Tag: نایاب نسل

  • سعودی عرب: نایاب نسل کے اونٹوں کا ڈی این اے ٹیسٹ

    سعودی عرب: نایاب نسل کے اونٹوں کا ڈی این اے ٹیسٹ

    سعودی عرب میں نایاب نسل کے اونٹوں کا ڈی این اے ٹیسٹ کیا گیا ہے جس کا مقصد ان کی نسل اور شجرہ نسب کا تحفظ کرنا ہے۔

    سعودی ویب سائٹ کے مطابق سعودی عرب میں کیمل کلب اور کنگ فیصل اسپیشلسٹ اسپتال کے اہلکاروں نے نایاب نسل کے 12 اونٹوں کے ڈی این اے سیمپل حاصل کرلیے۔

    جن اونٹوں کے ڈی این اے سیمپل لیے گئے وہ شہزادہ سلطان بن محمد بن سعود الکبیر اور شہزادہ ترکی بن محمد بن سعود الکبیر کے ہیں۔

    کیمل کلب اور کنگ فیصل اسپیشلسٹ اسپتال نایاب اونٹوں کی نسل کے تحفظ کے لیے ان کے ڈی این اے جمع کر رہے ہیں۔

    اونٹوں کے معائنے اور میڈیکل لیبارٹری میں اندراج کی کارروائی میں 5 روز صرف ہوئے، ڈی این اے جمع کرنے کے بعد اونٹوں کی نسل سے متعلق تمام معلومات محفوظ کی جائیں گی۔

    یاد رہے کہ جن اونٹوں کے ڈی این اے لیے گئے ہیں وہ غرنوق، الشامخ، الحاکم، شقران، شامان، العالی، نوفان، الکاید، خزام الشعل، ورقان اور الفاخر ہیں، ان کے بچوں کے ڈی این اے بھی لیے گئے ہیں۔

    اس مہم کا مقصد نایاب نسل کے اونٹوں کا شجرہ نسب محفوظ کرنا ہے، شہزادہ سلطان بن محمد اور شہزادہ ترکی بن محمد کے اونٹوں کے ڈی این اے کے بعد دیگر نایاب نسل کے اونٹوں کے دیگر 17 مالکان سے بھی رجوع کیا جائے گا اور ان کے اونٹوں کے ڈی این اے سیمپل بھی لیے جائیں گے۔

  • خرگوش جیسی خصوصیات رکھنے والی نایاب بلی

    خرگوش جیسی خصوصیات رکھنے والی نایاب بلی

    جاپان میں بلی کی ایک نایاب نسل ہے جس کی خصوصیت یہ ہے کہ دیگر بلیوں کی طرح لمبی لچکدار دم کی بجائے اس کی مختصر خرگوش نما دم ہے۔

    بلی کی یہ غیر معمولی نسل جسے بوب ٹیل کہا جاتا ہے، جاپان میں کب پہنچی یہ کسی کو واضح طور پر معلوم نہیں لیکن یہ کم از کم کئی صدیوں سے جاپانی ثقافت کا حصہ ہے۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق بلی کی اس مخصوص نسل نے 1600 کی دہائی کے اوائل میں جاپان کے ریشم کے کیڑے کی پیداوار کو محفوظ رکھنے میں اہم کردار ادا کیا جس کے بعد اگلی صدی تک بوب ٹیل بلیوں کی جاپان میں کافی مانگ رہی۔

    کہا جاتا ہے کہ جاپانی بوب ٹیل بلی کی چھوٹی دم ایک قدرتی جنیاتی تبدیلی کا نتیجہ ہے جس میں دم کا سائز چھوٹا ہوتا ہے جبکہ مناسب بوب ٹیل سمجھے جانے کے لیے بلی کی دم 3 انچ سے زیادہ لمبی نہیں ہونی چاہیئے۔

    رپورٹس کے مطابق اس بوب ٹیل بلی کی دم خرگوش کی دم کی طرح ملائم اور نرم ہوتی ہے اور یہ کسی بھی سمت میں گھوم سکتی ہے۔

    اس بلی کی قیمت تقریباً 1600 امریکی ڈالرز (یعنی تقریباً 2 لاکھ 80 ہزار پاکستانی روپے) ہے۔

  • اربوں ڈالر کی صنعت بندروں کی جان توڑ محنت کی مرہون منت

    اربوں ڈالر کی صنعت بندروں کی جان توڑ محنت کی مرہون منت

    دنیا بھر میں اس وقت ناریل کے مختلف استعمالات کی صنعت تقریباً 2 ارب 20 کروڑ ڈالر سے زائد کی مالیت رکھتی ہے، تاہم یہ صنعت بندروں کی جان توڑ محنت اور مشقت کی مرہون منت ہے۔

    دنیا بھر میں ناریل کے تیل اور پانی کی بہت زیادہ طلب ہے جبکہ ناریل کو دیگر مختلف اشیا میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

    ہر سال اس کی طلب میں مزید 10 فیصد اضافہ ہوجاتا ہے۔ ناریل حاصل کرنے کے مرکزی ذرائع تھائی لینڈ، انڈونیشیا اور فلپائن ہیں۔

    بڑی کمپنیاں یہاں کے چھوٹے کسانوں سے ناریل لیتی ہیں، یہ کسان خط غربت سے نیچے زندگی گزارتے ہیں۔

    یہ کسان اونچے بلند و بالا درختوں سے ناریل اتارنے کے لیے بندروں کا سہارا لیتے ہیں۔

    اس کام کے لیے بندر کی ایک نسل مکاک کو استعمال کیا جاتا ہے جو تیزی سے نایاب نسل کی فہرست میں شامل ہورہی ہے۔

    اس کام کے لیے ننھے بندروں کو ان کی پناہ گاہوں سے نکال لیا جاتا ہے جس کے بعد ان کی تربیت کی جاتی ہے کہ کس طرح درخت سے ناریل اتارنا ہے۔

    یہ بندر عموماً 24 گھنٹے لوہے کی زنجیر سے بندھے رہتے ہیں۔

    زنجیروں سے بندھے یہ بندر روزانہ 9 گھنٹے تک بار بار درختوں سے اترتے اور چڑھتے ہیں۔ ایک دن میں یہ 1 ہزار ناریل درخت سے اتارتے ہیں۔

    ماہرین ان بندروں کا استحصال روکنے اور ان کے تحفظ کے لیے اقدامات کرنے پر زور دے رہے ہیں۔

  • امریکا میں سفید برفانی الو

    امریکا میں سفید برفانی الو

    آپ نے اب تک سفید برفانی بھالوؤں کے بارے میں تو سنا ہوگا لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ دنیا میں سفید برفانی الو بھی پایا جاتا ہے؟

    عام الو ہی کی نسل سے تعلق رکھنے والا یہ نایاب پرندہ آرکٹک اور امریکا کے برفانی علاقوں میں پایا جاتا ہے۔

    امریکی ماہرین جنگلی حیات کا کہنا ہے کہ رواں برس امریکی ریاست کینٹکی میں یہ الو دیکھا گیا۔ ماہرین کے مطابق یہ الو برف کی تلاش اور ٹھنڈے موسم کی تلاش میں اپنی رہائش گاہ سے نکل کر شہری علاقوں کی طرف آگیا ہے۔

    نایاب سفید الو کو دیکھنے والے افراد نے اسے نہایت خوشگوار لمحہ قرار دیتے ہوئے زندگی کا حسین ترین منظر قرار دیا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔