Tag: ندوۃ العلما

  • علّامہ شبلی نعمانی کا یومِ وفات

    علّامہ شبلی نعمانی کا یومِ وفات

    علّامہ شبلی نعمانی کو ان کی سیرت و سوانح نگاری اور ندوۃُ العلما کے قیام نے ہندوستان میں بڑے مقام و مرتبے سے سرفراز کیا جب کہ ادبی میدان میں بھی ان کی تصانیف نے انھیں اپنے ہم عصروں‌ میں‌ ممتاز کیا۔ علّامہ شبلی نعمانی نے 18 نومبر 1914ء کو اس جہانِ فانی کو خیرباد کہا تھا۔ آج اردو کے اس نام ور ادیب کی برسی ہے۔

    ان کا اصل نام محمد شبلی تھا۔ وہ 1857ء میں اعظم گڑھ کے ایک نواحی قصبے میں پیدا ہوئے۔ آپ کی تعلیم و تربیت نہایت پاکیزہ ماحول اور اس دور کی اعلیٰ ترین درس گاہوں میں ہوئی۔

    1882ء میں وہ علی گڑھ کالج کے شعبۂ عربی سے منسلک ہو گئے۔ یہاں سرسیّد احمد خان اور دوسرے صاحبانِ علم و فن کی صحبت میں‌ بیٹھنے کے علاوہ مذہبی اور سماجی راہ نماؤں سے راہ رسم کا موقع ملا جس نے ان کی فکر کو وسعت دی اور ذوق کو نکھارا اور سیرت و سوانح نگاری کے ساتھ متعدد علمی اور ادبی موضوعات پر ان کی کتب سامنے آئیں۔

    سیرت النّبی ان کی وہ تصنیف ہے جس کا بہت شہرہ ہوا، لیکن اسے بدقسمتی کہیے کہ حیاتِ شبلی میں اس کی صرف ایک جلد ہی شایع ہوسکی تھی۔ بعد میں‌ اس کام کو ان کے ایک لائق شاگرد سید سلیمان ندوی نے پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ علّامہ شبلی نعمانی کی دیگر علمی و ادبی تصانیف میں شعرُ العجم، الفاروق، سیرت النعمان، موازنۂ انیس و ادبیر اور الغزالی بہت مشہور ہیں۔

    علم و ادب کی دنیا کے اس نام وَر کو اعظم گڑھ میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • سید سلیمان ندویؒ: مشہور عالمِ دین اور اہم کتب کے مصنف کا تذکرہ

    سید سلیمان ندویؒ: مشہور عالمِ دین اور اہم کتب کے مصنف کا تذکرہ

    برصغیر میں علم و فضل، تدبر اور اپنی بصیرت میں ممتاز و یگانہ شخصیات میں سید سلیمان ندویؒ کا نام سرِ فہرست ہے۔ یہی ہیں بلکہ عالمِ اسلام میں سید سلیمان ندویؒ کو ان کی مذہبی فکر، دینی خدمات اور قابلیت کی وجہ سے نہایت عزت و احترام سے یاد کیا جاتا ہے۔

    یہ ایک اتفاق ہے کہ آج 22 نومبر کو دنیا کے افق پر نمودار ہونے والا یہ آفتاب اس مٹی کو علم و حکمت کی کرنوں سے ضیا بار کر کے اسی روز ہمیشہ کے لیے ڈوب گیا. اردو ادب کے نام ور سیرت نگار، عالم، مؤرخ اور قابلِ قدر کتابوں کے مصنف کا ایک بڑا کارنامہ سیرتُ النّبی صلی اللہ علیہ وسلم ہے جس کاشانۂ علم و فضل ان کا احسان مند رہے گا۔

    ان کے استاد علامہ شبلی نعمانی تھے جنھوں نے سیرت کی پہلی دو جلدیں لکھیں، مگر زندگی نے وفا نہ کی اور 1914 کو ان کے انتقال کے بعد باقی چار جلدیں سید سلیمان ندوی نے مکمل کیں۔ یہ ایک ایسا کام تھا جس میں تحقیق اور مہارت کی ضرورت تھی جسے بلاشبہہ انھوں نے خوبی سے نبھایا۔ دارُالمصنفین، اعظم گڑھ کا قیام عمل میں لائے اور ایک ماہ نامہ معارف کے نام سے شروع کیا۔

    صوبہ بہار کے ایک گاؤں میں 1884 کو پیدا ہونے والے سید سلیمان ندوی نے 1901 میں دارالعلوم ندوۃ العلما میں داخلہ لیا جہان انھیں علامہ شبلی نعمانی کی رفاقت نصیب ہوئی۔ ایک قابل اور نہایت شفیق استاد کی صحبت نے ان کی شخصیت کی تعمیر اور صلاحیتوں کو اجالنے میں اہم کردار ادا کیا۔ استاد کی وفات کے بعد وہ ان کے قائم کردہ ادارے ندوۃ المصنّفین سے وابستہ ہو گئے اور اسی دوران سیرتُ النبی صلی اللہ علیہ وسلم مکمل کی۔

    تقسیمِ ہند کے بعد سلیمان ندوی نے جون 1950 میں پاکستان آنے کا فیصلہ کیا۔ ہجرت کے بعد وطنِ عزیز کے لیے آپ نے جو کارنامہ انجام دیا وہ پاکستان کے دستور کا اسلامی خطوط پر ڈھالنا تھا۔ اس حوالے سے مختلف مکاتبِ فکر کے علما کے ساتھ مل کر آپ نے دستور کے راہ نما اصول مرتب کیے۔ پاکستان آمد کے بعد سید سلیمان ندوی زیادہ عرصہ زندہ نہ رہے اور 1953 میں کراچی میں وفات پائی۔

    آپ کی نماز جنازہ مفتی محمد شفیع نے پڑھائی تھی۔ ان کی تدفین اسلامیہ کالج کے احاطے میں کی گئی۔ ان کی تصانیف میں عرب و ہند کے تعلقات، یادِ رفتگاں، سیرِ افغانستان، حیاتِ شبلی وغیرہ شامل ہیں۔

  • آج عظیم عالمِ دین سلمان ندوی کا یومِ پیدائش اوربرسی ہے

    آج عظیم عالمِ دین سلمان ندوی کا یومِ پیدائش اوربرسی ہے

    آج عالم اسلام کے عظیم عالم دین سید سلیمان ندوی کی تاریخ پیدائش بھی ہے اور تاریخ وفات بھی، آپ 22 نومبر 1884ء کو صوبہ بہار کے ایک گائوں دیسنہ میں پیدا ہوئے تھے، سیرت النبی ﷺ کے علاوہ بھی آپ متعدد کتب کے مصنف ہیں۔

    ان کے والد حکیم سید ابو الحسن ایک صوفی منش انسان تھے۔تعلیم کا آغاز خلیفہ انور علی اور مولوی مقصود علی سے کیا۔ اپنے بڑے بھائی حکیم سید ابو حبیب سے بھی تعلیم حاصل کی۔ 1899ء میں پھلواری شریف (بہار (بھارت)) چلے گئے جہاں خانقاہ مجیبیہ کے مولانا محی الدین اور شاہ سلیمان پھلواری سے وابستہ ہو گئے۔ یہاں سے وہ دربھنگا چلے گئے اور مدرسہ امدادیہ میں چند ماہ رہے۔

    سنہ 1901ء میں وہ دارالعلوم ندوۃ العلماء میں داخل ہوئے ، سلمان ندوی اس عظیم الشان ادارے سے سات سال وابستہ رہے۔ بعد ازاں1913ء میں دکن کالج پونا میں معلم السنۂ مشرقیہ مقرر ہوئے۔1940ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے انہیں ڈاکٹریٹ کی اعزازی سند عطا کی۔

    سلمان ندوی کی شخصیت کی تعمیر میں علامہ شبلی نعمانی نے سب سے اہم کردار ادا کیا اور یہی سبب ہے کہ سلمان ان سے خصوصی محبت فرماتے تھے ، ان کی وفات کے بعد وہ مولانا کے قائم کردہ ادارے ندوۃ المصنّفین سے وابستہ ہو گئے۔ انہوں نے اس ادارے سے وابستگی کے دوران مولانا شبلی نعمانی کی نامکمل رہ جانے والی سیرت النبی مکمل کی، سیرت النبی ﷺ کی ابتدائی دو جلدیں شبلی نعمانی نے مرتب کی تھیں جبکہ باقی چار کی تدوین سلمان ندوی نے کی تھی۔

    قیام پاکستان کے بعد سید صاحب جون 1950ء میں پاکستان چلے آئے۔ یہاں آنے کے بعد آپ نے پاکستان کے دستور کو اسلامی خطوط پر ڈھالنے کے لیے بڑا اہم کام کیا اور مختلف مکاتب فکر کے علماء کے ساتھ مل کر دستور کے رہنما اصول مرتب کیے۔

    آپ کی تصانیف میں سیرت النبی، عرب و ہند کے تعلقات، حیات ِشبلی، رحمت عالم، نقوش سلیمان، حیات امام مالک، اہل السنہ والجماعہ، یاد رفتگاں، سیر ِافغانستان، مقالات سلیمان، خیام، دروس الادب، خطبات مدراس، ارض القرآن، ہندوؤں کی علمی و تعلیم ترقی میں مسلمان حکمرانوں کی کوششیں، اور بہائیت اور اسلام شامل ہیں۔

    سید سلیمان ندوی نے 22 نومبر 1953ء کو کراچی میں وفات پائی۔ آپ کی نماز جنازہ مفتی محمد شفیع نے پڑھائی اور اسلامیہ کالج کراچی کے احاطے میں علامہ شبیر احمد عثمانی کے پہلو میں آسودۂ خاک ہوئے۔