Tag: ندیم جعفر

  • گارمنٹس استعمال کی مدت عالمی سطح پر کم ہونے کا انکشاف، پاکستان میں ٹیکسٹائل فضلہ مسئلہ بن گیا: ویڈیو رپورٹ

    گارمنٹس استعمال کی مدت عالمی سطح پر کم ہونے کا انکشاف، پاکستان میں ٹیکسٹائل فضلہ مسئلہ بن گیا: ویڈیو رپورٹ

    پاکستان میں ٹیکسٹائل فضلے کو ٹھکانے لگانے کے طریقہ کار میں متعدد مسائل کا سامنا ہے، جب کہ ملک میں سالانہ 2 لاکھ 70 ہزار ٹن ٹیکسٹائل فضلہ پیدا ہوتا ہے۔

    پاکستان میں ماحولیاتی تباہی کے ساتھ ساتھ ٹیکسٹائل کا سالانہ 2 لاکھ 70 ہزار ٹن ٹیکسٹائل فضلہ بھی ماحولیاتی تباہی میں اضافہ کر رہا ہے، پاکستان جنرل آف سائنٹیفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ٹیکسٹائل فضلے کو ٹھکانے لگانے میں تکنیکی اور مالیاتی مسائل کے علاوہ آگاہی کا فقدان بھی شامل ہے۔

    ٹیکسٹائل کی صنعتیں فضلے کی ری سائیکلنگ اور اس کے ماحولیاتی نقصانات سے ناواقف ہیں، جس کی وجہ سے یہ کچرے کی ری سائیکلنگ اور دوبارہ استعمال کے ماحولیاتی فوائد کے علاوہ، اندرون ملک فروخت اور ری سائیکل ٹیکسٹائل کی برآمد کے ذریعے آمدنی پیدا کرنے جیسے معاشی فوائد سے محروم ہو رہی ہیں۔


    زمینداروں نے سولر پینلز والے چھوٹے ڈیمز بنا کر بڑا مسئلہ کیسے حل کیا؟ ویڈیو رپورٹ


    اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال 92 ملین ٹن ٹیکسٹائل کچرا پیدا ہوتا ہے، 2000 سے 2015 کے دوران ٹیکسٹائل فضلے کی پیداوار دگنی ہو گئی، جب کہ گارمنٹس کے استعمال کی مدت میں 36 فی صد کمی آئی ہے۔

    ملٹی میڈیا – ویڈیو خبریں دیکھنے کے لیے کلک کریں

  • ویڈیو رپورٹ: روزانہ 3 افراد ہیوی کمرشل گاڑیوں سے حادثاتی موت کا شکار ہو رہے ہیں

    ویڈیو رپورٹ: روزانہ 3 افراد ہیوی کمرشل گاڑیوں سے حادثاتی موت کا شکار ہو رہے ہیں

    کراچی: شہر قائد کی سڑکیں قاتل بن گئی ہیں، جہاں روزانہ 3 افراد ہیوی کمرشل گاڑیوں سے حادثاتی موت کا شکار ہو رہے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی میں ٹریفک کا بوسیدہ نظام سڑکوں پر موت کے پروانے بانٹ رہا ہے، جس کی وجہ سے قیمتی جانیں ضائع ہو رہی ہیں۔ ایسی صورت حال میں بھی پولیس ٹریفک کو کنٹرول کرنے کی بجائے چالان اور پکڑ دھکڑ میں مصروف عمل رہتی ہے۔

    پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ٹریفک حادثات میں ہلاکتوں کی شرح سب سے زیادہ ہے، ایدھی کے مطابق جہاں روزانہ تین افراد حادثات کا شکار ہو کر اپنی جان گنوا بیٹھتے ہیں، ان میں سب سے زیادہ تعداد موٹر سائیکل سواروں کی ہوتی ہے۔

    دوسری جانب شہر میں ٹریفک پولیس سڑکوں پر رش کو کنٹرول کرنے سے زیادہ چالان کرنے یا ’معاملات کرنے‘ میں مصروف نظر آتی ہے۔

    شہر میں کشادہ سڑکوں کا جال 10 ہزار کلو میٹر تک پھیلا ہوا ہے، جس پر 60 لاکھ موٹر سائکلیں، 20 لاکھ سے زائد کاریں اور کمرشل گاڑیاں رواں دواں رہتی ہیں، مگر ان سڑکوں پر موجود ٹریفک مسائل اور تجاوزات انتظامیہ کی بے حسی کی داستان سناتے ہیں، جن کے نتائج عملی طور پر عوام کو بھگتنے پڑتے ہیں۔ 70 فی صد سڑکیں ایسی ہیں جہاں پر زیبرا کراسنگ،پل اور فٹ پاتھ سرے سے موجود ہی نہیں ہیں۔

    کراچی ٹریفک پولیس کے مطابق شہر میں سب سے زیادہ حادثات صنعتی علاقوں میں ہیوی ٹریفک کی وجہ سے پیش آتے ہیں۔ پولیس کا کہنا ہے عمومی طور پر جو ایکسیڈنٹس رپورٹس آتی ہیں ان میں زیادہ تر یہ ہوتا ہے کہ ٹرک کے ساتھ یا کسی کار کے ساتھ موٹر سائیکل کا حادثہ ہوا ہوتا ہے۔ جو گاڑیاں حادثے کا شکار ہوتی ہیں ان کی لاپرواہی حادثے کا سبب بنتی ہے۔ شہریوں کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ڈرائیونگ لائسنس جو ملتے ہیں وہ باضابطہ طریقے سے ایشو نہیں ہوتے، ایسے ہی مل جاتے ہیں۔

  • کراچی وحشتوں کا شہر کیسے بنا؟ ایک دل گداز تحریر

    کراچی وحشتوں کا شہر کیسے بنا؟ ایک دل گداز تحریر

    3 کروڑ سے زائد رہائشیوں کا جگمگاتا روشنیوں کا شہر کراچی اب ابلتے گٹروں، ڈوبتے گھروں، ٹوٹی سڑکوں اور اندھیروں کا مسکن بن چکا ہے۔

    دنیا بھر میں شہر اور ملک وقت کے ساتھ ساتھ ترقی کے مراحل طے کرتے ہیں، پاکستان کے دیگر شہر اس کی مثال ہیں، مگر شہر کراچی جو اپنے ابتدائی ایام ہی سے دنیا کے چند اچھے شہروں میں شمار ہوتا رہا تھا، اب بنیادی سہولیات سے محروم اور مسائلستان بنا ہوا ہے۔ اس شہر میں، جہاں 10 ہزار کلومیٹر سڑکیں ہیں، کوئی سڑک سلامت نہیں ملتی۔

    شہر اپنی بے ہنگم ترقی کے بوجھ تلے دبے جا رہا ہے، جس ایک گھر میں 5 افراد رہتے تھے اب وہاں آسمان کو چھوتی عمارت میں 5 ہزار افراد رہتے ہیں، اور اب یہاں لاقانونیت کوئی جرم نہیں بلکہ اس شہر کا طرز عمل بن چکا ہے۔ یہاں ہزاروں لوگ روزانہ اپنے مال و متاع سے لے کر جان تک لٹیروں کے ہاتھوں گنوا دیتے ہیں۔

    شہر میں ہزاروں ڈمپر جن پر ’دعوت تبلیغ زندہ باد‘ لکھا ہوتا ہے، بغیر کسی رجسٹریشن نمبر کے سڑکوں پر راہ گیروں اور موٹر سائیکل سواروں کو کچلتے ہوئے دندناتے پھرتے ہیں۔ ان ڈمپرز کو کبھی ٹریفک پولیس اہلکار نہیں روکتے، کیوں کہ صرف کار اور موٹر سائیکل والوں پر چالان اور بھتے کی صورت میں قانون کا اطلاق ہوتا ہے۔

    اس شہر میں صرف دو چیزوں کا راج ہے، طاقت سے مزین لاقانونیت اور رشوت کی چمک۔ شہر بھر میں صرف 40 فی صد قانونی گھر ہیں باقی سب معاملات ’’مایا‘‘ کا شکار ہیں۔ اسی لیے تو بابا بھلّے شاہ کئی سوسال پہلے کہہ گئے تھے کہ سب مایا ہے۔ شہر بھر کی فٹ پاتھوں پر دکان دار پچاس کرسیاں رکھ کر دیسی بن کباب اور چائے پراٹھا بیچتا ہے، جہاں قرب جوار کے رہائشیوں کے لیے رات گئے تک شور شرابا کسی عذاب سے کم نہیں ہوتا۔

    جس شہر میں آج سے تیس سال پہلے تک 28 ہزار منی بسیں اور بسیں ہوتی تھیں، وہاں مسافر آج چنگچی رکشوں میں مرغا بننے پر مجبور ہیں۔ یہاں لاکھوں بغیر رجسٹریشن کے رکشے بھتا دے کر روڈ پر دس دس مسافروں کو منی بس کی طرح چلاتے ہیں۔ اس شہر میں سر شام ہر ٹھیلے والا روزانہ ایک طے شدہ رقم رشوت کی صورت میں دیتا ہے، جو قانونی طور پر سرکاری خزانے میں جمع ہو سکتی ہے مگر ایسا کیوں کر ہو سکتا ہے!

    یہ وہ شہر ہے جہاں سرکاری سرپرستی میں پارکنگ مافیا فٹ پاتھوں اور سڑکوں پر غیر قانونی پارکنگ کرتا نظر آتا ہے، جہاں حیرت انگیز طور پر پارکنگ فیس نہ دینے پر پولیس وین آپ کی گاڑی اٹھا لے جاتی ہے۔

    جو شہر 60 اور 70 کی دہائیوں میں روشنیوں کا شہر کہلاتا تھا، اب وہاں اندھیروں کے سائے ہیں۔ جہاں شہری آدھی رات کو شہر کی فٹ پاتھوں پر مٹر گشت یا چہل قدمی کرتے تھے، وہاں آج لوگ لٹنے اور جان سے مارے جانے کے خوف سے دن کی روشنی میں گھروں میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اور جس شہر کی سڑکیں ماضی میں دھلتی تھیں اب وہاں رہائشی بوند بوند کو ترستے ہیں ۔۔۔۔ ایسا ہے میرا شہر!

  • مسلمانوں میں کتب بینی کا رحجان کم کیوں ہے؟

    مسلمانوں میں کتب بینی کا رحجان کم کیوں ہے؟

    یونیسکو کے ہیومن ڈیویلپمنٹ رپورٹ 2003 کے مطابق دنیا بھر میں ایک مسلمان ایک سال میں اوسطاً ایک کتاب سے کم پڑھتا ہے، ہمارے روز مرہ مشاہدے میں بھی یہ بات سامنے آتی ہے، سوال یہ ہے کہ مسلمانوں میں کتب بینی کا رحجان کم کیوں ہے؟

    ہیومن ڈیویلپمنٹ رپورٹ کے مطابق ایک یورپین ایک سال میں اوسطاً 35 کتابیں پڑھتا ہے جب کہ ایک اسرائیلی شہری ایک سال میں اوسطاً 40 کتابوں کا مطالعہ کرتا ہے، دوسری طرف عرب تھاٹ فاؤنڈیشن کی کلچرل ڈیویلپمنٹ رپورٹ 2011 اس سے بھی بدترین صورت حال دکھا رہی ہے، اس کے مطابق ایک عمومی یورپین سال میں 200 گھنٹے مطالعہ کرتا ہے، جب کہ ایک مسلمان ایک سال میں اوسطاً 6 منٹ مطالعہ کرتا ہے۔

    ہمارے پڑوسی ممالک بھارت میں 10، بنگلادیش میں 42 اور چین میں 8 گھنٹے فی ہفتہ کتاب پڑھنے پر خرچ کیے جاتے ہیں، جب کہ دنیا میں 57 مسلم ممالک ہیں لیکن دنیا بھر کی کتب بینی کی فہرست میں سواے مصر اور ترکی کوئی تیسرا مسلم ملک شامل نہیں ہے۔ انگلینڈ میں 80 لاکھ افراد لائبریری سے براہ راست کتابیں لیتے ہیں، برطانوی لائبریریوں میں 9 کروڑ 20 لاکھ کتابیں ہیں۔ کل آبادی کا 60 فی صد (کل آبادی 6 کروڑ 70 لاکھ) لائبریری کی ایکٹیو ممبرشپ رکھتا ہے۔

    نئی کُتب

    عالمی سطح پر ہر سال 8 ہزار سے زائد نئی کتب کا اضافہ ہوتا ہے، علم دوست قومیں علم پر خرچ کرتی ہیں اور دنیا پر راج کرتی ہیں۔ یہ سارا خرچہ ہر فرد لاکھوں گنا زیادہ کر کے اپنے قوم کو واپس کرتا ہے، دنیا کے جن 28 ممالک میں سب سے زیادہ کتابیں فروخت ہوتی ہیں، ان میں ایک بھی مسلمان ملک نہیں ہے۔

    حیرت انگیز طور پر دنیا کی 56 بہترین کتابیں چھاپنے والی کمپینیوں میں کسی کا بھی دفتر کسی مسلم ملک میں نہیں ہے، اہل یورپ نے مسلمانوں کے علمی مراکز، بغداد بالخصوص ہسپانوی مراکز سے استفادہ کر کے تحقیق کی دنیا میں قدم رکھا تھا، ان کی محنت آج بھی لندن کی ’’انڈیا آفس لائبریری‘‘ میں موجود ہے، ان کتب کی تعداد 6 لاکھ کے قریب ہے۔ ان میں عربی، فارسی، ترکی اور اردو میں قلمی کتابوں کی بڑی تعداد شامل ہے۔

    کتاب اور مطالعہ ہر معاشرے، مذہب اور ہر تمدن کی ضرورت رہی ہے، جن اقوام نے کتاب کو اپنایا وہ کامیاب ہوئیں، چاہے ان کی معاشی یا عسکری طاقت کتنی ہی کمزور کیوں نہ ہو۔

    کتب بینی میں کمی کے رحجان میں کئی عوامل شامل ہیں:

    آمریت اور بادشاہت

    سابق سربراہ شعبہ ابلاغ عامہ اردو یونیورسٹی ڈاکٹر توصیف کا کہنا ہے کہ عرصہ دراز سے مسلم ممالک میں آمریت اور بادشاہت کا دور دورہ رہا ہے۔ کتب بینی معاشرے میں روشن خیالی اور سوچ کو وسعت دیتی ہے۔ حکمرانوں نے اپنے اقتدار کے استحکام کو دوام بخشنے کے لیے معاشروں کو وسعت خیالی سے دور رکھا، جس کا اثر معاشرے میں سماجی اور ثقافتی طور پر مختلف حلقوں پر پڑا، ہم دیکھتے ہیں کہ یورپ میں بھی آزاد خیالی اس وقت زیادہ تیزی سے پیدا ہوئی جب عوام نے آمریت اور بادشاہت سے جان چھڑا لی۔

    انھوں نے کہا تعلیمی نظام، والدین کی تربیت اور ماحول کی تبدیلی نے بھی کتب بینی کی کمی میں اہم کردار ادا کیا ہے، اس کے علاوہ ڈیجیٹل میڈیا کی دسترس بھی کتب بینی سے دوری کی ایک وجہ ہے، لیکن اس وجہ کو بنیادی تبدیلی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یورپ میں ڈیجیٹل میڈیا سب سے پہلے آیا مگر وہاں پر کتاب پڑھنے کا رواج آج بھی قائم ہے۔

    مسئلہ سماجی، ثقافتی اور معاشی ہے

    ذوالفقار علی بھٹو یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر عامر فیروز کا کہنا ہے کہ مسلم ممالک میں کتب بینی کے رحجان میں کمی کی وجہ سماجی، ثقافتی اور معاشی ہے۔ وہ اس بات کو اس طرح سے بتاتے ہیں کہ سارا زور درسی کتابیں پڑھنے پر دیا جا تا ہے، جس سے روزگار کی امید ہوتی ہے۔ والدین نہ خود کتابیں پڑھتے ہیں نہ بچوں کو کتابیں پڑھنے کی ترغیب دیتے ہیں۔

    ان کے مطابق کتابیں پڑھنے سے انسان کی سوچ کو وسعت ملتی ہے، جس سے وہ سوال کرنے کے قابل ہو جاتا ہے، کیوں کہ زیادہ تر مسلم معاشروں میں آمریت اور بادشاہت ہے، اس لیے وہاں روشن خیالی کے ماحول کو جگہ نہیں ملتی۔

    ڈاکٹر عامر کا کہنا تھا کہ ایک اچھا ریڈر ہی اچھا لیڈر بنتا ہے۔ اس کی مثال انھوں نے دنیا کے ان رہنماؤں کی دی جو بہترین رہنما گزرے ہیں۔ انھوں نے پاکستان کی ابتدائی چار دہایوں کا موازنہ کرتے ہوئے بتایا کہ اس وقت معاشرہ قدرے روشن خیال تھا۔ اور اس کی وجہ وہ لوگوں اور نوجوانوں میں کتب بینی کا رحجان اور اس کے ثمرات کو قرار دیتے ہیں۔