Tag: نثار بزمی

  • نثار بزمی: فلمی گیتوں کو نئی جہت بخشنے والا موسیقار

    نثار بزمی: فلمی گیتوں کو نئی جہت بخشنے والا موسیقار

    نثار بزمی نے پاکستانی فلم انڈسٹری کے لیے کئی مدھر اور لازوال دھنیں تخلیق کیں اور ان کی موسیقی میں فلمی گیت پاکستان ہی نہیں سرحد پار بھی مقبول ہوئے۔وہ اعلیٰ پائے کے موسیقار تھے۔ نثار بزمی 1997ء میں آج ہی کے دن انتقال کرگئے تھے۔

    پاکستانی فلم انڈسٹری کے صفِ اوّل کے موسیقار کی حیثیت سے یاد کیے جانے والے نثار بزمی نے دسمبر 1924ء کو صوبہ مہاراشٹر کے ضلع خان دیش کے ایک گاؤں میں آنکھ کھولی۔ ان کا اصل نام سید نثار احمد تھا۔ وہ بچپن ہی سے موسیقی سے شغف رکھتے تھے۔ والد نے ان کا شوق اور موسیقی سے رغبت دیکھتے ہوئے انھیں استاد امان علی خان کے پاس بمبئی بھیج دیا۔ نثار بزمی نے ان سے موسیقی کے اسرار و رموز سیکھے اور بعد میں آل انڈیا ریڈیو سے وابستہ ہوگئے۔

    آل انڈیا ریڈیو میں چند سال میوزک کمپوزر کی حیثیت سے کام کرنے والے نثار بزمی نے 1946ء میں فلمی دنیا سے ناتا جوڑا۔ ان کی پہلی ‘جمنا پار’ تھی۔ تقسیمِ ہند سے قبل پندرہ برس تک نثار بزمی نے اس زمانے کی ہندوستانی فلمی صنعت کے لیے بطور موسیقار کام کیا اور بعد میں پاکستان آگئے۔ یہاں اس دور کے کئی بڑے اور باکمال موسیقار اور گلوکار پہلے ہی موجود تھے اور فلمی صنعت میں ان کے درمیان جگہ بنانا آسان نہ تھا۔ لیکن نثار بزمی نے موسیقی کی دنیا میں اپنے منفرد انداز سے فلم سازوں اپنی جانب متوجہ کرلیا اور انھیں فلمیں ملنے لگیں۔ انھوں نے فضل احمد کریم فضلی کی فلم ’ایسا بھی ہوتا ہے‘ سے پاکستانی فلم انڈسٹری میں اپنا سفر شروع کیا۔ اس فلم میں نور جہاں نے نثار بزمی کی تیار کردہ دھن پر فلمی غزل "ہو تمنا اور کیا جانِ تمنا آپ ہیں” گائی تھی۔ یہ اپنے زمانے کی مقبول ترین غزل تھی جو سرحد پار بھی مقبول ہوئی۔ اس فلم کے بعد نثار بزمی نے فلم ‘لاکھوں میں ایک’ کے مشہور گیت ’چلو اچھا ہوا تم بھول گئے‘ کی دھن ترتیب دی اور یہ وہ گیت ہے جو آج بھی سماعتوں میں‌ رس گھول رہا ہے۔ ایک اور گانا ‘بڑی مشکل سے ہوا ترا میرا ساتھ پیا…’ نثار بزمی کی یاد دلاتا ہے۔ انھوں نے ‘اے بہارو گواہ رہنا، اک حسن کی دیوی سے مجھے پیار ہوا تھا، رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ، آپ دل کی انجمن میں حسن بن کر آ گئے، دل دھڑکے، میں تم سے یہ کیسے کہوں، کہتی ہے میری نظر شکریہ، کاٹے نہ کٹے رتیاں، سیاں تیرے پیار میں جیسے لازوال گیتوں کی دھنیں‌ ترتیب دیں جنھیں اپنے وقت کے مشہور و معروف گلوکاروں نے گایا۔

    نثار بزمی نے طاہرہ سید، نیرہ نور، حمیراچنا اور عالمگیر جیسے گلوکاروں کو فلمی دنیا میں آواز کا جادو جگانے کا موقع فراہم دیا۔

    مختلف شاعروں کی نظموں، غزلوں اور فلمی گیتوں کی دھنیں ترتیب دینے والے نثار بزمی خود بھی شاعر تھے۔ ان کا مجموعہ کلام ’پھر سازِ صدا خاموش ہوا‘ کے نام سے شایع ہوا۔ موسیقار نثار بزمی کو حکومت نے پرائیڈ آف پرفارمنس سے نوازا تھا۔

  • روبینہ بدر: ایک دل کش آواز جو ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگئی

    روبینہ بدر: ایک دل کش آواز جو ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگئی

    روبینہ بدر نوعمر تھی جب پہلی مرتبہ فلم بیٹی کے لیے ایک گیت اپنی آواز میں ریکارڈ کروایا۔ اس گیت کے بول تھے، ذرا بچ کے رہنا بھیا، یہ دنیا سب کو ستائے، اللہ میاں بچائے۔ بے بی روبینہ کو بعد میں کئی فلموں کے لیے گیت ریکارڈ کروانے کا موقع ملا اور گلوکاری کے اس سفر میں روبینہ نے فلم کے علاوہ ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے لیے بھی گیت گائے۔ آج پاکستانی فلم انڈسٹری کی اس گلوکارہ کی برسی منائی جارہی ہے۔

    فلم بیٹی ایک بامقصد فلم تھی جس کا موضوع ہمارا سماج تھا۔ اس کے ہدایت کار رضا میر اور فلم ساز اقبال شہزاد تھے۔ یہ بات ہے 1964ء کی جب پاکستان میں فن کاروں کی گویا ایک کہکشاں تھی جس میں بے مثال اداکار، بے مثال گلوکار اور موسیقار، سدا بہار نغمات کے خالق شعرا اور جان دار مکالمے تحریر کرنے والے ادیب اور کہانی نویس شامل تھے۔ یہی نہیں بلکہ اس زمانے کے فلم ساز اور ہدایت کار بھی ہر لحاظ سے بہترین اور شان دار کام کرتے تھے۔ بے بی روبینہ کا کورس میں ایک مزاحیہ گیت بھی ریکارڈ کیا گیا تھا جس کے بول تھے: دنیا ریل گاڑی، ہے سانپ کی سواری، جو سمجھے وہ کھلاڑی، نہ سمجھے وہ اناڑی بھیّا…

    ٹی وی پر روبینہ کا ایک گیت بڑا مقبول ہوا تھا جس کے بول تھے، تجھ سنگ نیناں لاگے، مانے نہ ہی جیارا۔

    فلمی گلوکارہ روبینہ بدر کو 28 مارچ 2006ء میں کینسر کے مرض نے زندگی سے محروم کر دیا تھا۔ بوقتِ وفات ان کی عمر 50 سال تھی۔

    پاکستان ٹیلی وژن سے نشر ہونے والے گیت تم سنگ نیناں لاگے کو روبینہ بدر کے کیریئر کا اہم موڑ کہا جاسکتا ہے۔ بعدازاں وہ فلموں کے لیے گانے لگیں اور لاہور بھی گئیں اور پھر نثار بزمی نے انھیں کراچی بلوا لیا جہاں ان کے ساتھ بھی روبینہ نے خوب کام کیا۔ روبینہ بدر کے گائے ہوئے گیت جن فلموں میں شامل ہوئے ان میں ایمان دار، چکر باز، شوکن میلے دی، حکم دا غلام، انتظار، پردہ نہ اٹھائو، عزّت شامل ہیں۔ انھوں نے اردو ہی نہیں پنجابی زبان میں بھی فلمی نغمات ریکارڈ کروائے۔ روبینہ بدر کی آواز میں جو گیت نثار بزمی صاحب نے ریکارڈ کیا تھا اس کے بول تھے:

    میرے اچھے نانا پیارے پیارے نانا
    جھوٹ موٹ میں تم سے روٹھوں تم مجھے منانا

    اس فلم میں کئی گیت مشہور گلوکاروں نے گائے تھے مگر روبینہ بدر کے گائے اس گانے کو بڑی مقبولیت حاصل ہوئی تھی، یہ وہ گیت تھا جو اس زمانے میں ریڈیو سے تقریباً روزانہ ہی نشر ہوتا تھا۔ ٹیلی وژن اور فلم کے لیے گائے ہوئے نغمات نے روبینہ بدر کو پہچان دی اور شائقین میں ان کی مقبولیت میں اضافہ کیا۔ موسیقار نثار بزمی نے گلوکارہ روبینہ بدر کی بہت حوصلہ افزائی کی اور کام بھی دلوایا۔ اس زمانے میں‌ نثار بزمی پاکستان فلم انڈسٹری کے مصروف ترین موسیقاروں میں سے ایک تھے۔ انھوں نے کئی نئے گلوکاروں کو بھی فلموں کے لیے گیت گانے کا موقع دلوایا تھا۔ مشہور پاکستانی فلم انتظار کے گیت نثار بزمی نے خاص طور پر روبینہ سے گوائے جن میں‌ لیجنڈری گلوکار مہدی حسن کے ساتھ روبینہ بدر کی آواز میں ایک ڈوئیٹ بھی شامل تھا۔ اس گیت کے شاعر مسرور انور تھے اور اس کے بول تھے:

    پیار کی اک نئی راہ پر ہم کو تقدیر لے آئی ہے
    زندگی بھر نہ بچھڑیں گے ہم دو دلوں نے قسم کھائی ہے

  • نثار بزمی: لازوال دھنوں کے خالق کا تذکرہ

    نثار بزمی: لازوال دھنوں کے خالق کا تذکرہ

    پاکستان میں فضل احمد کریم فضلی کی فلم ’ایسا بھی ہوتا ہے‘ بطور موسیقار نثار بزمی کی پہلی فلم تھی، لیکن تقسیمِ‌ ہند سے قبل اور بعد میں‌ بھارت میں قیام کے دوران وہ 40 سے زائد فلموں کی موسیقی ترتیب دے چکے تھے۔ آج نثار بزمی کی برسی ہے۔ وہ 2007ء میں‌ اس دارِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔

    نثار بزمی نے پہلی بار فلم جمنار پار کے لیے موسیقی ترتیب دی تھی۔ یہ 1946ء کی بات ہے اور 1961ء تک وہ بھارت میں فلم انڈسٹری کے لیے کام کرتے رہے۔ تاہم کوئی خاص کام یابی ان کا مقدّر نہیں بنی تھی۔ نثار بزمی نے 1962ء میں پاکستان ہجرت کی تو جیسے قسمت کی دیوی ان پر مہربان ہوگئی۔ وہ اپنے عزیز و اقارب سے ملنے کے لیے کراچی آئے تھے اور پھر یہیں کے ہو رہے۔ پاکستان میں نثار بزمی نے فلم انڈسٹری کے لیے لازوال دھنیں تخلیق کیں۔

    فلم ‘لاکھوں میں ایک’ کا مشہور گیت ’چلو اچھا ہوا تم بھول گئے‘ کی دھن نثار بزمی نے ترتیب دی تھی۔ اس کے علاوہ ‘اے بہارو گواہ رہنا، اک حسن کی دیوی سے مجھے پیار ہوا تھا، رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ، آپ دل کی انجمن میں حسن بن کر آ گئے، دل دھڑکے، میں تم سے یہ کیسے کہوں، کہتی ہے میری نظر شکریہ، کاٹے نہ کٹے رتیاں، سیاں تیرے پیار میں جیسے لازوال گیتوں کے اس موسیقار نے یہاں‌ عزّت، مقام و مرتبہ پایا۔ ان کی ترتیب دی ہوئی دھنوں پر اپنے دور کے مشہور و معروف گلوکاروں نے اپنی آواز کا جادو جگایا۔

    دسمبر 1924ء کو صوبہ مہاراشٹر کے ایک ضلع میں آنکھ کھولنے والے نثار بزمی کا اصل نام سید نثار احمد تھا۔ نوعمری ہی سے انھیں موسیقی سے لگاؤ پیدا ہوگیا تھا اور ان کا شوق اور موسیقی سے رغبت دیکھتے ہوئے والد نے انھیں استاد امان علی خان کے پاس بمبئی بھیج دیا جن سے انھوں نے اس فن کے اسرار و رموز سیکھے۔

    نثار بزمی نے آل انڈیا ریڈیو میں چند سال میوزک کمپوزر کی حیثیت سے کام کیا اور 1946ء میں فلم نگری سے موسیقار کے طور پر اپنا سفر شروع کیا، وہ تقسیم کے پندرہ برس تک ہندوستان کی فلم انڈسٹری سے وابستہ رہے اور پھر پاکستان آگئے جہاں اپنے فن کی بدولت بڑا نام اور مرتبہ پایا۔

    نثار بزمی نے طاہرہ سیّد، نیرہ نور، حمیرا چنا اور عالمگیر جیسے گلوکاروں کو فلمی دنیا میں آواز کا جادو جگانے کا موقع دیا۔ مختلف شعرا کے کلام پر دھنیں ترتیب دینے والے نثار بزمی خود بھی شاعر تھے۔ ان کا مجموعۂ کلام ’پھر سازِ صدا خاموش ہوا‘ کے نام سے شایع ہوا۔

    حکومتِ‌ پاکستان نے نثار بزمی کو پرائیڈ آف پرفارمنس سے نوازا تھا۔

  • جب قسمت کی دیوی موسیقار نثار بزمی پر مہربان ہوئی!

    جب قسمت کی دیوی موسیقار نثار بزمی پر مہربان ہوئی!

    پاکستان میں فضل احمد کریم فضلی کی فلم ’ایسا بھی ہوتا ہے‘ نثار بزمی کی پہلی فلم تھی، لیکن تقسیمِ‌ ہند سے قبل اور بعد میں‌ وہ بھارت میں رہتے ہوئے 40 سے زائد فلموں کی موسیقی ترتیب دے چکے تھے۔

    آج پاکستان کے اس مایہ ناز موسیقار کی برسی ہے۔ انھوں نے 2007ء میں‌ زندگی کا سفر تمام کیا تھا۔ نثار بزمی نے پہلی بار فلم جمنار پار کے لیے موسیقی ترتیب دی تھی۔ یہ 1946ء کی بات ہے اور 1961ء تک وہ بھارت میں فلم انڈسٹری کے لیے کام کرتے رہے۔ تاہم کوئی خاص کام یابی ان کا مقدّر نہیں بنی تھی۔

    نثار بزمی نے 1962ء میں پاک سرزمین پر قدم رکھا تو جیسے قسمت کی دیوی ان پر مہربان ہوگئی۔ وہ اپنے عزیز و اقارب سے ملنے کے لیے کراچی آئے تھے اور پھر یہیں کے ہو رہے۔ پاکستان میں نثار بزمی نے جب فلم انڈسٹری سے وابستگی اختیار کی تو کام یاب ترین موسیقار شمار ہوئے۔ بھارت سے پاکستان منتقل ہوجانا ان کی زندگی کا بہترین فیصلہ ثابت ہوا۔

    فلم ‘لاکھوں میں ایک’ کا مشہور گیت ’چلو اچھا ہوا تم بھول گئے‘ کی دھن نثار بزمی نے ترتیب دی تھی۔ اس کے علاوہ ‘اے بہارو گواہ رہنا، اک حسن کی دیوی سے مجھے پیار ہوا تھا، رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ، آپ دل کی انجمن میں حسن بن کر آ گئے، دل دھڑکے، میں تم سے یہ کیسے کہوں، کہتی ہے میری نظر شکریہ، کاٹے نہ کٹے رتیاں، سیاں تیرے پیار میں جیسے لازوال گیتوں کے اس موسیقار نے یہاں‌ عزّت، مقام و مرتبہ پایا۔ ان کی ترتیب دی ہوئی دھنوں پر اپنے دور کے مشہور و معروف گلوکاروں نے اپنی آواز کا جادو جگایا۔

    دسمبر 1924ء کو صوبہ مہاراشٹر کے ایک ضلع میں آنکھ کھولنے والے نثار بزمی کا اصل نام سید نثار احمد تھا۔ نوعمری ہی سے انھیں موسیقی سے لگاؤ پیدا ہوگیا تھا اور ان کا شوق اور موسیقی سے رغبت دیکھتے ہوئے والد نے انھیں استاد امان علی خان کے پاس بمبئی بھیج دیا جن سے انھوں نے اس فن کے اسرار و رموز سیکھے۔

    نثار بزمی نے آل انڈیا ریڈیو میں چند سال میوزک کمپوزر کی حیثیت سے کام کیا اور 1946ء میں فلم نگری سے موسیقار کے طور پر اپنا سفر شروع کیا، وہ تقسیم کے پندرہ برس تک ہندوستان کی فلم انڈسٹری سے وابستہ رہے اور پھر پاکستان آگئے جہاں اپنے فن کی بدولت بڑا نام اور مرتبہ پایا۔

    نثار بزمی نے طاہرہ سیّد، نیرہ نور، حمیرا چنا اور عالمگیر جیسے گلوکاروں کو فلمی دنیا میں آواز کا جادو جگانے کا موقع دیا۔ مختلف شعرا کے کلام پر دھنیں ترتیب دینے والے نثار بزمی خود بھی شاعر تھے۔ ان کا مجموعۂ کلام ’پھر سازِ صدا خاموش ہوا‘ کے نام سے شایع ہوا تھا۔

    حکومتِ‌ پاکستان نے نثار بزمی کو پرائیڈ آف پرفارمنس سے نوازا تھا۔

  • لازوال دھنوں کے خالق نثار بزمی کی برسی

    لازوال دھنوں کے خالق نثار بزمی کی برسی

    پاکستان فلم انڈسٹری سے وابستہ شعرا کے خوب صورت گیتوں کو اپنی مدھر دھنوں سے لازوال اور یادگار بنا دینے والے نثار بزمی کو دنیا سے گئے 14 برس بیت گئے۔ 1997ء میں وفات پانے والے نثار بزمی کا شمار ملک کے صفِ اوّل کے موسیقاروں میں ہوتا ہے۔

    دسمبر 1924ء کو صوبہ مہاراشٹر کے ضلع خان دیش کے ایک گائوں میں پیدا ہونے والے نثار بزمی کا اصل نام سید نثار احمد تھا۔ وہ بچپن ہی سے موسیقی سے شغف رکھتے تھے۔والد نے ان کا شوق اور موسیقی سے رغبت دیکھتے ہوئے انھیں استاد امان علی خان کے پاس بمبئی بھیج دیا جہاں انھوں نے موسیقی کے اسرار و رموز سیکھے۔

    نثار بزمی نے آل انڈیا ریڈیو میں چند سال میوزک کمپوزر کی حیثیت سے کام کیا اور 1946ء میں فلم ‘جمنا پار’ سے فلم نگری میں اپنا سفر شروع کیا، وہ تقسیم کے پندرہ برس تک ہندوستان کی فلم انڈسٹری سے وابستہ رہے اور پھر پاکستان آگئے جہاں انھوں نے اپنے وقت کے باکمال موسیقاروں کے درمیان اپنے فن کی بدولت بڑا نام اور مرتبہ پایا۔

    فضل احمد کریم فضلی کی فلم ’ایسا بھی ہوتا ہے‘سے پاکستانی فلم انڈسٹری میں نثار بزمی نے اپنے کام کا آغاز کیا۔ اسی فلم میں نور جہاں نے نثار بزمی کی تیار کردہ دھن پر غزل "ہو تمنا اور کیا جانِ تمنا آپ ہیں” گائی تو اس کا شہرہ سرحد پار بھی ہوا۔ فلمی دنیا میں اس کام یاب آغاز کے بعد وہ آ گے بڑھتے چلے گئے۔

    نثار بزمی نے فلم ‘لاکھوں میں ایک’ کے مشہور گیت ’چلو اچھا ہوا تم بھول گئے‘ کی دھن ترتیب دی اور یہ گیت آج بھی سماعتوں میں‌ رس گھول رہا ہے۔ ایک اور گانا ‘بڑی مشکل سے ہوا ترا میرا ساتھ پیا…’ نثار بزمی کی یاد دلاتا ہے۔ انھوں نے ‘اے بہارو گواہ رہنا، اک حسن کی دیوی سے مجھے پیار ہوا تھا، رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ، آپ دل کی انجمن میں حسن بن کر آ گئے، دل دھڑکے، میں تم سے یہ کیسے کہوں، کہتی ہے میری نظر شکریہ، کاٹے نہ کٹے رتیاں، سیاں تیرے پیار میں جیسے لازوال گیتوں کی دھنیں‌ ترتیب دیں جنھیں اپنے وقت کے مشہور و معروف گلوکاروں نے گایا تھا۔

    نثار بزمی نے طاہرہ سید، نیرہ نور، حمیراچنا اور عالمگیر جیسے گلوکاروں کو فلمی دنیا میں آواز کا جادو جگانے کا موقع فراہم دیا۔

    مختلف شاعروں کی نظموں، غزلوں اور فلمی گیتوں کی دھنیں ترتیب دینے والے نثار بزمی خود بھی شاعر تھے۔ ان کا مجموعہ کلام ’پھر سازِ صدا خاموش ہوا‘ کے نام سے شایع ہوچکا ہے۔

    پاکستان میں درجنوں فلموں کے کئی گیتوں کی موسیقی ترتیب دینے والے نثار بزمی کو حکومت نے پرائیڈ آف پرفارمنس سے نوازا۔