Tag: ناول

  • جاپانی کافکا اور مورا کامی کی پراسرار دنیا

    جاپانی کافکا اور مورا کامی کی پراسرار دنیا

    آپ اس کہانی سے لطف اندوز  ہوسکتے ہیں، تجسس کے ساتھ ورق پلٹ سکتے ہیں، کچھ جگہ سٹپٹا سکتے ہیں، اور کچھ موقعوں پر مسکرا سکتے ہیں، البتہ 615 صفحات مکمل کرنے کے بعد ، مطمئن ہونے کے باوجود آپ  ان معموں کو حل کرنے سے قاصر رہیں گے، جو ناول نگار نے اپنے قارئین کو پھانسنے کے لیے نصب کیے ہیں۔

    ہاروکی موراکامی نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ اس ناول کی گتھیوں کا حل اِس کی متعدد پڑھت میں پوشیدہ ہے۔

    [bs-quote quote=”ناول میں جو تاریخ، جاپانی اور عالمی ادب اور موسیقی کے حوالے جابہ جا موجود ہیں، وہ چس تو دیتے ہیں مگر۔۔۔ ” style=”style-7″ align=”left”][/bs-quote]

    یہ کوئی حوصلہ افزا  بیان نہیں۔ یہ ایک ضخیم ناول ہے، جسے بار بار پڑھنا دشوار ہے، وہ بھی ایسے میں جب آپ کے سامنے اورحان پامک اور مارکیز کے چند ان چھوئے ناول دھرے ہوں۔

    اگر یہ ممتاز ڈائریکٹر مارٹن اسکورسیز کا شاہ کار” شیلٹر آئی لینڈ “ہو، تو  پھر اِسے سمجھنے کی غرض سے دو تین بار دیکھا جاسکتا ہے کہ فلم کا دورانیہ فقط ڈھائی تین گھنٹے ہوتا ہے، ناول کا معاملہ دیگر ہے۔

    کیا ”کافکا اون دی شور“ کو سمجھنے کی غرض سے بار بار پڑھا جانا چاہیے؟

    اس سبب کہ مورا کامی کا شمار موجودہ عہد کے عظیم فکشن نگاروں ہوتا ہے، اور  قارئین اس کے گرویدہ ہیں، اس سوال کا جواب اثبات میں ہوسکتا ہے، مگر ایک خاص سطح پر اسے سمجھنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔

    راقم الحروف کےنزدیک مصنف خود بھی اس معاملے میں زیادہ سنجیدہ نہیں کہ ان معموں کا کوئی منطقی حل پیش کیا جائے۔

    موراکامی کو پڑھنے سے قبل اُس کی بابت پڑھا۔ اور جو بھی تعارفی اور ہلکے پھلکے تجزیاتی مضامین نظر سے گزرے، اُن میں ان اعتراضات کا ذکر موجود تھا، جو موراکامی کے ہم عصر جاپانی ادیبوں نے شدومد سے اٹھائے۔ اور یہ تھے، موراکامی کے فکشن میں موجود پاپولر لٹریچر کا اثر۔

    موراکامی کے ناولز کے ٹائٹل

    بے شک یہ موجود ہیں۔ جدید زندگی کے رنگ، تجسس، مزاح، میجک رئیل ازم، سررئیلزم،  تاریخ، موسیقی اور ادب کے حوالے اور جنس نگاری۔

    ناول بنیادی طور پر دو کرداروں کے گرد گھومتا ہے، ایک ہے پندرہ سالہ کافکا، جو ناول کے پہلے ہی منظر میں گھر سے بھاگنے کا ارادہ باندھ چکا ہے، اور دوسرا ہے حکومتی خیرات پر گزربسر کرنے والا ایک بوڑھا، جو بلیوں سے باتیں کرنے کا ہنر جانتا ہے۔ اور یہی ہنر اُسے ایک پراسرار شخص کے مدمقابل لے آتا ہے۔ اور یہی وہ موڑ ہے، جہاں نوجوان اور بوڑھے کی کہانیاں مل جاتی ہیں۔

    جوں جوں کہانی آگے بڑھتی ہے، دونوں کردار ایک دوسرے کے قریب آتے جاتے ہیں۔ اِس عمل کو انجام دینے کے لیے ناقابل فہم، اور کہیں کہیں مصنوعی صورت حال کا اہتمام کیا گیا ہے۔ناول میں جو  تاریخ، جاپانی اور عالمی ادب اور موسیقی کے حوالے جابہ جا موجود ہیں،وہ چس تو دیتے ہیں، مگر ان کی پیش کش کا اہتمام ڈھیلا ڈھالا ہے۔

    [bs-quote quote=” ”کافکا آن دی شور“ ایک ایسا ناول ہے، جو پرتجسس ، پرلطف اور دل چسپ ہے۔ اسے پڑھ کر آپ میں مورا کامی کو مزید پڑھنے کی خواہش جگاتی ہے” style=”style-7″ align=”left”][/bs-quote]

    اگر معما حل نہ ہو، تو وہ بے معنی ہے۔ مورا کامی کے اس ضخیم ناول میں معموں کو حل کرنے کا کوئی اہتمام نہیں کیا گیا، بہ ظاہر انھیں قاری کی دل چسپی کو منظر رکھنے کے لیے برتا گیاہے۔ ہاں، کئی علامتیں بامعنی ہیں، اور ایک فکری پس منظر  رکھتی ہیں، مگر تمام نہیں۔

    طلسماتی حقیقت نگاری اپنی جگہ صاحب، مگر ناول کے کردار اور واقعات کہیں کہیں ضرورت سے زیادہ غیرحقیقی معلوم ہوتے ہیں۔کرداروں کو ایک دوسرے سے جوڑنے کے لیے ایک ایسا پل تیار کیا گیا ہے، جو پوری طرح دھند میں لپٹا ہے۔ یہ چیز،ایک ضخیم ناول میں،قارئین کو اکتا سکتی ہے۔

    مجموعی طور پر ”کافکا اون دی شور“ ایک ایسا ناول ہے، جو پرتجسس ، پرلطف اور دل چسپ ہے۔ اسے پڑھ کر آپ میں مورا کامی کو مزید پڑھنے کی خواہش جگاتی ہے،  آپ کو یہ احساس تو نہیں ہوتا کہ آپ نے ایک عظیم ناول نگار کو پڑھا ہے۔ البتہ کامیاب ناول نگار کو پڑھنے کا احساس ضرور ہوتا ہے۔

    یہ ناول ایک ایسا تجربہ ہے، جس سے ادب کے قاری کو ایک بار ضرور گزرنا چاہیے۔ بالخصوص ادیبوں کو، جو مورا کامی سے  ناول نگاری کے فن سے متعلق بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔

  • تبصرہ ناول ’’ڈئیوس، علی اور دیا‘‘ پر

    تبصرہ ناول ’’ڈئیوس، علی اور دیا‘‘ پر

    آمنہ احسن

    یہ ناول ہے نعیم بیگ کا۔ اور یہ کہانی ہے علی کی۔ ایک ambitious ، خواب دیکھنے والا اور ان خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کی صلاحیت رکھنے والے انسان کی۔

    یہ کہانی ہے علی کے زندگی میں آنے والے ان تمام کرداروں کی جنہوں نے علی کی زندگی کو ہر بار ایک نئے موڑ پر لا کر چھوڑ دیا ۔

    یہ کہانی ہے بھر پور زندگی گزارنے والوں کی، یہ کہانی ہے ہر اس شخص کی جو زندگی میں بروقت فیصلے نہیں کر پاتا اور ساری زندگی ان لمحات کو کوستا رہتا ہے، جب منزل نے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا ہو اور وہ زندگی میں اس سے بہتر منزل کی خواہش میں آگے بڑھ گیا ہو۔

    یہ کہانی ہے ایک عام انسان کے ساتھ طاقتور  افراد کے رویے کی، معاشرے میں پھیلے انتشار کی ۔

    یہ کہانی ہے محبت کی، دیوی سے داسی کے سفر کی، معاشرے اور حالات کی تلخی کے ساتھ ساتھ سفر کرتی محبت کی۔

    اگرچہ یہ ایک مشکل کام ہے، انسان یا تلخی بیان کر سکتا ہے یا محبت، لیکن ایک تلخ سفر میں کہیں کہیں محبت کا رنگ بھرنا اور بے حد خوبصورتی سے اسے کہانی کے ساتھ ساتھ لے کر چلنا ایک باکمال لکھاری ہی کے بس کی بات ہے ۔

    یہ ناول شاید قاری کو اس لئے بھی مختلف لگے کہ یہ ناول آج کل کے پاپولر ادب کے طرز پر نہیں لکھا گیا۔ اس کا کوئی کردار پرفیکٹ نہیں۔ ماں باپ کی آنکھ کا تارا، پڑھنے میں سب سے آگے، نیک، دین دار یا بیوی بچوں کی ذمہ داریوں کو بخوبی نبھانے والا جیسا اس ناول میں کوئی کردار نہیں ۔


    مزید پڑھیں: منطق الطیرجدید:عطار کے پرندے اور تارڑ کا عشق


    اس ناول کے کردار کچھ کچھ ہم سب جیسے ہیں۔ غلطیاں کرتے ہیں، زندگی میں آگے بڑھنے کی خواہش لئے کسی لیڈنگ اسٹوری کے پیچھے بھاگتے ہوۓ، محبت کو شدت سے پانے کی خواہش کے باوجود حالات کے آگے سر تسلیم خم کر دینے والے۔

    ہار کر رو پڑنے والے، ہار مان جانے والے اور پھر نئے سرے سے جیت کے لئے پر جوش نظر آنے والے کردار۔

    راقم کے نزدیک چاہے معاشرے کی ہر سختی نے علی کو چنا اور اس کی زندگی کو مزید مشکل کیا، لیکن اس کے باوجود علی کی زندگی کے آخری لمحات کو اس سے بہتر انداز میں پیش کیا جاسکتا تھا۔

    یہ ناول آپ کو کیوں پڑھنا چاہیے؟

    سب سے بڑی وجہ یہ آج کل کے پاپولر ادب سے مختلف ہے۔ بے حد مختلف۔

    دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ ناول ایک نہایت ہی سنجیدہ موضوع پر لکھا گیا ہے، لیکن نعیم بیگ صاحب نے اس میں قاری کی تفریح ایسا سامان رکھا ہے کہ بات قاری تک پہنچ بھی جاتی ہے اور اسے بوریت کا احساس بھی نہیں ستاتا۔

    ایک اور وجہ جس نے اس ناول کی دلچسپی کو بڑھا دیا، وہ ہے اس میں موجود سیاحتی رنگ۔ ناول کے مختلف کردار دنیا کے مختلف کونوں میں سفر کرتے ملیں گے اور اس سفر کی داستان بے حد دل فریب ہے۔

    ناول کا پلاٹ بھی نیا ہے اور انداز بیاں بھی، ممکن ہے اس سے ملتا جلتا کوئی پلاٹ قاری کی نظر سے گزرا ہو، لیکن اس پلاٹ کو بیان کرنے کا انداز مختلف بھی ہے اور دلچسپ بھی۔

    پھر اگر قاری اس ناول کے لکھنے کی وجہ تک پہنچ جاۓ، تو معاشرے میں بڑھتی ناانصافی اور انتشار پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ اور اگر ایسا ہو جاۓ، تو سمجھ لیجئے ادب نے معاشرے کی آبیاری میں اپنا کردار ادا کر دیا ہے۔

  • انگارے: ضخیم روسی ناولز کی یاد تازہ کرنے والا ایک مختصر ناول

    انگارے: ضخیم روسی ناولز کی یاد تازہ کرنے والا ایک مختصر ناول

    عظیم روسی ناولز اس بھولی بسری، ششدر کر دینے والی چیز کو پھر ہمارے سامنے لے آتے ہیں، جو اب ناپید ہوگئی، یعنی طویل گفتگو، مسلسل مکالمے، اور  اطمینان سے کسی کو سننا۔

    ڈاکٹر عمر میمن

    روسی ادب پڑھتے ہوئے اکثر  یوں ہوتا کہ کسی سرائے کے کسی سیلن زدہ کمرے میں ایک کردار دوسرے کردار کو ایک واقعہ سنانے کا اعلان کرتا، مگر جب وہ بات شروع کرتا ہے، تو کسی اور سمت نکل جاتا، اور چلتا چلا جاتا۔

    اور یوں ایک کردار کا جملہ ایک سے دو، دو سے تین صفحات پر پھیلتا چلا جاتا ہے، اور تب کہیں جا کر پہلا کردار اسے ٹوکتا۔

    ایک ایسے ہی تجربے سے ہم 1900 میں ہنگری میں پیدا ہونے والے معروف فکشن نگار شاندور مارئی کے ناول Embers پڑھتے ہوئے گزرتے ہیں، جسے ممتاز مترجم ڈاکٹر عمر میمن نے ’’انگارے‘‘ کے زیرعنوان اردو روپ دیا ہے۔

    موضوع اور کردار

    ناول کا موضوع دو آدمیوں کی دوستی ہے، جو بچپن اور جوانی کے مراحل طے کرنے کے بعد پختہ عمری میں یکدم، عجیب ڈھب سے ٹوٹ جاتی ہے۔

    ناول بنیادی طور پر چار کرداروں جنرل، اس کی بیوی، گھر کی ملازمہ اور ایک دوست کے گرد گھومتا ہے، البتہ مرکزی کردار جنرل ہی ہے، باقی کردار کہانی کو پس منظر فراہم کرتے ہیں۔

    پلاٹ

    شاندور مارئی

    پلاٹ دل چسپ ہے، مرکزی کردار جنرل کو ایک روز اپنے اس دوست کی واپسی کی اطلاع ملتی ہے، جو 41 برس قبل بنا کچھ کہے، کوئی خط چھوڑے، بغیر کسی اشارے کے پراسرار ڈھب پر غائب ہوگیا تھا۔

    اب وہ دوست کونراڈ لوٹا آیا ہے، جنرل اسے عشائیے پر مدعو کرتا ہے،  جو  جلد ہی ایک مقدمے کی شکل اختیار کر لیتا ہے، جس میں جنرل کا دوست ملزم کے طور پر کٹہرے میں کھڑا نظر آتا ہے۔ 

    اس مقدمے میں ہمارا سامنا بار بار ماضی سے ہوتا ہے، جس میں شکار  گاہ میں رونما ہونے والا ایک واقعہ اور  اسی کمرے میں، جہاں وہ دونوں اب موجود ہیں، شام میں ہونے والی ایک بیٹھک کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ 

    جذبہ

    بنیادی طور پر یہ ناول دوستی کے جذبے اور اس میں آنے والے نشیب و فراز کو منظر کرتا ہے، البتہ اس میں رقابت، نفرت اور انتقام جیسے جذبات کو بھی موضوع بنایا گیا ہے۔

    جو احساس ناول پر چھایا ہے، وہ مسلسل انتظار کا احساس ہے، جو برسوں پر محیط تنہائی میں اس نہج پر پہنچ جاتا ہے کہ اپنا اتاؤلا پن اور بے صبری کھو دیتا ہے۔

    اسلوب

    ناول کا بڑا حصہ مکالماتی ہے، بلکہ وہ مکمل مکالمہ بھی نہیں، بلکہ ایک شخص یعنی جنرل کا ماضی کو بازیافت کرنے کا عمل ہے، وہ مکالمہ طویل ہے اور متعدد صفحات پر پھیلا ہے، جس کے بڑے حصے میں دوسرا کردار خاموش رہتا ہے۔

    ناول میں گفتگو کے دوران ماضی کی لہروں کو مہارت کے ساتھ منظر کیا گیا، کہیں کہیں ہمیں فلیش بیک تکنیک بھی ملتی ہے، مگر مجموعی طور پر مکالمہ غالب ہے۔

    قصر کا محل وقوع بیان کرنا، اس کی اندر کی خاموش صورت حال اور منتظر افسردگی کو منظر کرنا مصنف کا کمال تھا۔

    حروف آخر

    کتاب کا قابل تعریف پہلو مترجم کی وہ گرفت ہے، جس کے ذریعے عمر میمن نے نہ صرف وہ سب کچھ منظر کیا، جو اصل مصنف نے لکھا، بلکہ وہ  بھی گرفت میں لے لیا، جو ان کہا تھا۔

    تراکیب وضع کرنے کے کامیاب تجربے کے ذریعے عمر میمن نے اس ناول میں نیا پن پیدا کردیا، جس کی جانب بے بدل فکشن نگار نیر مسعود نے بھی اشارہ کیا۔

    یوں ضخیم روسی ناولز کی یاد دلانے والا یہ ناول قاری کے لیے ایک ایسا دل پذیر تجربہ ثابت ہوتا ہے، جو طویل مکالمہ کے باعث کہیں کہیں اکتاہٹ کو بھی جنم دیتا ہے۔ 

    ناول شہرزاد کراچی نے شایع کیا، اس کی قیمت 180 روپے ہے۔

  • آج اردو کی نام ور افسانہ نگار اورناول نگار قرة العین حیدر کی برسی ہے

    آج اردو کی نام ور افسانہ نگار اورناول نگار قرة العین حیدر کی برسی ہے

    اردو کے افسانہ نگاروں اور ناول نگاروں میں قرة العین حیدر کا مقام بہت بلند ہے۔ وہ مشہور انشا پرداز سید سجاد حیدر بلدرم کی صاحبزادی تھیں ، ان کا ناول’ آگ کا دریا‘ان کی شناخت کا سبب بنا۔

    قرةالعین حیدر 20 جنوری 1926ء کو علی گڑھ میں پیدا ہوئی تھیں۔ بچپن کا زمانہ جزائر انڈمان میں گزارا جہاں ان کے والد ریونیو کمشنر تھے۔ اس کے بعد ڈیرہ دون کانونٹ میں تعلیم حاصل کی اور 1947ء میں لکھنو یونیورسٹی سے انگریزی میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔

    قرة العین حیدر نے تقریباً اسی زمانے میں افسانہ نویسی کا آغاز کیا ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ”ستاروں سے آگے“ تھا، جسے جدید افسانہ کا نقطہ آغاز قرار دیا جاسکتا ہے۔ 1947ء میں وہ پاکستان چلی آئیں جہاں وہ حکومت پاکستان کے شعبہ اطلاعات و فلم سے وابستہ ہو گئیں۔ یہاں ان کے کئی ناول شائع ہوئے جن میں میرے بھی صنم خانے، سفینہ غم دل اور آگ کا دریا قابل ذکر ہیں۔ آخرالذکر ناول کی اشاعت پر پاکستانی پریس نے ان کے خلاف تناسخ کے عقیدے کے پرچار پر بڑی سخت مہم چلائی جس پر وہ واپس ہندوستان چلی گئیں۔

    گارڈن، کراچی۔ تصویر بشکریہ: عقیل عباس جعفری

    ہندوستان جانے کے بعد قرة العین حیدر کے کئی افسانوی مجموعے، ناولٹ اور ناول شائع ہوئے جن میں ہاؤسنگ سوسائٹی، پت جھڑ کی آواز، روشنی کی رفتار، گل گشت، ستیا ہرن ،چائے کے باغ، اگلے جنم موہے بٹیا نہ کیجو، جہانِ دیگر، دل ربا ، گردشِ رنگ چمن اورچاندنی بیگم قابل ذکر ہیں۔ اس کے علاوہ ان کا سوانحی ناول ”کار جہاں دراز ہے“ بھی اشاعت پذیر ہوچکا ہے۔

    سنہ 1989ء میں انہیں حکومت ہندوستان نے گیان پیٹھ ایوارڈ عطا کیا جو ہندوستان کا ایک بہت بڑا ادبی ایوارڈ ہے۔ 2005ء میں حکومت ہند نے انہیں پدم بھوشن کے اعزاز سے سرفراز کیا۔

    قرة العین حیدر نے 21 اگست 2007ء کو دہلی کے نزدیک نوئیڈا کے مقام پر وفات پائی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قبرستان میں آسودہ خاک ہوئیں۔انہوں نے جدید ناول کو کہانی بیان کرنے کا جو انداز دیا اس نے جدید ناول کو کلاسیکی مقام پر پہنچا دیا۔

  • ایلف شفق، عشق اور چالیس اصول (تبصرہ)

    ایلف شفق، عشق اور چالیس اصول (تبصرہ)

    ایلف شفق کا تعلق ترکی کی زرخیز ادبی زمین سے ہے، جس نے دنیائے ادب کو اورحان پامک جیسا نابغہ روزگار نوبیل انعام یافتہ ادیب دیا، جس کے ناول” مائی نیم از ریڈ “کو ماسٹر پیس تصور کیا جاتا ہے۔

    ایلف شفق کے ناول ”دی فورٹی رولز آف لو“ پر تبصرے سے قبل اورحان پاملک، بالخصوص1998 میں شایع ہونے والے ”مائی نیم از ریڈ“ کا تذکرہ بے سبب نہیں کہ اپنی تکنیک کی حد تک ایلف شفق اِس انوکھے ناول سے بے حد متاثر نظر آتی ہیں ۔ اس میں بھی صغیہ واحد متکلم میں کہانی بیان کی گئی ہے۔

    [bs-quote quote=” دی ”فورٹی رولز آف لو‘‘ جس کامعیاری ترجمہ ہماانور نے ”چالیس چراغ عشق کے“ کے زیر عنوان کیا، ایک ایسا ناول ہے، جس کے پس پردہ مطالعہ بھی ہے، تحقیق بھی، تجربہ بھی اور مشقت بھی۔ ورنہ اس ناول کو اتنی مقبولیت نصیب ہونا ممکن نہ تھا” style=”style-2″ align=”left”][/bs-quote]

    البتہ 2009 میں شایع ہونے والے اِس ناول کا موازنہ اورحان پامک کے ماسٹر پیس سے یوں نہیں کیا جاسکتا کہ اورحان نے ایک شاہکار لٹریری ناول لکھا ہے اور ایلف شفق کی تخلیق کے لیے پاپولر ناول کی کیٹیگری زیادہ موزوں ہے۔

    یہاں ایلف کے ناول کو، جس نے ایک بڑے طبقے کو گرویدہ بنا رکھا ہے، پاپولر ٹھہرا کر اس کی حیثیت کم کرنا مقصود نہیں ۔ عالمی ادب کا پاپولر فکشن ہمارے پاپولر فکشن سے نہ صرف کئی دہائیوں آگے ہے، بلکہ اپنا اعتبار بھی قائم کر چکا ہے۔

    دنیا بھر میں پاپولر ادب میں ایسے حیران کن اور دل چسپ تجربات کیے جارہے ہیں کہ پڑھنے والا ششدر رہ جائے۔ چاہے یہ ڈین براﺅن کا ”دی ڈی ونچی کوڈ “ہو، نیوکلس اسپارک کا” نوٹ بک“ یا پاﺅلا ہاوکینز کی” دی گرل آن ٹرین“۔ دی ”فورٹی رولز آف لو‘‘ جس کامعیاری ترجمہ ہماانور نے ”چالیس چراغ عشق کے“ کے زیر عنوان کیا، ایک ایسا ہی ناول ہے، جس کے پس پردہ مطالعہ بھی ہے، تحقیق بھی، تجربہ بھی اور مشقت بھی۔ ورنہ اس ناول کو اتنی مقبولیت نصیب ہونا ممکن نہ تھا۔

    ادب عالیہ کے قارئین اکثر اُن پاپولر ناولز سے متعلق متذبذب دکھائی دیتے ہیں، جنھیں دنیا بھر میں دیوانگی کے ساتھ پڑھا جائے کہ آیا وہ انھیں پڑھیں یا نہ پڑھیں، اس کی ایک بڑی مثال پاﺅلو کوئیلو کا ناول الکیمسٹ ہے۔

    راقم الحروف کو ایلف شفق کے اس مشہور زمانہ ناول سے متعلق یہی الجھن درپیش تھی۔ البتہ اس کے ابتدائی ابواب کے مطالعے کے بعد اندیشے زائل ہوئے، اور اس کا دل پذیر موضوع اور ایلف کی تکنیک غالب آگئی۔

    ناول میں شمس تبریز اورمولانا رومی کے بے بدل تعلق کو عشق کے چالیس اصولوں میں گوندھ کر پیش کیا گیا ہے۔ کتاب میں شمس اور مولانا رومی کی کہانی کے ساتھ ساتھ عہد حاضر کا ایک پلاٹ بھی چل رہا ہے، جس میں مرکزی کردار ایلا ایک غیر معروف ادیب اے زی ظہارا کا رومی اور شمس سے متعلق تحریر کردہ ناول پڑھ رہی ہے۔ ہمارے سامنے مرکزی کردار کے زیر مطالعہ ناول ہی کے ابواب وقفے وقفے سے آتے ہیں۔

    اپنی پراثر تکنیک، دل پذیر موضوع اور بے پناہ مقبولیت کے باعث اگر قاری کو اِسے پڑھنے یا چھوڑ دینے کے مابین فیصلہ کرنا ہو، تو موزوں یہی ہے کہ اسے پڑھ لیا جائے۔ قاری کو، بالخصوص مشرقی اور اسلامی پس منظر رکھنے والے قاری کو قطعی مایوسی نہیں ہوگی۔

    اگر ادب عالیہ پڑھنے والے کئی سنجیدہ قلم کارخود کو اس کا گرویدہ پاتے ہیں، تو یہ بے سبب نہیں۔ ایک جانب جہاں یہ اردو پاپولر ناولز میں مذہبی، اساطیری اور جذباتی علامتوں کے بے دریغ استعمال سے پاک ہے، وہی یہ تصوف کے چند لطیف احساسات کو کامیابی سے بیان کرنے کا مرحلہ بھی طے کر گیا ہے۔


    دنیا میں‌ سب سے زیادہ پڑھی جانے والی دس کتب


  • کتاب کو کھولے بغیر پڑھنا ممکن

    کتاب کو کھولے بغیر پڑھنا ممکن

    کیا آپ نے کبھی تصور کیا ہے کہ کسی کتاب کو بغیر چھوئے پڑھا جاسکے؟ کتاب کو پڑھنے کے لیے اسے چھونا اور کھولنا ضروری ہے۔ چھوئے اور کھولے بغیر اسے پڑھنا صرف جادوئی فلموں میں ہی ممکن ہے۔ لیکن اب یہ جادوئی تصور حقیقت بننے جارہا ہے۔

    امریکا کی میسا چوسٹس یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے ایسی ٹیکنالوجی تخلیق کرلی ہے جس کی مدد سے کتاب کو کھولے بغیر اس کے اندر لکھے ہوئے لفظ آپ کے سامنے آجائیں گے۔

    اس ٹیکنالوجی میں ٹیراہرٹز شعاعوں کے ذریعہ کتاب کے اندر لکھے الفاظ کی تصویر کشی کی جائے گی اور یہ الفاظ ایک علیحدہ کاغذ پر آپ کے سامنے لکھے ہوئے آجائیں گے۔

    جادوئی کتاب: پڑھنے کے لیے حل کرنا ضروری *

    ٹیراہرٹز شعاعیں ایکس ریز سے مختلف ہوتی ہیں اور یہ لکھے ہوئے لفظ اور سادہ کاغذ میں فرق کر سکتی ہیں۔

    اس ٹیکنالوجی میں میوزیم کے مالکان نے بے حد دلچسپی ظاہر کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر یہ ٹیکنالوجی کامیابی سے استعمال کے قابل قرار دے دی جاتی ہے تو انہیں ان قدیم اور تاریخی کتابوں کو پڑھنے میں آسانی ہوگی جو نہایت خستہ ہیں اور خستگی کی وجہ سے ان پر لکھے ہوئے لفظ پڑھے نہیں جاسکتے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ٹیکنالوجی کاغذ کے علاوہ مختلف اقسام کی اشیا پر لکھی گئی تحاریر کو بھی پڑھ سکے گی۔

  • کتابیں پڑھنے سے عمر بڑھتی ہے، تحقیق

    کتابیں پڑھنے سے عمر بڑھتی ہے، تحقیق

    نیویارک: امریکا میں کی جانے والی تحقیق کےمطابق روزانہ صرف آدھا گھنٹے کا مطالعہ آپ کی زندگی میں کئی برس کا اضافہ کرسکتاہے.

    تفصیلات کے مطابق امریکا میں ییل یونیورسٹی کے ماہرین کے12سالہ طویل مطالعے میں پچاس سال سے زائد عمر کے تین ہزار سےافراد کو شامل کیا گیا.

    مطالعےسے معلوم ہوا کہ ہفتے میں ساڑھے تین گھنٹے تک کتاب کا مطالعہ کرنے والے افراد میں اس دوران موت کا خطرہ 23 فیصد تک کم ہوگیا.

    ماہرین کے اس مطالعے میں شامل افراد سے ان کی صحت اورمطالعے کی عادت کے بارے میں بھی پوچھا گیا اور لوگوں کو تین گروپس میں تقسیم کیا گیا.

    پہلا گروہ وہ مطالعہ نہیں کرتا تھا،دوسرے گروہ میں ہفتے میں ساڑھے 3 گھنٹے تک مطالعہ کرنے والے لوگ اور تیسرے گروہ میں اس سے زیادہ وقت تک پڑھنے والے رضاکار شامل تھے جب کہ زیادہ مطالعہ کرنے والوں میں خواتین سرِ فہرست تھیں.

    تحیق میں انکشاف ہوا کہ جن افراد نے ہفتے میں ساڑھے 3 گھنٹے مطالعے میں گزارے وہ کتاب نہ پڑھنے والوں کے مقابلے میں 23 ماہ یعنی 2 سال زیادہ زندہ رہے.

    ماہرین کے مطابق ناول کی جگہ اخبارات،رسائل اور جرائد پڑھنے والوں پر بھی اس کا اثر ہوتا ہے لیکن اتنا زیادہ مضبوط نہیں ہوتا،ماہرین کا کہنا ہے کہ روزانہ نصف گھنٹہ تک کتاب پڑھنے سے عمر بڑھ سکتی ہے.

  • بالی ووڈ اداکارہ فلم’نور‘میں صحافی کا کردار نبھائیں گی

    بالی ووڈ اداکارہ فلم’نور‘میں صحافی کا کردار نبھائیں گی

    ممبئی: بالی وڈ اداکارہ سوناکشی سنہا پاکستانی مصنف صبا امتیاز کے ناول ’کراچی یو آر کلنگ می‘ پر بننے والی فلم ’نور‘ میں نظر آئیں گی.

    تفصیلات کے مطابق بالی ووڈ اداکارہ سوناکشی سنہا ناول ’کراچی یو آر کلنگ می‘ پربننے والی فلم میں ایک صحافی ’نور‘ کا کردار کرتی نظر آئیں گی،اداکارہ نے حال ہی میں سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئیٹر پر ایک تصویر اپنے مداحوں کے ساتھ شیئر کی جس میں انہوں نے فلم میں استعمال کی جانے والی اپنی جیولری دکھائی.

    کراچی یو آر کلنگ می‘ صبا امتیاز کا پہلا ناول ہے جو 2014 میں شائع ہوا تھا،اس ناول کی مرکزی کردار عائشہ نامی ایک صحافی ہے جو کراچی میں رہتی ہے اور ایک انگریزی اخبار میں ملازمت کرتی ہے.

    s-post-1

    یاد رہے کہ گزشتہ ماہ سوناکشی نے اپنی سالگرہ کے موقع پر اپنی فلم ’نور‘ کا ایک ٹیزر بھی شیئر کیا تھا جسے مداحوں نے بے حد پسند کیا تھا.

    ڈائریکٹر سنہل سپی کی ہدایت میں بننے والی فلم ممبئی میں مقیم بیس سالہ صحافی نور روئے چوہدری پر بنائی جارہی ہے جس میں سوناکشی مرکزی کردار کرتی نظر آئیں گی.

    s-post-2

    واضح رہے کہ بالی ووڈ اداکارہ سوناکشی سنہا اس وقت اپنی فلم ’اکیرہ‘ میں مصروف ہیں جو رواں سال 2 ستمبر کو سنیما گھروں میں پیش کی جائے گی.