Tag: نفسیات

  • ’’میڈیا اور سوشل میڈیا لوگوں کی نفسیات پر گہرا اثر ڈال رہا ہے‘‘

    ’’میڈیا اور سوشل میڈیا لوگوں کی نفسیات پر گہرا اثر ڈال رہا ہے‘‘

    کراچی: نگراں وزیر صحت سندھ ڈاکٹر سعد خالد نیاز نے کہا ہے کہ خود کشی کے رجحان کو ہر صورت ختم کرنا ہوگا، اس وقت میڈیا اور سوشل میڈیا لوگوں کی نفسیات پر گہرا اثر ڈال رہا ہے، بدقسمتی سے مایوس کن خبریں و اقدامات سے لوگوں کی بے چینی بہت زیادہ بڑھ چکی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق نگراں وزیر صحت سندھ ڈاکٹر سعد خالد نیاز خودکشی سے بچاؤ کے عالمی دن کے موقع پر کاروان حیات کے تحت کراچی کے ایک نجی ہوٹل میں منعقدہ سیمینار سے خطاب کر رہے تھے، انھوں نے کہا لوگوں کے خودکشی کرنے کے پیچھے ذہنی و جسمانی امراض، رویوں و نفسیاتی مسائل موجود ہوتے ہیں، ان مسائل و امراض کی بروقت تشخیص و علاج کے ذریعے لوگوں کی زندگیاں بچائی جا سکتی ہیں۔

    ڈاکٹر سعد خالد نیاز نے کہا ’’میرے مریض اور تیماردار بھی مجھ سے آئے روز ملک کو درپیش مختلف مسائل اور بحرانوں پر بات کرتے ہیں، حالاں کہ اس میں نہ ان کا کردار ہوتا ہے نہ ہی وہ براہ راست متاثر ہوتے ہیں، لیکن میڈیا، سوشل میڈیا اور ابلاغ کے دیگر ذرائع کے وساطت سے اتنا کچھ مایوس کن سن اور دیکھ چکے ہوتے ہیں، کہ بعض اوقات مثبت خبر بھی ان کے لیے بے معنی ثابت ہوتی ہے۔

    انھوں نے کہا کہ وہ دو سال قبل ہی سوشل میڈیا و ٹی وی سے خود کو لاتعلق کر چکے ہیں، جو ان کے لیے کسی حد تک ذہنی سکون کا باعث ہے۔ انھوں نے کہا کہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک ڈاکٹر جو کم و بیش 499 کیسز کامیابی سے نمٹا چکا ہوتا ہے لیکن اگر 500 واں کیس ذرا اوپر نیچے ہو جائے تو منظر عام پر صرف یہی آتا ہے اور باقی 499 کامیاب کیسز غائب ہو جاتے ہیں، یہ افسوس ناک پہلو ہے۔

    سیمینار سے ماہرین نفسیات سینیٹر ڈاکٹر کریم خواجہ، ڈاکٹر ثنا صدیقی، پروفیسر ڈاکٹر حیدر نقوی، پروفیسر ڈاکٹر قدسیہ طارق، پروفیسر ڈاکٹر نعیم صدیقی، پروفیسر ڈاکٹر عمران بشیر چوہدری، پروفیسر ڈاکٹر اقبال آفریدی، ڈاکٹر ثناء اللہ، اجمل کاظمی و دیگر نے بھی کمیونٹی کے پس ماندہ طبقوں میں ذہنی بیماری، خودکشی کی روک تھام کے بارے میں بیداری بڑھانے، قیمتی معلومات فراہم کرنے اور اس قومی بحران سے نمٹنے کے لیے اجتماعی کارروائی کا حصہ بننے کے لیے حوصلہ افزائی پر خطاب کیا اور شرکا کے سوالات کے جوابات دیے۔

  • اسمارٹ فون بچوں میں نفسیاتی مسائل کا سبب

    اسمارٹ فون بچوں میں نفسیاتی مسائل کا سبب

    اسمارٹ فون کا زیادہ استعمال بچوں اور بڑوں دونوں پر سنگین اثرات مرتب کرتا ہے اور حال ہی میں ایک تحقیق نے بچوں کے لیے اس کے ایک اور سنگین خطرے کی طرف اشارہ کیا ہے۔

    ایک امریکی غیر سرکاری تنظیم سیپین لیب نے اپنی ایک تحقیق میں کہا ہے کہ بچوں کا کم عمری میں اسمارٹ فونز استعمال کرنا مستقبل میں ان کے لیے نفسیاتی مسائل کا باعث بن سکتا ہے۔

    شاؤمی انڈیا کے سابق سی ای او منو کمار جین نے اسی تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے ابتدائی عمر میں اسمارٹ فون اور ٹیبلٹ استعمال کرنے سے بچوں کی ذہنی صحت پر پڑنے والے خطرناک اثرات پر روشنی ڈالی ہے اور والدین پر زور دیا ہے کہ وہ بچوں کو اسمارٹ فون نہ دیں۔

    انہوں نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ میں کہا کہ والدین اپنے بچوں کی ابتدائی عمر میں اسمارٹ فون اور ٹیبلٹ کے استعمال سے ذہنی صحت پر پڑنے والے خطرناک اثرات کے بارے میں بات کریں۔ ایک دوست نے سیپین لیب کی یہ رپورٹ شیئر کی ہے جس میں چھوٹے بچوں تک اسمارٹ فونز (اور ٹیبلٹس) کی جلد رسائی اور بالغوں کے طور پر ذہنی امراض میں مبتلا ہونے کے بڑھتے ہوئے امکانات کے درمیان گہرے تعلق کو اجاگر کیا گیا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ تحقیق کے مطابق جن خواتین نے پہلی بار اسمارٹ فون 10 سال کی عمر میں استعمال کیا، ان میں سے 60 سے 70 فیصد کو ذہنی صحت کے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔

    جن افراد نے پہلی بار اسمارٹ فون 18 سال کی عمر میں استعمال کیا ان میں یہ تناسب 46 فیصد رہا، اسی طرح اعداد و شمار میں کہا گیا ہے کہ 45 سے 50 فیصد مرد، جو 10 سال کی عمر سے پہلے اسمارٹ فونز استعمال کرتے تھے، کو بھی اسی طرح کی ذہنی صحت کے مسائل کا سامنا ہے۔

    منو کمار جین کا کہنا تھا کہ میں والدین سے گزارش کرتا ہوں کہ جب بچے رو رہے ہوں، کھانا کھا رہے ہوں، یا گاڑی میں ہوں تو انہیں فون دینے سے گریز کریں۔

    انہوں نے مزید کہا کہ اپنے بچوں کی ذہنی حالت کا خیال رکھنا والدین کی اہم ذمہ داری ہے اور بہت زیادہ سکرین ٹائم کے سنگین نتائج ہیں۔

  • انسانی نفسیات کے یہ اصول آپ کی زندگی آسان بنا سکتے ہیں

    انسانی نفسیات کے یہ اصول آپ کی زندگی آسان بنا سکتے ہیں

    انسانی نفسیات ایک پیچیدہ گتھی ہے۔ آج تک کوئی سائنسدان یہ دعویٰ نہیں کرسکا کہ وہ انسانی دماغ کو پوری طرح سمجھ سکا ہے۔

    ہمارے دماغ میں بلین کے قریب خلیات ہیں اور ہر شخص میں ان بلین خلیات کا کچھ حصہ کام کرتا ہے۔ ان خلیات کی اقسام ہر شخص میں الگ ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر انسان علیحدہ عادات، نفسیات اور فطرت کا مالک ہوتا ہے۔

    ماہرین نفسیات کے مطابق کچھ اصول ایسے ہیں جو تقریباً ہر شخص پر لاگو ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ ان اصولوں سے واقفیت حاصل کرلیں تو یقیناً آپ لوگوں کو بہتر طور پر سمجھنے لگیں گے اور آپ کی زندگی آسان ہوجائے گی۔

    وہ اصول یہ ہیں۔

    کسی انٹرویو پر جانے سے قبل تصور کریں کہ انٹرویو لینے والا شخص آپ کا پرانا دوست ہے اور آپ اس سے ملنے جارہے ہیں۔ یہ چیز آپ کے دماغ کو پرسکون کرے گی۔

    اگر آپ کسی سے ملتے ہوئے خود کو خوش اور پرجوش ظاہر کریں تو اگلی بار ان سے ملتے ہوئے آپ غیر ارادی طور پر خوشی محسوس کریں گے۔ یہ فطرت کتوں میں بھی ہوتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ ہر بار اپنے مالک سے ملتے ہوئے اس قدر پرجوش ہوتے ہیں جیسے کئی عرصہ بعد مل رہے ہیں۔

    جب آپ کوئی ایسا کام کریں جسے کرتے ہوئے آپ کنفیوز ہو رہے ہوں تو اس دوران چیونگم چبائیں یا کچھ کھائیں۔ یہ آپ کے دماغ کے اس حصہ کو تحریک دیتا ہے جو آپ کے جسم کو سب ٹھیک ہونے کا سگنل بھیجتا ہے۔

    کسی شخص کے غصہ ہونے پر اگر آپ پرسکون رہیں تو اس شخص کو مزید غصہ آسکتا ہے۔ لیکن غصہ ختم ہونے کے بعد وہ شخص ضرور نادم ہوگا۔

    کسی سے گفتگو کے دوران اگر کوئی آپ کو مختصر جواب دے تو اس سے آئی کانٹیکٹ برقرار رکھیں اور خاموش رہیں۔ اس سے اس شخص کو خودبخود احساس ہوجائے گا کہ اس کا جواب آپ کی تشفی نہیں کرسکا اور وہ مزید گفتگو کرنے پر مجبور ہو جائے گا۔

    اگر آپ کسی میٹنگ کے دوران اپنی صلاحیتوں کی آزمائش چاہتے ہیں تو سربراہ کے بالکل قریب بیٹھ جائیں۔ وہ قدرتی طور پر آپ کی طرف بار بار متوجہ ہوگا اور کام دیتے ہوئے سب سے پہلے آپ کی طرف دیکھے گا۔

    جذبات، جذبات کو پیدا کر سکتے ہیں۔ اگر آپ خوش رہنا چاہتے ہیں تو زبردستی مسکرائیں اور ہنسیں۔ آہستہ آہستہ آپ کا دماغ بھی آپ کی اس اداکاری کے مطابق عمل کرنے لگے گا اور آپ سچ مچ خوش رہنے لگیں گے۔

    جب لوگوں کا کوئی گروپ آپس میں ہنس رہا ہوتا ہے تو ہنستے ہوئے ذہنی طور پر ایک دوسرے سے قریب افراد غیر ارادای طور پر ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں۔

    اگر کوئی آپ کو کسی بڑے معاملے پر مدد کرنے سے انکار کرے تو وہ احساس شرمندگی سے زیر بار ہوتے ہوئے کسی چھوٹے کام میں آپ کی مدد کرے گا۔

    اگر دکانوں پر کاؤنٹر کے پیچھے ایک آئینہ رکھ دیا جائے تو گاہک خوش اخلاقی کا مظاہرہ کریں گے۔ کوئی بھی اپنے آپ کو بداخلاقی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی کرخت صورت آئینے میں نہیں دیکھنا چاہے گا۔

  • بعض لوگوں کو بہت زیادہ سردی یا بہت زیادہ گرمی کیوں لگتی ہے؟

    بعض لوگوں کو بہت زیادہ سردی یا بہت زیادہ گرمی کیوں لگتی ہے؟

    ہم میں سے بعض افراد اکثر بہت زیادہ گرمی یا بہت زیادہ سردی لگنے کی شکایت کرتے ہیں۔ قطع نظر اس کے، کہ موسم کون سا ہے، وہ ہمیشہ ایک مخصوص کیفیت میں مبتلا رہتے ہیں جس کی وجہ سے بعض اوقات ان کے قریب موجود افراد بھی الجھن کا شکار ہوجاتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کیفیت کی کچھ وجوہات ہوتی ہیں جن کا تعلق صحت، نفسیات یا جذبات سے ہوتا ہے۔ آئیے آج ہم آپ کو وہ وجوہات اور ان سے نمٹنے کی تجاویز بتاتے ہیں۔

    بہت زیادہ سردی کیوں لگتی ہے؟

    اگر آپ کسی ایسی جگہ موجود ہیں جہاں سب کو گرمی لگ رہی ہو اور وہاں آپ کو سردی لگ رہی ہو تو اس کا مطلب ہے کہ آپ کی طبیعت خراب ہے اور آپ بخار میں مبتلا ہیں یا ہونے والے ہیں۔

    ایسی صورت میں آپ کو فوری طور پر ڈاکٹر کے پاس جانے کی ضرورت ہے۔

    بہت زیادہ گرمی کیوں لگتی ہے؟

    اگر سردیوں کے موسم میں آپ کے آس پاس موجود تمام افراد گرم کپڑوں میں ملبوس ہوں لیکن آپ کو گرمی لگ رہی ہو، اور آپ کے پسینے بہہ رہے ہوں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ کسی قسم کے دباؤ کا شکار ہیں۔

    یہ دباؤ کام کی زیادتی کا بھی ہوسکتا ہے اور گھریلو زندگی سے متعلق بھی ہوسکتا ہے۔

    اس سے چھٹکارہ پانے کا واحد حل یہ ہے کہ آپ کو علم ہونا چاہیئے کہ زندگی میں آنے والی مشکلات سے کیسے نمٹنا ہے۔

    ماہرین کے مطابق سردی اور گرمی کی اس کیفیت کا تعلق جذبات سے بھی ہوتا ہے۔ اگر آپ کسی ایسے کمرے میں بیٹھے ہیں جہاں کا درجہ حرارت معمول کے مطابق ہے لیکن اس کے باوجود آپ مخصوص کیفیت کا شکار ہیں تو آپ کے جذبات کی کارستانی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر کوئی شخص تنہائی، پریشانی یا ذہنی دباؤ کا شکار ہو تو اسے سردی لگتی ہے اور بعض اوقات وہ کانپنا بھی شروع کردیتا ہے۔ ایسا اس وقت ہوتا ہے جب اس کے پاس اجنبی افراد یا ایسے افراد موجود ہوں جو اسے ناپسند ہوں۔

    اس کے برعکس جب کوئی شخص اپنے محبت کرنے والے اور پسندیدہ افراد کے درمیان موجود ہوتا ہے تو اس کے جسم کا درجہ حرات معمول کے مطابق یا گرم رہتا ہے۔

    جسمانی درجہ حرات کو معمول پر کیسے رکھا جائے؟

    ماہرین اس صورتحال سے بچنے کے لیے کچھ تجاویز اختیار کرنے پر زور دیتے ہیں۔

    :لباس

    سب سے پہلے تو موسم کی مناسبت سے لباس زیب تن کریں۔ سردیوں میں مناسب گرم کپڑے اور گرمیوں میں ہلکے لباس آپ کے جسم کے درجہ حرارت کو معمول پر رکھیں گے۔

    :غذائی عادات

    دوسرا طریقہ غذائی عادات ہیں۔ موسم کی مناسبت سے غذا کا استعمال کریں۔ سردیوں میں پروٹین اور کاربو ہائیڈریٹ والی غذائیں اور سوپ کا استعمال کریں جبکہ گرمیوں میں پھل، سبزیاں اور سلاد کا استعمال کریں۔

    :دماغ پر قابو پائیں

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر آپ دماغ کو اپنے کنٹرول میں کرلیں تو آپ اپنے جسمانی احساسات کو بھی اپنی مرضی کے مطابق کر سکتے ہیں۔

    مثلاً گرمی کے موسم میں اگر آپ اپنے دماغ کو یہ سوچنے پر مجبور کریں کہ وہ کسی سرد جگہ پر موجود ہے اور آس پاس بہت سردی ہے تو تھوڑی دیر بعد دماغ آپ کے جسم کو بھی ایسے درجہ حرارت پر لے آئے گا جس کے بعد آپ سردی محسوس کریں گے۔