Tag: نظام تنفس

  • خبردار ! کھانسی آپ کی جان بھی لے سکتی ہے

    خبردار ! کھانسی آپ کی جان بھی لے سکتی ہے

    منہ سے اچانک زور کی آواز کے ساتھ ہوا، بلغم اور جراثیم کے خارج ہونے کو کھانسی کہا جاتا ہے، یہ از خود کسی موسمی مرض کے طور مخصوص وائرس کی وجہ سے بھی ہو سکتی ہے۔

    کھانسی کئی بار بخار، فلو اور دیگر امراض کے ساتھ بھی ہو سکتی ہے، مسلسل کھانسنا پھیپھڑوں پر دباؤ اور حلق میں خراش کا سبب بن سکتا ہے لیکن یاد رہے کہ بعض اوقات کھانسی جان لیوا بھی ہوسکتی ہے۔

    مندرجہ ذیل سطور میں کچھ ایسی کیفیات کا ذکر کیا گیا ہے جس کا بروقت علاج نہ کرایا جائے تو کھانسی انسان کو موت کے منہ میں بھی لے جاسکتی ہے۔

    کالی کھانسی :

    چھوٹے خصوصاً نوزائیدہ بچوں میں کالی کھانسی سنگین مسائل پیدا کرسکتی ہے جس میں نمونیا، دورے، دماغی نقصان شامل ہیں، بہت زیادہ اور مسلسل کھانسی میں اموات کا سبب بن سکتی ہے

    سانس لینے میں پیچیدگیاں :

    سانس لینے کے دوران کھانے یا پینے والی غذا پھیپھڑوں میں اور سانس کی نالی میں داخل ہوسکتی ہے جو کہ شدید کھانسی، دم گھٹنے اور ایسپریشن نمونیا کا باعث بن سکتی ہے۔

    نمونیا :

    بخار، سینے میں درد اور سانس لینے میں دشواری جیسی علامات کے ساتھ ساتھ مسلسل کھانسی کی حالت نمونیا کی نشاندہی کرتی ہے اور اگر علاج میں غفلت برتی جائے تو بالخصوص بزرگ اور کمزور مدافعتی نظام والے افراد کی موت کا سبب بھی بن سکتی ہے۔

    نظام تنفس کا انفیکشن :

    Respiratory syncytia virus (RSV) بچوں میں نظام تنفّس اور سانس کے انفیکشنوں کی سب سے عام وجہ ہے۔ یہ وائرس پھیپھڑوں اور سانس کی نالیوں میں انفیکشن پیدا کرتا ہے اور یہ نزلہ زکام کی عام ترین وجوہات میں سے ایک ہے۔ اس کے علاوہ انفلوئنزا جیسے انفیکشن کی شدید علامتوں میں مسلسل کھانسی بھی شامل ہے جو کہ سنگین صورتحال میں سانس بند ہونے کا باعث بن سکتی ہے۔

  • کرونا وائرس دماغ پر کیسے حملہ کرتا ہے؟

    کرونا وائرس دماغ پر کیسے حملہ کرتا ہے؟

    کرونا وائرس کو نظام تنفس پر حملہ کرنے والا وائرس سمجھا گیا تھا تاہم ایک سال میں کی جانے والی ریسرچز سے علم ہوا کہ یہ وائرس دماغ سمیت جسم کے کسی بھی عضو کا اپنا نشانہ بنا سکتا ہے۔

    حال ہی میں امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق کرونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 دماغ کے 2 اقسام کے خلیات نیورونز اور آسٹرو سائٹس کو متاثر کر سکتی ہے۔

    لوزیانا اسٹیٹ یونیورسٹی کی اس تحقیق کے نتائج سے اس ممکنہ وجہ کی نشاندہی ہوتی ہے جو کووڈ کو شکست دینے کے باوجود لوگوں میں طویل المعیاد دماغی و اعصابی علامات کا باعث بنتی ہے۔

    ویسے تو کووڈ کو نظام تنفس کا مرض سمجھا جاتا ہے مگر یہ جسم کے متعدد اعضا بشمول دماغ کو متاثر کر سکتا ہے اور لوگوں کو یادداشت کی کمزوری، تھکاوٹ اور دماغی دھند جیسی علامات کا سامنا ہوتا ہے۔

    ماہرین کی جانب سے یہ سمجھنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ کرونا وائرس سے دماغی مسائل کا سامنا کیوں ہوتا ہے۔

    کرونا وائرس انسانی خلیات سے منسلک ہونے کے لیے ایس ٹو ریسیپٹرز کو ہدف بناتا ہے، یہ ریسیپٹرز ایسے پروٹیشنز ہوتے ہیں جو متعدد اقسام کی خلیات کی سطح پر موجود ہوتے ہیں۔

    اس طرح کے خلیات پھیپھڑوں، دل، گردوں اور جگر میں ہوتے ہیں، مگر اب تک یہ واضح نہیں تھا کہ ریڑھ کی ہڈی اور دماغی خلیات میں بھی کرونا وائرس کو حملہ کرنے کے لیے ریسیپٹرز کی ضرورت ہوتی ہے یا نہیں۔

    اس کو جاننے کے لیے ماہرین نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ کن دماغی خلیات میں ایس 2 ریسیپٹرز ہوتے ہیں اور اگر ہوتے ہیں تو کیا وہ وائرس سے متاثر ہوسکتے ہیں۔

    اس مقصد کے لیے ماہرین نے لیبارٹری میں تیار کیے گئے انسانی دماغی خلیات کو لیا اور ان میں ایس 2 ریسیپٹرز کی موجودگی کو دیکھا، انہوں نے نیورونز اور آسٹراسائٹس جیسے معاون خلیات کا بھی تجزیہ کیا۔

    یہ خلیات مرکزی اعصابی نظام کے متعدد اہم افعال میں اہم کردار ادا کرتے ہیں جبکہ خون اور دماغ کے درمیان موجود رکاوٹ کو برقرار رکھتے ہیں۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ان دونوں میں ایس 2 ریسیپٹرز موجود ہوتے ہیں جس کے بعد دیکھا گیا کہ یہ وائرس سے متاثر ہوسکتے ہیں یا نہیں۔

    اس مققصد کے لیے لیبارٹری تجربات کے دوران تدوین شدہ وائرس کے اسپائیک پروٹین کو استعمال کیا گیا اور دریافت کیا کہ وہ خلیات کو آسانی سے متاثر کرسکتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ یہ دونوں اقسام کے خلیات کرونا وائرس سے متاثر ہوسکتے ہیں تاہم آسٹراسائٹس میں یہ امکان نیورونز کے مقابلے میں کم ہوتا ہے۔

    محققین اس حوالے سے کچھ واضح طور پر کہنے سے قاصر ہیں کہ ایسا کیوں ہوتا ہے مگر ان خلیات کی بہت زیادہ مقدار وائرس کو حملہ کرنے اور اپنی نققول بنانے کا موقع فراہم کرتی ہے۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ایک بار آسٹروسائٹس وائرس سے متاثر ہوجائے تو وہ ان خلیات کو نیورونز تک رسائی کے لیے استعمال کرسکتا ہے۔

    اس سے وضاحت ہوتی ہے کہ کووڈ کے مریضوں میں متعدد اعصابی و دماغی علامات بشمول سونگھنے اور چکھنے کی حسوں سے محرومی، فالج اور دیگر کا سامنا ہوتا ہے۔

    اس تحقیق کے پہلو محدود تھے یعنی یہ لیبارٹری میں ہوئی اور کسی زندہ انسان کے پیچیدہ ماحول میں وائرس کے اثرات کا جائزہ نہیں لیا گیا۔

  • ڈاکٹر ہیملچ جنھوں‌ نے سانس بحال کرنے کی تکنیک متعارف کروائی

    ڈاکٹر ہیملچ جنھوں‌ نے سانس بحال کرنے کی تکنیک متعارف کروائی

    کسی انسان کے گلے میں نوالہ یا کسی چیز کے اٹک جانے کی وجہ سے سانس بند ہو جائے تو ماہر ڈاکٹر جس معروف تکنیک کو استعمال کرکے سانس بحال کرتے ہیں، اس کے موجد ڈاکٹر ہنری ہیملچ ہیں۔

    سانس بحال کرنے کی اس تکنیک سے پہلے 1962 میں ہینری ہیملچ نے چھاتی سے مواد نکالنے کے لیے جھلی بھی تیار کی تھی، جس کی مدد سے ویتنام کی جنگ کے متاثرہ کئی فوجیوں کی زندگیاں بچائی گئی تھیں۔ یوں یہ ان کا پہلا کارنامہ نہیں‌ تھا اور وہ طب کی دنیا میں ایک موجد اور ماہر معالج کے طور پر خود کو منوا چکے تھے۔

    ڈاکٹر ہیملچ کا تعلق امریکا سے تھا، جہاں انھوں نے ولمنگٹن شہر میں‌ 1920 میں آنکھ کھولی۔ ہیملچ نے مختلف طبی مراکز میں‌ اور امریکی بحریہ سے وابستگی کے دوران جنگی میدان میں بھی خدمات انجام دیں‌۔ ہیملچ نے نیو یارک سے اپنے میڈیکل کریئر کا آغاز کیا تھا اور بنیادی طور پر ان کا شعبہ سرجری تھا۔

    2016 میں انھیں دل کا دورہ پڑا جس کے نتیجے میں وہ زندگی کی بازی ہار گئے تھے۔

    سانس بحال کرنے اور سانس کی نالی میں‌ رکاوٹ کو دور کرنے کے لیے 1974 میں انھوں نے جو تکنیک متعارف کروائی تھی اس میں متاثرہ فرد کے پیٹ کو زور سے دبایا جاتا ہے۔

    ان کی یہ تکنیک زیادہ تر کیسز میں نہایت کارگر ثابت ہوئی۔ ڈاکٹر ہنری ہیملچ کو خود بھی اپنی تکنیک کو اس 87 سالہ عورت پر آزمانے کا موقع ملا تھا جس کے گلے میں ہڈی پھنس گئی تھی اور انھوں‌ نے اپنی اس تکینک کی مدد سے اس کی زندگی بچائی تھی۔

    ہنری ہیملچ نے دوسری جنگِ عظیم کے دوران خدمات انجام دیتے ہوئے ہر قسم کے زخمیوں‌ کو قریب سے دیکھا اور خاص طور پر ان کا علاج کیا جنھیں‌ سرجری کی ضرورت تھی۔ ان میں‌ بارود سے زخمی ایسے فوجی بھی شامل تھے جنھیں‌ سانس لینے میں شدید دشواری محسوس ہورہی تھی اور انہی تجربات اور مشاہدوں کے سبب وہ اس تکنیک تک پہنچے تھے۔

  • چین میں کرونا وائرس سے اموات کی تعداد 106 ہو گئی

    چین میں کرونا وائرس سے اموات کی تعداد 106 ہو گئی

    بیجنگ: کرونا وائرس سے ہلاکتوں کا سلسلہ جاری ہے، چین میں وائرس سے اموات کی تعداد 106 ہو گئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق چین میں کروناوائرس سے ہلاک افراد کی تعداد ایک سو چھ ہو گئی، جب کہ ملک بھر میں وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد 4 ہزار سے بڑھ چکی ہے، میڈیا رپورٹس کے مطابق متاثرین میں سب سے کم عمر 9 ماہ کی بچی بھی شامل ہے۔

    چینی حکام کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس سے چین کا صوبہ ہوبائی سب سے زیادہ متاثر ہے، چین بھر میں متاثرہ افراد کی تعداد 4515 ہو چکی ہے، یہ خیال کیا جاتا ہے کہ کرونا وائرس ہوبائی کے مرکزی شہر ووہان کی فوڈ مارکیٹ سے نکل کر پھیل رہا ہے، جس نے اب ساری دنیا کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔

    چین میں کرونا وائرس: 10 دنوں میں بڑا اسپتال تعمیر ہوگا

    اب تک امریکا، جرمنی، جاپان، فرانس، سنگاپور سمیت 16 ایسے ممالک میں جہاں اس وائرس کے کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں۔

    چین نے فلو کی طرح کے اس وائرس سے نمٹنے کے لیے سفری پابندیاں مزید سخت کر دی ہیں، ووہان سے باہر نکلنے یا شہر میں جانے پر مکمل پابندی عائد کی جا چکی ہے، چین نے مریضوں کی بڑھتی تعداد کے پیش نظر ووہان میں سو بستروں پر مشتمل ایک بڑے اسپتال کی تعمیر بھی شروع کر دی ہے جو محض 10 دنوں میں مکمل ہوگا۔

    خیال رہے کہ کرونا وائرس سے سانس کی نالی کا شدید انفیکشن لاحق ہوتا ہے، اور اس کے لیے کوئی مخصوص علاج بھی موجود نہیں، نہ ہی کوئی ویکسین تیار کی گئی ہے۔ اس سے ہونے والی زیادہ تر اموات بڑی عمر کے افراد میں ہوئی ہیں، یا وہ جنھیں پہلے سے سانس کی تکالیف لاحق تھیں۔

  • ناک: اردو محاوروں سے لے کر طبی پیچدگیوں تک!

    ناک: اردو محاوروں سے لے کر طبی پیچدگیوں تک!

    آپ نے ‘‘ناک’’ سے متعلق مختلف محاورے سنے ہی ہوں گے۔ ناک بھوں چڑھانا، ناک کٹوا دی، ناک میں دم کر دینا وغیرہ وغیرہ۔ اردو زبان و ادب میں ‘‘ناک’’ پر کچھ لکھا جائے یا ادیب و شاعر اسے خاطر ہی میں‌ نہ لائیں، مگر طبی دنیا اسے کسی صورت نظرانداز نہیں‌ کرسکتی. جب بھی انسانی صحت اور علاج معالجے کی بات ہو گی طبی محققین، سائنس داں اور ماہر معالجین ناک کو ضرور موضوعَ بحث بنائیں‌ گے. ہماری جسمانی صحت اور نظامِ تنفس میں یہ عضو مرکزی اہمیت کا حامل ہے۔

    ناک ایک حسّاس عضو ہے، جو ہمارے چہرے پر نمایاں ہوتی ہے۔ یہ نظامِ تنفس کا حصّہ ہے جس کے ذریعے تازہ ہوا ہمارے جسم میں داخل ہوتی ہے۔ اسی کی بدولت ہم سونگھ کر ماحول یا اشیا کو جانتے اور سمجھ سکتے ہیں۔ یعنی خوش بُو، بد بُو کی پہچان اور فضا میں کثافتوں کا اندازہ کرنے کے ساتھ ماحول کی مختلف حالتوں کا سونگھ کر ادراک کرنا اسی عضو کی بدولت ممکن ہوتا ہے۔

    ناک کی اندرونی دیواریں نرم، نم اور نہایت حساس ہوتی ہیں، جب کہ اس کے اندر موجود بال سانس لینے کے عمل میں داخل ہو جانے والی گرد اور دیگر باریک ذرات کو جسم کے اندر جانے سے روکنے کا کام کرتے ہیں۔

    انسانی ناک کے اندر نہایت باریک رگیں موجود ہیں، جن میں خون کی گردش جاری رہتی ہے۔ ہماری ناک عموماً نزلہ، زکام، چھینکوں کی وجہ سے متاثر ہوتی ہے۔ نزلے کی وجہ سے اکثر ناک بند ہو جاتی ہے اور ہمیں سونگھنے میں مشکل پیش آتی ہے یا یہ کہہ لیں کہ انسان کسی قسم کی بُو محسوس نہیں کر پاتا۔

    بعض لوگوں کا جسمانی نظام جراثیم، کھانے پینے، پہننے اوڑھنے اور استعمال کی مختلف اشیا کو کسی وجہ سے قبول نہیں کرتا اور ایسا ہونے کی صورت میں ردعمل ظاہر کرتا ہے۔ اسے ہم الرجی یا جسم کی حساسیت کہتے ہیں۔ ایسی کسی بھی الرجی کی وجہ سے زیادہ تر ہماری جلد متأثر ہوتی ہے، لیکن بعض اوقات یہ ناک اور پھیپھڑوں کے لیے بھی مسئلہ پیدا کرتی ہے۔

    آپ نے غور کیا ہو گا کہ اکثر لوگ معمولی دھواں یا گرد و غبار بھی برداشت نہیں کر پاتے اور فوراً چھینکنے لگتے ہیں۔ بعض افراد کی ناک گردوغبار کے علاوہ بعض سبزیوں یا پھلوں، پھولوں کو سونگھنے، مشروبات کی خوش بُو یا کھانوں کی مہک کی وجہ سے، مختلف اقسام کے پاؤڈر، کیمیکل، پالتو پرندوں اور جانوروں کے بالوں، پَروں کی وجہ سے بھی متأثر ہوسکتی ہے۔ اکثر ایسے افراد کو ناک کی سوزش کا مسئلہ لاحق ہو جاتا ہے۔ یہ ایک قسم کی حساسیت ہوتی ہے جسے نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ کیوں کہ الرجی اگر شدت اختیار کر جائے تو کئی طبی پیچیدگیوں کا سبب بن سکتی ہے۔