Tag: نعتیہ کلام

  • عاطف اسلم نے اپنی سحر انگیز آواز میں نعتیہ کلام پیش کردیا

    عاطف اسلم نے اپنی سحر انگیز آواز میں نعتیہ کلام پیش کردیا

    معروف گلوکار عاطف اسلم نے رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی اپنی آواز میں نعتیہ کلام ‘یانبی سلام علیک’ پیش کر دیا۔

    عاطف اسلم ماہ رمضان کی مناسبت سے اس بابرکت مہینے میں کلام پیش کرتے ہیں اور اس بار ماہ صیام کی آمد کے ساتھ ہی گلوکار نے نعتیہ کلام ‘یانبی سلام علیک’  پیش کیا ہے جس کی ویڈیو انہوں نے یو ٹیوب پر اپ لوڈ کی۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by Atif Aslam (@atifaslam)

    اس نعت کو عاطف اسلم نے تنہا نہیں بلکہ دو دیگرساتھی فنکاروں احسن پرویز مہدی اور کمیل جعفری کے ساتھ مل کر پیش کیا ہے، نعت کی یہ ویڈیو خوبصورت مناظر کے ساتھ پہاروں پر شوٹ کی گئی ہے جسے ان کے مداح پسند کررہے ہیں۔

    عاطف اسلم نے اس سے قبل بھی رمضان المبارک میں ‘اللہ ہو’، ‘تاج دار حرم’، ‘مصطفیٰ جان رحمت پر لاکھوں سلام’  اور حمد ‘وہی خدا ہے’ پیش کی تھی جسے دنیا بھر میں پسند کیا گیا تھا۔

  • مہدی ظہیر کا تذکرہ جن کی پُرسوز آواز میں قصیدہ بردہ شریف آپ نے بھی سنا ہو گا!

    مہدی ظہیر کا تذکرہ جن کی پُرسوز آواز میں قصیدہ بردہ شریف آپ نے بھی سنا ہو گا!

    شہرۂ آفاق نعتیہ کلام جسے قصیدہ بردہ شریف بھی کہتے ہیں، ہم سبھی نے سنا اور پڑھا بھی ہے۔

    امام بوصیری کا لکھا ہوا یہ قصیدہ صدیوں سے اسلامی دنیا میں مقبول ہے اور آج بھی نہایت عقیدت اور احترام سے پڑھا اور سنا جاتا ہے۔ سرورِ کائنات حضرت محمد ﷺ سے والہانہ عقیدت اور محبّت کے اس اظہار میں وارفتگی اور رقّت انگیزی اس کلام کا امتیازی وصف ہے۔

    اسلامی ممالک کے نعت خوانوں کی طرح پاکستان میں بھی قصیدہ بردہ شریف پڑھنے کو نعت خواں اپنے لیے باعثِ سعادت سمجھتے ہیں اور گلوکاروں نے بھی نہایت عقیدت سے یہ کلام گایا ہے، لیکن یہاں ہم صرف مہدی ظہیر کا تذکرہ کررہے ہیں جن کی آج برسی منائی جارہی ہے۔ انھیں عربی زبان پر عبور حاصل تھا اور یہی وجہ ہے کہ جب مہدی ظہیر نے قصیدہ بردہ شریف کو اپنے پُرسوز لحن میں‌ سامعین تک پہنچایا تو اسے بہت پسند کیا گیا۔

    مہدی ظہیر 5 اپریل 1988ء کو کراچی میں وفات پاگئے تھے۔ وہ شاعر، موسیقار اور ریڈیو پاکستان کے سینئر پروڈیوسر تھے اور گلوکاری کا شوق بھی رکھتے تھے۔ مہدی ظہیر 1927ء میں لکھنؤ میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا اصل نام افتخار مہدی تھا۔ 1974ء میں جب لاہور میں دوسری اسلامی سربراہ کانفرنس کا انعقاد کیا گیا تو شرکا اور ملک بھر میں سامعین نے ان کی آواز میں "ہم تا بہ ابد سعی و تغیر کے ولی ہیں، ہم مصطفوی، مصطفوی مصطفویٰ ہیں” جیسا نغمہ بھی سنا جس نے مسلمانوں میں جذبہ و شوق بھڑکایا اور امتِ مسلمہ کے تصوّر کو زندہ کر دیا۔

    مہدی ظہیر ریڈیو پاکستان سے وابستہ رہے تھے اور اسی زمانے میں احمد رشدی کی وجہ شہرت بننے والا مشہور گیت ’’بندر روڈ سے کیماڑی، مری چلی رے گھوڑا گاڑی‘‘ بھی تحریر اور کمپوز کیا تھا۔ فیض احمد فیض کی مشہور نظم "دشتِ تنہائی” کی موسیقی بھی مہدی ظہیر ہی نے ترتیب دی تھی۔

  • مشہور نعت گو شاعر اعجاز رحمانی کا تذکرہ

    مشہور نعت گو شاعر اعجاز رحمانی کا تذکرہ

    معروف نعت گو شاعر اعجاز رحمانی غزل اور نظم جیسی اصنافِ سخن پر بھی یکساں عبور رکھتے تھے۔ انھیں نعت خواں کی حیثیت سے بھی پہچانا جاتا ہے۔ وہ 83 برس کی عمر میں 2019ء میں آج ہی کے دن دارِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔

    اعجاز رحمانی 12 فروری 1936ء کو علی گڑھ میں پیدا ہوئے، پرائمری اور دینی تعلیم علی گڑھ میں حاصل کرنے کے بعد آپ 1954ء میں پاکستان آگئے تھے۔

    انھوں نے نعت خوانی بھی کی اور ساتھ ہی اپنا تخلیقی سفر جاری رکھتے ہوئے کئی نعتیں بھی کہیں جو بہت مقبول ہوئیں۔ ملک کے مشہور نعت خوانوں نے ان کا کلام پڑھا۔ اعجاز رحمانی کے نعتیہ اور غزلیہ مجموعے ’اعجازِ مصطفٰی‘،’پہلی کرن آخری روشنی‘تھے جب کہ ’غبار انا‘، ’لہو کا آبشار‘، ’لمحوں کی زنجیر‘ کے نام سے ان کی شاعری شایع ہوئی۔ ’چراغِ مدحت‘، ’جذبوں کی زبان‘ اور ’خوشبو کا سفر‘ ان کی وہ کتابیں ہیں جنھیں بہت پسند کیا گیا۔

  • مشہور شاعر میر تقی میر کی ایک نعت

    مشہور شاعر میر تقی میر کی ایک نعت

    کائنات کا ذرّہ ذرّہ بہارِ عظیم کا منتظر،‌ شجر، حجر، بحر و برّ سبھی ایک نہایت روشن، دمکتی ہوئی ساعت اور مہکتی ہوئی گھڑی کا چرچا سُن رہے ہیں۔

    ہر طرف، ہر سُو اللہ کے محبوب، فخرِ کائنات، رحمتُ للعالمین، سیّدُ الانبیا نبیِ آخر الزّماں حضرت محمد ﷺ کی آمد کا جشن منایا جارہا ہے اور عشقِ رسول سے ہر دل منور و تاباں ہے۔ اس عشق کا وصف یہ ہے کہ وہ اظہار چاہتا ہے اور دنیائے سخن کے میر، جنھیں‌ ہم میر تقی میر کے نام سے جانتے ہیں، انھوں‌ نے بھی بارگاہِ رسالت مآبﷺ میں‌ اپنی عقیدت اور محبّت کا اظہار کیا ہے جس سے چند منتخب بند ملاحظہ ہوں۔

    کیا سیہ کاری نے منھ کالا کیا
    بات کرنے کا نہیں کچھ منھ رہا
    رحم کر خاکِ مذلت سے اٹھا
    میرے عفوِ جرم کی تخصیص کیا
    رحمۃ لِلعالمینی یا رسول
    ہم شفیع المذنبینی یا رسول

    دہر زیرِ سایۂ لطفِ عمیم
    خلق سب وابستۂ خلقِ عظیم
    تجھ سے جویائے کرم، عاصم اثیم
    سخت حاجت مند ہیں ہم تو کریم
    رحمۃ للعالمینی یا رسول
    ہم شفیع المذنبینی یا رسول

    ہو رہے ہیں ہم جو دوزخ کے حطب
    سر پہ یہ اعمال لائے ہیں غضب
    رکھتے ہیں چشمِ عنایت تجھ سے سب
    تجھ سوا کس سے کہیں احوال اب
    رحمۃ لِلعالمینی یا رسول
    ہم شفیع المذنبینی یا رسول

    نیک و بد تیرے ثنا خوانِ ہمم
    لطف تیرا آرزو بخشِ اُمم
    ملتفت ہو تُو، تو کاہے کا ہے غم
    تُو رحیم اور مستحقِ رحم ہم
    رحمۃ لِلعالمینی یا رسول
    ہم شفیع المذنبینی یا رسول

    روؤں ہوں شرمِ گنہ سے زار زار
    بے عنایت کچھ نہیں اسلوب کار
    دل کو جب ہوتا ہے آکر اضطرار
    زیرِ لب کہتا ہوں یہ میں بار بار
    رحمۃ لِلعالمینی یا رسول
    ہم شفیع المذنبینی یا رسول

    سبز برپا ہوگا جب تیرا نشاں
    آفتابِ حشر میں بہرِ اماں
    ہووے گی انواعِ خلقت جمع واں
    کیوں نہ ہو سائے میں اس کے دو جہاں
    رحمۃ للعالمینی یا رسول
    ہم شفیع المذنبینی یا رسول

  • یا رحمۃ لِلعالمیں….. مظفر وارثی کی یہ نعت پڑھیے

    یا رحمۃ لِلعالمیں….. مظفر وارثی کی یہ نعت پڑھیے

    فخرِ موجودات، معلمِ انسانیت، سیدُ الانبیا، حبیبِ کبریا حضرت محمدﷺ کی شانِ اقدس میں حاضری کے آرزو مند، دربارِ عالی شان سے اپنے بلاوے کے منتظر مظفر وارثی نے جب اس دنیائے رنگ و بُو سے منہ موڑا تو ہر آنکھ اشک بار تھی، ہر دل افسردہ، مگر ان کے سفرِ آخرت کے دوران رفقا کے لبوں‌ پر ان کی حمد، ان کی نعتیں‌ جاری رہیں اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ ہم سبھی مظفر وارثی کا کلام سنتے اور پڑھتے رہتے ہیں۔

    آج مظفر وارثی کو ہم سے بچھڑے نو برس بیت گئے۔ ان کی یہ مشہور نعت آپ سبھی نے سنی ہوگی۔

    یا رحمۃ لِلعالمیں
    الہام جامہ ہے تیرا
    قرآں عمامہ ہے تیرا
    منبر تیرا عرشِ بریں
    یا رحمۃ لِلعالمیں

    آئینۂ رحمت بدن
    سانسیں چراغِ علم و فن
    قربِ الٰہی تیرا گھر
    الفقر و فخری تیرا دھن
    خوش بُو تیری جوئے کرم
    آنکھیں تیری بابِ حرم
    نُورِ ازل تیری جبیں
    یا رحمۃ لِلعالمیں

    تیری خموشی بھی اذاں
    نیندیں بھی تیری رتجگے
    تیری حیاتِ پاک کا
    ہر لمحہ پیغمبر لگے
    خیرالبشر رُتبہ تیرا
    آوازِ حق خطبہ تیرا
    آفاق تیرے سامعیں
    یا رحمۃ لِلعالمیں

    قبضہ تیری پرچھائیں کا
    بینائی پر، ادراک پر
    قدموں کی جنبش خاک پر
    اور آہٹیں افلاک پر
    گردِ سفر تاروں کی ضو
    مرقب براقِ تیز رَو
    سائیس جبرئیلِ امیں
    یا رحمۃ لِلعالمیں

    تو آفتابِ غار بھی
    تو پرچمِ یلغار بھی
    عجز و وفا بھی، پیار بھی
    شہ زور بھی، سالار بھی
    تیری زرہ فتح و ظفر
    صدق و وفا تیری سپر
    تیغ و تبر، صبر و یقیں
    یا رحمۃ لِلعالمیں

    پھر گڈریوں کو لعل دے
    جاں پتھروں میں ڈال دے
    حاوی ہوں مستقبل پہ ہم
    ماضی سا ہم کو حال دے
    دعویٰ ہے تیری چاہ کا
    اس امتِ گُم راہ کا
    تیرے سوا کوئی نہیں
    یا رحمۃ لِلعالمیں