Tag: نظرثانی

  • آئی پی پیز سے کیے گئے معاہدوں کا حل کیا ہے؟ ماہر قانون نے بتا دیا

    آئی پی پیز سے کیے گئے معاہدوں کا حل کیا ہے؟ ماہر قانون نے بتا دیا

    بجلی کے حالیہ بلوں میں بے تحاشہ اضافے کی ذمہ دار انڈیپینڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کو قرار دیتے ہوئے ان کے ساتھ کیے گئے معاہدوں پر کڑی تنقید کی جارہی ہے۔

    قانونی ماہرین کے مطابق آئی پی پیز سے کیے گئے معاہدے 2050 تک چلیں گے، آخر اس کا حل کیا ہے؟ اس سلسلے میں قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ مذکورہ مسئلے کے حل کیلئے آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں پر نظرثانی کی شدید ضرورت ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے پروگرام ’دی رپورٹرز‘میں بین الاقوامی ماہر قانون حافظ احسان احمد نے کہا کہ سب سے پہلے حکومت اس بات کا تہیہ کرلے کہ کسی بھی آئی پی پی کے ساتھ کیے گئے معاہدے کی مدت میں توسیع نہیں کی جائے گی۔

    انہوں نے بتایا کہ کچھ اس طرح کی افواہیں بھی گردش کررہی ہیں کہ جن آئی پی پپیز کے معاہدوں کی مدت پوری ہونے والی ہے یا ہوچکی ہے ان میں توسیع کی گنجائش نکالی جائے گی۔

    ان کا کہنا تھا کہ یہ بات ٹھیک ہے کہ کوئی بھی معاہدہ یکطرفہ طور پر منسوخ نہیں کیا جاسکتا لیکن ان معاہدوں کو ان پیرا میٹرز کے اندر استعمال کیا جاسکتا ہے جیسے کہ ان آئی پی پیز کے پیچھے کون سی طاقتیں ہیں اس کے ساتھ ساتھ ان کمپنیز کے ہیٹ آڈٹ، ٹیکس اور فرانزک آڈٹس کیے جائیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ ہیٹ آڈٹ سے مراد یہ ہے کہ مثال کے طور پر اگر کوئی بجلی گھر 10میگا واٹ بجلی بنا سکتا ہے لیکن کاغذات میں اس نے 15 میگاواٹ لکھا ہوا ہے، اسی صورت میں ان پر ہاتھ ڈالا جاسکتا ہے، اگر حکومت ایسا نہیں کرپاتی یا ان سے بات نہیں کرتی تو یہ لوگ حکومت کو عالمی قوانین سے ڈراتے رہیں گے۔

    حافظ احسان احمد نے کہا کہ اس تمام صورتحال کے باوجود آئی پی پیز کی جانب سے کسی قسم کا ردعمل سامنے نہیں آرہا بلکہ اس کے برعکس حکومتی عہدایداران ٹی وی پر آکر ان کے ترجمان بنے ہوئے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ یہ بات سب جانتے ہیں کہ ان معاہدوں میں سراسر دھوکہ ہے اس میں اختیارات کو استعمال کیا گیا، لہٰذا ان میں کچھ تینکی خامیاں بھی ہیں جن کی نشاندہی کرکے اس مسئلہ کا حل نکالا جاسکتا ہے۔

  • قطر بحران کا خاتمہ چاہتا ہے تو اپنے مؤقف پر نظرثانی کرے، انور قرقاش

    قطر بحران کا خاتمہ چاہتا ہے تو اپنے مؤقف پر نظرثانی کرے، انور قرقاش

    ابوظبی : اماراتی وزیر خارجہ انور قرقاش کا قطر تنازعے سے متعلق کہنا ہے کہ خلیج سربراہی اجلاس سے یہ بات ثابت ہو گئی ہے قطر تنازع روایتی طریقوں سے حل نہیں ہو سکتا۔

    تفصیلات کے مطابق متحدہ عرب امارات کے وزیر مملکت برائے امور خارجہ انور قرقاش نے کہا کہ مکہ میں خلیج تعاون کونسل کا سعودی عرب میں حال ہی میں منعقدہ اجلاس سے ثابت ہو گیا ہے کہ قطر کو درپیش بحران کا حل روایتی طریقوں سے ممکن نہیں، اس کے لئے قطر کو برملا اپنے نقطہ نظر پر نظرثانی کرنا ہو گی۔

    اماراتی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ امارات، سعودی عرب، بحرین اور مصر کے ساتھ سفارتی تعلقات خاتمے کے دو برس مکمل ہونے پر اپنے سلسلہ وار ٹویٹر پیغامات میں انور قرقاش نے کہا کہ خلیج سربراہی اجلاس سے یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ دوحا تنازع روایتی طریقوں سے حل نہیں ہو سکتا۔

    انور قرقاش کا کہنا تھا کہ اس کے لئے شیخ حمد بن خلیفہ کی قیادت میں اختیار کردہ پالیسیوں پرنظر ثانی کرنا ہو گی۔

    ان کا کہنا تھا کہ معقولیت اور منطق کا تفاضہ ہے کہ شیخ تمیم (امیر قطر) پالیسیوں پر برملا نظرثانی کرتے ہوئے ملک کو درپیش بحران ختم کرنے کے لئے نئی پالیسی اختیار کریں تاکہ قطر کی دوبارہ خلیجی اور عرب ماحول میں واپسی ممکن ہو سکے۔

    اماراتی وزیر مملکت برائے خارجہ امور کا کہنا تھا کہ جون 2017 میں سعودی عرب، یو اے ای، بحرین اور مصر نے قطر کی انتہا پسند گروپوں کے لئے مبینہ حمایت کی وجہ سے سفارتی اور مواصلاتی رابطے منقطع کر لئے تھے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ چاروں ملکوں نے قطر سے تعلقات بحالی کے لئے متعدد شرائط پیش کیں۔ ان میں ایک شرط قطر کے عسکری اور دہشت گرد تنظیموں سے رابطے ختم کرنے سے متعلق بھی تھی۔

  • ٹرمپ انتظامیہ کی الیکشن مہم، اسرائیل مخالف ممالک سے تعلقات پر نظرثانی کی تجویز

    ٹرمپ انتظامیہ کی الیکشن مہم، اسرائیل مخالف ممالک سے تعلقات پر نظرثانی کی تجویز

    واشنگٹن : امریکی محکمہ خارجہ کے خصوصی ایلچی ایلن کار نے اسرائیل مخالفین کے حوالے سے کہا ہے کہ امریکا یہود مخالف ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات پر غور کرے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکا اور اسرائیل کے تعلقات اس وقت جاری ہیں جب غاصب صیہونی ریاست اسرائیل معرض وجود میں آیا تھا اور اس کے وجود کو اقوام متحدہ میں سب سے پہلے امریکا نے تسلیم کیا تھا اور آج تک اسرائیل کے خلاف پیش کی جانے والے تمام قرار دادوں کو امریکا ہی ویٹو کرتا آرہا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ یہود مخالف نظریات و جذبات کی انسداد اور ان کی نگرانی کےلیے امریکی عہدیدار ایلن کار کا دورہ اسرائیل کے موقع پر کہنا تھا کہ ایسے ممالک کے ساتھ تعلقات باعث تشویش ہیں لہذا امریکا کو ان ممالک کے ساتھ تعلقات پر نظرثانی کرنی چاہیے۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا تھا کہ ایلن کار نے کسی خاص ملک کا نام نہیں لیا اور نہ یہ وضاحت کی کہ امریکا کی موجودہ حکومت یہود مخالف ممالک کے خلاف کیا اقدامات اٹھائے گی۔

    ایلن کار کا کہنا تھا کہ ’میں ہر سطح پر اس مسئلے کو اٹھاؤں گا اور خصوصی اجلاسوں اور ملاقاتوں میں بھی اس معاملے پر بات کروں گا‘۔

    امریکی تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے دیگر ساتھی و جماعت اسرائیل کی حمایت حاصل کرکے امریکا میں مقیم یہودیوں کے ووٹ حاصل کرسکیں گے۔

    ناقدین کا کہنا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ قوم پرستی پر مبنی مہم چلا رہے ہیں جس کے باعث امریکا کے امن کو خراب کرنے والے گروہوں کی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا ہے تاہم امریکی انتظامیہ نے ناقدین کے بیان کی تردید کی ہے۔

  • پاکستان سے تعلقات پرنظرثانی کی ضرورت ہے،امریکی کمانڈر

    پاکستان سے تعلقات پرنظرثانی کی ضرورت ہے،امریکی کمانڈر

    واشنگٹن : افغانستان میں امریکی کمانڈرجنرل جون نکلسن کا کہنا ہے کہ امریکہ کو پاکستان سے تعلقات پرنظرثانی کرنا ہوگی۔

    تفصیلات کےمطابق افغانستان میں امریکی فوج کےکمانڈرجنرل جون نکلسن نے سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان سے تعلقات پرتفصیلی نظرثانی کی ضرورت ہے۔

    جنرل جون نکلسن نے سینیٹ میں آرمڈ سروس کمیشن کو بتایا ہے کہ بہتر ہے کہ پاکستان کے ساتھ ہمارے پیچیدہ رشتوں کا جائزہ اس پر پوری طرح سے نظرثانی کرنے کے بعد کیا جائے۔

    امریکی فوج کےکمانڈر کاکہنا تھا وزیردفاع جیمز میٹس سے ملاقات میں پاکستان کے بارے میں تفصیلی بات چیت ہوئی۔

    افغانستان میں عالمی اور امریکی فوج کی قیادت کرنے والے امریکی جنرل جان نکلسن کا یہ بیان اس بات کا اشارہ ہوسکتا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ پاکستان کے لیےسخت پالیسیاں اپناسکتی ہے۔

    یاد رہےکہ اس سے قبل افغانستان میں امریکہ اور نیٹو فوجوں کے کمانڈر کا کہنا تھا کہ انہیں طالبان کے ساتھ جنگ کو آگے بڑھانے کے لیے مزید ’چند ہزار‘ فوجیوں کی ضرورت ہے۔

    واضح رہےکہ امریکہ کی طالبان کے خلاف جنگی آپریشن سنہ 2014 میں باضابطہ طور پر اختتام پذیر ہوگئے تھے تاہم خصوصی فوجی دستوں کی جانب سے افغان فوجیوں کو مدد کی فراہمی کا سلسلہ جاری ہے۔