آج کے دور میں مہنگائی اور اعلیٰ زندگی کے اخراجات کی وجہ سے لوگوں کی قوت خرید میں نمایاں کمی آئی ہے، صورتحال خاص طور پر ایسے شہروں کے بارے میں ہے جہاں رہائشی املاک کی بے تحاشہ قیمتیں اور اشیا کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔
ایسے میں نرسری اسکول کی سالانہ فیس کے ڈھانچے نے حال ہی میں سوشل میڈیا پر بحث چھیڑ دی ہے۔
فیس کے ٹوٹ پھوٹ میں 8 ہزار 400 ایک بار والدین کی واقفیت کی فیس اور خاص طور پر نرسری اور جونیئر کے جی طلبا کے لیے 55 ہزار 600 کی بھاری داخلہ فیس شامل ہے۔
فیس کا یہ پرچہ ایکس پر ای این ٹی سرجن ڈاکٹر جگدیش چترویدی نے شیئر کیا اور لکھا کہ 8400 بھارتی روپے پیرنٹ اورینٹیشن فیس!!! کوئی بھی والدین ڈاکٹر کے مشورے کے لیے اس کا 20 فیصد بھی ادا کرنے پر راضی نہیں ہوں گے، میں اب ایک اسکول کھولنے کا سوچ رہا ہوں۔
ایک صارف نے لکھا ’اگر آپ چاہتے ہیں کہ یہ نظام بند ہو تو اپنے بچے کو ایسے اسکول میں نہ بھیجنے سے شروعات کریں۔‘
ایک اور نے تبصرہ کیا ’’لوگ اپنے بچوں کے لیے وہ خرچ کریں گے جو وہ اپنے لیے کبھی نہیں کریں گے، اسی لیے مہنگے کوچنگ سینٹرز، اسکول، کالج پاگلوں کی طرح پھیل رہے ہیں۔‘‘
تیسرے نے لکھا کہ ’ہمیں تعلیمی نظام میں انقلاب کی ضرورت ہے۔ کیا کوئی اسٹارٹ اپ اچھے معیار کے تعلیمی نصاب کے ساتھ سستی قیمت کا ڈھانچہ لے کر آسکتا ہے؟ چوتھے صارف نے لکھا کہ ’میں نے اپنی انجینئرنگ اس سے بھی کم پیسے میں مکمل کی۔‘
مہاراشٹر: بھارت میں نرسری اسکول کے بچوں کو دیے گئے کھانے کے ایک پیکٹ سے مرا ہوا سانپ نکل آیا، جسے دیکھ کر بچوں کی چیخیں نکل گئیں۔
بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق پیر کے روز بھارتی اسکولوں میں ’مڈ ڈے میل‘ کے نام سے فراہم کیے جانے والے کھانے ایک بار پھر غیر معیاری نکلے ہیں، مغربی مہاراشٹر کے ضلع سانگلی میں ایک سرکاری نرسری اسکول میں بچوں کو دیے گئے کھانے کے پیکٹ سے مبینہ طور پر ایک چھوٹا مرا ہوا سانپ برآمد ہوا۔
کھانے کے پیکٹ سے سانپ برآمد ہونے پر اسکول میں افرا تفری پھیل گئی تھی، جس بچے کے پیکٹ سے سانپ نکلا تھا، اس کے والدین نے ریاست کی ایمپلائی یونین کو معاملے کی اطلاع دے دی جس کے بعد اس معاملے کی تحقیقات شروع کی گئی۔
ضلع افسران کا کہنا تھا کہ بچے کے والدین نے تصویر کھینچ کر سانپ کو پھینک دیا تھا، حکام نے مذکورہ پیکٹ سے کھانے کا نمونہ لے لیا ہے اور جانچ کے لیے تجربہ گاہ بھیجا گیا ہے۔
یونین کی نائب سربراہ آنندی بھوسلے کے مطابق مذکورہ پیکٹ میں دال کھچڑی ہوتی ہے، جو گزشتہ چھ ماہ سے 3 سالہ بچوں کو اسکولوں میں دیے جا رہے ہیں۔ حکام نے واقعے کا نوٹس لیا اور فوڈ سیکیورٹی کمیٹی کے افسران نے اسکول کا دورہ کیا۔
واقعے کے بعد اس گودام کو سیل کر دیا گیا جس میں کھانے کے پیکٹ رکھے جاتے تھے، آنندی بھوسلے نے دعویٰ کیا کہ کھانے کے پیکٹ کی فراہمی کے لیے ذمہ دار ٹھیکیدار کے بارے میں پہلے بھی شکایتیں ملی ہیں۔
ریاض: سعودی عرب کے مکہ کلاک رائل ٹاور میں بچوں کے لیے نرسری کھولی جائے گی جس کا مقصد یہ ہے کہ وہاں قیام کرنے والے والدین اپنے بچوں کو نرسری میں چھوڑ کر اطمینان سے عبادات کرسکیں۔
اردو نیوز کے مطابق سعودی عرب میں مکہ کلاک رائل ٹاور میں فیئر ماؤنٹ ہوٹل کے سی ای او کا کہنا ہے کہ ہوٹل میں رہنے والے عازمین حج اور عمرہ زائرین آئندہ رمضان 2023 سے بچوں کی دیکھ بھال کی سہولتوں سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔
عبد العزیز الموسیٰ کا کہنا ہے کہ فیئر ماؤنٹ ہوٹل عازمین حج اور عمرہ زائرین کے بچوں کی دیکھ بھال کے لیے ایک نرسری بنائے گا۔
انہوں نے کہا کہ پہلا مرحلہ اگلے سال شروع کیا جائے گا، ہوٹل میں 150 بچوں کی دیکھ بھال کی گنجائش ہوگی، دوسرا مرحلہ 2024 کے وسط میں شروع کیا جائے گا جب اس کی گنجائش 300 سے 500 بچوں تک بڑھ جائے گی۔
سی ای او کا کہنا ہے کہ اس انیشی ایٹو کی ضرورت ہے کیونکہ اس سے عازمین حج اور عمرہ زائرین اطمینان سے عبادت کر سکیں گے اور انہیں علم ہوگا کہ ان کے بچوں کی دیکھ بھال کی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ نرسری میں بچوں کا خیال رکھا جائے گا اور انہیں ان عبادات کے بارے میں بھی تعلیم دی جائے گی جو ان کے والدین انجام دے رہے تھے۔
عبد العزیز الموسیٰ کا کہنا ہے کہ ہائی ٹیک بریسلیٹ والدین کو اپنے بچوں کے بارے میں جاننے کی سہولت دے گا اور کیمرے بچوں کی دیکھ بھال کی سہولتوں کی نگرانی کریں گے۔
آسٹریلیا میں ایک خاتون اپنی 4 سالہ بچی کے پری اسکول کا شیڈول دیکھ کر چکرا گئیں، ننھی بچی کے کورس میں دنیا جہاں کے مشکل مضامین پڑھائے جارہے تھے جو اتنی عمر کے بچے کی ذہنی استعداد سے کہیں آگے کی شے تھے۔
سوشل میڈیا پر اپنی بچی کے اسکول کا شیڈول پوسٹ کرتے ہوئے ماں نے لکھا کہ آج صبح میں نے اپنی بچی کی استانی سے اس کی کارکردگی کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا کہ آپ کی بچی کی کارکردگی بہت مایوس کن ہے اور اسے چیزوں کو سیکھنے میں مشکل کا سامنا ہے۔
ماں نے کہا کہ میں نے ان سے پوچھا کہ کن مضامین میں؟ تو انہوں نے کہا کہ تمام مضامین میں۔ ماں کے مطابق بعد ازاں جب انہوں نے اپنی بچی کا شیڈول دیکھا تو وہ حیران رہ گئیں۔
سوشل میڈیا پر پوسٹ کیے گئے اس شیڈول میں دیکھا جاسکتا ہے کہ روزانہ صبح 7 سے شام ساڑھے 6 بجے تک 4 سال تک کی عمر کے بچوں کو ریاضی، انجینیئرنگ، تاریخ، کری ایٹو آرٹس، سائنس اور ٹیکنالوجی کے اسباق پڑھائے جارہے تھے۔
درمیان میں چائے، کھانے اور آرام کا بھی وقفہ تھا۔ اتنے ننھے بچوں کے شیڈول میں نیوز، لیٹرز اور بکلیٹ کا پیریڈ بھی تھا جبکہ بعد ازاں بحث و مباحثے کے لیے بھی وقت مختص کیا گیا تھا۔
ماں نے لکھا کہ کیا آسٹریلیا کے تمام پری اسکولز میں ایسا ہی پڑھایا جارہا ہے یا یہ صرف مجھے مضحکہ خیز لگ رہا ہے؟ اس میں کوئی حیرانی کی بات نہیں کہ میری بچی کی کارکردگی مایوس کن ہے۔
ان کی پوسٹ پر اسی اسکول کے دیگر والدین نے بھی کمنٹس کیے۔ ایک والدہ نے کہا کہ اسے دیکھ کر ایسا لگ رہا ہے جیسے یہ میرے بڑے بچے کے ہائی اسکول کا شیڈول ہے۔
ایک اور والد نے لکھا کہ اتنے ننھے بچوں کو اس قدر مشکل مضامین پڑھانے کے بجائے انہیں گھلنا ملنا، بات کرنا اور کھیلوں کے ذریعے سیکھنے کی عادت سکھانی چاہیئے تاکہ وہ اپنے اسکول کے ابتدائی سالوں سے لطف اندوز ہوسکیں۔
کراچی: شہر قائد میں مفتی تقی عثمانی کے قافلے پر نا معلوم افراد کے حملے میں مولانا عامر شہاب شدید زخمی ہوگئے، دو افراد جاں بحق ہوئے جبکہ مفتی تقی اس واقعے میں محفوظ رہے۔
تفصیلات کے مطابق یہ اندوہنا ک واقعہ آج کراچی کے علاقے نیپا چورنگی پر نماز جمعہ سے کچھ دیر قبل پیش آیا ۔ جب 2 موٹرسائیکلوں پر سوار 4 ملزمان نے گاڑیوں پر اندھا دھند فائرنگ کردی، ایڈیشنل آئی جی کراچی امیر شیخ کا کہنا ہے کہ واقعہ ایک ہی مقام پر پیش آیا۔
دوسری جانب انچارج سی ٹی ڈی راجہ عمر خطاب کا کہنا ہے کہ یہ دو الگ واقعات ہیں ۔ ایک واقعہ نیپا پر جبکہ دوسرا نرسری کے علاقے میں پیش آیا، تاہم وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ایک ہی گروپ کی کارروائی ہوسکتی ہے۔
مفتی تقی عثمانی اپنی اہلیہ اور دو پوتوں کے ہمراہ گلشن اقبال میں واقع مسجد بیت المکرم میں نماز جمعہ کا خطبہ دینےکے لیے جارہے تھے کہ یہ سانحہ رونما ہوا۔ سانحے میں مفتی شہاب کے بیٹے مولانا عامر شہاب اللہ شدید زخمی ہوئے ہیں جبکہ ان کے ہمراہ موجود سی ٹی ڈی گارڈ صنوبر خان موقع پر جاں بحق ہوگیا ہے۔
جناح اسپتال کی ڈائریکٹر ڈاکٹر سیمی جمالی نے تصدیق کی ہے کہ وہاں دو افراد کولایا گیا۔ صنوبر خان مردہ حالت میں اسپتال لائے گئے جبکہ مولانا عامر کی حالت بھی انتہائی تشویش ناک بتائی ہے۔ ڈاکٹر سیمی جمالی کا کہنا تھا کہ انہیں متعدد گولیاں لگی ہیں اور جناح اسپتال کے ڈاکٹر انہیں ہر ممکن ٹریٹمنٹ فراہم کررہے ہیں، فی الحال وہ آئی سی یو میں وینٹی لیٹر پر ہیں، تاہم ابھی بھی ان کی حالت خطرے میں ہے۔
دوسری جانب اسی قافلے کی ایک اور گاڑی جس میں مفتی تقی عثمانی موجود تھے ، اس میں موجود گارڈ بھی جاں بحق ہوگیا ہے جبکہ ڈرائیور زخمی ہے۔ ڈرائیور نے زخمی حالت میں ہی گاڑی کو نیشنل اسٹیڈیم کے قریب واقع لیاقت نیشنل اسپتال پہنچایا۔
مفتی تقی عثمانی نے اپنےبیان میں کہا ہے کہ چاروں طرف سے اندھا دھند فائرنگ ہورہی تھی ، لیکن خدا کو ان کی زندگی منظور تھی سو وہ محفوظ رہے۔
پولیس کے مطابق حملے میں نشانہ بننے والی گاڑی جس میں مولانا عامر شہاب اللہ موجود تھے اس کا نمبر اے ٹی ایف 908 ہے اور و ہ جامعہ دارالعلوم کراچی کے نام پررجسٹرڈ ہے۔ دوسری گاڑی جس میں مفتی تقی خود موجود تھے اس کا نمبر بی کے ای 748 بتایا گیا ہے، یہ گاڑی مفتی محمد تقی عثمانی کے نام پر رجسٹرڈ ہے۔
فرقہ واریت کی سازش نہیں لگتی، اے آئی جی کراچی
اس معاملے پر پولیس کے اعلیٰ حکام ایک دوسرے کے بیانات کی نفی کرتے ہوئے نظر آئے ۔ ایڈیشنل آئی جی کراچی امیر شیخ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ غلط ہے کہ دو واقعات ہوئے، ایک ہی واقعے میں 2 گاڑیاں نشانہ بنیں۔
انہوں نے کہا کہ دو موٹر سائیکلوں پر 4 دہشت گرد سوار تھے۔ مولانا تقی عثمانی کا ڈرائیور سرفراز بھی شدید زخمی ہے۔ فرقہ واریت کی سازش نہیں لگتی البتہ اس کا مقصد امن کو سبوتاژ کرنا ہوسکتا ہے۔ایڈیشنل آئی جی نے بھی بتایا کہ نائن ایم ایم کے 15 خول ملے ہیں۔ ’ہم تمام اداروں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں‘۔
واقعہ فرقہ وارانہ دہشت گردی لگتا ہے، انچارج سی ٹی ڈی
دوسری جانب سی ٹی ڈی کے انچارج عمر خطاب نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کے 2 واقعات ہوئے، ایک واقعہ نیپا اور دوسرا نرسری کے قریب ہوا۔ نیپا چورنگی واقعے میں سیکیورٹی گارڈ صنوبر خان جاں بحق ہوا جبکہ نرسری والے واقعے میں بھی ایک گارڈ جاں بحق ہوا۔
راجہ عمر خطاب کا کہنا ہے کہ مولانا عامر شہاب کی حالت تشویش ناک ہے، دونوں واقعات میں ٹیمیں الگ الگ تاہم گروپ ایک ہی ہے۔ پولیس نے نیپا کے قریب سے گولیوں کے 9 سے 10 خول جمع کرلیے۔انہوں نے کہا کہ واقعہ فرقہ وارانہ دہشت گردی لگتا ہے۔
وزیر اعظم کی مذمت
وزیراعظم عمران خان نے معروف عالم دین مفتی تقی عثمانی پرفائرنگ کی مذمت کرتے ہوئے ان کےسیکیورٹی گارڈز کے جاں بحق ہونے پر دکھ کا اظہا رکیا ہے۔
ان کا کہنا تھاکہ مفتی تقی عثمانی جیسےجیدعالم دین ملک اورعالم اسلام کا اثاثہ ہیں۔ صوبائی حکومتیں علمائےکرام کی سیکیورٹی یقینی بنائیں اور واقعے کے ذمہ داروں کو جلد از جلد قانون کی گرفت میں لایا جائے۔
سندھ حکومت حرکت میں
وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے آئی جی سندھ ڈاکٹر کلیم امام سےواقعے کی رپورٹ طلب کرتے ہوئے واقعے میں ملوث کرداروں کو جلد ازجلد کیفر کردار تک پہنچانے کی ہدایت کردی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے مساجد اور علمائے کرام کی سیکیورٹی بڑھانے کی بھی ہدایت کی ہے۔
اس موقع پر پیپلز پارٹی کے چیئر میں بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ کراچی میں پی ایس ایل کا کامیاب انعقاد دہشتگردوں سے برداشت نہ ہوا،واقعے میں ملوث ملزمان کو قانون کی گرفت میں لایا جائے۔حکومت سندھ امن و امان کے خلاف سازش کو آہنی ہاتھوں سے روکے۔کراچی میں امن کے لیے دی گئیں جانوں کی قربانیاں رائیگاں جانے نہیں دیں گے۔
مفتی تقی کے بھتیجے کا بیان
مفتی تقی عثمانی کے بھتیجے سعود عثمانی کا کہنا ہے کہ اللہ کاشکرہے کہ مفتی تقی عثمانی حملےمیں محفوظ رہے۔فائرنگ سےمفتی صاحب کامحافظ شہیدہوگیا،ڈرائیورزخمی ہے،ڈرائیورزخمی حالت گاڑی اس جگہ سےنکالنے میں کامیاب رہا۔گاڑی میں مفتی تقی عثمانی،ان کی اہلیہ اورپوتےپوتیاں موجودتھے۔شیشےکےٹکڑوں سے بچوں کو معمولی زخم آئے ہیں۔
مفتی تقی عثمانی کون ہیں؟
مفتی محمد تقی عثمانی عالم اسلام کے مشہور عالم اور جید فقیہ ہیں۔ آپ کا شمار عالم اسلام کی چند چوٹی کی علمی شخصیات میں ہوتا ہے۔آپ 1980ء سے 1982ء تک وفاقی شرعی عدالت اور 1982ء سے 2002ء تک عدالت عظمیٰ پاکستان کے شریعت ایپلیٹ بینچ کے جج رہے ہیں۔
آپ اسلامی فقہ اکیڈمی، جدہ کے نائب صدر اور جامعہ دارلعلوم، کراچی کے نائب مہتمم بھی ہیں۔ اس کے علاوہ آپ آٹھ اسلامی بینکوں میں بحیثیت مشیر کام کر رہے ہیں۔
مفتی محمد تقی احمد عثمانی 27 اکتوبر 1943ء کو ہندوستان کے صوبہ اترپردیش کے ضلع سہارنپور کے مشہور قصبہ دیوبند میں پیدا ہوئے۔ آپ تحریک پاکستان کے کارکن اور مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع عثمانی کے سب سے چھوٹے فرزند اور موجودہ مفتی اعظم پاکستان مفتی رفیع عثمانی کے چھوٹے بھائی ہیں۔
آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم مرکزی جامع مسجد تھانوی جیکب لائن کراچی میں حضرت مولانا احتشام الحق تھانوی صاحب کے قائم کردہ مدرسۂ اشرفیہ میں حاصل کی اور پھر آپ نے اپنے والد بزرگوار کی نگرانی میں دار العلوم کراچی سے درس نظامی کی تعلیم مکمل کی جس کے بعد 1961 میں اسی ادارے سے ہی فقہ میں تخصص کیا۔
بعد ازاں جامعہ پنجاب میں عربی ادب میں ماسٹرز اور جامعہ کراچی سے وکالت کا امتحان نمایاں نمبروں سے پاس کیا۔