Tag: نظام ہاضمہ

  • کالی کشمش : بلڈ پریشر، نظام ہاضمہ اور ہڈیاں مضبوط، لیکن کیسے؟

    کالی کشمش : بلڈ پریشر، نظام ہاضمہ اور ہڈیاں مضبوط، لیکن کیسے؟

    کالی کشمش ایسا میوہ ہے جو نہ صرف آپ کو غذائیت فراہم کرتی ہے بلکہ بہت سے امراض کیلیے نہایت مفید بھی ہے، یہ قدرت کا انمول تحفہ ہے۔

    وٹامنز، معدنیات اور اینٹی آکسیڈنٹس سے مالا مال یہ خشک میوہ خاص طور پر قدرتی شکر، جیسے گلوکوز اور فریکٹوز سے بھرپور ہوتا ہے، جو فوری توانائی فراہم کرتی ہے۔

    کالی کشمش میں پوٹاشیم کی بھرپور مقدار اسے صبح سویرے کھانے کو بہترین بناتا ہے جس سے جسم میں سوڈیم کی کافی حد تک کمی ہوتی ہے۔

    سوڈیم ہائی بلڈ پریشر کی اہم وجوہات میں سے ایک ہے، اس طرح مٹھی بھر کالی کشمش آپ کے مسئلے کا علاج کر سکتی ہے۔

    استعمال کرنے کا طریقہ

    ماہرین صحت کے مطابق اگر کالی کشمش کو رات بھر پانی میں بھگو کر رکھا جائے اور صبح نہار منہ استعمال کیا جائے تو اس کے فوائد کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔

    آپ کو ہائی بلڈ پریشر کو کنٹرول کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ کشمش کو اگر بھگو کر اس میں دودھ شامل کرکے پئیں گے تو یہ آپ کو ذہنی سکون بھی فراہم کرے گا۔

    میڈیا رپورٹ کے مطابق بھیگی ہوئی کالی کشمش کے 6 بڑے فوائد ہیں جس کا ذکر مندرجہ ذیل سطور میں کیا جا رہاہے

    نظامِ ہاضمہ :

    کالی کشمش میں موجود فائبر ہاضمے کے عمل کو بہتر کرتا ہے، اس سے قبض کی شکایت دور جبکہ اس سے آنتوں میں مفید بیکٹیریا کی افزائش بھی ہوتی ہے۔ اس میں موجود قدرتی شکر نہ صرف فوری توانائی فراہم کرتی ہے بلکہ معدے کی بے چینی میں بھی آرام دیتی ہے۔

    ہڈیاں مضبوط :

    اس میں کیلشیم کی وافر مقدار ہڈیوں کو مضبوط بنانے میں مدد دیتی ہے۔ اسے روزانہ بھگو کر کھانے سے آسٹیوپوروسس (ہڈیوں کے بھربھرا پن) جیسے امراض سے بچاؤ ممکن ہے، خاص طور پر بڑی عمر کے افراد کے لیے یہ نہایت مفید ہے۔

    سوزش میں کمی :

    کالی کشمش میں اینٹی آکسیڈنٹس کی بڑی مقدار پائی جاتی ہے، جیسے پولی فینولز، فلیوونوئڈز اور فینولک ایسڈ۔ یہ مرکبات جسم میں موجود مضر فری ریڈیکلز کو بے اثر کرتے ہیں، جس سے آکسیڈیٹیو اسٹریس اور سوزش میں کمی آتی ہے۔

    امراض قلب سے بچاؤ :

    فلیوونوئڈز جیسے کیورسیٹن اور کیٹیچن دل کے لیے نہایت مفید سمجھے جاتے ہیں۔ یہ خون کی گردش کو بہتر بناتے ہیں، سوزش کم کرتے ہیں، بلڈ پریشر اور کولیسٹرول کو کنٹرول میں رکھتے ہیں، جس سے ہارٹ اٹیک اور فالج کے امکانات کم ہو جاتے ہیں۔ اور امراض قلب اور کینسر کے خطرات بھی کم ہوجاتے ہیں۔

    قوت مدافعت کی مضبوطی :

    وٹامن سی، بی 6 اور زنک جیسے اہم غذائی اجزا پر مشتمل کالی کشمش مدافعتی نظام کو مضبوط بناتی ہے۔ اور جسم موسمی اثرات سے لڑنے کے قابل ہو جاتا ہے۔

    خون میں آئرن کی کمی : 

    کالی کشمش آئرن حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے جو خون میں سرخ خلیات بنانے اور جسم کے مختلف حصوں تک آکسیجن پہنچانے میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ آئرن کی کمی سے پیدا ہونے والی کمزوری، تھکن اور خون کی کمی (انیمیا) میں بھی بھیگا ہوا کشمش فائدہ مند ہے۔

  • ان 10 پھلوں کو چھلکوں سمیت لازمی کھائیں

    ان 10 پھلوں کو چھلکوں سمیت لازمی کھائیں

    پھلوں کے چھلکے غذائی اعتبار سے بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں، ان کی افادیت سے انکار کسی صورت ممکن نہیں، زیادہ تر چھلکے نظام ہاضمہ اور قوت مدافعت کی مضبوطی کا بہترین ذریعہ ہے۔

    پھلوں کے چھلکوں کی اگر بات کی جائے تو اِن چھلکوں میں فائبر، وٹامنز اور منرلز جیسے مفید غذائی اجزا ہوتے ہیں، پھلوں کے چھلکے سورج سے توانائی حاصل کرتے ہیں اور اندر موجود پھل کو سخت موسمی حالات سے محفوظ رکھتے ہیں۔

    ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق پھلوں کو ان کے چھلکے کے ساتھ کھانے سے اضافی غذائی اجزاء جیسے فائبر، وٹامنز اور اینٹی آکسیڈنٹس ملتے ہیں۔

    یہ فوائد ہاضمہ، مدافعتی صحت اور عام صحت کو بہتر بناتے ہیں، ان کے چھلکے کے ساتھ درج ذیل پھل کھانے کو ایک اچھا انتخاب سمجھاجاتا ہے۔

    امرود
    امرود ایک ورسٹائل اور غذائیت سے بھرپور پھل ہے جسے اس کے چھلکے کے ساتھ کھایا جا سکتا ہے، کیونکہ یہ صحت مند اور تازگی بخش کھانے کے لیے فائبر، وٹامن سی اور اینٹی آکسیڈنٹس فراہم کرتا ہے۔

    انجیر
    آپ انجیر کھانے سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں جو اپنے میٹھے ذائقے اور بہت سے غذائی فوائد کے لیے مشہور ہیں۔ اس میں فائبر، وٹامنز اور اینٹی آکسیڈنٹس کی وافر مقدار موجود ہوتی ہے۔

    خوبانی
    اپنی قدرتی مٹھاس اور صحت سے متعلق فوائد کے علاوہ خوبانی ایک رس دار اور غذائیت سے بھرپور پھل ہے جسے اس کے چھلکے کے ساتھ کھایا جا سکتا ہے، کیونکہ یہ فائبر اور وٹامن اے اور سی فراہم کرتے ہیں۔

    آم
    آم کے چھلکے کا وزن تقریباً 1.7 گرام ہوتا ہے اور اس میں فائبر اور 36 فیصد وٹامن سی ہوتا ہے، جو ہاضمہ، قوت مدافعت اور جلد کو بہتر بناتا ہے۔

    چیری
    چیری اور ان کے چھلکے کو کھانا عام ہے جس کے مشہور صحت کے فوائد ہیں اور یہ صحت مند اور آسان ناشتے میں جسم کو فائبر، اینٹی آکسیڈنٹس اور وٹامن فراہم کرتے ہیں۔

    آڑو
    آڑو کے چھلکے کھانے سے فائبر، وٹامن اے اور سی اور اینٹی آکسیڈنٹس ملتے ہیں۔ ہر 100 گرام میں چھلکے میں 2-3 گرام فائبر اور تجویز کردہ روزانہ وٹامن سی کی مقدار کا تقریباً 10-15 فیصد ہوتا ہے۔

    آلوبخارہ
    آلو بخارے کا چھلکا اینٹی آکسیڈینٹس سے بھرا ہوتا ہے، خاص طور پر اینتھوسیاننزمرکب جسم کی مجموعی صحت کو برقرار رکھنے اور خلیوں کو نقصان سے بچانے کے لیے آکسیڈیٹیو تناؤ اور سوزش سے لڑتے ہیں۔

    انگور
    انگور کے دانوں کےچھلکے میں 1.4 گرام فائبر ہوتا ہے۔ یہ ریسویراٹرول کے علاوہ وٹامن سی کی روزانہ کی ضرورت کا تقریباً 20 فیصد بھی فراہم کرتا ہے، جو دل کے لیے اہم صحت کے فوائد فراہم کرتا ہے اور سوزش کو کم کرتا ہے۔

    ناشپاتی
    ناشپاتی کا چھلکا فائبر اور وٹامن سی کا بھرپور ذریعہ ہے۔ اس میں 3.1 گرام فائبر اور روزانہ وٹامن سی کا تقریباً 5-6 فیصد ہوتا ہے جو بلڈ شوگر کو کنٹرول کرنے میں مدد کرتا ہے اور قدرتی قوت مدافعت کو بڑھانے میں مدد کرتا ہے۔

    سیب
    سیب کا چھلکا فائبر، اینٹی آکسیڈنٹس اور وٹامنز سے بھرپور ہوتا ہے، جو روزانہ 2.4 گرام فائبر اور 5-7 فی صد وٹامن سی فراہم کرتا ہے، جو ہاضمے، دل کی صحت اور مجموعی صحت کو سہارا دیتا ہے۔

  • پیٹ میں گیس کی شکایت ہے تو پریشان نہ ہوں، آسان حل

    پیٹ میں گیس کی شکایت ہے تو پریشان نہ ہوں، آسان حل

    کھانے کے بعد اکثر پیٹ کا پھول جانا ویسے تو تشویش کی بات نہیں لیکن یہ کیفیت اکثر افراد کے لیے پریشان کن ہوجاتی ہے۔

    پیٹ میں گیس ہونا عام طور پر فارٹنگ، ہوا گزرنا، یا پیٹ پھولنے کے نام سے جانا جاتا ہے، پیٹ پھولنا ایک طبی اصطلاح ہے جس میں مقعد کے ذریعے نظام انہضام سے گیس خارج ہوتی ہے، یہ اس وقت ہوتا ہے جب گیس نظام ہضم کے اندر جمع ہوتی ہے۔

    اسی وجہ سے دنیا میں کروڑوں افراد کو اپھارے کی شکایت رہتی ہے کہ وہ کچھ بھی کھا لیں انہیں گیس ہونے لگتی ہے، گیس یا اپھارہ پیٹ اور نظام ہضم سے متعلقہ مرض ہےاور یہ مسئلہ کئی بار پیچیدگی بھی اختیار کر لیتا ہے، لہٰذا اس سے بچنا ہے تو درج ذیل ہدایات پر عمل کریں۔

    گیس کی بہت سی وجوہات ہیں لیکن بعض اوقات یہ صرف وہ غذا ہوسکتی ہے جو آپ کھاتے ہیں اگر آپ گیس اور اپھارہ محسوس کرتے ہیں تو اپنی غذا پر دھیان دیں۔

    تاہم قدرت نے کئی بیماریوں کا علاج بھی غذا میں رکھا ہے ہم آپ کو آج کچھ ایسی غذائیں بتائیں گے جن کے استعمال سے گیس اور اپھارہ کا شکار افراد اس مرض سے نجات حاصل کر سکتے ہیں جب کہ اس کے ساتھ ہی وہ غذائیں بھی بتائیں گے جن کے استعمال سے یہ شکایت مزید بدتر ہو سکتی ہے۔

    اگر آپ بھی اپھارے کے مرض کا شکار ہیں تو اپنی غذائی چارٹ میں تبدیلی لا کر اس سے نجات پا سکتے ہیں۔

    اپھارہ کے لیے بہترین غذائیں:

    یاد رکھیں کہ اپھارے کا تعلق کیونکہ پیٹ اور نظام ہضم سے ہے اس لیے اس میں وہ غذائیں زیادہ مفید ہیں جو جلد ہضم ہو جاتی ہیں۔

    کھیرا، چاول، کیلے، کشمش، خشک خوبانی، آلو، پالک، نارنگی، پپیتا، انناس، پروبائیوٹکس کے ساتھ دہی، سونف کے بیج، ادرک، پیپرمنٹ، کیمومائل چائے اور دار چینی، کھانے پینے کی ان اشیا میں شامل ہیں جنہیں آپ اپنی خوراک میں شامل کر کے اس سے نجات پا سکتے ہیں۔

    یہ تمام غذائیں زود ہضم ہونے کے ساتھ ان میں ایسے اجزا پائے جاتے ہیں جو آپ کے ہاضمے کو بہتر بنا کر گیس ہونے سے محفوظ رکھتے ہیں۔

    اپھارہ کے لیے خطرناک غذائیں:

    بروکولی اور بند گوبھی ایسی سبزیاں ہیں جو اپھارہ کا سبب بنتی ہیں کیونکہ ان میں رفائنوز نامی ایک چینی ہوتی ہے جو گیس کا باعث بنتی ہے۔

    دالیں اگرچہ پروٹین کے حصول کا سب سے موثر ذریعہ ہیں لیکن دالیں، سویابین اور مٹر کے ساتھ پھلیاں گیس پیدا کرنے والی غذا کے طور پر جانی جاتی ہیں۔

  • گرم اور ٹھنڈا پانی ملا کر پینا کیسا ہے؟ ماہرین نے خبردار کردیا

    گرم اور ٹھنڈا پانی ملا کر پینا کیسا ہے؟ ماہرین نے خبردار کردیا

    کیا آپ کو بھی فریج سے ٹھنڈا پانی نکال کر اس میں گرم پانی ملانے کی عادت ہے؟ اگر آپ ایسا کرتے ہیں تو آج ہی چھوڑ دیں کیونکہ اس سے آپ کی صحت پر بہت برا اثر پڑ سکتا ہے۔ آئیے جانتے ہیں کہ گرم اور ٹھنڈے پانی کو ملا کر کیوں نہیں پینا چاہیے؟

    زیادہ تر لوگ جو گرم اور ٹھنڈا پانی ملا کر پیتے ہیں ان کیلئے اچھی خبر نہیں۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ لوگ فریج سے ٹھنڈے پانی کی بوتل نکال کر اس میں تھوڑا سا گرم پانی ڈال کر پیتے ہیں۔

    اس حوالے سے ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ ایسا کرنا صحت کے لیے کافی نقصان دہ ہے، وہ اسے صحت کے لیے اچھا نہیں سمجھتے۔ لیکن ایسا کیوں ہے؟

    ماہرین کے مطابق کسی شخص کو بھی پینے کے لیے کبھی بھی گرم اور ٹھنڈا پانی ایک ساتھ نہیں ملانا چاہیے کیونکہ ٹھنڈا پانی ہضم کرنے میں وقت لگتا ہے جبکہ گرم پانی جلد ہضم ہو جاتا ہے۔ اگر یہ دونوں اکھٹے ہو جائے تو بدہضمی کا مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے۔

    گرم اور ٹھنڈا پانی ایک ساتھ کیوں نہیں پینا چاہیے؟

    کہا جاتا ہے کہ گرم پانی میں بیکٹیریا نہیں ہوتے کیونکہ بیکٹیریا گرم پانی میں زندہ نہیں رہ سکتے۔ ٹھنڈا پانی آلودہ ہو سکتا ہے لیکن دونوں کو ملانے سے صحت خراب ہو سکتی ہے۔

    گرم اور ٹھنڈے پانی کو ملانے سے ہاضمہ کمزور ہوتا ہے، پیٹ پھول جاتا ہے اور غذائی اجزاء کے ہضم ہونے میں دقت ہوتی ہے۔ گرم پانی خون کی نالیوں کو پھیلا دیتا ہے، نالیوں کو صاف کرتا ہے، جب کہ ٹھنڈا پانی انہیں تنگ کر دیتا ہے۔ ان دونوں کا مرکب پریشانی اور رکاوٹ کا سبب بن سکتا ہے۔

    گرم پانی کے فائدے کم ہوجاتے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ جب آپ گرم اور ٹھنڈے پانی کو ملاتے ہیں تو گرم پانی سے جو بھی فائدہ ہوتا ہے وہ ضائع ہو جاتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ مخلوط پانی کا متوازن درجہ حرارت خالص گرم پانی کی طرح ہاضمے کی سطح کو فروغ نہیں دیتا۔

    ہاضمے کو متحرک کرنے اور نظام کو صاف کرنے کی گرم پانی کی صلاحیت کم ہو جاتی ہے، جس سے ہاضمے میں مدد کرنے کی اس کی صلاحیت، اس کی افادیت اور تاثیر کم ہوجاتی ہے۔

    گرم اور ٹھنڈے پانی کو ملانے سے درجہ حرارت میں فرق ہو سکتا ہے، اس کی وجہ سے نظام ہاضمہ ٹھیک سے کام نہیں کرتا اور غذائی اجزاء کو جذب کرنے میں کمی آتی ہے۔

  • جَو کا پانی : فوائد جان کر حیرت زدہ رہ جائیں گے

    جَو کا پانی : فوائد جان کر حیرت زدہ رہ جائیں گے

    جو کا استعمال بطور خوراک کئی طریقوں سے کیا جاتا ہے، جیسے جو کا پانی، ستو، جو کی روٹی، جو کا دلیہ وغیرہ۔

    جو معدے کو ایسے صاف کرتا ہے جیسا کہ صابن میل کو صاف کرتا ہے، طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ جو کا دلیہ کھانے سے دل کو تقویت ملتی ہے۔

    جو میں پائے جانے والے غذائی اجزاء بہت افادیت کے حامل ہیں، اس میں کیلشیم، آئرن، میگنیز، یعنی زنک کاپر کے علاوہ سلیوبل اور غیر سلیوبل فائبر کافی مقدار میں پایا جاتا ہے، اس میں وٹامنز کے علاوہ اینٹی اکسیڈنٹس بھی شامل ہیں جو دل شوگر اور ہائی بلڈ پریشر جیسی بیماریوں میں مفید ہیں۔

    پچھلے زمانوں کی نسبت آج جو کی روٹی تو بہت کم کھائی جاتی ہے لیکن اس کا دلیہ لوگ شوق سے استعمال کرتے ہیں۔

    اس کے علاوہ جو کا پانی بھی بہت صحت بخش ہے، برصغیر پاک و ہند میں جو کے پانی کا استعمال صدیوں سے کیا جا رہا ہے اور اس کی تیاری کے لئے جو طریقہ اختیار کیا جاتا ہے وہ کچھ اس طرح ہے۔

    جو کا پانی بنانے کا طریقہ

    ایک چوتھائی کپ صاف جو لیں اور اس میں چار کپ سادہ پانی شامل کر دیں اور اسے تیز آنچ پر جوش دیں۔

    اس کے بعد آنچ ہلکی کر دیں اور چٹکی بھر نمک شامل کر کے اس کو آدھے گھنٹے تک ہلکی آنچ پر پکنے کے لئے چھوڑ دیں تاکہ جو اچھی طرح گل جائے۔

    اس دوران چمچ ہلاتے رہیں اور جو کو بھی دباتے رہیں تاکہ اس کا رس اچھی طرح پانی میں شامل ہو جائے۔ اس کے بعد آمیزے کو چولہے پر سے اُتار کر ململ کے کپڑے میں چھان لیں۔

    حاصل شدہ پانی میں حسب ذائقہ شہد اور لیموں شامل کر لیں اور ٹھنڈا کر کے اس کو مشروب کے طور پر استعمال کریں۔

    اس کے علاوہ اس میں ادرک،دار چینی اور زیرہ وغیرہ شامل کر کے اس کے اثرات میں مزید اضافہ کیا جا سکتا ہے۔

    یہ پانی بے پناہ طبی فوائد کا حامل ہے اور انسانی صحت کے لئے بے حد مفید بھی ہے۔ اس پانی کے اندر غذائیت کے ساتھ فائبر کی بڑی مقدار شامل ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ میگنیشیم، کیلشیم، آئرن اور زنک کے ساتھ ساتھ وٹامن کی بھی بڑی مقدار موجود ہوتی ہے جو کہ انسانی صحت پر مثبت اثرات مرتب کرتی ہے۔

    حیران کن طبی فوائد

    جو کا پانی نظام ہاضمہ میں موجود زہریلے مادوں کو جسم سے باآسانی خارج کرنے میں بہت معاون ثابت ہوتا ہے، یہ گردوں کے جملہ امراض کے لیے بھی مفید ہے، اس میں شامل اجزا گردوں کی پتھری کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں توڑ کر پیشاب کے راستے خارج کرتے ہیں اور پیشاب کی نالی میں موجود انفیکشن کا بھی خاتمہ کرتا ہے۔

    اس کے علاوہ وزن کو کم کرتا ہے کیونکہ جو کے پانی میں دو قسم کے فائبر موجود ہوتے ہیں جن میں سے ایک معدے کو بھرا بھرا رکھتا ہے جب کہ دوسرا فائبر جسم میں موجود فاضل چکنائی کو پگھلا کر جم سے خارج ہونے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔

    جو کا پانی کولیسٹرول اور بلڈ شوگر کو کنٹرول کرتا ہے، موڈ کو بہتر بنا کر ڈپریشن کو دور کرتا ہے،قوت مدافعت مضبوط ہوتی ہے۔

    جو کے پانی میں قدرتی اینی آکسیڈنٹس اور غذایت موجود ہوتی ہے جو کہ انسان کی قوت مدافعت کو مضبوط بناتا ہے جراثیموں اور وائرس سے لڑنے کی طاقت فراہم کرتا ہے اور بیماریوں سے لڑنے کی طاقت فراہم کرتا ہے۔

  • چیونگم پیٹ میں چلی جائے تو کیا ہوگا؟

    چیونگم پیٹ میں چلی جائے تو کیا ہوگا؟

    بچوں کو کئی مرتبہ خبردار اور ڈرایا جاتا ہے کہ چیونگم کو نہ نگلیں ورنہ یہ پیٹ میں جاکر چپک جائے گی ایک خیال یہ بھی ہے کہ چیونگم کئی سال تک ہضم نہیں ہوتی۔

    اس بات میں کتنی سچائی ہے کہ نگلنے والی چیونگم ہمارے پیٹ میں سات سال تک چپکی رہے گی، اس حوالے سے یہاں ہم حقیقت میں یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ چیونگم نگلنے سےاصل میں ہوتا کیا ہے؟۔

    چیونگم چبانا عام طور پر محفوظ سمجھا جاتا ہے اگرچہ اس میں موجود چینی یا چینی والے اجزاء بچوں کے لئے صحت مند نہیں ہیں لیکن چیونگم چبانے کی اجات بچوں کو اس وقت تک نہیں دینی چاہئے جب تک وہ یہ نہ سمجھ لیں کہ اسے صرف چبانا ہے نگلنا نہیں ہے۔

    ماہرین صحت کے مطابق اگرچہ اسے نگلنے میں کوئی تکلیف نہیں ہوگی لیکن چھوٹے بچے بعض اوقت ایک بڑی مقدار نگل سکتے ہیں جو ان کے مسوڑھوں یا یا آنتوں میں جا کر تکلیف پیدا کرسکتی ہے۔

    اصل بات یہ ہے کہ ہمارا نظام ہاضمہ اس کو ہضم نہیں کرسکتا تاہم یہ بات بھی غلط ہے کہ یہ سات سال تک پیٹ میں رہے گی لیکن کسی بھی دوسری غذاؤں کی طرح جو ہم کھاتے ہیں یہ نظام انہضام کے ذریعے حرکت کرتا ہے اور پاخانے کے ذریعے جسم سے خارج ہوتا ہے۔

    امریکی ریاست فلوریڈا میں معدے کے ڈاکٹر ایری لیمیٹ کے مطابق چیونگم نِگلنا لازمی نہیں کہ صحت کے لیے نقصان دہ ہو لیکن یہ ایک اچھی عادت بھی نہیں ہے۔ ڈاکٹر ایری نے فاکس نیوز کو دیے گئے انٹرویو میں بتایا کہ اگر آپ کا ہاضمہ صحت مند ہے تو کبھی کبھار چیونگم نِگل لینا کوئی مسئلہ نہیں۔

  • کھانے کے فوری بعد پانی پینا کتنا نقصان دہ ہے؟

    کھانے کے فوری بعد پانی پینا کتنا نقصان دہ ہے؟

    ماہرین صحت کھانا کھانے کے دوران یا اس کے فوری بعد پانی پینے سے کیوں منع کرتے ہیں؟ اس کی کئی وجوہات ہیں جن کے سبب پانی پینا جسم کیلئے نقصان دہ ہوسکتا ہے۔

    زیر نظر مضمون میں اسی بات کا احاطہ کیا جارہا ہے کھانے کے کتنی دیر بعد پانی پینا صحت کیلئے اور جسم کے اندرونی نظام کو بہتر رکھنے کیلئے مفید ہے۔

    اس حوالے سے بھارت کے تعلق رکھنے والی ماہر خوراک کرشمہ شاہ نے بھی کھانے کے فوری بعد پانی نہ پینے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس مشورے کے پیچھے وجوہات کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ زیادہ سے زیادہ ہاضمے کے لیے کھانے کے بعد پانی پینے کا بہترین وقت 10 سے 30 منٹ کے درمیان ہوتا ہے۔

    drinking

    ہر شخص کو خواہ وہ عورت ہو یا مرد کھانے کے ساتھ پانی پینے سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ یہ معدے میں موجود ہاضمے کے خامروں کو پتلا کرتا ہے تاہم کھانے سے 10 منٹ پہلے یا بعد میں پیا جاسکتا ہے۔

    معدے پر مضر اثرات

    کھانے کے فوراً بعد پانی پینا معدے کے تیزاب اور ضروری خامروں کو پتلا کر سکتا ہے، جس سے عمل انہضام سست ہو جاتا ہے۔ پانی کو ایک ہی دفعہ نہیں پینا چاہے بلکہ رک رک کر ایک ایک گھونٹ پینا چاہیے۔

    غذائی اجزاء جذب

    دوپہر کے کھانے اور رات کے کھانے کے فوراً بعد پانی پینے سے غذائی اجزاء کا جذب خراب ہو جاتا ہے کیونکہ پانی ہاضمے کے عمل کو تیز کر سکتا ہے لیکن اہم غذائی اجزاء کو مؤثر طریقے سے جذب کرنے کو متاثر کرسکتا ہے۔

    انسولین کی سطح متاثر

    کچھ شواہد بتاتے ہیں کہ کھانے کے فوراً بعد پانی پینا انسولین کی سطح میں اضافے کا سبب بن سکتا ہے، جس سے چربی کا ذخیرہ بڑھ جاتا ہے۔

    اس کے علاوہ زیادہ سے زیادہ ہاضمہ اور اچھی صحت کے لیے کھانے کے بعد خود کو 30 منٹ کا وقفہ دینا بہتر ہے۔ یہ عارضی وقفہ اس بات کو یقینی بنائے گا کہ کھانا ہضم ہو رہا ہے اور وہ مناسب طور پر ہائیڈریٹ بھی ہے۔

    صرف ایک صورت میں پانی پی سکتے ہیں 

    کھانے کے دوران یا بعد میں زیادہ پیاس لگے تو بالکل تھوڑی سی مقدار میں پانی پی سکتے ہیں لیکن خیال رہے کہ پانی ٹھنڈا ہرگز نہ ہو کیونکہ یہ آپ کے ہاضمے کے نظام کو سست کرسکتا ہے۔

    علاوہ ازیں کھانے کے ساتھ کولڈ ڈرنک اور دیگر اقسام کے مشروبات پینے سے سختی سے گریز کریں یہ مشروبات کھانے کی ساری غذائیت کو بری طرح متاثر کرتے ہیں۔

  • نظام ہاضمہ سے دل کے دورے (ہارٹ اٹیک) کا کیا تعلق ہے؟

    نظام ہاضمہ سے دل کے دورے (ہارٹ اٹیک) کا کیا تعلق ہے؟

    انسانی جسم کے اندر سب سے بڑا اور اہم نظام ہاضمے کا ہوتا ہے جس کی ابتدا منہ سے ہوتی ہے، دانت غذا کو پیس کر معدے کو بھیجتے ہیں اور انزائمز اسے مزید پیس کر ہضم ہونے کے قابل بناد یتے ہیں۔

    لیکن اگر یہ نظام تھوڑا سابھی اپنی ڈگر سے ہٹ جائے یا دانتوں نے اپنا کام ٹھیک سے نہیں کیا تو اس سے آگے کا نظام بھی اپنا کام ٹھیک طرح سے نہیں کرپاتا اور اور کھانا ہضم ہونے کی رفتار کم ہوجاتی ہے جس سے دیگر مسائل جنم لیتے ہیں۔

     ہارٹ اٹیک کے چار بڑے اسباب 

    یاد رکھیں ! نظام ہاضمہ کی خرابی سے ہائی بلڈ پریشر، جسم میں چربی کا بڑھ جانا، وزن کی زیادتی اور ذیابیطس جیسی بیماریاں جنم لیتی ہیں اور یہ وہ خطرات ہیں جو دل کے دورے کا بھی سبب بن سکتے ہیں، البتہ اگر مناسب اقدامات کیے جائیں تو اس کی روک تھام اور اس سے حفاظت کافی حد تک ممکن ہے۔

    اس حوالے سے جرمنی کے معروف اینڈو کرائینالوجسٹ ڈاکٹر شٹیفان یاکوب کے مطابق طرز زندگی سے متعلق یہ بیماریاں بسا اوقات ایک ساتھ رُونما ہوتی ہیں۔ عام طور پر’خاموش قاتل‘ کے نام سے جانی جانے والی اس مرکب کیفیت میں اگر اضافہ ہوجائے تو بہت ممکن ہے کہ یہ دل کے دورے یا فالج کے حملے کا سبب بھی بن جائے۔

    جرمن اوبیسیٹی سوسائٹی کے ماہر غذائیات ڈاکٹر ہَنس ہاؤنر کا کہنا ہے کہ دل کے دورے یا فالج کے حملے میں اکثر بڑا سبب انسانی جسم میں موجود وہ چربی ہوتی ہے جو خاص طور سے کمر کے ارد گرد جمع ہوجاتی ہے۔

    ماہر صحت کے مطابق یہ وہ بنیادی وجہ ہے جو وزن کی زیادتی، بلند فشار خون اور ذیابیطس کو دعوت دیتی ہے، جسم میں چربی بڑھنے کی ایک بڑی وجہ زیادہ حرارے رکھنے والے کھانے کھانا اور کم ورزش کرنا بھی شامل ہے۔

    جسم کی ’ویسٹ لائن‘ اور طبی خطرات 

    جرمن ماہر صحت کا کہنا ہے کہ نظام ہاضمہ سے متعلق بیماری چار میں سے کسی بھی تین خطرناک مرکب عوامل کے باعث دیکھنے میں آسکتی ہے۔ ان کے مطابق ’’انسانی جسم کا پیٹ کے اردگرد کا حصہ یعنی کسی بھی شخص کی ’ویسٹ لائن‘ جتنی زیادہ ہوگی، اسے اتنا ہی زیادہ طبی خطرات کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘‘

    انہوں نے بتایا کہ ضروری نہیں کہ زیادہ وزن کا حامل ہر شخص نظام انہضام سے متعلق کسی بیماری کے خطرے کا سامنا بھی کرتا ہو۔

    ان کے مطابق بہت سے جینیٹک یا وراثت میں ملنے والے عناصر اور عوامل ایسے بھی ہوتے ہیں جو عام لوگوں کی ایسی کسی بیماری کا شکار ہونے کے خلاف حفاظت کرتے ہیں۔

    مرد و خواتین کی کمر کا سائز کتنا ہونا چاہیے؟

    ماہرین کے مطابق وہ افراد زیادہ وزن کے حامل سمجھے جاتے ہیں جن کا باڈی ماس انڈکس یا بی ایم آئی25 سے زیادہ ہو۔ ڈاکٹر شٹیفان یاکوب کے مطابق عام مردوں کی کمر 94 سینٹی میٹر اور خواتین کی کمر 80 سینٹی میٹر سے زیادہ ہونا صحت کے لیے خطرناک سمجھا جاتا ہے۔

    ماہرین صحت کے مطابق نظام ہضم سے متعلق بیماری یا میٹابالک سنڈروم کا کوئی ایک خاص علاج نہیں ہے، اس سے بچاؤ کے لیے ضروری ہے کہ اس کی وجہ بننے والے عوامل اور عناصر سے بچا جائے۔

    مثال کے طور پر بلند فشار خون جو کہ دل، دماغ اور گردوں کے لیے انتہائی خطرناک ہے،130/85 ایم جی ایچ جی سے آگے نہیں بڑھنا چاہیے جبکہ جسم میں موجود کولیسٹرول کی سطح کو بھی قابو میں رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ جسم میں کم سے کم خطرناک چربی جمع ہو۔ اور نظام ہضم کو خراب کرنے والے چاروں عناصر سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ وزن کم رکھا جائے اور ورزش کو معمول بنایا جائے۔

  • افطار کے بعد پیٹ درد سے چھٹکارا کیسے ممکن؟

    افطار کے بعد پیٹ درد سے چھٹکارا کیسے ممکن؟

    ماہ رمضان میں کئی گھنٹوں تک بھوکا پیاسا رہنے کے دوران جسمانی نظام میں ردو بدل معمول کی بات ہے، جس سے کچھ تکالیف اور پریشانیاں بڑھ جاتی ہیں۔

    اس کیفیت کے سبب جسم میں سستی، کاہلی کے ساتھ نظام ہاضمہ بھی متاثر ہوجاتا ہے اور کئی لوگ پیٹ میں درد کی شکایت بھی کرتے ہیں۔

    خاص طور پر ایسا اس وقت ہوتا ہے جب افطاری میں ہم زیادہ کھانا کھالیتے ہیں، جس میں کاربو ہائیڈریٹس کی ایک بڑی مقدار کی وجہ سے پیٹ پھولنے اور قبض جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

    ان مسائل کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ افطار کے بعد تیزابی اور مصالحہ دار غذائیں کھانا، سوتے سے قبل بھاری کھانا، پانی کی کمی وغیرہ ہیں، یہ سب وجوہات پیٹ کے درد کا باعث بن سکتی ہیں۔

    نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ کی رپورٹ کے مطابق اگر آپ بھی قبض اور پیٹ کے درد سے پریشان ہیں تو درج ذیل اقدامات آپ کی مدد کر سکتے ہیں:

    پانی کی کمی کو دور کریں

    افطار کے بعد پانی کی کمی کو پوری کرنے کی کوشش کریں، آپ کو روزانہ کم از کم 8-10 گلاس پانی پینا چاہئیں۔

    اس لیے افطار کے بعد ہر آدھے گھنٹے بعد پانی پیئیں، تیزابی اور مصالحہ دار غذاؤں سے دور رہیں۔

    افطار میں کوشش کریں کہ تلی ہوئی اشیا سے دور رہیں بالخصوص زیادہ مصالحہ دار اشیا مثلاً پکوڑے، سموسے، مرچوں والی چنا چاٹ وغیرہ

    اس لیے افطار کے بعد ٹھنڈی غذاؤں کا استعمال کریں، اس کے لیے خربوزے بہترین پھل ہے، اس کے علاوہ تربوز بھی انتہائی اہم پھل ثابت ہوسکتا ہے۔

    پھلوں کے علاوہ سبزیوں کا استعمال کریں، مثال کے طور پر گوبھی، بھنڈی، دال وغیرہ

    ورزش کریں :

    سحری کے بعد اور افطار سے ایک گھنٹہ قبل روزانہ ورزش کریں۔

    ہلکی پھلکی ورزش کرنے سے آپ کے جسم کو تندرست رکھنے کے ساتھ ساتھ آپ کے ہاضمہ کو بھی بہتر بناتا ہے۔

    شہد استعمال کریں:

    سحری میں شہد کا استعمال بہترین ثابت ہوسکتا ہے، شہد قبض کے خلاف کارآمد ثابت ہوتا ہے۔

    شہد کے کئی فائدے ہیں، یہ گلے کی سوزش، کھانسی اور زکام جیسی عام بیماریوں کا علاج کے علاوہ پیٹ اور قبض کے مسئلے کے لیے بھی کارآمد ہے۔

    اس کے علاوہ، شہد آپ کے جسم کو طاقت دیتا ہے، دل کی صحت کو بہتر بناتا ہے۔

    یہاں تک کہ ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ شہد کے استعمال سے بھی کینسر جیسی بیماریوں سے بچایا جا سکتا ہے۔

    تاہم، اگر آپ کو شوگر ہے تو آپ کو شہد کا استعمال کرنے سے پہلے اپنے ڈاکٹر سے مشورہ کرنا چاہئے۔

    دودھ اور دہی استعمال کریں:

    دودھ اور دہی فائبر کے ساتھ ساتھ پروبائیوٹکس بھی فراہم کرتے ہیں جو آپ کے پیٹ کو تندرست رکھتے ہیں۔

    دودھ اور دہی دونوں پیٹ کے لیے اہم غذائیت کی مقدار فراہم کرتے ہیں، اس میں وٹامن ڈی ، پروٹین، اور کئی اور ضروری عناصر جیسے زنک، میگنیشیم، فاسفورس، وٹامن بی 12، وٹامن بی 2 اور وٹامن بی 3 شامل ہوتے ہیں۔

    سحری کے وقت روٹی کے ساتھ دہی کھائیں اور آخر میں دودھ پی لیں جو پیٹ اور قبض کے لیے فائدہ مند ہے۔

  • ماہ رمضان میں نظام ہاضمہ کی خرابی کا آسان حل

    ماہ رمضان میں نظام ہاضمہ کی خرابی کا آسان حل

    رمضان کا بابرکت مہینہ شروع ہوچکا ہے اس میں زیادہ تر لوگوں کو اکثر نظامِ ہاضمہ کے مسائل کا سامنا رہتا ہے جبکہ افطاری اور سحری میں پراٹھے اور تلی ہوئی اشیاء کھانے سے بھی معدے میں تیزابیت اور جلن کی سی کیفیت رہتی ہے۔

    اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں ماہر امراض معدہ و جگر پروفیسر ڈاکٹر زاہد اعظم نے ناظرین کو افطار تا سحری کھانے پینے سے متعلق اہم مشورے دیئے۔

    انہوں نے کہا کہ معدے کی مثال ایک گرینڈر جیسی ہے اگر اس میں زیادہ غذا ڈال دی تو یقیناً اس پر بوجھ پڑے گا لہٰذا متوازن اور صحت مند غذا ہماری صحت اور معدے کی بہتری کے لئے بہت اہم ہوتی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ رمضان میں بہت سے لوگوں کو ہاضمے کا مسئلہ ہوجاتا ہے اس کی وجہ معدے کو خوراک کو ہضم کرنے کے لئے انرجی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسی غذائیں جو ہضم ہونے میں مشکل پیدا کرے اس کا استعمال ترک کردینا چاہیئے تاکہ ہم اپنے ہاضمے کو تندرست بنا سکیں۔

    انہوں نے بتایا کہ معدے کی تیزابیت دور کرنے کے لیے افطار میں تربوز، خربوزہ، پپیتہ اور گرما زیادہ کھائیں، ان سے معدے اور آنتوں کی صفائی ہوتی ہے۔

    سحری اور افطار میں انجیر کا استعمال کریں، دہی یا دودھ میں پانی ملا کر استعمال کرنے سے بھی تیزابیت دور ہوتی ہے۔

    سالن میں لیموں ڈال کر کھائیں یہ بھی ہاضمے کے لیے بہترین ہے۔ تیزابیت دور کرنے کے لیے ایک کپ دودھ میں چار کپ پانی ملا کر وقفے وقفے سے استعمال کریں۔