Tag: نسیم بیگم

  • ’’نام لے لے کے ترا ہم تو جیے جائیں گے‘‘ نام وَر گلوکارہ نسیم بیگم کی برسی

    ’’نام لے لے کے ترا ہم تو جیے جائیں گے‘‘ نام وَر گلوکارہ نسیم بیگم کی برسی

    نسیم بیگم اپنے زمانے کی مقبول ترین گلوکارہ تھیں جو 29 ستمبر 1971 کو انتقال کرگئی تھیں۔ آج پاکستان کی اس نام ور گلوکارہ کی برسی ہے۔

    1936 میں امرتسر کی ایک مغنیہ کے گھر جنم لینے والی نسیم بیگم نے بھی موسیقی اور راگ راگنیوں، سُر اور تال سے ناتا جوڑا اور اپنی فنی زندگی کا آغاز ریڈیو پاکستان، لاہور سے کیا۔

    فلم انڈسٹری میں‌ نسیم بیگم کو اس وقت کے فلمی موسیقار شہر یار نے متعارف کروایا۔ وہ فلم بے گناہ کا ایک نغمہ ’’نینوں میں جل بھر آئے روٹھ گیا میرا پیار‘‘ کے ذریعے فلمی صنعت سے وابستہ ہوئیں اور ان کا گایا ہوا یہ نغمہ بے حد مقبول ہوا۔ اس گیت نے نسیم بیگم پر فلمی دنیا کے دروازے کھول دیے۔

    نسیم بیگم نے پانچ برسوں‌ میں‌ چار نگار ایوارڈز اپنے نام کیے اور بہترین گلوکارہ کہلائیں۔نسیم بیگم کو یہ نگار ایوارڈز مشہور فلمی نغمات سو بار چمن مہکا‘ اس بے وفا کا شہر ہے‘ چندا توری چاندنی میں اور نگاہیں ہوگئیں پُرنم‘ کے لیے دیے گئے تھے۔

    پاکستان کی اس مقبول گلوکارہ نسیم بیگم کے دیگر نغمات میں ہم بھول گئے ہر بات‘ ہم نے جو پھول چُنے اور مکھڑے پہ سہرا ڈالے‘ آجائو آنے والے‘ نام لے لے کے ترا ہم تو جیے جائیں گے‘ جب کہ ملّی نغمہ اے راہ حق کے شہیدو وفا کی تصویرو‘ شامل ہیں۔

    دیساں دا راجہ میرے بابل دا پیارا‘ ان کی آواز میں ایک مقبول ترین گیت تھا جو سرحد پار بھی سنا اور بے حد پسند کیا گیا۔

    نسیم بیگم نے اپنے وقت کے نام ور گلوکاروں جن میں سلیم رضا، منیر حسین، مہدی حسن، احمد رشدی اور مسعود رانا شامل ہیں‌، کے ساتھ متعدد دو گانے بھی گائے جنھیں‌ بہت پسند کیا گیا۔

  • ہم بھول گئے ہر بات مگر تیرا پیار۔۔

    ہم بھول گئے ہر بات مگر تیرا پیار۔۔

    اپنے سریلے گیتوں سے پاکستان فلم انڈسٹری کو چار چاند لگانے والی نسیم بیگم کی اڑتالیسویں برسی آج منائی جارہی ہے، ان کے گائے ملی نغمے اور فلمی گیت آج بھی ذہنوں میں تروتازہ ہیں۔

    نسیم بیگم سنہ 1936میں امرتسرمیں پیدا ہوئیں، انہوں نے موسیقی کا فن مشہور غزل گو فریدہ خانم کی بڑی بہن اور کلاسیکل گلوکارہ مختار بیگم سے سیکھا اورسنہ 1956میں اپنے فنی سفر کا آغازکیا۔

    اپنا پہلا فلمی نغمہ انہوں نے فلم گڈی گڑیا میں گایا۔ اُنہوں نے احمد رشدی کے ساتھ بھی بہت سے دوگانے گائے۔ نیز اُنہوں نے بہت سے ملّی نغمے بھی گائے ہیں، جن میں اے راہِ حق کے شہیدوں وفا کی تصویروں، تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کرتی ہیں بہت مقبول ہوئے۔

    نسیم بیگم کو کلاسیکی گیتوں پر مہارت اور دسترس حاصل تھی ، انہوں نے 500سے زائد فلمی نغمے گائے،اور سننے والوں سے داد سمیٹی۔نسیم بیگم نےفلم گلفام، شہید، شام ڈھلے، سلمٰی، زرقا سمیت سینکڑوں فلموں کیلئے بے شمار گیت گائے اور شہرت کی بلندیوں تک پہنچیں۔

    بادلوں میں چھپ رہا ہے چاندکیوں، کہیں دو دل جو مل جاتے بگڑتا کیا زمانے کا، نینوں میں جل بھر آئے، سو بارچمن مہکا سو بار بہار آئی، اس بے وفا کا شہر ہے، ہم ہیں دوستو اور ہم بھول گئے ہر بات مگر تیرا پیار نہیں بھولےجیسے سدا بہار گیتوں نے نسیم بیگم کو ہمیشہ کیلئے امر کر دیا۔

    پاکستان کی موسیقی کی انڈسٹری میں انہیں درس گاہ کا درجہ حاصل تھا اور انہیں ملکہ ترنم نور جہاں کا نعم البدل بھی تصور کیا جاتا تھا لیکن جلد ہی انہوں نے اپنا الگ انداز اپنایا جسے مقبولیت عام میسر آئی، انہوں نے اپنی گائیکی کے لیے چار نگار ایوارڈز بھی جیتے۔

    آج سے اڑتالیس سال قبل 29ستمبر 1971ء کو دورانِ زچگی پیچیدگی پیش آنے کے سبب اُن کا انتقال ہو گیا تھا ، لیکن اپنی مدھر آواز اور بے مثال گائیکی کے سبب وہ مداحوں کے دلوں میں آج بھی زندہ ہیں۔