Tag: ناول نگار

  • جاسوسی ناول نگار ابنِ صفی کی ایک غزل!

    جاسوسی ناول نگار ابنِ صفی کی ایک غزل!

    تقسیمِ ہند کے بعد ہجرت کر کے پاکستان آنے والے والے اسرار احمد کو ان کے قلمی نام ابنِ صفی سے لازوال شہرت نصیب ہوئی۔

    وہ اردو زبان میں‌ جاسوسی ادب تخلیق کرنے کے حوالے سے دنیا بھر میں‌ پہچانے گئے۔ 1952 میں ابنِ صفی کا پہلا ناول دلیر مجرم کے نام سے شایع ہوا تھا۔ فریدی، عمران اور حمید ان کی جاسوسی کہانیوں‌کے مقبول ترین کردار ہیں۔

    ابنِ صفی کی وجہِ شہرت تو جاسوسی ناول نگاری ہے، مگر وہ ایک خوب صورت شاعر بھی تھے۔ غزلوں‌ کے علاوہ انھوں‌ نے فلموں‌ کے لیے گیت بھی تخلیق کیے۔

    معروف گلوکار حبیب ولی محمد نے ان کی ایک غزل گائی تھی جو بہت مشہور ہوئی۔ ابنِ صفی کی یہ غزل آپ کے ذوقِ مطالعہ کی نذر ہے۔

    راہِ طلب  میں   کون  کسی  کا،  اپنے  بھی  بیگانے  ہیں
    چاند سے مکھڑے، رشکِ غزالاں،سب جانے پہچانے ہیں

    تنہائی سی  تنہائی  ہے،  کیسے  کہیں،  کیسے سمجھائیں
    چشم و لب و رخسار کی تہ میں روحوں کے ویرانے ہیں

    اُف یہ تلاشِ حسن و حقیقت، کس جا ٹھہریں، جائیں کہاں
    صحنِ چمن میں پھول کھلے ہیں، صحرا میں دیوانے ہیں

    ہم  کو  سہارے  کیا  راس آئیں، اپنا سہارا ہیں ہم  آپ
    خود ہی صحرا، خود ہی دِوانے، شمع نفس پروانے ہیں

    بالآخر  تھک ہار  کے  یارو! ہم  نے  بھی  تسلیم  کیا
    اپنی ذات سے عشق ہے سچا،  باقی سب  افسانے  ہیں

  • درشن متوا کی جھجک!

    درشن متوا کی جھجک!

    درشن متوا کی ایک مختصر کہانی پڑھیے.

    پڑھے لکھے نوجوان کو کہیں جانا تھا۔ وہ بس کے اڈّے پر بسوں کے بورڈ پڑھتا پھر رہا تھا۔
    بے وقوف کہلانے کے ڈر سے اس نے کسی سے بس کے بارے میں پوچھا نہیں، صرف گھومتا رہا۔
    ایک بس سے دوسری اور دوسری سے تیسری اور چوتھی۔
    ایک اَن پڑھ سا آدمی آیا، اس نے بس میں بیٹھے ہوئے ایک شخص سے پوچھا اور جھٹ سے بیٹھ گیا۔ بس چلنے لگی۔
    پڑھا لکھا نوجوان اب بھی بسوں کے بورڈ پڑھتا ہوا وہیں چکر لگا رہا تھا۔

    جھجک کے عنوان سے یہ کہانی آپ کو یقینا پسند آئی ہو گی. اس کہانی کا موضوع اور بُنت بتاتی ہے کہ مصنف اپنے گرد و پیش اور ماحول سے جڑا ہوا ہے اور اس کا مشاہدہ گہرا ہے. دوسری طرف مختصر نویسی درشن متوا کی بلند تخلیقی قوت کا اظہار ہے۔

    درشن متوا کا شمار پنجابی اور ہندی زبان کے ان قلم کاروں میں ہوتا ہے، جنھوں نے اپنے زرخیز ذہن اور قوتِ متخیلہ سے کام لے کر ان موضوعات کو برتا ہے جو ایک زمانے میں ان کے محلِ نظر تھے۔ درشن متوا نے نہ صرف کئی صفحات پر مشتمل ناول اور دیگر کہانیاں لکھیں بلکہ مختصر نویسی میں بھی ان کو کمال حاصل تھا۔ پیشِ نظر کہانی نہ صرف ایک تعلیم یافتہ فرد اور ایک ان پڑھ کے درمیان اعتماد کے فرق اور شعور کی حالتوں کے مختلف رنگوں کو اجاگر کرتی ہے بلکہ یہ ایک عام رویے کی عکاس ہے۔ اس کہانی میں ایک خاص قسم کے غرور یا کسی کے اپنے پڑھے لکھے ہونے کے بے جا یا غیر ضروری فخر کو نہایت خوب صورتی سے اجاگر کیا گیا ہے. مصنف نے بتایا ہے کہ یہی فخر ایک موقع پر آگے بڑھنے میں‌ یا کسی کام کو انجام دینے میں‌ کیسے رکاوٹ کھڑی کرسکتا ہے اور اکثر اس کے سبب ناکامی مقدر بنتی ہے۔ یہ لفظی منظر کشی بامقصد، دل چسپ اور نہایت پُراثر ہے۔

  • اردو کی مشہورناول نگار بانو قدسیہ کی دوسری برسی

    اردو کی مشہورناول نگار بانو قدسیہ کی دوسری برسی

    اردو ادب کی شاہکار تصنیف ’راجہ گدھ‘ اور دیگر بے شمار لازوال تصانیف کی خالق بانو قدسیہ کی دوسری برسی آج منائی جا رہی ہے‘ داستان سرائے کی اس مکین کے رخصت ہونے سے اردو ادب ایک بے مثال و بے بدل مصنف سے محروم ہوگیا۔

    مشہور ناول نویس، افسانہ نگار اور ڈرامہ نگار بانو قدسیہ 28 نومبر سنہ 1928 کو فیروز پور(بھارت) میں پیدا ہوئی تھیں۔ انہیں بچپن سے ہی کہانیاں لکھنے کا شوق تھا اور پانچویں جماعت سے انہوں نے باقاعدہ لکھنا شروع کردیا بانو قدسیہ نے ایف اے اسلامیہ کالج لاہور جبکہ بی اے کنیئرڈ کالج لاہور سے کیا۔

    سنہ 1950 میں انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے ماسٹرز کیا اورمشہور افسانہ نگاراورڈرامہ نویس اشفاق احمد سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئیں۔ معروف مصنف ممتاز مفتی اپنی تصنیف ’الکھ نگری‘ میں ان کی شادی کا قصہ نہایت دلچسپ انداز میں بیان کرتے ہیں، جس کے مطابق اشفاق احمد کا پٹھان خاندان ایک غیر پٹھان لڑکی سے ان کی شادی پر آمادہ نہیں تھا، اور ان دونوں کا نکاح بانو قدسیہ کے گھر پر نہایت رازداری سے ہوا تھا۔

    شادی کے بعد بانو قدسیہ نے اپنے شوہر کے ہمراہ ادبی پرچہ داستان گو جاری کیا۔

    بانو قدسیہ کا شمار اردو کے اہم افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے، ان کے افسانوی مجموعوں میں ناقابل ذکر، بازگشت، امر بیل، دست بستہ، سامان وجود ، توجہ کی طالب، آتش زیرپا اور کچھ اور نہیں کے نام شامل ہیں۔ انہوں نے کئی ناول بھی تحریر کیے۔ ان کا شہرہ آفاق ناول راجہ گدھ اپنے اسلوب کی وجہ سے اردو کے اہم ناولوں میں شمار ہوتا ہے۔

    ان کی دیگر تصانیف میں ایک دن، شہرلا زوال، پروا، موم کی گلیاں، چہار چمن، دوسرا دروازہ، ہجرتوں کے درمیاں اور ان کی خود نوشت راہ رواں کے نام سر فہرست ہیں۔

    انہوں نے ٹیلی ویژن کے لیے بھی کئی یادگار ڈرامہ سیریلز اور ڈرامہ سیریز تحریر کیے جن کے متعدد مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ حکومت پاکستان نے آپ کو ستارہ امتیاز کا اعزاز عطا کیا ہے۔

    ممتاز مفتی اپنی ایک تحریر میں لکھتے ہیں، ’پہلی مرتبہ میں نے بانو کو اس وقت سنا جب قدسی کے بڑے بیٹے نوکی نے کہا، امی ایڈیٹر صاحب آپ سے ملنے آئے ہیں۔ قدسی ڈرائینگ روم میں چلی گئیں۔

    پھرڈرائنگ روم میں کوئی باتیں کر رہی تھی۔ افسانوں کی باتیں، کرداروں کی باتیں، مرکزی خیال، انداز بیان کی خصوصیات کی باتیں، ان باتوں میں فلسفہ، نفسیات اور جمالیات تھی۔

    میں حیرت سے سن رہا تھا۔ اللہ اندر تو قدسی گئی تھی لیکن یہ باتیں کون کر رہی ہے۔ قدسی نے تو کبھی ایسی باتیں نہیں کیں وہ تو خالی جی ہاں، جی ہاں ہے اگر، مگر، چونکہ، چنانچہ، کون ہے کرتی تھی۔ تب مجھے پتہ چلا بانو کون ہے‘۔

    اپنے ناول راجہ گدھ میں بانو قدسیہ نے ایک کردار پروفیسر سہیل کی زبانی حرام اور حلال کے نظریے کو نہایت انوکھے انداز میں بیان کیا ہے۔ ’جس وقت حرام رزق جسم میں داخل ہوتا ہے وہ انسانی جینز کو متاثر کرتا ہے۔ رزق حرام سے ایک خاص قسم کی میوٹیشن ہوتی ہے جو خطرناک ادویات، شراب اور ریڈی ایشن سے بھی زیادہ مہلک ہے۔ رزق حرام سے جو جینز تغیر پذیر ہوتے ہیں وہ لولے، لنگڑے اور اندھے ہی نہیں ہوتے بلکہ نا امید بھی ہوتے ہیں نسل انسانی سے۔ یہ جب نسل در نسل ہم میں سفر کرتے ہیں تو ان جینز کے اندر ایسی ذہین پراگندگی پیدا ہوتی ہے جس کو ہم پاگل پن کہتے ہیں۔ یقین کر لو رزق حرام سے ہی ہماری آنے والی نسلوں کو پاگل پن وراثت میں ملتا ہے اور جن قوموں میں من حیث القوم رزق حرام کھانے کا لپکا پڑ جاتا ہے وہ من حیث القوم دیوانی ہونے لگتی ہیں۔

    بانو قدسیہ چار فروری کو علالت کے بعد لاہور کے نجی اسپتال میں انتقال کرگئی تھیں‘ جس کے بعد اردو ادب کا ایک اورباب بند ہوگیا۔ انہیں ان کے محبوب شوہر اشفاق احمد کے پہلو میں سپردِ خاک کیا گیا تھا۔

  • منشی پریم چند کو ہم سے بچھڑے 80 سال ہو گئے

    منشی پریم چند کو ہم سے بچھڑے 80 سال ہو گئے

    آج اردو ادب کے معروف افسانہ نگار ، ڈرامہ نگار اور ناول نگار منشی پریم چند کا 80 واں یوم وفات ہے،وہ اردو نثرمیں جدید اور اصلاحی ناول اور افسانہ نگاری  کے موجد کہلائے جاتے ہیں۔

    منشی پریم ۔۔۔ مختصر تعارف

    31 جولائی1880ء کو ضلع وار انسی مرٹھوا کے ’’لمبی‘‘ نامی گاؤں میں پیدا ہونے والے منشی پریم چند کا اصلی نام دھنپت رائے تھا جو اُن کے والد صاھب نے رکھا لیکن اُن کے چچا نے اپنے بھتجے کا نام پریم چند رکھا اور آگے چل کر وہ منشی  پریم چند کے نام سے شہرت کی بلندیوں پر پہنچے۔

    درس و تدریس

    آپ نے ابتدائی تعلیم لائل پور ایک کے مولوی سے حاصل کی،جہاں منشی پریم چند اردو اور فارسی ذبان کے رموز سیکھے اور ادب سے شناسائی حاصل کی اور 1895ء میں گورکھپور سے مڈل کا امتحان پاس کیا اور بعد میں معلم کی حیثیت سے ملازمت اختیار کی اور ۱۸ روپے ماہوار تنخواہ لیا کرتے تھے۔

    بعد ازاں 1899ء میں بنارس میں اسسٹنٹ ٹیچر کی نوکری مل گئی اور 1900ء میں بیرائچ کے گورنمنٹ اسکول میں بہ طور ٹیچر مقرر ہوئے  تقرر ہوا اور الہ آباد میں جا کرآپ نے پہلی مرتبہ سنجیدگی سے لکھنا شروع کیا۔

    1908ء میں جونیئرانگلش ٹیچر کا امتحان پاس کیا اور اسی سال الہ آباد یونیورسٹی سے اردو ہندی کا خصوصی امتحان پاس کیا اور ۱۹۰۹ء میں ترقی پا کر سب انسپکٹر آف سکولز ہو گئے۔

    1919ء میں بی۔اے کیا اور فروری 1920ء میں عدم تعاون کی تحریک کے سلسلے میں ملازمت سے علیحدہ ہوئے اور لکھنؤ میں پہلی مرتبہ انجمن ترقی پسند مصنفین کی صدارت کی۔

    تصنیف اور تالیف 

    منشی پریم چند اپنے ناول ’’نواب رائے‘‘ کے نام سے لکھتے تھے آپ کا پہلا ناول ’’اسرارِ مابعد‘‘ رسالہ آوازِ خلق میں 18؍ اکتوبر1903ء کو شائع ہوا جس نے قبول سند عام حاصل کی جب  دوسرا ناول ’’کیش نا‘‘ کے نام لکھا جواب موجود نہیں۔

    امنشی پریم چند کا پہلا  افسانوں کا مجموعہ ’’سوزِ وطن‘‘ کے نام سے 1908ء میں شائع ہوا جس میں 5 افسانے شامل تھےان افسانوں میں آزادی ، حریت پسندی، غلامی سے نجات اور علم بغاوت بلند کرنے کے موضوعات کو سمیٹا گیا تھا۔

    جس کے باعث ہندوستان پر قابض حکومتِ برطانیہ نے اس افسانوی مجموعے پر پابندی عائد کردی چنانچہ گورکھ پور کی حکومت نے افسانوی مجموعے کی تمام نقول حاصل کر کے جلا دیں اور آئندہ کے لیے سخت پابندی عائد کر دی۔

    اس واقعہ کے بعد سے منشی پریم چند اپنا ادبی نام ’’رائے نواب ‘‘ ترک کر کے اپنے چچا کی جانب سے دیے گئے نام میں منشی کا اضافہ کر کے ’’منشی پریم چند‘‘ اختیار کیا اور تا دم مرگ یہی ادبی نام استعمال کرتے رہے۔

    منشی پریم چند کے مشہور ناول میں اسرار مابعد اور کشانا مشہور افسانوں میں کفن،حج اکبر اور نجات جب کہ معروف کہانیوں میں انمول رتن شامل ہیں۔

    منشی پریم چند نے مریادا،مالا اور مادھوری کے نام سے نکلنے والوں علمی اور ادبی رسالوں کی ادارت کی اور بعد میں ملازمت ترکی کر کے اپنا رسالہ ’’ھنس‘‘ کے نام شائع کیا۔

    افسانوں کے مجموعے 

    ( 1) سوزِوطن(1908ء)، (2) پریم دلچسپی جلد اول (1915ء)، (3) پریم دلچسپی جلد دوم ( 1918ء)، (4) پریم بتیسی (1920ء)، (5) خاکِ پروانہ(1921ء)،(6) خواب وخیال ( 1928ء)، (7) فردوسِ خیال(1929ء)،(8) پریم چالیسی (1930ء)، (9) آخری تحفہ (1934ء)،(۱۰) زادِ راہ (1936ء )۔

     

    طرز تحریر کی نمایاں خصوصیات 

    پریم چند کی افسانہ نگاری کا آغاز بیسویں صدی سے ہو جاتا ہے۔ 19 ویں صدی کی کالونیاں 20 ویں صدی میں کئی نئے ادیبوں سے آشنا ہو گئی تھیں۔

    ایک طرف جہاں اردو شاعری میں اقبال نے ایک نئی جہت اور احتجاجی لہر کا آغاز کیا اور 19 ویں صدی کا معذرت خواہانہ لہجہ آہستہ آہستہ احتجاج میں بدل گیا یہی طرز نثری ادب میں دیکھا گیا اور یوں  جنگِ عظیم اول 1914ء اور انقلاب روس 1917ء نے سامراجی قوتوں کے رعب میں رخنہ ڈال دیا تھا۔

    پریم چند بھی اسی نیم سیاسی اضطراب اور ملک و قوم کی بقاء کے دفاع کے لیے جدو جہد میں گذرے اُس دور سے متاثر ہوئے اور شہرہ آفاق افسانوی مجموعہ  ’’سوزِ وطن‘‘ تخلیق کیا جس نے قوم میں حریت و ہمیت کی نئی روح پھونک دی یہی وجہ ہے کہ برطانوی سامراج کو اس مجموعہ پر پابندی لگانی پڑی۔
    ادب کے ذریعے انقلاب اور معاشرے میں تبدیلی لانے کا تصور پریم چند کی ابتدائی کہانیوں ہی سے سامنے آ گیا تھا اس حوالے سے وہ مقصدی ادب کی ایسی تحریک کا تسلسل تھے جو 1958ء کے بعد سرسید اور ان کے رفقاء کے ہاتھوں شروع ہوئی تھی۔

    آپ کی ابتدائی کہانیوں میں حقیقت نگاری کا پہلو نمایاں رہا ہے اور پریم چند اس نکتہ سے واقف تھے کہ حقیقت نگاری کا محدود تصورفن کو تباہ کر دیتا ہے۔

    جب ہندوستان میں مذہبی داستانیں اور مافوق الفطرت موضوعات عروج پر تھے، آپ نے بین الاقوامی، ملکی ، علاقائی، معاشرتی اور معاشی مسائل پر قلم اٹھایا۔ آپ نے ہندوستان کے دیہی موضوعات سے ساتھ ساتھ متوسط شہری کی زندگی کے مسائل پر بھی لکھا۔

    منشی پریم چند ۔۔۔ نقادوں کی نظر میں

    بقول ڈاکٹر مسعود حسین خان : ’’اس بحث میں پڑے بغیر کہ اردو کا پہلا افسانہ نگار کون ہے۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ اردو کا پہلا اہم اور بڑا افسانہ نگار پریم چند ہے۔ اردو ادب میں یہ ایک ایسا نام ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔‘‘
    بقول شمیم حنفی: ’’پریم چند کہانی کی اوپری سطح پر ہی حقیقت کا التباس قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے نیچے وہ آزادی چاہتے ہیں۔ ‘‘
    بقول سید وقار عظیم: ’’وہ اپنی قوم اور ملک کی ہر اس چیز کو پرستانہ نظروں سے دیکھتے ہیں جو اسے دوسری قوموں سے ممتاز کرتی ہے۔ ‘‘

    ڈاکٹر محمد عالم خان کے مطابق ’’رومانوی ادیب زندگی کی عکاسی ایک مصور کی حیثیت سے کرتاہے جبکہ حقیقت پسند، زندگی کو فوٹو گرافرکی آنکھ سے دیکھتا ہے۔ ‘‘

    بقول ڈاکٹر محمد حسین: ’’انھوں نے ایسے کردار بھی ڈھالے ہیں جو فوق البشر طاقت کے ساتھ زندگی کی ساری راحتوں پر لات مارکر کسانوں اور مظلوموں کے دکھ درد میں شریک ہوتے ہیں۔طعن و تشنیع سے بے پروا ہو کر سماجی خرابیوں سے لڑتے ہیں اور کسی قسم کی ذہنی اور جسمانی ضرب ان کے ماتھے پرشکن نہیں لاسکتی۔

    تاریخ وفات 

    دس افسانوی مجموعوں کے تخلیق کار اور ناول نگاری میں سے ڈارمہ نگاری کے رموز تراشنے والے اردو ادب کے پہلے معروف ناول نگار،افسانہ نگار اور ڈرامہ نگار منشی پریم چند  8 اکتوبر 1936ء کو 56 سال کی عمر میں اس جہان فانی سے کوچ کر گئے لیکن اپنی تحریروں میں وہ آج بھی زندہ ہیں اور علم و ادب کے پیاسوں کو دیراب کر رہے ہیں۔

    (اس مضمون کی تیاری میں محترم خالد محمود صاحب کی تحقیق اور تصنیف سے اُن کے شکریے کے ساتھ فائدہ اُٹھایا گیا ہے)