Tag: نسلی امتیاز

  • بھارت میں نسلی امتیاز نے بھارتی صدر کو بھی نہ بخشا

    بھارت میں نسلی امتیاز نے بھارتی صدر کو بھی نہ بخشا

    نئی دلی: بھارت میں نسلی امتیاز نے بھارتی صدر کو بھی نہ بخشا، بھارتی خاتون صدر دروپدی مرمو کا تعلق قبائلی ادیواسی ذات سے ہے۔

    رپورٹ کے مطابق بھارتی صدر کو اپنی نچلی ذات کی وجہ سے مندروں میں نسلی امتیاز کا مسلسل سامنا ہے، گزشتہ دنوں مندر جانے پر بھارتی صدر کو مورتیوں کے قریب جانے سے روک دیا گیا۔

    رپورٹ میں بتایا گیا کہ بھارتی صدر دروپدی مرمو ملک کے دارالحکومت نئی دلی میں مندر کا دورہ کر رہی تھیں، مندر میں صرف برہمن ذات کے ہندوؤں کو مورتیوں کے قریب جانے کی اجازت ہے۔

    بھارتی صدر کے ساتھ ملک کے دارالحکومت میں امتیازی سلوک بھارت کی ہندوتوا سوچ عیاں کر رہا ہے، بی جے پی نے ادیواسی خاتون کو صدر تو تعینات کر دیا لیکن متعصب سوچ پھر بھی غالب رہی ہے۔

    انہی وجوہات کی بنا پر دنیا بھارت میں مذہبی آزادی اور نسلی امتیاز پر شدید تنقید کر رہی ہے۔

  • امن کا عالمی دن: نسل پرستی دنیا کو پرامن بنانے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ

    امن کا عالمی دن: نسل پرستی دنیا کو پرامن بنانے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ

    آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں امن کا عالمی دن منایا جارہا ہے جس کا مقصد دنیا بھر میں امن کی کوششوں کو فروغ دینا ہے، اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ نسل کی بنیاد پر برتا جانے والا امتیاز دنیا کی ترقی اور امن کے قیام میں اہم رکاوٹ ہے۔

    اقوام متحدہ کے زیر اہتمام اس دن کو پہلی بار سنہ 1982 میں منایا گیا۔ 2001 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد نمبر 52 کے تحت اس دن کو منا نے کا فیصلہ کیا گیا، اور 2002 میں اسے پہلی بار عالمی طور پر منایا گیا۔

    اس دن کو منانے کا اہم مقصد دنیا کو ہتھیاروں سے پاک کرنا اور امن کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے۔

    رواں برس اس دن کا مرکزی نسلی امتیاز کا خاتمہ اور امن قائم کرنا ہے۔

    مغربی ممالک اور اقوام متحدہ جہاں ایک جانب مساوات عالم کا پیغام دے رہے ہیں وہیں کشمیر، فلسطین، برما اور دنیا کے دیگر خطوں میں مسلمانوں پر ہونے والے یکطرفہ مظالم اقوام متحدہ کے ادارے کی کارکردگی پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہیں۔

    اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ نسلی تعصب لوگوں سے ان کے حقوق اور وقار چھین لیتا ہے۔

    اقوام متحدہ کے مطابق نسلی تعصب ناانصافیوں اور عدم اعتماد کو جنم دیتا ہے، اور ایک ایسے وقت میں جب ہمیں دنیا کی تعمیر کے لیے مل کر ایک ہونا چاہیئے، لوگوں کو ایک دوسرے سے الگ کردیتا ہے۔

    فاختہ ۔ امن کی علامت

    فاختہ کو امن کی علامت سمجھا جاتا ہے، یونانی عقائد میں یہ پرندہ محبت اور زندگی کی علامت سمجھا جاتا تھا، عیسائیت میں بھی اسے اہم حیثیت حاصل ہے۔ انجیل میں کہا گیا ہے کہ جب سیلاب آنے لگا تو حضرت نوح علیہ السلام نے ایک فاختہ کو فضا میں چھوڑ دیا۔

    کچھ دن بعد فاختہ واپس آئی تو اس کی چونچ میں زیتون کی شاخ تھی جو اس بات کا اظہار تھی کہ سیلاب ختم ہوچکا ہے اور زمین پر زندگی لوٹ آئی ہے۔

    زیتون کی شاخ کو بھی امن کی علامت سمجھا جاتا ہے، یونانیوں کا ماننا تھا کہ جس جگہ زیتون کی شاخ موجود ہو اس جگہ سے شیطانی قوتوں کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔

    انیسویں صدی کے ایک معروف فرانسیسی مصور ہنری میٹسی نے فاختہ اور اس کی چونچ میں زیتون کی شاخ نہایت خوبصورتی سے پینٹ کر کے اپنے بہترین دوست، حریف اور ایک اور معروف ہسپانوی مصور پابلو پکاسو کو بھجوائی۔

    پکاسو نے اس فاختہ کی حاشیے (لکیر) سے دوبارہ تصویر بنائی۔ سنہ 1949 میں اقوام متحدہ نے امن کی عالمی کانفرنس کے دوران اسی تصویر کو امن کی علامت کے طور پر پیش کیا۔

    تب سے سیاہ حاشیے سے کھنچی فاختہ اور اس کی چونچ میں زیتون کی شاخ امن کی عالمی علامت مانی جاتی ہے۔

  • ’کوما گاتا مارو‘ کے 376 مسافروں پر کیا بیتی؟ تاریخ کے فراموش کردہ اوراق

    ’کوما گاتا مارو‘ کے 376 مسافروں پر کیا بیتی؟ تاریخ کے فراموش کردہ اوراق

    اپریل 1914 میں بحری جہاز ’کوما گاتا مارو‘ نے ہندوستان کے ساحل سے اپنے سفر کا آغاز کیا تھا۔ اس جہاز پر 376 مسافر اپنے پیاروں کی جدائی کا کرب سہنے کے لیے خود کو کب کا آمادہ کرچکے تھے۔ ان کی آنکھوں میں تیرتا نم جب جب کم ہوتا تو ان سے وہ خواب جھلکنے لگتا جس کی تکمیل کے لیے وہ اپنا گھر بار چھوڑ کر سات سمندر پار جارہے تھے۔

    یہ مسافر خوش حال اور آسودہ زندگی کی خاطر ایک نئی سرزمین پر بسنے کا خواب آنکھوں میں‌ سجائے وطن سے دور جارہے تھے۔

    برطانوی راج میں پنجاب سے روانہ ہونے والے ان مسافروں میں 337 سکھ، 27 مسلمان اور 12 ہندو شامل تھے۔ ان میں سے 24 کو کینیڈا کی سرزمین پر قدم رکھنے کی اجازت دے دی گئی تھی، لیکن 325 مسافروں کی مراد پوری نہ ہوسکی اور انھیں ہندوستان لوٹنے پر مجبور کردیا گیا جہاں ایک حادثہ ان کا منتظر تھا۔

    ان نامراد مسافروں میں 20 ایسے بھی تھے جنھیں واپسی پر زندگی سے محروم ہونا پڑا۔

    اس زمانے میں سلطنتِ برطانیہ کی جانب سے سفر پر کوئی پابندی یا کسی قسم کی قید نہ تھی۔ طویل سفر کے بعد جب بحری جہاز ’کوما گاتا مارو‘ کینیڈا کے ساحل سے قریب تھا تو اسے بندر گاہ سے تین میل دور پانی میں روک لیا گیا۔ معلوم ہوا کہ انھیں کینیڈا میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے۔ اس پر بحری جہاز کے کپتان نے قانونی مدد لینے کا فیصلہ کیا اور صلاح مشورے کے بعد ایک وکیل کے ذریعے حکام کے خلاف مقدمہ کردیا گیا۔

    یہ وہ زمانہ تھا جب آج کے ترقّی یافتہ اور مہذّب معاشروں میں نسلی امتیاز اور ہر قسم کی تفریق عام تھی۔ خاص طور پر کینیڈا میں اس وقت ’وائٹ کینیڈا‘ نامی تحریک زوروں پر تھی اور کہا رہا تھاکہ کینیڈا صرف گوروں کا وطن ہے، اس وقت نسل پرستوں کی جانب سے ان سیکڑوں ہندوستانیوں سے سخت نفرت کا اظہار کیا جا رہا تھا۔

    ہندوستانیوں کے وکیل کو بھی نسل پرستوں کی جانب سے دھمکیاں دی جانے لگیں۔ تاہم مقدمہ دائر ہوچکا تھا جو طول پکڑتا گیا اور کوما گاتا مارو کے مسافروں کی مشکل اور ان کی بے چینی بھی بڑھتی گئی۔ جہاز پر ذخیرہ شدہ خوراک اور غذائی اجناس ختم ہوجانے کے بعد نوبت فاقے تک آگئی اور مسافر بیمار پڑ گئے۔

    مسافر زیادہ دن تک اس مشکل کا مقابلہ نہیں کرسکے اور لوٹ جانے میں عافیت جانی۔ یوں یہ جہاز ہندوستان کی جانب روانہ ہوا، جہاں اس کے مسافروں پر ایک نئی افتاد ٹوٹ پڑی۔

    یہ بحری جہاز 27 ستمبر کو ہندوستان میں کولکتہ کے ساحل کے قریب پہنچا تو اسے وہاں مسلح نگرانوں نے روک لیا اور مسافروں کو پنجاب کے مفرور اور باغی سمجھ کر اُن پر گولیاں برسا دیں۔ بیس مسافر جان سے گئے۔ اس وقت کے حکام کا خیال تھا کہ یہ لوگ ’غدر پارٹی‘ کے باغی ہیں جو اُن دنوں شمالی امریکا میں سرگرمِ عمل تھی۔

    یہ واقعہ کینیڈا جیسے جمہوریت پسند اور انسانی حقوق و مساوات کے علم بردار ملک میں اس وقت جاری نسلی امتیاز اور تعصّب کے ایک بدترین دور کی یاد دلاتا ہے۔

    مغربی بنگال میں ’کوما گاتا مارو‘ اور اس کے بدقسمت مسافروں کی ایک یادگار بھی موجود ہے جسے 1952 میں تعمیر کیا گیا تھا۔ اس کا افتتاح اس وقت کے بھارتی وزیرِاعظم جواہر لعل نہرو نے کیا تھا۔

  • امریکی پولیس مظاہرین پر تیز آواز اور روشنی والے گرنیڈ پھینکنے لگی

    امریکی پولیس مظاہرین پر تیز آواز اور روشنی والے گرنیڈ پھینکنے لگی

    واشنگٹن: امریکا میں نسلی امتیاز کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ بدستور جاری ہے، مظاہرین نے مطالبہ کیا ہے کہ وفاقی فوجی دستے واپس بھیجے جائیں۔

    امریکی میڈیا کے مطابق سیاہ فام امریکی جارج فلائیڈ کے پولیس اہل کار کے ہاتھوں قتل کے بعد نسلی امتیاز کے خلاف شروع ہونے والا احتجاجی سلسلہ ختم نہ ہو سکا، ریاست اوریگان کے شہر پورٹ لینڈ اور واشنگٹن اسٹیٹ کے شہر سیاٹل میں ایک بار پھر مظاہرین اور پولیس میں جھڑپیں ہوئی ہیں۔

    مظاہرین نے پولیس کی فنڈنگ ختم کرنے اور وفاقی فوجی دستے واپس بھیجنے کا مطالبہ کر دیا ہے، ڈیموکریٹ پارٹی کا کہنا ہے کہ فوجی دستے طاقت کا استعمال کر کے شہریوں کو مشتعل کر رہے ہیں۔

    خیال رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پُر تشدد احتجاجی مظاہروں کو جرم قرار دے چکے ہیں، ٹرمپ نے پُر تشدد احتجاج کو روکنے کے لیے کئی شہروں میں وفاقی فوجی دستے بھیجے تھے، ادھر ڈیموکریٹ گورنرز اور میئرز نے بھی فوجی دستے واپس بلانے کا مطالبہ کر دیا ہے۔

    دوسری طرف شہر سیاٹل میں بڑے احتجاجی مظاہروں کے بعد شہری انتظامیہ نے مظاہروں کو فساد قرار دے دیا ہے، مظاہرین نے احتجاج کے لیے ایک بڑا علاقہ ایک ہفتے سے گھیرا ہوا ہے، جسے خالی کرانے کے لیے پولیس نے مظاہرین پر فلیش بینگ گرنیڈ اور مرچوں کے اسپرے کا استعمال کیا، فلیش بینگ گرنیڈ سے تیز آواز اور روشنی پیدا ہوتی ہے جسے مظاہرین کو منتشر کرنے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور کوئی شدید زخم نہیں لگتے۔

    سیاٹل پولیس نے کہا ہے کہ 11 مظاہرین کو گرفتار بھی کر لیا گیا ہے، جن سے ہفتے کو پولیس اسٹیشن کی دیواروں کو ممکنہ دھماکا خیز مواد سے نقصان پہنچائے جانے کے سلسلے میں تفتیش کی جا رہی ہے۔

  • اسٹار فٹبالر بھی نسلی امتیاز کے خلاف میدان میں آگئے

    اسٹار فٹبالر بھی نسلی امتیاز کے خلاف میدان میں آگئے

    لندن: انگلش فٹبال کلب مانچسٹرسٹی کے معروف فٹبالر رحیم اسٹرلنگ بھی نسل پرستی کے خلاف میدان میں آگئے اور امریکا میں جاری مظاہروں کی حمایت کردی۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی پولیس کے ہاتھوں سیاہ فام جارج فلائیڈ کے ہلاکت کے بعد امریکا سمیت دنیا بھر میں مظاہرے پھوٹ پڑے ہیں جس سے متعلق رحیم اسٹرلنگ نے حمایت کی اور نسلی امتیاز کے خاتمے کا مطالبہ کیا، کھلاڑی نے سیاہ فام کی موت پر گہرے دکھ اور افسوس کا بھی اظہار کیا۔

    ان کا کہنا تھا کہ دنیا میں تبدیلی اور امتیازی سلوک ختم کرنے کی ضرورت ہے، آج کے دور میں احتجاج کر کے ہی آواز اٹھائی جاسکتی ہے۔ خیال رہے کہ رحیم اسٹرلنگ سے قبل کھل اور فلم انڈسٹری سے تعلق رکھنے والی دیگر مشہور شخصیات نے بھی نسلی امتیاز کے خلاف آواز بلند کی ہے۔

    خیال رہے کہ کچھ روز قبل امریکی ریاست مینیسوٹا میں سابق پولیس افسر ڈارک چوون کے تشدد کے باعث سیاہ فام امریکی جارج فلائیڈ ہلاک ہوگیا تھا، سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے۔

  • امریکا میں سیاہ فام کی دردناک موت پولیس افسران کو لے ڈوبی

    امریکا میں سیاہ فام کی دردناک موت پولیس افسران کو لے ڈوبی

    مینیسوٹا: امریکی شہر مینی پولس میں ایک سیاہ فام امریکی کی موت 4 پولیس افسران کو لے ڈوبی۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق امریکی ریاست مینیسوٹا کے شہر مینی پولس میں ایک سیاہ فام امریکی جارج فلائیڈ کی موت پر 4 پولیس افسران کو نوکری سے فارغ کر دیا گیا۔

    پولیس افسران کے خلاف یہ کارروائی ایک ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد کی گئی، جس میں ایک سفید فام پولیس اہل کار کو جارج فلائیڈ کی گردن پر گھٹنا دبا کر رکھے دیکھا گیا، جب کہ سیاہ فام شخص اس وقت غیر مسلح تھا۔

    یہ افسوس ناک واقعہ پیر کے روز پیش آیا تھا، پولیس افسر نے جارج فلائیڈ کے ہاتھ پیچھے کر کے ہتھ کھڑی لگا دی تھی اور اسے زمین پر منہ کے بل گرا کر اس کی گردن پر گھٹنا رکھ کر دباتا رہا، اس دوران سیاہ فام شخص تکلیف کے عالم میں اسے اٹھنے کے لیے کہتا رہا کہ وہ سانس نہیں لے پا رہا۔

    جارج فلائیڈ اور ان کی فیملی

    یہ ویڈیو کسی راہ گیر نے بنائی تھی، جو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی، اس میں سیاہ فام شخص کی آواز سنائی دیتی ہے، وہ بار بار درخواست کرتا ہے: پلیز مین، میں سانس نہیں لے پا رہا، میں سانس نہیں لے پا رہا۔ چند ہی منٹ کے بعد جارج فلائیڈ کی آنکھیں بند ہو گئیں اور آواز بھی خاموش ہو گئی۔

    تاہم پولیس افسر نے اپنا گھٹنا اس کی گردن سے نہیں ہٹایا، راہ گیر بھی چلاتے رہے کہ وہ حرکت نہیں کر رہا ہے، اسے مدد کی ضرورت ہے۔ اس موقع پر ایک اور پولیس افسر پاس کھڑے ہو کر لوگوں کو دیکھتا رہا۔ بعد ازاں، جارج فلائیڈ کو اسپتال پہنچایا گیا لیکن وہ جاں بر نہ ہو سکا اور مر گیا۔ مینی پولس پولیس چیف میداریا ارادوندو نے ایک نیوز کانفرنس میں پولیس اہل کاروں کے نام نہ بتاتے ہوئے کہا کہ مذکورہ افسران کو فارغ کر دیا گیا ہے۔

    ریاست کی بیورو آف کریمنل اپریہنشن اور ایف بی آئی نے الگ الگ اس واقعے کی تحقیقات شروع کر دی ہیں، جارج فلائیڈ کی فیملی کے وکیل بین کرمپ کا کہنا تھا کہ جو کچھ ہوا وہ طاقت کا نہایت غلط، بہت زیادہ اور غیر انسانی استعمال تھا، جس نے ایک انسانی جان لے لی، پولیس اسے قید کر کے پوچھ گچھ کر سکتی تھی۔

    وکیل نے مینی پولس پولیس ڈپارٹمنٹ سے سوال کیا کہ آخر کتنی سفید و سیاہ فام جانیں مزید درکار ہوں گی اس نسلی امتیاز اور سیاہ فاموں کی ناقدری کے خاتمے کے لیے۔ دریں اثنا، مینی پولس کے میئر جیکب فرے نے اپنے بیان میں کہا کہ پولیس افسران کو فارغ کرنے کا فیصلہ ہمارے شہر کے لیے بالکل درست ہے، ہم اپنی اقدار بیان کر چکے ہیں، اب ہمیں ان کے مطابق زندگی گزارنا ہے۔