Tag: نزلہ زکام

  • ناک سنکنا کس قدر نقصان دہ ہیں؟ لازمی احتیاط کریں، ورنہ ۔ ۔ ۔ ۔ !!

    ناک سنکنا کس قدر نقصان دہ ہیں؟ لازمی احتیاط کریں، ورنہ ۔ ۔ ۔ ۔ !!

    نزلہ یا زکام وہ بیماریاں ہیں جو کسی کو کسی بھی وقت ہوسکتی ہیں تاہم موسم سرما میں لوگ اس کا زیادہ شکار ہوتے ہیں۔

    یہ بیماریاں تکلیف دہ تو نہیں ہوتیں لیکن ان کی وجہ سے طبعیت میں بے چینی اور ذہنی پریشانی میں اضافہ ممکن ہے اور روز مرہ کی سرگرمیاں بھی متاثر ہوسکتی ہیں۔

    نزلہ یا زکام کے باعث ناک بند ہونا واقعی پریشان کن ہو سکتا ہے۔ اکثر لوگ نزلہ زکام میں زور لگا کر ناک سنکتے ہیں جس سے وقتی آرام تو مل جاتا ہے مگر ایسا کرنا آپ کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔

    غیر ملکی طبی رسالے میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق ناک سنکنا صرف اس وقت مفید ہے جب اسے صحیح طریقے سے انجام دیا جائے بصورت دیگر سنگین نتائج بھگتنا پڑیں گے۔

    ماہرین صحت نے لوگوں کو خبردار کیا ہے کہ نزلہ زکام کی کیفیت میں بنیادی گھریلو علاج بھی کار آمد ہوتا ہے تاہم اگر طبیعت چند ہفتوں تک بہتر محسوس نہ ہو تو ڈاکٹر سے ضرور رجوع کرنا چاہیے۔

    ناک کے امراض کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ہماری ناک روزانہ تقریباً ایک سے دو لیٹر بلغم بناتی ہے۔ جب ہم بیمار ہوتے ہیں تو ناک خراب وائرس کو پکڑنے کے لیے موٹا بلغم بناتی ہے۔ ناک سنکنے سے ہمیں تھوڑی دیر کے لیے بہتر محسوس ہوسکتا ہے۔

    جب آپ اپنی ناک سنکتے ہیں تو کچھ بلغم باہر آتا ہے لیکن اس میں سے کچھ واپس آپ کے سائنوس میں بھی جاسکتا ہے جو کہ انفیکشن کو مزید خراب کر سکتا ہے۔ ناک سنکنے سے آپ کو جلد آرام مل سکتا ہے، لیکن اس کے منفی اثرات بھی ہو سکتے ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ بار بار ناک سنکنے سے جن نقصانات کو سامنا کرنا پڑسکتا ہے ان میں ناک سے خون آنا، کان میں درد اور سر میں سر میں درد جیسی کیفیت ہوسکتی ہے۔

    دن میں کئی بار ناک سنکنے سے ناک کے اندر کا حصہ سوجن کا شکار ہوسکتا ہے جس سے ناک سے خون بہنے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔

    سونے سے قبل کچھ مقدار میں وکس کا استعمال بند ناک کو کھولنے میں مدد فراہم کرتا ہے، کھانسی کی شدت کم ہوتی ہے اور نیند بھی بہتر ہوتی ہے۔

  • نزلہ زکام کے لیے ڈاکٹر کے پاس نہ جائیں، گھر میں ہی علاج کریں

    موسم سرما میں کھانسی، اور نزلہ زکام بہت عام ہوجاتا ہے جس کا صحیح علاج نہ کیا جائے تو یہ زیادہ وقت تک تکلیف میں مبتلا کیے رکھتا ہے۔

    لوگوں کی اکثریت نزلہ زکام کے علاج کے لیے معالج سے رابطہ کرنے بجائے گھریلو علاج کو ترجیح دیتی جو سادہ اور سان ہونے کے ساتھ کارآمد بھی ہوتے ہیں۔

    اس کہ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ادویات ایک وقت تک فائدہ مند ثابت ہوتی ہیں جبکہ دائمی الرجی یا سائنو سائٹس میں ان کے مسلسل استعمال سے افادیت کم ہونے لگتی ہے۔

    یہاں پر نزلہ زکام کے لیے چند منفرد گریلو علاج پیش کیے جارہے جو آپ کے لیے فائدہ مند ثابت ہوں گے۔

    گرم پانی سے غسل

    گرم شاور لینے سے ناک میں جمے ہوئے بلغم کو خارج ہونے میں مدد ملتی ہے، یہ ناک کے حصوں میں موجود بلغم کو باہر نکال دیتا ہے اس کے نتیجے میں بہتی ناک سے سکون ملتا ہے۔

    پانی کا زیادہ استعمال

    نزلہ و زکام ہو یا نہ ہو پانی کا زیادہ استعمال آپ کو صحت مند رکھتا ہے، یہ جسم میں نمی کو برقرار رکھنے مدد فراہم کرتا ہے، گرم پانی پینا گلے کی خراش میں بھی آرام پہنچاتا ہے۔

    پودینے کی چائے

    پودینے کی چائے پینا بھی بہتی ہوئی ناک میں آرام کا باعث بنتی ہے، اس میں مینتھول ہوتا ہے جو ناک کے راستوں کو صاف کرتا ہے، اس طرح آپ کو بہتر سانس لینے میں مدد ملتی ہے۔

    لہسن

    اگر آپ کی ناک کسی بیکٹیریل یا وائرل انفیکشن کی وجہ سے بھری ہوئی ہے ہو تو لہسن کو اس کے لیے بہترین علاج کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔

    لہسن کے 2 سے 3 جوے ایک کپ پانی میں ابالیں اور تھوڑی دیر ٹھنڈا ہونے کے بعد پی لیں، لہسن کے جوے کھائے بھی جاسکتے ہیں کیونکہ ان میں طاقتور اینٹی مائکرو بیل خصوصیات موجود ہوتی ہیں۔

  • معمولی نزلہ زکام کو نظر انداز نہ کریں، یہ ہلاکت خیز نمونیا ہوسکتا ہے

    معمولی نزلہ زکام کو نظر انداز نہ کریں، یہ ہلاکت خیز نمونیا ہوسکتا ہے

    آج دنیا بھر میں نمونیا سے آگاہی کا عالمی دن منایا جارہا ہے، اقوام متحدہ کے مطابق نمونیا بچوں اور بڑوں کو موت کے گھاٹ اتارنے والا سب سے بڑا انفیکشن ہے۔

    نمونیا دراصل نظام تنفس کے راستے یا پھیپھڑوں میں انفیکشن کو کہا جاتا ہے، اس کی ابتدائی علامات نزلہ اور زکام ہوتی ہیں تاہم اس کی درست تشخیص کے لیے ایکس رے کیا جانا ضروری ہے۔

    نمونیا ہونے کی صورت میں جسم میں آکسیجن کی مقدار کم ہوتی جاتی ہے اور نتیجتاً یا تو جسمانی اعضا ناکارہ ہوجاتے ہیں یا انسان موت کا شکار ہوجاتا ہے۔

    عالمی ادارہ صحت اور بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن کے اشتراک سے عالمی ادارہ صحت برائے اطفال کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق افریقی ممالک میں 5 سال سے کم عمر بچوں کی اموات کی سب سے بڑی وجہ نمونیا ہے۔ ان ممالک میں انگولا، عوامی جمہوریہ کانگو، ایتھوپیا، نائجیریا اور تنزانیہ شامل ہیں۔

    اسی طرح ایشیا میں بھی یہ شیر خوار بچوں کی ہلاکت کا سبب بننے والی اہم بیماری ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کی سنہ 2018 میں شائع کی جانے والی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں انفلوائنزا اور نمونیا سے ہر سال 84 ہزار سے زائد اموات ہورہی ہیں۔

    گزشتہ 2 سال سے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لینے والے کرونا وائرس نے اس مرض کی ہلاکت خیزی میں اضافہ کردیا ہے۔

    دونوں امراض کی علامات ملتی جلتی ہیں اور کرونا وائرس کے خدشے کی وجہ سے ان علامات کے ظاہر ہوتے ہی متاثرہ شخص کو قرنطینہ کردیا جاتا ہے جس کے باعث اسے وہ فوری علاج نہیں مل پاتا جو نمونیا کے لیے ضروری ہے۔

    اس وجہ سے نمونیا کی تشخیص کئی روز بعد ہوتی ہے جب وہ ہلاکت خیز بن چکا ہوتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق نمونیا ہر سال دنیا بھر میں 25 لاکھ 60 ہزار اموات کی وجہ بنتا ہے اور کرونا وائرس کی وجہ سے ان ہلاکتوں میں 75 فیصد اضافے کا خدشہ ہے۔

    ماہرین کے مطابق معمر افراد، بچے، حاملہ خواتین اور کمزور قوت مدافعت کے حامل افراد نمونیا کا آسان شکار ہوسکتے ہیں لہٰذا اس سے بچنے کے لیے نہایت احتیاط کی ضرورت ہے۔

  • کورونا وائرس کی وجہ سے ایک اور بیماری میں کمی

    کورونا وائرس کی وجہ سے ایک اور بیماری میں کمی

    کرونا وائرس نے دنیا بھر کو شدید طور پر متاثر کیا ہے تاہم ماہرین کے مطابق اس کی وجہ سے رواں برس عام نزلہ زکام کی شرح میں حیرت انگیز کمی آئی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق میں دیکھا گیا کہ دسمبر کے وسط میں دنیا کے بیشتر ممالک میں عام نزلہ زکام اور فلو عام ہوجاتا ہے مگر اس سال جب کووڈ 19 کی وبا تیزی سے پھیل رہی ہے، متعدد موسمی بیماریوں کی شرح حیران کن حد تک کم ہے۔

    ماہرین کے مطابق کرونا وائرس کی وبا کے دوان مختلف ممالک میں عارضی لاک ڈاؤن، فیس ماسک کا استعمال، سماجی دوری، ذاتی صفائی جیسی احتیاطی تدابیر پر عمل ہورہا ہے اور اس کے نتیجے میں نظام تنفس کی دیگر بیماریوں کی شرح پر نمایاں اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

    سائنسدانوں کو توقع ہے کہ اس سال کے رجحانات سے انہیں ان امراض کے پھیلاؤ اور رویوں کے بارے میں نئی تفصیلات حاصل ہوسکیں گی۔

    امریکا کے سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونٹیشن (سی ڈی سی) کے نیشنل سینٹر فار امیونزایشن اینڈ ریسیپٹری ڈیزیز کی وبائی امراض کی ماہر سونجا اولسن کے مطابق یہ نظام تنفس کے متعدد وائرسز کے لیے ایک قدرتی تحقیق جیسی ہوگی۔

    میڈیا رپورٹ کے مطابق رواں سال میں جب متعدد ممالک میں کووڈ 19 کی پہلی لہر کی شدت میں کمی آرہی تھی اور اکثر مقامات پر سخت ترین لاک ڈاؤن کا نفاذ ہوا، اس وقت طبی عملے کو احساس ہوا تھا کہ دنیا کے بیشتر ممالک میں فلو سیزن وقت سے پہلے تھم گیا۔

    اس کی جزوی وجہ تو یہ تھی کہ بہت کم افراد فلو کی شکایت کے ساتھ آرہے تھے، مگر بنیادی وجہ کرونا کی روک تھام کے لیے اپنائی جانے والی پالیسیوں جیسے سماجی دوری کا مؤثر ہونا تھا۔

    کرونا وائرس کی وبا کے آغاز کے بعد فلو وائرس کے مثبت ٹیسٹوں کی شرح امریکا میں 98 فیصد تک کم ہوگئی تھی، جبکہ نمونوں کو جمع کرانے کی شرح میں 61 فیصد کمی آئی۔

    زمین کے جنوبی کرے میں جب موسم سرما کا آغاز ہوا تو وہاں بھی اپریل سے جولائی 2020 کے دوران فلو کے کیسز میں حیران کن کمی دیکھنے میں آئی، حالانکہ کووڈ 19 کے کیسز میں مسلسل اضافہ ہورہا تھا۔

    آسٹریلیا، چلی اور جنوبی افریقہ میں 83 ہزار سے زیادہ ٹیسٹوں میں فلو کے محض 51 کیسز کی تصدیق ہوئی۔

    وائرلوجسٹ رچرڈ ویبی کے مطابق کچھ جنوبی امریکی ممالک نے کووڈ 19 کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے کچھ خاص کام نہیں کیا تھا مگر وہاں بھی فلو کی شرح کم رہی، میرا نہیں خیال یہ صرف فیس ماسک پہننے اور سماجی دوری سے ہوا۔

    ان کے خیال میں بین الاقوامی سفر میں کمی بھی اس کی ایک وجہ ہوسکتی ہے۔

    فلو عام طور پر ہر سال مخصوس مہینوں میں زیادہ سرگرم ہوتا ہے، جس کے حوالے سے پورے سال میں کچھ زیادہ احتیاط بھی نہیں کی جاتی، مگر لوگوں کی نقل و حمل اس کے پھیلاؤ میں کردار ادا کرتا ہے۔

    بیشتر ماہرین نے محتاط اندازہ لگایا ہے کہ اس سال شمالی نصف کرے میں فلو سیزن زیادہ نہیں ہوگا اور یہ متعدد پہلوؤں سے اچھی خبر بھی ہے۔ بالخصوص اس سے مختلف ممالک کے طبی نظام پر بوجھ کم ہوگا۔

    مگر اس کے چند نقصانات بھی ہیں جیسے اگر اس سال فلو سیزن نہ ہونے کے برابر رہا تو 2021 کی فلو ویکسین کے لیے اس وائرس کی درست قسم کی پیشگوئی کرنا مشکل ہوگا۔

    ماہرین کے خیال میں فلو سیزن نہ ہونے کے برابر رہنے سے اس وائرس کی کم عام اقسام کا خاتمہ بھی ہوسکتا ہے اور اس سے ہمارے لیے منظرنامہ سادہ بھی ہوسکتا ہے۔

    مگر اس کے ساتھ ساتھ ان کا یہ بھی خیال ہے کہ وائرل مسابقت نہ ہونے سے مستقبل میں سوائن فلو کی نئی اقسام ابھر سکتی ہیں۔

  • کیا کرونا وائرس عام نزلہ زکام والے افراد کو متاثر کر سکتا ہے؟

    کیا کرونا وائرس عام نزلہ زکام والے افراد کو متاثر کر سکتا ہے؟

    نیویارک: امریکا میں ایک نئی اور نہایت اہم تحقیق سامنے آئی ہے جس میں اس سوال کا جواب دیا گیا ہے کہ کیا کرونا وائرس عام نزلہ زکام والے افراد کو متاثر کر سکتا ہے؟

    اس سلسلے میں یونی ورسٹی آف روچسٹر میڈیکل سینٹر میں کی گئی تحقیق میں پہلی بار اس بات کا ثبوت پیش کیا گیا ہے کہ کرونا وائرس کے خلاف جسم میں طویل المیعاد قوت مدافعت پیدا ہو سکتی ہے۔

    لوگوں کو بہت زیادہ پریشان کرنے والے موسمی نزلہ زکام سے متعلق دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ کو وِڈ نائنٹین سے کسی حد تک تحفظ فراہم کر سکتا۔

    جریدے ایم بائیو میں شائع تحقیق کے مطابق کرونا وائرس سے متاثر ہونے پر ایسے بی سیلز بنتے ہیں جو طویل عرصے تک جراثیموں کو شناخت کرنے کے ساتھ ساتھ مستقبل میں بھی ان کو یاد رکھتے ہیں اور ان کے خاتمے کے لیے اینٹی باڈیز بناتے ہیں۔

    بی سیلز کے بارے میں طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ عموماً کئی عشروں تک برقرار رہتے ہیں، تحقیق میں پہلی بار بی سیلز کی کراس ری ایکٹیویٹی کو بھی رپورٹ کیا گیا، یعنی عام نزلہ زکام پر حملہ کرنے والے بی سیلز بظاہر نئے کرونا وائرس کو بھی پہچان سکتے ہیں۔

    ریسرچرز کو اس بات کا یقین ہو گیا ہے کہ ان افراد میں کو وِڈ 19 کے خلاف بھی کسی حد تک قوت مدافعت پیدا ہو جاتی ہے جو عام نزلہ زکام کا باعث بننے والے کرونا وائرسز سے متاثر ہوتے ہیں۔

    یونی ورسٹی آف روچسٹر کے ریسرچ پروفیسر اور اس تحقیق کے مرکزی مصنف مارک سینگسٹر نے بتایا کہ اس سلسلے میں کو وِڈ نائنٹین سے صحت یاب ہونے والے مریضوں کے خون کی جانچ کی گئی تھی، جن میں سے متعدد نمونوں میں وہ بی سیلز پائے گئے جو نئے کرونا وائرس کو شناخت کر کے ان کے خلاف اینٹی باڈیز تیار کرتے ہیں۔

    سینگسٹر کی تحقیق کے نتائج کی بنیاد معمولی اور درمیانے درجے کے کو وِڈ 19 سے صحت یاب ہونے والے 26 مریضوں اور ایسے 21 صحت مند ڈونرز کے خون کے نمونوں کے موازنے پر مبنی تھی جن کے خون کے نمونے 6 سے 10 سال قبل اکٹھے کیے گئے تھے یعنی نئے کرونا وائرس کے سامنے آنے سے بہت عرصہ قبل۔ ان نمونوں میں میموری بی سیلز اور اینٹی باڈیز کی سطح ناپی گئی جو اسپائیک پروٹین کے مخصوص حصوں کو ہدف بناتے ہیں، یہ اسپائیک پروٹین تمام کرونا وائرسز میں پائے جاتے ہیں اور خلیات کو متاثر کرنے کے لیے وائرسز کی مدد میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

    یہ اسپائیک پروٹین ہر کرونا وائرس میں اگرچہ کچھ مختلف انداز سے کام کرتا ہے، مگر اس کا ایک جز ایس 2 تمام وائرسز میں لگ بھگ ایک جیسا ہوتا ہے۔ چوں کہ یہ میموری بی سیلز (بی سیل کی ذیلی قسم جو طویل عرصے تک برقرار رہتے ہیں) مختلف کرونا وائرسز کے اسپائیک ایس 2 کے درمیان تفریق نہیں کر پاتے اس لیے بلا امتیاز حملہ آور ہو جاتے ہیں۔

    ریسرچ میں یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ یہ بی سیلز کس حد تک تحفظ فراہم کرتے ہیں، اور یہ کس طرح مریض کے نتائج پر اثر انداز ہوتے ہیں۔

    ماہرین کو اب یہ دیکھنا ہے کہ ان بی سیلز کا نئے کرونا وائرس کے نتیجے میں ہونے والی کم شدت کی علامات اور کم مدت کی بیماری سے بھی کوئی تعلق ہے یانہیں۔ اور کیا یہ کرونا ویکسین کی افادیت میں بھی کوئی مدد کر سکتے ہیں یا نہیں۔

  • سینٹ کلڈا میں بیماری لانے والی مسافر کشتی!

    سینٹ کلڈا میں بیماری لانے والی مسافر کشتی!

    یورپی ملک اسکاٹ لینڈ کے مغرب میں چند چھوٹے جزیروں کو سینٹ کلڈا کے نام سے پہچانا جاتا ہے جہاں انسانوں نے صدیوں کے دوران آبادی کا تصور تک نہ کیا اور بہت کم لوگ ہی ان جزائر یا اس کے قریب آباد ہوئے۔ اس زمانے میں ان جزائر پر پہنچنے کے لیے کشتی کے ذریعے ہی سفر ممکن تھا۔

    سترھویں سے انیسویں صدی کے دوران سینٹ کلڈا اور قریب کی آبادی میں ایک عجیب مسئلہ سامنے آیا کہ وہاں جب بھی کوئی کشتی اور باہر کے لوگ آتے تو مقامی باسیوں کو زکام ہو جاتا۔ وہ ہفتہ دس دن میں ٹھیک بھی ہو جاتے، لیکن کشتی کے مسافروں‌ میں ایسا کوئی معمولی طبی مسئلہ تک نظر نہ آتا تھا۔ وہ بظاہر صحت مند ہوتے۔

    یہ معاملہ اتنا عام ہو گیا کہ مقامی لوگوں میں سے جب کوئی اس میں‌ مبتلا ہو جاتا تو وہ اسے ”کشتی والوں کی کھانسی” کہتے، تاہم زکام اور کھانسی کی اصل وجہ کوئی نہ جان سکا اور یہ ثابت نہیں ہو سکا کہ یہ باہر سے آنے والوں کی وجہ سے پھیلنے والا مسئلہ ہے۔

    آج ہمیں میڈیکل سائنس نزلہ، کھانسی اور زکام جیسے طبی مسئلے اور امراض کی وجہ جراثیم یا وائرس بتاتی ہے۔

    کہتے ہیں قدیم یونانی طبیبوں نے زکام کا سبب جسمانی رطوبتوں کا عدم توازن بتایا تھا۔ تاہم اس سے آگے نہیں‌ بڑھ سکے تھے۔

    1914 میں بھی ایک طبی محقق نے زکام کا سبب کسی نادیدہ مخلوق یعنی وائرس کو بتایا، مگر وہ سادہ طبی تجربات سے آگے نہ بڑھ سکا جب کہ 1927 میں امریکی سائنس دان نے ثابت کیاکہ یہ بیماری کسی "وائرس” سے ہوتی ہے جسے بعد میں نام دیا گیا اور ثابت ہوا کہ یہ ہوا کے ذریعے پھیلتے ہیں اور کسی بھی چیز کی سطح پر لگ سکتے ہیں اور مصافحہ کرنے یا وائرس زدہ شئے کو تھامنے سے دوسرے انسان میں منتقل ہوسکتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق مختلف امراض میں مبتلا کرنے والے وائرس کی ایک انسان سے دوسرے میں‌ منتقل ہونے کا طریقہ بھی الگ ہوتا ہے۔ نزلہ زکام کے علاوہ ہیپا ٹائٹس، ریبیز، ایڈز یا کرونا وائرس کے پھیلنے اور انسانوں میں منتقل ہونے کی وجہ اور اسباب الگ الگ ہو سکتے ہیں۔ تاہم زیادہ تر وائرس ہوا سے ہماری سانس کی نالی کے ذریعے جسم میں داخل ہوتے ہیں۔

  • عالمگیر وبا کرونا وائرس سے اموات 1 لاکھ کے قریب پہنچ گئیں

    عالمگیر وبا کرونا وائرس سے اموات 1 لاکھ کے قریب پہنچ گئیں

    کراچی: عالمگیر سطح پر نئے اور نہایت مہلک ثابت ہونے والے وائرس کو وِڈ نائنٹین سے اموات کی تعداد 1 لاکھ کے قریب پہنچ گئی۔

    تفصیلات کے مطابق ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی جانب سے کرونا وائرس سے پھیلنے والی وبا کو عالمگیر وبا قرار دیا جا چکا ہے، اس وبا کی زد میں اب تک 210 ممالک اور علاقے آ چکے ہیں، اور 95,739 اموات واقع ہو چکی ہیں۔

    دنیا بھر میں کرونا وائرس سے متاثر ہونے والے افراد کی تعداد بھی 16 لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے، جب کہ اب تک صرف ساڑھے تین لاکھ مریض ہی صحت یاب ہو سکے ہیں۔ سب سے زیادہ کیسز امریکا میں سامنے آئے ہیں، جن کی تعداد ساڑھے 4 لاکھ سے بھی زیادہ ہے۔

    ہلاک افراد کی تعداد کے لحاظ سے امریکا دوسرے نمبر ہے جہاں اب تک 16,697 مریض کرونا کا شکار ہو چکے ہیں، امریکا میں نیویارک کرونا سے سب سے زیادہ متاثرہ شہر ہے جہاں 7067 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جب کہ وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد 1 لاکھ 61 ہزار سے زائد ہے۔ پہلے نمبر پر تاحال یورپی ملک اٹلی ہے جہاں ہلاکتوں کی تعداد بڑھ کر 18,279 ہو گئی ہے جب کہ مجموعی مریضوں کی تعداد 1 لاکھ 43 ہزار سے زائد ہے۔

    ڈاؤ یونی ورسٹی میں کرونا وائرس سے متعلق بڑی تحقیق

    اسپین میں بھی بہت تیزی کے ساتھ کو وِڈ نائنٹین کے مریضوں کی تعداد بڑھ رہی ہے، امریکا کے بعد اسپین دوسرا ملک ہے جہاں سب سے زیادہ کیسز سامنے آ چکے ہیں، اور اب تک 1 لاکھ 53 ہزار سے کیسز تجاوز کر چکے ہیں جب کہ اموات کی تعداد بڑھ کر 15,447 ہو گئی ہے، اموات کی تعداد کے لحاظ سے اسپین دنیا کا تیسرا بڑا متاثرہ ملک ہے۔

    فرانس کرونا وائرس سے اموات کی تعداد کے لحاظ سے چوتھا بڑا اور کیسز کی تعداد کے لحاظ سے پانچواں ملک ہے، فرانس میں ہلاکتیں 12,210 تک پہنچ گئیں جب کہ 1 لاکھ 17 ہزار سے بڑھ گئی ہیں۔ برطانیہ میں اگرچہ کیسز کی تعداد دیگر ممالک کے مقابلے میں کم ہیں لیکن اموات کی تعداد کا تناسب زیادہ ہے، اب برطانیہ میں کرونا وائرس سے 7,978 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جب کہ مجموعی متاثرہ افراد کی تعداد 65 ہزار ہو گئی ہے۔

    بیلجئم میں کرونا وائرس سے 2523 افراد ہلاک ہوئے جب کہ 24983 افراد متاثر ہو چکے ہیں، نیدرلینڈز میں 2396 افراد ہلاک اور 21762 افراد متاثر ہیں، ایران میں کرونا وائرس سے 4110 افراد ہلاک جب کہ 66220 افراد متاثر ہیں، سعودی عرب میں کرونا سے 44 افراد ہلاک جب کہ 3287 افراد متاثر ہیں، بھارت میں وائرس سے 227 افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور 6725 افراد متاثر ہیں۔

  • دنیا بھر میں کرونا وائرس سے اموات کی تعداد 3120 ہو گئی

    دنیا بھر میں کرونا وائرس سے اموات کی تعداد 3120 ہو گئی

    بیجنگ: نہایت مہلک اور نئے وائرس COVID 91 سے دنیا بھر میں اموات کی تعداد بڑھ کر 3120 ہو گئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق فلو سے مشابہ وائرس کا دنیا بھر میں پھیلاؤ جاری ہے، اموات کا سلسلہ بھی نہیں روکا جا سکا، وائرس سے متاثرین کی تعداد 90,932 ہو گئی جب کہ تین ہزار ایک سو بیس انسان مہلک وائرس کا شکار ہو کر ہلاک ہو چکے ہیں۔ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران چین سے باہر کے ممالک میں تقریباً 40 افراد کرونا وائرس کا شکار ہو کر ہلاک ہوئے، جب کہ چین کے اندر اس دوران 31 افراد ہلاک ہوئے۔

    اب تک دنیا بھر کے 76 ممالک اور علاقوں تک یہ وائرس رسائی کر چکا ہے، اور اس کا پھیلاؤ بدستور جاری ہے، شمالی افریقی مسلمان ملک تونس میں بھی کرونا وائرس کا پہلا کیس سامنے آ گیا ہے۔ سعودی عرب نے بھی پہلے کیس کا اعلان کر دیا ہے، کرونا کا شکار سعودی شہری ایران سے براستہ بحرین سعودی عرب پہنچا تھا۔

    امریکا میں وائرس سے ہلاک افراد کی تعداد 6 ہو گئی ہے، جب کہ مریضوں کی تعداد 103 ہو گئی، امریکی صدر نے گزشتہ رات ہدایت جاری کی تھی کہ وائرس سے بچاؤ کے لیے ویکسین چند ماہ میں تیار کی جائے، جب کہ امریکی ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کی ویکیسن بنانے میں ایک سال لگے گا۔

    واشنگٹن کے علاقے کرک لینڈ میں کرونا وائرس کے مریض کو اسپتال منتقل کیا جا رہا ہے

    یورپی ملک اٹلی میں کرونا وائرس سے ہلاکتوں کی تعداد 52 ہو گئی ہے، جب کہ اب تک وائرس سے 2,036 افراد متاثر ہو چکے ہیں، وائرس سے متاثرہ 149 افراد صحت یاب ہو چکے ہیں تاہم 166 کی حالت تشویش ناک ہے۔ مجموعی طور پر دنیا بھر میں وائرس سے صحت یاب ہونے والوں کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے، اب تک 48,176 افراد صحت یاب ہو چکے ہیں۔

    خیال رہے کہ نہایت مہلک اور نئے وائرس COVID 91 سے اب تک چین میں 2,944، ایران میں 66، جاپان میں 6، جنوبی کوریا میں 28 اور ٹوکیو جاپان میں قرنطینہ میں رکھے گئے بحری جہاز ڈائمنڈ پرنسز میں 7 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

  • کراچی میں نزلہ زکام سے پانچ افراد موت کے منہ میں چلے گئے

    کراچی میں نزلہ زکام سے پانچ افراد موت کے منہ میں چلے گئے

    کراچی: صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں متعلقہ حکام جان لیوا کرونا وائرس سے عوام کو خبردار کرتے رہ گئے جبکہ نزلہ زکام نے ہی شہریوں کی جانیں لینا شروع کردیں۔

    تفصیلات کے مطابق شہر قائد میں ایچ ون این ون فلو وائرس (عام نزلہ زکام) بڑھنے لگا، شہر میں ایک ماہ کے دوران 5 افراد ایچ ون این ون انفلوائنزا کے باعث زندگی کی بازی ہارگئے۔

    ذرائع محکمہ صحت کا کہنا ہے کہ کراچی میں جنوری سے اب تک 129 سے زائد افراد انفلوائنزا کا شکار ہوئے ہیں،  متاثرہ افراد میں 71 خواتین اور 58 مرد شامل ہیں۔

    محکمہ صحت کے مطابق ہلاک ہونے والے تمام افراد کا تعلق کراچی کے مختلف علاقوں سے ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ لوگ صفائی ستھرائی کا خاص خیال رکھیں، چھینکتے اور کھانستے وقت منہ کو ٹشو یا کپڑے سے کور کریں اور کھانا کھانے سے قبل ہاتھ کو اچھی طرح سے صاف کریں۔

    ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ بلا ضرورت بھیڑ والی جگہ پر جانے سے بھی گریز کیا جائے۔