Tag: ناول نگار وفات

  • جیمز جوائس کا تذکرہ جس نے ’’یولیسس‘‘ کی وجہ سے الزامات کا سامنا کیا

    جیمز جوائس کا تذکرہ جس نے ’’یولیسس‘‘ کی وجہ سے الزامات کا سامنا کیا

    ’’یولیسس‘‘، وہ ناول ہے جو دنیا بھر میں مصنّف جیمز جوائس کی وجہِ‌ شہرت بنا۔ یہ ناول متنازع ثابت ہوا اور اس کی اشاعت پر پابندی بھی عائد کی گئی، لیکن اسے ادبی دنیا میں ایک شاہکار بھی مانا جاتا ہے۔ اس پر فلمیں‌ بھی بنائی گئیں اور یولیسس کو دنیا کے بہترین ناولوں کی فہرست میں‌ بھی شامل کیا گیا۔

    جیمز جوائس ناول نگار اور افسانہ نویس ہونے کے ساتھ ایک شاعر اور ادبی نقاد بھی تھا۔ اس نے مغربی ادب میں ’’جدیدیت‘‘ کی تحریک میں بھی مرکزی کردار نبھایا۔ جمیز جوائس 13 جنوری 1941ء کو چل بسا تھا۔

    ناول نگار جیمز جوائس آئرلینڈ کے شہر ڈبلن میں پیدا ہوا۔ اس کا سنہ پیدائش 1882ء ہے۔ وہ ایک متمول گھرانے کا فرد تھا۔ جیمز جوئس نے خود کو بہترین طالبِ علم ثابت کیا۔ لیکن فرانس میں ڈاکٹریٹ کی تعلیم مکمل نہیں‌ کرسکا۔ اس کی ذاتی زندگی ایک سے زائد شادیوں کے علاوہ بیٹی کی بیماری اور دوسرے مسائل کی وجہ سے خاصی تکلیف دہ اور بوجھ بنی رہی، لیکن جمیز جوائس نے بطور ناول نگار جو شہرت اور مقام پایا وہ اس کی بڑی کام یابی تھی۔ وہ آئرش زبان کا سب سے مقبول ادیب بنا اور اس کی کئی کتابوں کے تراجم دنیا کی بڑی زبانوں بشمول اردو میں بھی ہوئے۔

    جمیز جوئس کی نظموں کا مجموعہ 1907ء میں شایع ہوا تھا اور 1914ء میں اس کی کہانیوں پر مشتمل کتاب قارئین تک پہنچی۔ جمیز جوئس کا شاہکار ناول ’’یولیسس‘‘ (Ulysses) 1922ء میں سامنے آیا۔ یہ ناول پیرس سے شائع ہوا تھا۔ اس ناول کا نام شہرۂ آفاق شاعر’’ہومر‘‘ کی طویل نظم ’’اوڈیسی‘‘ کے ایک کردار پر رکھا گیا ہے۔ اس ناول کی اشاعت کے بعد جیمز جوئس پر الزامات کی بھرمار ہوگئی۔ ناول کی امریکا اور برطانیہ میں طویل عرصے تک اشاعت ممنوع رہی۔ پھر 1930 میں یہ بندش ختم کردی گئی۔ اس ناول کی اشاعت کے بعد برطانیہ میں 1936 تک جمیز جوئس کے کام پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ دراصل ناول یولیسس میں جنسی تعلقات، گالیاں، ہیجان انگیز باتیں اور اُن عادات کو بھی بیان کیا گیا تھا جن کا تعلق بیتُ الخلا یا نجی زندگی سے ہوسکتا ہے۔ دل چسپ بات ہے کہ جب مصنّف کو سماج اور ادبی دنیا میں بھی الزامات اور سخت پیغامات موصول ہورہے، تو اس وقت سوئٹزر لینڈ کے مشہور ماہرِ نفسیات نے اسے ایک خط میں بہت حوصلہ دیا اور اس ناول پر سراہا۔ یہ ماہرِ نفسیات کارل گستاؤ ژونگ تھے۔ انھوں‌ نے ناول پڑھنے کے بعد جیمز جوئس کو خط اور اس کے ساتھ ناول یولیسس پر ایک تاثراتی مضمون بھی ارسال کیا۔ خط کا اردو ترجمہ ملاحظہ کیجیے۔

    محترم،
    آپ کے تصنیف کردہ ناول یولیسس (Ulysses) نے دنیا بھر کے سامنے ایک ایسے دردناک نفسیاتی مسئلے کو پیش کیا ہے کہ مجھ سے نفسیاتی مسائل کے ضمن میں ایک ممکنہ ماہرِ نفسیات کی حیثیت سے بارہا رابطہ ہوا ہے۔

    یولیسس کی پڑھت ایک انتہائی مشکل امر ثابت ہوئی جس نے میرے ذہن کو نہ صرف خوب رگیدا بلکہ (ایک سائنس دان کے زاویہ نگاہ کے مطابق) غیر ضروری طور پر اِدھراُدھر بھٹکایا۔ آپ کی کتاب میرے واسطے کلیتاً لوہے کا چنا ثابت ہوئی اور ایک قاری کی حیثیت سے اس کتاب کو کھولنے میں مجھے تقریباً تین برس کی مستقل جدوجہد سے گزرنا پڑا۔ تاہم مجھے آپ کو یہ بات لازماً بتانی چاہیے کہ میں آپ کا اور آپ کے عظیم فن پارے کا نہایت گہرائی سے ممنون ہوں۔ کیوں کہ مجھے اس سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ مجھے اندیشہ ہے کہ میں اس بات کا دعویٰ کبھی نہیں کر پاؤں گا کہ میں اس کتاب کی پڑھت سے لطف اندوز ہوا، کیوں کہ اس کے واسطے ذہانت اور بے پناہ ذہنی مشقت درکار تھی۔ اس بات سے بھی انجان ہوں کہ آپ یولیسس پر لکھے ہوئے میرے مضمون سے لطف اندوز ہوں گے یا نہیں، کیوں کہ دنیا کو یہ بات بتانے سے میں خود کو نہیں روک سکا کہ اس پڑھت کے دوران میں نے کس قدر بیزاری کا سامنا کیا، چیخا چلاّیا، برا بھلا کہا اور تعریف کی۔ چالیس صفحوں کی لگاتار بھاگ دوڑ کا نتیجہ، درحقیقت کھرے نفسیاتی ثمرات کی صورت میں سامنے موجود ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ میری بہ نسبت شیطان کی پڑنانی، عورت کی اصل نفسیات سے زیادہ آگاہ ہے۔

    خیر میں آپ کو تجویز دینے کی کوشش کرتا ہوں کہ میرے مختصر مضمون کو ملاحظہ کیجیے۔ یعنی ایک مکمل اجنبی شخص کی جانب سے ہونے والی ایک دل چسپ کاوش، جو آپ کے ناول یولیسس کی بھول بھلیوں میں بھٹکا اور شومئ قسمت سے بچ نکلا۔ میری تحریر سے آپ کو ان تمام احوال سے آگاہی مل جائے گی کہ ممکنہ طور پر ایک متوازن ماہرِ نفسیات پہ یولیسس نے کیا اثرات مرتب کیے ہیں۔

    جناب! دل کی گہرائیوں کے ساتھ

    آپ کا وفادار
    کارل گستاؤ ژونگ

    اس آئرش مصنّف اور ناول نگار کی پہلی کتاب ’’ڈبلنرز‘‘ اس کے افسانوں کا مجموعہ تھی، اور بعد میں‌ اس کے مزید ناول ’’اے پورٹریٹ آف دی آرٹسٹ ایز ینگ مین‘‘ اور ’’فنیگینز ویک‘‘ کے نام سے شایع ہوئے۔ اس کے چار شعری مجموعے اور رومانوی خطوط پر مشتمل تین کتابیں بھی شایع ہوئیں۔

  • البرٹ کامیو: ’’خوش کُن موت‘‘ کے تخلیق کار کا تذکرہ

    البرٹ کامیو: ’’خوش کُن موت‘‘ کے تخلیق کار کا تذکرہ

    ’’اجنبی‘‘ البرٹ کامیو کا پہلا ناول تھا جس کی اشاعت نے دنیا کو حیران کر دیا۔ یہ ایک ایسے بیٹے کی داستان تھی جسے اچانک اپنی ماں کے مر جانے کی اطلاع ملتی ہے۔ لیکن وہ اپنی ماں کے کفن دفن تک تمام معاملات میں جذباتی طور پر قطعی لاتعلق نظر آتا ہے جیسے وہ کوئی پتّھر یا مشین ہو۔ اس ناول کی ایک حیران کن بات یہ ہے کہ مصنّف نے اس ماجرے کو بھی قطعی غیر جذباتی انداز میں بیان کیا۔ آج کامیو بھی اس دنیا میں نہیں‌ ہے، لیکن اس کی کہانیاں اور فکر و فلسفہ آج بھی ہمیں زندگی کے مختلف پہلو اور کئی روپ دکھا رہا ہے۔

    کامیو کے متذکرہ بالا ناول کو دو عالمی جنگوں کے فوراََ بعد یورپ میں انسانی زندگی، وہاں پھیلتی رشتوں، معاشرتی اور ریاستی معاملات سے بے تعلقی کا ایک مؤثر ترین اظہار ٹھہرایا گیا۔ انسان کی اس بیگانگی کو اتنی شدت سے بیان کرتے ہوئے البرٹ کامیو دراصل اس انسان کا احیاء چاہتا ہے جو جذبات کو بیان اور احساسات کا اظہار کرے اور کسی واقعے پر ردعمل دیتا ہو۔ کامیو کو بھی اکثر جدید دنیا میں ’’انسان دوست ادب‘‘ تخلیق کرنے والا کہا گیا۔

    البرٹ کامیو نے الجزائر میں 1913ء میں اس وقت آنکھ کھولی جب اس کے وطن پر فرانس کا قبضہ تھا۔ الجزائر کے باشندوں نے آزادی کی خاطر جدوجہد کی اور طویل عرصہ تک جان و مال اور ہر قسم کی قربانیاں دینے کے بعد فرانسیسیوں کو اپنی سرزمین سے نکالنے میں کام یاب ہوگئے۔

    اس شہرۂ آفاق فلسفی ادیب نے فرانسیسی نژاد اور ہسپانوی جوڑے کے گھر آنکھ کھولی۔ کامیو نے غربت اور تنگ دستی دیکھی اور کم عمری میں اپنے والد کو بھی کھو دیا۔ پیٹ بھرنے کے لیے اسے مختلف کام کرنا پڑے اور گزر بسر کے لیے بڑی مشکل اٹھائی۔ البرٹ کامیو شمالی افریقہ میں‌ پلا بڑھا اور پھر فرانس چلا گیا۔ وہاں جرمنی نے قبضہ کرلیا اور اسی زمانے میں البرٹ کامیو اپنے تخلیقی جوہر اور فہم و فراست کی وجہ سے ایک اخبار میں مدیر بن گیا۔ اس کی مادری زبان فرانسیسی تھی۔ اسی زبان میں البرٹ کامیو نے ناول نگاری سے صحافت تک اپنا سفر طے کیا اور ایک فلسفی قلم کار کی حیثیت سے شہرت پائی۔ اس نے ناولوں کے ساتھ کئی مضامین لکھے اور متعدد کتابیں‌ تصنیف کیں۔ 1957ء میں‌ البرٹ کامیو کو ادب کا نوبل انعام دیا گیا۔

    الجیریا میں‌ کامیو نے دورانِ‌ تعلیم ٹی بی جیسے مرض سے بھی مقابلہ کیا تھا۔ اس وقت یہ مرض خطرناک اور جان لیوا تصوّر کیا جاتا تھا اور لوگ ٹی بی کے مریض سے دور رہتے تھے۔ غربت اور ان حالات نے اسے فلسفے کے زیرِ اثر رشتوں اور تعلقات کو کھوجنے پر آمادہ کرلیا اور البرٹ اپنے تخلیقی شعور سے کام لے کر ان مسائل کو اجاگر کرنے میں‌ کام یاب رہا۔

    وہ ایک ایسے ناول نگار کے طور پر دنیا میں‌ شہرت رکھتا ہے جس نے فلسفے کو نہایت خوبی سے اپنی کہانیوں میں‌ شامل کیا اور اسے مؤثر ہی نہیں ہر خاص و عام کے لیے سہل انداز میں پیش کیا۔

    ’’متھ آف سی فس‘‘ میں کامیو نے لایعنیت کا فلسفہ پیش کیا۔ ناول کی صورت میں اس فلسفے کی اطلاقی شکل ’’اجنبی ‘‘ میں بھی نظر آتی ہے۔ کامیو کا ناول ’’طاعون‘‘ بھی دنیا بھر میں سراہا گیا۔ اس کے ڈرامے اور ناولوں کے ساتھ فلسفے پر مبنی تصانیف نے علمی اور ادبی حلقوں‌ کو بہت متاثر کیا۔

    فرانس کا یہ فلسفی اور ناول نگار 1960ء میں آج ہی کے دن سڑک پر ایک حادثے میں زندگی سے محروم ہوگیا تھا۔

  • مفلس اور آوارہ مزاج جیک لندن کی کہانی جو امریکا کا مقبول ناول نگار بنا

    مفلس اور آوارہ مزاج جیک لندن کی کہانی جو امریکا کا مقبول ناول نگار بنا

    جیک لندن نے تکلیف دہ زندگی اور مشکلات کو شکست دے کر ادب اور صحافت کی دنیا میں شہرت پائی تھی۔ اس کا شمار امریکا کے مقبول ناول نگاروں‌ میں ہوتا ہے۔

    ایک وقت تھا جب جیک لندن پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے لوگوں کے آگے دستِ سوال دراز کرنے پر مجبور تھا۔ جب قسمت نے یاوری کی تو وہ اس قدر مقبول ہوا کہ لوگ آٹو گراف لینے کے لیے اس گرد جمع ہوجاتے۔ جیک لندن کے فن و تخلیق کو عالمی ادب میں سراہا گیا۔

    جیک لندن کا تعلق امریکہ کے شہر سان فرانسسکو سے تھا۔ وہ 12 جنوری 1876ء کو پیدا ہوا۔ جیک لندن کی طبیعت میں تجسس اور مہم جُوئی کا عنصر شروع ہی سے موجود تھا۔ غربت اور افلاس کا عالم یہ تھا کہ جیک لندن نے نوعمری میں ایسے معمولی کام بھی کیے جنھیں ناگوار اور گھٹیا تصوّر کیا جاتا تھا۔ لیکن جیک لندن لوگوں کی پروا کیسے کرتا؟ اسے ایک وقت کی روٹی چاہیے تھی، سو اس نے ہر کام کیا۔ یہی نہیں بلکہ غربت اور فاقوں سے تنگ آکر جیک لندن نے چوروں اور راتوں رات امیر ہونے کے لیے الٹے سیدھے کام کرنے والوں سے تعلق جوڑ لیا اور ان کے ساتھ وہ کبھی سونے کی تلاش میں نکلا اور کہیں سمندر سے بیش قیمت موتی ڈھونڈنے کے لیے جتن کیے۔

    جیک لندن کی عمر 17 برس تھی جب وہ ایک بحری جہاز پر ملازم ہوگیا اور جاپان کا سفر کیا۔ اُس نے زندگی میں‌ کئی سنسنی خیز اور انوکھے تجربات کیے۔ وہ جہاز راں بھی تھا، قزاق بھی اور کان کن بھی۔ یہ سب کچھ جیک لندن اپنا مقدر بدلنے کی خاطر کرتا رہا۔ حال یہ تھا کہ کہاں‌ دن گزارا اور کہاں رات کی، جیک لندن کو اس کا ہوش نہ رہتا۔ اس کا اکثر وقت ریلوے اسٹیشنوں پر مال گاڑی کے ڈبّوں‌ میں‌ گزرتا تھا۔

    وہ ایک ذہین نوجوان تھا جس کا حافظہ قوی تھا۔ جیک لندن نے باقاعدہ تعلیم تو حاصل نہیں‌ کی، لیکن مختلف کاموں اور آوارگی کے دوران جو کچھ سیکھا، 19 سال کی عمر میں‌ اُس وقت کام آیا جب اس نے کچھ لکھنے پڑھنے کا ارادہ کیا۔ اس نے وقت گزارنے کے لیے ایک لائبریری سے ناول لے کر پڑھنا شروع کیا اور یہ ایک بہترین مشغلہ ثابت ہوا۔ اسی زمانے میں اسے خیال آیا کہ وہ خود بھی لکھ سکتا ہے۔ اس کا یہ خیال غلط نہیں‌ تھا۔ جیک لندن نے جب قلم تھاما تو وہ نہیں جانتا تھا کہ ایک ناول نگار اور صحافی کے طور پر شہرت پائے گا۔

    جب روس اور جاپان کے درمیان جنگ چھڑی تو جیک لندن نے اخباری نمائندے کی حیثیت سے اپنی قسمت آزمائی۔ 1914ء میں اسے جنگی وقائع نگار کے طور پر منتخب کرلیا گیا اور جیک لندن نے بخوبی یہ ذمہ داری نبھائی۔ مگر اس سے قبل وہ ایک کہانی نویس کے طور پر شہرت پاچکا تھا۔ حیرت انگیز طور پر نہایت مختصر عمر پانے والے جیک لندن نے ایک ولولہ انگیز اور فعال شخص کے طور پر زندگی گزاری۔ مفلسی، مزدوری، سمندر کی دنیا اور اس کے تجربات و مشاہدات نے جیک لندن کو کہانی نویس اور صحافی بنا دیا۔

    امریکہ میں بطور کہانی نویس اس نے 1900ء میں اپنی پہچان کا سفر شروع کیا تھا۔ اس کی کہانیاں امریکی رسائل میں شایع ہونے لگی تھیں۔ سن آف وی وولف اور ٹیلس آف دی فار نارتھ وہ کہانیاں‌ تھیں جن کو امریکہ میں قارئین نے بہت پسند کیا۔ اس ستائش نے جیک لندن کو جم کر لکھنے پر آمادہ کیا۔ شہرت اور مقبولیت کے اس عرصہ میں جیک لندن نے کتّے جیسے وفادار جانور کو اپنی کہانیوں میں‌ پیش کرنا شروع کیا اور واقعات کو اس عمدگی سے بیان کیا کہ لوگ اس کے دیوانے ہوگئے۔ مشہور ہے کہ جیک لندن کی بعض کہانیوں کے واقعات سچّے ہیں‌ اور ان کا تعلق مصنّف کی زندگی سے ہے۔ ان میں اسموک بلو (Smoke Bellew)، مارٹن ایڈن (Martin Eden) وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔

    امریکہ میں جیک لندن کی مقبولیت کو دیکھ کر اس زمانے کے مشہور اخبارات اور بڑے جرائد نے اسے کہانیوں کا معقول معاوضہ دینا شروع کر دیا۔ اس نے اپنے بحری سفر کی داستان بھی دل چسپ انداز میں‌ قلم بند کی۔

    جیک لندن نے 1916ء میں‌ آج ہی کے دن وفات پائی۔ 1903ء تک اس کی چھے تصانیف منظرِ عام پر آچکی تھیں اور کئی سو کہانیاں‌ اخبارات اور رسائل میں‌ شایع ہوچکی تھیں۔ اس کی کتابیں بیسٹ سیلر ثابت ہوئیں۔

  • آرائشی استعاروں اور مترادفات سے بیزار میلان کنڈیرا کا تذکرہ

    آرائشی استعاروں اور مترادفات سے بیزار میلان کنڈیرا کا تذکرہ

    یہ تذکرہ ہے بینَ الاقوامی شہرت یافتہ ناول نگار، شاعر اور مضمون نگار میلان کنڈیرا کا جنھوں نے موسیقی میں دل چسپی سے شاعری اور شاعری سے کہانی بُننے تک اپنے سفر کو لازوال بنایا۔

    میلان کنڈیرا ایسے ناول نگار تھے جن کے نزدیک، اُن کی تخلیقات کے تراجم ایک دہشت ناک خواب تھے جنھیں پڑھ کر وہ پریشان ہوجاتے تھے۔ اس کی تفصیل دل چسپ بھی ہے اور شاید ایک بڑے ادیب کی اپنی کہانیوں کے مترجمین سے ناراضی کا اظہار بھی۔

    میلان کنڈیرا یکم اپریل 1929 میں چیکوسلوواکیہ کے ایک شہر برنو میں پیدا ہوئے۔ وہ ایک متوسط طبقے کے فرد تھے جس میں ان کے والد لڈوک کنڈیرا کو ایک موسیقار کی حیثیت سے پہچانا جاتا تھا جو پیانو بہت اچھا بجاتے تھے۔ میلان کنڈیرا نے بھی اپنے والد سے پیانو بجانا سیکھا۔ انھیں‌ موسیقی سے حد درجہ لگاؤ رہا۔ ان کے ناولوں میں جگہ جگہ موسیقی پر مباحث ملتے ہیں۔ خاص طورپر ان کے مشہور ناول ‘دی جوک’ میں جس کا ایک طویل باب موسیقی کے انتہائی دقیق اورپیچیدہ مسائل پر مبنی ہے۔

    میلان کنڈیرا کو موسیقی کے ساتھ بچپن سے ہی ادب سے شغف رہا۔ وہ ہائی اسکول کے طالب علم تھے جب پہلی نظم لکھی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد کنڈیرا نے جاز موسیقار کی حیثیت سے بھی کام کیا۔ کنڈیرا کا تعلق نوجوانوں کی اُس نسل سے ہے جسے جنگ عظیم سے پہلے کے چیکوسلوواکیہ کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ ان کے لیے چیکوسلوواکیہ کا ‘ری پبلک’ ہونا ایک خواب کے مانند رہا۔ دوسری جنگ عظیم اور چیکوسلوواکیہ پر جرمنی کے قبضے کے بعد نوجوانوں کی یہ نسل ایک خاص آئیڈیالوجی کی حامی ہوگئی تھی۔ میلان کنڈیرا نے بھی کمیونسٹ پارٹی کی رکنیت حاصل کر لی تھی۔

    بعد میں وہ پراگ کی چارلس یونیورسٹی میں موسیقی کی تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ فلم، ادب اور جمالیات کے طالبِ علم رہے۔ سنہ 1952 میں کنڈیرا کا تقرر پراگ اکادمی آف پرفارمنگ آرٹ میں عالمی ادب کے پروفیسر کے طور پر ہوا۔ یہی وہ زمانہ تھا جب انھوں نے اپنی نظمیں اور مضامین شائع کرانا شروع کیے اور کئی اہم ادبی جریدوں کی ادارت بھی سنبھالی۔

    پچاس کی تقریباً پوری دہائی میں کنڈیرا نے بہت سے تراجم کیے، مضامین لکھے اور اسٹیج کے لیے ڈرامے بھی تحریر کیے۔ 1953 میں کنڈیرا کی نظموں کی پہلی کتاب ‘مین اے وائیڈ گارڈن’ کے عنوان سے شائع ہوئی۔ اس کے بعد 1961 میں دی لاسٹ مئی اور 1965 میں ‘مونولاگز’ کے عنوان سے نظموں کے دو مجموعے اور شائع ہوئے۔ ان نظموں میں مارکسٹ آئیڈیالوجی کا اثر نمایاں‌ ہے، مگر اس کے باجود کنڈ یرا اس کٹر قسم کی مارکسی فکر کے خلاف نظر آتا ہے جو اس زمانے میں ادب اور شاعری کا ناگزیر عنصر بن گئی تھی۔

    1967 میں میلان کنڈیرا کا شاہکار ناول دی جوک شائع ہوا۔ اس ناول سے دنیا میں میلان کنڈیرا کا شہرہ ہوا، اور ان کی کہانیوں کے مجموعے لاف ایبل لوز کو بھی جو تقریباً اسی زمانے میں شائع ہوا تھا، بے حد سراہا گیا۔ ان کا دوسرا ناول 1972 میں فیئرویل والٹز شائع ہوا جسے زیادہ شہرت نہ مل سکی۔ تیسرا ناول جس کا عنوان ’لائف از السویئر‘ تھا، پیرس سے 1973 میں شائع ہوا۔ 1975 میں اس نے پراگ کو خیرباد کہا اور فرانس آگیا۔ 1979 میں اسے چیکوسلوواکیہ کی شہریت سے بھی ہاتھ دھونا پڑا کیوں کہ اس چوتھے ناول دی بک آف لافٹر اینڈ فارگیٹنگ میں جو کچھ لکھا گیا تھا، اسے چیکو سلوواکیہ کی حکومت برداشت ہی نہیں کر سکتی تھی۔ یہ ناول 1978 میں شائع ہوا تھا اور اسے میلان کنڈیرا کی شہرہ آفاق تحریر کا درجہ حاصل ہے۔

    سن 1981 میں میلان کنڈیرا نے فرانسیسی شہریت اختیار کر لی تھی۔ 11 جولائی 2023 کو میلان نے دنیا کو ہمیشہ کے لیے الوداع کہا۔

    یہاں ہم بین الاقوامی ادب میں نام و مرتبہ پانے والے میلان کنڈیرا کی ترجمے اور مترجمین کے بارے میں وہ رائے نقل کر رہے ہیں‌ جو دل چسپ بھی ہے اور بتاتی ہے کہ کس طرح کم علم مترجمین اپنے ناقص تراجم سے ادب کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ میلان کنڈیرا نے اس پر اپنے خیالات کا اظہار جارڈن ایلگرابلی سے گفتگو کے دوران کیا تھا جس کا ترجمہ بلند پایہ اہلِ قلم اور بہترین مترجم محمد عمر میمن نے کیا۔ میلان کنڈیرا کہتے ہیں۔

    ”آہ، یہ میرے تجربے کا سب سے زیادہ اندوہ ناک باب ہے۔ ترجمہ وہ دہشت ناک خواب ہے جس سے میرے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ میں، بظاہر، اُن نادر ادیبوں میں سے ہوں جو اپنے تراجم کو اور میری حد تک یہ فرانسیسی، انگریزی، جرمن، حتیٰ کہ اطالوی میں ہوتے ہیں…. پڑھتا ہے، اور بار بار پڑھتا ہے، اُنہیں چھان پھٹک کر دیکھتا ہے اور اُن کی تصحیح کرتا ہے۔ چنانچہ، اپنے بیشتر ہم منصبوں کے مقابلے میں میں زیادہ اچھی طرح جانتا ہوں کہ ترجمہ کیا ہوتا ہے۔ مجھے اس کی وجہ سے باقاعدہ دہشت زدہ زندگی گزارنی پڑتی ہے۔ میں نے تقریباً چھ ماہ لگا کر ”مذاق“ کا فرانسیسی میں دوبارہ ترجمہ کیا۔ مترجم نے …. یہ سولہ برس پہلے کی بات ہے جب میں ابھی پراگ ہی میں سکونت پذیر تھا۔ میری کتاب کا ترجمہ کہاں کیا تھا، اُس نے تو اسے دوبارہ خود سے لکھ مارا تھا! اُسے میرا اسلوب بے حد روکھا پھیکا نظر آیا! اُس نے میرے مسودے میں سیکڑوں (جی ہاں، سیکڑوں!) آرائشی استعارے گھسیڑ دیے تھے؛ جہاں میں نے ایک ہی لفظ بار بار استعمال کیا تھا، وہاں اُس نے مترادفات بھڑا دیے تھے؛ صاحب، وہ تو ایک ”خوبصورت اسلوب“ تخلیق کر رہا تھا! جب، دس سال بعد، یہ قتلِ عام مجھ پر منکشف ہوا، تو میں تقریباً ہر جملے کو درست، اور اس کا ازسرِ نو ترجمہ، کرنے پر مجبور ہو گیا! پہلا انگریزی ترجمہ تو اور بھی واہیات تھا۔ ایڈیٹر صاحب نے اِس کے بیشتر تفکراتی حصّوں کو سرے سے حذف کر دیا تھا؛ مثلاً، وہ تمام حصے جن کا تعلق موسیقی سے ہے۔ ابواب کی ترتیب بدل کر تو اُس نے حد ہی کر دی، یوں ناول پر، ایک اور ہی ترتیب منڈھ دی گئی۔ آج (بہرحال) ”مذاق“ قابلِ اعتماد ترجمہ ہو کر دوبارہ چھپ گیا ہے۔

    مجھے تو ہمیشہ یہی گمان رہا ہے کہ میرے متن اتنے سادہ ہوتے ہیں کہ ان کا بڑی آسانی کے ساتھ ترجمہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ غایت درجے کے شفاف ہوتے ہیں۔ ان کی زبان قدرے کلاسیکی، واضح اور غیر عامیانہ ہوتی ہے۔ لیکن چونکہ یہ سادہ ہوتے ہیں، ٹھیک اسی لیے ترجمے کے وقت مطلق معنوی صحت (absolute semantic exactitude) کا تقاضا کرتے ہیں! اب مترجمین دن بدن تحریر کو دوبارہ لکھنے والے بن گئے ہیں۔ ”وجود کی ناقابلِ برداشت لطافت“ کے امریکی ترجمے کے مسودے پر مجھے تین مہینے صرف کرنے پڑے، اور خدا گواہ ہے کہ یہ بڑے صبر آزما مہینے تھے! اسلوب کے بارے میں میرا اصول یہ ہے: جملے کو غایت درجے کا سلیس اور مولک ہونا چاہیے؛ اِس کے برخلاف، بیچارے میرے مترجمین جس اصول کا پاس رکھتے ہیں، وہ یہ ہے: جملے کو متمول نظر آنا چاہیے (تا کہ مترجم اپنی لسانی قابلیت، اپنی فائق ہنر مندی (virtuosity) کا مظاہرہ کر سکے اور حتیٰ المقدور پیش پا افتادہ بھی (کیونکہ طبّاعی مترجم کے یہاں بھدّے پن کی شکل میں ظاہر ہو سکتی ہے؛ لوگ اُس پر یہ پھبتی کس سکتے ہیں: ”انگریزی میں ایسے نہیں کہتے!“، لیکن جو میں لکھتا ہوں اُسے بھی چیک میں ایسے نہیں کہتے!)۔ آپ کی نگارش کو ایسا بنا کر پیش کیا جاتا ہے کہ وہ سپاٹ نظر آنے لگتی ہے۔ اُسے پیش پا افتادہ، حتیٰ کہ بازاری، بنا دیا جاتا ہے۔ یہی حشر آپ کی فکر کا بھی کیا جاتا ہے۔ بایں ہمہ، کسی ترجمے کے اچھے ہونے کے لیے بہت لاؤ لشکر کی ضرورت نہیں ہوتی: بس اسے مطابق اصل ہونا، مطابقِ اصل ہونے کا خواہش مند ہونا چاہیے۔ عجیب بات ہے کہ میری نگارشات کے بہترین مترجم وہ ہیں جن کا تعلق چھوٹے چھوٹے ملکوں سے ہے: ہالینڈ، ڈنمارک، پرتگال، یہ مجھ سے باقاعدہ رجوع کرتے ہیں، اپنے سوالوں کی بھرمار سے مجھے مغلوب کر دیتے ہیں، ہر تفصیل کے بارے میں پریشان ہوتے پھرتے ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ ان چھوٹے چھوٹے ملکوں کے لوگ قدرے کم کلبیت پسند واقع ہوئے ہیں اور اب بھی، ادب کے دلدادہ ہیں۔”

  • حوزے ساراماگو: نوبیل انعام یافتہ پرتگالی ناول نگار

    حوزے ساراماگو: نوبیل انعام یافتہ پرتگالی ناول نگار

    حوزے ساراماگو کو 1998ء میں نوبیل انعام کا حق دار تسلیم کیا گیا، لیکن وہ اس سے کافی عرصہ پہلے غیر معمولی فکشن نگار کے طور پر اپنی پہچان ضرور بنا چکے تھے۔ حوزے سارا ماگو 76 برس کے تھے جب انھیں نوبیل انعام دیا گیا اور ان کا نام عالمی ادب کے افق پر چمکا۔ 18 جون 2010ء کو حوزے ساراماگو نے ہمیشہ کے لیے یہ دنیا چھوڑ دی تھی۔

    1947ء میں حوزے ساراماگو نے اپنا پہلا ناول شائع کروایا تھا، اور بعد کے برسوں میں ان کے متعدد ناول اور تنقیدی مضامین منظرِ عام پر آئے جن کی بدولت عالمی ادب میں حوزے ساراماگو کو زبردست تخلیقی قوت کے حامل فکشن نگار کے طور پر پہچانا گیا۔

    براعظم یورپ کے جنوب مغرب میں واقع ملک پرتگال کی تہذیبی اور ثقافتی تاریخ میں کئی نام اصنافِ ادب میں اپنے منفرد کام کی بدولت دنیا میں معروف ہوئے۔ حوزے ساراماگو انہی میں سے ایک تھے۔ وہ کمیونسٹ نظریات کے حامل تھے اور اسی بناء پر یہ بھی خیال کیا جاتا تھا کہ انھیں نوبیل انعام نہیں مل سکتا، لیکن وقت نے اس خیال کو غلط ثابت کر دیا۔ حوزے سارا ماگو کی تخلیقات کا نہ صرف کئی زبانوں بشمول اردو، ترجمہ ہوا بلکہ نوبیل انعام کی شکل میں ان کی فنی عظمت کو تسلیم اور ان کی تخلیقات کو سراہا گیا۔

    حوزے ساراماگو (Jose Saramago) نے ناول ہی نہیں تخلیق کیے بلکہ ان کے افسانے، ڈرامے، روزنامچے، سفرنامے بھی قارئین تک پہنچے اور انھیں متاثر کیا۔ اس کے علاوہ حوزے سارا ماگو کے اخباری کالم اور تنقیدی مضامین بھی پرتگالی ادب کا حصہ بنے اور بعد میں ان کا انگریزی یا دیگر زبانوں میں ترجمہ ہوا اور ان کے پڑھنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ حوزے سارا ماگو 1922ء میں پرتگال میں ایک چھوٹے سے گاؤں میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کی زندگی کا سفر افلاس کی آغوش میں شروع ہوا۔

    اسی غربت اور تنگ دستی کے دوران انھوں نے کسی طرح اسکول کی تعلیم مکمل کی اور اس کے بعد ایک ورکشاپ میں گاڑیوں کی مرمت کا کام سیکھنے لگے۔ انھوں نے دو سال یہی کام کیا۔ مزدوری اور مشقت کی عادت نوعمری میں پڑ گئی تھی اور ورکشاپ چھوڑنے کے بعد ضروریات پوری کرنے کے لیے مختلف نوعیت کے چھوٹے چھوٹے کام اور مزدوریاں کرتے رہے۔ حوزے ساراماگو نے پرتگال میں کمیونسٹ پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب پرتگال میں کمیونسٹ پارٹی کی سرگرمیوں کے ساتھ سیاسی میدان میں بھی تبدیلیاں بھی رونما ہورہی تھیں۔ وہ سیاسی انتشار کے ساتھ سماجی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیوں کا باریک بینی سے مشاہدہ کرتے رہے۔ اسی عرصہ میں انھیں ایک اشاعتی ادارے میں ملازمت ملی، لیکن نومبر 1975ء میں سیاسی بحران کے باعث یہ ملازمت چھوڑ دی۔ 1969ء میں ساراماگو کمیونسٹ پارٹی میں شامل ہوئے تھے اور پھر عملی سیاست میں باضابطہ حصہ لیا۔ وہ واضح اور دو ٹوک سیاسی رائے رکھتے تھے اور اس کا اظہار بھی کرتے رہے۔

    حوزے ساراماگو نے 1966ء میں اپنی نظموں کا مجموعہ بھی شائع کروایا تھا۔ اس کے بعد وہ ادبی و تنقیدی مضامین، اخباری کالموں اور ادبی تراجم میں منہمک ہوگئے۔ پرتگال میں ان کی ادبی تحریریں کی مقبولیت کے ساتھ انھیں ایک فعال ادبی شخصیت کے طور پر شہرت ملی۔ عالمی ادب میں حوزے ساراماگو کو ان کے ناول Blindness (جس کا اردو ترجمہ اندھے لوگ کے نام سے کیا گیا) نے پہچان دی۔ یہ ناول 1995ء میں سامنے آیا تھا جس کے تین برس بعد وہ نوبیل انعام کے مستحق قرار پائے تھے۔ اس پرتگالی ادیب اور ناول نگار کو ایک تنازع کا سامنا بھی کرنا پڑا اور یہ حضرت عیسٰی کی زندگی پر مبنی ناول کی وجہ سے پیدا ہوا تھا، جسے پرتگال کی حکومت نے ادبی انعام کے لیے نام زد ہونے سے روک دیا۔

    ساراماگو کی تحریر کی ایک خاص بات رمز ہے اور وہ استعارہ تشکیل کرتے ہیں اور جہاں جہاں وہ اس کی توضیح کرتے ہیں وہاں اس کے معنی کی ایک اور جہت پیدا کر دیتے ہیں۔ اس عمل میں وہ رموز اوقاف کو ثانوی سمجھتے تھے اور یہی وجہ ہے کہ ان کے ناول اکثر قارئین کے لیے صبر آزما ثابت ہوتے ہیں اور کسی وجہ سے قاری کہانی پر مکمل توجہ نہ دے سکے تو الجھن کا شکار اور کردار اور مکالمے سمجھنے میں دشواری محسوس کرے گا۔

    ساراماگو کے ناول اندھے لوگ کی کہانی کے مرکزی کردار پر ایک نظر ڈالیں تو یہ ایک کار سوار کے اچانک بینائی سے محروم ہوجانے کی داستان ہے جو ایک مقام پر سگنل کے سبز ہونے کے انتظار میں ہے تاکہ آگے بڑھ سکے۔ سگنل سبز ہو جاتا ہے لیکن وہ اپنی کار آگے نہیں بڑھاتا، اور جب اس کی کار کا دروازہ کھول کر اسے باہر نکالا جاتا ہے تو وہ بتاتا ہے کہ اسے دودھیا خلا کے سوا کچھ دکھائی نہیں دے رہا۔ بے نام شہر میں اندھا ہونے والا یہ پہلا فرد ہے۔ یہ ایک ایسی وبا کا نتیجہ تھا جس کا کوئی وجود نہ تھا۔ لیکن اس کے بعد جو صورت حال جنم لیتی ہے وہ تعجب خیز بھی ہے اور اس کے بطن سے واقعات پھوٹتے چلے جاتے ہیں، اس اندھے پن کا شکار ہونے والے پہلے فرد کے بعد اسی نوع کے اندھے پن کا سلسلہ چل نکلتا ہے۔ جب یہ سلسلہ پھیلنے لگتا ہے تو حکومت یہ سمجھتی ہے یہ کوئی ایسی بیماری ہے جو کسی اندھے سے دوسرے لوگوں کو لگ رہی ہے اور گویا یہ ایک وبا ہے جس پر قابو پانے کے لیے اب تک اندھے ہونے والے تمام لوگوں کو پکڑ کر ایک ایسی عمارت میں بند کر دیا جاتا ہے جو کبھی دماغی امراض کے مریضوں کے لیے مخصوص رہی تھی۔ کئی کرداروں پر مشتمل اس ناول نے حوزے ساراماگو کو آفاقی شہرت سے ہمکنار کیا۔

    ساراماگو کے تخلیقی عمل کا محور اپنے ناول میں فرض کردہ واقعات کی بنیاد پر انسانی تہذیب کی کسی کڑی کو بیان کرنا ہے جو انسانی تہذیب کا تماشا دکھاتی ہے۔ وہ اپنے فکشن میں ایک فرضی صورتِ حال اور کرداروں کے ساتھ انسانی معاشرت، سیاست، مذہب اور انسانی نفسیات کی قلعی کھولنے کا کام کرتے نظر آتے ہیں اور اِن کا قاری اختتام تک ناول پڑھے بغیر نہیں رہ پاتا۔

  • ورجینا وولف کی خود کُشی اور آخری خط

    ورجینا وولف کی خود کُشی اور آخری خط

    ’’اگر کوئی مجھے اس تکلیف سے بچا سکتا تھا، تو وہ تم ہی تھے۔ ہر چیز مجھ سے جدا ہو رہی ہے، سوائے اس محبت کے جو تم نے مجھ سے ہمیشہ کی۔‘‘

    یہ سطور ورجینا وولف کی آخری تحریر سے لی گئی ہیں جو انھوں نے اپنے شوہر کے نام چھوڑی تھی۔ ایک ادیب، مضمون نویس اور نقّاد کی حیثیت سے آج بھی انھیں‌ ادب کی دنیا میں پہچانا جاتا ہے۔ ورجینا وولف نے 1914ء میں آج ہی کے دن خود کُشی کر لی تھی۔ انھوں نے ایک ندی میں‌ چھلانگ لگا دی تھی اور پانی نے ان کی یہ کوشش قبول کرلی۔

    ورجینا وولف 25 جنوری 1882ء کو برطانیہ میں پیدا ہوئیں۔ ان کا مکمل نام ایڈلن ورجینا وولف تھا۔ وہ ایک متمول گھرانے کی فرد تھیں اور یہ کنبہ فنونِ لطیفہ کے مختلف شعبوں میں فعال اور تخلیقی کاموں کے لیے مشہور تھا۔ یہ آٹھ بہن بھائی تھے جن میں ورجینا وولف کو دنیا میں‌ بھی پہچان ملی۔ ان کے والد قلم کار، مؤرخ اور نقّاد، والدہ ماڈل جب کہ ایک بہن مصورہ اور ڈیزائنر تھیں۔

    ورجینا وولف نے دستور کے مطابق اسکول کی بجائے گھر پر تعلیم و تربیت کے مراحل طے کیے، ادب پڑھا، گھر میں کتابیں موجود تھیں اور علمی و ادبی موضوعات پر گفتگو بھی سننے کا موقع ملتا رہتا تھا۔ اور پھر وہ وقت آیا جب انھوں نے خود مضمون نویسی اور کہانیاں لکھنے کا سلسلہ شروع کیا۔

    ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انھوں نے کنگز کالج میں داخلہ لیا اور اس عرصے میں تاریخ اور ادب کے گہرا مطالعہ ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کا باعث بنا، اسی دوران عورتوں کے حقوق اور مسائل سے بھی آگاہی حاصل کی جس نے ورجینا وولف کی فکر اور تخلیقی صلاحیتوں کو اجالا اور والد نے حوصلہ افزائی کی تو باقاعدہ لکھنے کا آغاز کیا۔ اسی سفر کے آغاز پر انھیں والد کی جدائی کا صدمہ بھی برداشت کرنا پڑا۔ اس سے قبل والدہ داغ مفارقت دے چکی تھیں۔ ورجینا وولف کی زندگی میں ایسی تبدیلیاں اور رنج و غم کے مواقع آئے جنھوں نے ان کے ذہن پر گہرا اثر کیا۔ وہ ایک نفسیاتی عارضے میں مبتلا ہوگئیں، جس میں مریض اپنی جان لینے کی کوشش کرتا ہے۔ ورجینا وولف موت سے پہلے بھی خود کُشی کی متعدد کوششیں کرچکی تھیں۔

    اس برطانوی مصنّفہ کا پہلا ناول’’دا ووئیج آؤٹ‘‘ تھا۔ 1925ء میں ’’مسز ڈالووے‘‘ اور 1927ء میں ’’ٹو دا لائٹ ہاؤس‘‘اور 1928ء میں ’’اورلینڈو‘‘ کے عنوان سے ان کے ناول منظرِ‌عام پر آئے جو ان کی پہچان ہیں۔ ان کے ایک مضمون بعنوان ’’اپنا ایک خاص کمرہ‘‘ دنیا بھر میں‌ قارئین تک پہنچا اور اسے بے حد پسند کیا گیا۔

    ورجینا وولف کی تخلیقات کا پچاس سے زیادہ زبانوں میں ترجمہ ہوا اور ان کی تحریر کردہ کہانیوں کو تھیٹر اور ٹیلی وژن پر پیش کیا گیا۔ ’’مسز ڈالووے‘‘ ان کا وہ ناول ہے جس پر فلم بنائی گئی تھی۔

    موت کو گلے لگانے سے قبل ورجینا نے اپنے شوہر کے نام جو پیغام لکھا، وہ یہ ہے:

    پیارے…
    مجھے لگتا ہے کہ میں دوبارہ پاگل پن کی طرف لوٹ رہی ہوں اور مجھے محسوس ہوتا ہے کہ ہم دوبارہ اس بھیانک کرب سے نہیں گزر پائیں گے۔ میں دوبارہ اس تکلیف سے اَب ابھر نہیں پاؤں گی۔ مجھے پھر سے آوازیں سنائی دیتی ہیں جس کی وجہ سے میں کسی چیز پہ اپنی توجہ مرکوز نہیں کر پا رہی ۔ میں وہ کرنے جا رہی ہوں…… جو بظاہر ان حالات میں کرنا بہتر ہے۔

    تم نے مجھے زندگی کی ہر ممکنہ خوشی دی۔ تم میرے ساتھ ہر طرح کے حالات میں ساتھ ساتھ رہے، جتنا کوئی کسی کے ساتھ رہ سکتا ہے۔ نہ میں سمجھ ہی سکتی ہوں کہ دو انسان اس قدر اکٹھے خوش رہ سکتے ہیں، جیسے ہم رہ رہے تھے، جب تک کہ اس اذیت ناک بیماری نے مجھے شکار نہ کرلیا۔

    اب میں مزید اس بیماری سے نہیں لڑ سکتی۔ میں یہ بھی سمجھتی ہوں کہ میری وجہ سے تمہاری زندگی بھی تباہ ہو رہی ہے، جو میرے بغیر شاید کچھ پُرسکون ہو جائے۔ مجھے یقین ہے کہ ایسا ہی ہوگا۔

    بس میں یہی کہنا چاہتی ہوں کہ میری ساری زندگی کی خوشی تم سے منسوب رہی ہے۔ تم ہمیشہ میرے ساتھ بہت اچھے اور پُرسکون رہے ہو، اور میں کہنا چاہتی ہوں کہ یہ حقیقت سب ہی جانتے ہیں۔ اگر کوئی مجھے اس تکلیف سے بچا سکتا تھا، تو وہ تم ہی تھے۔ ہر چیز مجھ سے جدا ہو رہی ہے، سوائے اس محبت کے جو تم نے میرے ساتھ ہمیشہ کی۔

    میں ہرگز یہ نہیں چاہتی کہ میری بیماری کی وجہ سے تمہاری زندگی مزید تباہ ہو۔ میں ایسا مزید نہیں کرسکتی۔ میں نہیں سمجھتی کہ دنیا میں دو انسان ایک ساتھ اتنا خوش رہے ہوں…… جتنا ہم!

  • یومِ‌ وفات: قلم، ٹائپ رائٹر اور ڈاک کے لفافے جان اپڈائیک کا رومانس تھے

    یومِ‌ وفات: قلم، ٹائپ رائٹر اور ڈاک کے لفافے جان اپڈائیک کا رومانس تھے

    گھر میں رائٹنگ ٹیبل پر رکھے ٹائپ رائٹر میں اسے عجیب کشش محسوس ہوتی تھی۔ قلم اور کورے کاغذ گویا اپنی جانب کھینچتے اور ڈاک کے خاکی لفافوں کا بھید جاننے کے لیے وہ بے چین ہوجاتا تھا۔ اس کا محبوب مشغلہ ان لفافوں پر درج نام اور مختلف پتے پڑھنا تھا۔ یہ جان اپڈائیک کی زندگی کے ابتدائی دن تھے۔

    اس کے والد اسکول ٹیچر اور والدہ ادیب تھیں۔ دنیا جہان کے موضوعات پر کتابیں گھر میں موجود تھیں اور اپڈائیک کو اکثر ان کی زبانی علمی و ادبی مباحث سننے کا موقع ملتا تھا۔ اسی ماحول کا اثر تھا کہ اس نے کتابوں کی طرف ہاتھ بڑھا دیا۔

    ابتدائی تعلیم کے حصول کے بعد وہ اس قابل ہوگیا کہ بچّوں کا ادب پڑھ سکے۔ اسی مطالعے نے اس کم عمر کے تخیل کو مہمیز دی اور ایک دن اس نے قلم تھام کر اپنے جذبات اور احساسات کو نظم کر دیا۔ نوعمر اپڈائیک نے اس پہلی کاوش کے بعد ایک مختصر مضمون بھی لکھ ڈالا۔ یہ تخلیقی کاوشیں والدین کے سامنے رکھیں تو وہ بہت خوش ہوئے اور بیٹے کی بہت حوصلہ افزائی کی۔ بعد کے برسوں میں خصوصاً والدہ کی راہ نمائی میں جان اپڈائیک نے اپنا تخلیقی سفر جاری رکھا اور وہ وقت بھی آیا جب دنیا بھر میں وہ اپنے نظریۂ ادب اور منفرد اسلوب کی وجہ سے مشہور ہوگئے۔

    جان اپڈائیک کا تعلق امریکا سے تھا۔ وہ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھے۔ ان کے بچپن کی لفظی جھلکیاں آپ کی نظر سے گزری ہیں، جو یقیناً عام بچّوں کے مقابلے میں بہت مختلف تھا۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ اپڈائیک روانی سے نہیں بول سکتے تھے اور ایک ایسے مرض میں بھی مبتلا تھے جس میں جلد کی رنگت سفید ہوجاتی ہے اور چہرے پر سرخ نشانات پڑجاتے ہیں، مگر والدین کی بھرپور توجہ اور ہمّت افزائی نے انہیں کسی بھی قسم کے احساسِ کم تری سے دوچار نہیں ہونے دیا۔ اپڈائیک اپنے قلمی سفر کی ابتدا سے متعلق لکھتے ہیں۔

    ’’میں نے اپنی ماں کو ہمیشہ رائٹنگ ٹیبل پر لکھنے پڑھنے میں مشغول پایا۔ شعور کی سرحدوں کو چُھوا تو معلوم ہوا کہ وہ ایک رائٹر کے طور پر شناخت کی جاتی ہیں۔ انہوں نے میرے اندر لکھنے کا شوق پیدا کیا اور ہر قدم پر میری راہ نمائی کی۔ میرا تخلیقی سفر انہی دنوں کی اُس حوصلہ افزائی اور مدد کا نتیجہ ہے۔‘‘

    18 مارچ 1932ء کو آنکھ کھولنے والے جان اپڈائیک نے ہر بچّے کی طرح ابتدائی عمر میں مہم جوئی پر مبنی کہانیوں، طلسماتی اور تجسُس سے بھرپور اسٹوریز میں دل چسپی لی۔ ذرا شعور آیا تو خود بھی مختلف موضوعات پر لکھنے لگے اور جب باقاعدہ قلم تھاما تو پہلے اپنے رہائشی علاقے ریڈنگ کے طرزِ زندگی پر ناول لکھا۔ اپڈائیک کی تخلیقات اپنے متنوع موضوعات اور منفرد اسلوبِ نگارش کی بدولت قارئین میں مقبول ہوئیں۔ ان کے عام موضوعات سماجی اقدار اور امریکی شہری تھے جب کہ شارٹ اسٹوریز اور ناولوں میں انہوں نے خاص طور پر مڈل کلاس طبقے کے مسائل کو اجاگر کیا۔

    عظیم ناول نگار، شاعر اور نقّاد جان اپڈائیک کا ایک مضبوط حوالہ ان کی حقیقت پسندی ہے۔ ان کی تحریروں میں انسانی رویّوں اور الجھنوں کے ساتھ سماجی سطح پر شکست و ریخت کی عکاسی کی گئی ہے۔ اپڈائیک کی تخلیقی انفرادیت کا ایک پہلو یہ ہے کہ انہوں نے ان قدروں اور روایات کی پابندی نہیں کی جو حقائق سے چشم پوشی پر اکساتی ہیں اور کسی بھی معاشرے کو تنگ نظری کی طرف دھکیل سکتی ہیں۔ خاص طور پر اخباری مضامین ان کی قوتِ مشاہدہ اور تجزیاتی فکر کی عمدہ مثال ہیں جن کے ذریعے وہ اپنے معاشرے اور عام لوگوں کی ترجمانی کرتے رہے۔ رواں اور سادہ طرزِ تحریر کے باعث نقاد اور اپڈائیک کے ہم عصر بھی ان کے معترف نظر آئے۔ ناقدین کے مطابق اپڈائیک نے انگریزی ادب میں روایت اور نام نہاد اصولوں کی پاس داری کرنے کے بجائے متحرک زندگی کا ساتھ دیا اور اسی خوبی کی بنیاد پر صفِ اوّل کے تخلیق کاروں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔

    دورانِ تعلیم جان اپڈائیک ایک مقامی روزنامہ ’’ریڈنگ ایگل‘‘ سے بہ طور کاپی بوائے منسلک ہوگئے۔ یہ ملازمت ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو نکھارنے میں مددگار ثابت ہوئی اور اس عرصے میں ان کا ادبی ذوق اور رجحان خوب پروان چڑھا۔ 1950ء میں اپڈائیک نے ہارورڈ یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا اور انگریزی ادب میں گریجویشن کیا۔ فائن آرٹس میں گہری دل چسپی کے باعث انہوں نے اسکیچ اورکارٹون بنانے کا فن سیکھ لیا تھا۔ اپڈائیک کی حسِ مزاح بھی تیز تھی۔ وہ اپنے فن اور اِسی مہارت کو کام میں لائے اور معاشرتی مسائل اور خامیوں کو طنز و مزاح کے رنگ میں پیش کیا۔ مقامی اخبارات میں ان کے کارٹون شایع ہوئے جو بہت پسند کیے گئے۔ فائن آرٹ میں یہی دل چسپی انہیں آکسفورڈ یونیورسٹی لے گئی جہاں اس کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی۔ اس عرصے میں شارٹ اسٹوریز، اخباری مضامین اور شاعری کا سلسلہ جاری رہا اور ایک قلم کار کی حیثیت سے ان کی پہچان کا سفر شروع ہوگیا۔

    انگلینڈ میں حصولِ تعلیم کے دوران اُن کی ملاقات امریکی قلم کاروں ای بی وہائٹ اور کیتھرائن وہائٹ سے ہوئی جنہوں نے اپڈائیک کی تخلیقات کی ستائش کے بعد ’’نیویارکر‘‘ کے لیے لکھنے کی دعوت دی۔ چند ماہ بعد اپڈائیک امریکا لوٹے اور نیویارکر کے لیے لکھنا شروع کیا۔ اس معروف جریدے میں 1954ء میں پہلی بار ان کی ایک اسٹوری چھپی اور پھر یہ سلسلہ دو سال تک جاری رہا۔ اب اپڈائیک کا فن اور ان کا اسلوب بھی اس دور کی ادبی بیٹھکوں میں زیرِ بحث آنے لگا تھا۔ مطالعہ اپڈائیک کے ذہن کو اجالتا اور فکر لکھنے پر آمادہ کرتی رہی۔ شاعر اور کہانی کار کے بعد وہ ایک نقاد کی حیثیت سے بھی سامنے آئے۔ یہ کمال اور ہمہ جہتی ان کے وسیع مطالعے اور تجزیاتی فکر کا نتیجہ تھی۔

    جان اپڈائیک کی شارٹ اسٹوریز اور ناولوں کا چرچا امریکا اور بیرونِ ملک بھی ہونے لگا تھا۔ قارئین کے ساتھ انگریزی ادب کے ناقدین بھی ان کے کمالِ فن کا اعتراف کرچکے تھے۔ اپڈائیک گویا مقبولیت کے ہفت خواں طے کر رہے تھے، لیکن قارئین کے ذہنوں کے پردے پر ان کے محبوب مصنف کا ابھرنے والا خاکہ ابھی بے رنگ تھا۔ وہ اپڈائیک کے حالاتِ زندگی اور نظریات کی بابت کم جانتے تھے۔ اپڈائیک نے 1989ء میں اپنی خود نوشت لکھ کر اس خاکے میں رنگ بھر دیے۔ طرزِ تحریر ایسا کہ قاری ختم کیے بغیر کتاب چھوڑنا نہ چاہے۔ یوں واقعات کے تسلسل، روانی اور زبان و بیان کی چاشنی کے ساتھ ذات آشنائی کا مرحلہ بھی مکمل ہوا۔

    جان اپڈائیک نے اپنے گردوپیش کے مسائل اور واقعات کو اپنے الفاظ اور اسلوب کا پیراہن عطا کیا اور ان پر کہانیاں بُنیں۔ ان کی تخلیقات متوسط طبقے اور اس کی مجبوریوں پر مصنف کی گرفت اور گہرے مشاہدے کی بہترین مثال ہیں۔

    اپڈائیک مصلحت پسند نہیں رہے اور ہمیشہ اخلاقی جرأت کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے امریکا کے مضافات کی زندگی کے ایسے پہلوؤں پر بات کی جنہیں اُس دور میں ناگفتہ سمجھا جاتا تھا، لیکن انہیں تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ ان کے ناولوں کا موضوع اخلاقی پستی، اقدار کی پامالی اور معاشرتی پیچیدگیوں کے علاوہ جنسی رویّے بھی رہے۔ اس کی ایک مثال ناول Couples ہے جو 1968ء میں منظر عام پر آیا۔ اس ناول کا موضوع بوسٹن اور نواح کی زندگی تھی۔ یہ بیسٹ سیلر ثابت ہوا۔ اسی ناول کے بعد وہ مشہورِ زمانہ امریکی جریدے ’’ٹائم میگزین‘‘ کی کور اسٹوری بنے۔ بعض حلقوں کی جانب سے ان پر نسل پرستی اور زن بیزاری کی تہمت بھی دھری گئی۔ اپڈائیک نے ان الزامات کو مسترد کردیا۔ وہ اپنے نظریۂ ادب اور فلسفے پر ڈٹے رہے۔ ان کا ناول Bech is Back منظرِ عام پر آیا تو ٹائم میگزین نے ایک بار پھر اس پر اسٹوری شایع کی۔ یہ 1983ء کی بات ہے۔

    اپڈائیک کا پہلا ناول Poorhouse Fair تھا اور 1958ء میں نظموں کا پہلا مجموعہ The Carpentered Hen کے نام سے شایع ہوا۔ اس عرصے میں ان کی شارٹ اسٹوریز نیویارکر کا حصّہ بنتی رہیں جو انگریزی ادب کا شاہ کار تسلیم کی جاتی ہیں۔ انھوں نے بعد میں کئی ناول لکھے جو بہت مقبول ہوئے اور انھیں امریکا اور عالمی سطح پر کئی ادبی ایوارڈ سے نوازا گیا۔

    ان کی زندگی کا آخری ناول 2008ء میں منظرِ عام پر آیا اور اگلے برس 27 جنوری کو پھیپھڑوں کے سرطان کے باعث جان اپڈائیک نے زندگی ہار دی۔

    (مترجم: عارف عزیز)

  • ’دی گولڈن نوٹ بک‘ کی خالق نوبل انعام یافتہ ڈورِس لیسنگ کا تذکرہ

    ’دی گولڈن نوٹ بک‘ کی خالق نوبل انعام یافتہ ڈورِس لیسنگ کا تذکرہ

    1962ء میں ’دی گولڈن نوٹ بک‘ منظرِعام پر آیا تو تحریکِ نسواں کے حامیوں نے اِسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ ان کے نزدیک یہ ناول حقوقِ‌ نسواں اور اس حوالے سے بلند ہونے والی ہر آواز کا نمایاں حوالہ ثابت ہوسکتا تھا، لیکن ڈورِس لیسنگ جو اس ناول کی خالق تھیں، اس کے برعکس فکر اور سوچ رکھتی تھیں۔ انھیں 2007ء میں‌ ادب کے نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔

    ناول کی مصنّفہ ‌نے کبھی اپنے معاشرے میں عورتوں کی زندگی میں آنے والی تبدیلی، اور حقوق و آزادی کے حوالے سے ان کی کام یابیوں کو کسی ایسی تحریک اور حقوقِ‌ نسواں‌ کے نعروں کا ثمر نہیں سمجھا۔

    ڈورِس لیسنگ نے 2003ء میں ایک انٹرویو میں کہا تھا: ’’خواتین کی حالت اگر واقعی کچھ بدلی ہے تو حقوقِ نسواں کی تحریک اس کی وجہ نہیں بلکہ یہ سب سائنس اور ٹیکنالوجی کی بدولت ممکن ہوا ہے۔ عورت کی زندگی واشنگ مشین، ویکیوم کلینر اور مانع حمل گولی نے بدلی ہے نہ کہ نعروں نے۔ اِس حوالے سے کمیٹیاں بنانا، اخبارات میں لکھا جانا چاہیے، عوام کے منتخب کردہ افراد کو پارلیمان میں بھیجنا چاہیے جو ایک کٹھن اور سست رفتار عمل ہو گا، لیکن اِسی طرح منزل مل سکتی ہے۔‘‘

    آج ڈورس لیسنگ کا یومِ وفات ہے۔ وہ 2013ء میں چل بسی تھیں۔ زندگی کی 94 بہاریں دیکھنے والی اس مصنّفہ نے اپنی فکر، نظریہ اور تخیلقات کے سبب دنیا بھر میں شہرت حاصل کی۔

    22 اکتوبر 1919ء کو ایران کے شہر کرمان میں مقیم ایک برطانوی فوجی افسر کے گھر جنم لینے والی بچّی کا نام ڈورِس مے ٹیلر رکھا گیا۔ یہ ہندوستان پر برطانوی راج کا زمانہ تھا۔ بعد میں یہ کنبہ ایران سے نقل مکانی کر کے برطانیہ کی ایک افریقی نو آبادی رہوڈیشیا (موجودہ زمبابوے) چلا گیا۔

    ڈورس لیسنگ ایک بیدار مغز خاتون تھیں۔ مطالعے کے سبب وہ غور و فکر کی عادی ہوگئی تھیں اور قوّتِ مشاہدہ نے انھیں حسّاس و باشعور بنا دیا تھا۔ افریقا میں انھوں‌ نے بدترین نسلی امتیاز اور اُس معاشرے میں‌ ہر سطح پر روایتی سوچ اور پستی کا مظاہرہ دیکھا اور وہاں‌ پالیسیوں پر کڑی تنقید کی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انھیں‌ کئی برس تک رہوڈیشیا اور جنوبی افریقا کے سفر کی اجازت نہیں‌ تھی۔

    بیس سال کی عمر میں رہوڈیشیا میں‌ ڈورس لیسنگ نے ایک برطانوی فوجی افسر سے شادی کرلی، جس سے اُن کے دو بچّے ہوئے، لیکن بعد میں جرمنی سے جلاوطن ایک یہودی کی شریکِ سفر بنیں جو رہوڈیشیا میں مقیم تھا۔ یہ تعلق بھی 1949ء تک برقرار رہ سکا۔ ڈورس لیسنگ نے اس سے طلاق لے لی اور اپنے بیٹے پیٹر کے ساتھ انگلینڈ چلی آئیں اور وہیں باقی ماندہ زندگی بسر کی۔

    وہ اپنا پہلا ناول افریقا سے مسوّدے کی شکل میں برطانیہ ساتھ لائیں۔ اس کا نام تھا ’’دا گراس اِز سنگنگ‘‘ جس کی کہانی ایک سفید فام خاتون اور ایک سیاہ فام مرد کے ممنوع تعلق پر بُنی گئی تھی۔ تاہم اُن کا پہلا ناول ’’افریقی المیہ‘‘ 1950ء میں چھپا اور بعد کے برسوں میں ان کی پچاس سے زیادہ کتابیں شایع ہوئیں۔

    چند سال قبل برطانوی انٹیلی جنس ایجنسی ایم آئی فائیو نے اس ناول نگار کے بارے میں خفیہ معلومات جاری کرتے ہوئے بتایا کہ 20 سال تک ان کی کڑی نگرانی کی جاتی رہی۔ کیوں‌ کہ وہ بائیں بازو کے رجحانات رکھنے کے علاوہ نسل پرستی کے خلاف تحریک میں بھی متحرک رہی تھیں۔ اس حوالے سے برطانوی انٹیلی جنس نے 1964ء تک ان کی نگرانی کی تھی۔

    وہ متعدد مرتبہ ادب کے نوبل انعام کے لیے نام زد ہوئیں‌، لیکن اپنی تخلیقات پر کئی بین الاقوامی اعزازات اپنے نام کرنے والی ڈورس لیسنگ کو اس کا سزاوار نہیں سمجھا گیا تھا۔ ان کا ادبی سفر تقریباً چھے عشروں پر محیط رہا جس میں ان کی شخصیت اور ادبی تخلیقات پر افریقا کی گہری چھاپ نظر آتی ہے۔ ’میموائرز آف اے سروائیور‘ اور ’دی سمر بیفور دی ڈارک بھی ان کی مشہور تخلیقات ہیں۔