Tag: نظام الدین اولیا

  • علّامہ اقبال حضرت محبوب الہیٰ کے مزار پر

    علّامہ اقبال حضرت محبوب الہیٰ کے مزار پر

    1905ء میں یورپ روانگی کے ارادے سے علّامہ اقبال لاہور سے دلّی پہنچے تو وہاں خواجہ نظام الدّین اولیاء کی درگاہ پر حاضری دی۔ اس درگاہ پر اقبال نے اپنی نظم ’التجائے مسافر‘ پڑھی تھی۔

    محبوب الٰہی نظام الدّین اولیاء سلسلۂ چشتیہ کے چوتھے صوفی بزرگ تھے جن کے ارادت مند برصغیر میں پھیلے ہوئے تھے اور آج بھی ان کے عرس پر کثیر تعداد میں لوگ شرکت کرتے ہیں۔ علّامہ اقبال کو اولیاء اللہ اور صوفیائے کرام سے بڑی عقیدت تھی اور اس کا اندازہ ان کی نظم کے اشعار سے کیا جاسکتا ہے۔ اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں؛ ’دو دفعہ حضرت خواجہ نظام الدّین کی درگاہ پر حاضر ہوا تھا۔ خواجہ حسن نظامی صاحب نے بہت اچھی قوالی سنوائی۔‘

    علّامہ کبھی کبھار دلّی آتے تھے، جس کی ایک وجہ ان کا حکیم نابینا سے علاج معالجہ کا سلسلہ بھی تھا۔ ستمبر میں یورپ روانگی سے قبل دلّی آمد کے بعد وہاں مختصر قیام کے دوران علّامہ اقبال اردو کے مشہور شاعر مرزا غالب کے مدفن پر بھی گئے تھے۔

    دلّی کی روداد علّامہ کی زبانی ملاحظہ فرمائیے: ریلوے اسٹیشن پر خواجہ سید حسن نظامی اور شیخ نذر محمد صاحب اسسٹنٹ انسپکٹر مدارس موجود تھے۔ تھوڑی دیر کے لیے شیخ صاحب موصوف کے مکان پر قیام کیا۔ ازاں بعد حضرت محبوب الہیٰ کے مزار پر حاضر ہوا اور تمام دن بسر کیا۔ اللہ اللہ! حضرت محبوب الہیٰ کا مزار بھی عجیب جگہ ہے۔ بس یہ سمجھ لیجیے کہ دہلی کی پرانی سوسائٹی حضرت کے قدموں میں مدفون ہے۔ خواجہ حسن نظامی کیسے خوش قسمت ہیں کہ ایسی خاموش اور عبرت انگیز جگہ میں قیام رکھتے ہیں۔ شام کے قریب ہم اس قبرستان سے رخصت ہونے کو تھے کہ میر نیرنگ نے خواجہ صاحب سے کہا کہ ذرا غالب مرحوم کے مزار کی زیارت بھی ہوجائے کہ شاعروں کا حج یہی ہوتا ہے۔ خواجہ صاحب موصوف ہم کو قبرستان کے ایک ویران سے گوشے میں لے گئے جہاں وہ گنج معانی مدفون ہے، جس پر خاکِ دہلی ہمیشہ ناز کرے گی۔ حسنِ اتفاق سے اس وقت ہمارے ساتھ ایک نہایت خوش آواز لڑکا ولایت نام تھا، اس ظالم نے مزار کے قریب بیٹھ کر”دل سے تری نگاہ جگر تک اتر گئی…..” کچھ ایسی خوش الحانی سے گائی کہ سب کی طبیعتیں متاثر ہوگئیں، بالخصوص جب اس نے یہ شعر پڑھا:

    وہ بادۂ شبانہ کی سرمستیاں کہاں
    اٹھیے بس اب کہ لذت خوابِ سحر گئی

    تو مجھ سے ضبط نہ ہوسکا، آنکھیں پرنم ہوگئیں اور بے اختیار لوحِ مزار کو بوسہ دے کر اس حسرت کدے سے رخصت ہوا۔ یہ سماں اب تک ذہن میں ہے اور جب کبھی یاد آتا ہے تو دل کو تڑپاتا ہے۔

    اگرچہ دہلی کے کھنڈر مسافر کے دامنِ دل کو کھینچتے ہیں، مگر میرے پاس اتنا وقت نہیں تھا کہ ہر مقام کی سیر سے عبرت اندوز ہوتا۔ شہنشاہ ہمایوں کے مقبرے پر فاتحہ پڑھا، دارا شکوہ کے مزار کی خاموشی میں دل کے کانوں سے ھوالموجود کی آواز سنی اور دہلی کی عبرت ناک سرزمین سے ایک ایسا اخلاقی اثر لے کر رخصت ہوا، جو صفحۂ دل سے کبھی نہ مٹے گا۔ تین ستمبر کی صبح کو میر نیرنگ اور شیخ محمد اکرام اور باقی دوستوں سے دہلی میں رخصت ہو کر بمبئی کو روانہ ہوا اور 4 ستمبر کو خدا خدا کر کے اپنے سفر کی پہلی منزل پر پہنچا۔

  • طوطیٔ ہند امیر خسرو اور حضرت نظام الدّین اولیاء

    طوطیٔ ہند امیر خسرو اور حضرت نظام الدّین اولیاء

    کہا جاتا ہے کہ حضرت امیر خسرو کو ان کے عہد کے ایک بادشاہ نے ’’ملکُ الشعراء‘‘ کے خطاب سے نوازا تھا مگر وہ کشورِ سخنوری کے ایسے شہنشاہ ثابت ہوئے جس کی سلطنت آج تک قائم ہے۔

    برصغیر میں کوئی سخن ور پیدا ہی نہیں ہوا جسے ان کا ہم سَر کہا جائے۔ امیر خسرو کی شاعرانہ عظمت ہی نہیں موسیقی کے فن میں بھی انھیں یکتا و یگانہ کہا جاتا ہے۔ فنِ‌ موسیقی میں ان کی کچھ ایجادات اور اختراعات کا بھی تذکرہ محققین نے کیا ہے۔

    خسروؔ نے اپنی شاعری اور موسیقی کو خالص ہندوستانی رنگ دیا جس کی تقلید بعد کے فن کاروں نے کی۔ آئیے، امیر خسرو کی زندگی کے مختلف ادوار پر نظر ڈالتے ہیں۔

    ابتدائی زندگی
    محققین کے مطابق امیر خسرو کی ولادت اتر پردیش کے پٹیالی قصبے میں ہوئی تھی جو گنگا کے کنارے واقع ہے۔ زیادہ تر مؤرخین نے ان کا سنہ پیدائش 1252ء بتایا ہے اور یہ وہ زمانہ تھا جب سلطان ناصرالدّین محمود نے سلطنت کو سنبھال رکھا تھا۔ خسرو کا اصل نام یمین الدّین محمود تھا مگر شہرت انھیں ان کے تخلّص سے ملی۔

    خاندانی پس منظر
    خسروؔ کے والد امیر سیف الدّین محمود کا خاندان وسطِ ایشیا کے شہر سمر قند کے قریب کش کا رہنے والا تھا مگر مغلوں کی تاراجی سے پریشان ہوکر بلخ میں آبسا تھا۔ بعد میں وہاں‌ سے سکونت ترک کی اور ان کے والد ہندوستان چلے آئے۔ یہاں کسی طرح پٹیالی کی چھوٹی سی جاگیر مل گئی۔ امیر سیف الدّین محمود ایک سپاہی تھے اور معرکوں پر اکثر جایا کرتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ خسرو کی عمر سات سال تھی جب وہ والد کے سائے سے محروم ہوگئے اور پرورش و تربیت نانا نے کی۔ اس گھرانے کا ہندو پس منظر تھا اور وہاں رہتے ہوئے لوک گیت اور بھجن بھی خسرو کے کان میں پڑتے تھے۔ ایک طرف انھیں عربی، فارسی اور دینیات کی تعلیم بھی دی جارہی تھی۔ اس ماحول میں خسرو کو بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔

    شاعری کا آغاز
    اس دور میں اچھے گھرانوں میں زبان و ادب کی تعلیم بھی ضرور دی جاتی تھی اور ماحول علمی ہوتا تھا جس میں شعر وسخن سے رچا بسا تھا۔ چنانچہ خسرو بھی مکتب میں ہی شعر سنانے لگے۔ خسرو بیس سال کی عمر تک ایک دیوان مرتب کر چکے تھے۔

    درباروں سے وابستگیاں
    مسلم عہدِ سلطنت میں شعراء کو ملازم رکھنے کا عام رواج تھا جو کہ وسط ایشیا اور ایران سے یہاں پہنچا تھا۔ سلطان غیاث الدین بلبن کا دور تھا جب خسروؔ آزادانہ طور پر تلاشِ معاش کے لیے نکلے۔ انھیں بھی بادشاہ کا ایک شاہ خرچ بھتیجا مل گیا جو علی گڑھ (کول) کا جاگیر دار تھا۔ خسرو اس کی نوازشات سے فیض یاب ہونے لگے۔

    امیر خسرو نے دوسری ملازمت سلطان بلبن کے بیٹے بغرا خان کے ہاں کی جو سامانہ (پنجاب) کا گورنر تھا۔ بغرا خاں، سلطان بلبن کے ساتھ بنگال کی بغاوت فرو کرنے گیا۔ خسروؔ بھی ساتھ تھے۔ بغاوت فرو ہوئی اور بغرا خاں کو وہاں کا گورنر بن کر لکھنوتی (موجودہ مرشد آباد) میں رکنا پڑا۔ شہزادے کے اصرار پر خسرو کو بھی کچھ دن رکنا پڑا۔ چھے مہینے بعد بہانہ کرکے دہلی چلے آئے۔

    یہ 1280ء کی بات ہے جب وہ اس وقت کے گورنر ملتان کے ملازم ہوگئے جو بے حد قابل اور مردم شناس ہونے کے ساتھ ساتھ رزم و بزم میں یکتا تھا۔ اس نے خوب قدردانی کی۔ ملتان صوفیا، شعراء، موسیقار اور اہلِ علم و فن کا مرکز تھا۔ یہیں خسرو نے اپنا دوسرا دیوان ترتیب دیا۔ یہیں قوالی کی صنف ایجاد کی۔ بعد میں‌ دہلی چلے گئے جہاں سلطان نے بلا بھیجا اور کچھ لکھنے کی فرمائش کی۔ چند مہینے بعد ان کے ہاتھ میں مثنوی ’’قران السعدین‘‘ تھی جس میں‌ ان کا فنِ سخن وری عروج پر تھا۔ اسے سن کر پورا دربار دم بخود رہ گیا۔ سلطان کیقباد نے انھیں ڈھیروں انعام و اکرام سے نوازا اور ’’ملک الشعراء‘‘ کا خطاب بھی دیا۔

    نظام الدّین اولیاء کی بارگاہ میں
    جلال الدّین خلجی کے عہد میں دو سال تک امیر خسرو دہلی میں رہے اور اسی دوران ان کا خانقاہِ نظام الدین اولیاء سے ربط گہرا ہوگیا۔ مرید بھی بہت پہلے ہوچکے تھے، مگر مرشد کی خدمت میں وقت بتانے اور روحانی فیوض و برکات کے حصول کا موقع اب میسر آیا تھا۔دل کے سکون کا احساس مرشد کی خدمت میں آکر ہونے لگا۔ لگ بھگ چالیس سال کے تھے جب ایک دیوان مرتب ہوا جس میں‌ مرشد کی منقبت کے بعد بادشاہ کا ذکر آتا ہے۔ یہ پہلا دیوان تھا جس میں انھوں نے اپنے مرشد کی مدح خوانی کی ہے۔

    علمی و ادبی خدمات
    انھوں نے خمسہ نظامی کی طرز پر خمسہ لکھا اور تصوف و اخلاقیات کے موضوع پر اپنی پہلی کوشش ’’مطلعُ الانوار‘‘ پیش کی۔ انھوں نے مثنوی ’’شیریں خسرو‘‘ اور ’’لیلیٰ مجنوں‘‘ لکھی۔ دورِ علائی کا بارہ سال جائزہ لیتے اور مشاہدہ کرتے ہوئے امیر خسرو نے ’’خزائن الفتوح‘‘ پیش کی جو ان کا پہلا نثری کارنامہ تھا۔ انھوں نے اس کتاب میں اپنے عہد کی تاریخ پیش کی ہے جو، اب سند کا درجہ رکھتی ہے۔ یہ کتاب ’’تاریخِ علائی‘‘ کے نام سے بھی مشہور ہے۔ اسی کے بعد حضرت نظام الدین اولیاء کے ملفوظات کو ’’افضل الفواد‘‘ کے نام سے جمع کیا اور صخیم نثری تصنیف ’’رسائلُ الاعجاز‘‘ مکمل کی۔

    آخری ایّام
    اپنے پیر و مرشد کے وصال کے ٹھیک چھے مہینے بعد خسروؔ بھی 1325ء دارِ بقا کو چلے جنھیں ان کے مرشد کی پائنتی میں جگہ ملی جہاں صدیوں بعد بھی عام دنوں میں‌ اور عرس کے موقع پر لوگ زیارت کے لیے پہنچتے ہیں۔

    (ماخوذ از تاریخِ فیروزشاہی، تاریخِ فرشتہ، شعراء العجم، خسرو شناسی)

  • حضرت امیر خسرو اور بچّے

    حضرت امیر خسرو اور بچّے

    بچّو! تم حضرت امیر خسروؒ کو خوب جانتے ہو، اُنھیں اپنے ملک ہندوستان سے بے پناہ محبّت تھی، یہاں کی ہر چیز کو پسند کرتے تھے۔

    ایک بار ایسا ہوا کہ امیر خسرو گھوڑے پر سوار کہیں سے آ رہے تھے۔ مہر ولی پہنچتے ہی اُنھیں پیاس لگی، آہستہ آہستہ پیاس کی شدّت بڑھتی چلی گئی۔ اُنھوں نے اپنے پانی والے چمڑے کا بیگ کھولا اس میں ایک قطرہ بھی پانی نہ تھا۔ وہ خود اپنے سفر میں سارا پانی پی چکے تھے۔ مئی جون کے مہینوں میں تم جانتے ہی ہو دلّی میں کس شدّت کی گرمی پڑتی ہے۔

    گرمی بڑھی ہوئی تھی، دھوپ تیز تھی، کچھ دور سے اُنھوں نے دیکھا آم کا ایک گھنا باغ ہے۔ اس کے پاس ہی ایک کنواں ہے، نزدیک آئے تو دیکھا وہاں چند بچّے آم کے ایک پیڑ کے نیچے بیٹھے رسیلے آم چوس رہے ہیں اور مٹکے سے پانی نکال نکال کر پی رہے ہیں۔ پانی کا مٹکا دیکھ کر حضرت امیر خسروؒ کی پیاس اور بڑھ گئی۔

    یوں تو وہ آم کے دیوانے تھے۔ پھلوں میں سب سے زیادہ آم ہی کو پسند کرتے تھے، لیکن اس وقت آم کا زیادہ خیال نہیں آیا، بس وہ پانی پینا چاہتے تھے۔ گھوڑے پر سوار، آہستہ آہستہ وہ اُن بچّوں کے پاس آئے جو آم چوس رہے تھے اور مٹکے سے پانی پی رہے تھے۔ بچّوں نے اُنھیں فوراً پہچان لیا۔ خوشی سے چیخنے لگے، ’’خسرو بابا خسرو بابا۔’’

    امیر خسرو اُنھیں اس طرح خوشی سے اُچھلتے دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ گھوڑے سے اُترے اور بچّوں کے پاس آ گئے۔ بچّوں نے اُنھیں گھیر لیا۔

    ’’خسرو بابا خسرو بابا کوئی پہیلی سنائیے۔’’

    ’’ہاں ہاں کوئی پہیلی سنائیے۔’’ بچوّں کی آوازیں اِدھر اُدھر سے آنے لگیں۔

    ’’نہیں بابا، آج پہیلی وہیلی کچھ بھی نہیں، مجھے پیاس لگ رہی ہے، میری کٹوری میں پانی بھر دو تاکہ میری پیاس بجھے۔ اور میرے گھوڑے کو بھی پانی پلا دو۔’’

    امیر خسرو نے اپنی پیالی بچوّں کی طرف بڑھائی ہی تھی کہ ایک بچّے نے کٹوری اُچک لی اور بھاگ کر مٹکے سے پانی لے آیا۔ حضرت کی پیاس بجھی لیکن پوری نہیں بجھی۔ بولے ’’اور لاؤ پانی ایک کٹوری اور۔’’ بچّے نے کٹوری لیتے ہوئے کہا ’’پہلے آپ ایک آم کھالیں، اِس سے پیاس بھی کم ہو جائے گی۔ یہ لیجیے، یہ آم کھائیے، میں ابھی پانی لاتا ہوں۔’’

    حضرت امیر خسرو نے مسکراتے ہوئے بچّے کا تحفہ قبول کر لیا اور بچّہ ایک بار پھر دوڑ کر پانی لے آیا۔ حضرت نے پانی پی کر سب بچوّں کو دُعائیں دیں۔ بچّوں نے گھوڑے کو بھی خوب پانی پلایا۔

    ’’خسرو بابا، اس سے کام نہیں چلے گا آپ کو آج ہمیں کچھ نہ کچھ سنانا ہی پڑے گا ورنہ ہم آپ کو جانے نہ دیں گے۔‘‘ ایک بچّے نے مچل کر کہا۔

    ’’تو پھر ایسا کرو بچّو، تم لوگ مجھ سے سوال کرو، میں تمھیں جواب دوں گا۔‘‘

    حضرت امیر خسروؒ نے بچّوں کے سامنے ایک تجویز رکھی۔ بچّے فوراً راضی ہو گئے۔

    ’’تو پھر کرو سوال۔‘‘ حضرت امیر خسروؒ نے فرمایا۔ ایک بچّی نے سوچتے ہوئے پوچھا: ’’خسرو بابا، خسرو بابا، آپ کو کون سا پھول سب سے زیادہ پسند ہے؟‘‘

    حضرت امیر خسرو نے جواب دیا۔ ’’یوں تو ہندوستان کے تمام پھول خوب صورت ہیں، سب کی خوشبو بہت اچھّی اور بھلی ہے، لیکن تمام پھولوں میں مجھے چمپا سب سے زیادہ پسند ہے۔ میں اسے پھولوں کا سرتاج کہتا ہوں۔‘‘

    ’’چمپا تو مجھے بھی بہت پسند ہے، اس کی خوش بُو بہت ا چھّی لگتی ہے‘‘ ایک بچّی نے کہا۔

    ’’خوب! دیکھو نا ہندوستان میں کتنے پھول ہیں، کوئی گِن نہیں سکتا اُنھیں۔ اس ملک میں سوسن، سمن، کبود، گلِ زرّیں، گلِ سرخ، مولسری، گلاب، ڈھاک، چمپا، جوہی، کیوڑا، سیوتی، کرنا، نیلوفر۔ پھر بنفشہ، ریحان، گلِ سفید، بیلا، گلِ لالہ اور جانے کتنے پھول ہیں۔ اپنے مولوی استاد سے کہنا، وہ تمھیں ہر پھول کے بارے میں کچھ نہ کچھ بتا دیں گے۔ مجھے چمپا سب سے زیادہ پسند ہے، یوں چنبیلی بھی مجھے بہت پسند ہے۔‘‘

    ایک دوسرے بچّے نے سوال کیا، ’’خسرو بابا، اور پھلوں میں آپ کو سب سے زیادہ کون سا پھل پسند ہے؟‘‘

    ’’آم۔‘‘ حضرت نے فوراً جواب دیا۔

    سارے بچّے کھلکھلا کر ہنس پڑے۔ ’’خسرو بابا، آم ہم سب کو بھی سب سے زیادہ پسند ہے۔ دیکھیے نا ہم کتنی دیر سے بس آم کھائے جا رہے ہیں، آپ بھی کھائیے نا، ہاتھ پر لے کر کیا بیٹھے ہیں؟‘‘ اُس بچیّ نے کہا۔

    ’’میں اس آم کو تحفے کے طور پر لے جاؤں گا، اپنے بچّوں کا تحفہ ہے نا، گھر پہنچ کر اسے دھو کر اطمینان سے بیٹھ کر کھاؤں گا۔‘‘ حضرت امیر خسرو نے جواب دیا۔

    ’’اس کے بعد کون سا پھل آپ پسند کرتے ہیں؟‘‘ ایک دوسرے بچّے نے پوچھا۔‘‘

    ’’آم کے بعد کیلا۔ کیلا بھی مجھے پسند ہے۔’’حضرت نے جواب دیا۔

    ’’اور خسرو بابا، پرندوں میں کون سا پرندہ آپ کو زیادہ پسند ہے؟‘‘ ایک تیسرے بچّی نے سوال کیا۔

    ’’پرندوں میں مجھے طوطا بہت ہی پسند ہے، اس لیے کہ طوطے اکثر انسان کی طرح بول لیتے ہیں۔ یوں مجھے مور، مینا، گوریّا بھی پسند ہیں۔ اب آپ لوگ پوچھیں گے، جانوروں میں مجھے کون سا جانور پسند ہے؟ حضرت نے کہا۔

    ’’میں تو ابھی پوچھنے ہی والا تھا۔‘‘ ایک بچّے نے کہا۔

    ’’تو سن لو مجھے ہاتھی، بندر اور بکری پسند ہیں۔‘‘ حضرت نے جواب دیا، پھر خود ہی پوچھ لیا۔

    ’’جانتے ہو بکری مجھے کیوں پسند ہے؟ اور مور کیوں پسند کرتا ہوں؟‘‘

    کیوں؟‘‘ کئی بچّے ایک ساتھ بول پڑے۔’’

    ’’مور اس لیے کہ وہ دُلہن کی طرح سجا سجایا نظر آتا ہے اور بکری اس لیے کہ وہ ایک پتلی سی لکڑی پر چاروں پاؤں رکھ کر کھڑی ہو جاتی ہے۔‘‘ بچّے کھلکھلا پڑے۔

    ا چھا بچّو، اب میں چلتا ہوں۔ پانی پلانے کا شکریہ اور اس آم کا بھی شکریہ، میرے گھوڑے کو پانی پلایا اس کا بھی شکریہ۔’’

    حضرت امیر خسرو چلنے کو تیّار ہو گئے تو ایک چھوٹے بچّے نے روتے ہوئے کہا۔’’آپ سے دوستی نہیں کروں گا۔’’

    بھلا کیوں بابا، آپ ناراض کیوں ہو گئے؟‘‘ حضرت امیر خسرو نے پوچھا۔’’

    آپ نے کوئی گانا نہیں سنایا۔ وہی گانا سنائیے نا جو آپ حضرت نظام الدین اولیا کے پاس کل صبح گا رہے تھے۔’’

    لیکن تم کہاں تھے وہاں؟’’ حضرت نے حیرت سے دریافت کیا۔

    ’’میں وہیں چھپ کر سن رہا تھا۔‘‘ پھر رونے لگا وہ بچّہ۔

    ’’ارے بابا روؤ نہیں، آنسو پونچھو۔ میں تمھیں وہی گانا سناؤں گا۔‘‘ حضرت نے اسے منا لیا اور لگے لہک لہک کر گانے لگے۔

    چھاپ تلک سب چھینی رے موسے نیناں ملاے کے

    حضرت امیر خسروؒ دیکھ رہے تھے کہ گانا سنتے ہوئے بچّے جھوم رہے ہیں۔ گانا ختم ہوتے ہی بچے چُپ ہو گئے اور پھر اچانک ہنسنے لگے، حضرت بچوّں کو پیار کرنے کے بعد اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے اور اپنے گھر کی جانب روانہ ہو گئے۔ آم کے پیڑوں کے نیچے وہ بچّے جھوم جھوم کر گا رہے تھے:

    چھاپ تلک سب چھینی رے موسے نیناں ملائے کے

    (شکیل الرّحمٰن کئی کتابوں کے مصنّف اردو میں جمالیاتی تنقید نگاری کے لیے پہچانے جاتے ہیں، ان کا تعلق ہندوستان سے تھا، انھوں نے بچّوں کے لیے بھی ادب تخلیق کیا)