Tag: نظیر اکبر آبادی

  • ’’جدید آدمی نامہ‘‘ کیا ہے؟ جانیے

    ’’جدید آدمی نامہ‘‘ کیا ہے؟ جانیے

    پاکستان میں طنز و مزاح کے حوالے سے مجید لاہوری کا نام ان تخلیق کاروں میں شامل ہے جنھوں نے مزاحیہ شاعری اور فکاہیہ کالموں کے ذریعے جہاں معاشرے میں خامیوں اور مسائل کی نشان دہی کرتے ہوئے اصلاح کی کوشش کی، وہیں ملک کی سیاست میں مفاد پرستی، سیاست دانوں اور امرا کی عیاشیوں اور طبقاتی نظام کو بھی بے نقاب کیا۔

    ’’جدید آدمی نامہ‘‘ ان کی وہ پیروڈی ہے جو انھوں نے اپنے وقت کے عظیم شاعر نظیر اکبر آبادی کی مشہور نظم ’’آدمی نامہ‘‘ کو سامنے رکھ کر لکھی ہے۔ اس نظم میں مجید لاہوری نے معاشرتی عدم مساوات پر بھرپور طنز کیا ہے۔ نظم ملاحظہ کیجیے۔

    ’’جدید آدمی نامہ‘‘
    مُونچھیں بڑھا رہا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی
    ڈاڑھی منڈا رہا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی
    مُرغے جو کھا رہا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی
    دَلیا پکا رہا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی

    ٹکڑے چبا رہا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی
    اور لنچ اُڑا رہا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی
    وہ بھی ہے آدمی جسے کوٹھی ہوئی الاٹ
    وہ بھی ہے آدمی ملا جِس کو نہ گھر نہ گھاٹ
    وہ بھی ہے آدمی کہ جو بیٹھا ہے بن کے لاٹ
    وہ بھی ہے آدمی جو اُٹھائے ہے سَر پہ کھاٹ

    موٹر میں جا رہا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی
    رِکشا چلا رہا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی

    رِشوت کے نوٹ جس نے لیے، وہ بھی آدمی
    دو روز جس نے فاقے کیے، وہ بھی آدمی
    جو آدمی کا خون پیے، وہ بھی آدمی
    جو پی کے غم کا زہر جِیے، وہ بھی آدمی
    آنسو بہا رہا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی
    اور مسکرا رہا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی

    یہ جھونپڑے میں قید، وہ بنگلے میں شاد ہے
    یہ نامرادِ زیست ہے، وہ بامراد ہے
    ہر ’’کالا چور‘‘ قابلِ صد اعتماد ہے
    یہ ’’زندہ باد‘‘ اِدھر، وہ اُدھر ’’مُردہ باد‘‘ ہے
    نعرے لگا رہا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی
    چندے جو کھا رہا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی
    لٹّھے کے تھان جِس نے چھپائے، سو آدمی
    پھِرتا ہے چیتھڑے سے لگائے، سو آدمی
    بیٹھا ہوا ہے غلّہ دبائے، سو آدمی
    راشن نہ کارڈ پر بھی جو پائے، سو آدمی
    صَدمے اُٹھا رہا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی
    دھومیں مچا رہا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی

  • طوفانی بارشیں‌، "طوفانی سیاست” اور عوامی شاعری

    طوفانی بارشیں‌، "طوفانی سیاست” اور عوامی شاعری

    ملک بھر میں طوفانی بارشوں کے نتیجے میں ہونے والی تباہ کاریوں پر "طوفانی سیاست” بھی شروع ہو گئی ہے۔

    پاکستان کے سب سے بڑے اور تجارتی حب کہلانے والے شہر کراچی کی پسماندہ بستیوں، متوسط آبادیوں اور پوش علاقوں‌ کے "پانی پانی” ہو جانے پر رئیسِ شہر، صوبائی اور وفاقی حکومت کے وزرا کے تند و تیز بیانات سبھی کے سامنے ہیں۔

    پاکستان مسلم لیگ نواز کے صدر میاں‌ شہباز شریف کے دل میں‌ بھی طوفانی بارشوں‌ کے اس موسم میں‌ کراچی والوں‌ کا درد جاگا اور وہ شہرِ قائد کے باسیوں سے ہم دردی جتانے چلے آئے۔

    یہ "طوفانی سیاست” گلی محلّوں، شہر کی اہم اور مصروف ترین شاہ راہوں، چھوٹی بڑی سڑکوں، انڈر پاسوں، قبضہ مافیا سے محفوظ بچے کھچے میدانوں اور لوگوں‌ کے گھروں میں‌ جمع ہوجانے والے پانی کا تو کچھ نہیں‌ بگاڑ سکی، لیکن اس پر عوامی بیٹھکوں میں گرما گرم تبصرے اور مباحث ضرور ہو رہے ہیں اور‌ اس میں‌ لوگوں‌ کا اچھا خاصا وقت گزر جاتا ہے۔

    لفظ عوامی سے یاد آیا کہ مشہور شاعر نظیر اکبر آبادی کو اردو کا پہلا عوامی شاعر تسلیم کیا گیا تھا اور یقینا وہ عوام کے شاعر تھے۔ نظیر اکبر آبادی عام لوگوں کے مسائل کو اپنی شاعری کا موضوع بناتے تھے۔

    نظیر نے موسموں کی دل فریبی اور رعنائیوں سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ عوام کی تکالیف، مسائل اور مشکلات کو بھی اپنی شاعری میں بیان کیا ہے۔ حالیہ بارشوں‌ کے بعد اگر کراچی شہر کی صورتِ‌ حال اور اس کے باسیوں کی مشکلات کا نقشہ کھینچنا ہو تو نظیر اکبر آبادی کی مشہور نظم کا یہ بند کافی ہے۔

    کوچے میں کوئی اور کوئی بازار میں گرا
    کوئی گلی میں گر کے ہے کیچڑ میں لوٹتا
    رستے کے بیچ پاؤں کسی کا رپٹ گیا
    اس سب جگہ کے گرنے سے آیا جو بچ بچا
    وہ اپنے گھر صحن میں آ کر پھسل پڑا

    تحریر: عارف حسین

  • آدمی ہی سب میں بُرا ہے

    آدمی ہی سب میں بُرا ہے

    اردو زبان کا کوئی بڑا شاعر ایسا نہیں‌ جو جوشؔ ملیح آبادی سے متاثر نہ ہو۔ اپنے تخلیقی جوہر اور معنویت کے اعتبار سے جوشؔ صاحب کا کلام اردو شاعری کی تاریخ میں درخشاں باب کی حیثیت رکھتا ہے۔

    اس قادرالکلام شاعر کے رفقا اور دیگر ملاقاتی بھی شاعری کے علاوہ مختلف موضوعات پر جوش صاحب سے گفتگو کرکے خوشی محسوس کرتے تھے۔ اسی طرح‌ ہم عصروں اور رفتگاں کے کلام پر بھی ان کی رائے کو بہت اہم سمجھا جاتا تھا۔

    معروف ادیب، مورخ‌، محقق اور انشا پرداز اعجاز الحق قدوسی نے بھی جوش صاحب سے ایک سوال کیا تھا جس کی تفصیل انھوں‌ نے اپنی یادداشتوں‌ پر مبنی کتاب میں‌ یوں‌ بیان کی ہے۔

    جوش ملیح آبادی کی قوتِ مشاہدہ نہایت وسیع اور ہمہ گیر تھی۔

    ایک دن میں نے ان کی قوتِ مشاہدہ کی تعریف کی تو کہنے لگے۔

    قدوسی، شاید تمھیں یقین نہ آئے، مگر حقیقت یہ ہے کہ راہ میں ذرّات تک مجھے آواز دیتے ہیں کہ خدا کے لیے مجھے نظم کر جائیے۔

    ایک دن میں نے پوچھا کہ آپ کے نزدیک اردو کا سب سے بڑا شاعر کون ہے۔ ذرا اس کی وضاحت کیجیے۔ وہ بولے۔

    نظیر اکبر آبادی کہ اس کی شاعری عوام کی ترجمان ہے اور زندگی کے مختلف پہلوؤں کی عکاسی کرتی ہے۔ اب دیکھیے وہ انسانیت کی حقیقت کو کس طرح اور کس دل کش انداز میں بیان کرتا ہے۔

    اور سب میں جو برا ہے سو ہے وہ بھی آدمی

    پھر کہنے لگے۔ فارسی شاعری میں حافظ اور نظیری بھی اپنا جواب نہیں رکھتے۔