Tag: نرگس دت

  • نرگس کا تذکرہ جنھیں ‘مدر انڈیا’ نے لازوال شہرت ہی نہیں وفادار جیون ساتھی بھی دیا!

    نرگس کا تذکرہ جنھیں ‘مدر انڈیا’ نے لازوال شہرت ہی نہیں وفادار جیون ساتھی بھی دیا!

    فلم ‘راکی’ کی نمائش 7 مئی 1981ء کو ہونا تھی اور کینسر کے مرض میں مبتلا نرگس دَت اپنے بیٹے کی پہلی فلم کے پریمیئیر میں ہرحالت میں‌ شرکت کرنا چاہتی تھیں‌، لیکن اجل نے انھیں مہلت نہیں دی۔ 3 مئی کو نرگس کا انتقال ہوگیا۔

    بولی وڈ اداکارہ نرگس دَت اپنے ایک مضمون میں لکھتی ہیں، "مجھے اپنی زندگی میں‌ ہمیشہ اطمینان رہا کیوں کہ جس چیز کی میں نے خواہش کی وہ حاصل ہوگئی۔ میں نے زندگی کے مختلف روپ دیکھے ہیں اور طرح طرح کے تجربات جمع کیے ہیں۔ غم اور خوشی دونوں کو میں نے پرکھا ہے اور اس سے مجھ میں‌ حیات کا عرفان پیدا ہوا ہے۔ جب زمانے کے ستائے اور درد کے ماروں سے واسطہ پڑا تو ان سے میں نے یہ سیکھا کہ مشکلات اور مصائب کا سامنا کس پامردی سے کیا جاتا ہے۔ لیکن اس کے لیے اپنے اندر بھی ایک روحانی طاقت کا پایا جانا شرط ہے۔ اور یہ روحانی طاقت یقیناً اپنی ماں سے مجھے ورثہ میں‌ ملی ہے جس نے میرے ذہن و مزاج کی تشکیل میں ایک اہم کردار ادا کیا اور مجھے اس قابل بنایا کہ میں ایک بامقصد اور کام یاب زندگی گزار سکوں۔

    نرگس کا اصل نام فاطمہ رشید تھا جو سنیل دَت کی شریکِ سفر بنیں۔ سنیل دت بولی وڈ میں اداکاری کے ساتھ فلم ساز اور ہدایت کار کے طور پر بھی مشہور ہوئے۔ نرگس تو ڈاکٹر بننا چاہتی تھیں، لیکن فلمی دنیا نے انھیں یہ موقع نہیں دیا۔ وہ پہلی فلم کے بعد چاہتے ہوئے بھی آفرز پر انکار نہ کرسکیں۔ لیکن بعد میں انھوں‌ نے سیاست کی دنیا میں‌ ضرور قدم رکھا اور اپنی وفات تک راجیہ سبھا کی رکن رہیں۔

    نرگس اپنے ایک مضمون میں رقم طراز ہیں: قسمت کے فیصلے بھی عجیب ہوتے ہیں۔ میں نے ہمیشہ شدّت سے چاہا تھا کہ ڈاکٹر بنوں لیکن فلم تقدیر کے بعد پانسے ہی پلٹ گئے۔ یکے بعد دیگرے میری فلمیں کام یاب ہوتی گئیں اور ڈاکٹر بننے کا پھر کبھی خیال نہیں‌ آیا، کیوں‌ کہ ایک اداکارہ جنم لے چکی تھی جو تیزی سے سرگرمِ سفر تھی۔

    نرگس دَت کی فلموں میں آمد، حسن و جمال اور ذاتی زندگی پر فلموں سے وابستہ کئی بڑے ناموں اور اہلِ قلم نے مضامین اور کتابیں‌ لکھیں۔ انہی میں اردو کے ممتاز ترقی پسند شاعر اور مصنّف علی سردار جعفری بھی شامل ہیں۔ علی سردار جعفری لکھتے ہیں‌، نرگس دَت موسمِ بہار کی کلی تھی۔ شہرت اور مقبولیت کی ایک خرابی بتاتے ہوئے مصنّف نے فلمی ستاروں‌ کے بارے میں لکھا، وہ اپنا توازن کھو دیتے ہیں اور فن اور زندگی کے دوسرے شعبوں کی بڑی ہستیوں کو خاطر میں نہیں لاتے اور جب ان کے عروج کا زمانہ ختم ہو جاتا ہے تو احساسِ کمتری میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ لیکن نرگس کا مزاج یہ نہیں تھا۔ اس نے اپنی انتہائی مقبولیت کے زمانے میں بھی اپنے ذہنی توازن کو برقرار رکھا اور اپنی شخصیت کے وقار کو باقی رکھا۔

    آج نرگس دَت کا یومِ‌ وفات ہے اور ہندی سنیما کی یہ معروف فن کار فلم انڈسٹری میں صرف نرگس کے نام سے پہچانی گئیں۔ یکم جون 1929 کو نرگس کلکتہ میں پیدا ہوئی تھیں۔ نرگس چھے سات برس کی تھیں‌ جب بطور چائلڈ آرٹسٹ کیمرے کا سامنا کیا اور وہ فلم ’’تلاشِ حق‘‘ تھی۔ نرگس کی ماں کا نام جدن بائی تھا جو کلاسیکی موسیقار اور گلوکار تھیں اور ان کا تعلق بنارس کے ایک خاندان سے تھا جب کہ والد موہن چند ایک امیر خاندان کے فرد تھے اور کہا جاتا ہے کہ وہ ایک نو مسلم تھے۔ نرگس کو 14 سال کی عمر میں محبوب خان کی فلم ’’تقدیر‘‘ میں بطور ہیروئن کام کرنے کا موقع ملا اور ان کی جوڑی راج کپور اور دلیپ کمار کے ساتھ آنے والے برسوں‌ میں بے حد مقبول ہوئی۔ راج کپور اور دلیپ کمار دونوں‌ ہی اپنے دور کے مقبول ہیرو تھے۔ نرگس نے ان کے ساتھ فلم’’ انداز‘‘، ’’آوارہ‘‘ اور ’’چوری چوری‘‘ میں بہترین اداکاری کی۔ مگر ان کا کیریئر 1942ء میں فلم “تمنا“ سے شروع ہوتا ہے۔ اداکارہ نرگس نے زیادہ تر خودمختار اور آزاد عورت کے کردار نبھائے اور اپنے فنِ اداکاری کے سبب ہدایت کاروں میں اہمیت حاصل کی۔ آدھی رات (1950ء)، بے وفا (1952ء)، انہونی (1952ء)، آہ (1953ء) اور دیگر فلموں میں ان کی اداکاری کو شائقین نے بہت پسند کیا۔ ایک وقت تھا جب وہ راج کپور جیسے بڑے ہندوستانی فن کار کے قریب ہوگئی تھیں‌، لیکن پھر ان میں‌ اَن بَن ہوگئی اور نرگس نے اپنے کیریئر کو آگے بڑھانے پر توجہ مرکوز کردی تاہم یہی وہ موڑ بھی تھا جس نے نرگس کو سنیل دت کی محبّت میں مبتلا کر دیا۔ نرگس نے راج کپور سے علیحدگی کے بعد پہلی فلم مدر انڈیا سائن کی تھی۔ اس فلم میں نرگس نے اپنی زندگی کی بہترین اداکاری کی۔ یہ فلم ایک عورت کی نوجوان بیوی سے بڑھاپے تک کے سفر کی کہانی ہے، جس میں رومانس تو ہے ہی لیکن ساتھ ساتھ عورت کی استقامت بھی بیان کی گئی ہے جس میں ایک ماں اپنے ہی بیٹے کو گولی مارنے سے گریز نہیں کرتی۔ اس فلم نے انھیں‌ ملک گیر شہرت دی اور مدر انڈیا کے بعد نرگس کے لیے ہر کردار چھوٹا ہو گیا۔ یہ ہندوستانی سنیما کی شاہ کار فلموں میں سے ایک تھی۔ اسی فلم میں‌ سنیل دت نے بھی کردار نبھایا تھا اور وہ دونوں ایک دوسرے کے قریب آئے۔

    اس فلم کی زیادہ تر شوٹنگ مہاراشٹرا اور گجرات میں کی گئی تھی اور اسی دوران ایک حادثہ انھیں قریب لے آیا۔ گجرات میں مدر انڈیا کے ایک سین میں بھوسے کے ڈھیر کو آگ لگائی جانی تھی جس میں‌ چھپے سنیل دت باہر آتے۔ اس موقع پر نرگس جلتے ہوئے بھوسے کے ڈھیر سے گزر رہی تھیں تو شعلوں میں پھنس گئیں۔ سنیل دت نے یہ دیکھا تو شعلوں‌ میں‌ کود کر نرگس کو بچا لیا۔ وہ اس دوران خود بھی جل گئے تھے۔ نرگس اسپتال میں ان کے ساتھ رہیں اور بہت خیال رکھا۔ بعد میں سنیل دت نے انھیں شادی کی پیشکش کی اور پھر دونوں نے زندگی بھر ایک دوسرے کا ساتھ نبھایا۔ اداکار سنجے دت انہی کی اولاد ہیں۔

    شادی کے بعد اداکارہ نرگس نے فلموں میں کام کرنا چھوڑ دیا اور اپنا رخ سماجی کاموں کی طرف کرلیا۔ نرگس نے ایک اچھی بیوی کی طرح نہ صرف سنیل دت کو سنبھالا بلکہ ان کے خاندان کو بھی ایک کیے رکھا۔ وہ سیاست کی دنیا میں بھی سرگرم ہوئیں اور نرگس کو راجیا سبھا کے لیے نامزد کیا گیا۔

    علی سردار جعفری لکھتے ہیں، نرگس کے چہرے میں وہ چیز نہیں تھی جس کو عام فلمی زبان میں گلیمر (GLAMOUR) کہا جاتا ہے۔ اس کی پوری شخصیت میں ایک سنجیدگی اور وقار تھا جس کی وجہ سے لوگ احترام کرنے پر مجبور ہو جاتے تھے۔ نرگس کے فن کے پرستاروں میں جواہر لال نہرو اور ترکی کے شاعر ناظم حکمت جیسی عظیم شخصیتیں تھیں۔

    میں نے نرگس کو ایک اچھی اداکارہ کی حیثیت سے سب سے پہلے قریب سے احمد عباس کی فلم ‘انہونی’ میں دیکھا جس کا ایک گیت "دل شاد بھی ہے ناشاد بھی ہے” میں نے لکھا تھا۔ اس میں نرگس کا رول دہرا تھا اور اس نے اپنے فن کے کمال کا پہلا بڑا مظاہرہ کیا تھا۔ اس نے دو لڑکیوں کا کردار ادا کیا تھا جن میں سے ایک "شریف زادی” ہے اور دوسری "طوائف”۔ خواجہ احمد عباس نے اس کہانی میں ماحول کے اثر پر زور دیا تھا۔ یہ فلم عباس کی بہترین فلموں میں شمار کی جاتی ہے۔ اور اس کا شمار نرگس کی بھی بہترین فلموں میں کیا جائے گا۔

    نرگس کے فن میں کیا جادو تھا اس کا مظاہرہ میں نے 1953ء میں دیکھا۔ اکتوبر یا نومبر 1953ء میں پہلا فلمی ڈیلیگیشن ہندوستان سے سوویت یونین گیا۔ ڈیلیگیشن کے لیڈر خواجہ احمد عباس تھے۔ اور اراکین میں بمل رائے، راج کپور، نرگس بلراج ساہنی وغیرہ تھے۔ وہاں راج کپور کی فلم ‘آوارہ’ دکھائی گئی جس کی کہانی خواجہ احمد عباس نے لکھی تھی۔ اس فلم نے سارے سوویت یونین کا دل جیت لیا۔ راج کپور اور نرگس، نرگس اور راج کپور۔ یہ دو نام ہر دل کے ساتھ دھڑک رہے تھے۔ اور ہر طرف فلم کا گانا ‘آوارہ ہوں…ٔ گایا جا رہا تھا۔

    جب میں دسمبر 1953ء میں سوویت یونین گیا تو لوگ مجھ سے پوچھتے تھے آپ نرگس کو جانتے ہیں۔ آپ راجک پور سے ملے ہیں؟ اور جب میں ہاں کہتا تو ان کی نظروں میں میرا وقار بڑھ جاتا تھا۔ ابھی دو تین ماہ پہلے جب میں سوویت یونین گیا تو تقریباً تیس سال بعد بھی نئی نسل کے نوجوان نرگس کے نام سے واقف تھے۔

    نرگس کی آخری اور شاہ کار فلم ‘مدر انڈیا’ ہے۔ اس میں نرگس کے فن نے اپنی آخری بلندیوں کو چھو لیا ہے۔ ماں کے کردار کے لیے محبوب خاں کی نگاہِ انتخاب نرگس پر پڑی اور وہ سب سے زیادہ صحیح انتخاب تھا۔ اور نرگس نے بھی کمال کر دیا۔ اپنی معراج پر پہنچنے کے بعد نرگس نے فلمی کام ہمیشہ کے لیے ترک کر دیا۔ اس فیصلے میں بھی نرگس کی عظمت جھلکتی ہے۔ وہ چیز جس کو "موہ مایا” کہا جاتا ہے نرگس اس سے بہت بلند تھی۔

    علی سردار جعفری کے مضمون کا یہ آخری پارہ ہے جس میں انھوں نے نرگس اور سنیل دت کی جوڑی کی تعریف کی ہے، وہ لکھتے ہیں: مدر انڈیا نے نرگس کو عظمت کی جو بلندی عطا کی اس کے ساتھ ایک وفادار اور محبت کرنے والا شوہر بھی دیا۔ نرگس کی بیماری کے آخری زمانے میں سنیل دَت نے جس طرح اپنے تن من دھن کے ساتھ نرگس کی خدمت کی ہے اس کی تعریف کرنے کے لیے ہماری زبان میں الفاظ نہیں ہیں۔ نرگس اور سنیل دَت کا فن ان کے بیٹے کو ورثے میں ملا ہے اور اگر سنجے دَت نے اپنی اس وراثت کا احترام کیا تو ایک دن وہ بھی عظمت کی بلندیوں کو چُھو لے گا۔

  • نرگس میں وہ چیز نہیں تھی جسے عام فلمی زبان میں گلیمر کہتے ہیں!

    نرگس میں وہ چیز نہیں تھی جسے عام فلمی زبان میں گلیمر کہتے ہیں!

    ممتاز ترقی پسند شاعر اور مصنّف علی سردار جعفری اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں‌ کہ نرگس دَت موسمِ بہار کی کلی تھی۔ شہرت اور مقبولیت کی ایک خرابی بتاتے ہوئے انھوں نے فلمی ستاروں‌ کے بارے میں لکھا، وہ اپنا توازن کھو دیتے ہیں اور فن اور زندگی کے دوسرے شعبوں کی بڑی ہستیوں کو خاطر میں نہیں لاتے اور جب ان کے عروج کا زمانہ ختم ہو جاتا ہے تو احساسِ کمتری میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ لیکن نرگس کا مزاج یہ نہیں تھا۔ اس نے اپنی انتہائی مقبولیت کے زمانے میں بھی اپنے ذہنی توازن کو برقرار رکھا اور اپنی شخصیت کے وقار کو باقی رکھا۔ آج اسی نرگس دَت کا یومِ‌ وفات ہے جن کا اصل نام فاطمہ رشید تھا۔

    ہندی سنیما کی یہ معروف فن کار فلم انڈسٹری میں نرگس کے نام سے پہچانی گئیں۔ وہ یکم جون 1929 کو کلکتہ میں پیدا ہوئی تھیں۔ نرگس چھے سات برس کی تھیں‌ جب بطور چائلڈ آرٹسٹ کیمرے کا سامنا کیا اور وہ فلم ’’تلاشِ حق‘‘ تھی۔ نرگس کی ماں کا نام جدن بائی تھا جو کلاسیکی موسیقار اور گلوکار تھیں اور ان کا تعلق بنارس کے ایک خاندان سے تھا جب کہ والد موہن چند ایک امیر خاندان کے فرد تھے اور کہا جاتا ہے کہ وہ ایک نو مسلم تھے۔ نرگس کو 14 سال کی عمر میں محبوب خان کی فلم ’’تقدیر‘‘ میں بطور ہیروئن کام کرنے کا موقع ملا اور ان کی جوڑی راج کپور اور دلیپ کمار کے ساتھ آنے والے برسوں‌ میں بے حد مقبول ہوئی۔ راج کپور اور دلیپ کمار دونوں‌ ہی اپنے دور کے مقبول ہیرو تھے۔ نرگس نے ان کے ساتھ فلم’’ انداز‘‘، ’’آوارہ‘‘ اور ’’چوری چوری‘‘ میں بہترین اداکاری کی۔ مگر ان کا کیریئر 1942ء میں فلم “تمنا“ سے شروع ہوتا ہے۔ اداکارہ نرگس نے زیادہ تر خودمختار اور آزاد عورت کے کردار نبھائے اور اپنے فنِ اداکاری کے سبب ہدایت کاروں میں اہمیت حاصل کی۔ آدھی رات (1950ء)، بے وفا (1952ء)، انہونی (1952ء)، آہ (1953ء) اور دیگر فلموں میں ان کی اداکاری کو شائقین نے بہت پسند کیا۔ ایک وقت تھا جب وہ راج کپور جیسے بڑے ہندوستانی فن کار کے قریب ہوگئی تھیں‌، لیکن پھر ان میں‌ ان بن ہوگئی اور نرگس نے اپنے کیریئر کو آگے بڑھانے پر توجہ مرکوز کردی تاہم یہی وہ موڑ بھی تھا جس نے نرگس کو سنیل دت کی محبّت میں مبتلا کردیا۔ نرگس نے راج کپور سے علیحدگی کے بعد پہلی فلم مدر انڈیا سائن کی تھی۔ اس فلم میں نرگس نے اپنی زندگی کی بہترین اداکاری کی۔ یہ فلم ایک عورت کی نوجوان بیوی سے بڑھاپے تک کے سفر کی کہانی ہے، جس میں رومانس تو ہے ہی لیکن ساتھ ساتھ عورت کی استقامت بھی بیان کی گئی ہے جس میں ایک ماں اپنے ہی بیٹے کو گولی مارنے سے گریز نہیں کرتی۔ اس فلم نے انھیں‌ ملک گیر شہرت دی اور مدر انڈیا کے بعد نرگس کے لیے ہر کردار چھوٹا ہو گیا۔ یہ ہندوستانی سنیما کی شاہ کار فلموں میں سے ایک تھی۔ اسی فلم میں‌ سنیل دت نے بھی کردار نبھایا تھا اور وہ دونوں ایک دوسرے کے قریب آئے۔

    اس فلم کی زیادہ تر شوٹنگ مہاراشٹرا اور گجرات میں کی گئی تھی اور اسی دوران ایک حادثہ انھیں قریب لے آیا۔ گجرات میں مدر انڈیا کے ایک سین میں بھوسے کے ڈھیر کو آگ لگائی جانی تھی جس میں‌ چھپے سنیل دت باہر آتے۔ اس موقع پر نرگس جلتے ہوئے بھوسے کے ڈھیر سے گزر رہی تھیں تو شعلوں میں پھنس گئیں۔ سنیل دت نے یہ دیکھا تو شعلوں‌ میں‌ کود کر نرگس کو بچا لیا۔ وہ اس دوران خود بھی جل گئے تھے۔ نرگس اسپتال میں ان کے ساتھ رہیں اور بہت خیال رکھا۔ بعد میں سنیل دت نے انھیں شادی کی پیشکش کی اور پھر دونوں نے زندگی بھر ایک دوسرے کا ساتھ نبھایا۔ اداکار سنجے دت انہی کی اولاد ہیں۔

    شادی کے بعد اداکارہ نرگس نے فلموں میں کام کرنا چھوڑ دیا اور اپنا رخ سماجی کاموں کی طرف کرلیا۔ نرگس نے ایک اچھی بیوی کی طرح نہ صرف سنیل دت کو سنبھالا بلکہ ان کے خاندان کو بھی ایک کیے رکھا۔ وہ سیاست کی دنیا میں بھی سرگرم ہوئیں اور نرگس کو راجیا سبھا کے لیے نامزد کیا گیا تھا۔ نرگس کو کینسر کا مرض لاحق ہو گیا تھا اور پھر 1981ء میں آج ہی کے دن وہ اس دنیا سے ہمیشہ کے لیے چلی گئیں۔

    علی سردار جعفری لکھتے ہیں، نرگس کے چہرے میں وہ چیز نہیں تھی جس کو عام فلمی زبان میں گلیمر (GLAMOUR) کہا جاتا ہے۔ اس کی پوری شخصیت میں ایک سنجیدگی اور وقار تھا جس کی وجہ سے لوگ احترام کرنے پر مجبور ہو جاتے تھے۔ نرگس کے فن کے پرستاروں میں جواہر لال نہرو اور ترکی کے شاعر ناظم حکمت جیسی عظیم شخصیتیں تھیں۔

    میں نے نرگس کو ایک اچھی اداکارہ کی حیثیت سے سب سے پہلے قریب سے احمد عباس کی فلم ‘انہونی’ میں دیکھا جس کا ایک گیت "دل شاد بھی ہے ناشاد بھی ہے” میں نے لکھا تھا۔ اس میں نرگس کا رول دہرا تھا اور اس نے اپنے فن کے کمال کا پہلا بڑا مظاہرہ کیا تھا۔ اس نے دو لڑکیوں کا کردار ادا کیا تھا جن میں سے ایک "شریف زادی” ہے اور دوسری "طوائف”۔ خواجہ احمد عباس نے اس کہانی میں ماحول کے اثر پر زور دیا تھا۔ یہ فلم عباس کی بہترین فلموں میں شمار کی جاتی ہے۔ اور اس کا شمار نرگس کی بھی بہترین فلموں میں کیا جائے گا۔

    نرگس کے فن میں کیا جادو تھا اس کا مظاہرہ میں نے 1953ء میں دیکھا۔ اکتوبر یا نومبر 1953ء میں پہلا فلمی ڈیلیگیشن ہندوستان سے سوویت یونین گیا۔ ڈیلیگیشن کے لیڈر خواجہ احمد عباس تھے۔ اور اراکین میں بمل رائے، راج کپور، نرگس بلراج ساہنی وغیرہ تھے۔ وہاں راج کپور کی فلم ‘آوارہ’ دکھائی گئی جس کی کہانی خواجہ احمد عباس نے لکھی تھی۔ اس فلم نے سارے سوویت یونین کا دل جیت لیا۔ راج کپور اور نرگس، نرگس اور راج کپور۔ یہ دو نام ہر دل کے ساتھ دھڑک رہے تھے۔ اور ہر طرف فلم کا گانا ‘آوارہ ہوں…ٔ گایا جا رہا تھا۔

    جب میں دسمبر 1953ء میں سوویت یونین گیا تو لوگ مجھ سے پوچھتے تھے آپ نرگس کو جانتے ہیں۔ آپ راجک پور سے ملے ہیں؟ اور جب میں ہاں کہتا تو ان کی نظروں میں میرا وقار بڑھ جاتا تھا۔ ابھی دو تین ماہ پہلے جب میں سوویت یونین گیا تو تقریباً تیس سال بعد بھی نئی نسل کے نوجوان نرگس کے نام سے واقف تھے۔

    نرگس کی آخری اور شہکار فلم ‘مدر انڈیا’ ہے۔ اس میں نرگس کے فن نے اپنی آخری بلندیوں کو چھو لیا ہے۔ ماں کے کردار کے لیے محبوب خاں کی نگاہِ انتخاب نرگس پر پڑی اور وہ سب سے زیادہ صحیح انتخاب تھا۔ اور نرگس نے بھی کمال کر دیا۔ اپنی معراج پر پہنچنے کے بعد نرگس نے فلمی کام ہمیشہ کے لیے ترک کر دیا۔ اس فیصلے میں بھی نرگس کی عظمت جھلکتی ہے۔ وہ چیز جس کو "موہ مایا” کہا جاتا ہے نرگس اس سے بہت بلند تھی۔

    علی سردار جعفری کے مضمون کا یہ آخری پارہ ہے جس میں انھوں نے نرگس اور سنیل دت کی جوڑی کی تعریف کی ہے، وہ لکھتے ہیں: مدر انڈیا نے نرگس کو عظمت کی جو بلندی عطا کی اس کے ساتھ ایک وفادار اور محبت کرنے والا شوہر بھی دیا۔ نرگس کی بیماری کے آخری زمانے میں سنیل دَت نے جس طرح اپنے تن من دھن کے ساتھ نرگس کی خدمت کی ہے اس کی تعریف کرنے کے لیے ہماری زبان میں الفاظ نہیں ہیں۔ نرگس اور سنیل دَت کا فن ان کے بیٹے کو ورثے میں ملا ہے اور اگر سنجے دَت نے اپنی اس وراثت کا احترام کیا تو ایک دن وہ بھی عظمت کی بلندیوں کو چُھو لے گا۔

  • نرگس موسمِ بہار کی کلی تھی!

    نرگس موسمِ بہار کی کلی تھی!

    ہر عہد جو دس، بیس، تیس سال پر محیط ہوتا ہے اپنا الگ موسم رکھتا ہے۔

    کسی عہد پر بہار کی حکومت ہوتی ہے اور کسی عہد پر خزاں کا راج ہوتا ہے۔ اور اس کے اثرات زندگی کے ہر شعبے میں نظر آتے ہیں۔ کسی عہد میں دیو زاد ہستیاں ابھرتی ہیں اور کسی عہد میں بونے پیدا ہوتے ہیں اور دوسرے تیسرے درجہ کے لوگ اپنی بڑائی کی ڈینگ ہانکتے رہتے ہیں۔ نرگس موسمِ بہار کی کلی تھی۔

    یہ وہ عہد تھا جس میں سیاست کی دنیا پر مہاتما گاندھی، جواہر لال نہرو، مولانا ابوالکلام آزاد جیسی شخصیتوں کا سایہ تھا۔ ادب میں ٹیگور اور اقبال کے انتقال کے بعد بھی انہیں کی حکم رانی تھی اور جوش ملیح آبادی کا جاہ و جلال تھا۔ فلمی دنیا کے ڈائریکٹروں اور پروڈیوسروں میں محبوب خاں اور شانتا رام کا سکہ چلتا تھا۔ ان کے بعد والی نسل میں جو نرگس کی ہم عمر تھی راج کپور، دلیپ کمار اور گرو دَت جیسے فن کار تھے اور ان کے پیش رو سہگل، پرتھوی راج اور اشوک کمار تھے۔

    نرگس کی ہم عمر ہیروئنوں میں مینا کماری جیسی باکمال اور وجنتی مالا جیسی دلنواز ہستیاں تھیں۔ ستاروں کے اس خوب صورت جھرمٹ میں نرگس اپنے نور کے ساتھ جگمگا رہی تھی۔ نرگس کے چہرے میں وہ چیز نہیں تھی جس کو عام فلمی زبان میں گلیمر (GLAMOUR) کہا جاتا ہے۔ اس کی پوری شخصیت میں ایک سنجیدگی اور وقار تھا جس کی وجہ سے لوگ احترام کرنے پر مجبور ہو جاتے تھے۔ نرگس کے فن کے پرستاروں میں جواہر لال نہرو اور ترکی کے شاعر ناظم حکمت جیسی عظیم شخصیتیں تھیں۔

    میں نے نرگس کو سب سے پہلے اس عمر میں دیکھا تھا جب یہ کہنا مشکل تھا کہ وہ فن کی اُن بلندیوں کو چُھوئے گی جن کی حسرت میں نہ جانے کتنے فن کار اپنی عمریں گنوا دیتے ہیں۔

    1942ء میں جب میں بمبئی آیا تھا تو دو تین سال کے اندر نرگس کی والدہ جدن بائی کا نام سنا۔ وہ مرین ڈرائیو کے ایک فلیٹ میں رہتی تھیں اور مجھے کئی بار جوش ملیح آبادی کے ساتھ شیٹو ونڈسر میں جانے کا موقع ملا۔ جدن بائی خود ایک باوقار شخصیت کی مالک تھیں اور ان کی زندگی میں ایک خاص قسم کا رکھ رکھاؤ تھا۔ ورنہ جوش ملیح آبادی جیسا تنک مزاج اور بلند مرتبہ شاعر وہاں ہرگز نہ جاتا۔ میں نے وہاں نرگس کو کم عمری کے عالم میں دیکھا تھا۔

    وہ زمانہ ترقی پسند تحریک کے شباب کا زمانہ تھا اور جدن بائی بھی اکثر نرگس کے ساتھ ہمارے جلسوں میں شریک ہوتی تھیں۔ اس زمانے کی ایک تصویر میرے پاس تھی جس میں جدن بائی اور نرگس بیٹھی ہوئی سجاد ظہیر کی تقریر سن رہی ہیں۔ ہم ترقی پسند مشاعروں اور جلسوں کے لیے جدن بائی سے چندہ بھی حاصل کرتے تھے۔ 1947ء سے پہلے بمبئی کی ایک پنجاب ایسوسی ایشن ہر سال یومِ اقبال مناتی تھی۔ نرگس جدن بائی کے ساتھ ان جلسوں میں بھی شریک ہوتی تھی۔ فلمی زندگی کی مصروفیات کے باوجود ادب اور شاعری کا یہ ذوق نرگس میں آخر وقت تک باقی رہا۔

    میں نے نرگس کو ایک اچھی اداکارہ کی حیثیت سے سب سے پہلے قریب سے احمد عباس کی فلم ‘انہونی’ میں دیکھا جس کا ایک گیت "دل شاد بھی ہے ناشاد بھی ہے” میں نے لکھا تھا۔ اس میں نرگس کا رول دہرا تھا اور اس نے اپنے فن کے کمال کا پہلا بڑا مظاہرہ کیا تھا۔ اس نے دو لڑکیوں کا کردار ادا کیا تھا جن میں سے ایک "شریف زادی” ہے اور دوسری "طوائف”۔ خواجہ احمد عباس نے اس کہانی میں ماحول کے اثر پر زور دیا تھا۔ یہ فلم عباس کی بہترین فلموں میں شمار کی جاتی ہے۔ اور اس کا شمار نرگس کی بھی بہترین فلموں میں کیا جائے گا۔

    نرگس کے فن میں کیا جادو تھا اس کا مظاہرہ میں نے 1953ء میں دیکھا۔ اکتوبر یا نومبر 1953ء میں پہلا فلمی ڈیلیگیشن ہندوستان سے سوویت یونین گیا۔ ڈیلیگیشن کے لیڈر خواجہ احمد عباس تھے۔ اور اراکین میں بمل رائے، راج کپور، نرگس بلراج ساہنی وغیرہ تھے۔ وہاں راج کپور کی فلم ‘آوارہ’ دکھائی گئی جس کی کہانی خواجہ احمد عباس نے لکھی تھی۔ اس فلم نے سارے سوویت یونین کا دل جیت لیا۔ راج کپور اور نرگس، نرگس اور راج کپور۔ یہ دو نام ہر دل کے ساتھ دھڑک رہے تھے۔ اور ہر طرف فلم کا گانا ‘آوارہ ہوں…ٔ گایا جا رہا تھا۔

    جب میں دسمبر 1953ء میں سوویت یونین گیا تو لوگ مجھ سے پوچھتے تھے آپ نرگس کو جانتے ہیں۔ آپ راجک پور سے ملے ہیں؟ اور جب میں ہاں کہتا تو ان کی نظروں میں میرا وقار بڑھ جاتا تھا۔ ابھی دو تین ماہ پہلے جب میں سوویت یونین گیا تو تقریباً تیس سال بعد بھی نئی نسل کے نوجوان نرگس کے نام سے واقف تھے۔

    ایک روز دسمبر 1953ء میں، مَیں ماسکو کے ایک ہوٹل میں چلی کے شاعر پابلو نرودا، ترکی کے شاعر ناظم حکمت، سویت ادیب ایلیا اہرن برگ اور میکسیکو کے ناول نگار امارد کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ دورانِ گفتگو "آوارہ” کا ذکر آیا۔ ناظم حکمت جو ایک صوفے پر لیٹا ہوا تھا ایک دم سے اٹھ کر بیٹھ گیا اور کہنے لگا کہ اتنی خوب صورت لڑکی اس سے پہلے اسکرین پر نہیں آئی تھی۔ میں حیران رہ گیا کہ نرگس کے سادہ اور پُر وقار چہرے میں وہ کون سا حُسن آگیا جس نے ناظم حکمت کو تڑپا دیا اور سوویت یونین کے نوجوانوں کو دیوانہ کر دیا۔ یہ اس کے فن کا حُسن تھا جس نے اس کی پوری شخصیت کو بدل دیا تھا۔ اور چہرے کو وہ تاب ناکی دے دی تھی جو صرف عظیم فن کاروں کو فطرت کی طرف سے عطیہ کے طور پر ملتی ہے۔ نرگس کو جو مقبولیت سوویت یونین میں ملی، وہی مقبولیت ہندوستان میں بھی حاصل تھی لیکن یہ سستی قسم کی فلمی مقبولیت نہیں تھی۔ لوگوں کی نظروں میں نرگس کا احترام تھا۔

    فلمی دنیا بڑی حد تک نمائشی ہے جس کو شو بزنس کہا جاتا ہے اور اپنی مقبولیت کے زمانے میں بہت سے فلمی ستاروں کو اس بات کا اندازہ نہیں رہ جاتا کہ ان کی مقبولیت میں نمائش کا کتنا بڑا ہاتھ ہے۔ اور وہ اپنا توازن کھو دیتے ہیں اور فن اور زندگی کے دوسرے شعبوں کی بڑی ہستیوں کو خاطر میں نہیں لاتے اور جب ان کے عروج کا زمانہ ختم ہو جاتا ہے تو احساسِ کمتری میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ لیکن نرگس کا مزاج یہ نہیں تھا۔ اس نے اپنی انتہائی مقبولیت کے زمانے میں بھی اپنے ذہنی توازن کو برقرار رکھا اور اپنی شخصیت کے وقار کو باقی رکھا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ نرگس کو اپنی فلمی زندگی کے ساتھ ساتھ سماجی کاموں میں بھی دل چسپی تھی، سیاست سے بھی لگاؤ تھا۔

    نرگس کی آخری اور شہکار فلم ‘مدر انڈیا’ ہے۔ اس میں نرگس کے فن نے اپنی آخری بلندیوں کو چھو لیا ہے۔ ماں کے کردار کے لیے محبوب خاں کی نگاہِ انتخاب نرگس پر پڑی اور وہ سب سے زیادہ صحیح انتخاب تھا۔ اور نرگس نے بھی کمال کر دیا۔ اپنی معراج پر پہنچنے کے بعد نرگس نے فلمی کام ہمیشہ کے لیے ترک کر دیا۔ اس فیصلے میں بھی نرگس کی عظمت جھلکتی ہے۔ وہ چیز جس کو "موہ مایا” کہا جاتا ہے نرگس اس سے بہت بلند تھی۔

    مدر انڈیا نے نرگس کو عظمت کی جو بلندی عطا کی اس کے ساتھ ایک وفادار اور محبت کرنے والا شوہر بھی دیا۔ نرگس کی بیماری کے آخری زمانے میں سنیل دت نے جس طرح اپنے تن من دھن کے ساتھ نرگس کی خدمت کی ہے اس کی تعریف کرنے کے لیے ہماری زبان میں الفاظ نہیں ہیں۔ نرگس اور سنیل دت کا فن ان کے بیٹے کو ورثے میں ملا ہے اور اگر سنجے دَت نے اپنی اس وراثت کا احترام کیا تو ایک دن وہ بھی عظمت کی بلندیوں کو چُھو لے گا۔

    (ممتاز ترقی پسند شاعر علی سردار جعفری کے مضمون سے اقتباس)