Tag: نظام شمسی

  • کسی دوسری کہکشاں سے ہمارے نظام شمسی میں داخل ہونے والا پراسرار شہابیہ

    کسی دوسری کہکشاں سے ہمارے نظام شمسی میں داخل ہونے والا پراسرار شہابیہ

    حال ہی میں ہمارے نظام شمسی میں بین النجوم خلا (Interstellar Space) سے ایک فلکیاتی آبجیکٹ داخل ہوا ہے، جسے 3I/ATLAS (C/2025 N1) کا نام دیا گیا ہے۔ اس سے قبل خلا کے اس مسافر کو عارضی طور پر A11pl3Z کا نام دیا گیا تھا۔

    اس کو پہلی بار یکم جولائی 2025 کو چلی میں اٹلس سروے ٹیلی اسکوپ کے ذریعے دریافت کیا گیا تھا۔ اس کے اگلے ہی دن، 2 جولائی 2025 کو، انٹرنیشنل آسٹرونومیکل یونین کے مائنر پلینٹ سینٹر نے باضابطہ طور پر اس کی بین النجوم شے کے طور پر تصدیق کر دی۔ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ یہ کوئی عام دم دار ستارہ (شہابیہ) نہیں، بلکہ ایک ایسی خلائی چیز ہے جو کسی دوسرے ستارے کے نظام سے نکلی ہے اور لاکھوں سالوں سے خلا میں سفر کر رہی ہے۔ اس کی حیران کن رفتار اور خصوصیات نے دنیا بھر کے ماہرین فلکیات کی توجہ اپنی جانب مبذول کر لی ہے۔

    فلکیات دانوں کا اندازہ ہے کہ یہ کسی ستارے کا چھوٹا سیارہ، کسی سیارے کا چاند، یا کسی ستارے کے گرد چکر لگانے والا ایک شہابیہ ہو سکتا ہے۔ اس کی چوڑائی تقریباً 12 سے 25 میل (تقریباً 20 کلو میٹر) ہونے کا تخمینہ لگایا گیا ہے، البتہ اگر اس کا زیادہ تر حصہ برف پر مشتمل ہوا تو اس کا سائز کم بھی ہو سکتا ہے۔

    دنیا کا سب سے بڑا مریخ سیارے کا پتھر 4.3 ملین ڈالرز میں نیلام

    ناسا کے مطابق، 3I/ATLAS کی سب سے حیران کن خصوصیت اس کی رفتار ہے۔ یہ تقریباً 150,000 میل فی گھنٹہ (240,000 کلو میٹر فی گھنٹہ) سے زیادہ کی رفتار سے سفر کر رہا ہے۔ یہ رفتار ناسا کے وائجر 1 خلائی جہاز سے چار گنا زیادہ تیز ہے، جو اسے ہمارے نظام شمسی میں اب تک دیکھی جانے والی تیز ترین اشیا میں سے ایک بناتی ہے۔

    ناسا کے سائنس دانوں نے تصدیق کی ہے کہ یہ واقعی کسی دوسرے ستارے کے نظام سے نکلا ہوا شہابیہ ہے جو لاکھوں سالوں سے خلا میں بھٹک رہا ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ کسی دوسری کہکشاں سے ہمارے نظام شمسی میں داخل ہونے والا کوئی شہابیہ سورج کے اتنے قریب آ رہا ہے۔

    سائنس دانوں کہ مطابق اکتوبر 2025 میں یہ مریخ کے قریب سے گزرے گا اور 30 اکتوبر کو سورج کے سب سے قریب 1.4 فلکیاتی اکائی (AU) کے فاصلے سے گزرے گا۔ اس دوران زمین سے اس کا فاصلہ تقریباً 150 ملین میل ہوگا، اور زمین کو اس سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔

    ناسا کا کہنا ہے کہ اگر یہ شہابیہ سورج کے قریب آ کر کافی روشن ہو جاتا ہے تو 2025 کے آخر یا 2026 کے شروع میں اسے امیچر ٹیلی اسکوپس (عام دوربینوں) کے ذریعے بھی دیکھا جا سکے گا۔ یہ فلکیات کے شوقین افراد کے لیے ایک نادر موقع ہوگا کہ وہ اس بین النجومی شہابیے کا مشاہدہ کر سکیں۔

     

  • ہمارے نظام شمسی سے باہر بہت دور ایک سیارے پر زندگی کے آثار مل گئے!

    ہمارے نظام شمسی سے باہر بہت دور ایک سیارے پر زندگی کے آثار مل گئے!

    سائنسدان تو مریخ پر زندگی کے آثار ڈھونڈنے کی تگ ودو میں ہیں لیکن ہمارے نظام شمسی سے بہت دور ایک سیارے میں زندگی کے آثار مل گئے ہیں۔

    سائنسدان زمین سے باہر زندگی کے آثار تلاش کرنے کی جستجو میں ہیں۔ اس حوالے سے اب تک مریخ ان کا اہم ہدف رہا ہے تاہم اب اطلاعات کے مطابق سائنسدانوں کو زندگی کے آثار مل گئے ہیں تاہم یہ آثار ہمارے نظام شمسی سے بہت دور ایک اجنبی سیارے میں ملے ہیں۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے دعویٰ کیا ہے کہ انہیں ایک اجنبی سیارے پر زندگی کے بارے میں مضبوط اشارہ ملا ہے۔تاہم یہ سیارہ ہمارے نظام شمسی سے باہر ہے اور اس کا سائنسی نام K2-18b ہے۔

    رپورٹ کے مطابق یہ سیارہ ہماری زمین سے 120 نوری سال کے فاصلے پر موجود ایک ستارے کے گرد گردش میں ہے۔

    محققین نے جب اس سیارے K2-18b کا جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ کا استعمال کرتے ہوئے جائزہ لیا تو اس کے ماحول میں 2 گیسوں- ڈائمتھائل سلفائیڈ، یا ڈی ایم ایس اور ڈائمتھائل ڈسلفائیڈ، یا ڈی ایم ڈی ایس کا پتا لگا۔

    مذکورہ دونوں گیسیں زمین پر بنیادی طور پر مائیکروبیل حیات جیسے سمندری فائٹو پلانکٹن جیسے جاندار عناصر سے پیدا ہوتی ہیں۔

    اس دریافت کے بعد محققین نے ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ مذکورہ سیارے پر دو گیسوں کا ہونا اس بات کا اشارہ ہے کہ وہاں زندگی ہو سکتی ہے، تاہم یہ حتمی نہیں بلکہ اس حوالے سے مزید مشاہدات کی ضرورت ہے۔

    یہ تحقیق کیمبرج یونیورسٹی کے فلکیاتی طبیعیات دان اور ایسٹرو فزیکل جرنل لیٹرز میں شائع ہوئی اور اس تحقیق کے سربراہ مصنف نکو مدھوسودھن کا کہنا تھا کہ نظام شمسی سے باہر زندگی کی تلاش میں تبدیلی کا لمحہ ہے جہاں ہم نے یہ ثابت کیا ہے کہ موجودہ سہولیات کے ساتھ ممکنہ طور پر قابل رہائش سیاروں میں حیاتیاتی نشانات کا پتا لگانا ممکن ہے، ہم فلکیات کے مشاہداتی دور میں داخل ہو چکے ہیں۔

  • چھوٹے سیاروں کو نگلنے والا سیارہ

    چھوٹے سیاروں کو نگلنے والا سیارہ

    ہمارے نظام شمسی کے پانچویں سیارے مشتری کے بارے میں انکشاف ہوا ہے کہ اس نے چھوٹے سیاروں کو نگلا جس کی وجہ سے اس کی ساخت میں تبدیلیاں آئیں۔

    بین الاقوامی میڈیا رپورٹ کے مطابق سیارہ مشتری یا جوپیٹر کی سطح میں صرف 9 فیصد دھات اور چٹانیں موجود ہیں اور بقیہ سیارہ دبیز گیسوں پر مشتمل ہے، اس سے ماہرین نے اندازہ لگایا ہے کہ اپنے ابتدائی ایام میں اس نے چھوٹے سیارے کو تیزی سے نگلا ہے جس کی وجہ سے سیارہ اس حال تک پہنچا ہے۔

    اس سیارے کو ناکام سورج بھی کہا جاتا ہے جو زیادہ تر ہیلیئم اور ہائیڈروجن گیسوں سے بنا ہے، بظاہر اس میں سورج کی تشکیل کے وقت اولین نیبولہ کے آثار بھی ہیں، لیکن اس میں پتھر اور دھاتوں کی مقدار دیکھ کر ایک نئی تحقیق کی گئی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اپنی ابتدا میں یہ چھوٹے تشکیل پذیر سیاروں اور ان کے اجزا کو نگل چکا ہے۔

    اس دریافت کا سہرا ناسا کے جونو خلائی جہاز کو جاتا ہے جس نے مشتری پر سیر حاصل تحقیق کی ہے اور اس سے ہمارے اولین تصورات بھی بدلے ہیں۔

    جونو پر نصب جدید آلات کی وجہ سے مشتری کے اندر کی ساخت اور دیگر معلومات ملی ہیں، اپنی تشکیل کے وقت مشتری پتھریلے اجزا سے تشکیل پا رہا تھا تاہم اس کے بعد ابتدائی نظام شمسی کی گیس اس میں جمع ہونا شروع ہوگئی اور لاکھوں کروڑوں برس میں وہ مکمل طور پر گیسی دیو میں تبدیل ہوگیا۔

    لیکن یہاں ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ ابتدائی کیفیت میں جن چٹانوں نے اس کی تشکیل کی وہ بہت بڑے تھے یا بہت چھوٹے تھے اور کیا وہ کسی اور سیارے کا حصہ تو نہیں تھے؟

    سائنس دانوں کے مطابق مشتری پر گہرے بادلوں اور گیسوں کی دبیز چادر ہے جو کم سے کم 50 کلو میٹر موٹی ہے اور اس کے نیچے جھانک کر ہی ہم اس کے ماضی کا فیصلہ اور تشکیل کا خاکہ مرتب کرسکتے ہیں۔

    اگرچہ یہ نظام شمسی کا سب سے پرانا سیارہ ہے لیکن اس کے کئی رازوں سے پردہ اٹھنا باقی ہے۔

    فی الحال جونو کی تحقیق بتاتی ہے کہ سیارہ مشتری نے اطراف میں موجود پتھریلے سیاروں کا ابتدائی مواد نگلا ہے اور اگر ایسا نہ ہوتا تو شاید نظام شمسی میں مزید سیارے موجود ہوتے۔

  • کل آسمان پر ایک نایاب منظر دیکھا جائے گا

    کل آسمان پر ایک نایاب منظر دیکھا جائے گا

    کل آسمان پر ایک نایاب منظر دیکھا جائے گا جس میں ہمارے نظام شمسی کے 4 سیارے ایک قطار میں موجود ہوں گے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق کل نظام شمسی کے 4 سیارے ایک سیدھی قطار میں آجائیں گے، اس نایاب قدرتی مظہر کا نظارہ شمالی نصف کرے سے کیا جا سکے گا۔

    سیاروں کے سیدھی قطار میں آنے کا عمل 17 اپریل سے شروع ہو گیا تھا لیکن اس قطار کو بہترین شکل میں کل صبح کے وقت دیکھا جا سکے گا۔

    اس قطار کا نظارہ کل شفق پھوٹنے سے پہلے آسمان پر کیا جا سکے گا۔ 23 اپریل سے زمین کا چاند بھی اس قطار میں شامل ہو جائے گا۔

    24 جون کو نظام شمسی کے دیگر تمام سیارے مزید بڑی سیاراتی ترتیب میں جمع ہو جائیں گے لیکن اس کا نظارہ دوربین یا ٹیلی اسکوپ سے کیا جا سکے گا۔

    واضح رہے کہ آنکھ سے دیکھی جا سکنے والی ترتیب بہت کم دیکھنے میں آتی ہے، سنہ 2005 سے اب تک صرف تین دفعہ سیاروں کو قطار میں دیکھا گیا ہے۔

  • زمین جیسے ماحول والا سیارہ دریافت

    زمین جیسے ماحول والا سیارہ دریافت

    ماہرین فلکیات نے ایسا سیارہ دریافت کیا ہے جس کا ماحول زمین جیسا ہے، یہ زمین سے 322 نوری سال کے فاصلے پر ہے۔

    حال ہی میں ایک تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ نظامِ شمسی کے باہر موجود ایک انتہائی گرم مشتری کے جیسے سیارے میں، جس کا درجہ حرارت 32 سو ڈگری سیلسیس تک چلا جاتا ہے، حیران کن طور پر زمین کے جیسے ایٹماسفیئر کی تہہ ہے۔

    سوئیڈن اور سوئٹزرلینڈ کا ماہرین نے ہائی ریزولوشن اسپیکٹرواسکوپی کا استعمال کرتے ہوئے نظام شمسی کے باہر موجود سیارے کے پیچیدہ ایٹماسفیئر کے متعلق مزید باتیں دریافت کیں۔

    سنہ 2018 میں وائڈ اینگل سرچ فار پلینٹس کے تحت دریافت کیا گیا کہ یہ گیس کا دیو ہیکل سیارہ، جو زمین سے 322 نوری سال کے فاصلے پر ہے، اپنے مرکزی ستارے کے گرد گھومتا ہے۔

    اب ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ سیارے کا ایٹماسفیئر ایک کاک ٹیل پر مشتمل ہے جس میں ٹائٹینیم آکسائیڈ، آئرن، ٹائٹینیم، کرومیم، وینیڈیم، میگنیشیم اور میگنیز شامل ہیں۔

    اس کو پہلے انتہائی متشدد سیاروں کے طور پر بیان کیا گیا تھا جس کی سطح کا درجہ حرارت اتنا گرم ہے کہ فولاد بھی بخارات میں تبدیل ہوجاتا ہے۔

    مشتری سے ڈیڑھ گنا بڑے سیارے کا اپنے مرکزی سیارے سے فاصلہ، زمین اور سورج کے درمیان فاصلے کی نسبت 20 گنا کم ہے کیونکہ یہ اپنے مرکزی ستارے سے اتنا قریب ہے اس لیے اس سیارے کا سال 2.7 دن کا ہوتا ہے۔

    اس سیارے کی منفرد خصوصیات کے باوجود ماہرین نے سیارے کے ایٹماسفیئر کا موازنہ زمین سے کیا ہے، کم از کم سطحوں کے اعتبار سے۔ زمین کا ایٹماسفیئر یکساں لفافے کی طرح نہیں ہے لیکن مختلف تہوں پر مشتمل ہوتا ہے، جس میں ہر ایک میں علیحدہ خصوصیات ہوتی ہیں۔

  • ہمارے نظام شمسی سے باہر پہلی بار اہم دریافت

    ہمارے نظام شمسی سے باہر پہلی بار اہم دریافت

    ماہرین فلکیات نے پہلی بار ہمارے نظام شمسی سے باہر کسی سیارے کا مشاہدہ کیا ہے، نظام شمسی سے باہر سیاروں کو اب تک ان کی ثقلی امواج کے ذریعے دریافت کیا جاتا تھا۔

    بین الاقوامی میڈیا کے مطابق ماہرین فلکیات کی جانب سے تاریخ میں پہلی بار نظام شمسی سے باہر کسی سیارے کا براہ راست مشاہدہ کیا گیا ہے اور اس کی اصل تصاویر لی گئی ہیں۔

    اب سے قبل تک نظام شمسی سے باہر کسی سیارے (ایگزو پلینٹ) کا براہ راست مشاہدہ نہیں کیا جاتا تھا بلکہ ثقلی امواج یا اس کے اثر سے سیارے کا پتہ لگایا جاتا تھا۔

    جرنل آف ایسٹرونومی اینڈ ایسٹرو فزکس میں گزشتہ روز شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق نظام شمسی سے باہر یہ سیارہ زمین سے 63 نوری سال کے فاصلے پر واقع ہے جو گیسی ستارے، بیٹا پِکٹورِس سی کے گرد گھوم رہا ہے۔

    یہ سیارہ بہت نوا خیز اور سرگرم ہے جس کی عمر صرف 23 ملین سال ہے، اس سیارے کے گرد گیس اور گرد و غبار اب بھی موجود ہے جس کے ساتھ ساتھ کئی سیارے بھی موجود ہیں، اب تک ایسے دو سیارے دریافت ہو چکے ہیں۔

    ماہرین فلکیات کی جانب سے پہلی بار براہ راست اس کی روشنی اور کمیت بھی نوٹ کی گئی ہے، اپنی نو عمری کی وجہ سے اس پر تحقیق کر کے سیاروں کی تشکیل کو بہت حد تک سمجھا جاسکتا ہے۔

    ماہرین فلکیات کا کہنا ہے کہ اب تک کسی بھی ایگزو پلینٹ کو براہ راست نہیں دیکھا گیا ہے تاہم اب جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے پہلی بار کسی سیارے کا مشاہدہ کیا گیا ہے۔

  • "پلوٹو” کو تو آپ جانتے ہیں، مگر ایلزبتھ ولیمز کا نام شاید ہی سنا ہو!

    "پلوٹو” کو تو آپ جانتے ہیں، مگر ایلزبتھ ولیمز کا نام شاید ہی سنا ہو!

    ایلزبتھ ولیمز نہ ہوتیں تو شاید 1930 میں پلوٹو کی دریافت ممکن نہ ہوتی۔ ریاضی کی اس قابل اور ماہر خاتون نے اپنی لگن اور جستجو کی بدولت ہی نظامِ شمسی کی ایک بہت واضح تصویر پیش کی تھی جس کے ساتھ دریافت کا راستہ آسان ہو گیا۔

    ماہرِ فلکیات پرسیول لوئل نے 1905 میں سیارہ ایکس کی تلاش میں مدد کرنے کے لیے ولیمز کی خدمات حاصل کی تھیں۔ لوئل کا خیال تھا کہ سیارہ ایکس، یورینس اور نیپچون سے آگے کہیں مدار میں چکر لگا رہا ہے۔

    ایلزبتھ ولیمز نے 1903 میں میسا چوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سے فزکس میں گریجوایشن کی۔ وہ ان چند اور جامعہ کے ابتدائی دور کی خواتین میں سے ایک ہیں‌ جنھوں‌ نے گریجوایشن کی سند حاصل کی تھی۔

    امریکا کی فلکیاتی سوسائٹی کے مطابق، ولیمز کا حساب کتاب ہماری کائنات کے اس سیارے یعنی پلوٹو کی تلاش میں "کلیدی اہمیت” رکھتا ہے۔ اس تلاش کے مکمل ہونے سے پہلے لوئل کی موت واقع ہوگئی جس کے بعد کلائڈ ٹومبوگ نے سیارے کی تلاش جاری رکھی اور 18 فروری 1930 کو پلوٹو ٹھیک اسی مقام پر دریافت ہوا جس کی نشان دہی ولیمز کی راہ نمائی میں لوئل نے کی تھی۔

    کہتے ہیں کہ سیارے ایکس کی تلاش کے لیے درکار پیچیدہ حساب کتاب کرتے وقت باصلاحیت ولیمز انگریزی حروف کو جوڑ کر دائیں ہاتھ سے جب کہ اعداد اور حروف کو علیحدہ علیحدہ اور خوش خطی سے بائیں ہاتھ سے لکھا کرتی تھیں۔

    لوئل فلکیاتی رصد گاہ کی دستاویزات کے مطابق ایلزبتھ ولیمز نے 1922 میں ماہرِ فلکیات، جارج ہیملٹن سے شادی کرلی جس کی وجہ سے لوئل رصد گاہ نے اس جوڑے کو ملازمت سے برخاست کر دیا۔ تب اس جوڑے نے جمیکا میں ہارورڈ کالج کی رصد گاہ میں کام شروع کر دیا۔

    شوہر کے انتقال کے بعد دنیا کی ذہین اور ماہر ریاضی داں ایلزبتھ ولیمز اپنی بہن کے ساتھ رہنے لگیں۔ اس دنیا کو اپنی آنکھوں‌ سے ایک صدی اور ایک سال تک دیکھنے کے بعد ایلزبتھ ولیمز نے 1981 میں ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لیں۔

  • زمین کے علاوہ دوسرے سیاروں کا موسم جان کر آپ حیران رہ جائیں گے

    زمین کے علاوہ دوسرے سیاروں کا موسم جان کر آپ حیران رہ جائیں گے

    کیا آپ اپنے شہر کی گرمی سے سخت پریشان ہیں؟ موسم گرما آپ کے لیے سخت تکلیف لے کر آتا ہے؟ اسی طرح موسم سرما میں بھی آپ مختلف دشواریوں کا شکار ہوجاتے ہیں اور آپ کو یہ موسم سخت لگتا ہے؟

    اگر آپ نظام شمسی میں موجود دوسرے سیاروں کے موسم کے بارے میں جانیں تو زمین آپ کو جنت کا ٹکڑا دکھائی دے گی اور اس کا موسم خدا کی رحمت۔ آئیں دیکھتے ہیں ہمارے پڑوسی سیاروں پر موسم کیسا ہوتا ہے۔

    سیارہ عطارد ۔ مرکری

    سورج سے قریب ترین سیارہ مرکری سورج سے قریب ہونے کی وجہ سے گرم جھلسا دینے والی ہواؤں کا مرکز ہے۔ مرکری کی فضا میں آکسیجن بھی بے حد کم ہے۔

    علاوہ ازیں سورج کی تابکار شعاعیں بھی مرکری پر براہ راست آرہی ہوتی ہیں جو زمین پر آنے والی تابکار شعاعوں سے کئی گنا زیادہ خطرناک ہوسکتی ہیں۔

    سیارہ مرکری پر اگر آپ گرم ہوا سے جھلس کر یا آکسیجن کی کمی سے ہلاک نہ ہوں، تو تابکار شعاعیں ضرور آپ کو ہلاک کرسکتی ہیں۔

    سیارہ زہرہ ۔ وینس

    سیارہ زہرہ بادلوں سے ڈھکا ہوا سیارہ ہے، تاہم یہ بادل زہریلے ہیں اور ان سے سلفیورک ایسڈ کی بارش ہوتی ہے۔ یہ بارش چند لمحوں میں کسی بھی جاندار کے جسم کو گلا سکتی ہے۔

    سیارہ مریخ ۔ مارس

    مریخ لق و دق صحرا جیسا سیارہ ہے جہاں ہر وقت ہوائیں چلتی رہتی ہیں۔ تیز ہوا مٹی کو اڑا کر بڑے بڑے بگولے تشکیل دے دیتی ہے اور یہ بگولے زمین کی بلند ترین برفانی چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ سے بھی بلند ہوسکتے ہیں۔

    علاوہ ازیں مریخ پر اکثر و بیشتر مٹی کے طوفان آتے رہتے ہیں جو کئی مہینوں تک جاری رہتے ہیں اور پورے سیارےکو ڈھک لیتے ہیں۔

    سیارہ مشتری ۔ جوپیٹر

    سیارہ مشتری پر ایک غیر معمولی حد تک بڑا سرخ دھبہ موجود ہے (جو خلائی دوربینوں سے نظر آتا ہے) جو دراصل مشتری کا وہ عظیم اور ہنگامہ خیز طوفان ہے جسے سائنسدان میگا اسٹورم کا نام دیتے ہیں۔

    اس طوفان کا مشاہدہ اس وقت سے کیا جارہا ہے جب سے دوربین ایجاد ہوئی ہے یعنی سترہویں صدی سے۔ گویا 300 سال سے یہ طوفان اس سیارے پر موجود ہے۔ اس طوفان کا حجم زمین سے بھی بڑا ہے۔

    اس میگا سٹورم کے علاوہ مشتری پر ایک اور چھوٹا طوفان موجود ہے۔ یہ زمین پر آنے والے درجہ 5 طوفان کے برابر ہے جسے اوول بی اے کا نام دیا گیا ہے۔

    یہ بڑے طوفان سے کچھ چھوٹا ہے اور اس کا حجم زمین کے برابر ہے۔ اس کا مشاہدہ پہلی بار سنہ 2000 میں کیا گیا ہے اور تب سے اب تک اس کے حجم میں مسلسل اضافہ دیکھا جارہا ہے۔

    سیارہ زحل ۔ سیچورن

    سیارہ زحل کے قطب شمالی میں ہوا کا ایک عظیم طوفان پنپ رہا ہے۔ اس طوفان کے چھ کونے ہیں جس کی وجہ سے اسے ہیگزاگون کا نام دیا گیا ہے، اس کا ہر کونا ہماری زمین سے بڑا ہے۔

    اس طوفان کے مرکز میں بادلوں کا ایک سسٹم موجود ہے جس کا دائرہ زمین پر آنے والے طوفانوں کے دائرے سے کہیں زیادہ بڑا ہے۔

    سیارہ یورینس

    سیارہ یورینس دیگر سیاروں کی طرح اپنے مدار میں گول گھومنے کے بجائے ایک طرف کو جھک کر گردش کرتا ہے جس کی وجہ سے اس سیارے کے موسم طویل اور زیادہ شدت کے ہوتے ہیں۔

    یہاں موسم سرما میں بالکل اندھیرا ہوجاتا ہے۔ یہ سیارہ سورج سے خاصا دور ہے لہٰذا اس کے موسم سرما کا دورانیہ زمین کے 21 سالوں جتنا ہوتا ہے۔ اس دوران درجہ حرارت منفی 216 ڈگری سیلسیئس پر پہنچ جاتا ہے۔

    سیارہ نیپچون

    سیارہ نیپچون کو ہواؤں کا سیارہ بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں 1 ہزار 930 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے ہوائیں چلتی ہیں۔

    یہ رفتار زمین پر آواز کی رفتار سے ڈیڑھ گنا زیادہ ہے جبکہ اس رفتار پر سفر کیا جائے تو امریکی شہر نیویارک سے لاس اینجلس پہنچنے میں صرف سوا 2 گھنٹے کا وقت لگے گا۔ یہ سفر عام طور پر 6 گھنٹے میں طے ہوتا ہے۔

    ان تمام سیاروں کے موسم کے مقابلے میں زمین کا موسم نہایت معتدل ہے۔ نہ زیادہ گرمی، نہ زیادہ سردی اور نہ ہی طوفانی ہوائیں، اور ہاں یہاں تیزابی بارشیں، تابکاری اور مٹی کے عظیم بگولے بھی نہیں آتے۔ تو پھر زمین کے موسم کی شکایت کرنا چھوڑیں اور ہر موسم کا لطف اٹھائیں۔

  • نظام شمسی سے خارج شدہ سیارہ پلوٹو کے خوبصورت پہاڑ اور میدان

    نظام شمسی سے خارج شدہ سیارہ پلوٹو کے خوبصورت پہاڑ اور میدان

    عالمی خلائی ادارے ناسا نے نظام شمسی سے خارج شدہ نویں سیارے پلوٹو کی نئی تصاویر اور ویڈیوز جاری کی ہیں جن میں سیارے کے خوبصورت پہاڑ اور برفیلے میدان دکھائی دے رہے ہیں۔

    اب سے 11 سال قبل بونے سیارے پلوٹو کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے ناسا کی جانب سے نیو ہورائزنز (نئے افق) نامی خلائی جہاز کو روانہ کیا گیا۔

    اسی سال پلوٹو سیارے کو اس کی مختصر جسامت کی وجہ سے بونا سیارہ قرار دیا گیا اور اسے باقاعدہ نظام شمسی سے خارج کردیا گیا جس کے بعد اب ہمارے نظام شمسی میں 8 سیارے موجود ہیں۔

    نیو ہورائزنز کو زمین سے پلوٹو تک پہنچنے میں 9 سال کا طویل عرصہ لگا۔ یاد رہے کہ پلوٹو اور ہماری زمین کے درمیان 4 ارب کلومیٹر سے بھی زائد فاصلہ ہے۔

    جولائی سنہ 2015 میں یہ خلائی جہاز پلوٹو پر پہنچ کر رکا نہیں بلکہ اس کے اوپر سے گزرتا ہوا مزید آگے چلا گیا۔ اس دوران اس نے پلوٹو کی واضح ترین تصاویر کھینچیں جو اس سے قبل کسی صورت نہ لی جاسکی تھیں۔

    نیو ہورائزنز کی جانب سے بھیجے گئے ڈیٹا کو ناسا نے اب مزید نئی تکنیکوں کے ساتھ جاری کیا ہے۔

    ناسا نے خلائی جہاز کے اس سفر کی باقاعدہ ویڈیو جاری کی ہے جس میں نیو ہورائزنز پلوٹو کے اوپر سے گزرتا دکھائی دے رہا ہے۔

    اس مختصر سفر میں پلوٹو کے برفانی میدان جنہیں اسپٹنک پلینیشیا کہا جاتا ہے، اور کھائی زدہ پہاڑ نمایاں طور پر دکھائی دے رہے ہیں۔

    ناسا نے نیو ہورائزنز سے موصول شدہ پلوٹو کے 5 چاندوں کی تصاویر بھی جاری کی ہیں جن میں سب سے بڑے چاند کا نام چیرون ہے۔ خلائی جہاز نے چیرون چاند کے اوپر سے بھی اڑان بھری۔

    خلائی ادارے کے مطابق یہ پلوٹو سیارے کی واضح ترین تصاویر اور ویڈیوز ہیں جنہیں اس سے قبل حاصل کرنا ناممکن تھا۔

    خلا کے بارے میں حیران کن اور دلچسپ حقائق جانیں

    کائنات کے بارے میں مزید حقائق جانیں


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • مریخ پر یہ حیران کن چہرہ کس کا دکھائی دیا؟

    مریخ پر یہ حیران کن چہرہ کس کا دکھائی دیا؟

    ہم میں سے اکثر افراد کو چاند یا بادلوں میں مختلف اشکال دکھائی دیتی ہیں۔ تاہم اب مریخ پر بھی مختلف چہرے دکھائی دینے لگے ہیں جو صرف عام افراد کو ہی نہیں بلکہ سائنسدانوں کو بھی نظر آرہے ہیں۔

    سنہ 2001 میں ناسا کی جانب سے کھینچی جانے والی مریخ کی تصاویر کی مزید نئی اور بہتر تکنیک سے جانچ کی گئی اور سائنس دان مریخ کی سطح پر ایک عجیب و غریب سا چہرہ دیکھ کر حیران رہ گئے۔

    ناسا نے اس بات کی وضاحت نہیں کہ وہ کیا جغرافیائی عوامل تھے جن کے باعث مریخ کی زمین پر یہ چہرہ بن گیا ہے۔

    اس موقع پر ناسا نے مریخ کی مزید تصاویر بھی جاری کیں۔

    یاد رہے کہ مریخ زمین کا پڑوسی سیارہ ہے اور اس کی وسعت زمین کی وسعت سے نصف کم ہے۔ مریخ کو سرخ سیارہ بھی کہا جاتا ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔