Tag: نریندر لوتھر

  • نریندر لوتھر صاحب

    نریندر لوتھر صاحب

    قدیم زمانے میں یہ ہوتا تھا کہ کوئی شخص ایک مرتبہ جو پیشہ اختیار کرلیتا، مرتے دم تک اسی کو سنبھالے رکھتا تھا۔

    مثلاً یہ کہ اگر کوئی سپاہی ہوتا تو وہ کسی اور پیشہ کی طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھتا۔ اور اپنی تمام تر صلاحیتیں اور قوتیں اس میں صرف کر دیتا۔ شاعر ہوتا تو بس ساری زندگی شاعری کرتے گزار دیتا۔ خواہ بھوکوں مرنا پڑے، فاقے کرنا پڑیں۔ مگر کیا مجال جو دوسرے پیشے سے روزی روٹی کا بندوبست کر کے اپنا اور اپنے بال بچّوں کا پیٹ بھرے۔ دور کیوں جائیے، آپ کے ہمارے جانے پہچانے مرزا غالب ہی کی مثال لیجیے۔ سو پشت سے پیشۂ آباء، سپاہ گری ہوتے ہوئے بھی جب ایک بار اپنے موروثی پیشہ کو ترک کر کے، پیشۂ شاعری اختیار کیا تو پھر پیچھے پلٹ کر انہوں نے اس کی طرف نگاہ نہ ڈالی۔ حالانکہ قرض کی شراب پیتے رہے اور جب لوگوں نے قرض دینا بند کر دیا تو دعوتِ آب و ہوا کے لیے خرقہ و سجادہ کو بھی رہن رکھوانا گوارا کرلیا! جسمانی ساخت کے اعتبار سے وہ اس قابل تھے کہ اگر قلم رکھ کر تلوار اٹھا لیتے۔ تو موروثی پیشہ میں ضرور کوئی اعلٰی عہدہ حاصل کر لیتے، مگر وضع داری بھی تو کوئی چیز ہوتی ہے۔ مرتے مرگئے۔ ساری زندگی قرض خواہوں کی کڑوی کسیلی سنتے رہے مگر کیا مجال جو کسی اور پیشہ کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا بھی ہو!

    مگر آج ہم یہ دیکھتے ہیں یہ احساس، یہ وضع داری بالکل جاتی رہی۔ ادب تو Noman’s Land کی طرح ہوگیا ہے جس کا جی چاہا، منہ اٹھائے گھسا چلا آتا ہے، سب سے پہلے تو ڈاکٹروں نے چوری چھپے دائم المریض ادیبوں اور شاعروں کا علاج کرتے کرتے ان کا سہارا لے کر ادب میں دخل در معقولات شروع کی۔ یہاں تک کہ بعض ہٹ دھرم ڈاکٹروں نے باقاعدہ طور پر مریضوں کو ڈرا دھمکا کر اور کبھی مفت علاج کا لالچ دے کر ادیب اور شاعر کا لیبل لگا ہی لیا۔

    اور اب ایک اور گروہ آئی۔ اے۔ ایس آفیسروں کا پیدا ہوگیا ہے جو دفتر میں اپنے حصے کی فائلوں کے انبار بھی اپنے اسسٹنٹس کے حوالے کر کے ادیبوں اور شاعروں کو مسکرا مسکرا کر اپنے اجلاس پر بڑھاوا دے کر آہستہ آہستہ ادب میں اپنی جگہ بنا رہے ہیں۔ پہلے بھارت چند کھنہ، پھر خواجہ عبدالغفور اور اب نریندر لوتھر ادب کے میدان میں زور آزمائی کرنے کے لیے اتر آئے ہیں۔ ان کو دیکھ کر دوسرے آئی۔ اے۔ ایس آفیسروں نے بھی نبرد آزما ہونے کی کوشش کی۔ لیکن بہت جلد وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ بھارت چند کھنہ خواجہ عبدالغفور اور نریندر لوتھر صرف آئی۔ اے۔ ایس ہونے کی وجہ سے ادیب نہیں کہلائے بلکہ ادب ان کی شخصیتوں میں رچ بس چکا ہے۔

    لوتھر صاحب سے میری جملہ چار ملاقاتیں ہوئیں۔ ان چاروں ملاقاتوں کا مجموعی دورانیہ 95 منٹ سے زیادہ نہیں ہے۔ اس اجمال کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ پہلی ملاقات صرف پانچ منٹ کی، دوسری، تیسری اور چوتھی بار زیادہ سے زیادہ تیس منٹ فی ملاقات کا حساب پڑتا ہے، لیکن اس کے باوجود میں نے ان پر قلم اٹھانے کی ہمت کی ہے۔

    کئی سال قبل ہمارے ایک پڑوسی کی وساطت سے لوتھر صاحب سے تعارف حاصل ہوا۔ یہ اس صبح کی بات ہے جس کی شام لوتھر صاحب کے مضامین کے مجموعہ "بند کواڑ” کی رسمِ اجرا اردو ہال میں انجام دی جانے والی تھی۔ صبح صبح لوتھر صاحب کا مجھ سے یہ کہہ کر تعارف کروایا گیا۔ یہ "بند کواڑ” کے مصنّف نریندر لوتھر ہیں۔ باوجود اس کے کہ تعارف کروانے والے صاحب کی آواز گونجیلی، الفاظ نہایت واضح اور صاف تھے، مگر پھر بھی ذہن ان الفاظ کی پذیرائی کے لیے تیار ہی نہ تھا۔ بھلا یہ مصنّف کیسے ہوسکتے ہیں؟ کیوں کر ہو سکتے ہیں۔۔۔۔!!

    ان میں مصنّفوں والی ایک بھی تو بات نہ تھی۔ نہ ان کے چہرے پر پھٹکار، نہ ان کا لباس بوسیدہ، نہ ان کی کمر خمیدہ، نہ ان کا حلیہ فاقہ زدہ، نہ ان کے دانت میلے، نہ ہی ان کے میل سے بھرے ہوئے ناخن۔ پھر یہ بھلا مصنّف کیوں کر ہوسکتے ہیں۔ میرے سامنے صاف ستھرے، تازہ دم، آسودہ حال، خوش پوش، نفیس اور قیمتی لباس میں ملبوس۔ جھینپے جھینپے سے لوتھر صاحب تشریف فرما تھے۔ دل نے گواہی دی یہ انگریزی زبان کے ادیب ہوسکتے ہیں۔ اردو کے تو قطعی نہیں۔ کیوں کہ جو محرومی، کس مپرسی اور نکبت و زبوں حالی اردو والوں کے حصّے میں آئی ہے، ان سے وہ قطعی بیگانہ تھے۔ بہرحال میرے سلام کے جواب میں، میں نے دیکھا کہ ان کے نرم ونازک نقوش والے چہرے پر ہنسی کی لہر دوڑ گئی، "بڑی خوشی ہوئی آپ سے مل کر”۔

    رسمی سا جملہ ادا کرکے گویا انہوں نے مجھ سے جان چھڑوانی چاہی۔ اور شام کی محفل میں شرکت کا وعدہ کرکے میں اپنے گھر چلی آئی۔ یہ تھی پہلی اور اس دور کی آخری ملاقات۔ آخری ان معنوں میں کہ اس کے کچھ عرصہ بعد لوتھر صاحب کا تبادلہ ہوگیا تھا۔ اور وہ شہر سے باہر چلے گئے تھے۔ اور جب وہ دوبارہ یہاں آئے تو ہمارے پڑوسی دیس چھوڑ کر پردیس کے ہورہے تھے۔

    ایک دن اچانک زندہ دلانِ حیدرآباد(دکن) کی ایک میٹنگ میں لوتھر صاحب نظر آگئے۔ یقین ہی نہ آتا تھاکہ لوتھر صاحب یوں کمرہ نمبر 28 میں مسکراتے لجاتے، سگار کے کش لگاتے مل جائیں گے۔ میٹنگ کے اختتام پر معتمد عمومی نے تعارف کروایا تو میں نے محسوس کیا کہ انہوں نے مجھے پہچانا نہیں۔ مگر پھر بھی اپنی مخصوص مسکراہٹ سے خواہ مخواہ وہ یہ ظاہر کرنا چاہتے تھے کہ میں ان کے لیے اجنبی نہیں ہوں۔ میں نے اپنے پڑوسی کے حوالے سے یاد دہانی کروائی تو بے چین سے ہوکر یاد کرنے کی کوشش کرنے لگے۔ دبیز مسکراہٹ کے پردے میں ماضی میں کھو سے گئے۔ اور پھر چند لمحوں بعد چہرے پر بچّوں کی سی معصوم خوشی پھیل گئی اور کہنے لگے:

    "ہاں جی ہاں! خوب یاد آیا۔ پہچان لیا میں نے!” اور اس مرتبہ چہرے سے صداقت بھی عیاں تھی۔

    تیسری ملاقات بھی زندہ دلان کی میٹنگ میں ہوئی۔ اس میٹنگ میں بعض ارکان میں آپس میں تلخ الفاظ کا تبادلہ شروع ہوگیا۔ فضا مکدر سی ہونے لگی تھی۔ لوتھر صاحب سگار منہ میں دبائے، آنکھیں موندے، زیرِ لب لطیفے سناکر دونوں پارٹیوں کے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش میں لگ گئے۔ اور دس منٹ کے اندر انہوں نے ماحول کو بدل کر رکھ دیا۔

    چوتھی ملاقات حال ہی میں زندہ دلان کی کل ہند کانفرنس کے اس اجلاس میں ہوئی جس میں زندہ دلان کی مطبوعات کی رسمِ اجرا ہورہی تھی، میٹنگ ختم ہونے کے بعد کچھ دیر باتیں ہوئیں۔ یہ نسبتاً خوش گوار ملاقات تھی۔ اس لیے کہ اس دوران مجھے ان کی چند خصوصیات کا اندازہ ہوا۔ میں نے محسوس کیا کہ لوتھر صاحب انتہائی سادہ مزاج اور کھلے دل و دماغ کے مالک ہیں۔ اپنے کسی غیر مطبوعہ مضمون کے بارے میں جس فراخ دلی سے گفتگو کی اور مجھ سے مشورہ لیا، اس سے ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ اپنے سے کم عمر والوں کی بھی عزت کرنا جانتے ہیں۔ لوتھر صاحب اپنے ہم عصر ہم میدان ادیبوں کی نہ صرف قدر کرتے ہیں بلکہ جی کھول کر ان کو سراہتے بھی ہیں۔

    لوتھر صاحب کی شخصیت بڑی پہلو دار اور تہ دار ہے۔ وہ مختلف النّوع مصروفیات کے آدمی ہیں، بحیثیت آئی اے ایس آفیسر وہ خواہ مخواہ کسی پر دھونس نہیں جماتے بلکہ ہر وقت اس کوشش میں رہتے ہیں کہ ہر ایک کی مدد کریں، رہنمائی کریں، اور دلوں میں جگہ پیدا کریں۔

    بھارت چند کھنہ اور رشید قریشی کی طرح یہ بھی اپنی بیوی کے مارے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اکثر مضامین کی تخلیق کا سہرا انہوں نے بھی اپنی بیوی ہی کے سر باندھا ہے۔ اور اس بات کا فراخ دلی سے اپنے ایک مضمون میں اعتراف کیا ہے کہ وہ بیوی زدہ شوہر ہیں۔

    نائب صدر کی حیثیت سے زندہ دلانِ حیدرآباد کی میٹنگوں میں مستقل مسکراتے رہنا، صدر صاحب کی ہاں میں ہاں ملاتے رہنا اور گرم ہونے والوں پر خاص طور پر اپنی مسکراہٹ نچھاور کرنا لوتھر صاحب کی اہم خصوصیات ہیں۔

    (کاغذی ہے پیراہن (طنز و مزاح) سے انتخاب جس کی مصنّف ڈاکٹر ہندوستان سے تعلق رکھنے والی ادیب اور محقق رشید موسوی ہیں)

  • قلی قطب شاہ کے "چار مینار” کی انوکھی کہانی!

    قلی قطب شاہ کے "چار مینار” کی انوکھی کہانی!

    محمد قلی قطب شاہ کو عمارتیں بنوانے کا بہت شوق تھا، ایک بار جب وہ دلّی گیا تو شوق شوق میں اس نے ایک بہت اونچا مینار بنا دیا، جسے آج کل قطب مینار کہتے ہیں۔ جب یہاں کی رعایا کو یہ بات معلوم ہوئی تو ان میں غیض و غضب کی ایک لہر دوڑ گئی کہ اپنے شہر کو چھوڑ کر دلّی میں مینار بنوانے کا کیا مطلب؟

    بادشاہ نے دلّی والے آرکٹیکٹ کو بلا کر اسے یہاں بھی ویسا ہی مینار بنانے کو کہا۔ لیکن قطب مینار بناتے بناتے وہ آرکیٹکٹ بے چارہ بوڑھا ہو گیا تھا اور اب اس میں اس بلندی پر پہنچے کی سکت نہیں رہ گئی تھی۔ جب اس نے اپنی معذوری ظاہر کی تو بادشاہ نے کہا کوئی مضائقہ نہیں تم چار چھوٹے چھوٹے مینار بنا دو، ہم کسی اور نوجوان آرکٹیکٹ کو کہہ دیں گے کہ وہ ان کو ایک دوسرے کے اوپر کھڑا کر کے ایک اونچا مینار تیار کر دے۔

    جب چاروں مینار علیحدہ علیحدہ تیار ہو گئے تو ایک مدبّر نے صلاح دی کہ عالم پناہ آپ کیوں نہ چار مینار علیحدہ علیحدہ ہی رہنے دیں۔ اس طرح آپ رعایا کو کہہ سکتے ہیں کہ اگر آپ نے دلّی میں ایک مینار بنوایا تو یہاں کے لوگوں کے لیے چار مینار بنوائے۔ اس کے علاوہ آپ کے نام کے چار حصّوں یعنی محمد، قلی، قطب اور شاہ کے لیے ایک ایک مینار یادگار رہے گا۔

    بادشاہ کو یہ صلاح پسند آئی اور نہ صرف فوری طور پر اس کی شخصیت کو چار چاند بلکہ چار مینار لگ گئے اور ہمیشہ کے لیے اس کا نام امر ہو جانے کا امکان پیدا ہوگیا۔ اس مدبّر کو ایسی صلاح دینے کی پاداش میں پدم بھوشن کے خطاب سے نوازا گیا اور اس طرح حیدرآباد کا امتیازی نشان وجود میں آیا۔

    چار مینار کی دھوم جب دلّی تک پہنچی تو مغل بادشاہ اورنگ زیب کے دل میں اسے دیکھنے کی شدید خواہش پیدا ہوئی۔ اس نے جب دکن کے دورہ کا پروگرام بنایا تو اس کا سپہ سالار اور فوج کے ہزاروں سپاہی سیاحت کے شوق میں اس کے ساتھ ہوئے، یہاں ٹورسٹ لوگوں کا رش اتنا تھا کہ اورنگ زیب کو چھے مہینے انتظار کرنا پڑا۔ بے تاب ہوکر اس نے شہر پر دھاوا بول دیا۔

    یہ عمارت دیکھی تو اتنی پسند آئی کہ سات سال تک یہیں ٹکا رہا۔ آخر چار مینار کی تصویر دل میں لیے ہوئے وہ دکن میں ہی اللہ کو پیارا ہو گیا۔

    (معروف ادیب، مزاح نگار اور مؤرخ نریندر لوتھر کا تعلق حیدر آباد دکن سے تھا، یہ شگفتہ پارہ اسی شہر سے متعلق ان کے ایک مضمون سے لیا گیا ہے، اس مضمون میں انھوں نے دکن کی ایک مشہور اور تاریخی اہمیت کی حامل یادگار "چار مینار” کے بارے میں شگفتہ بیانی کی ہے)