدہ ہندوستان کی ریاست بہار میں‌ پیدا ہوئے جہاں ان کے والد انڈین سول سروس سے وابستہ تھے۔ لیکن ایک سال کی عمر میں‌ جارج آرویل اپنی والدہ کے ساتھ انگلستان چلے گئے اور کبھی ہندوستان نہیں‌ لوٹے۔ برسوں بعد ہندوستان میں ان کی تحریریں ان کے قلمی نام سے لوگوں نے پڑھیں اور ان کی کتابوں کے تراجم مشہور ہوئے۔

    جارج آرویل کا سنہ پیدائش 1903ء ہے۔ جارج آرویل ایک بیدار مغز اور تخلیقی صلاحیتوں کے حامل ایسے مصنّف تھے جس نے کمیونزم کو پھلتے پھولتے دیکھا۔ دو عظیم جنگوں کی تباہ کاریوں کا مشاہدہ کیا۔ برطانوی نوآبادیاتی نظام کو بکھرتے ہوئے دیکھا۔ یہ سب انھوں‌ نے اپنے قلم کے زور پر کتابوں میں محفوظ کردیا جو ان کی قابلِ‌ ذکر تصانیف ہیں۔ جارج آرویل عالمی نشریاتی ادارے بی بی سی سروس سے بھی منسلک رہے اور اسی زمانے میں وہ دوسرے اخباروں کے لیے بھی تحریریں قلمی نام سے لکھتے رہے۔ انھیں ایک ایسا قلم کار کہا جاسکتا ہے جس نے اس زمانے کی سیاست اور ثقافت کی نیرنگیوں‌ پر طنزیہ اور عقل و دانش سے آراستہ تبصرے کیے یا ان پر تحریریں سپردِ قلم کیں۔

    1933ء سے 1939ء کے درمیان جارج آرویل کی یکے بعد دیگرے سات کتابیں منظرِ عام پر آئیں، اور چھے سال بعد 1945ء میں ایک سیاسی تمثیل پر مبنی ناول ”اینیمل فارم“ دنیا بھر میں‌ ان کی وجہِ شہرت بنا۔ برطانوی مصنّف جارج آرویل کا یہ ناول علامت نگاری کی عمدہ مثال ہے۔ اینیمل فارم میں مصنّف نے ایک فارم اور جانوروں کی منظر کشی کرتے ہوئے ان پر ظلم اور مالکان کی جانب سے استحصال کا نقشہ کھینچا ہے، جس سے بیزار ہو کر جانور اپنے مالکان کو بھاگنے پر مجبور کردیتے ہیں۔ اس کے بعد فارم پر ان کا قبضہ ہوجاتا ہے۔ اس ناول کو عالمی سطح پر پذیرائی حاصل ہوئی اور دنیا کی مختلف زبانوں‌ بشمول اردو اس ناول کا ترجمہ کیا جا چکا ہے۔

    نوبل انعام یافتہ ناول نگار جارج آرویل اپنے شہرۂ آفاق ناول ’اینیمل فارم‘ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ اگرچہ اس کا اطلاق روس پر ہوتا ہے، لیکن اس کا اطلاق کہیں بڑے پیمانے پر بھی کیا جا سکتا ہے۔

    جارج آرویل نے 1949ء میں اپنے ناول بنام ”1984“ میں ایک تصوّراتی دنیا کو پیش کیا اور یہ ناول بھی شہرۂ آفاق ثابت ہوا۔ آرویل نے اس ناول میں ایک ایسی حکومت کا نقشہ کھینچا ہے، جس میں نگرانی کا ایک غیر معمولی نظام ہر وقت متحرک رہتا ہے، اور جبر کی فضا کا عالم یہ ہے کہ عوام اپنے ذہن میں بھی کوئی سوچ یا تصوّر نہین رکھ سکتے جو حکومت کی نظر میں قابلِ اعتراض ہو۔ یعنی ہر وہ سوچ جو حکومت کی منشا کے خلاف جنم لے گی، اس کڑے پہرے داری نظام میں گرفت میں‌ آجائے گی اور ایسا فرد سزا پائے گا۔ الغرض یہ ناول ایک مطلق العنان حکومت کے مختلف ہتھکنڈوں کو ہمارے سامنے لاتا ہے۔ کتاب میں‌ جنگِ عظیم دوم کی تباہ کاریوں کے پس منظر میں لکھی گئی تھی جب یورپ مکمل تباہ ہو چکا تھا۔ برطانوی قوم بھوک اور افلاس میں گِھر چکی تھی اور مستقبل بھی تاریک دکھائی دے رہا تھا۔ لیکن انگریز ناول نگار جارج آرویل کی خوبی یہ ہے انھوں نے ایسے حالات کا مقابلہ کرنے کا سبق بھی دیا ہے۔ آرویل کو اس بات کا اندازہ بخوبی ہو گیا تھا کہ جابرانہ حکومتوں کو ہمیشہ کسی دشمن کی ضرورت ہوتی ہے۔ اپنے ناول میں انھوں نے دکھایا ہے کہ کس طرح عوامی جذبات کو استعمال کر کے پراپیگنڈہ کے ذریعے اپنی مرضی کے مطابق نئے دشمن گھڑے جا سکتے ہیں۔

    جارج آرویل 21 جنوری 1950ء کو وفات پاگئے تھے۔

  • لائم اوفلاہرٹی: اشتراکی نظریات کا حامل آئرش ناول نگار

    لائم اوفلاہرٹی: اشتراکی نظریات کا حامل آئرش ناول نگار

    دنیا کی کئی مشہور اور اپنے شعبے میں قابل اور باصلاحیت شخصیات کی طرح لائم اوفلاہرٹی نے بھی بچپن اور نوعمری میں غربت اور معاشی مسائل دیکھے، لیکن ذہانت اور مستقل مزاجی کے ساتھ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کی بدولت ایک تخلیق کار کے طور پر نام و مقام بنایا۔ لائم اوفلاہرٹی اشتراکی نظریات کا حامل آئرش ناول نگار اور ڈرامہ نویس تھا۔

    اوفلاہرٹی کو اپنی مادری زبان اور ثقافت سے بے حد لگاؤ تھا۔ آئرش تہذیب و ثقافت اور زبان و ادب کی ترویج اس کا ایک جنون تھا۔ اوفلاہرٹی نے اپنی زبان کے ساتھ ساتھ انگریزی میں بھی ادب تخلیق کیا اور اپنے ہم عصروں میں نمایاں ہوا۔ اوفلاہرٹی نے اپنی تخلیقات میں عام لوگوں کے نقطۂ نظر کو پیش کیا اور اس کے افسانے عام آدمی کی زندگی کے تجربات پر مبنی ہوتے تھے۔

    بیسویں صدی کا یہ نام وَر ادیب 28 اگست 1896ء کو آئرلینڈ میں پیدا ہوا اور طویل عمر پائی۔ اس کی زندگی کا سفر 7 ستمبر 1984ء کو تمام ہوا۔ اوفلاہرٹی کا بچپن غربت اور معاشی بدحالی کی وجہ سے کئی محرومیوں کا شکار رہا۔ وہ شروع ہی سے اپنی مادری زبان اور اپنی ثقافت کا دیوانہ تھا۔ اس نے اسکول میں تعلیم کی تکمیل کے بعد اس زمانے کے رواج کے مطابق مذہبی تعلیم بھی حاصل کی۔ والدین کی خواہش تھی کہ وہ مذہبی پیشوا بن کر تبلیغ کا فریضہ انجام دے، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ 1917ء میں اوفلاہرٹی کو آئرش گارڈز میں بھرتی ہونا پڑا اور دوسرے نوجوانوں کی طرح اسے ایک محاذِ جنگ پر بھیج دیا گیا۔ یہ پہلی جنگِ عظیم کا زمانہ تھا جو لائم اوفلاہرٹی کے لیے خاصا پُرصعوبت اور مشکل ثابت ہوا۔ وہ محاذِ جنگ پر لڑتے ہوئے زخمی ہوگیا اور خاصا عرصہ زیرِ علاج رہا۔ اگرچہ وہ ایک فوجی جوان تھا، لیکن نہ تو وہ سخت دل تھا، نہ ہی لڑاکا۔ اس کے اندر ایک فن کار چھپا تھا۔ وہ ایک تخلیقی ذہن رکھنے والا حسّاس طبع نوجوان تھا اور یقیناً‌ جنگ اور خون ریزی اس کے لیے ایک بھیانک خواب تھا۔ وہ مجبوراً آئرش گارڈ کا حصّہ بنا تھا۔ اس جنگ نے اس کے ذہن پر بہت برا اثر ڈالا تھا۔ 1933ء میں اسے دماغی دورہ پڑا جس کا ایک سبب جنگ اور اس میں ہونے والی وہ ہلاکتیں تھیں جو لائم اوفلاہرٹی نے دیکھی تھیں۔ تاہم جنگ کے بعد اس نے اپنا وطن آئرلینڈ چھوڑ دیا اور امریکہ منتقل ہوگیا جہاں کچھ عرصہ ہالی وڈ میں بھی کام کیا۔ امریکہ ہجرت کرنا لائم اوفلاہرٹی کی زندگی میں ایک خوش گوار تبدیلی لایا تھا۔ کہہ سکتے ہیں کہ اس نے وہیں اپنی ادبی زندگی کا صحیح معنوں میں آغاز کیا۔

    1923 میں جب اوفلاہرٹی 27 سال تھا تو اس کی پہلی شارٹ اسٹوری اور ایک ناول شایع ہوچکا تھا۔ بعد میں امریکہ میں رہتے ہوئے اوفلاہرٹی نے انگریزی اور آئرش زبان میں ناول اور کہانیاں لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس کے متعدد ناول منظرِ‌عام پر آئے اور قارئین نے انھیں پسند کیا۔ 1950ء میں اوفلاہرٹی کی آخری تخلیق شایع ہوئی تھی۔ لائم اوفلاہرٹی نے شاعری بھی کی۔ اس کے ناولوں میں The Black Soul، The Informer ، The Assassin ، Mr. Gilhooley و دیگر شامل ہیں جن میں سے دی انفارمر سے ماخوذ کہانی کو فلمایا بھی گیا ہے۔ اوفلاہرٹی کے افسانے بھی کتابی شکل میں شایع ہوئے۔