Tag: نشانِ حیدر

  • کیپٹن سرور شہید کا 76 واں یوم شہادت، پاک فوج کا خراج عقیدت

    کیپٹن سرور شہید کا 76 واں یوم شہادت، پاک فوج کا خراج عقیدت

    راولپنڈی : پاکستان کے پہلے ’نشانِ حیدر‘ کیپٹن محمد سرور شہید کا 76 واں یوم شہادت آج منائا جا رہا ہے، مسلح افواج نے ان کی برسی پر شاندار خراجِ عقیدت پیش کیا ہے۔

    پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے مطابق کیپٹن محمد سرورشہید نشان حیدر کے 76واں یوم شہادت کے موقع پر چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی،مسلح افواج، سروسز چیفس کی جانب سے شہید کو خراج عقیدت پیش کیا گیا ہے۔

    آئی ایس پی آر کے مطابق مسلح افواج کے سربراہان کا کہنا ہے کہ کیپٹن محمد سرور شہید کی ہمت، ثابت قدمی اورجرات کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔

    کیپٹن محمدسرور شہید پاک فوج کے نشان حیدر حاصل کرنے والے پہلے افسر ہیں، انہوں نے 1948میں تلپترا آزاد کشمیر میں مادر وطن کا دفاع کرتے جام شہادت نوش کیا۔

    آئی ایس پی آر کے مطابق کیپٹن محمد سرور شہید کی برسی افواج پاکستان کی قربانیوں کی یاد دلاتی ہے، مادر وطن کیلئے جانوں کا نذرانہ دینے والے وطن کے بہادر بیٹوں کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

  • پاک فوج کا پہلا نشانِ حیدر- کیپٹن سرورشہید

    پاک فوج کا پہلا نشانِ حیدر- کیپٹن سرورشہید

    پاکستان میں پہلا نشان حیدر پانے والے ، ہمت اور بہادری سے دشمن کے دانت کھٹے کردینے والے جانباز کیپٹن سرور شہید کا آج 71واں یوم شہادت ہے۔

    کیپٹن راجہ محمد سرور شہید ضلع راولپنڈی کے ایک گاؤں سنگھوری میں10 نومبر 1910 میں پیدا ہوئے، محمد سرور شہید نے اپنی ابتدائی تعلیم فیصل آباد سے حاصل کی، 1929 میں انہوں نے فوج میں بطور سپاہی شمولیت اختیار کی، 1944میں پنجاب رجمنٹ میں کمیشن حاصل کیا، جس کے بعد انہوں نے برطانیہ کی جانب سے دوسری عالمی جنگ میں حصہ لیا، شاندار فوجی خدمات کے پیشِ نظر 1946 میں انہیں مستقل طور پر کیپٹن کے عہدے پر ترقی دے دی گئی۔

    قیام پاکستان کے بعد سرور شہید نے پاک فوج میں شمولیت اختیار کرلی۔ 1948ء میں جب وہ پنجاب رجمنٹ کے سیکنڈ بٹالین میں کمپنی کمانڈر کے عہدے پر خدمات انجام دے رہے تھے ، جب انہیں کشمیر میں آپریشن پر مامور کیا گیا۔

    27 جولائی 1948ء کو انہوں نے کشمیر کے اوڑی سیکٹر میں دشمن کی اہم فوجی پوزیشن پر حملہ کیا۔ اس حملے میں مجاہدین کی ایک بڑی تعداد شہید اور زخمی ہوئی لیکن کیپٹن سرور نے پیش قدمی جاری رکھی۔ دشمن کے مورچے کے قریب پہنچ کر انہیں معلوم ہوا کہ دشمن نے اپنے مورچوں کو خاردار تاروں سے محفوظ کر لیا ہے، اس کے باوجود کیپٹن سرور مسلسل فائرنگ کرتے رہے۔

    نشانِ حیدر کس طرح تیار کیا جاتا ہے

    کارروائی کے دوران دشمن کی کئی گولیاں ان کے جسم میں پیوست ہوچکی تھیں لیکن انہوں نے بے مثال جذبے کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک ایسی گن کا چارج لیا جس کا جوان شہید ہوچکا تھا، اپنے زخموں کی پروا کیے بغیر 6 ساتھیوں کے ہمراہ انہوں نے خاردار تاروں کو عبور کرکے دشمن کے مورچے پرآخری حملہ کیا۔

    دشمن نے اس اچانک حملے کے بعد اپنی توپوں کارخ کپٹن سرور کی جانب کر دیا، یوں ایک گولی کپٹن سرور کے سینے میں لگی اور انہوں نے وہاں شہادت پائی، مجاہدین نے جب انہیں شہید ہوتے دیکھا تو انہوں نے دشمن پر ایسا بھرپور حملہ کیا کہ وہ مورچے چھوڑ کربھاگ گئے۔

    ان کی شاندار خدمات کے اعتراف میں جہاں انہیں مختلف اعزازات سے نوازا گیا، وہیں 27اکتوبر 1959ء کو انہیں نشانِ حیدر کے اعلیٰ ترین اعزاز سے نوازا گیا، انہیں پہلا نشانِ حیدرپانے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ یہ اعزاز ان کی بیوہ محترمہ کرم جان نے 3 جنوری 1961ء کو صدرپاکستان محمد ایوب خان کے ہاتھوں وصول کیا تھا۔

    مادر وطن کی خاطر بیرونی دشمنوں کے خلاف جنگ لڑنےوالے کیپٹن سرور شہید آج دہشت گردوں اور اندرونی چیلنجز سے نبردآزما پاک فوج کے جری سپوتوں کے لئے بہادری کی روشن مثال ہیں۔

  • نشانِ حیدرحاصل کرنے والے شیردل سپوت

    نشانِ حیدرحاصل کرنے والے شیردل سپوت

    نشانِ حیدر افواجِ پاکستان کا سب سے بڑا فوجی اعزاز ہے جو کہ وطن کی حفاظت کی خاطر اپنی جان قربان کرنے والے شیر دل فوجیوں کو دیا جاتا ہے، اب تک پاکستان کے دس سپوت یہ اعزاز حاصل کرچکے ہیں۔

    پاکستان میں نشانِ حیدر حاصل کرنے والے دس فوجیوں میں میجر طفیل نے سب سے بڑی عمر یعنی 44 سال میں شہادت پانے کے بعد نشان حیدر حاصل کیا، باقی فوجی جنہوں نے نشان حیدر حاصل کیا ان کی عمریں 40 سال سے

    بھی کم تھیں جبکہ سب سے کم عمر نشان حیدر پانے والے پائلٹ آفیسر راشد منہاس تھے جنہوں نے دورانِ تربیت 20 سال 6 ماہ کی عمر میں شہادت کے منصب پر نشان حیدر اپنے نام کیا۔ اب تک بری فوج کے حصہ میں 9 جبکہ پاک فضائیہ کے حصے میں ایک نشان حیدر آیا ہے۔

    نشانِ حیدر کے مساوی ’ہلال کشمیر ‘ ہے جو کہ آزاد کشمیر کی فوج سے تعلق رکھنے والے فوجیوں کو دیا جاتا ہے ، اب تک یہ اعزاز صرف ایک فوجی سیف اللہ جنجوعہ کے حصے میں آیا ہے۔

    نشانِ حیدر


    نشان حیدر کا اجراء 16 مارچ 1957 سے کیا گیا، اور سنہ 1947 سے اس وقت تک اس نشان کے حق دار شہدا ء کو اس اعزاز سے نوازا گیا۔ یہ پاکستان میں دیے جانے والے تمام سول اور ملٹری اعزازوں میں سب سے بڑا امتیازی نشان ہے۔

    یہ اعزاز پیغمبر اسلام ﷺ کے نامور صحابی اور خلیفہ چہارم حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے منسوب ہے جن کا لقب حیدرِ کرار ہے اوران کا شمار جلیل القدر، جری اور دلیرصحابہ کرام میں ہوتا ہے۔

    فوج کے کسی بھی رینک اور شعبے سے تعلق رکھنے والے بہادر کو اس اعزاز سے نوازا جاسکتا ہے، اسے حاصل کرنے کا معیار حالت ِ جنگ میں انتہائی خطرے کے مقام پر جرات وبہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے شہید ہوجانا ہے۔

    نشانِ حیدر پاکستان منٹ میں وزارتِ دفاع کے خصوصی آرڈر پر تیار کیا جاتا ہے اور اس کی تشکیل میں دشمن سے چھینے گئے اسلحے کی دھات کو استعمال کیا جاتا ہے، نشانِ حیدر 88 فیصد کاپر ، 10 فیصد ٹن اور 2 فیصد زنک کے امتزاج سے تشکیل دیا جاتا ہے۔

    کیپٹن محمد سرور شہید


    کیپٹن سرور 1910 کو راولپنڈی میں پیدا ہوئے، قیام پاکستان سے قبل 1944 میں پنجاب رجمنٹ میں شمولیت اختیار کی ، 1948 میں کشمیر آپریشن میں ہندوستان کی فوج کے مقابلے میں اوڑی کے مقام پر 50 گز کے فاصلے پر فائرنگ کی زد میں آئے، اس وقت وہ خاردار تاریں کاٹ کر آگے بڑھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ کیپٹن سرور کی شہادت کے وقت عمر 38سال تھی۔

    میجر طفیل محمد شہید


    طفیل محمد 1914 میں پنجاب کے علاقے ہوشیار پور میں پیدا ہوئے، انہوں نے 1943 میں پاک و ہند کی تقسیم سے قبل فوج میں شمولیت اختیار کی تھی۔1958 میں مشرق پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) میں ہندوستان کی فوج نے بین الاقوام سرحد کی خلاف ورزی کی اور ایک گاؤں میں داخل ہوئی، اس گاؤں کو انہوں نے ہندوستان کی فوج سے واگزار کروالیا، مگر اس دوران وہ دست بدست بھی مخالف فوج سے لڑنے سے شدید زخمی ہونے کے باعث ان کی شہادت ہوئی۔میجر طفیل شہید کی جس وقت شہادت ہوئی ان کی عمر 44 سال تھی، وہ سب سے زیادہ عمر میں نشان حیدر حاصل کرنے والے فوجی ہیں۔

    میجر راجہ عزیز بھٹی شہید


    راجہ عزیز بھٹی 1928 میں ہانگ کانگ میں پیدا ہوئے، ان کا تعلق گجرات سے تھا، عزیز بھٹی نے 22 سال کی عمر میں پنجاب رجمنٹ میں شمولیت اختیار کی۔1965 کی جنگ میں مشہور زمانہ بی آر بی نہر کے کنارے برکی میں ایک کمپنی کی کمان کر رہے تھے، نہر کے کنارے ایک مقام پر ہندوستان کی فوج قابض ہو گئی تھی، انہوں نے اپنے سپاہیوں کے ہمراہ مخالف فوج سے علاقہ واگزار کروا لیا مگر ہندوستانی فوج کے ٹینک کا ایک گولہ ان کو آ کر لگا جس سے ان کی شہادت ہوئی۔ میجر عزیز بھٹی شہید کی جس وقت شہادت ہوئی ان کی عمر 37 سال تھی۔ یاد رہے کہ راجہ عزیز بھٹی سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے ماموں تھے۔

    میجر محمد اکرم شہید


    محمد اکرم 4 اپریل 1938 کو گجرات میں پیدا ہوئے، انہوں نے 21 سال کی عمر میں 1959 میں فوج میں شمولیت اختیار کی، انہوں نے 1965 کی جنگ میں شرکت کی اور کئی محاذوں پر ہندوستان کی فوج کا مقابلہ کیا۔1971کی جنگ میں مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) میں ڈسٹرکٹ دیناج پور اپنے علاقے کا دفاع کرتے ہوئے شہید ہوئے خیال رہے کہ دیناج پور جنگ اسی علاقے میں شامل تھا جہاں 23 نومبر 1971 سے 11دسمبر 1971 تک بوگرہ جنگ لڑی گئی، اس جنگ میں محمد اکرم کو ہیرو کا درجہ ملا۔31 سال 8 ماہ کی عمر میں شہید ہونے والے میجر محمد اکرم کو مشرقی پاکستان (موجود بنگلہ دیش) میں ہی دفنایا گیا، البتہ بعد ازاں ان کے آبائی علاقے جہلم میں یاد گار تعمیر کی گئی۔

    پائلٹ آفیسر راشد منہاس شہید


    راشد منہاس 17 فروری 1951 کو کراچی میں پیدا ہوئے، انہوں نے 13 مارچ 1971 کو پاک فضائی میں شمولیت اختیار کی، اسی سال 20 اگست کو دوران تربیت ان کے استاد (انسٹرکٹر) مطیع الرحمن نے پاکستان کے جہاز کواغواء کرکے پندوستان لے جانے کی کوشش کی تو جہاز کے کاک پٹ میں پہلے دست بدست لڑائی ہوئی ،بعد ازاں راشد منہاس نے جہاز کو ہندوستان کے بارڈر سے 51 کلومیٹر دور ہی زمین سے ٹکرا دیا جس سے ان کی شہادت ہوئی۔

    راشد منہاس فوج کا اعلیٰ ترین اعزاز نشان حیدر پانے والے کم عمر ترین فوجی ہیں شہادت کے وقت ان کی عمر صرف 20 سال اور6ماہ تھی جبکہ ان کو پاکستان ائر فورس کا حصہ بنے بھی صرف 5 ماہ ہوئے تھے۔

    میجرشبیرشریف شہید


    شبیر شریف 28 اپریل 1943 کو گجرات میں پیدا ہوئے، انہوں نے 21 سال کی عمر میں 1964 میں پاک فوج میں شمولیت اختیار کی، ان کے والد شریف احمد بھی فوج میں میجر رہے تھے۔1965 کی جنگ میں وہ بحیثیت سیکنڈ لفٹیننٹ شریک ہوئے ان کو کشمیر میں تعینات کیا گیا تھا۔

    سنہ 1971 میں جب مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) میں جنگ جاری تھی، تو پنجاب میں ہیڈ سلیمانکی کو ہندوستان کی فوج کے قبضے سے واگزار کروانے میں کامیابی حاصل کی اس جنگ میں ہندوستان کے 4 ٹینک تباہ، 42 فوجی ہلاک اور 28 قیدی بنائے گئے۔ملک کے بڑے رقبے کو پانی فراہم کرنے والے بند ہیڈ سلیمانکی پر حفاظت کے دوران ان کو ہندوستان کے ٹینک کا گولہ لگا جس سے28 سال کی عمر میں ان کی شہادت ہوئی۔ آپ سابق آرمی چیف راحیل شریف کے بڑے بھائی تھے۔

    جوان سوار محمد حسین شہید


    سوار محمد حسین جنجوعہ 18 جون 1949 کو راولپنڈی میں پیدا ہوئے، وہ 17 سال کی عمر میں پاک فوج میں بحیثیت ڈرائیور شامل ہوئے۔1971 کی جنگ میں سیالکوٹ میں ظفر وال اور شکر گڑھ کے محاذ جنگ پر گولہ بارود کی ترسیل کرتے رہے، ان کی نشاندہی پر ہی پاک آرمی نے ہندوستان کی فوج کے 16 ٹینک تباہ کیے، 10 دسمبر 1971 کو ہندوستانی فوج کی شیلنگ کی زد میں آکر سوار محمد حسین شہید ہوئے۔

    جس وقت سوار محمد حسین کی شہادت ہوئی ان کی عمر محض 22 سال اور 6 ماہ تھی۔وہ پاک فوج کے پہلے سب سے نچلے رینک کے اہلکار یعنی سپاہی تھے جن کو ان کی بہادری پر نشان حیدر دیا گیا۔

    لانس نائیک محمد محفوظ شہید


    محمد محفوظ 25 اکتوبر 1944 کو راولپنڈی میں پیدا ہوئے، انہوں نے 25 اکتوبر 1962 کو ٹھیک 16 سال کی عمر میں فوج میں بحیثیت سپاہی شمولیت اختیار کی۔1971 کی جنگ میں ان کی تعیناتی واہگہ اٹاری سرحد پر تھی، وہلائٹ مشین گن کے آپریٹر تھے، ہندوستان کی فوج کے شیلنگ سے ان کی مشین گن تباہ ہوئی جبکہ ان کی کمپنی (فوجی داستہ) مخالف فوج کی زد میں آگیا۔

    شیلنگ سے لانس نائیک محمد محفوظ کی دونوں ٹانگیں زخمی ہو گئیں انہوں نے اسی زخمی حالت میں ہندوستان کے ایک بنکر (جہاں سے پاکستانی فوج کو نشانہ بنایا جا رہا تھا) میں غیر مسلح حالت میں گھس کر حملہ کیا اور ایک ہندوستانی سپاہی کو گلے سے دبوچ لیا، البتہ ایک اور ہندوستانی فوجی نے ان پر خنجر سے حملہ کرکے انہیں شہید کر دیا۔لانس نائیک محمد محفوظ کی بہادری کا اعتراف ہندوستان کے فوجیوں نے بھی کیا۔

    ان کی شہادت کے بعد 23 مارچ 1972 کو بہادری پر سب سے بڑے فوجی اعزاز نشان حیدر انہوں سے نوازا گیا۔بعد ازاں ان کے گاؤں پنڈ مایکان کو محفوظ آباد کا نام بھی دیا گیا۔

    کیپٹن کرنل شیر خان شہید


    کرنل شیر خان یکم جنوری 1970 کو خیبر پختونخوا کے علاقے صوابی میں پیدا ہوئے۔1999 میں جب کارگل میں جنگ شروع ہوئی تو 17 ہزار فٹ کی بلندی پر انہوں نے ہندوستان کی فوج پر اس وقت حملہ کیا جب وہ با آسانی پاک فوج (کیپٹن کرنل شیر خان کی بٹالین) کی نقل و حرکت کو باآسانی دیکھ سکتے تھے، ان کا حملہ مخالف فوج کے لیے نہ صرف حیران کن تھا بلکہ انڈین آرمی کو بالکل بھی توقع نہیں تھی کہ اس طرح سے بھی کوئی فوجی افسر حملہ کرسکتا ہے۔ ہندوستان کی فوج نے پاکستان کی چوکیوں کو گھیرنے کی کوشش کی جس کے جواب میں کیپٹن کرنل شیر خان نے اپنے سپاہیوں کے ہمراہ مخالف فوج پر حملہ کردیا۔

    شیر خان کے ہمراہ ان کی دو بٹالین نے ہندوستان کی فوج سے نہ صرف اپنے 5 چوکیوں کو محفوظ بنایا بلکہ ان کی کئی چوکیوں پر بھی قبضہ کیا اور ہندوستانی فوج کو ان کے بیس کیمپ تک واپس دھکیل دیا البتہ 5 جولائی 1999 کو کرنل شیر خان کی چوکی ایک بار ہندوستانی فوج کی زد میں آئی، اس دوران وہ مشین گن کی فائرنگ سے شدید زخمی ہوئے اور ان کی شہادت ہوگئی۔کرنل شیر خان خیبر پختونخوا سے پہلے فوجی اہلکار تھے جن کو نشان حیدر دیا گیا، شہادت کےوقت ان کی عمر 29 سال 7 ماہ تھی۔

    حوالدار لالک جان شہید

    لالک جان یکم اپریل 1967 کو گلگت بلتستان کےضلع غذر میں پیدا ہوئے، انہوں نے 1984 میں پاک فوج میں 17 سالہ کی عمر میں سپاہی کی حیثیت میں شمولیت اختیار کی۔1999 میں جب کارگل جنگ کا آغاز ہوا تو وہ ناردرن لائت انفنٹری ڈویژن کے ہیڈ کوارٹر میں تعینات تھے انہوں نے زمینی جنگ کی اطلاع ملنے پر اصرار کرکے اپنی تعیناتی جنگ کے محاذ پر کروائی۔

    7 جولائی 1999 کو شہادت سے قبل لالک جان نے اپنی پوسٹ پر 3 دن کے دوران ہونے والے ہندوستانی فوج کے 17 حملوں کو ناکام بنایا۔7 جولائی کو تین اطراف سے ہونے والے حملے میں لالک جان کو کمپنی کمانڈر کی جانب سے پوسٹ چھوڑنے کی بھی تجویز دی گئی مگر انہوں نے اسے مسترد کر دیا اور ہندوستانی فوج سے مقابلہ کیا، اس دوران ان کے سینے پر مشین گن کا برسٹ لگا البتہ زخمی حالت میں بھی انہوں نے تین گھنٹوں تک مخالف فوج کا مقابلہ کیا، بعد ازاں جب پاک فوج کی نفری چوکی پر پہنچی تو ان کی شہادت ہوچکی تھی۔

    جس وقت لاک جان کی شہادت ہوئی ان کی عمر 32سال تین ماہ تھی، وہ نشان حیدر حاصل کرنے والے اب تک کے آخری فوجی اہلکار ہیں۔

    سیف اللہ جنجوعہ ( ہلالِ کشمیر)۔


    سیف اللہ جنجوعہ 1922 کو نکیلا میں پیدا ہوئے، 18 سال کی عمر میں 1940 میں پاک وہند کی تقسیم سے قبل فوج میں شمولیت حاصل کی۔1948 میں کشمیر رجمنٹ کی جانب سے لڑتے ہوئے انہوں نے مشین گن سے ہندوستان کا طیارہ مار گرایا تھا جبکہ توپ کا گولہ ان کی پوسٹ پر لگا، ان کو ہلال کشمیر سے نوازا گیا جو کہ پاکستان کے نشان حیدر کے مساوی ہے۔جس وقت نائیک سیف اللہ جنجوعہ کی شہادت ہوئی ان کی عمر 26 سال 6 ماہ تھی۔

  • پاک فضائیہ کےپائلٹ راشد منہاس شہید نشانِ حیدرکا آج 67 واں یومِ پیدائش

    پاک فضائیہ کےپائلٹ راشد منہاس شہید نشانِ حیدرکا آج 67 واں یومِ پیدائش

    کراچی : کم عمری میں نشان حیدر پانیوالے پاک فضائیہ کے پائلٹ آفیسر راشد منہاس کا آج 67 واں یوم پیدائش منایا جا رہا ہے۔

    پاک فضائیہ کے جانباز پائلٹ راشد منہاس 17 فروری 1951 کو کراچی میں پیدا ہوئے، راشد منہاس کا تعلق راجپوت گھرانے سے تھا، انہوں نے جامعہ کراچی سے ملٹری ہسٹری اینڈ ایوی ایشن ہسٹری میں ماسٹرز کیا۔

    مارچ 1971 کو راشد منہاس نے پاک فضائیہ میں بطور کمیشنڈ جی ڈی پائلٹ شمولیت اختیار کی، راشد منہاس شہید ابتداء ہی سے ایوی ایشن کی تاریخ اور ٹیکنالوجی سے متاثر تھے، ان کو مختلف طیاروں اور جنگی جہازوں کے ماڈلز جمع کرنے کا بھی شوق تھا۔

    راشد منہاس اگست1971ء کو پائلٹ آفیسر بنے، 20اگست1971ء کو جب وہ اپنی پہلی سولو فلائٹ پر روانہ ہو رہے تھے کہ اچانک ان کے انسٹرکٹر مطیع الرحمان طیارے کو رن وے پر روک کر سوار ہوگئے اور جہاز کا رخ دشمن ملک بھارت کی جانب موڑ دیا لیکن راشد منہاس نےدشمن کے عزائم کو خاک میں ملاتے ہوئے جام شہادت نوش کی۔

    وہ شہادت کا رتبہ حاصل کرنے والے پاک فضائیہ کے پہلے آفیسر تھے۔

    راشد منہاس کو ان کے عظیم کارنامے پر ملک کا سب سے بڑا فوجی اعزاز نشان حیدر عطا کیا گیا جبکہ وہ کم عمری میں نشان حیدر حاصل کرنے والے شہید بھی ہے۔

    اٹک میں قائم کامرہ ایئر بیس کو ان کے نام سے منسوب کردیا، قوم کوعظیم سپوت کی قربانی اور کارنامے پر ہمیشہ فخر رہے گا۔

    پاکستان میں نشانِ حیدر پانے والے سب سے کم عمرشہید راشد منہاس کراچی کے فوجی قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • راشد منہاس کا 46 واں یوم شہادت آج منایا جارہاہے

    راشد منہاس کا 46 واں یوم شہادت آج منایا جارہاہے

    کراچی : نشان حیدر اعزاز حاصل کرنے والے پاک فضائیہ کے پائلٹ آفیسرراشد منہاس کا 46 واں یوم شہادت آ ج بھر پورانداز میں منایا جا رہا ہے۔

    پاک فضائیہ کے آفیسر پائلٹ راشد منہاس 17 فروری 1951 کو کراچی میں پیدا ہوئے، انہوں نے جامعہ کراچی سے ملٹری ہسٹری اینڈ ایوی ایشن ہسٹری میں ماسٹرز کیا۔

    انہوں نے 13 مارچ 1971 کو پاک فضائیہ میں بطور کمیشنڈ جی ڈی پائلٹ شمولیت اختیار کی۔ راشد منہاس شہید ابتدا ہی سے ایوی ایشن کی تاریخ اور ٹیکنالوجی سے متاثر تھے، ان کو مختلف طیاروں اور جنگی جہازوں کے ماڈلز جمع کرنے کا بھی شوق تھا۔

    راشد منہاس اگست 1971ء کو پائلٹ آفیسر بنے، 20 اگست 1971 کوان کی تربیتی پرواز میں فلائٹ لیفٹنینٹ مطیع الرحمان بھی ان کے ساتھ سوار ہوا، مطیع نے اپنے مذموم مقاصد کے لیے نوجوان پائلٹ پرضرب لگائی اور طیارے کا رخ ہندوستان کی جانب موڑ لیا۔

    راشد منہاس نے وطن پر جان قربان کرتے ہوئےدشمن کی اس سازش کو ناکام بناتے ہوئے جہاز کا رخ زمین کی جانب موڑ دیا اور اس دشمن کے عزائم کو خاک میں ملاتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔

    راشد منہاس شہید نے اپنی جان قربان کرکے ملک کے دفاع اور حرمت کی لاج رکھ لی۔ان کی بے مثال قربانی پر حکومت پاکستان نے انھیں اعلیٰ ترین فوجی اعزاز نشانِ حیدر سے نوازا گیا۔

    اٹک میں قائم کامرہ ایئر بیس کو راشد منہاس شہید کے نام سے منسوب کیا گیا، قوم کوعظیم سپوت کی قربانی اور کارنامے پر ہمیشہ فخر رہے گا۔

    پاکستان میں نشانِ حیدر پانے والے سب سے کم عمرشہید راشد منہاس کراچی کے فوجی قبرستان میں آسودہٗ خاک ہیں۔

    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں۔