Tag: نایاب

  • خانہ کعبہ کی چھت پر لگا دنیا کا نایاب ترین سنگ مرمر، خاص بات کیا ہے؟

    خانہ کعبہ کی چھت پر لگا دنیا کا نایاب ترین سنگ مرمر، خاص بات کیا ہے؟

    یوں تو مسجد الحرام میں ہر جگہ سنگ مرمر لگا ہوا ہے لیکن خانہ کعبہ کی چھت پر دنیا کا نایاب ترین سنگ مرمر لگایا گیا ہے۔

    مکہ مکرمہ میں واقع مسلمانوں کے سب سے مقدس مقام مسجد الحرام میں یوں تو بڑے پیمانے پر سنگ مرمر استعمال کیا گیا ہے لیکن خانہ کعبہ کی چھت پر استعمال کیا جانے والا سنگ مرمر دنیا کا نایاب ترین سنگ مرمر ہے۔

    سعودی خبر رساں ایجنسی ’ایس پی اے‘ کے مطابق خانہ کعبہ کی چھت 145 مربع میٹر ہے جس کی تیاری میں انتہائی نادر و نایاب قسم کا سنگِ مرمر استعمال کیا گیا ہے جو دن میں ٹھنڈک کا احساس دلاتا ہے۔

    رپورٹ کے مطابق چھت پر نصب سنگِ مرمر دنیا کا نایاب ترین پتھر ہے جس کی خاصیت یہ ہے کہ رات کو یہ رطوبت کو جذب کر لیتا ہے اور دن کو جب سورج کی تپش ہوتی ہے تو یہ رات کو جذب کی ہوئی رطوبت کو رفتہ رفتہ خارج کرتا ہے جس کی وجہ سے چھت اور کعبے کے اندر کا ماحول گرم نہیں ہوتا۔

    خانہ کعبہ کی چھت سے لے کر ستون اور دیواروں کی تعمیر انتہائی منفرد انداز میں کی گئی ہے۔

  • ساڑھے 4 ہزار روپے کا چمچ، جس نے خریدار کو لکھ پتی بنا دیا

    ساڑھے 4 ہزار روپے کا چمچ، جس نے خریدار کو لکھ پتی بنا دیا

    لندن: برطانیہ میں اکیا کے اسٹور سے خریدے گئے 20 پاؤنڈز یعنی لگ بھگ ساڑھے 4 ہزار روپے کے قدیم چمچ نے خریدار کو لکھ پتی بنا دیا۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق فرنیچر اور گھریلو سامان کی خرید و فروخت کے بڑے اسٹور اکیا سے خریدے گئے 20 پاؤنڈ کے پرانے چمچ نے خریدار کی قسمت کو چارچاند لگا دیے۔

    مذکورہ چمچ نایاب اور پرانی اشیا کی شناخت کے ایک شخص نے اکیا اسٹور میں دیکھا تھا جو تیرہویں صدی کا ہے۔

    اسٹور میں چمچ کی قیمت 20 پاؤنڈ تھی جس کو جوہر شناس گاہک نے خرید کر نمائش میں فروخت کے لیے لگا دیا، چمچ چاندی کا بنا ہوا ہے اور اس کی ابتدائی قیمت کا اندازہ 500 پاؤنڈز لگایا گیا تھا۔

    چمچ کا ہینڈل 5 انچ کا ہے اور اسے رومن طرز پر بنایا گیا ہے، چمچ کی آخری بولی 1900 پاؤنڈز بمعہ فیس لگائی گئی جو کہ قیمت خرید سے کہیں زیادہ ہے۔

    نمائش کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ چمچ کو زیر زمین دبا دیا گیا تھا اور جس نے بھی اسے اسٹور پر فروخت کے لیے رکھا اسے نایاب اشیا کی شناخت نہیں تھی۔

    منتظمین کا کہنا ہے کہ نمائش میں بھیجنے والے شخص کو بھی اس کی زیادہ شناخت نہیں تھی لیکن یہ چمچ جیسے ہی ہمارے پاس پہنچا ہم نے پہچان لیا کے یہ نایاب اور انتہائی قیمتی ہے۔

  • قوس قزح جیسے رنگوں والا سانپ، دیکھنے والے حیران

    قوس قزح جیسے رنگوں والا سانپ، دیکھنے والے حیران

    دنیا میں کئی جاندار ایسے ہیں جن کی ظاہری خوبصورتی یا خصوصیات دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے، ایسے ہی ایک سانپ کی ویڈیو آج کل سوشل میڈیا پر وائرل ہورہی ہے۔

    یہ ویڈیو سماجی رابطے کی ویب سائٹ انسٹاگرام پر پوسٹ کی گئی ہے جسے جے بریور نامی ایک شخص نے پوسٹ کیا ہے۔ جے امریکی ریاست کیلی فورنیا میں ریپٹائل زو کا بانی ہے۔

    ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ وہ ایک ڈبے میں ایک نہایت نایاب سانپ کے ساتھ موجود ہے۔ سورج کی شعاعیں جب سانپ پر پڑتی ہیں تو سانپ کی جلد قوس قزح کے رنگوں جیسی ہوجاتی ہے۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by Jay Brewer (@jayprehistoricpets)

    یہ سانپ رینبو ریٹی کیولیٹڈ پائتھون کہلاتے ہیں اور یہ دنیا کے سب سے وزنی سانپ ہوتے ہیں۔ گو کہ یہ زہریلے نہیں ہوتے لیکن اپنے شکار کے گرد لپٹ کر اپنے وزن کے باعث اسے ہلاک کر ڈالتے ہیں۔

    کئی افراد اسے گھر میں بھی پالتے ہیں لیکن اس کے لیے سانپوں کے بارے میں مکمل معلومات رکھنا ضروری ہے۔

    جے بریور کی اس ویڈیو کو انسٹاگرام پر 70 لاکھ سے زائد افراد دیکھ چکے ہیں۔

  • بغیر دھاریوں والا انوکھا زیبرا

    بغیر دھاریوں والا انوکھا زیبرا

    دھاری دار جسم کا حامل زیبرا براعظم افریقہ میں پایا جاتا ہے، حال ہی میں ایک انوکھے زیبرا کو کیمرے نے عکسبند کیا جسے دیکھ کر ماہرین خوشگوار حیرت میں پڑ گئے۔

    کینیا کے ایک ریزرو میں دیکھا جانے والا یہ ننھا زیبرا اپنے خاندان کے دیگر زیبروں سے کچھ مختلف ہے۔ اس کے جسم پر سیاہ و سفید دھاریوں کے بجائے سفید دھبے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق زیبرے کے جسم کی یہ انفرادیت ایک نایاب جینیاتی بگاڑ میلینزم کی وجہ سے ہے۔

    ہم دیکھتے ہیں کہ انسانوں میں البانزم (یا برص) کا مرض موجود ہوتا ہے۔ یہ مرض انسانوں کے ساتھ ساتھ جانوروں کو بھی لاحق ہوجاتا ہے۔ اس مرض میں جسم کو رنگ دینے والے عناصر جنہیں پگمنٹس کہا جاتا ہے کم ہوجاتے ہیں، جس کے بعد جسم کا قدرتی رنگ بہت ہلکا ہوجاتا ہے۔

    اس مرض کا شکار انسان یا جانور سفید رنگت کے حامل ہوتے ہیں۔

    اس کے برعکس میلینزم میں رنگ دینے والے پگمنٹس نہایت فعال ہوتے ہیں جس کے باعث یا تو جسم پر گہرے یا سیاہ رنگ کے دھبے پڑجاتے ہیں، یا پھر پورا جسم سیاہ ہوجاتا ہے۔

    البانزم کی نسبت میلینزم نایاب ترین مرض ہے اور اس کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ زیبرا اس بگاڑ کے باعث نہایت انفرادیت کا حامل ہے اور یہ اس طرح کا، اب تک دیکھا جانے والا واحد زیبرا ہے۔

  • انوکھا سیاہ پینگوئن

    انوکھا سیاہ پینگوئن

    آپ نے اب تک سیاہ و سفید معصوم سے پینگوئن دیکھے ہوں گے، لیکن کیا آپ نے مکمل طور پر سیاہ پینگوئن دیکھا ہے؟

    ماہرین نے پہلی بار مکمل طور پر ایک سیاہ پینگوئن دیکھا ہے جسے اپنی نوعیت کا نایاب ترین پینگوئن کہا جارہا ہے۔ اس بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ پینگوئن ایک نایاب جینیاتی بگاڑ میلینزم کا شکار ہے۔

    ہم دیکھتے ہیں کہ انسانوں میں البانزم (یا برص) کا مرض موجود ہوتا ہے۔ یہ مرض انسانوں کے ساتھ ساتھ جانوروں کو بھی لاحق ہوجاتا ہے۔ اس مرض میں جسم کو رنگ دینے والے عناصر جنہیں پگمنٹس کہا جاتا ہے کم ہوجاتے ہیں، جس کے بعد جسم کا قدرتی رنگ بہت ہلکا ہوجاتا ہے۔

    اس مرض کا شکار انسان یا جانور سفید رنگت کے حامل ہوتے ہیں۔

    اس کے برعکس میلینزم میں رنگ دینے والے پگمنٹس نہایت فعال ہوتے ہیں جس کے باعث یا تو جسم پر گہرے یا سیاہ رنگ کے دھبے پڑجاتے ہیں، یا پھر پورا جسم سیاہ ہوجاتا ہے۔

    البانزم کی نسبت میلینزم نایاب ترین مرض ہے اور اس کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ میلینزم کی وجہ سے پینگوئن کے پر تقریباً سیاہ ہوچکے ہیں۔

    یہ پہلی بار ہے جب ایک مکمل سیاہ پینگوئن کو کیمرے کی آنکھ میں قید کیا گیا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے جانوروں کا منفرد رنگ انہیں اپنے ساتھیوں میں منفرد بنا دیتا ہے اور وہ شکاریوں کی نظر میں آسکتے ہیں۔ یہ پینگوئن خوش قسمت ہے جو شکاریوں سے بچ کر بلوغت کی عمر تک پہنچنے میں کامیاب رہا۔

  • دنیا کے نایاب ترین پرندے کی تعداد میں دگنا اضافہ

    دنیا کے نایاب ترین پرندے کی تعداد میں دگنا اضافہ

    رواں برس نیوزی لینڈ کے نایاب ترین پرندے پراکیٹ کی افزائش نسل میں حیران کن اضافہ دیکھا گیا جس کے بعد ماہرین کی ان کو لاحق خطرات کے حوالے سے پریشانی کم ہوگئی۔

    نیوزی لینڈ میں پایا جانے والا یہ پرندہ جسے مقامی زبان میں کاکاریکی کاراکا کہا جاتا ہے، ہمارے یہاں موجود آسٹریلن چڑیاؤں سے ملتا جلتا ہے۔

    یہ پرندہ صرف نیوزی لینڈ میں پایا جاتا ہے اور کچھ عرصے قبل اسے پورے ملک میں دیکھا جاتا رہا، تاہم گزشتہ صدی کے دوران اس پرندے کی آبادی میں خطرناک کمی واقع ہوئی۔

    سنہ 1993 میں انہیں معدوم سمجھ لیا گیا تاہم اس کے بعد اکا دکا پرندے نظر آئے جس کے بعد اس پرندے کو بچانے کی کوششیں شروع کردی گئیں۔

    رواں برس اس پرندے کی افزائش نسل میں بے حد اضافہ دیکھنے میں آیا، ماہرین کے مطابق اس سیزن میں 150 نئے پرندوں نے جنم لیا اور اب کچھ عرصے بعد افزائش نسل کے قابل پرندوں کی تعداد دگنی ہوجائے گی۔

    ماہرین نے جنگلات میں اس پرندے کے 31 نئے گھونسلے دیکھے اور یہ پچھلے ایک دو سال میں بنائے جانے والے گھونسلوں سے 3 گنا زیادہ ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ان پرندوں کو درختوں میں کمی کے ساتھ ساتھ دیگر شکاری جانوروں سے بھی خطرہ ہے۔ جنگلوں میں پھرتے چوہے اور جنگلی بلیاں ان پرندوں کو اپنی خوراک بنالیتی ہیں۔

    اب انہیں امید ہے کہ اگر ان پرندوں کی افزائش نسل کی شرح یہی رہی تو یہ خوبصورت پرندہ پھر سے پورے نیوزی لینڈ میں دیکھا جاسکے گا۔