Tag: نفسیاتی امراض

  • کیا آپ اپنے بچّے کو ڈرپوک اور بزدل دیکھنا چاہتے ہیں؟

    کیا آپ اپنے بچّے کو ڈرپوک اور بزدل دیکھنا چاہتے ہیں؟

    بچّوں کی ذہنی صحّت کا خیال رکھتے ہوئے ان کی متوازن اور پُراعتماد شخصیت کے لیے ان کی نفسیات کو سمجھنا اور اس کی تعمیر کرنا بہت ضروری ہے جس میں ماحول بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔

    کسی ملک اور قوم کی تہذیب و ثقافت اور رسم و رواج بھی بچّوں کی نفسیات کی تعمیر و تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ برصغیر پاک و ہند کے بچّوں کا موازنہ اگر مغربی ممالک کے بچّوں سے کیا جائے تو واضح فرق محسوس ہوگا۔

    بدقسمتی سے ہمارے یہاں بچّوں کی ذہنی صحّت پر کوئی توجہ نہیں‌ دی جاتی اور ان کے جذبات کا اس طرح خیال نہیں رکھا جاتا جو ان کی شخصیت میں اعتماد اور ایک وقار پیدا کرے۔ یہاں ہم ایک اہم نکتے کی طرف آپ کی توجہ مبذول کروا رہے ہیں جو شاید سب سے بڑا مسئلہ ہے اور بچّوں کو جذباتی طور پر نقصان پہنچاتا ہے۔ماہرینِ نفسیات کے مطابق ہمارے یہاں بچّوں کے دل میں بچپن سے ہی خوف بٹھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس ڈر اور خوف کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں‌۔

    عام طور پر رات گئے تک اگر بچّے نہیں سوتے تو انھیں کسی نہ کسی جانور یا خیالی کردار سے ڈرا کر سلانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مثلاً سو جاؤ ورنہ کتّا آجائے گا یا مانو آجائے گی۔ اس کے علاوہ سب سے بڑا خوف اور ڈراوا اندھیرے کا ہوتا ہے جس سے بچّوں کے دل میں کم سنی ہی میں تاریک اور ویران مقام اور خالی کمروں کا وہ خوف بیٹھ جاتا ہے کہ وہ بڑی عمر کو پہنچنے تک اس جان نہیں‌ چھڑا پاتے۔

    یاد رکھیے اس طرح آپ کا بچّہ ڈرپوک اور بزدل بن جاتا ہے۔ آپ مطالعہ کریں تو معلوم ہو گا اور اکثر فلموں میں آپ نے دیکھا ہی ہو گا کہ مغربی ممالک کے بچّوں کو چند سال کی عمر ہی میں علیحدہ کمرے میں سونے کی عادت ڈال دی جاتی ہے۔ یہ ان کے اندر اعتماد پیدا کرتا ہے اور وہ آگے چل کر عام زندگی میں بھی تنہا حالات کا مقابلہ کرنے اور معمول کی زندگی گزارنے کے قابل ہوتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق سونے سے پہلے کہانی سنانا، اچھی باتیں کرنا اور بچّے کو گلے لگانا یا پیار کرنا بھی ضروری ہے۔ اس طرح ان کے دل میں محبّت اور انس کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ ماہرینِ نفسیات کے مطابق یہ بظاہر ایک چھوٹی سی بات معلوم ہوتی ہے، لیکن ایک بچّے کے ذہن و دل پر اس کا گہرا اثر پڑتا ہے۔ ماہرین اس کی یہ وجہ بتاتے ہیں‌ کہ بچّے کم سنی میں‌ اپنے والدین کی بے پناہ محبّت کو سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں، وہ ان کی موجودگی اور قربت کو تو قبول کرچکے ہوتے ہیں، لیکن انھیں وقتاً فوقتاً محبّت اور تحفظ کا احساس دلانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس سے بچّے کے اعتماد میں اضافہ ہوتا ہے۔

    والدین کو چاہیے کہ وہ بچّوں‌ کو ڈر اور خوف کا ماحول دینے کے بجائے انھیں‌ پُراعتماد، نڈر اور حالات سے مقابلہ کرکے جیت اپنے نام کرنے والا بنائیں اور اس کے لیے مندرجہ بالا باتوں پر ضرور غور کریں۔

  • پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر کیا ہے؟ جانیے

    پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر کیا ہے؟ جانیے

    ناگہانی آفت یا اچانک کوئی افتاد ٹوٹ پڑے تو ہم پر اس کا گہرا اثر پڑتا ہے اور ہماری ذہنی صحّت متاثر ہوسکتی ہے۔ کوئی حادثہ یا زندگی میں‌ پیش آنے والی کوئی مشکل بھی ہمارے ذہن پر حاوی ہوسکتی ہے اور اس کا ہم پر منفی اثر پڑسکتا ہے جس کی ایک مثال اچانک کسی سنگین بیماری کی تشخیص ہونا ہے۔

    کبھی سڑک پر کوئی خوف ناک حادثہ پیش آیا ہو یا ایسا کوئی حادثہ دیکھا ہو، کسی قریبی دوست یا پیارے کی اچانک موت اور ایسے ہی کئی حادثات اور واقعات ذہنی اذیّت کا سبب بن سکتے ہیں۔

    اس قسم کے کیسز میں‌ علامات چند ہفتوں تک بر قرار رہ سکتی ہیں اور اکثر لوگ اپنی ذہنی کیفیت پر قابو پا لیتے ہیں، لیکن طبّی محققین اور ماہرینِ نفسیات کے مطابق تین میں سے ایک فرد میں آنے والے کئی مہینوں بلکہ برسوں تک ایسے حادثے کے بعد پیدا ہونے والا مسئلہ برقرار رہ سکتا ہے۔ اسے پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر(post traumatic stress disorder) یا مختصراً پی ٹی ایس ڈی کہتے ہیں۔

    اکثر مرد اور عورت گھر میں جسمانی تشدد یا بدسلوکی کا نشانہ بننے کے بعد اور کسی قریبی عزیز کی طرف سے جنسی طور پر ہراساں کیے جانے پر بھی اس مسئلے سے دوچار ہوسکتے ہیں۔

    پی ٹی ایس ڈی کب شروع ہوتا ہے؟
    عام طور پر اذیّت ناک حادثے یا تجربے سے گزرنے کے بعد چھے ماہ کے اندر اندر یا بعض اوقات چند ہفتوں کے اندر اس کی علامات ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔

    متاثرہ فرد کیا محسوس کرتا ہے؟
    جذباتی دھچکا اور صدمہ متاثرہ فرد کو یاسیت، اضطراب، ذہنی دباؤ، احساسِ جرم یا غصّے کا شکار بناسکتا ہے۔ اس کے علاوہ ذہن میں اسی تکلیف دہ صورتِ حال کو لانا، یا اسی حادثے کو تصوّر کرنا اور بار بار اسی بارے میں سوچنا اور اس کا تذکرہ کرنا بھی اس کی علامات ہیں۔

    اسے کیا کرنا چاہیے؟
    اگر ایسا فرد اس حوالے سے کسی کی مدد لے، جیسے کسی دوست سے اپنی کیفیات بیان کرے، ماہر معالج سے رجوع کرے تو یہ بہت بہتر ہوگا، لیکن اپنی سطح پر کوشش کرنا چاہیے کہ اس اندوہ ناک واقعے کے بارے میں نہ سوچے، ذہنی دباؤ سے بچنے کے لیے اپنی دل چسپی کے کاموں‌ میں مصروف رہے، اور کسی بھی ایسی چیز یا لوگوں اور اس مقام پر جانے سے گریز کرے جس سے اس واقعے کی یاد ذہن میں تازہ ہو سکتی ہے۔

    اس مسئلے میں بعض جسمانی علامات بھی ظاہر ہوسکتی ہیں، جیسے درد اور تکلیف، اسہال، دل کی دھڑکن تیز ہوجانا، سَر درد، خوف اور انجانے خطرے کا احساس وغیرہ۔

    ناگہانی آفت اور حادثے کا بار بار تصور بہت زیادہ ہیجان اور دباؤ کا شکار کردیتا ہے۔ اس کے علاوہ جھنجھلاہٹ، بے چینی اور بے خوابی کی کیفیت رہتی ہے جس سے نجات حاصل کرنا ضروری ہے۔

    پی ٹی ایس ڈی سے کیسے نجات حاصل کی جاسکتی ہے؟
    اپنے روزمرّہ کے معمولات میں نئی توانائی کے ساتھ دل چسپی کا اظہار اور اس حوالے سے ناکامی کے باوجود کوشش جاری رکھنا بہت سود مند ثابت ہوتا ہے۔ کسی قریبی دوست سے اس واقعے اور اپنی ذہنی کیفیت شیئر کریں اور ورزش کریں۔ اپنی پسند کے کام کریں اور ممکن ہو تو نئی دل چسپیاں ڈھونڈ لیں، جیسے کتب بینی، باغ بانی یا کوئی ایسا کام جس سے مالی فائدہ بھی جڑا ہو۔ اہلِ خانہ کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزاریں اور اپنے ڈاکٹر سے رابطہ رکھیں۔

    ماہرین کے مطابق مذکورہ علامات آپ کی شخصیت کی کم زوری اور کسی مستقل بیماری کو ظاہر نہیں‌ کرتیں اور ایسا ان تمام لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے جو کسی اذیت ناک اور گہرے صدمے سے دوچار ہوئے ہوں، لیکن اسے نظرانداز نہ کریں‌ بلکہ نفسیاتی معالج سے اس کا علاج (سائیکو تھراپی) کروائیں جو دوائیں بھی تجویز کرسکتا ہے۔

  • مقبوضہ کشمیر میں لوگ ڈپریشن کا شکار ہو گئے: بی بی سی رپورٹ

    مقبوضہ کشمیر میں لوگ ڈپریشن کا شکار ہو گئے: بی بی سی رپورٹ

    سری نگر: بی بی سی نے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں لوگ ڈپریشن کا شکار ہو گئے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی نشریاتی ادارے نے اپنے رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ مسلسل لاک ڈاؤن اور کرفیو کے شکار مقبوضہ کشمیر میں لوگ مایوسی اور ڈپریشن کا شکار ہو گئے ہیں، پلواما میں ڈپریشن کے مریضوں میں 150 فی صد اضافہ ہو گیا ہے۔

    بی بی سی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سرینگر میں بھی ذہنی مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، کشمیریوں میں زیادہ خوف بھارتی فوج کی جانب سے حراست میں لینے کا ہے، کشمیریوں کا کہنا ہے کہ وہ خواب میں بھی بھارتی فوجیوں کے سوالوں کا جواب دے رہے ہوتے ہیں۔

    بھارتی سفارت خانوں کے باہر کشمیریوں کے ساتھ یک جہتی کا اظہار

    برطانوی نشریاتی ادارے کی اس رپورٹ سے مقبوضہ کشمیر کے مظلوم عوام کی تشویش ناک صورت حال سامنے آتی ہے، 185 دنوں سے انھیں بھارتی فوج نے محصور کر کے رکھا ہوا ہے، ان کی معمولی کی زندگی بڑی حد تک معطل پڑی ہوئی ہے جس سے کشمیریوں کی ذہنی صحت پر نہایت برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ اس رپورٹ کے بعد یہ سوال اٹھا ہے کہ کیا مودی سرکار کی پالیسی یہ ہے کہ کشمیریوں کو ذہنی مریض بنایا جائے۔

    خیال رہے کہ اس سے قبل ایسی رپورٹس بھی سامنے آ چکی ہیں جن سے معلوم ہوا کہ بھارتی فوج کشمیریوں کے خلاف آتشی ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ نفسیاتی ہتھیار بھی استعمال کر رہی ہے، جن میں سرفہرست خواتین پر جنسی تشدد ہے۔ بھارتی فوجی درندگی میں مزید آگے بڑھتے ہوئے کشمیری بچوں کو بھی نہیں بخش رہے، بچوں کو بھی بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

  • کچے کانوں والے شوہرکو کس طرح ہینڈل کیا جائے؟

    کچے کانوں والے شوہرکو کس طرح ہینڈل کیا جائے؟

    ہمارے معاشرے میں بہت سے افراد اپنی نفسیاتی گرہوں کے سبب کسی کی بھی بات پر فوراً یقین کرلیتے ہیں اوراس کے بعد اپنے اہل خانہ کی زندگی اجیرن کردیتے ہیں۔

    اے آروائی ڈیجیٹل کے مارننگ شو ’’گڈ مارننگ پاکستان‘‘میں اس حوالے سے خصوصی سیگمنٹ کا اہتمام کیا گیا جس میں ماہر نفسیات ڈاکٹر عمران نے خصوصی شرکت کرکے سامعین کو مفید مشوروں سے نوازا۔

    پروگرام کےدوران ایک خاتون کالر نے اپنی شناخت مخفی رکھتے ہوئے بتایا کہ ان کے شوہر بے پناہ شکی مزاج کے ہیں اور کسی کی بھی بات کو فوراً ہی قبول کرکے گھر میں لڑائی جھگڑا شروع کردیتے ہیں۔ خاتون نے یہ بھی بتایا کہ ان کے شوہر نہ صرف یہ کہ گھر میں بدکلامی کرتے ہیں بلکہ لوگوں کے سامنے بھی ان کی بے عزتی کردیا کرتے ہیں۔

    خاتون کے سوال پر ڈاکٹر عمران نے حیرت انگیز انکشاف کیا کہ اس قسم کے لوگ درحقیقت ذہنی مسائل کا شکار ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بہت سے افراد بچپن میں احساسِ محرومی اور پیار کی کمی کا شکار رہے ہوتے ہیں۔

    ان کی زندگی میں ماضی کی مشکلات کے سبب پیدا ہونے والا یہ خلا ان افراد کو مجبور کرتا ہے کہ وہ اپنا رویہ خراب کریں ، بدکلامی کریں اور اپنے زیر اثر افراد پر اپنی فرسٹریشن نکالیں۔

    ڈاکٹر عمران کا کہنا تھا کہ اس مسئلے کا حل آسان بھی ہے اور مشکل بھی ، سب سے پہلے تو متاثرہ فریق کو یہ سمجھنا ہوگا کہ اس کے مدمقابل جو شخص ہے اسے کچھ نفسیاتی مسائل درپیش ہیں جن کا تدارک بے حد ضروری ہے ۔ اگر ان مسائل کو حل کرلیا جائے تو زندگی خوش گوار ہوسکتی ہے۔

    انہوں نے مشورہ دیا کہ اس معاملے میں متاثرہ فریق یعنی خاتون کچھ عرصہ اپنے صبر کے دامن کو مزید وسیع کرکے اپنے شوہر کو وقت دینا شروع کریں ۔ ان کے اعمال کی حد سے زیادہ تعریف شروع کردیں۔ ان کے ہر اچھے برے ، چھوٹے اور بڑے عمل کو سراہیں اور ان کو کسی حد تک سر پر بٹھا لیں۔

    احساسِ کمتری کا مارا ہو ا شخص جب دیکھے گا کہ اسے توجہ کا مرکز بنایا جارہا ہے تو رفتہ رفتہ آپ اس کے رویے میں تبدیلی دیکھیں گے اور وہ حد سے زیادہ تعریف جو اسے آپ کے ذریعے مل رہی ہے ، اس سے ہاتھ دھونے کے خوف کے سبب اپنے رویے کی اصلاح کرنا شروع کردے گا۔


    یہ ویڈیو اور تحریر مفادِ عامہ کے لیے شیئر کی جارہی ہے تاہم نفسیاتی مسائل میں کوئی بھی طریقہ حتمی نہیں ہوتا۔

  • تازہ پھل اور سبزیاں کھانے سے دو ہفتوں میں نفسیاتی امراض سے چھٹکارا

    تازہ پھل اور سبزیاں کھانے سے دو ہفتوں میں نفسیاتی امراض سے چھٹکارا

    نیوزی لینڈ: تازہ پھلوں اور سبزیوں کے فوائد سے انکار تو کسی کو نہیں ہے تاہم اب ایک تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ان کے کھانے سے دو ہفتوں میں نفسیاتی امراض سے بھی چھٹکارا ممکن ہے۔

    تفصیلات کے مطابق تحقیق میں کہا گیا ہے کہ تازہ پھل اور سبزیاں کھائیں اور جسمانی اور نفسیاتی امراض سے چھٹکارا پائیں، یہ تحقیق نیوزی لینڈ میں سامنے آئی ہے۔

    [bs-quote quote=”سبزیاں اور پھل کھانے والے افراد کے رحجان اور سرگرمیوں میں نمایاں مثبت تبدیلی نظر آتی ہے۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″ author_job=”تحقیق”][/bs-quote]

    تازہ تحقیق کہا گیا ہے کہ تازہ پھلوں اور سبزیوں کا استعمال انسان کو کئی نفیساتی امراض سے دور کر کے چاق و چوبند رکھتا ہے۔

    نیوزی لینڈ کی یونی ورسٹی آف اوٹاگو کے پروفیسرز کا کہنا ہے کہ صرف چودہ دنوں میں سبزیاں اور پھل کھانے والے افراد کے رحجان اور سرگرمیوں میں نمایاں مثبت تبدیلی نظر آتی ہے۔

    تحقیق سے ظاہر ہوا ہے کہ پھل اور سبزیاں نفسیاتی صحت پر بھی فوری طور پر اثر انداز ہوتی ہیں، پھل اور سبزیوں کا استعمال جسمانی امراض سے بھی دور رکھتا ہے اور انسان کو کئی نفسیاتی امراض سے بھی بچانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔


    یہ بھی پڑھیں:  پاکستان میں پائے جانے والے عام ذہنی امراض


    یاد رہے کہ ڈاکٹر ہمیشہ مشورہ دیتے ہیں کہ گہری رنگت کے پتوں والی سبزیاں‘ گاجر‘ کھیرے‘ سیب‘ کیوی‘ کیلے‘ تازہ بیریاں اور ترش پھل زیادہ کھائے جائیں جن کے بے تحاشا فوائد ہیں۔

  • پاکستان میں پائے جانے والے عام ذہنی امراض

    پاکستان میں پائے جانے والے عام ذہنی امراض

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں اس وقت دماغی امراض کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق دماغی امراض کی سب سے عام قسم ڈپریشن ہے جو دنیا بھر میں 30 کروڑ افراد کو اپنا نشانہ بنائے ہوئے ہے۔

    تاہم اس مرض کے علاوہ بھی ذہنی امراض کی کئی اقسام ہیں جو تیزی سے پھیل رہی ہیں۔

    پاکستان میں بھی پریشان کن حالات، غربت، بے روزگاری، دہشت گردی، امن و امان کا مسئلہ، مہنگائی، اور اس جیسے کئی مسائل لوگوں کو مختلف ذہنی پیچیدگیوں میں مبتلا کر رہے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق اگر ابتدا میں ہی ذہنی و نفسیاتی امراض کی تشخیص کر کے ان کا مناسب علاج کیا جائے تو ان پر قابو پایا جاسکتا ہے بصورت دیگر یہ خطرناک صورت اختیار کرسکتے ہیں۔

    آج ہم جائزہ لے رہے ہیں کہ پاکستان میں وہ کون سے عام ذہنی امراض ہیں جو تیزی کے ساتھ ہمیں اپنا نشانہ بنا رہے ہیں۔


    ڈپریشن

    ڈپریشن ایک ایسا مرض ہے جو ابتدا میں موڈ میں غیر متوقع تبدیلیاں پیدا کرتا ہے۔ بعد ازاں یہ جسمانی و ذہنی طور پر شدید طور پر متاثر کرتا ہے۔

    علامات

    ڈپریشن کی عام علامات یہ ہیں۔

    مزاج میں تبدیلی ہونا جیسے اداسی، مایوسی، غصہ، چڑچڑاہٹ، بے زاری، عدم توجہی وغیرہ

    منفی خیالات کا دماغ پر حاوی ہوجانا

    ڈپریشن شدید ہونے کی صورت میں خودکش خیالات بھی آنے لگتے ہیں اور مریض اپنی زندگی کے خاتمے کے بارے میں سوچتا ہے۔

    موڈ میں تبدیلیاں لانے والے ایک اور مرض بائی پولر ڈس آرڈر کے پھیلاؤ میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔

    مزید پڑھیں: ڈپریشن کی علامات اور سدباب جانیں


    اینگزائٹی یا پینک

    اینگزائٹی یعنی بے چینی اور پینک یعنی خوف اس وقت ذہنی امراض کی فہرست میں ڈپریشن کے بعد دوسرا بڑا مسئلہ ہے۔

    اس ڈس آرڈر کا تعلق ڈپریشن سے بھی جڑا ہوا ہے اور یہ یا تو ڈپریشن کے باعث پیدا ہوتا ہے، یا پھر ڈپریشن کو جنم دیتا ہے۔

    علامات

    اس مرض کی علامات یہ ہیں۔

    بغیر کسی سبب کے گھبراہٹ یا بے چینی

    کسی بھی قسم کا شدید خوف

    خوف کے باعث ٹھنڈے پسینے آنا، دل کی دھڑکن بڑھ جانا، چکر آنا وغیرہ

    بغیر کسی طبی وجہ کے درد یا الرجی ہونا

    اینگزائٹی بعض اوقات شدید قسم کے منفی خیالات کے باعث بھی پیدا ہوتی ہے اور منفی خیالات آنا بذات خود ایک ذہنی پیچیدگی ہے۔

    مزید پڑھیں: اینگزائٹی سے بچنے کے لیے یہ عادات اپنائیں


    کنورزن ڈس آرڈر

    دماغی امراض کی ایک اور قسم کنورزن ڈس آرڈر ہے جس میں مختلف طبی مسائل نہایت شدید معلوم ہوتے ہیں۔

    مثال کے طور پر اگر آپ کے پاؤں میں چوٹ لگی ہے تو آپ سمجھیں گے یہ چوٹ بہت شدید ہے اور اس کی وجہ سے آپ کا پاؤں مفلوج ہوگیا ہے۔

    یہ سوچ اس قدر حاوی ہوجائے گی کہ جب آپ اپنا پاؤں اٹھانے کی کوشش کریں گے تو آپ اس میں ناکام ہوجائیں گے اور پاؤں کو حرکت نہیں دے سکیں گے، کیونکہ یہ آپ کا دماغ ہے جو آپ کے پاؤں کو حرکت نہیں دے رہا۔

    مزید پڑھیں: دماغی امراض کے بارے میں مفروضات اور ان کی حقیقت

    لیکن جب آپ ڈاکٹر کے پاس جائیں گے تو آپ کو علم ہوگا کہ آپ کے پاؤں کو لگنے والی چوٹ ہرگز اتنی نہیں تھی جو آپ کو مفلوج کرسکتی۔ ڈاکٹر آپ کو چند ایک ورزشیں کروائے گا جس کے بعد آپ کا پاؤں پھر سے پہلے کی طرح معمول کے مطابق کام کرے گا۔

    اس ڈس آرڈر کا شکار افراد کو مختلف جسمانی درد اور تکالیف محسوس ہوتی ہیں۔ ایسا نہیں کہ وہ تکلیف اپنا وجود نہیں رکھتی، لیکن دراصل یہ مریض کے دماغ کی پیدا کردہ تکلیف ہوتی ہے جو ختم بھی خیال کو تبدیل کرنے کے بعد ہوتی ہے۔


    خیالی تصورات

    ذہنی امراض کی ایک اور قسم خیالی چیزوں اور واقعات کو محسوس کرنا ہے جسے سائیکوٹک ڈس آرڈر کہا جاتا ہے۔

    اس میں مریض ایسے غیر حقیقی واقعات کو ہوتا محسوس کرتا ہے جن کا حقیقت میں کوئی وجود نہیں ہوتا۔ اس مرض کا شکار افراد کو غیر حقیقی اشیا سنائی اور دکھائی دیتی ہیں۔

    اسی طرح ان کے خیالات بھی نہایت نا معقول قسم کے ہوجاتے ہیں جن کا حقیقی دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔


    اوبسیسو کمپلزو ڈس

    او سی ڈی کے نام سے جانا جانے والا یہ مرض کسی ایک خیال یا کام کی طرف بار بار متوجہ ہونا ہے۔

    اس مرض کا شکار افراد بار بار ہاتھ دھونے، دروازوں کے لاک چیک کرنے یا اس قسم کا کوئی دوسرا کام شدت سے کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔

    بعض بین الاقوامی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی اس دماغی عارضے کا شکار ہیں اور اس کا ثبوت ان کا اپنی میز پر بیٹھتے ہی اپنے سامنے رکھی چیزوں کو دور ہٹا دینا ہے۔

  • اینگزائٹی سے بچنے کے لیے یہ عادات اپنائیں

    اینگزائٹی سے بچنے کے لیے یہ عادات اپنائیں

    آج کل کی مصروف زندگی میں، جب ہر شخص خوب سے خوب تر کی تلاش میں ہے، اور اپنے ساتھ موجود افراد سے آگے نکلنے کی دوڑ میں ہے، مختلف ذہنی ونفسیاتی مسائل عام ہوگئے ہیں جن میں ڈپریشن اور اینگزائٹی سرفہرست ہیں۔

    اینگزائٹی یا بے چینی دراصل ایک کیفیت کا نام ہے جو گھبراہٹ، بہت زیادہ خوف اور ذہنی دباؤ کا سبب بنتا ہے۔ ان تمام مسائل کو اینگزائٹی ڈس آرڈر کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ ایک عام ذہنی مرض ہے اور دنیا بھر میں ہر 100 میں سے 4 افراد اس مرض کا شکار ہوتے ہیں۔

    صرف امریکا میں 4 کروڑ بالغ افراد اس مرض کا شکار ہیں۔

    مزید پڑھیں: خواتین بے چینی کا شکار کیوں ہوتی ہیں؟

    اینگزائٹی کے مرض میں مبتلا افراد کام کی طرف توجہ نہیں دے پاتے اور ان کی تخلیقی صلاحیتیں بھی متاثر ہوتی ہیں۔

    ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ اینگزائٹی کو کم کرنے کا حل یہ ہے کہ آپ ایسے کام کریں جس سے آپ کو خوشی اور طمانیت کا احساس ہو۔

    اس سلسلے میں یہ عادات اینگزائٹی کو ختم یا کم کرنے میں نہایت معاون ثابت ہوسکتی ہیں۔

    سوشل میڈیا کو ختم کریں

    social-media

    زیادہ تر ذہنی و نفسیاتی مسائل کو ختم کرنے کے لیے سب سے پہلا قدم سوشل میڈیا کا استعمال کم کرنا ہے۔

    ایک حالیہ تحقیق کے مطابق سماجی رابطوں کی ویب سائٹ فیس بک، ٹوئٹر یا انسٹا گرام کا حد سے زیادہ استعمال آپ کو تنہا اور غیر مطمئن بنا دیتا ہے۔

    بے چینی یا ڈپریشن کا شکار ہونے کی صورت میں سب سے پہلے سوشل میڈیا پر گزارے جانے والے وقت کو کم سے کم کریں۔ یہ عادت دراصل آپ کی لاعلمی میں آپ میں مختلف نفسیاتی و دماغی پیچیدگیوں کو جنم دیتی ہے۔

    تخلیقی کام کریں

    colours

    ماہرین کا کہنا ہے کہ بے چینی سے چھٹکارہ پانے کے لیے کسی تخلیقی کام سے مدد لیں اور اس کے لیے سب سے بہترین اور آسان حل تصویر کشی کرنا یا لکھنا ہے۔

    ماہرین کے مطابق رنگوں کو استعمال کرتے ہوئے مختلف تصاویر بنانا آپ کے ذہنی دباؤ کو کم کرتا ہے اور آپ پرسکون ہوجاتے ہیں۔ رنگ دراصل ہمارے اندر منفی جذبات کے بہاؤ کو کم کرتے ہیں اور ہمارے اندر خوش کن احساسات جگاتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: رنگوں کے ذریعے ذہنی کیفیات میں خوشگوار تبدیلی

    اسی طرح اگر آپ اپنے ذہن میں آنے والے ہر قسم کے خیالات کو لکھ لیں گے تب بھی آپ کا ذہن ہلکا پھلکا ہوجائے گا اور آپ خود کو خاصی حد تک مطمئن محسوس کریں گے۔

    گھر سے باہر وقت گزاریں

    nature

    گھر سے باہر وقت گزارنے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ پرہجوم سڑکوں پر چہل قدمی کریں۔ یہ عمل آپ کی بے چینی اور ذہنی دباؤ میں اضافہ کردے گا۔

    اس کے برعکس کسی پرسکون جگہ، کھلی ہوا میں یا فطرت کے قریب وقت گزاریں۔

    مزید پڑھیں: فطرت کے قریب وقت گزارنا بے شمار فوائد کا باعث

    کھلی ہوا میں، سمندر کے قریب، ہلکی دھوپ میں، اور جنگل یا درختوں کے درمیان گزارا گیا وقت فوری طور پر آپ کے اندر موجود مایوسانہ اور منفی جذبات کو ختم کردے گا اور آپ خود میں ایک نئی توانائی محسوس کریں گے۔

    دلچسپ ٹی وی پروگرام یا کتاب

    tv

    بے چینی کو کم کرنے کے لیے کوئی دلچسپ ٹی وی شو یا دلچسپ کتاب بھی پڑھی جاسکتی ہے۔ لیکن یہ ٹی وی پروگرام یا کتاب بوجھل اور دقیق نہ ہو بلکہ ہلکا پھلکا یا ترجیحاً مزاحیہ ہو۔

    مزید پڑھیں: کیا آپ ہنسنے کے فوائد جانتے ہیں؟

    مزاحیہ پروگرام دیکھنے یا پڑھنے کے دوران قہقہہ لگانے اور ہنسنے سے آپ کا ذہنی دباؤ خاصا کم ہوجائے گا اور آپ خود کو پرسکون محسوس کریں گے۔

    ورزش کریں

    exercise

    ورزش نہ صرف جسمانی بلکہ دماغی طور پر بھی فائدہ پہنچاتی ہے۔ دماغ کو پرسکون بنانے والی ورزشیں جیسے مراقبہ یا یوگا تو اینگزائٹی کے خاتمے کے لیے فائدہ مند ہیں ہی، ساتھ ساتھ جسمانی ورزشیں بھی آپ کے دماغ کو پرسکون بنانے میں مدد دیں گی۔

    مزید پڑھیں: ورزش کرنے کے چند دلچسپ طریقے

    جسمانی ورزش آپ کو جسمانی طور پر تھکا دے گی جس کے بعد آپ کو نیند کی ضرورت ہوگی اور یوں آپ کا دماغ بھی پرسکون ہوگا۔

  • حلب میں جنگ سے متاثر بچے نفسیاتی پیچیدگیوں کا شکار

    حلب میں جنگ سے متاثر بچے نفسیاتی پیچیدگیوں کا شکار

    حلب: اقوام متحدہ کے ادارہ اطفال یونیسف کا کہنا ہے کہ شام کے جنگ زدہ شہر حلب میں خوفناک بربادی و تباہی دیکھنے والے بچے شدید صدمے اور نفسیاتی مسائل کا شکار ہو رہے ہیں۔

    حلب میں یونیسف کے فیلڈ آفس کے نگران رڈوسلا رزاک کا کہنا ہے کہ حلب میں تمام بچے اس سے متاثر ہیں اور تمام ہی بچے صدموں اور مختلف نفسیاتی پیچیدگیوں کا شکار ہو رہے ہیں۔

    رزاک گزشتہ 15 سال سے یونیسف کے لیے حلب میں کام کر رہے ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے بچوں کی نفسیات میں یہ ڈرامائی اور پریشان کن تبدیلیاں پہلی بار دیکھی ہیں۔

    child-2

    اقوام متحدہ کے مطابق گزشتہ 5 سال سے جاری شامی خانہ جنگی سے اب تک 8 ہزار سے زائد بچے متاثر ہوچکے ہیں۔ سینکڑوں بچے جنگ کے دوران مارے گئے، کئی ایسے ہیں جو اپنے والدین کے ساتھ قیدی بنا لیے گئے اور قید خانوں میں انہوں نے سخت اذیتیں سہیں۔

    یونیسف اہلکار رزاک کا کہنا ہے کہ حلب میں نصف سے زائد بچوں کو نفسیاتی علاج اور جذباتی سہارے کی ضرورت ہے، ان میں سے بڑی تعداد ایسے بچوں کی ہے جنہیں طویل عرصہ تک ماہرین کی زیر نگرانی طبی و نفسیاتی علاج چاہیئے۔

    :دوران جنگ پیدا ہونے والے بچے

    یونیسف کے مطابق حلب میں بہت سے بچے ایسے ہیں جو جنگ شروع ہونے کے بعد پیدا ہوئے۔ ان کی عمریں اب 1 سے 5 سال کے درمیان ہیں اور اس مختصر زندگی میں انہوں نے سوائے خون خرابے اور بمباری کے کچھ نہیں دیکھا۔ ’اس نے ان کی نفسیات کو مکمل طور پر تبدیل کردیا ہے‘۔

    رزاک نے بتایا کہ ان بچوں کے لیے یہ ایک معمول کی سی بات بن گئی ہے کہ وہ کئی دن تک بھوکے رہیں، بمباری ہو تو اپنی جان بچانے کے لیے بھاگیں یا اپنے والدین کے ساتھ زیر زمین بنکرز میں جا چھپیں۔ ’یہ ان کے لیے کوئی خطرے والی بات نہیں۔ یہ ان کے لیے روزمرہ کی معمول کی زندگی ہے‘۔

    مزید پڑھیں: شامی بچوں کے لیے مسکراہٹ لانے والا ٹوائے اسمگلر

    مزید پڑھیں: پناہ گزین بچوں کے خواب

    رزاک کا کہنا ہے کہ وہ اس بات کے بھی عادی نہیں کہ ان کے والدین کو ان کی حفاظت کرنی ہے۔ کیونکہ بمباری کے وقت ان کے والدین خود اپنی جانیں بچانے کی جدوجہد کرتے ہیں، علاوہ ازیں وہ خود اپنے لیے بھوک پیاس اور مختلف نفسیاتی مسائل سے برسر پیکار ہیں۔

    واضح رہے کہ مارچ 2011 سے شروع ہونے والی شام کی اس خانہ جنگی میں اب تک 3 لاکھ سے زائد افراد مارے جاچکے ہیں جبکہ لاکھوں ایسے ہیں جو شام سے ہجرت کر چکے ہیں اور مہاجرین کیمپوں میں رہائش پذیر ہیں یا پناہ کی تلاش میں تا حال دربدر پھر رہے ہیں۔