Tag: نایاب جانور

  • قراقرم ماؤنٹین رینج میں نایاب جانور اور 3 بلند ترین جھیلوں کی دریافت کا دعویٰ

    قراقرم ماؤنٹین رینج میں نایاب جانور اور 3 بلند ترین جھیلوں کی دریافت کا دعویٰ

    گلگت: پاکستان 5 ہزار میٹر سے زاید بلند ترین جھیلوں والے ممالک کی فہرست میں شامل ہو گیا ہے، کوہ پیما عمر احسن نے قراقرم ماؤنٹین رینج میں تین جھیلوں کی دریافت کا دعویٰ کر دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق کوہِ پیما عمر احسن نے شمشال میں ملکی بلند ترین جھیل دریافت کرنے کا دعویٰ کیا ہے، عمر احسن نے قراقرم ماؤنٹین رینج میں نئی چوٹی، نایاب جانور اور 3 بلند ترین جھیل موجود ہونے کا بھی دعویٰ کیا۔

    عمر احسن کا تعلق کراچی سے ہے، قومی ہیرو ایم ایم عالم کے بھانجے ہیں، عمر احسن نے کہا ہے کہ وہ جلد ویڈیوز اور تصاویر پر مشتمل ثبوت عالمی اداروں کو فراہم کر دیں گے۔

    کوہِ پیما کا کہنا ہے کہ شمشال کی جھیل سطح سمندر سے 17077 فٹ کی بلندی پر ہے، اس جھیل کا نام قومی ہیرو ایم ایم عالم کے نام سے منسوب کر دیا ہے۔

    انھوں نے کہا کہ دوسری جھیل 16398 فٹ بلندی پر ہے جس کا نام لالک جان شہید رکھا ہے، جب کہ تیسری جھیل 15990 فٹ بلندی پر ہے اور اس کا نام عمر احسن جھیل رکھ دیا ہے۔

    کوہِ پیما نے مزید کہا کہ نایاب جنگلی حیات ویزل بھی اسی علاقے میں دریافت کی ہے، ویزل امریکا میں پائی جاتی ہے۔

    عمر احسن نے بتایا کہ غزریب ماؤنٹین رینج میں نیا بلند پہاڑ بھی دریافت کیا ہے جس کا نام ویزل پیک رکھا۔ خیال رہے کہ کوہ پیما نے پہلی بار 5100 میٹر بلندی پر بغیر آکسیجن کے رات گزاری۔

  • عمرکوٹ: رینجرز نے نایاب نسل کے ہرن کی اسمگلنگ ناکام بنا دی

    عمرکوٹ: رینجرز نے نایاب نسل کے ہرن کی اسمگلنگ ناکام بنا دی

    عمر کوٹ: سندھ کے ضلعے عمر کوٹ میں رینجرز نے نایاب نسل کے ہرن کی اسمگلنگ کی کوشش نا کام بنا دی۔

    تفصیلات کے مطابق رینجرز نے عمر کوٹ میں دو نایاب نسل کے ہرنوں کی اسمگلنگ کی کوشش نا کام بنا دی، ملزمان گوسٹرو رینجرز چیک پوسٹ پر اہل کاروں کو دیکھ کر گاڑی چھوڑ کر فرار ہو گئے۔

    دوران تلاشی گاڑی سے 2 نایاب نسل کے ہرن اور ایک ریپیٹر برآمد ہوا، رینجرز نے برآمد ہونے والے ہرن محکمہ وائلڈ لائف کے حوالے کر دیے۔

    رینجرز ذرایع کا کہنا ہے کہ فرار ہونے والے ملزمان کا تعلق تھر کے گاؤں باڑان سے ہے۔ خیال رہے کہ تھر میں نایاب ہرنوں کا شکار اور اسمگلنگ ایک عرصے سے جاری ہے۔

    یہ بھی پڑھیں:  تھر: بھوک پیاس کے مارے ہرنوں کا شکار، گوشت فروخت کیے جانے کا انکشاف

    یاد رہے کہ گزشتہ ماہ سندھ کے ایک تعلقے ڈاہلی میں نایاب ہرنوں کو ذبح کر کے اس کا گوشت فروخت کرنے کا انکشاف ہوا تھا، تھر میں ہرن ایک طرف بھوک پیاس کا شکار ہیں دوسری طرف شکاریوں کا بھی آسان ہدف بن گئے ہیں۔

    اس سلسلے میں ویڈیو بھی وائرل ہوئی تھی، جس میں تھر میں ایک نایاب ہرن کو گولی مار کر گرتے ہوئے دیکھا گیا، وائلڈ لائف افسر اشفاق میمن کا کہنا تھا کہ نایاب ہرنوں کے شکار کی خبریں زیادہ تر عمر کوٹ کے سرحدی علاقوں کی ہیں۔

    واضح رہے کہ تھر کی خوب صورتی میں اضافہ کرنے والے نایاب ہرن ہزاروں کی تعداد میں پائے جاتے تھے لیکن اب یہ بہت کم تعداد میں نظر آنے لگے ہیں، جس کی وجہ عمر کوٹ کے صحرائے تھر سے لگنی والی بھارتی سرحد کی نزدیکی گوٹھوں میں اس کا بے دریغ شکار ہے جس پر محکمہ وائلڈ لائف نے بھی خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔

  • نایاب نسل کی ٹیرنٹولا مکڑیاں اسمگل کرنے کی کوشش نا کام

    نایاب نسل کی ٹیرنٹولا مکڑیاں اسمگل کرنے کی کوشش نا کام

    اسلام آباد: نیو اسلام آباد ایئر پورٹ پر محکمہ کسٹمز نے کارروائی کرتے ہوئے نایاب نسل کی ٹیرنٹولا مکڑیاں اسمگل کرنے کی کوشش نا کام بنا دی۔

    تفصیلات کے مطابق نیو اسلام آباد ایئر پورٹ پر محکمۂ کسٹمز نے کارروائی کرتے ہوئے مسافر کے سامان سے لاکھوں مالیت کی 2 نایاب نسل کی مکڑیاں برآمد کر لیں۔

    ذرایع نے بتایا کہ عثمان خان ایمریٹس ایئر لائن کی پرواز ای کے 614 کے ذریعے دبئی سے اسلام آباد پہنچا تھا۔

    ذرایع کا کہنا ہے کہ مسافرعثمان خان پشاور کا رہائشی ہے، اس نے ٹیرنٹولا مکڑیاں چین سے خریدی تھیں، یہ مکڑیاں کینسر کے مرض کی ادویات میں استعمال ہوتی ہیں۔

    یہ بھی پڑھیں:  اس معصوم سی مکڑی کو دیکھ کر مکڑیوں سے آپ کا خوف ختم ہوجائے گا

    مسافر سے پکڑی گئی نایاب نسل کی مکڑیاں محکمہ وائلڈ لائف کے حوالے کی جائیں گی۔

    خیال رہے کہ ٹیرنٹولا مکڑیوں کا زہر مختلف اقسام کے سرطان اور مرگی کی چند خطرناک صورتوں میں مفید خیال کیا جاتا ہے۔

    یہ بھی پڑھیں:  قرآنی آیات کی آڑ میں ہیروئن اسمگلنگ کے مکروہ کاروبار کا انکشاف

    ٹیرنٹولا کی چند اقسام کی دنیا بھر میں غیر قانونی تجارت عام ہے، حال ہی میں فلپائن کے کسٹم حکام نے پولینڈ سے ایک گفٹ باکس میں اسمگل ہونے والی سیکڑوں زندہ ٹیرنٹولا مکڑیاں پکڑی تھیں۔

  • پاکستان کا نایاب قومی جانور مارخور شکاریوں کے نرغے میں

    پاکستان کا نایاب قومی جانور مارخور شکاریوں کے نرغے میں

     ملکی و غیر ملکی شکاریوں نے پاکستان کے قومی جانور مارخور کے شکار کے لیے گلگت بلتستان اور کشمیر کا رخ کر لیا، شکاریوں کے نرغے میں مارخور معدومی کے خطرے سے دوچار ہو گیا ہے۔

    پاکستان میں پہاڑی بکری کی نہایت قیمتی نسل مارخور کو قانونی طور پر بھی شکار کیا جاتا ہے، جس کے لیے نومبر سے لے کر اپریل کے مہینے تک قانونی شکار کا موسم چلتا ہے، تاہم اس دوران غیر قانونی شکار بھی جاری رہتا ہے۔

    [bs-quote quote=”شکاریوں کی شدید خواہش ہوتی ہے کہ اپنی زندگی میں کم از کم ایک مارخور شکار کرنے کا اعزاز ضرور حاصل کریں۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    پاکستان میں دیگر نایاب اور قیمتی پرندوں کا بھی باقاعدہ شکار کیا جاتا ہے، اور اس کے لیے فیسیں مقرر ہیں تاہم مارخور اس حوالے سے سرِ فہرست ہے کہ اس کے شکار کی فیس ایک لاکھ ڈالر ہے، جس کے لائسنس کے لیے مقامی اور غیر ملکی شکاری بولی دیتے ہیں۔

    مارخور کے شکار کے لیے بولی گلگت بلتستان کے وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ کے دفتر میں منعقد کی جاتی ہے، جہاں جنگلی حیات اور ماحولیات کے شعبے کے وزرا اور حکام بھی موجود ہوتے ہیں، ہر سال ایک سروے کے بعد ٹرافی شکار کے لیے کوٹا بھی مقرر کیا جاتا ہے۔ مارخور کے شکار کے لیے ٹرافی ہنٹنگ پروگرام کا آغاز 1980 کی دہائی میں ہوا۔

    شکاریوں کے نزدیک اچھا وقت دسمبر کے مہینے کا ہوتا ہے، کیوں کہ جنوری، فروری اور مارچ میں موسم کے تغیر کے باعث شکار میں ناکامی ہوسکتی ہے، تاہم اپریل میں برف پگھلنے کے بعد سبز گھاس اگتی ہے تو مارخور پہاڑوں سے خوراک کی تلاش میں نیچے اترتے ہیں اس لیے یہ مہینا بھی شکار کے لیے بہترین سمجھا جاتا ہے۔

    گلگت بلتستان میں مارخور 2 ہزار سے 3 ہزار میٹر کی بلندی پر پلتے ہیں، تاہم کشمیر کے مارخور کا تعاقب دیگر پہاڑی شکاروں کی مانند بے پناہ جسمانی مشقت کا حامل ہوتا ہے۔

    یہ بھی پڑھیں:  گلگت: امریکی شکاری کا ایک لاکھ ڈالر کے عوض مارخور کا شکار

    یہ پہاڑی بکرے خوب صورت جنگلی حیات میں سے ایک سمجھے جاتے ہیں بالخصوص نر ماخور جس کے سینگ لمبے اور چکردار ہوتے ہیں، برفانی لیپرڈ اور بھیڑیوں سے بچنے کے لیے یہ خطرناک کھڑی چٹانوں میں اپنا مسکن بناتے ہیں، یہ کھڑی چٹانیں انھیں شکاریوں سے بھی محفوظ رکھتی ہیں۔

    یہی وجہ ہے کہ شکاریوں کی شدید خواہش ہوتی ہے کہ اپنی زندگی میں کم از کم ایک مارخور شکار کرنے کا اعزاز ضرور حاصل کریں، سرکاری سطح پر بھی اس شکار کو ہنٹنگ ٹرافی ایوارڈ کہا جاتا ہے۔

    مارخور چوں کہ نایاب جانور ہے اور صرف پاکستان میں پایا جاتا ہے، اس لیے قانونی اور غیر قانونی شکار، محکمہ جنگلی حیات کی غفلت اور موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث اس کی معدومی کا شدید خطرہ لاحق ہے۔

    یہ بھی پڑھیں:  پاکستان میں پرندوں کا شکار، امریکی ڈالرز میں فیس مقرر

    یہ مغربی کوہِ ہماليہ ميں اپنا ٹھکانا رکھتا ہے، مارخور کا کندھے تک کا قد 115-65 سينٹی ميٹر تک اور اس کے بل کھاتے سينگوں کی لمبائی نر مارخور 160 سينٹی ميٹر اور مادہ 25 سينٹی ميٹر تک ہوتی ہے۔

    يہی سينگ شکاريوں کو ان خوب صورت جانوروں کی طرف راغب کرتے ہيں جو کہ شکاری بہ طور ٹرافی رکھتے اور بيچتے ہيں، سينگ کے علاوہ گوشت حاصل کرنے اور بيچنے کی لالچ بھی اس کے غير قانونی شکار پر مائل کرتی ہے۔

    پاکستان کے اس خوبصورت قومی جانور کی نایاب نسل کو معدومی سے بچانے کے لیے حکومتِ پاکستان کو اس کے ہر قسم کے شکار پر پابندی عائد کرنی ہوگی۔

  • امریکی طوفانوں کے دوران چڑیا گھروں سے نایاب جانور چوری ہوگئے

    امریکی طوفانوں کے دوران چڑیا گھروں سے نایاب جانور چوری ہوگئے

    امریکی ریاستوں کو بدترین تباہی سے دو چار کرنے والے یکے بعد دیگرے 4 طوفانوں نے ایک طرف تو لاکھوں لوگوں کی زندگیوں کو متاثر کیا، تو دوسری طرف بدنیت افراد اور چور اچکوں کی بھی چاندی ہوگئی جو ایسے موقع پر بھی ہاتھ دکھانے سے باز نہ آئے۔

    ایسا ہی کچھ کیریبیئن جزائر کے سنیٹ مارٹن جزیرے میں ہوا جہاں ایک چڑیا گھر سے نایاب اور قیمتی جانوروں کو چرا لیا گیا۔

    چڑیا گھر انتظامیہ کے مطابق طوفان کے دوران ہنگامی حالات سے نمٹنے کے بعد انہیں علم ہوا کہ چڑیا گھر سے نہایت نایاب نسل کے جانوروں کے 6 جوڑے غائب ہیں۔

    انتظامیہ کے مطابق وہاں موجود جانوروں نے طوفان کے دوران بھاگنے سے گریز کیا اور اپنی جگہ ڈٹے رہے جنہیں بعد ازاں محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا۔ ان جانوروں کی تعداد 300 کے قریب بتائی جارہی ہے۔

    مزید پڑھیں: مشرق سے مغرب تک تباہ کن سیلاب اور طوفان

    ان کا کہنا تھا کہ طوفان کے دوران کچھ جانوروں کی ہلاکت بھی ہوئی جن میں ایک بڑی چھپکلی بھی شامل تھی۔ اس جانور کی موت طوفان کے دوران صدمے سے واقع ہوئی۔

    طوفان کے دوران 225 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی ہواؤں نے بند پنجروں کو توڑ دیا جس کے بعد تمام خطرناک جانور بھی پنجروں سے نکل آئے اور ایک مگر مچھ نے ایک نایاب نسل کے خرگوش اور ٹوکان نامی نایاب پرندے کا شکار بھی کرلیا۔

    ان کے علاوہ بھی کئی جانور تاحال لاپتہ ہیں۔ بعض جانور ادھر ادھر گھومتے ہوئے بھی پائے گئے جس کے بعد مقامی افراد نے انہیں پکڑ کر ان کے لیے مخصوص کی گئی جگہوں تک پہنچایا۔

    مقامی افراد اس چڑیا گھر کی تباہ حالی سے نہایت افسردہ نظر آئے۔ یہ سینٹ مارٹن جزیرے کا واحد چڑیا گھر تھا اور مقامی افراد اور ان کے بچوں کے لیے تفریح کا بہترین اور واحد ذریعہ بھی تھا۔

    چڑیا گھر انتظامیہ کا کہنا ہے کہ تمام تر کوششوں کے باوجود چڑیا گھر کو دوبارہ اصل حالت میں واپس لانا اب ناممکن ہے۔

    واضح رہے کیریبیئن جزائر بحر اوقیانوس میں آنے والے طوفانوں سے شدید متاثر ہوئے ہیں اور ان میں سے سینٹ مارٹن جزیرے کا 95 فیصد انفرا اسٹرکچر تباہ ہوچکا ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔