Tag: ناول نگار رضیہ بٹ

  • رضیہ بٹ کا تذکرہ جو اپنی کہانیوں میں‌ عورت کو اس کے فرائض اور ذمہ داریوں کا احساس دلاتی رہیں

    رضیہ بٹ کا تذکرہ جو اپنی کہانیوں میں‌ عورت کو اس کے فرائض اور ذمہ داریوں کا احساس دلاتی رہیں

    چند دہائیوں قبل ہر گھر میں‌ اخبار، مختلف ادبی جرائد اور بچّوں کے رسالے اور ڈائجسٹ وغیرہ بڑے شوق سے پڑھے جاتے تھے۔ رضیہ بٹ اس وقت کی ایک مقبول رائٹر تھیں‌ جن کی رومانوی اور خانگی مسائل پر مبنی کہانیوں نے کثیرالاشاعت ڈائجسٹوں میں جگہ پائی اور انھیں زبردست پذیرائی ملی۔

    آج رضیہ بٹ کا یومِ وفات ہے۔ پاکستان کی اس معروف ناول نگار نے طویل علالت کے بعد 4 اکتوبر 2012ء کو دارِ‌ بقا کی جانب کوچ کیا۔ ان کی عمر 89 برس تھی۔

    1940ء کے عشرے میں لکھنے کا آغاز کرنے والی رضیہ بٹ نے تقسیمِ ہند کے ان واقعات کو بھی اپنے ناولوں میں شامل کیا جو آنکھوں دیکھے تھے۔ آزادی کے بعد پاکستانی سماج، یہاں خاندانوں میں‌ عورت اور اس کی خوشیاں، دکھ سکھ اور خانگی مسائل ان کی تحریروں میں نمایاں ہوئے اور وہ عورتوں‌ کی پسندیدہ رائٹر بنیں۔ رضیہ بٹ نے ناول بھی لکھے جن کی کُل تعداد 53 ہے۔

    ان کا ناول ’بانو‘ قیامِ‌ پاکستان کے بعد شایع ہوا جس نے مقبولیت کا ریکارڈ قائم کیا۔ اس ناول کو ڈرامائی تشکیل کے بعد ٹیلی ویژن پر پیش کیا گیا تھا۔

    رضیہ بٹ نے پاکستانی معاشرے میں عورت کے کردار کو بہت اہمیت دی۔ اس کی مثال ان کے ناول نائلہ، صاعقہ، انیلہ، شبو، بانو، ثمینہ، ناجیہ، سبین، رابی اور بینا ہیں جن کا مرکز عورت کا کردار ہے۔ 60 کی دہائی میں مغربی پاکستان کی پہلی رنگین فلم نائلہ پیش کی گئی تھی جو رضیہ بٹ کے ناول پر مبنی تھی۔ اس فلم نے زبردست کام یابی سمیٹی اور بعد میں ناول انیلہ اور شبو کو بھی بڑے پردے کے لیے فلمایا گیا۔

    4 اکتوبر 2012ء کو وفات پانے والی رضیہ بٹ کی زندگی کے اوراق الٹیں تو معلوم ہوگا کہ وہ کشمیر کے ایک علمی و ادبی گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں۔ 1924ء کو راولپنڈی میں پیدا ہونے والی اس مقبول رائٹر کا خاندانی نام رضیہ نیاز بٹ تھا۔ ان کا بچپن پشاور میں گزرا۔ علمی و ادبی ماحول میں آنکھ کھولنے کے سبب وہ مطالعے کی عادی ہوگئی تھیں جس نے ان میں تخلیقی صلاحیتوں کو بھی اُجاگر کیا۔ وہ اسکول کے زمانے میں اردو کی اچھی طالبہ رہیں۔ شستہ اردو اور اپنی تحریروں کی وجہ سے وہ اساتذہ کی توجہ حاصل کرنے میں‌ کام یاب رہیں اور ان کی حوصلہ افزائی اور مسلسل تعریفی کلمات نے رضیہ بٹ کے والد کو اپنی بیٹی پر توجہ دینے پر آمادہ کیا۔ انھیں احساس ہوا کہ رضیہ بٹ تخلیقی جوہر اور زرخیز ذہن کی مالک ہیں۔ وہ وقت بھی آیا کہ رضیہ بٹ کی اوّلین تحریر ادبی جریدے میں‌ شائع ہوئی اور باقاعدہ لکھنے لکھانے کا آغاز ہوگیا۔

    1946ء میں رضیہ بٹ کا پہلا ناول ’’نائلہ‘‘ شائع ہوا تھا۔ اسی سال ان کی شادی بھی ہوگئی، لیکن انھوں نے لکھنا ترک نہیں کیا۔ رضیہ بٹ نے ناول نگاری کے علاوہ 350 سے زائد کہانیاں اور ریڈیو پلے بھی تحریر کیے۔

    رضیہ بٹ نے اپنے ناولوں میں عورت کے کردار اور اس کے فرائض و ذمہ داریوں کو خاص اہمیت دی اور ان سے متعلق موضوعات اور ایسے مسائل کو اجاگر کیا جن پر افادی مباحث اور تبصرے سامنے آئے۔ انھیں خواتین میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی ناول نگار کا درجہ حاصل ہے۔ ان کے ناولوں کی خاصیت یہ تھی کہ وہ ان میں زندگی کی تلخ حقیقتوں کو نمایاں کرتے ہوئے چلتے پھرتے کرداروں اور الفاظ کی اثر انگیزی کے ذریعے اصلاح کی کوشش اور راہ نمائی کرتی تھیں۔

  • رضیہ بٹ کا تذکرہ جنھوں نے اپنے ناولوں میں پاکستانی عورت کے فرائض و ذمہ داریوں کو خاص اہمیت دی

    رضیہ بٹ کا تذکرہ جنھوں نے اپنے ناولوں میں پاکستانی عورت کے فرائض و ذمہ داریوں کو خاص اہمیت دی

    رضیہ بٹ کی رومانوی اور گھریلو موضوعات پر مبنی کہانیاں اس زمانے میں بہت مقبول ہوئیں جب تقریباً ہر گھر میں عورتیں بہت شوق سے ادبی جرائد، مختلف رسائل اور ڈائجسٹ پڑھا کرتی تھیں۔

    مصنّفہ کی کہانیوں کا مرکزی کردار بھی یہی عورت اور اس کی گھریلو زندگی تھی جسے انھوں نے اپنے ناولوں کے رومانوی کرداروں کے ذریعے بڑی خوبی سے پیش کیا۔

    رضیہ بٹ نے 1940ء کے عشرے میں لکھنا شروع کیا تھا۔ انھوں نے تقسیمِ ہند کے چشم دید واقعات کو بھی اپنے ناولوں میں شامل کیا ہے۔ ان کے ناولوں کی کُل تعداد 53 ہے۔

    ’بانو‘ وہ ناول تھا جو قیامِ‌ پاکستان کے بعد شایع ہوا اور اس نے مقبولیت کے سارے ریکارڈ توڑ دیے۔ اس ناول کی ڈرامائی تشکیل کے بعد اسے ٹیلی ویژن پر بھی پیش کیا گیا۔

    انھوں نے پاکستانی معاشرے میں عورت کے کردار کو بہت اہمیت دی۔ اس کی مثال ان کے ناول نائلہ، صاعقہ، انیلہ، شبو، بانو، ثمینہ، ناجیہ، سبین، رابی اور بینا ہیں جن کا مرکز عورت کا کردار ہے۔ 60 کی دہائی میں مغربی پاکستان کی پہلی رنگین فلم نائلہ پیش کی گئی جو انہی کے ناول پر مبنی تھی۔ اس فلم نے زبردست کام یابی سمیٹی اور رضیہ بٹ کے ناول انیلہ اور شبو پر بھی فلمیں بنائی گئیں۔ ٹیلی ویژن کے لیے بھی ان کے ناولوں کی ڈرامائی تشکیل کی گئی۔

    پاکستان کی یہ مشہور ناول نگار اور کہانی نویس 89 برس کی عمر میں 4 اکتوبر 2012ء کو وفات پاگئی تھیں۔ آج ان کی برسی ہے۔

    رضیہ بٹ کی ابتدائی زندگی کے اوراق الٹیں تو معلوم ہوگا کہ ان کا تعلق کشمیر کے ایک علمی و ادبی گھرانے سے تھا۔ وہ 1924ء کو راولپنڈی میں پیدا ہوئیں۔ ان کا اصل نام رضیہ نیاز بٹ تھا۔ ان کا زیادہ تر بچپن پشاور میں گزارا۔ چوں کہ انھیں شروع ہی سے علمی و ادبی ماحول میسر آیا تھا، تو مطالعے کا شوق بھی رہا جس نے انھیں بھی لکھنے لکھانے پر اکسایا۔ گھر کے ماحول اور مطالعے کے شوق نے انھیں تخلیقی صلاحیتوں کو اُجاگر کرنے کا موقع دیا اور اسکول کے زمانے میں ہی انھوں نے اردو کے مضمون میں اپنے معیاری مضامین اور تحریروں کی وجہ سے اساتذہ کی توجہ حاصل کرلی۔

    اساتذہ کی تعریفوں کے ساتھ ان کے والد کو بھی احساس ہوا کہ ان کی بیٹی زرخیز اور تخلیقی ذہن کی حامل ہے اور انھوں نے رضیہ بٹ کی بہت حوصلہ افزائی اور راہ نمائی۔ یوں ان کی اوّلین تحریر ایک ادبی جریدے تک پہنچی اور شائع ہوئی اور ان کا ادبی سفر شروع ہو گیا۔

    1946ء میں رضیہ بٹ کا پہلا ناول ’’نائلہ‘‘ شائع ہوا۔ اسی سال ان کی شادی بھی ہوگئی، لیکن انھوں نے لکھنا ترک نہیں کیا۔ انھوں نے ناول نگاری کے علاوہ 350 سے زائد کہانیاں اور ریڈیو پلے بھی لکھے۔

    رضیہ بٹ نے اپنے ناولوں میں عورت کے کردار اور اس کے فرائض و ذمہ داریوں کو خاص اہمیت دی اور ان سے متعلق موضوعات اور ایسے مسائل کو اجاگر کیا جن پر افادی مباحث اور تبصرے سامنے آئے۔ انھیں خواتین میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی ناول نگار کا درجہ حاصل ہے۔