Tag: نباتات

  • دنیا میں پائے جانے والے سات عجیب و غریب پھول

    دنیا میں پائے جانے والے سات عجیب و غریب پھول

    روئے زمین پر چرند پرند، حشرات، نباتات اور انواع و اقسام کے ایسے جان دار بھی موجود ہیں‌ جنھیں‌ ہم عام آنکھ سے دیکھ نہیں‌ سکتے۔ سبزہ و گُل کی بات کی جائے تو پھل دار اور پھول دار پیڑ اور پودے قدرت کی صناعی کا شاہکار ہیں۔

    پھولوں‌ کی لاتعداد اقسام میں بعض بہت خوش نما، خوش بُو دار اور کچھ عجیب و غریب شکل کے ایسے پھول بھی ہیں‌ جن کو دیکھ کر ہمارے ذہن میں‌ کسی دوسرے جان دار کی شبیہ ابھرتی ہے۔ ان پھولوں کے نام بھی اسی مشابہت کی بنیاد پر رکھے گئے ہیں۔

    Bird of Paradise
    یہ پھول ساؤتھ افریقہ میں پایا جاتا ہے۔ اسے دیکھ کر شاید آپ بھی یہ تصوّر کریں کہ کوئی خوب صورت پرندہ اڑان بھر رہا ہے۔

    Bleeding Heart Flower
    انسانی دل بلکہ ایک زخمی دل سے مشابہ یہ پھول ٹھنڈے اور نمی والے علاقوں‌ میں کِھلتا ہے۔

    Hooker’s Lip Flower
    ہونٹوں سے مشابہت کی بنیاد پر اس پھول کو یہ نام دیا گیا ہے جب کہ اس کی سرخ رنگت کی وجہ سے اسے عورت سے منسوب کیا جاتا ہے۔ یہ پھول میکسیکو، پوریتو ریکو، پانامہ کے ٹروپیکل جنگلات میں پایا جاتا ہے۔

    Ghost Flower
    یہ عجیب و غریب پھول ہے جسے اگر شام ڈھلے یا کسی ویران مقام پر دور سے دیکھا جائے تو شاید آپ کے ذہن میں کسی ننھے کفن پوش یا بد روح کا تصوّر ابھرے۔ یہ پھول صرف کیوبا اور جنوبی فلوریڈا میں پایا جاتا ہے جہاں کی آب و ہوا اس کے لیے سازگار ہے۔

    Bee Orchid Flower
    اس پودے کی پتیوں کے درمیان آپ ایک موٹی سی مکھی نما پھول دیکھ سکتے ہیں۔ یہ پھول یورپ، مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں پایا جاتا ہے۔

    Beehive Ginger Flower
    شہد کے چھتے کی طرح نظر آنے والا یہ پھول چین اور بھارت میں پایا جاتا ہے۔ اس میں بہت سا پانی جمع ہوجاتا ہے اور ادرک کی خوشبو آتی ہے۔

    Flying Duck Flower
    اس کا پودا آسٹریلیا کے جنگلات میں اگتا ہے جس کا چھوٹا سا پھول ایک بطخ کے مشابہ نظر آتا ہے۔

    (تدوین و ترجمہ از عظیم لطیف)

  • چند خوش نما اور خوش بُو دار جھاڑیاں

    چند خوش نما اور خوش بُو دار جھاڑیاں

    آپ نے جھاڑیوں کا ذکر اکثر سنا ہوگا، بالخصوص وہ لوگ جو دیہات اور پہاڑی علاقوں کے پروردہ ہیں‌، انھوں نے جنگل اور کھلے مقامات پر ہر قسم کی نباتات کا مشاہدہ کیا ہو گا جن میں‌ کانٹے دار اور زہریلی جھاڑیاں بھی شامل ہیں، لیکن یہاں ہم بات کررہے ہیں‌ اُن خوش بُو دار جھاڑیوں کی جنھیں آپ اپنے گھر میں‌ کچّی مٹی یا بڑے بڑے گملوں‌ میں لگا سکتے ہیں۔

    گھاس اور جڑی بوٹیوں کے علاوہ دوسری قسم کی نباتات کو عام طور پر ہم درخت اور پیڑ کہہ کر شناخت کرتے ہیں، لیکن درخت اور جھاڑی میں فرق ہوتا ہے۔ کسی بھی پیڑ کا ایک تنا ہوتا ہے جس سے اس کے قد کے اعتبار سے اوپر اٹھنے کے بعد شاخیں نکلتی ہیں۔ اس کے برعکس جھاڑی نباتات کی وہ قسم ہے جس کے کئی تنے ہوسکتے ہیں اور یہ قد میں درخت سے بہت چھوٹی ہوتی ہے۔

    پاکستان میں قسم ہا قسم کی نباتات میں دل کش اور خوش بُو دار جھاڑیاں‌ بھی پائی جاتی ہیں‌ جن کو عام باغیچے یا بڑے گملوں میں لگایا جاتا ہے اور اس طرح صاحبِ خانہ اپنے ذوق و شوق کی تسکین کے ساتھ خود کو فطرت کے قریب پاتے ہیں۔

    یہاں ہم ان چند خوش نما جھاڑیوں کے نام بتا رہے ہیں جنھیں آپ اپنے گھر کے باغیچے اور بڑے گملوں میں بھی رکھ سکتے ہیں۔

    رات کی رانی سے کون واقف نہیں؟ یہ سدا بہار اور تیزی سے پھلنے پھولنے والی خوش نما جھاڑی ہے۔ اس پھول دار جھاڑی پر چھوٹے چھوٹے سفید پھول کھلتے ہیں جن کی خوش بُو بھی فرحت افزا ہوتی ہے۔ یہ جھاڑی 5 سے 7 فٹ تک اونچی ہوسکتی ہے۔ موسمِ گرما اور خزاں میں بھی اس پر سفید پھول گچھوں کی شکل میں کِھلتے ہیں۔

    برصغیر پاک و ہند میں مروا کو اس کے پھولوں سے اٹھنے والی بھینی بھینی خوش بُو کی وجہ سے سبھی پسند کرتے ہیں۔ مروا کا پودا دس فٹ اونچا ہوتا ہے۔ یہ سدا بہار جھاڑی ہے جس کے پتّے گہرے سبز رنگ کے ہوتے ہیں اور انتہائی خوش نما دکھائی دیتے ہیں۔ اس کی افزائش بیج سے ہوتی ہیں۔ مروا پر برسات کے دنوں میں پھول کِھلتے ہیں اور یہ فضا کو معطّر کردیتے ہیں۔ اس پھول دار جھاڑی کو تراش کر جاذبِ نظر بنایا جاسکتا ہے۔

    بار سنگار ایک سخت جان اور روئیں دار پتّوں والی جھاڑی ہے جس کے سفید پھولوں میں زر دانے ہوتے ہیں جو رات کو اس پر نمودار ہوتے ہیں اور صبح سویرے گِر جاتے ہیں۔ ان کی خوش بُو دور تک پھیل جاتی ہے۔ بار سنگار جھاڑی کو بارشوں میں قلم یا بیج سے لگایا جاسکتا ہے۔

    پلیو میریا کو نباتات کی دنیا میں‌ بہت زیادہ مضبوط اور خوش بُو دار پھولوں والی جھاڑی کے طور پر شناخت کیا جاتا ہے۔ اس کے پتّے بڑے بڑے اور یہ کئی اقسام کی ہوتی ہے۔

    اب بات کرتے ہیں قومی پھول چنبیلی کی جس کا پودا جھاڑی دار شمار کیا جاتا ہے۔ اس پر جو پھول آتے ہیں۔ ان سے گجرے اور ہار بھی بنائے جاتے ہیں۔ یہ سدا بہار اور خوش نما پھولوں والی جھاڑی ہے۔

  • ماریشس کا "خزانہ” دنیا کی نظروں میں آگیا

    ماریشس کا "خزانہ” دنیا کی نظروں میں آگیا

    ماریشس بحر ہند کے انتہائی جنوب میں ایک چھوٹا سا ملک ہے جو سیر و سیاحت کے حوالے سے دنیا میں مشہور ہے۔

    اس کے مختلف جزیروں پر نباتات اور قسم قسم کا سبزہ نظر آتا ہے۔ پورے ملک میں گنے کی فصل کے علاوہ آم اور پپیتے کے درخت کی بہتات ہے۔

    ماہرینِ زراعت کے مطابق ماریشس کی زمین بہت زرخیز ہے۔

    ماریشس کے جزائر قیمتی پودوں اور جڑی بوٹیوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ ایک سروے رپورٹ میں سامنے آیا کہ یہاں کئی پودے ایسے ہیں جو کینسر کے علاج میں مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔ طبی ماہرین پر مشتمل ٹیموں نے یہاں پائی جانے والی نباتات پر تحقیق شروع کردی ہے۔

    سائنس دانوں نے حیرت انگیز انکشاف یہ کیا ہے کہ ان جزائر پر بعض ایسے پودے پائے جاتے ہیں جو کسی اور خطہ زمین پر موجود نہیں۔

    ان میں تین نباتات کو ایسالائفا انٹیگریفولیا، یوجینیا ٹینی فولیا، اور لیبروڈونیسیا گلوکا کہا جاتا ہے جو صرف اسی ملک میں پائے جاتے ہیں۔ طبی تحقیق بتاتی ہے کہ ان پودوں میں سرطان کی رسولی ختم کرنے کی صلاحیت پائی جاتی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ماریشس کے نباتاتی خزانے کے ایک تہائی پودے برسوں سے مختلف امراض کے علاج میں استعمال ہورہے ہیں، لیکن ان پر باقاعدہ سائنسی تحقیق نہیں کی گئی تھی۔

  • کالی مرچ: تجارت کے میدان سے صحت کی دنیا تک

    کالی مرچ: تجارت کے میدان سے صحت کی دنیا تک

    کالی مرچ کا استعمال ہمارے ہاں عام ہے۔ یہ کچن میں موجود مسالا جات میں سرِ فہرست اور ہماری غذا و ضروریات کا اہم جزو ہے۔ نباتاتی سائنس کے ماہرین نے اسے Piper nigrum کا نام دیا ہے جب کہ انگریزی زبان میں اسے Black pepper کہتے ہیں۔

    کالی مرچ، ایک پھول دار بیل سے حاصل ہوتی ہے جسے خشک حالت میں ہم اپنے کھانوں میں ذائقہ پیدا کرنے کے علاوہ بعض امراض کے علاج اور جسمانی تکالیف سے نجات حاصل کرنے کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔

    کہتے ہیں یہ وہ غذائی جنس ہے جسے زمانۂ قدیم میں بھی نہایت اہم اور قیمتی جانا جاتا تھا۔ کالی مرچ کی کاشت اور اس کی تجارت نہایت نفع بخش سمجھتی جاتی تھی اور منڈیوں میں کالی مرچ کی خریدوفروخت کو بہت اہمیت دی جاتی تھی۔

    اس کی بیل کی لمبائی 1500 میٹر تک ہوسکتی ہے جب کہ اس سے خشک حالت میں حاصل ہونے والی مرچ ملی میٹر میں اور گول شکل کی ہوتی ہے۔ اس کی بیل کو عام باغات کے علاوہ بڑے رقبے پر بھی اگایا جاتا ہے جس کے لیے ماہرینِ زراعت مختلف مہینے موزوں بتاتے ہیں۔

    اسے بیل کی شاخوں سے مخصوص طریقے سے الگ کر کے دھوپ میں سکھایا جاتا ہے اور اس دوران کوشش کی جاتی ہے کہ بیجوں کو پھپھوندی نہ لگے اور یہ ہر قسم کی کیڑوں اور دیگر خرابیوں سے محفوظ رہیں۔

    کالی مرچ گہرے بھورے، کالے رنگ اور سخت حالت میں ہمارے سامنے آنے سے پہلے سبز اور لال رنگ کا پھل ہوتی ہے۔

    طبی ماہرین کے مطابق عام استعمال کے اس بیج میں مخصوص مہک کے ساتھ الکلائیڈز بڑی مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ اس کا ذائقہ کچھ تیکھا ہوتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بخار کے بعد کی کم زوری دور کرنے، نظامِ انہضام کی فعالیت میں مؤثر ثابت ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ جوڑوں کے درد میں مفید ہے۔ اسی طرح بعض جلدی امراض اور انفیکشن کو بھی کالی مرچ کے استعمال سے دور کیا جاسکتا ہے۔

  • کیکٹس: خدا سے رابطے میں‌ مددگار پودا

    کیکٹس: خدا سے رابطے میں‌ مددگار پودا

    دنیا بھر میں نباتات کی لاتعداد اقسام پائی جاتی ہیں جو خوش رنگ، خوش بُو دار اور بعض عجیب الخلقت یا بدصورت بھی ہیں۔ تاہم یہ سب اس کارخانۂ قدرت میں انسان کے لیے کسی نہ کسی طرح مفید اور کارآمد ضرور ہیں۔

     

    پھول اور پودے ہمیشہ سے انسان کو فرحت و تازگی بخشنے کے ساتھ محبت کا اظہار کرنے اور تکالیف و امراض سے انھیں‌ نجات دینے میں بھی مددگار ہیں۔ یہی نہیں بلکہ انھیں عبادت اور عقیدت کے اظہار کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

     

    کیکٹس کا پودا دنیا بھر میں مشہور ہے۔ یہ صحراؤں، خشک پہاڑوں اور بنجر زمین پر پائے جاتے ہیں۔ برصغیر میں کیکٹس کی متعدد اقسام میں ناگ پھنی زیادہ معروف ہے۔ تھوہڑ اور چھتر تھور بھی ہمارے یہاں اس پودے کی مخصوص قسم کے لیے بولا جاتا ہے۔

     

     

    یہ بات شاید آپ کے لیے نئی ہو کہ ناگ پھنی سے کچھ قبائل روحانی لگاؤ رکھتے ہیں اور اسے مقدس مانتے ہیں۔
    میکسیکو اور شمالی امریکا کے کچھ قبائلیوں کے نزدیک یہ مقدس پودا ہے جو خدا سے رابطے میں مدد دیتا ہے۔ یہ قبائلی کیکٹس کی مخصوص قسم سے دعائیہ رسمیں ادا کرتے ہیں اور یہ ان کی تمام دعائیہ تقریبات کا اہم حصّہ ہوتا ہے۔

     

    کیکٹس کے پودے پانی کی بہت کم مقدار کے ساتھ بھی پھلتے پھولتے رہتے ہیں۔ اس پودے کی ہزاروں اقسام ہیں جن کی پہچان عام لوگوں کے لیے مشکل ہے۔

    کیکٹس کی ایک قسم یعنی ناگ پھنی چھوٹا اور بغیر گٹھلی کا پودا ہے جو امریکی ریاست ٹیکساس کے جنوب مغربی علاقوں اور میکسیکو کے صحرائی علاقے میں ملتا ہے۔

  • اناج کی وہ قسم جس سے دل کی بیماریوں اور سرطان کا خطرہ کم ہو سکتا ہے

    اناج کی وہ قسم جس سے دل کی بیماریوں اور سرطان کا خطرہ کم ہو سکتا ہے

    مکئی کو ماہرینِ نباتات گھاس کی ایک قسم کہتے ہیں جس سے ہم اناج حاصل کرتے ہیں۔

    اسے مختلف طریقوں سے پکایا جاتا ہے۔ یہ کھانوں میں استعمال کی جاتی ہے اور اسے جانوروں کی خوراک بھی بنایا جاتا ہے۔ یہی مکئی ایندھن کے طور پر بھی استعمال ہوتی ہے۔ کہتے ہیں مکئی میکسیکو میں دریافت ہوئی اور بعد میں دنیا کے مختلف ملکوں میں اسے اناج کے طور پر استعمال کیا جانے لگا۔ اس غذائی جنس کی عمر کئی ہزار سال بتائی جاتی ہے۔

    مکئی ہم بھی مختلف شکلوں میں اپنی خوراک کا حصّہ بناتے ہیں۔ ماہرینِ صحت کے مطابق یہ متعدد امراض میں مفید ہے جب کہ اس کا اعتدال میں استعمال کئی طبی مسائل سے محفوظ رکھتا ہے۔ مکئی کے دانے غذائیت سے بھرپور ہوتے ہیں۔ اس میں نشاستہ، فائبر، حیاتین اور معدنیات کی بڑی مقدار شامل ہوتی ہے۔

    طبی محققین کے مطابق مکئی میں اینٹی آکسیڈنٹ اور نباتاتی مرکبات ہوتے ہیں جو صحت کے لیے فائدہ مند ہیں۔ مکئی میں لوٹین اور زیاکسن تھین زیادہ مقدار میں ہوتے ہیں۔ یہ کیروٹینائیڈز کہلاتے ہیں جو آنکھ کے عدسے کو دھندلے پن اور عمر کے ساتھ پٹھوں کو کم زور ہونے سے روکتے ہیں۔

    معدے کے مسائل یعنی انہضام اور آنتوں کی شکایت لاحق ہو تو مکئی میں پایا جانے والا ریشہ فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔ مکئی کا استعمال نظامِ ہضم کی سوزش سے بھی بچاتا ہے۔ طبی ماہرین بتاتے ہیں کہ اس ریشے سے متعدد امراض کا خطرہ کم ہو جاتا ہے جن میں دل کی بیماریاں اور چند اقسام کے سرطان شامل ہیں۔ تاہم ذیابیطس میں مبتلا افراد کو نشاستہ دار غذاؤں کا استعمال کم کرنا چاہیے جس میں مکئی بھی شامل ہے۔

  • جب جڑی بوٹی نے مسلمان ماہرَ نباتات کو زندگی سے محروم کر دیا!

    جب جڑی بوٹی نے مسلمان ماہرَ نباتات کو زندگی سے محروم کر دیا!

    صدیوں پہلے علم و فنون کے مختلف شعبوں میں تحقیق اور اس کے ذریعے کائنات اور حیات کے بھید پانے کی کوشش اور اپنے علمی و تحقیقی کام سے متعلق مشاہدات اور تجربات کو رقم کرنے والوں میں مسلمان شخصیات بھی شامل ہیں۔

    نباتات یعنی زمین پر پودوں، جڑی بوٹیوں پر تحقیق اور مشاہدات کے ذریعے ان کے خواص، اثرات، فوائد اور امراض میں نافع ہونے کی معلومات رقم کرنے والا ایک نام ضیاء الدّین ابنِ بیطار ہے۔ وہ طبی سائنس میں ایک ماہرِ نباتات کے طور پر مشہور ہیں۔ اسپین ان کا وطن تھا، مگر علم و طب کے شعبے میں دل چسپی ان سے دور دراز کا سفر کرواتی رہی۔ ان کی عمر کا بڑا حصہ گھوم پھر کر پودوں اور جڑی بوٹیوں پر تحقیق میں گزرا۔ انھوں نے اپنے سفر میں جن جڑی بوٹیوں کے خواص اور ان کے فوائد جانے وہ ایک کتاب میں جمع کر دیے۔ دنیا اس کتاب کو ‘‘جامع المفردات’’ کے نام سے جانتی ہے جس میں 14 سو جڑی بوٹیوں پر ان کی تحقیق اور مشاہدات موجود ہیں۔ اس کتاب کی شعبۂ طب میں اہمیت اور افادیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہ دنیا کی متعدد زبانوں میں ترجمہ کی گئی۔

    ابنِ بیطار 1197 میں پیدا ہوئے۔ حیوانات اور نباتات میں دل چسپی اور طب کا شوق یوں پروان چڑھا کہ ان کے والد جانوروں کے امراض کا علم رکھتے اور ان کے علاج کے لیے مشہور تھے۔ یہ لفظ بیطار اسی طرف نسبت کرتا ہے۔ یہ عربی لفظ ہے اور اس کے معنی حیوانات کا طبیب ہیں۔

    ابنِ بیطار نے اس زمانے کے رواج کے مطابق ابتدائی اور عربی کی تعلیم مکمل کرکے حکمت پڑھی اور اپنی لگن اور دل چسپی سے وہ قابلیت اپنے اندر پیدا کی کہ اس زمانے میں انھیں امام اور شیخ کہا جانے لگا۔ ان کے علم اور دانش نے عوام ہی نہیں خواص کو بھی ان کا معتقد بنا دیا تھا۔ کہتے ہیں یہ ماہرِ نباتیات دس برس تک شاہ دمشق کے دربار سے وابستہ رہا۔ تاہم بادشاہ کے انتقال کے بعد مصر ہجرت کر گئے تھے اور وہاں بھی طبیب خاص کے طور پر کام کیا۔

    پیڑ پودوں اور جڑی بوٹیوں کے بارے میں معلومات اکٹھی کرنے کا شوق انھیں بیس برس کی عمر میں مصر، یونان، اور ایشیائے کوچک کے جنگلوں اور پہاڑوں تک لے گیا۔ اس زمانے میں ابو العباس ایک مشہور ماہرِ نباتات تھے جن سے ابنِ بیطار نے استفادہ کیا۔ والد سے بھی انھیں بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا تھا۔

    اسی طرح دیگر یونانی طبیب اور حکما کی کتب نے بھی ان کے نباتات سے متعلق علم میں اضافہ اور شوق و جستجو کو مہمیز دی۔ ان کی دو کتب جڑی بوٹیوں اور دواؤں سے متعلق ہیں جو بہت مشہور ہیں۔ ابنِ بیطار کی موت کی وجہ ایک ایسی جڑی بوٹی بنی جسے انھوں نے ایک تجربے کی غرض سے آزمایا تھا۔ تاہم وہ زہریلی ثابت ہوئی اور 1248 میں ان کی موت واقع ہو گئی۔ دمشق میں انتقال کے بعد وہیں ان کی تدفین کردی گئی۔ اسپین اور دنیا کے مختلف شہروں‌ میں‌ یادگار کے طور پر ان کے مجسمے نصب کیے گئے ہیں.