Tag: نثری نظم

  • اردو ادب میں جدید رجحانات متعارف کروانے والے قمر جمیل کا یومِ وفات

    اردو ادب میں جدید رجحانات متعارف کروانے والے قمر جمیل کا یومِ وفات

    قمر جمیل اردو ادب میں جدید رجحانات متعارف کرانے کے لیے مشہور ہوئے اور انھیں‌ نثری نظم کے بانیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ وہ پاکستان کے معروف نقّاد، ادیب، شاعر اور مدیر تھے جن کی آج برسی ہے۔

    قمر جمیل نے حیدرآباد دکن میں 10 مئی 1927ء کو آنکھ کھولی۔ وہ تقسیم کے بعد پاکستان چلے آئے تھے۔ شروع ہی سے مطالعہ اور ادب کا شوق تھا جس نے انھیں خود بھی لکھنے لکھانے پر مائل کیا اور بعد کے برسوں‌ میں ادبی دنیا میں انھوں نے اپنی شناخت اور الگ پہچان بنائی۔

    وہ طویل عرصے تک ریڈیو پاکستان سے وابستہ رہے۔ قمر جمیل نے نثری نظم کی تحریک کا کراچی سے آغاز کیا تو ادیب اور شاعر اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور ان کی اس تحریک نے تخلیق کے میدان میں ایک نئے رجحان کو جنم دیا۔

    قمر جمیل کی زندگی میں ان کے دو شعری مجموعے خواب نما اور چہار خواب شائع ہوئے جب کہ دو جلدوں پر مشتمل تنقیدی مضامین کا مجموعہ جدید ادب کی سرحدیں ان کی وفات سے کچھ عرصے قبل شائع ہوا تھا۔ وہ اردو کے علاوہ انگریزی ادب سے بھی لگاؤ رکھتے تھے۔ عالمی ادب کا مطالعہ اور نئے افکار و رجحانات پر ان کی گہری نظر تھی۔

    دریافت کے نام سے قمر جمیل نے ایک ادبی جریدہ بھی جاری کیا تھا۔

    27 اگست سن 2000ء کو کراچی میں وفات پانے والے قمر جمیل کو عزیز آباد کے قبرستان میں سپردِ‌ خاک کیا گیا۔ ان کا ایک مشہور شعر ملاحظہ کیجیے۔

    ایک پتھر جو دستِ یار میں ہے
    پھول بننے کے انتظار میں ہے

  • یومِ‌ وفات:‌ معروف شاعرہ سارہ شگفتہ نے کہا تھا، "موت کی تلاشی مت لو!”

    یومِ‌ وفات:‌ معروف شاعرہ سارہ شگفتہ نے کہا تھا، "موت کی تلاشی مت لو!”

    4 جون 1984ء کو سارہ شگفتہ نے اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا تھا۔ وہ اردو اور پنجابی زبان میں شاعری کرتی تھیں۔ اصنافِ سخن میں سارہ کو نثری نظم مرغوب تھی۔

    سارہ شگفتہ 31 اکتوبر 1954ء کو گوجرانوالہ میں‌ پیدا ہوئی تھیں۔ ان کا تعلق ایک غریب اور تعلیم سے بے بہرہ خاندان سے تھا، سارہ پڑھنا چاہتی تھیں، مگر گھریلو حالات اور شدید اتار چڑھاؤ کے ساتھ ذاتی مسائل کے باعث میٹرک بھی نہ کرسکیں۔ زندگی سے مایوس ہو جانے والی سارہ شگفتہ نے کراچی میں‌ ٹرین کے نیچے آکر اپنی جان دے دی تھی۔

    خود کُشی کے بعد جہاں سارہ کی زندگی کے حالات، حوادث اور المیے زیرِ بحث آئے، وہیں ان کی شاعری کو ایک نئی جہت بھی ملی۔ وفات کے بعد ان کی شخصیت پر نام ور ناول نگار اور پنجابی زبان کی مشہور شاعرہ امرتا پرتیم نے ’ایک تھی سارہ‘، صحافی اور ادیب انور سن رائے نے ’ذلّتوں کے اسیر‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی جب کہ پاکستان ٹیلی ویژن نے ڈرامہ سیریل پیش کیا جس کا نام ’آسمان تک دیوار‘ تھا۔

    سارہ کی نثری نظمیں ان کے منفرد اور خوش رنگ اسلوب سے مرصع ہیں۔ اردو زبان میں ان کا مجموعہ کلام آنکھیں اور نیند کا رنگ اشاعت پذیر ہوئے جب کہ پنجابی زبان میں ان کی شاعری بھی کتابی شکل میں محفوظ ہے۔

  • عجلت اور بے صبری کی عادت نے کیا رنگ دکھایا، تفصیل جانیے

    عجلت اور بے صبری کی عادت نے کیا رنگ دکھایا، تفصیل جانیے

    ن م۔ راشد نے روایت سے انحراف کرتے ہوئے اردو نظم میں طرزِ نو کی بنیاد رکھی، آزاد نظم کو عام کیا، اسے مقبول بنایا۔ یہی نہیں بلکہ نئی نسل کو فکر و نظر کے نئے زاویوں سے آشنا کرتے ہوئے تخلیقی سطح پر نئے رویّوں کو متعین کیا۔

    ن م راشد مزاجاً سخت گیر اور جلد باز مشہور تھے اور اسی عادت سے متعلق ان کے ایک رفیق اور ممتاز افسانہ نگار غلام عبّاس نے نہایت دل چسپ واقعہ رقم کیا ہے جو ہم یہاں نقل کررہے ہیں۔

    "راشد کو اپنی اس بے صبری اور جلد بازی کی عادت کی ایک دفعہ اور بھی سخت سزا بھگتنی پڑی تھی۔ راشد کو جیسے ہی معلوم ہوا کہ انھیں فوج میں کمیشن مل گیا ہے اور اب صرف چند ابتدائی کارروائیاں باقی رہ گئی ہیں، مثلاً جسمانی معائنہ وغیرہ۔ تو وہ خود ہی فوج کے دفتر میں پہنچ گئے کہ میرا معائنہ کر لیجیے۔ شام کو جب واپس آئے تو ان کی بری حالت تھی۔ ان کے جسم پر جگہ جگہ چوٹیں آئی تھیں، گھٹنے زخمی تھے اور منہ سوجا ہوا۔ سارا جسم اکڑ گیا تھا، چلنا پھرنا دوبھر تھا۔

    ان کی یہ حالت دیکھ کر مجھے ملال بھی ہوا اور ہنسی بھی آئی۔ کہنے لگے بھائی یہ امتحان تو پل صراط سے گزرنے سے کم نہ تھا۔ مجھے خار دار تاروں پر سے گزرنا پڑا، خاصے اونچے اونچے درختوں پر چڑھا اور وہاں سے زمین پر چھلانگیں لگائیں۔ کبھی دوڑتا تھا، کبھی رینگتا تھا، قدم قدم پر ٹھوکریں کھاتا تھا۔

    بعد میں معلوم ہوا کہ انھوں نے اس جسمانی معائنہ کی صعوبتیں ناحق ہی اٹھائیں۔ کیوں کہ انھیں تو اس معائنہ سے مستثنیٰ قرار دیا گیا تھا۔ یہ معائنہ تو صرف جنگ میں لڑنے والے سپاہیوں کے لیے لازمی تھا، لکھنے پڑھنے کا کام کرنے والوں کے لیے نہیں۔