Tag: نفسیاتی صحت

  • ملک کی 24 فیصد آبادی کو نفسیاتی صحت کے مسائل باعث تشویش ہیں: صدر مملکت

    ملک کی 24 فیصد آبادی کو نفسیاتی صحت کے مسائل باعث تشویش ہیں: صدر مملکت

    اسلام آباد: صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کا کہنا ہے کہ پاکستان کی 24 فیصد آبادی کو نفسیاتی صحت کے مسائل ہونا باعث تشویش ہے، مینٹل ہیلتھ پروفیشنلز کو استعداد کار میں اضافے کے لیے تربیت دینا ہوگی۔

    تفصیلات کے مطابق صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی زیر صدارت نفسیاتی صحت کے حوالے سے اجلاس منعقد ہوا۔

    اجلاس میں صدر پاکستانی امریکن سائیکٹرک ایسوسی ایشن، قومی کمیشن انسانی حقوق، عالمی ادارہ صحت کے نمائندوں، پاکستان سائیکٹری سوسائٹی، وزارت صحت اور نفسیاتی صحت کے ماہرین نے شرکت کی۔

    اجلاس میں صدر مملکت نے ذہنی صحت کے علاج اور روک تھام کے لیے اسٹیک ہولڈرز کی کوششوں کی ضرورت پر زور دیا۔

    صدر مملکت نے کہا کہ پاکستان کی 24 فیصد آبادی کو نفسیاتی صحت کے مسائل ہونا باعث تشویش ہے، نفسیاتی صحت کے مسائل سے نمٹنے کے لیے صرف 5 سے 6 سو ماہرین نفسیات ہیں۔

    انہوں نے ذہنی صحت کے پروفیشنلز کی تعداد میں اضافے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہیلتھ پروفیشنلز کو استعداد کار میں اضافے کے لیے تربیت دینا ہوگی۔

    اجلاس کے شرکا نے نفسیاتی صحت کے مسائل سے نمٹنے کے لیے مختلف تجاویز دیں۔

  • لاک ڈاؤن میں بچوں کی نفسیاتی صحت اور مصروفیات کا کیسے خیال رکھا جائے؟

    لاک ڈاؤن میں بچوں کی نفسیاتی صحت اور مصروفیات کا کیسے خیال رکھا جائے؟

    کرونا وائرس کی وبا کے دوران تمام بیرونی سرگرمیاں بند ہوجانے سے بچے آج کل گھروں پر ہیں اور ان کے والدین کو ان سے کافی شکایات ہیں، اہم یہ ہے کہ بچوں کے غصے کو کنٹرول اور ان کی ذہنی صحت کا خیال کیسے رکھا جائے۔

    اے آر وائی نیوز کے مارننگ شو باخبر سویرا میں کلینیکل سائیکالوجسٹ حنا حمید شریک ہوئیں اور بچوں کی جارح مزاجی کو کنٹرول کرنے کے طریقے بتائے۔

    انہوں نے بتایا کہ وبا کی وجہ سے بچوں کی روٹین بے حد ڈسٹرب ہوئی ہے جس سے وہ غصیلے اور چڑچڑے ہوگئے ہیں۔

    حنا کا کہنا تھا کہ والدین کو چاہیئے کہ بچوں کا ایک شیڈول بنائیں جس میں پڑھائی، کھیل، کمپیوٹر / موبائل / ٹی وی کا استعمال، باہر جانا اور تخلیقی سرگرمیاں سب ہی کچھ شامل ہوں۔

    انہوں نے کہا کہ والدین کی تربیت کا سب سے خطرناک انداز اتھارٹی والا ہوتا ہے جس میں وہ بچوں کو مکمل طور پر اپنے کنٹرول میں رکھنا چاہتے ہیں، اور بچوں کی جذباتی و نفسیاتی ضروریات کو بالکل نظر انداز کردیتے ہیں۔

    ایسے بچوں کے اندر نظر انداز کا احساس اجاگر ہوتا ہے، وہ والدین سے دور ہوجاتے ہیں اور جذباتی طور پر کہیں اور منسلک ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ انداز تربیت انتہائی خطرناک ہے۔

    اسی طرح بعض اوقات بہن بھائیوں میں آپس میں حسد و رقابت کا جذبہ بھی پروان چڑھتا ہے جس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ والدین ایک بچے کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔

    حنا کا کہنا تھا کہ جب بھی بہن بھائی آپس میں لڑیں تو والدین کسی ایک کی طرفداری کرنے کے بجائے دونوں کو بٹھا کر نرمی سے سوال و جواب کریں کہ کون صحیح ہے اور کون غلط، یہ طریقہ بچوں میں صحت مند مقابلے کا رجحان پروان چڑھائے گا۔